1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اب تو آرام سے گزرتی ہے روح اقبال سے معذرت کے ساتھ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از شہزادہ, ‏1 جون 2006۔

  1. شہزادہ
    آف لائن

    شہزادہ ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اب تو آرام سے گزرتی ہے روح اقبال

    Date: Thursday, June 01, 2006 روزنامہ جنگ
    اقبال مرحوم کی بہت سی تعلیمات بھی ”مرحوم “ہو چکی ہیں۔ مثلاً یقین، عمل، خودی، انا، غیرت، تسخیر کائنات وغیرہ! غیرت کے متعلق تو اقبال نے کہا تھا: غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا اور یوں دوسرے بہت سے مقامات کے علاوہ اقبال سے یہاں بھی غلطی ہوگئی اب سروں پر تاج غیرت کی بنیاد پر نہیں پہنائے جاتے بلکہ اس سے پہلے سر کو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھا جاتا ہے کہ کہیں اس میں غیرت کا سودا تو نہیں سمایا ہوا؟ اگر اس میں سے تولہ بھر غیرت بھی برآمد ہوجائے تو ”امیدوار“ کے سارے نمبر کاٹ لئے جاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ اس کے سر کے لئے کانٹوں کا تاج تجویز کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان دنوں بازار میں غیرت کا بہت مندا ہے بلکہ صورتحال تو کچھ یوں ہے کہ سمجھدار لوگ اس شخص کے قریب سے کنی کترا کر گزر جاتے ہیں جس کے متعلق شبہ ہو کہ اس میں غیرت کی کوئی رمق موجود ہے۔ گزشتہ ہفتے میں اسلام آباد میں تھا، وہاں میری ملاقات ایک ”صاحب“ بلکہ صاحب بہادر سے ہوئی۔ انہوں نے غالباً گرمی سے بچنے کے لئے سر پر فیلٹ ہیٹ پہنا ہوا تھا، ان کے ہاتھ میں پائپ اور منہ میں انگریزی تھی موصوف تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے اور عہدے کے لحاظ سے ترقی کی کئی منزلیں طے کر چکے تھے، میں نے ان سے ان کی ترقی کا راز پوچھا تو بولے ”یہ سب اقبال کی تعلیمات پر عمل کرنے کا فیض ہے“ میں یہ سن کر بہت حیران ہوا اور پوچھا ”وہ کیسے“؟ فرمایا ”اقبال نے ایک جگہ کہا ہے: خوشامد ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا چنانچہ میں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور آج میرے سر پر تاج ہے “میں نے کہا ”جناب آپ کو غلطی لگی ہے اقبال نے اپنے شعر میں خوشامد نہیں، غیرت کی بات کی ہے۔ ”خوشامد“ سے توویسے بھی شعر کا وزن خراب ہو جاتا ہے ”بولے“ مجھے تو یہی بتایا گیا تھا کہ اس شعر میں اصل لفظ خوشامد ہے، غیر حقیقت پسند لوگوں نے اسے بدل کر غیرت کر دیا ہے ویسے خوشامد کے لفظ سے اگر شعر کے وزن پر زد پڑتی ہے تو غیرت سے کرسی خطرے میں پڑ جاتی ہے لہٰذا آپ براہ کرم میری یا شعر کی اصلاح کی کوشش نہ کریں“۔ مجھے اس وقت صاحب بہادر کی بات اچھی نہ لگی مگر بعد میں ، میں نے غور کیا تو مجھے اپنی اور اقبال کی غلطی کا احساس ہوا۔ غیرت کیا ہے محض لوگوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا ایک حربہ ہے، اس کے برعکس خوشامد وہ اسم اعظم ہے جس سے ترقی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں، خوشامد خواہ ملکی حکمرانوں کی ہو یا غیرملکی حکمرانوں کی، یہ انسان کی وہ خفیہ قوتیں بیدار کرتی ہے جن کے فوائد کا اسے علم ہی نہیں ہوتا، مثلاً اس کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اس کے ذریعے جہاں ترقی کے زینے طے کر سکتے ہیں وہاں اپنے بدترین دشمن کا قلع قمع بھی اس کی خوشامد کے ذریعے کرسکتے ہیں، یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے میں نے اپنے ایک دشمن کو جس کی ناک ٹیڑھی، آنکھیں بٹن جتنی رنگ تارکول سے ملتا تھا، یہ یقین دلا دیا کہ روئے ارض پر اس سے حسیں شخص آج تک پیدا نہیں ہوا اور حسینان جہاں اس پر مرتے ہیں جس کی اسے خبر ہی نہیں ہے، اس نے پوچھا ”نسرین بھی مرتی ہے“ میں نے کہا ”ہاں وہ تو تمہارے فراق میں دن رات آہیں بھرتی ہے مگر اسے جرات نہیں ہوتی کہ وہ تم سے حال دل کہے۔ تمہارا رعب حسن اس حال دل میں رکاوٹ ہے“ اس پر یہ ”خوبرو“ نوجوان اگلے ہی روز اپنے اس کشتہ ٴ حسن کی خدمت میں حاضر ہوا اور کھل کر اظہار عشق فرمایا۔ چنانچہ یہ جو اس کی ٹانگ اور بازو کا فریکچر ہے وہ اس واقعہ کے بعد کا ہے۔ یہ جو خوشامد ہے اس سے دشمن ہی کا نہیں ”دوستوں“ کا بھی قلع قمع کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو وہ ہتھیار ہے جو سپرپاور بھی اپنے ”دوست“ کو نیچے لگانے، اس سے اپنے سارے مقاصد پورے کرانے اور پھر اس کے بعد ڈسپوزیبل اشیا کی طرح کوڑے کے ڈبے میں پھینکنے کے لئے استعمال کرتی ہے، دنیا کے کئی پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کے حکمران سپرپاور سے اپنے ملک کی بجائے اپنی تعریف سن کر اس وقت تک خوش ہوتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتے۔ خوشامد اگر تخت تک پہنچاتی ہے تو یہ اپنے وصول کنندہ کو تختہ دار تک بھی لے جاتی ہے ۔ تاہم اس گفتگو کا یہ مطلب نہیں کہ خوشامد سے بچا جائے کیونکہ اس سے بہرحال بہت سے وقتی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں بچنے کی اگر کوئی چیز ہے تو وہ غیرت ہے جس پر اقبال ایسا غیر حقیقت پسند شاعر اپنی شاعری میں زور دیتا چلا آیا ہے کیونکہ غیرت میں جاں کا زیاں ہوتا ہے اس غیرت نے ٹیپو سلطان کو کیا دیا، اچھی خاصی حکومت کے مزے لوٹ رہا تھا، غیرت کا سودا سرمیں سمایا اور انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا، یہ افغانی، یہ کشمیری، یہ عراقی، یہ فلسطینی ایک نکی جئی ہاں کہہ کر اپنے جسم سلامت رکھ سکتے ہیں مگر ان نادانوں کے سروں میں بھی غیرت کا کیڑا سلگتا رہتا ہے اور یہ اپنے سروں پر کفن باندھ کر گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں، ان سے پہلے ویت نامیوں نے، ایرانوں نے، چینیوں نے، فرانسیسیوں نے، روسیوں نے اور دوسری بہت سی قوم کے سر پھروں نے بادشاہوں کو ان کے پرتعیش محلات سے نکال باہر کیا اور یہ نہیں سوچا کہ وہ اپنے کل کے لئے اپنا آج برباد کر رہے ہیں۔ تاہم خدا کا شکر ہے کہ نائن الیون کے بعد سے اس سوچ کے مضر اثرات پر بہت کام ہو رہا ہے اور لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول ہی ٹھیک ہے۔ اس اصول کے مطابق اگر جنگلوں کا نظام پوری کامیابی سے چل رہا ہے تو شہروں میں کامیابی سے کیوں نہیں اپنایا جا سکتا؟ سو برادران وطن و خواہران وطن سے میری درخواست ہے کہ وہ چھوٹے موٹے مفادات کے لئے جہاں خوشامد ایسے مجرب نسخے کو بروئے کار لائیں وہاں مفادات کے فل پیکیج اور اپنی ستر، اسی سالہ زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے غیرت وغیرہ کے چکر میں کبھی نہ پڑھیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان دنوں نصاب میں جو تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، ان میں کچھ مزید تبدیلیوں کے لئے بھرپور جدوجہد کریں، مثلا اقبال کی شاعری کو نصاب میں سے آؤٹ کرائیں، ڈکشنری میں سے غیرت کا لفظ خارج کرائیں اور اس طرح کے مقولوں کے خلاف آواز اٹھائیں جن کے مطابق شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے، کیونکہ اس طرح کے گمراہ کن مقولوں کی تشکیل کے وقت گیدڑوں سے ان کی رائے نہیں لی گئی مجھے امید ہے ان لائنوں پرکام کرنے سے ہم مغرب کے لئے قابل قبول ہو جائیں گے اور اگر نہ بھی ہوئے تو بھی ایسے مواقع پر اس شاعر کی شاعری سے ہمیں حوصلہ ملے گا جس نے: اب تو آرام سے گزرتی ہے عاقبت کی خبر خدا جانے کہہ کرہمارے دلوں کی ترجمانی کا فریضہ بہت پہلے ادا کر دیا تھا۔
     
  2. شہزادی
    آف لائن

    شہزادی ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    155
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ھم نے اقبال کا کہا مانا اور فا قو ں کے ہاتھ مرتے رہے
    جھکنےوالوں نےرفعتیں پایئں ھم خودی کوبلندکرتےرہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں