1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ابو یحییٰ کے داعیانہ فتوے: " مریضانہ سوچ"، "پست" اور"سگِ دنیا"!

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏7 دسمبر 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    ابو یحییٰ کے داعیانہ فتوے: " مریضانہ سوچ"، "پست" اور"سگِ دنیا"!

    قرآن مجید کی رُو سے اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے، کہ لوگ وہ بات کہیں جو وہ کرتے نہیں: لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ
    (سورہ صف، آیت ۲)۔

    یعنی دعوے پارسائی کے اور عمل مکروہ! لوگوں کو نصیحت،اور خود میاں فضیحت! جب استعمار کے دور میں مسلمانوں میں غلامی ایک اعزاز کی شے بنی، تو بہت سے لوگوں نے مسلمانی کو اور استعمار کو ساتھ ساتھ نبھانے کی کوشش کی، جس سے علم و عمل کی دوئی نے جنم لیا، جس کی سادہ ترین شکل قول و عمل کا تضاد ہے۔ یہ بیماری آج بھی ہمارے اس طبقے میں موجود ہے جو استعمار کی باقیات کو گلے سے لگائے بیٹھا ہے۔

    ابویحییٰ صاحب کا ایک مضمون "مریضانہ سوچ" کے عنوان سے دلیل میں شائع ہوا ہے۔ ابویحییٰ صاحب کا اصل نام ریحان احمد یوسفی ہے، اور وہ غامدی مکتب سے وابستہ ہیں۔ حال ہی میں ملحدوں اور دہریوں کو جنت کی بشارت دینے کی کوشش فرما رہے تھے، جس پر اہلِ علم کی جانب سے سخت گرفت ہوئی۔ اسی نوعیت کی دوسری دینی آراء اُن کی شناخت ہیں، جو اکثر المورد سے سوچے سمجھے بغیر مستعار ہوتی ہیں۔ لیکن جب سے غامدی مکتب کے دینی انحرافات سامنے آئے ہیں، اور وہ اہل علم میں تنقید کا نشانہ بنے ہیں، ریحان یوسفی صاحب نے اپنی کنیت یا قلمی نام – ابو یحییٰ – سے لکھنا شروع کیا ہے۔ نام تو نیا ہے، پر فکر وہی پرانی۔ تحریروں میں بڑی احتیاط کرتے ہیں یعنی کبھی غلطی سے بھی اپنی فرقہ وارانہ وابستگی کا اظہار نہیں ہونے دیتے۔ جس سے سادہ مسلمان ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وہ جاوید غامدی اور وحید الدین خان صاحبان جیسے متجددین کے متبع ہیں۔

    تازہ مضمون میں ایک واعظ کے طور پر امتِ مسلمہ کو سخت ڈانٹ پلائی ہے کہ مسلمان اختلافات کے آداب سے واقف نہیں ہیں، اور رائے میں اختلاف کرنے کے درست طریقے نہیں جانتے، جس کی وجہ سے ماحول مکدر ہو رہا ہے، انتہا پسندی پھیل رہی ہے اور دُکھ کا اظہار کیا ہے کہ نوبت تکفیر تک جا پہنچی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اختلافات کی بنا پر دوسروں کے ایمان کے بخیے ادھیڑے جاتے ہیں، اخلاقی قدر اور شائستگی کی ہر زنجیر توڑ دیتے ہیں، معاشرے میں آوارہ پھرتے ہیں اور اپنا زہر پھیلاتے ہیں، دوسروں کا حقِ اختلاف سلب کرتے ہیں، اور خود کو آخری حق اور دوسروں کو محض باطل سمجھتے ہیں۔ ابو یحییٰ صاحب نے امتِ مسلمہ کی شدید مذمت کرنے کے بعد، آخر میں اختلاف کے اظہار میں شائستگی کی نصیحت فرمائی ہے۔ لیکن اس دوران اپنی دعوت و عظ کے مخاطَب مسلمانوں کو "پست" اور "مریضانہ ذہن کا مالک" قرار دیا ہے۔ ابویحییٰ صاحب کے مضمون میں بالآخر گالیوں تک نوبت جا پہنچی ہے، اور انہوں نے اپنے وعظ و نصیحت کے مخاطَبین کو علی الاطلاق "سگِ آزاد"، یعنی "سٹرے ڈاگ" ہی قرار دے دیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!

    چند باتیں ان کے گوش گزار کرنے کی ہمت کر رہے ہیں، ورنہ ایسے لوگوں سے ڈرتے رہنا چاہیے، کہ کہیں یہ اپنے محبوب القابات کے ساتھ ہماری طرف رخ نہ کر لیں!

    پہلی بات: لوگوں کی تکفیر کا مسئلہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ اگر کسی کے عقائد غلط ہوں، یا وہ قادیانی یا منکر سنت، یا کسی اور گمراہ عقیدے کا حامل ہو، تو اس کی تکفیر کے نتیجے میں معاشرتی تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔ مسلمان عورت اس کے عقد میں نہیں رہ سکتی، اور مسلمان اس کے وارث نہیں ہو سکتے، اور وہ مسجد میں امامت نہیں کرا سکتا، اور پاکستانی آئین کے مطابق سربراہ مملکت بھی نہیں بن سکتا، وغیرہ۔ اس لیے تکفیر کی تحقیق بعض اوقات ضروری ہوتی ہے۔ لیکن یہ تکفیر کسی شخص معین کی ہوتی ہے، یا کسی گروہ کی۔ اس میں بھی حد درجہ احتیاط کی جاتی ہے۔ ابو یحییٰ صاحب تکفیر کے مسئلے پر اس قدر دراز نفسی سے کام لیتے ہیں لیکن اپنے فرقے کے تکفیری کارناموں کا ذکر نہیں کرتے۔ اُن کے اپنے گروہ کے سربراہ جاوید غامدی صاحب نے تو تقریباً تمام امت کی نہ صرف تکفیر کی ہے بلکہ ان پر تکفیر سے بھی اشدّ حکم لگایا ہے۔ انہیں اسلام کے دائرے سے نکال کر کسی اور متوازی دین میں میں داخل کر دیا ہے، جن کی کتاب بھی الگ ہے اور شریعت بھی!
    (دیکھیے ان کی کتاب برہان، اور اس مسئلے پر تنقید کے لیے دیکھیے نادر عقیل انصاری کا مضمون، "مسئلۂ تکفیر")۔

    اگر تکفیر اسی قدر بُری لعنت ہے، تو پوری امت کی تکفیر تو اس سے بھی قبیح شے ہوئی! لیکن ابو یحییٰ صاحب یہاں پُراسرار طور پر خاموش ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کی تو تکفیر کے جرم پر گالیوں سے تواضع کرتے ہیں، لیکن اپنے گروہ کی تعدی پر خاموش رہتے ہیں۔ لم تقولون مالاتفعلون؟

    دوسری بات اختلاف کو برداشت کرنے کی ہے، اور دوسرے کے حق اختلاف کا تقدس ہے، اور اس پر بھی ابو یحییٰ صاحب بہت زور دیتے ہیں، لیکن فقط باتوں میں، عمل میں نہیں۔ لم تقولون ما لا تفعلون کے اصول پر یہاں بھی یہ نہیں بتاتے کہ اکابر صوفیائے کرام نے بھی تو اپنی رائے دے کر یہی حق استعمال کیا تھا، پھر آپ حضرات نے انہیں یک قلم دین کے دائرے سے کیوں نکال دیا؟ (دیکھیے نادر عقیل انصاری صاحب کا مضمون "مسئلۂ تکفیر" جو دلیل میں شائع ہو چکا ہے)۔

    ابو یحییٰ صاحب لکھتے ہیں کہ مریضانہ ذہنیت کے مسلمان سمجھتے ہیں کہ کامل حق ان کے پاس ہے اور دوسرے محض باطل پر ہیں۔ تو جاوید غامدی صاحب بھی تو صوفیائے کرام کے بارے میں یہی فرما رہے ہیں کہ وہ محض باطل پر ہیں! یعنی ابویحییٰ صاحب کی دعوت کا تقاضا تو یہ تھا کہ غامدی صاحب صوفیائے کرام سے اختلاف کرتے، اور ان کی بات کے خلاف دلائل دیتے، اور اس اختلاف کو امت کے اندر اختلاف ہی رہنے دیتے۔ لیکن انہوں نے تو صوفیائے کرام کو یکسر دین کے دائرے سے نکال دیا۔ چونکہ امت کی بھاری اکثریت صوفیائے کرام سے رہنمائی لیتی ہے، لہٰذا امت کی اکثریت اس تکفیری فتوے کی زد میں آ گئی۔ جاوید غامدی صاحب سے قبل یہ کام فقط خوارج نے، اور استعمار کے بعد مرزا قادیانی اور داعش نے کیا ہے۔ اس عظیم حادثے پر بھی ابویحییٰ صاحب ایک حرف بولنے کی جرأت نہیں کرتے۔ گویا وعظ فقط بے چارے مسلمانوں کے لیے ہے، اور اپنے فرقے کے لیے سب کچھ جائز اور حلال ہے؟ دُہرا اخلاقی معیار اور کسے کہتے ہیں؟ لم تقولون ما لا تفعلون؟
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی اصلاح کا جو بوجھ ابویحییٰ صاحب نے خدائی فوجدار کی طرح اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے، اس کے بھی کچھ اخلاقی و دینی اصول ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیم ہے کہ لوگوں سے احسن طریق پر بات کی جائے، اور چونکہ یہ مسلمانوں کا معاملہ ہے تو ان کے ساتھ تو تنابز بالالقاب کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود، بلکہ ان قرآنی تعلیمات کے برخلاف، جب ابویحییٰ صاحب مسلمانوں کی مذمت پر منہ سے جھاگ اڑاتے میدان میں اترتے ہیں، تو انہیں "مریضانہ ذہنیت" کا شکار اور "پست" ہونے کا خطاب دیتے ہیں۔ اس پر بھی تسلی نہیں ہوتی۔ مسلسل وعظ بھی کیے جاتے ہیں، اور بالآخر وہ کام کرتے ہیں جو ہمارے بعض جاہل مضافاتی مولویوں کا افسوس ناک طریقہ ہے: یعنی گالم گلوچ! یہ ہر کم علم واعظ اور خدائی فوجدار کا آخری ہتھیار ہے، جس میں برا بھلا کہنے سے تسلی نہیں ہوتی جب تک مخالف کو کُتے بلیوں کی سطح پر نہ اتارا جائے۔ چنانچہ ابویحییٰ صاحب بھی اپنے وعظ کے سامعین کو "سگِ دنیا" قرار دے کر تسلی پاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی دعوت کا "احسن" طریقہ! ابویحییٰ صاحب کو معلوم ہی ہو گا کہ جب وہ اپنے مخاطَب کے ساتھ یہ زبان استعمال کریں گے تو وہ ان کی نصیحت پر کان کیوں دھرے گا؟ گویا، یہ نصیحت نہیں ہے، بلکہ ابویحییٰ صاحب کا مسلمانوں پر وہ غصہ ہے جس کے اولین علم بردار تو مستشرقین تھے، لیکن اب ہمارے کم سواد واعظین اس کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیمات سے مترشح ہوتا ہے کہ اگر آپ ان غلط کاروں کی اصلاح چاہتے ہیں، تو دردمندی کے ساتھ احسن طریقے پر انہیں سمجھائیں، تنگ نظر اور کم علم واعظ کی طرح انہیں گالیاں نہ دیں۔ داعی کے لیے تو صبر سب سے بڑا اثاثہ ہے، اور غصہ سب سے مہلک بیماری!المیہ یہ ہے کہ ابویحییٰ صاحب دوسرں کو تو نصیحت کر رہے ہیں کہ رائے کے اختلاف پر احسن طریقے سے دعوت و تذکیر کریں، لیکن خود اُن کا داعیانہ "سوز اور اخلاص" کھُلی گالیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے!بتائیے: لم تقولون مالا تفعلون؟

    چوتھی بات تشدد، قتل و غارت، مارا ماری، اور دہشت گردی کی ہے، جو مسلمانوں کے ایک نہایت قلیل مجرم پیشہ گروہ میں پائی جاتی ہے، جس کی تاریخی و سیاسی وجوہ ہیں، اور انہی میں ان کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ لیکن اس قابل مذمت شے پر جب ابو یحییٰ صاحب تقریر فرماتے ہیں، تو زور دیتے ہیں کہ اگر کوئی ہم سے مختلف رائے رکھتا ہے، تو اس سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کی جان کے پیاسے ہو جائیں۔ بالکل درست فرمایا۔ لیکن یہاں بھی وہی دُہرا معیار ہے۔ جب اہل اقتدار لوگوں کی جان لیتے ہیں تو اس پر یہ چپ سادھ لیتے ہیں۔ اہل اقتدار کو نصیحت کرنا، یہ ان کے دین کے دائرے سے باہر کی شے ہے۔ لیکن یہ دُہرا معیار اور بھی مذموم ہو جاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ خود ان کے اُستاد اور فرقے کے بانی، جاوید غامدی صاحب پوری کی پوری آبادیوں کو تحلیل کر دینے کی علی الاعلان ترغیب دلاتے ہیں، لیکن اس پر ابو یحییٰ صاحب دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی مسلمانوں کی ثقافت، اور ان کی معاشرت ان کی رائے پر قائم ہے، اور وہ شہری علاقوں سے مختلف ہے۔ بالخصوص، دین کے معاملے میں روایتی ہے، جسے متجددین سخت ناگواری سے دیکھتے ہیں۔ جاوید غامدی صاحب نے ان کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ پاکستان کے قبائلی مسلمانوں کی قوت توڑنے کی ضرورت ہے، ریاست کے تابع کرنے کی ضرورت ہے، اور انہیں اکثریتی ثقافت میں تحلیل کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز فرمایا کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے، پاکستان کے قبائلی مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو امریکہ میں ریڈ انڈین قبائل کے ساتھ ہُوا، اور آسٹریلیا میں وہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ ہُوا۔ اب ظاہر ہے کہ امریکی اور آسٹریلیائی قبائل کی تاریخ ہمیں معلوم ہے۔ اُن کی باقاعدہ اور منظم طریقے پر نسل کشی کی گئی، جانوروں کی طرح شکار کیا گیا، تب کہیں ان کی قوت ٹوٹی اور وہ امریکی ریاست کے سامنے سرنگوں ہوئے، اور امریکی ثقافت میں تحلیل ہوئے
    (تفصیل کے لیے دیکھیے: نادر عقیل انصاری، "آیۂ فان تبتم فھو خیر لکم"، سہ ماہی "جی"، جلد ۱۱؍۱۲)۔

    مختلف زبان، ثقافت، اور رہن سہن رکھنے والوں کے ساتھ جس خندہ پیشانی سے ایک داعی کو پیش آنا چاہیے، جاوید غامدی صاحب کا رویہ اس کی نہایت قبیح مثال ہے۔ اختلاف کی بنا پر نسل ہی مٹا دینے کا مشورہ دینا تو سفاکی کی حد ہے۔ ابو یحییٰ صاحب دنیا بھر کو تو برداشت، اختلاف میں خندہ پیشانی، اور رواداری کی دعوت دیتے ہیں، تشدد کی مذمت کرتے ہیں، لیکن جاوید غامدی صاحب کے معاملے میں پھر ایک دُہرے معیار کو گلے لگاتے ہیں، اور سانس روک کر چُپ ہوجاتے ہیں۔ لم تقولون مالا تفعلون؟

    ابویحییٰ صاحب پر اُس روایت کا بھی گہرا اثر لگتا ہے جو سر سید سے شروع ہوئی، اور اُن گالیوں کی وجہ سے بدنام ہے جو انہوں نے انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷ء کی جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کو دی تھیں۔ اس کے بعد یہ کام مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا، جس کے ہاں یہ مسئلہ اس قدر شدید ہے کہ بعض اہل علم نے مرزا قادیانی کی کتابوں سے گالیاں جمع کر کے باقاعدہ معجم تیار کر کے شائع کرا دی ہے! زبان کا یہی ابتذال دیگر منکرینِ حدیث کے ہاں ملتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کی مذمت کر کے مزے لینا، اور اپنے علاوہ تمام امت کو بری طرح کوسنا، یہ خاص طور پر وحید الدین خان صاحب کا میدان ہے، جن سے ابو یحییٰ صاحب خصوصی عقیدت رکھتے ہیں، اور ان کے جانشین بننے جا رہے ہیں۔ ابویحییٰ صاحب کے وعظ میں بھی یہ سب علتیں موجود ہیں۔ وہ بھی اپنی دعوت کے مخاطبین کو ذہنی مریض اور کُتا بلی قرار دینے سے باز نہیں آتے۔ اُن کے وعظ کی ایک ظاہری شکل ہے۔ وعظ کا یہ ماڈل بظاہر روایتی اور پرانا لگتا ہے، لیکن بغور دیکھیں تو یہ جری واعظ وحید الدین خان کے متجددانہ نظریات کا دیوانہ لگتا ہے! اس تجدد کی چند خصوصیات ہیں:


    مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں میں پائی جانے والی خرابیوں کی تعمیم کرنا، اور پھیلا کر تمام امت کو یک قلم اس برائی سے متہم کرنا۔ اپنے فرقے کو اس قسم کی تمام خرابیوں سے عاری سمجھنا۔ اور جو مخالفت کرے اس کو "مریضانہ ذہن"، پست انسان، بُرا مسلمان (بلکہ "متوازی دین" کا پیروکار) قرار دینا، اور جب زیادہ ہی غصہ آئے تو مسلمانوں کو گالیاں دے کر، انہیں جانور قرار دینا۔ مسلمانوں کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار ان کی مذہبی روایت کو قرار دینا۔ دین میں نئی نئی باتیں نکالنا جن سے روایت کو چھوڑ کر جدید تہذیب کو گلے لگانے کا امکان پیدا ہو۔

    گویا یہ ایک "پیکیج ڈیل" ہے، اگر آپ متجددانہ راستے پر چل نکلے ہیں، تو ان کے ساتھ یہ سب بھی نتھی ہے۔ ابو یحییٰ صاحب کی تحریروں میں اس "پیکیج ڈیل" کے نہایت عمدہ نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان کی داعیانہ درد مندی و سوز وغیرہ کی تلقین فقط عامۃ المسلمین کے لیے ہے، بعض لوگوں کو اس سے استثنا حاصل ہے۔ یہ مسلسل دُہرے اخلاقی معیارات میں جیتے ہیں۔ لہٰذا ان کی تحریروں کو ہمیشہ ناقدانہ نظرسے ہی دیکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ تجدد کا یہ اثر غیر محسوس طریقے سے پھیلتا ہے۔ اور اگر پس استعمار دور میں وعظ و دعوت اسی طرح ہو گی، تو ایسے داعیوں اور ایسے واعظوں سے اللہ کی پناہ!

    آخر میں اپنے چند دوستوں کی خدمت میں کچھ گزارشات کرنا چاہتے ہیں۔ جب بھی غامدی صاحب یا ان کے فرقے پر کوئی تنقید ہوتی ہے تو یہ احباب ان تنقیدوں کو نامناسب اور سخت قرار دے کر وعظ شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ یہ احباب اگر فرقہ فراہی کی یہ نمائندہ تحریر بھی دیکھ لیں اور غور کریں کہ اپنے مسلمان مخاطبین کے لیے مریضانہ ذہن، اخلاقی مریض، پست، حتیٰ کہ سگِ آزاد جیسے القابات کا استعمال اس گروہ کے اسالیب پر کیا روشنی ڈال رہا ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ فرقہ فراہی کے مومنین کے لیے تو راہیں کشادہ ہیں۔ وہ اس افسوس ناک اور قابل نفرین تحریر کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل پیش کر ہی دیں گے۔ ماضی میں اس صنعتِ تاویل سازی کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے غیر جانبدار دوستوں سے قوی امید ہے کہ ابو یحییٰ صاحب کے اس مضمون کی مبتذل، غیر دینی، اور غیر اخلاقی زبان پر بھی اپنی قیمتی رائے دیں گے۔ آخر پوری امت کی تکفیر، تضلیل، تحقیر، مذمت، اور اب کھُلی دشنام طرازی معمولی بات تو نہیں ہے!


    تحریر: طارق محمود ہاشمی
    5 دسمبر 2017
     

اس صفحے کو مشتہر کریں