1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ پاٹ 2

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد ظہیر اقبال, ‏19 اگست 2018۔

  1. محمد ظہیر اقبال
    آف لائن

    محمد ظہیر اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اگست 2018
    پیغامات:
    13
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے دیکھایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
    میں نے توڑا مسجدو دیر و کلیسا کا فسوں
    ترجمہ و شرح
    شیطان کہتا ہے کہ میں نے ہی اہل یورپ کو بادشاہت کا حسین خواب دیا اور اس طرح شخصی حکومت قائم کر کے میں نے عوام کو بے بس و بے کس بنا کے رکھ دینے والی فکر عطا کی۔یہی نہیں بلکہ میں نے مختلف مذاہب کو ماننے والوں کے دلوں میں ان کی عبادت گاہوں سے نفرت دلا دی اور صدیوں سے ان پر مسجد،دیر اور کلیسا کا جو اثر تھا اسے ختم کر دیا۔شیطان کہتا ہے میں نے اس طرح سے ان کے مذہبی عقائدکو مسخ کر کے رکھ دیاکہ جس کے نتیجے میں مذہب ان کے دلوں سے بالکل رخصت ہو گیا۔یعنی مذہب کا جو جادو پہلے ان کے سر چڑھا ہوا تھا وہ جاتا رہا۔
    الفاظ ومعنی
    فرنگی: انگریز،یورپ کا باشندہ۔ملوکیت: بادشاہت۔خواب دیکھایا:ایک حسین خیال دیا۔دیر: مندر،ہندوؤں اور دیگر غیر مسلموں کی عبادت گاہ۔کلیسا:گرجا،عیسائیوں کی عبادت گاہ۔مسجد:مسلمانوں کی عبادت گاہ۔فسوں توڑا: جادو توڑا۔

    میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
    میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
    ترجمہ و شرح
    دنیا میں دو طبقات ہیں۔ان میں ایک طبقہ امیر ہے جبکہ دوسرا غریب ہے۔شیطان کہتا ہے کہ میں نے دولت مندوں کے ذہن و دل میں دولت کی ایسی محبت پیدا کر رکھی ہے کہ وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے ، جائز نا جائز اور حلال حرام طریقے اور ذریعے سے اسے اکٹھی کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔انہیں اس کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ جبکہ ان کے مقابل غریب اور مفلس محنت مزدوری کر کے اپنی روزی کماتے ہیں اوران غریبوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھا رکھی ہے کہ وہ تو پیدا ہی ان امیروں ،وڈیروں،جاگیرداروں،نوابوں اور بادشاہوں وغیرہ کی خدمت کرنے اور انکے ہاتھوں اپنی آزادی اور عزت لٹانے کے لئے ہوئے ہیں لہذا یہ اسے تقدیر کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا ان کی قسمت میں لکھا ہوا ہے جس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

    کون کر سکتا ہے اس کی آتشِ سوزاں کو سرد
    جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوزِ دروں
    ترجمہ و شرح
    شیطان اعلانیہ کہتا ہے میں نے جس شخص میں ابلیسی اور شیطانی نظامِ حیات کی اقدارِ زندگی کو جلہ دینے والی آگ جلا رکھی ہے اسے کوئی ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔چونکہ اس کے معاملات ،کاروبار حیات اور فکر و عمل میں یہ آگ میری اندرونی حرارت کی وجہ سے جل رہی ہے لہذا کسی میں ہمت نہیں کہ اس کو بجھا سکے۔کیا تم دیکھتے نہیں کہ آج کے دور کے انسان کا ہر قدم میری اسی حرارت کی وجہ سے اُٹھ رہا ہے اور اس کا ہر فعل اسی تپش وشورش کی بنا پر سرزد ہو رہا ہے۔اوریہ بات میرے دعویٰ کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔
    الفاظ و معنی
    آتشِ سوزاں:جلا دینے والی آگ۔ابلیس:شیطان۔ہنگامہ:شورش،زندگی کا کاروبار اور معاملات،فکر و عمل،جدوجہد۔سوزدروں:اندر کی حرارت،اندر کی جلن۔


    جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
    کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سر نگوں!

    وضاحت:اس سے پہلے شعر میں شیطان نے کاروبار دنیا اور معاملات حیات میں اپنے عمل دخل کو آگ اور حرارت کی علامتوں سے واضع کیا تھا۔ اس شعر میں اس عمل دخل کی وضاحت ایک درخت کی مثال دے کر کرتا ہے۔

    ترجمہ و شر ح
    شیطان اپنے دعویٰ کے حق میں مزید دلائل دیتے ہوئے کہتا ہے کہ شیطانی درخت تو آغازِ کائینات ہی سے لگا ہوا ہے اور یہ بہت پرانا ہے۔اس درخت کی نسبت حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے انکار کرنے والے اور آدم کو سجدہ نہ کرنے والے دن سے ہے۔شیطان مزید کہتا ہے کہ میں نے تواسی روز سے خدا کو مخلوق کو بہکانے اور گمراہ کرنے کا کام اپنے ذمے لے رکھا ہے۔اس درخت کو جو جڑوں سے لے کر پھل تک
    شیطنت کا مزہ لئے ہوئے ہے میں اور میرے شتونگڑے برابر پانی دیتے رہتے ہیں لہذا اب یہ اتنا بلند و بالااور شاخوں کے دور دور تک پھیلاؤ والا درخت بن چکا ہے کہ اس کو گرانے یا جڑسے اکھاڑ پھینکنے کی کسی میں ہمت نہیں ۔

    پہلا مشیر

    اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
    پختہ تراس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
    ترجمہ و شرح
    شیطان کی تقریر سن کر پہلا مشیر اور اس کی حکومت کا رکن اُٹھتا ہے اور شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے آقا اس میں کوئی شک نہیں کہ جس شیطانی نظام حیات کا آپ نے اپنی تقریر میں ذکر کیا ہے وہ بڑا پائدار اور مضبوط نظام ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں اسے تبدیل کر سکے یا اسے ختم کر سکے اور اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جو نظام حیات ہم نے دنیا والوں کو دے رکھا ہے اس سے لوگ غلامی کی عادت میں پائدار سے پائدار ہوتے جا رہے ہیں۔بلکہ غلامی ان کے مزاج اور ذہنیت میں رچ بس گئی ہے اور ہمارے نمائندوں کے آگے جو (بادشاہ،نواب، وڈیرے،جاگیردار،زمیدار ) وغیرہ کی شکل میں ہر جگہ موجود ہیں سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں۔
    معانی
    محکم :پائدار،مضبوط۔ابلیسی نظام:شیطان کا دیا ہوا نظام حیات۔پختہ تر: زیادہ مضبوط۔خوئے غلامی: غلامی کی عادت۔عوام:سب لوگ یا عام لوگ۔

    ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
    ان کی فطرت کا تقاضہ ہے نمازِ بے قیام

    ترجمہ و شرح
    یہ لوگ جو ہماری تدبیر کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے ہی ہمارے نظام کے پرستار چلے آ تے ہیں۔اپنے آقاؤں کے آگے جھکنا ان کی قسمت بن چکی ہے ان کی زندگی کی مثا ل تو ایک ایسی نماز کی سی ہے جس میں قیام کرنے یعنی کھڑے ہونے کا رُکن موجود ہی نہیں ہے بلکہ صرف رکوع و سجود ہی ہے یعنی جھکنا ہی جھکنا ہے۔یہ اپنے آقاؤں کی غلامی کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب اس غلامی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا انہیں خیال تک بھی نہیں آتا۔
    معانی
    ازل:جہان کی تخلیق سے پہلے کا وقت جس کی ابتدا معلوم نہیں کی جا سکتی۔مراد ہے ہمیشہ سے۔مقدر:قسمت۔سجود:سجدہ کرنا۔غریب: طنز کے طور پر کہاہے یعنی بے بس و بے کس لوگ۔فطرت: سرشست،ذہنیت۔قیام: کھڑے ہونا۔نماز بے قیام: ایسی نماز جس میں کھڑے ہونے کی نوبت ہی نہ آئے اور نمازی مستقل حالت سجدہ میں ہی رہے۔

    آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
    ہو کہیں پیداتو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام

    ترجمہ و شرح
    یہ لوگ شیطانی نظام کے اتنے زیادہ غلام بن چکے ہیں کہ غلامی کی اس زندگی سے آزاد ہونے کی خواہش اول تو ان کے دلوں میں اب پیدا ہی نہیں ہوتی اور اگر کہیں پیدا ہوتی بھی ہے تویا تو وہ ختم ہو جاتی ہے یا پھر کچی (ناپختہ) رہ جاتی ہے اور اس طرح کوئی بھی ہمارے نظام کی جکڑبندی سے باہر نہیں نکل سکتا۔
    معانی
    خام: کچی،ناپختہ۔آرزو: خواہش۔

    یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
    صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
    ترجمہ و شرح
    یہ ہماری لگاتار محنت اور کوششوں کا عقل کو حیران کر دینے والا نتیجہ ہے کہ آج تصوف (طریقت) اور دین (شریعت)کے میدانوں کے لوگ صوفیانہ اور دینی روح سے بیگانہ ہو کر بادشاہت کے غلام بن چکے ہیں وہ صوفی جن کے بوریا کے آگے کبھی تاج و تخت جھکتے تھے آج خود بادشاہوں کے تخت کاطواف کر رہے ہیں۔یہی صورتِ حال علمائے دین کی بھی ہے کل تک جوجابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے خوف نہیں کھاتے تھے آج مصلحت کا شکار ہو کر ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔
    معانی
    سعی پیہم: لگاتار کوشش۔ملوکیت: بادشاہت۔صوفی: تصوف و طریقت کو اپنانے والے۔کرامت: کسی صوفی سے اسی بات یا کام کا ہونا جسے عقل سمجھنے سے قاصر ہو۔(یہ ضروری نہیں کہ صرف صوفی سے ہو یہ کسی بھی اللہ کے نیک بندے سے ہو سکتی ہے۔

    طبعِ مشرق کے لئے موزوں یہی افیون تھی
    ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علمِ کلام!
    ترجمہ و شرح
    ہم نے مشرق کے رہنے والوں (مراد مسلمانوں ) کو جو مغرب کی بجائے مشرق میں زیادہ آباد ہیں دو نشہ آور چیزیں کھلا رکھی ہیں ایک قوالی اور دوسری کلام کا علم۔موجودہ پاکستان اور ہندوستان میں قوالی کو صوفیانہ نظام میں بڑا عمل دخل رہا ہے اور اسے روحانی جذبات میں اشتعال پیدا کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔لیکن آج صوفیانہ حلقوں میں تصوف کی اصل روح تو غائب ہو چکی ہے اور اب صرف قوالی پر زور ہے ایسی قوالی جو روح پر کوئی اثر مرتب نہیں کرتی۔دوسری طرف دینی حلقوں کو دیکھیں تو وہاں بھی علمائے دین، دین کی اصل باتوں سے ہٹ کر لا یعنی مسائل پر بحث کرنے اور ان کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے دلیلوں کے بکھیڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔اس طرح ان دونوں حلقوں کے لوگ عمل سے اسی طرح بیگانہ ہو چکے ہیں جس طرح افیون کھانے والا کو ئی شخص ہر وقت اونگتا رہتا ہے اور زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھتے ہوئے گھبراتا ہے۔
    معانی
    طبع مشرق: مشرق کا مزاج ،مشرقی لوگوں کی طبیعت۔کم تر:زیادہ کم۔موزوں: مناسب۔افیون:ایک نشہ آور چیز جو نشہ کرنے والے کو عمل سے ۱۲
    بیگانہ کر دیتی ہے۔قوالی: وہ راگ جو صوفیانہ محفلوں میں روح کی بالیدگی کے لئے گایا جاتا ہے۔علم کلام: کلام کا علم ۔یہ ایسا علم ہے جس میں دین
    کی باتوں کو عقل اور دلیل سے ثابت کیا جاتا ہے ۔

    ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
    کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
    ترجمہ و شرح
    اگراس دور کے مسلمانوں میں مکہ معظمہ جانے اور وہاں جا کر کعبہ شریف کے گرد چکر لگانے اور اہم رکن اسلام حج کی رسوم ادا کرنے کی کوئی صورت باقی رہ گئی ہے تو وہ محض ایک اجتماع اور بھیڑکی سی صورت ہے۔کعبہ کا طواف کرنے اور حج کے لئے مکہ معظمہ میں جمع ہونے کا اصل مقصد تو مسلمانوں میں قوت،اتفاق اور مرکزیت پیدا کرنا ہے۔لیکن آج اس کے برعکس نفاق اور انتشار کی صورتِ حال نظر آتی ہے۔مسلمانوں کے اندر وہ قوت جو باطل سے ٹکرانے کے لئے ہر وقت تیار رہتی تھی اب ختم ہو چکی ہے۔کبھی مسلمان اپنے دشمنوں کے لئے ننگی تلوار کی مانند تھاجو ہر وقت ان کو کاٹنے پر امادہ نظر آتی تھی لیکن آج یہ صورتِ حال ختم ہو چکی ہے اور مسلمانوں میں اللہ کی راہ میں لڑنے کا جزبہ ختم ہو چکا ہے۔ایسی صورت میں ہمیں مسلمانوں کے حج کے اجتماع اور کعبے کے گرد چکر لگا کر اس سے وابستگی کے اظہار سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
    معانی
    طواف:کعبے کے گرد چکر لگانا۔حج: ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن کو مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے اور بعض دوسری رسومات (مناسک)ادا کرنے سے تعلق رکھتا ہے ۔کند: جس میں کاٹنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہو۔ہنگامہ:شورش ،بھیڑ۔مومن: اہل ایمان ،اللہ اور رسولﷺ پر صحیح ایمان رکھنے والا۔،پکا سچااور صحیح مسلمان۔تیغ: تلوار۔نیام: تلوار کا خول،جس میں تلوار کو اس وقت رکھا جاتا ہے جب چلانا مقصود نہ ہو۔تیغ بے نیام: خول کے بغیر تلوار،ننگی تلوارجو ہر وقت دشمن کو کاٹنے کے لئے تیار ہو۔


    محمد ظہیر اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پارٹ 2 جاری ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں