1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ابلیس، اقبال (رح) کی نظر میں

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از ع س ق, ‏9 ستمبر 2006۔

  1. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    جبريل و ابليس

    جبريل
    ہمدمِ ديرينہ! کيسا ہے جہانِ رنگ و بو؟

    ابليس
    سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو

    جبريل
    ہر گھڑي اَفلاک پر رہتي ہے تيري گفتگو
    کيا نہيں ممکن کہ تيرا چاک دامن ہو رفو؟

    ابليس
    آہ اے جبريل! تو واقف نہيں اس راز سے
    کر گيا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر ميرا سبو

    اب يہاں ميري گزر ممکن نہيں، ممکن نہيں
    کس قدر خاموش ہے يہ عالمِ بے کاخ و کُو!

    جس کي نوميدي سے ہو سوزِ درونِ کائنات
    اس کے حق ميں 'تقنطوا' اچھا ہے يا 'لاتقنطوا'؟

    جبريل
    کھو ديے انکار سے تو نے مقاماتِ بلند
    چشمِ يزداں ميں فرشتوں کي رہي کيا آبرو!

    ابليس
    ہے مري جرات سے مُشتِ خاک ميں ذوقِ نمو
    ميرے فتنے جامہء عقل و خرد کا تار و پو

    ديکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خير و شر
    کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، ميں کہ تو؟

    خضر بھي بے دست و پا، الياس بھي بے دست و پا
    ميرے طوفاں يم بہ يم، دريا بہ دريا، جُو بہ جُو

    گر کبھي خلوت ميسر ہو تو پوچھ اللہ سے
    قصہء آدم کو رنگيں کر گيا کس کا لہو!

    ميں کھٹکتا ہوں دلِ يزداں ميں کانٹے کي طرح
    تو فقط اللہ ھو، اللہ ھو، اللہ ھو

    (بالِ جبریل)​
     
  2. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    ابليس کي عرضداشت

    کہتا تھا عزازيل خداوندِ جہاں سے
    پرکالہء آتش ہوئي آدم کي کفِ خاک

    جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زيب
    دل نزع کي حالت ميں، خرد پختہ و چالاک

    ناپاک جسے کہتي تھي مشرق کي شريعت
    مغرب کے فقيہوں کا يہ فتوي ہے کہ ہے پاک

    تجھ کو نہيں معلوم کہ حُورانِ بہشتي
    ويرانئ جنت کے تصور سے ہيں غم ناک؟

    جمہور کے ابليس ہيں اربابِ سياست
    باقي نہيں اب ميري ضرورت تہِ اَفلاک!

    (بالِ جبریل)​
     
  3. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    ابليس کا فرمان اپنے سياسي فرزندوں کے نام


    لا کر برہمنوں کو سياست کے پيچ ميں
    زناريوں کو ديرِ کہن سے نکال دو

    وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا
    روحِ محمد اُس کے بدن سے نکال دو

    فکرِ عرب کو دے کے فرنگي تخيلات
    اسلام کو حجاز و يمن سے نکال دو

    افغانيوں کي غيرتِ ديں کا ہے يہ علاج
    مُلا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو

    اہلِ حرم سے اُن کي روايات چھين لو
    آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو

    اِقبال کے نفس سے ہے لالے کي آگ تيز
    ايسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
    -----------
    بھوپال (شيش محل) ميں لکھے گئے

    (ضربِ کلیم)​
     
  4. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    ابليس کي مجلس شوري
    1936ء

    ابليس
    يہ عناصر کا پرانا کھيل، يہ دنيائے دُوں
    ساکنانِ عرشِ اعظم کي تمناؤں کا خوں

    اِس کي بربادي پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
    جس نے اِس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں

    ميں نے دِکھلايا فرنگي کو ملوکيت کا خواب
    ميں نے توڑا مسجد و دير و کليسا کا فسوں

    ميں نے ناداروں کو سکھلايا سبق تقدير کا
    ميں نے مُنعم کو ديا سرمايہ داري کا جنوں

    کون کر سکتا ہے اُس کي آتشِ سوزاں کو سرد!
    جس کے ہنگاموں ميں ہو ابليس کا سوزِ دروں

    جس کي شاخيں ہوں ہماري آبياري سے بلند
    کون کر سکتا ہے اُس نخلِ کہن کو سرنِگوں!


    پہلا مشير
    اِس ميں کيا شک ہے کہ محکم ہے يہ ابليسي نظام
    پختہ تر اِس سے ہوئے خوئے غلامي ميں عوام

    ہے ازل سے اِن غريبوں کے مقدر ميں سجود
    اِن کي فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قيام

    آرزو اول تو پيدا ہو نہيں سکتي کہيں
    ہو کہيں پيدا تو مر جاتي ہے يا رہتي ہے خام

    يہ ہماري سعئ پيہم کي کرامت ہے کہ آج
    صوفي و ملا ملوکيت کے بندے ہيں تمام

    طبعِ مشرق کے لئے موزوں يہي افيون تھي
    ورنہ 'قوالي' سے کچھ کم تر نہيں 'علم کلام'

    ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقي تو کيا
    کند ہو کر رہ گئي مومن کي تيغِ بے نيام

    کس کي نوميدي پہ حجت ہے يہ فرمانِ جديد؟
    'ہے جہاد اِس دور ميں مردِ مسلماں پر حرام!


    دوسرا مشير
    خير ہے سلطانئ جمہور کا غوغا کہ شر؟
    تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہيں ہے باخبر


    پہلا مشير
    ہوں، مگر ميري جہاں بيني بتاتي ہے مجھے
    جو ملوکيت کا اِک پردہ ہو، کيا اُس سے خطر؟

    ہم نے خود شاہي کو پہنايا ہے جمہوري لباس
    جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

    کاروبارِ شہرياري کي حقيقت اور ہے
    يہ وجودِ مير و سلطاں پر نہيں ہے منحصر

    مجلسِ ملت ہو يا پرويز کا دربار ہو
    ہے وہ سلطاں، غير کي کھيتي پہ ہو جس کي نظر

    تو نے کيا ديکھا نہيں مغرب کا جمہوري نظام؟
    چہرہ روشن، اندروں چنگيز سے تاريک تر!


    تيسرا مشير
    روحِ سلطاني رہے باقي تو پھر کيا اِضطراب
    ہے مگر کيا اس يہودي کي شرارت کا جواب؟

    وہ کليمِ بے تجلي، وہ مسيح بے صليب
    نيست پيغمبر و ليکن در بغل دارد کتاب

    کيا بتاؤں کيا ہے کافر کي نگاہ پردہ سوز
    مشرق و مغرب کي قوموں کے لئے روزِ حساب!

    اس سے بڑھ کر اور کيا ہوگا طبيعت کا فساد
    توڑ دي بندوں نے آقاؤں کے خيموں کي طناب!


    چوتھا مشير
    توڑ اُس کا رومۃ الکبریٰ کے ايوانوں ميں ديکھ
    آلِ سيزر کو دِکھايا ہم نے پھر سيزر کا خواب

    کون بحرِ روم کي موجوں سے ہے لپٹا ہوا
    'گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،


    تيسرا مشير
    ميں تو اُس کي عاقبت بيني کا کچھ قائل نہيں
    جس نے افرنگي سياست کو کيا يوں بے حجاب


    پانچواں مشير
    ( ابليس کو مخاطب کرکے)

    اے ترے سوزِ نفس سے کارِ عالم استوار!
    تو نے جب چاہا، کيا ہر پردگي کو آشکار

    آب و گل تيري حرارت سے جہانِ سوز و ساز
    ابلہِ جنت تري تعليم سے دانائے کار

    تجھ سے بڑھ کر فطرتِ آدم کا وہ مَحرم نہيں
    سادہ دل بندوں ميں جو مشہور ہے پروردگار

    کام تھا جن کا فقط تقديس و تسبيح و طواف
    تيري غيرت سے ابد تک سرنِگون و شرمسار

    گرچہ ہيں تيرے مريد افرنگ کے ساحر تمام
    اب مجھے اُن کي فراست پر نہيں ہے اعتبار

    وہ يہودي فتنہ گر، وہ روحِ مزدک کا بروز
    ہر قبا ہونے کو ہے اُس کے جنوں سے تار تار

    زاغِ دشتي ہو رہا ہے ہمسرِ شاہين و چرغ
    کتني سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار

    چھا گئي آشفتہ ہو کر وُسعتِ افلاک پر
    جس کو ناداني سے ہم سمجھے تھے اِک مُشتِ غبار

    فتنہء فردا کي ہيبت کا يہ عالم ہے کہ آج
    کانپتے ہيں کوہسار و مرغزار و جوئبار

    ميرے آقا! وہ جہاں زير و زبر ہونے کو ہے
    جس جہاں کا ہے فقط تيري سيادت پر مدار


    ابليس
    (اپنے مشيروں سے)

    ہے مرے دستِ تصرف ميں جہانِ رنگ و بو
    کيا زميں، کيا مہر و مہ، کيا آسمانِ تو بتو

    ديکھ ليں گے اپني آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
    ميں نے جب گرما ديا اقوامِ يورپ کا لہو

    کيا امامانِ سياست، کيا کليسا کے شيوخ
    سب کو ديوانہ بنا سکتي ہے ميري ايک ہُو

    کارگاہِ شيشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
    توڑ کر ديکھے تو اس تہذيب کے جام و سبو!

    دستِ فطرت نے کيا ہے جن گريبانوں کو چاک
    مزدکي منطق کي سوزن سے نہيں ہوتے رفو

    کب ڈرا سکتے ہيں مجھ کو اِشتراکي کوچہ گرد
    يہ پريشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو

    ہے اگر مجھ کو خطر کوئي تو اِس امت سے ہے
    جس کي خاکستر ميں ہے اب تک شرارِ آرزو

    خال خال اس قوم ميں اب تک نظر آتے ہيں وہ
    کرتے ہيں اشکِ سحر گاہي سے جو ظالمِ وضو

    جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ايام ہے
    مزدکيت فتنہء فردا نہيں، اسلام ہے


    (2)
    جانتا ہوں ميں يہ امت حاملِ قرآں نہيں
    ہے وہي سرمايہ داري بندہء مومن کا ديں

    جانتا ہوں ميں کہ مشرق کي اندھيري رات ميں
    بے يدِ بيضا ہے پيرانِ حرم کي آستيں

    عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے ليکن يہ خوف
    ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پيغمبر کہيں

    الحذر! آئينِ پيغمبر سے سو بار الحذر!
    حافظِ ناموسِ زن، مرد آزما، مرد آفريں

    موت کا پيغام ہر نوعِ غلامي کے لئے
    نَے کوئي فغفور و خاقاں، نَے فقيرِ رہ نشيں

    کرتا ہے دولت کو ہر آلودگي سے پاک صاف
    مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے اميں

    اِس سے بڑھ کر اور کيا فکر و عمل کا انقلاب
    پادشاہوں کي نہيں، اللہ کي ہے يہ زميں!

    چشمِ عالم سے رہے پوشيدہ يہ آئيں تو خوب
    يہ غنيمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ يقيں

    ہے يہي بہتر اِلٰہيات ميں اُلجھا رہے
    يہ کتاب اللہ کي تاويلات ميں اُلجھا رہے


    (3)
    توڑ ڈاليں جس کي تکبيريں طلسمِ شش جہات
    ہو نہ روشن اِس خدا انديش کي تاريک رات

    ابنِ مريم مر گيا يا زندہء جاويد ہے؟
    ہيں صفاتِ ذاتِ حق، حق سے جدا يا عينِ ذات؟

    آنے والے سے مسيحِ ناصري مقصود ہے؟
    يا مجدد، جس ميں ہوں فرزندِ مريم کے صفات؟

    ہيں کلام اللہ کے الفاظ حادث يا قديم؟
    اُمتِ مرحوم کي ہے کس عقيدے ميں نجات؟

    کيا مسلماں کے لئے کافي نہيں اس دور ميں
    يہ اِلٰہيات کے تِرشے ہوئے لات و منات؟

    تم اِسے بيگانہ رکھو عالمِ کردار سے
    تا بساطِ زندگي ميں اِس کے سب مُہرے ہوں مات

    خير اِسي ميں ہے، قيامت تک رہے مومن غلام
    چھوڑ کر اوروں کي خاطر يہ جہانِ بے ثبات

    ہے وہي شعر و تصوف اِس کے حق ميں خوب تر
    جو چُھپا دے اِس کي آنکھوں سے تماشائے حيات

    ہر نفس ڈرتا ہوں اِس اُمت کي بيداري سے ميں
    ہے حقيقت جس کے ديں کي اِحتسابِ کائنات

    مست رکھو ذکر و فکِر صبحگاہي ميں اِسے
    پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہي ميں اِسے

    (ارمغانِ حجاز)​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں