1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ابامہ : مسلمان کا بیٹا ہونے کے ناطے مسلمانوں کیلیے کیسا ہوگا

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏5 نومبر 2008۔

  1. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    السلام علیکم
    روزنامہ جنگ کا مضمون پڑھ کر واقعی معلومات میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔
    میں اوبامہ کے اس فقرے پر کچھ کہنا چاہوں گا
    "We will wage the war that has to be won, with a comprehensive strategy with five elements:
    getting out of Iraq on to the right battle-field in Afghanistan and Pakistan; developing the capabilitiies and partnerships we need to take out the terrorasts and the worid's most deadly weapons; engaging the world to dry up support for terror and extremism; restoring our values; and securing a more resilient homeland."
    رہی بات اوبامہ کی پاکستان اور افغانستان کو لیکر تشویش کی تو اس بات سے سبھی واقف ہیں دونوں ممالک کی اقوام نے نہ تو کبھی دہشت گردی شروع کی ہے اور نہ ہی بیرونی دہشت گردی کے آگے سرنگوں ہوئے ہیں۔طالبان کا وجود بھی روسیوں کی افغانستان کو فتح کرنے کی کوششوں سے ظہور میں آیا ہے اور اسامہ کو طاقتور بنانے میں بھی امریکہ کا ہی ہاتھ ہے۔ کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ روس افغانستان پرقبضہ کرلے اس لیے امریکہ نے دامے درمے سخنے افغان مجاہدین کی مدد کی اور روسی نامراد لوٹ گئے۔اس کے بعد امریکہ کو یہ لگا کہ اب یہ لوگ (طالبان( امریکی مفادات کے لیے کام کریں گے۔اپنے کٹر حریف روس کی ہزیمت کے علاوہ امریکہ کا مقصد افغانستان کے ذریعہ بر صغیر کو کنٹرول کرنا نیز افغانستان دنیا کے نقشہ میں ایک ایسا ملک ہے جہاں سے چین،روس اور یورپ پر کڑی نظر رکھی جاسکتی ہے اس لحاظ سے امریکہ نے اسامہ اور طالبان کو طاقتور بنایا۔لیکن اب چڑیاں کھیت چگ چکی ہیں
    اب اوبامہ اسی خیال کے تحت کے اگر افغانستان یا پاکستان کو اپنا baseبنالے توبہت ممکن ہے کہ چین اور ہندوستان جو کہ بے انتہا تیزی سے امریکہ کے لیے ہر میدان میں چیلینج بن رہے ہیں ان پر لگام کسی جاسکے۔ اسکے علاوہ عالمی برادری میں پاکستان کی کمزور سیاست کسی سے چھپی ہوئی نہیں مزید یہ کہ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں‌ہورہی امریکی بمباری کامقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ دہشت گردی کی اصل جڑیں پاسکتان ہی میں ہیں۔اوبامہ محض‌یہ چاہتا ہے کہ وہ وہی سب کچھ کرے جو ایک سب سے طاقتور انسان کے اختیار میں ہو لیکن وہ اپنا دامن پاک بھی رکھنا چاہتاہے۔افغانستان پر مزید دن فوجیں رکھنا اور اقوام متحدہ کو اپنا ہمنوا بنائے رکھنے کے لیےاوبامہ اپنے کو سلجھی ہوئی ذہنیت کا ظاہر کرکے وہی کچھ کرنا چاہتا ہے جو امریکہ یا صیہونی مفادات میں بہتر ہو اور امریکی مفادات کا دارومدار یہودیوں کے مرہون منت ہے اور یہودیوں کو خوشی ملتی ہے صرف اسلامی مملکتوں‌کو تاراج کرنے سے۔
    چونکہ میری رائے کافی طویل ہورہے اس لیے میں اسے اگلی قسط میں مکمل کروں گا مبادا اس کی طوالت اسے مزید boring نہ بنادے
    چلیے اللہ حافظ
    ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید و مبین
    ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں میں کیا رکھاہے
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    بہت مفصل اور غور طلب کالم ہے۔
    عمدہ شئیرنگ :a180:
     
  3. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے اور اس وقت کے زمينی حقائق کے پيش نظر افغانستان کی مدد ايک درست فيصلہ تھا۔ کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟ جہاں تک اسامہ بن لادن کا سوال ہے تو دہشت گردی کا راستہ ان کا اپنا دانستہ فيصلہ تھا۔

    دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ کچھ ہفتے پہلے اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔

    يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے ثابت ہيں جو ميں اس فورم پر پوسٹ کر چکا ہوں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  4. زرداری
    آف لائن

    زرداری ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    263
    موصول پسندیدگیاں:
    12
    عزیز ہم وطنو !
    ہمیں ابامہ کے جیتے سےزیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ ہم نے اسی رولے گولے میں سارہ پالین کے نرم نرم ہاتھوں کا لمس محسوس کر لیا ۔ کاش وہ نائب صدر بن جاتی تو ہم ہر مہینے اس سے ملاقات کرنے پہنچ جاتے :glass:
     
  5. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ہارون بھائی میں آپ کی بات سے اتفاق کرتی ہوں
     
  6. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    آپ کا اعتراض اس منطق پر مبنی ہے کہ ميرا تعلق ايک ايسے گروپ سے ہے جو براہراست امريکی حکومت سے منسلک ہے اس ليے ميں ايک مخصوص اور جانب دار نقطہ نظرکا پرچار کرتا ہوں۔

    ميں کسی " ايجنڈے" پر کام نہيں کر رہا۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ ميں اپنی ہر پوسٹ سے پہلے يہ واضح کرتا ہوں کہ ميرا تعلق يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ہے۔ جب ميں اپنی وابستگی آپ پر واضح کرنے کے بعد اپنی راۓ کا اظہار کر رہا ہوں تو اس ميں " ايجنڈا" کہاں سے آ گيا؟ اپنی راۓ کے اظہار کے ليے مجھے کچھ چھپانے کی ضرورت نہيں ہے۔

    يہ ميرا اپنا نقطہ نظر ہے کہ ہميشہ تصوير کے دو رخ ہوتے ہيں اور جب تک جذبات سے ہٹ کر دونوں فريقين کے نقطہ نظر کو نہ سمجھا جاۓ اس وقت تک کسی بھی معاملے کو سلجھايا نہيں جا سکتا۔ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے مجھے يہ موقع ملتا ہے کہ ميں مختلف فورمز پر اہم موضوعات کے حوالے سے اپنے ہم وطنوں کے الزامات، تحفظات اور انکی شکايات امريکی حکام تک پہنچاؤں اور ان کا موقف حاصل کر کے آپ کے سوالوں کا جواب دوں۔ مقصد آپ کو قائل کرنا نہيں بلکہ آپ کو دوسرے فريق کے نقطہ نظر سے آگاہ کرنا ہے تا کہ آپ حقائق کی روشنی ميں اپنی راۓ قائم کر سکيں۔

    اسی تھريڈ پر کسی دوست نے اس راۓ کا اظہار کيا تھا کہ صدر بش نے اپنے تيل کے بزنس کو فروغ دينے کے ليے عراق اور افغانستان پر حملہ کيا تھا۔ اس کے جواب ميں نے يہ حقيقت بیان کی تھی کہ صدر بش کا تيل کا کوئ کاروبار نہيں ہے۔ اس کے علاوہ ميں نے اس امريکی قانون کی بھی نشاندہی کی تھی جس کے تحت امريکی حکومت ميں شامل عہديداروں کے لیے يہ ممکن نہيں ہوتا کہ وہ اپنی حکومت کے دوران اپنی ذاتی کاروبار کے فروغ کے لیے کوئ بھی فيصلہ کر سکيں کيونکہ وہ جتنا عرصہ حکومت ميں رہتے ہیں ان کے ذاتی کاروبار کسی نجی ٹرسٹ کی تحويل ميں دے ديے جاتے ہیں۔

    يہ نقطہ واضح کرنا کسی بھی طرح ايک مخصوص نقطہ نظرکی تشہير کے زمرے ميں نہيں آتا بلکہ يہ ايک حقيقت ہے جس کی تصديق کسی بھی غير جانب دار ذريعے سے کی جا سکتی ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    فواد بھائی ۔ آپ نے اپنی نوکری پوری کردی۔
    دنیا مانے یا نہ مانے۔ آپکو کیا ۔ کیا خیال ہے ؟
    کیونکہ حقائق کو تسلیم نہ کرنا اور اپنے باس کی طرف سے دیے گئے احکامات کی تعمیل کیے جانا ہی جس شخص کا طرزِ عمل ہو۔
    وہاں‌حقائق بیان کرنا ہی فضول ہے۔ یہی کام آپ کے آقا بش محترم نے "WMD" کا جھوٹا ڈرامہ رچا کر کیا تھا۔ جو پوری دنیا پر ظاہر ہے۔ اگر آپکی آنکھوں‌پر پٹی بندھی ہے تو یہ "تصویر کا دوسرارخ" آپکو مبارک ہو۔
    اور کہتے ہیں کہ چاولوں‌کی دیگ کا معیار دیکھنے کے لیے چاول کا ایک دانہ بھی دکھ لینے سے باقی دیگ کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ بش کی سچائی پر اگر آپکا اور آپکا ڈیپارٹمنٹ کا ایمان ہے تو ضروری نہیں کہ ساری دنیا " تصویر کے دوسرے رخ" کو تسلیم کرتی پھرے۔
    آپ اپنی نوکری جاری رکھیے۔ انسان کے اندر ضمیر نام کی ایک چیز ہوتی ہے جو زندہ ہو تو بولتی ہے۔ لیکن اگر اسے ڈالرز کے بوجھ تلے دبا کر گلا گھونٹ دیا جائے تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو جناب کے قلم سے ارشاد ہورہا ہے۔ :a150:
     
  8. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    شايد اعداد وشمار اور حقائق کی روشنی ميں مثبت بحث کرنے کے مقابلے ميں جذباتی تنقيد کرنا آسان کام ہے۔

    کجھ باتوں کی وضاحت کرتا چلوں۔

    يو- ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں کام کرنے کے ليے جو تنخواہ مجھے ملتی ہے وہ اس سے کہيں کم ہے جو مجھے امريکہ ميں کسی نجی کمپنی ميں کام کرنے کے عوض ملتی اور ميرے پاس اس کے مواقع موجود تھے ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم ميں کام کر کے مجھے اس بات کا موقع مل رہا ہے کہ ميں دوسرے فريق یعنی امريکہ کا نقطہ نظر بھی جان سکوں اور اپنے ہم وطنوں کو اس سے آگاہ کر سکوں۔

    کيا "ضمير کی آواز" کا يہ مطلب ہے کہ ميں حقائق کو نظرانداز کر دوں؟ آپکی ميرے اوپر تنقيد ميری وابستگی تک محدود ہے۔ آپ اس نقطے اور حقيقت کو نظرانداز کر رہے ہيں جس کا ميں نے ذکر کيا تھا۔ ميں اپنی بات دہراؤں گا کہ صدر بش کا اپنا تيل کا کوئ کاروبار نہيں ہے اور امريکی قانون اس بات کی اجازت نہيں ديتا کہ کوئ بھی سرکاری اہلکار اپنے اثرورسوخ سے اپنے ذاتی کاروبار کو فائدہ پہنچاۓ۔

    اب اگر کوئ دوست اس قانون کی موجودگی کے باوجود بغير کسی ثبوت کے يہ بات کہے کہ عراق اور افغانستان پر کاروائ صدر بش نے اپنے تيل کے ذاتی کاروبار کو منافع بخش بنانے کے ليے کی تھی تو کيا يہ بے بنياد الزام "ضمير کی آواز" کے زمرے میں آتا ہے؟

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  9. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف ميں پہلے بھی اس فورم پر پيش کر چکا ہوں۔ آپ کی خواہش پر ايک مرتبہ پوسٹ کر رہا ہوں۔

    اس حوالے سے يہ بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اگر سال 2003 ميں امريکی حملے سے پہلے عراق کی صورت حال اور اس پر عالمی راۓ عامہ کا جائزہ ليں تو يہ واضح ہے کہ عالمی برداری اور بالخصوص امريکہ پر صدام حسين کی جانب سے عراقی عوام پر ڈھاۓ جانے والے مظالم پر خاموشی اور مناسب کاروائ نہ کرنے پر مسلسل شديد تنقيد کی جاتی رہی ہے۔ کئ غير جانب دار تنظيموں کی جانب سے ايسی بے شمار رپورٹس ريکارڈ پر موجود ہيں جن ميں عراقی عوام پر ڈھاۓ جانے والے مظالم کی داستانيں رقم ہیں۔

    جب ڈبليو – ايم – ڈی کا معاملہ دنيا کے سامنے آيا تو صدام حسين نے اس ضمن ميں تعاون اور عالمی برداری کی جانب سے اٹھاۓ جانے والے سوالات کا جواب دينے سے صاف انکار کر ديا۔ يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 911 کے واقعات کے بعد کسی بڑی دہشت گردی کی کاروائ کوئ غير حقيقی يا ناقابل يقين بات نہيں تھی۔

    يہ درست ہے کہ امريکہ کی جانب سے عراق ميں کاروائ کی بڑی وجہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکہ کے تحفظات تھے۔ يہ بھی درست ہے کہ ڈبليو – ايم – ڈی کے حوالے سے انٹيلی جينس غلط ثابت ہوئ۔ ليکن انٹيلی جينس رپورٹس کی ناکامی کسی بھی صورت ميں صدام حسين کو "معصوم" ثابت نہيں کرتيں۔ صدام حسين ايک ظالم حکمران تھا جس کی حکومت عراق کے ہمسايہ ممالک سميت خود عراق کے اندر بے شمار انسانوں کی موت کا سبب بنی۔ صدام حکومت کے خاتمے کے نتيجے ميں عراق بالخصوص اور يہ خطہ بالعموم ايک بہتر مستقبل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس حقيقت کا ادراک عراق ميں تشدد کے واقعات ميں بتدريج کمی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے نتيجے ميں بڑھتا جا رہا ہے۔

    ڈبليو – ايم – ڈی ايشو – امريکی حکومت کا موقف

    امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوۓ۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔

    اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور موجودہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جاۓ گی۔ خود صدام حسين کی جانب سے مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔

    1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔

    يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔ ميں آپ کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک رپورٹ اور ايک ویب سائيٹ کا لنک دے رہا ہوں جس ميں صدام کے ظلم کی داستان تفصيل سے پڑھ سکتے ہيں۔

    http://www.usaid.gov/iraq/pdf/iraq_mass_graves.pdf

    http://massgraves.9neesan.com/

    يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بھائی صاحب۔ شکر ہے آپ نے اتنا تو تسلیم کر لیا کہ WMD سب ایک جھوٹی رپورٹ تھی ۔

    دنیا کے کونسے قانون کی شق میں‌یہ درج ہے کہ محض جھوٹی رپورٹ پر ایک پورے ملک کا تہس نہس کر دیا جائے ؟
    اقوام متحدہ کا چارٹر ایک بار پھر سے پڑھیے گا۔

    اور پھر اگر یہ رپورٹ جھوٹی ثابت ہوچکی ہے۔ تو اس جھوٹی رپورٹ کی بنیاد پر ہزاروں جانیں تلف کرنے والے ملک ، افراد اور ذمہ داران کے خلاف کونسی تادیبی کاروائی عمل میں لائی گئی ؟
     
  11. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    صدر بش اور کونڈو لیزا رائس کی جانب سے فاش غلطیوں کا اعتراف

    [​IMG]

    واشنگٹن .. . . .. . . .حسب روایت مدت اقتدار ختم ہونے کے قریب آتے ہی امریکی عہدیداروں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہونے لگا ہے۔اس بار سپر پاور کے طاقتورترین شخص جارج ڈبلیو بش اورمضبوط ترین خاتون کونڈولیزارائس نے بھی عرا ق جنگ سمیت دیگر غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔امریکی صدرجارج ڈبلیو بش نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے مدت اقتدار میں سب سے زیادہ قابل افسوس بات صدام کے حوالے سے ناقص خفیہ معلومات ہیں ۔جس میں کہا گیا تھا کہ عراق بے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کررہا ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔اسی طرح کا اعتراف عراق پر حملے کے وقت صدر بش کی قومی سلامتی کی مشیر اور موجودہ وزیر خارجہ کونڈولیزارائس نے بھی کیا ہے۔اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیاکہ عراق جنگ کے حوالے سے امریکا نے ناقص خفیہ معلومات پر انحصار کیا ۔ کونڈولیزارائس نے اعتراف کیا کہ عراق جنگ سے پہلے اور جنگ کے بعد امریکا نے کئی غلطیاں کیں جن میں ایک غلطی عراق کو امریکی وزارت دفاع کے تحت دینا بھی شامل ہے۔تاہم انہوں نے امریکا کی جانب سے عراق جنگ اورصدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کا دفاع کیا۔مختلف چینلز کو انٹرویوز میں کونڈولیزارائس نے برما،زمبابوے کے حوالے سے امریکی ناکامیوں کا بھی اعتراف کیا۔۔

    بحوالہ : روزنامہ جنگ http://search.jang.com.pk/

    کیا غلطیاں ہیں۔ ناقص معلومات کی بنا پر ایک آزاد ملک کی آزادی سلب کرلینا اور ہزاروں لاکھوں بےگناہ انسانوں کو ہلاک کر دینا
    3 سے 4 ہزار بےگناہوں کو قتل کرنے والا اسامہ ، القاعدہ یا اسکی ٹیم تو " دہشت گرد " ہیں۔ اور عراق و افغانستان کے لاکھوں بےگناہوں کو قتل کرنے والے خونخوار بھیڑیے ۔۔۔ مہذب انسان ؟؟
    کسی آزاد ملک کو اپنی وزارتِ دفاع کے تحت دے دینا ۔۔۔ کیا اسکی آزادی سلب کرکے غلام بنانا نہیں ہے ؟ کیا فرق ہے پتھر کے زمانے کے لوگوں میں اور آج کے امریکی استعمار میں۔

    افسوس صد افسوس
     
  12. عاطف چوہدری
    آف لائن

    عاطف چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2008
    پیغامات:
    305
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شروع کرتا ہون اللہ کے نام سے

    آج عید ہے میرا دل کر رہا ہے ہر لڑی میں بات کروں مگر دنیا داری وقت ھساب کتاب وغیرہ وغیرہ سو معذرات کواہ ہوں کچھ کچھ لڑیاں جو نظر آ رہی ہین
    وہاں لکھنے کی کوشش کر رہا ہون ،،،،،،،،لڑی دیکھی یہاں لکھا تھا کہ ،،،،،،،،،،،،اوبامہ مسلمان کا بیٹا ہونے کے ناطے مسلمانوں کے لیے کیسا ہو گا،،،،

    مجھے بچپن میں کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا
    سو اپنی باتوں کو میں ایک کہانی کی شکل دے رہا ہوں یا کہہ لو تمام باتوں کو کہانی بنا رہا ہوں آپ لوگوں میں جو دانش مند ہو گا وہ اس کا جوس پی لے گا مطلب اسکا کہانی کا نچوڑ کر دے گا کہ اوبامہ ایک مسلمان کا بیٹا ہونے کے ناطے کیسا ہو گا،

    ،،،،،،کہانی ایک ہوا باز کی

    نیل آرم وہ پہلا آدمی تھا جس نے چاند پر اپنا قدم رکھا،،،اس نے دنیا کو دکھا دیا کہ انسان دنیا کا سب سے بڑاعجوبہ ہے یہ چاند وغیرہ اس نے سنا تھا کہ چاند وغیرہ ہمارے لے بنے ہین
    اس سے پہلے کوہی نہیں جانتا تھا کہ چاند کیا ہے بس آسمان پر چمکتا ہوا روشنی کا گولا
    پھر نیل آرم نے ثابت کر دیا کہ امریکہ دیگر ممالک سے پہلے چاند پر پہنچا ہے نیل آرم نے امریکہ کی نماہندگی کی اور اب امریکہ تمام ممالک میں سپر پاور ہے
    نیل آرم کون تھا ایک ہوا باز جس نے امریکہ کی نماہندگی اور اب امریکہ ہر معاملے میں دنیا کی نماہندگی کر رہا ہے
    ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
    اور کب تک کریے گا اسکا علم صرف اللہ کو ہے،،،،،،،

    اب ہم اس کہانی کا تجریہ قرآن سے کرین تو ہمیں پتہ لگے گا سورتہ عصر میں
    اللہ پاک فرماتے ہین ہمارے بارے یعنی انسان کے متلق(ترجمہ میں کوہی غلطی ہوہی تو پیشگی معافی چاہوں گا)
    قسم ہے زمانے کی! کہ انسان نقصان میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لایے اور صبر کیا اور اچھے عمال ھق پر جمے رہے،،،،،،،،،،


    میں نے تجریہ لکھ دیا اوبامہ مسلمان کا بیٹا ہونے کے ناطے کیسا رہے گا
    جزاک اللہ
    جتنا دماغ اتنی بات پک کرتا ہوں عاطف چوہدری
     
  13. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ ۔عاطف بھائی۔۔۔بھترین بات کی آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مختصر الفاظ میں جامع مقصد تک آپ نے ہمیں پہنچادیا۔۔۔۔۔
    درحقیقت۔ ایمان واسلام ہی وہ دولت ہے جو انسان کو بلندی سے نوازتی ہے۔۔۔۔۔۔۔باقی تو مادی اسباب ہیں۔۔۔۔۔پس نادان اور احمق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورزیل ہوگا وہ انسان جو صرف اس دنیا کی رنگینیوں پر اتراتا پھرے۔۔۔۔۔۔۔اور فرعونیت کے دعوے کرتے ہوئے۔خود کو سپر پاور،کہلائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے انسان اپنی اوقات میں آجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کس چیز سے پیدا کیا گیا تجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور عظیم تر اعزاز کہ کس بھترین کام کے لیے ہیدا کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس آج انسانیت کی اکثریت۔۔۔۔۔۔۔۔چاہے مسلم ہو یا کافر اپنے مقصد تخلیق کو بھول گئی۔۔۔۔۔غافل ہوگئی۔خدا کو چھوڑدیا۔۔۔۔۔غیروں کو اپنی منزل بنادیا،۔۔۔اور یہ نادان انسان دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر رزلٹ صاف ظاہر ہے کہ بڑی بڑی بادشاہتوں،کرسیوں،بلڈنگیوں،وزارتوں،اور مال ودولت کے باوجود انسان سکون نام چیز کے لیے تڑپتا ہے۔رات کو خواب آور گولیوں کو کھائے بغیر نیند نہیں آسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دنیا وآخرت کی حقیقت سمجھنے کی توفیق عطافرمائے
    [highlight=#FF40FF:tqmwgynq]ہاں موضوع پر تبصرہ یہ کہ
    ۔اس خوش فہمی میں کوئی نہ رہے کہ اوبامہ مسلمانوں کے حق میں کوئی اچھا اضافہ ثابت ہوگا[/highlight:tqmwgynq]
     
  14. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

    سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا فيصلہ کسی غير متعلقہ ملک کے خلاف کيا جانے والا جذباتی فيصلہ ہرگز نہيں تھا۔ حکومت کی ہر سطح پر کئ ماہ تک اس مسلۓ پر بحث کی گئ تھی جس کے بعد اجتماعی سطح پر يہ فيصلہ کيا گيا تھا۔ اس ايشو کا ايک تاريخی تناظر بھی ہے جسے اکثر نظرانداز کيا جاتا ہے۔ سال 1990 ميں کويت پر عراق کے قبضے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے 60 کے قريب قرارداديں منظور کی گئ تھيں۔ عراق ان ميں سے جن قراردادوں کی خلاف ورزی کا مرتکب تھا ان ميں قرارداد نمبر

    678،686،687،688،707،715،949،1051،1060،1115،1134،1137،1154،1194،1205،128،1441

    شامل ہيں۔ قرارداد نمبر 1441 ميں يہ واضح درج ہے کہ ان قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی صورت ميں عراق کے خلاف سخت کاروائ کی جاۓ گی۔

    http://daccessdds.un.org/doc/UNDOC/GEN/ ... penElement

    قرارداد نمبر 678 ميں اقوام متحدہ کی ماضی اور مستقبل ميں منظور کی جانے والی قراردادوں پر عمل درآمد يقينی بنانے کے ليے تمام اختيارات کی منظوری دی گئ ہے۔

    http://daccessdds.un.org/doc/RESOLUTION ... penElement

    اس قرارداد کے مطابق "کويت کی حکومت کی مدد کرنے والے تمام ممبر ارکان کو يہ اختيار ہے کہ وہ (1) اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 660 اور دیگر قراردادوں پر عمل درآمد اور کويت پر عراقی قبضے کو ختم کروانے اور عراقی افواج کی واپسی کو يقينی بنوانے کے ليے تمام اختيارات کو استعمال کرنے کے مجاز ہيں۔ (2) خطے ميں ديرپا سيکورٹی اور امن کے قيام کو يقينی بنايا جاۓ۔

    اس ضمن ميں ديگر بے شمار قراردادوں کے علاوہ سال 1991 ميں قرارداد نمبر 687 بھی منظور کی گئ تھی جس ميں عراق کی حکومت سے يہ مطالبہ کيا گيا تھا کہ وہ اپنے کيمياوی ہتھياروں (ڈبليو – ايم – ڈی) اور بالسٹک ميزائل کے بارے ميں مفصل حقائق سے اقوام متحدہ کو آگاہ کرے۔

    سال 1991 ميں اتحادی افواج کی کاروائ کے نتيجے ميں قرارداد نمبر 678 کے پہلے حصے پر عمل درآمد کروا ليا گيا تھا ليکن اس قرارداد کے باقی حصوں پر عمل درآمد نہيں ہوا تھا۔ کويت سے عراقی افواج کی پسپائ کے بعھ بھی اتحادی افواج اور عراقی افواج کے درميان جھڑپيں جاری رہيں۔ اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 678 نہ تو منسوخ ہوئ اور نہ ہی اس ضمن ميں منظور کی جانے والی ديگر قراردادوں ميں قرارداد نمبر 678 کے حوالے سے کوئ شرط عائد کی گئ۔ اس قرارداد کی رو سے امريکہ کو عراق کے خلاف طاقت کے استعمال کا اختيار حاصل تھا۔ اس کے علاوہ عراق کی حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کو کيمياوی ہتھياروں کے ضمن ميں معلومات کی فراہمی سے انکار سال 1991 ميں جنگ بندی کے خاتمے کے معاہدے اور منظور شدہ مينڈيٹ کی واضح خلاف ورزی تھی۔ عراق کی حکومت نے وہ شرائط پوری نہيں کی تھيں جن کا مطالبہ اقوام متحدہ کی جانب سے کيا گيا تھا۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم ۔
    حیرت ہے کہ امریکہ کو صدام کے خلاف قرار دادوں پر عمل درآمد کا خیال تو فورا آجاتا ہے۔ لیکن

    اسرائیل کے فلسطین پر جارحانہ قبضے کے خلاف یونائیٹڈ نیشنز کے فلور پر 1949 کی قراردادیں پاس کی ہوئی ردی کی ٹوکری میں چلی گئیں لیکن ان پر عمل درآمد کی توفیق کسی کو نہیں‌ہوئی ۔

    اور ہاں ۔۔۔

    حقیقت تو یہ بھی اٹل ہے کہ آج سے 2 دہائی کے قبل کے عراق (جب وہ صدام کے خطرے کے زیرسایہ پل رہے تھے) اور آج کے آزاد عراق (جب وہ امریکی استعمار کے وزارت دفاع کے زیر سایہ جی رہے ہیں) کی خوشحالی، امن و امان اور ترقی ، پوری دنیا پر واضح ہے :hasna:
     
  16. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی۔جزاک اللہ ۔حقیقت پسندانہ بات ہے،،،،،،،،آپ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریکہ کے ظالم واوباش حکمرانوں پر ذلت مسلط ہوچکی ہے
    یہ وہ کوگ ہیں جن پر خداکا قرآن آج سے سوچودہ سوسال پہلے لعنت کرچکاہے
     
  17. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

    اکثر اردو فورمز پرعراق اور افغانستان کی حکومتوں کو امريکہ کی "کٹھ پتلی" قرار دیا جاتا ہے۔ کيا آپ جانتے ہيں کہ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات ميں 8 ملين افغان ووٹرز نے اپنا حق راہے دہی استعمال کيا جس ميں 40 فيصد خواتين شامل تھيں۔ اسی طرح عراق حکومت کے جن عہديداروں کو "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جاتا ہے وہ 12 ملين عراقی ووٹوں کی بدولت برسراقتدار آۓ ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ وہ 12 ملين عراقی جنھوں نے موجودہ عراقی حکومت کو منتخب کيا ہے انھيں "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جا سکتا ہے ؟

    افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں ہر مذہبی فرقے اور سياسی جماعت کو نمايندگی کا برابر موقع ملا جو ان دونوں ملکوں کی تاريخ ميں ايک نۓ دور کا آغاز تھا۔ دونوں ممالک کے انتخابات اقوام متحدہ کی نامزد کردہ تنظيموں کے زيرنگرانی انتہاہی غيرجانبدارماحول ميں ہوۓ جن کے نتائج کی توثيق انٹرنيشنل کمیونٹی نے متفقہ طور پر کی۔ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات يورپی يونين کی جس ٹيم کی زير نگرانی ہوۓ تھے اس ميں اسپين، جرمنی، اٹلی، آئرلينڈ، پرتگال، برطانيہ، سويڈن اور ڈينمارک سے ماہرين شامل تھے۔ اس ٹيم کے ممبران کے مکمل تعارف کے ليے اقوام متحدہ کی ويب سائيٹ کا يہ لنک دے رہا ہوں۔

    http://www.eueomafg.org/Coreteam.html


    http://www.unv.org/en/what-we-do/countr ... t-the.html

    اسی طرح عراق ميں ہونے والے انتخابات اقوام متحدہ کے ادارے آئ – او – ايم کی زير نگرانی ہوۓ۔ اس حوالے سے مزيد معلومات کے ليے يہ ويب سائٹ لنک دے رہا ہوں۔

    http://www.iom-iraq.net/ocv.html

    اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گۓ ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جاۓ۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟ کيا جو لوگ آج عراق کے حکومتی نظام کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہيں انھوں نے صدام حسين کے نظام حکومت پر بھی تنقيد کی تھی؟


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔ فواد صاحب
    آپ اور آپکے ریسریچ سنٹر کی معصومیت اور سادہ دلی پر صدقے واری ہونے کو دل چاہتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں حرام خوروں کے لیے حرام موت کیوں مروں ۔ :hasna:
    الیکشن ڈرامہ ، انتخابات کا مکر و فریب، تیسری دنیا میں اور بالخصوص وہ ممالک جو براہ راست "امریکی وزارتِ دفاع" کے تحت چل رہے ہوں ۔۔۔ جس کا اعتراف کونڈالیزا رائس بھی کر چکی ہے۔ ایسے ممالک میں الیکشن کے نام پر کیا ڈرامے رچائے جاتے ہیں۔ اگر وہ آپکے ریسریچ سنٹر کو نہیں پتہ تو براہ کرم اپنے ادارے کا نام بدل کر " معصوم سنٹر" رکھ لیں۔ ریسریچ کو تو بدنام مت کریں۔ :hasna:
     
  19. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    بحث کو آگے بڑھانے کے ليے ہم کچھ دير کے ليے اس مفروضے کو درست تسليم کر ليتے ہيں۔ اگر امريکی حکومت اتنی طاقت ور اور بااثر ہے کہ دنيا کے کسی بھی ملک کے سياسی، معاشی اور معاشرتی نظام کو تبديل کر سکتی ہے تو تصور کريں کہ امريکی حکومت، امريکی صدر اور امريکی ايجنسيوں کی طاقت اور اثر رسوخ امريکہ کے اندر کتنا زيادہ ہو گا۔ ظاہر ہے کہ طاقت اور اختيارات کا آغاز تو آپ کے اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ اس مفروضے کے پيش نظر تو امريکی حکومتی اہلکاروں اور امريکی صدر کے اختيارات اور پاليسيوں کو امريکہ کے اندر چيلنج کرنا ناممکن ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جو انٹيلی جينس ايجنسياں دنيا کے کسی بھی ملک کی تقدير بدل سکتی ہيں ان کی موجودگی ميں امريکہ کے اندر کسی بھی قسم کے جرم کا ارتکاب قريب ناممکن ہوگا۔ ہم سب جانتے ہيں کہ حقيقت يہ نہيں ہے۔ آپ امريکہ کی تاريخ اٹھا کے ديکھ ليں،آپ کو ايسے انگنت کيس مليں گے جس ميں امريکی صدر سميت انتہائ اہم اہلکاروں کو نہ صرف يہ کہ احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا بلکہ عدالت کے سامنے پيش ہو کر اپنے اقدامات کی وضاحت بھی پيش کرنا پڑی۔

    حقيقت يہ ہے کہ امريکی حکومت اپنے ہر عمل کے ليے جواب دہ ہے۔ امريکہ کا آئين اس بات کو يقينی بناتا ہے کہ طاقت اور اختيارات محض چند ہاتھوں تک محدود نہ رہيں۔ ہر واقعے کو محض "بيرونی ہاتھ" اور "امريکی سازش" قرار دے کر اپنی قومی ذمہ داريوں کو نظرانداز کرنا ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن اس کا حقيقت سے کوئ تعلق نہيں ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  20. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    فواد صاحب۔ پاکستانی قوم اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہی ہے اور غافل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔

    لیکن آنے والے تاریخ دان بش کو انسانی تاریخ کا جنگلی اور وحشی چنگیز خان لکھنے والا ہے۔ آپ کی وفاداری اور آپکے سنٹر جیسے ہزاروں ریسریچ سنٹرز بھی امریکی قوم کے منہ سے یہ کالک دھونے سے قاصر ہوں گے۔ بالکل ویسی ہی کالک جیسی امریکہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسا کر اپنے جنگلی بربریت کا مظاہرہ کرکے اپنے منہ پر مل چکا ہے۔
    :hasna: :hasna: :hasna:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں