1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ابامہ : مسلمان کا بیٹا ہونے کے ناطے مسلمانوں کیلیے کیسا ہوگا

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏5 نومبر 2008۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم !!!
    جیسا کہ یہ امر کوئی راز نہیں کہ امریکہ کا نیا منتخب شدہ صدر باراک ابامہ نہ صرف یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر ہے ۔ بلکہ ایک اور تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اسکی رگوں میں ایک مسلمان کا خون دوڑ رہا ہے۔ ابامہ کا باپ ایک مسلمان تھا اور ابامہ کا دادا ایک پکا سچا اور باعمل مسلمان تھا جس نے بچپن انڈونیشا اور کینیا میں باقاعدہ دین اسلام سیکھا تھا ۔
    خود بارک ابامہ جب لاء پروفیسر تھا تو وہ اکثر اپنی گفتار اور تحاریر سے فلسطین کے مسلمانوں کے حوالے سے ہمدردانہ جذبات رکھنے والے شخص کے طور پر جانا جاتا تھا ۔ اور حالیہ الیکشن مہم میں بھی اس نے مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی جنگ آرائی کرنے کا عندیہ نہیں دیا ۔
    ابامہ اپنے ماضی کے حوالے سے ایک فیملی مین ، دیانتدار شخص ، بااصول سیاستدان اور قوتِ فیصلہ کے حامل لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
    لیکن جیسا کہ دنیا بھر میں جاری سیاست اور سیاستدان اپنے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اس لیے وہائٹ ہاؤس میں بطور صدر داخل ہونے کے بعد اسکی پالیسیوں، اصولوں میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا۔
    ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ابامہ کو اپنے فیصلے نافذ العمل کروانے کے لیے تقریباً 500 سیاسی راہنماؤں (کانگریس ممبران) کی اکثریت کو قائل کرنا ہوگا۔ جو کہ ایک مشکل کام ہے۔

    آپ کیا کہتے ہیں کہ ہم بطور مسلمان اور بالخصوص بطور پاکستانی مسلمان مجوزہ تبدیلی سے کیا توقعات و خدشات رکھ سکتے ہیں ؟ کیونکہ پاکستان کے عوام ، پاکستان کے حکمران امریکہ اور امریکہ کے حالات کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔

    آئیے۔ اپنے خیالات کا اظہار کیجئے ۔ کہ تبادلہء خیالات کسی بھی قوم کی ذہنی بالیدگی کی علامت ہوتا ہے۔
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    مجھے یہ سمجھ نہین آتی پاکستان کے حکمران کے تو دادا پردادا بھی مسلمان ‌ھوتے ھیں پھر بے چارے ا بامہ سے اتنی امیدیں کیوں :soch: :soch: :soch: :soch: :soch:
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خوشی جی ۔ امیدوں کی بات نہیں۔ بلکہ میں نے اوپر اپنے پیغام میں اس تبادلہء خیالات کی وجہ بھی لکھی ہے

    بدقسمتی سے ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کا قبلہ واشنگٹن کی طرف ہے۔ اس لیے وہاں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کا اثردیگر دنیا کے ساتھ ساتھ براہ راست پاکستان پر بھی پڑتا ہے۔ :237:
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    میں نے آپ کے بیان پہ نہیں کہا جنرل بات کی ھے سبھی ایسا ہی سوچ رھے ھیں‌ اس کے بارے میں
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    تو پھر اپنے خیالات کا کچھ اظہار کیجئے نا۔ کہ آپ کیسا سوچتی ہیں یا دنیا بھر پر بش کے جانے اور ابامہ کے آنے سے کیا اثرات واقع ہوسکتے ہیں وغیرہ وغیرہ
     
  6. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    نعیم بھائی آپ نے جو بات کی ہے اسکی توقع ساری دنیا خاص طور پہ مسلمان کر رہے ہیں۔ ابامہ کی رگوں میں ایک مسلمان کا خون تو دوڑ رہا ہے لیکن میرے خیال میں اگر اس کا تھوڑا سا حصہ اگر خالص عیسائی بھی ہے تو تاریخ میں اسکا نام نہ صرف پہلے سیاہ فام صدر کی جگہ بلکہ ایک بہترین پہلے سیاہ فام لیڈر کے طور پہ لکھا جائے گا۔۔ ابامہ کی باتوں سے احساس ہوتا ہے کہ ہر رات کا اختتام بالاخر صبح کے اجالے پہ ہوتا ہے۔ لیکن بات وہی کہ صرف اس کے اچھا کرنے اور کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔اسے کافی ممبران کو قائل کرنا ہو گا۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ کیا معلوم ایک دفعہ پھر تاریخ لکھی جائے اور میلکم ایکس شہباز یا Martin Luther King جیسا لیڈر امریکہ کے نصیب میں آنے والا ہو۔ لیکن دنیا میں ہر جگہ اچھے لیڈر کو بہت اچھا ہونے کے جرم میں کسی نہ کسی طرح مار دیا جاتا ہے۔۔۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ ابامہ کو ویسا ہی رکھے جیسا وہ ظاہری طور پہ ہے اور اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے اور مسلمانوں کے لیئے نجات دہندہ بنائے اور ویسی خوبیوں سے مالا مال بھی کر دے آمین ثم آمین!!! :dilphool:
     
  7. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    اپ لوگ بہھت اچھی باتین کرتے ہین
    اسی لیے مجھہیے یہ فورم ھماری اردو پسند ہے

    ابامہ دیکہھنے مین لگتا ھے کہ بھت اچھہا لیدر بنے گا ۔ دنیا تبدیل ہوجائےگا
    لیکن یہیودی لوگ سے بچنے کی بہھت ضرورت ھے۔ :yes:
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    الف بھائی ۔ غالباً لیدر سے آپکی مراد " لیڈر " ہے ۔۔۔ ہے نا ؟ :201:

    موضوع پر نظر کرم فرمانے کا شکریہ :dilphool:
     
  9. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    بہت اچھا اور نپا تلا تجزیہ ہے ۔
    میں اتفاق کرتا ہوں۔
     
  10. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ہمارے گھر کو ہمیشہ اپنے ہی چراغ سے آگ لگی ہے امریکہ یا اوبامہ میرے حساب سے ثانوی حیثیت ہے ان کی
     
  11. دستور
    آف لائن

    دستور ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اکتوبر 2008
    پیغامات:
    57
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    نعیم بھائی!
    بہت خوبصورت شیئرنگ کی آپ نے اور تجزیہ بھی خوبصورت ھے کیا آپ نے بہت خوب۔
     
  12. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    میرے خیال میں باراک حسین اوبامہ گوروں سے تو اچھے ہی ہوں گے
    لیکن ،آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا،کیونکہ اسلام دشمن ملک کا صدر بناہے ۔جن کا نصب العین ہی مسلمانوں کو ختم کرنا اور ان کا وجود نیست ونابود کرنا ہے
     
  13. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team –US State Department

    امريکہ سميت کسی بھی ملک کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ تمام سياسی، سفارتی اور دفاعی ضروريات کو نظرانداز کر کے مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسی ترتيب دے اور اور اسی بنياد پر ملکی مفاد کے فيصلے کرے۔ اردو فورمژ پر اکثر دوست يہ راۓ ديتے ہيں کہ امريکہ عالم اسلام کا دشمن ہے اور پاکستان کے ساتھ امريکہ کے تعلقات کی نوعيت اسی اسلام دشمنی سے منسلک ہے۔ اسی مفروضے کو بنياد بنا کر سياسی سطح پر ہر واقعے، معاہدے اور ملاقات کو "امريکہ کی اسلام کے خلاف سازشيں" کے تناظر ميں ديکھا جاتا ہے۔

    اگر مذہب کی بنياد پر خارجہ پاليسي کا مفروضہ درست ہوتا تو پاکستان کے صرف مسلم ممالک کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ اسی طرح امريکہ کے بھی تمام غير مسلم ممالک کے ساتھ بہترين سفارتی تعلقات ہونے چاہيے۔ ليکن ہم جانتے ہيں کہ ايسا نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ مسلم ممالک کے مابين بھی سفارتی تعلقات کی نوعيت دو انتہائ حدوں کے درميان مسلسل تبديل ہوتی رہتی ہے۔ امريکہ کے کئ مسلم ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات استوار ہيں۔ يہ بھی ايک حق‍یقت ہے کہ دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت زمينی حقائق کی روشنی ميں کبھی يکساں نہيں رہتی۔

    عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق راۓ کیا جاۓ جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوۓ يہ کيسے ممکن ہے کہ امريکہ درجنوں اسلامی ممالک ميں ايک بلين سے زائد مسلمانوں کو دشمن قرار دے اور صرف اسی غير منطقی مفروضے کی بنياد پر خارجہ پاليسی کے تمام امور کے فيصلے کرے۔

    اسلام اور امريکہ کے تعلقات کو جانچنے کا بہترين پيمانہ امريکہ کے اندر مسلمانوں کو ديے جانے والے حقوق اور مذہبی آزادی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر آپ دنيا پر ايک خاص سوچ يا مذہب کے بارے ميں ايک راۓ رکھتے ہيں تو اس کا آغاز اپنے گھر سے کريں گے۔

    امريکہ کے اندر اس وقت 1200 سے زائد مساجد اور سينکڑوں کی تعداد ميں اسلامی سکول ہيں جہاں اسلام اور عربی زبان کی تعليم دی جاتی ہے۔ امريکی معاشرے کی بہتری کے ليے مسلمانوں کو ديگر مذاہب کے لوگوں سے بات چيت اور ڈائيلاگ کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کی ترغيب بھی دی جاتی ہے۔ امريکی سپريم کورٹ نے قرآن پاک کو انسانی تاريخ ميں ايک اہم قانونی وسيلے کی حيثيت سے تسليم کيا ہے۔ امريکہ کے وہ دانشور اور رہنما جنھوں نے امريکی آئين تشکيل ديا انھوں نے کئ امور پر باقاعدہ قرآن سے راہنمائ لی۔ قرآن پاک کا انگريزی ترجمہ تھامس جيفرسن کی ذاتی لائبريری کا جصہ تھا۔ قرآن پاک کے اسی نادر نسخے پر کانگريس کے مسلم رکن کيتھ ايليسن نے حلف اٹھايا تھا۔

    مسلمانوں کو بحثيت مجموعی امريکی ميں کبھی اجتماعی سطح پر نسلی امتياز اور تفريق کا سامنا نہيں کرنا پڑا جيسا کہ کچھ اور طبقات کو کرنا پڑا ہے۔ امريکہ ميں سياہ فام افريقيوں کو ايک طويل جدوجہد کے بعد اپنے آئينی حقوق ملے تھے۔ خواتين کو ووٹ کا اختيار صرف ايک صدی پرانی بات ہے۔ اسی طرح پرل ہاربر کے واقعے کے بعد امريکہ ميں مقيم جاپانيوں کو باقاعدہ کيمپوں ميں قيد کيا گيا تھا جس کے بعد امريکہ دوسری جنگ عظيم ميں شامل ہوا۔ اس کے مقابلے ميں مسلمانوں کو گيارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اس ردعمل کا سامنا نہيں کرنا پڑا جس کی مثال ماضی ميں ملتی ہے حالانکہ 11 ستمبر کے واقعے ميں ملوث افراد نہ صرف يہ کہ مسلمان تھے بلکہ انھوں نے اپنے جرم کو قابل قبول بنانے کے ليے مذہب کا سہارا بھی ليا تھا۔ اس کے باوجود امريکی کميونٹی کا ردعمل مسلم اقليتوں کے خلاف اتنا سنگين اور شديد نہيں تھا۔ يہ درست ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ واقعات پيش آۓ تھے ليکن وہ انفرادی نوعيت کے تھے، اس کے پيچھے کوئ باقاعدہ منظم تحريک نہيں تھی۔

    آج بھی چند مواقع پرکانگريس کے سيشن کے آغاز ميں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے اہم رہنماؤں کو کسی متعلقہ معاملے ميں مسلمانوں کا نقطہ نظر کانگريس کی مختلف کميٹيوں کے سامنےپيش کرنے کے ليے باقاعدہ دعوت دی جاتی ہے۔ مسلمان ہر لحاظ سے امريکی معاشرے کا حصہ ہيں۔ ان کے پاس بھی معاشرتی حقوق اور ذمہ دارياں ہيں جو وہ بخوبی انجام ديتے ہيں۔

    ليکن اس کے باوجود امريکہ اور اسلام کے تعلقات کے حوالے سے اکثر سوالات اٹھاۓ جاتے ہيں۔ عام طور پر يہ سوالات جذبات کا اظہار اور الزامات کی شکل ميں ہوتے ہيں۔ مثال کے طور پر – امريکہ عالم اسلام کے خلاف جنگ کيوں کر رہا ہے؟ کيا مشرق وسطی ميں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کا ثبوت نہيں کا امريکہ تہذيبوں کی جنگ کو فروغ دے رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب ميں ميرا بھی ايک سوال ہے کہ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ پوری دنيا پر ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟

    ميرے نزديک يہ نقطہ بھی نہايت اہم ہے کہ امريکہ ميں اسلام کے تيزی سے پھيلنے کی وجہ يہ ہے کہ امريکہ ميں مقيم بہت سے تعليم يافتہ مسلمانوں نے اپنے مثالی طرز عمل اور برداشت کی حکمت عملی کے ذريعے غير مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کيا ہے۔

    آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ امريکہ اسلام کا دشمن نہيں ہے۔ عالمی تعلقات عامہ کی بنياد اور اس کی کاميابی کا انحصار مذہبی وابستگی پر نہيں ہوتا۔ اس اصول کا اطلاق امريکہ سميت تمام مسلم ممالک پر ہوتا ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  14. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :flor: :flor: :flor:




    ذرا ایک نظر--------------------اردو ادب/تلقین انقلاب
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم فواد صاحب !
    معاف کیجئے گا۔ لیکن آپ کا تجزیہ موضوع سے متعلق نہیں ہے۔ آپ نے ایک بار پھر اپنی نوکری پوری کی ہے۔
    ہمیں زیادہ خوشی ہوتی اگر آپ باراک ابامہ ، اسکا سیاسی پس منظر اور اسکی آئندہ پالیسیز اور منشور پر بات کرتے۔
    امید ہے آئندہ کے لیے آپ ایسا ہی مواد لے کے آئیں گے۔ شکریہ
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ایم اے رضا بھائی ۔
    مجھے آپ سے متعلقہ موضوع پر ان تین کلیوں :flor: :flor: :flor: کے علاوہ بھی بہت سی توقعات ہیں۔
    امید ہے آپ تفصیلی پیرائے میں کچھ اظہارِ خیال فرمائیں گے۔ شکریہ
     
  17. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    اس تھريڈ کے عنوان سے يہ واضح ہے کہ گفتگو کا محور مستقبل ميں مسلم ممالک کے حوالے سے اوبامہ کی پاليسياں ہے۔ ميں نےاسی تناظر ميں اپنی پوسٹ ميں يہ بات واضح کی تھی کہ ان کی پاليسياں جيسی بھی ہوں گی ان کی بنياد مذہب پر نہيں ہو گی۔

    دنيا کا ہر ملک خارجہ پاليسی بناتے وقت اپنے بہترين مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔ اس ميں اس وقت کے زمينی حقائق بھی ديکھے جاتے ہيں اور مختلف ممالک سے تعلقات اور اس کے دوررس اثرات اور نتائج پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ يہ حقيقت بھی پيش نظر رکھی جانی چاہيے کہ ہر نئ حکومت کی پاليسی پچھلی حکومت سے الگ ہوتی ہے اور زمينی حقائق کی بنياد پر ان پاليسيوں ميں تبديلی بھی آتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر 70 کی دہائ ميں پاکستان پيپلز پارٹی اور خود بھٹو صاحب امريکہ سے اچھے تعلقات کو پاکستان کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ ليکن 80 اور 90 کی دہاہی میں پاکستان پيپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کی اپنی بيٹی امريکہ سے اچھے تعلقات کی اہميت پر زور ديتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ پاکستان اور بھارت کے درميان تعلقات کی تاريخ ديکھيں تو ايسے ادوار بھی گزرے ہيں جب دونوں ممالک کے درميان جنگوں ميں ہزاروں فوجی مارے گۓ اور پھر ايسی خارجہ پاليسياں بھی بنيں کہ دونوں ممالک کے درميان دوستی اور امن کی بنياد پر ٹرينيں اور بسيں بھی چليں۔

    حقيقت يہ ہے کہ عالمی سياست کے تيزی سے بدلتے حالات کے تناظر ميں دنيا کا کوئ ملک يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ اس کی خارجہ پاليسی ہميشہ يکساں رہے گی اور اس ميں تبديلی کی گنجائش نہيں ہے۔

    کسی بھی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ايسی خارجہ پاليسی بناۓ جو سب کو مطمئن بھی کر سکے اور حقيقت کا تدارک کرتے ہوۓ سو فيصد صحيح بھی ثابت ہو۔ مثال کے طور پر آج امريکہ پر يہ الزام لگايا جاتا ہے کہ امريکہ کو عراق سے اپنی فوجيں فوری طور پر واپس بلوا لينی چاہيے۔ اگر ايسا ہو جاۓ تو عراق ميں امن ہو جاۓ گا اور انتہا پسند دہشت گردوں کی کاروائياں فوری طور پر ختم ہو جائيں گی۔ ليکن جب افغانستان کے مسلۓ پر بات ہوتی ہے تو پھر امريکی حکومت پر الزام لگايا جاتا ہے کہ القائدہ، اسامہ بن لادن، طالبان اور ان کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی کاروائيوں کا ذمہ دار امريکہ ہے کيونکہ افغانستان ميں روسی افواج کی شکست کے بعد امريکہ نے ان "مجاہدين" کو ان کے حال پر چھوڑ ديا اور افغانستان ميں ايک مضبوط حکومت کی تشکيل اور امن و امان قائم کرنے کے ليے اپنا رول ادا نہيں کيا جس کے نتيجے ميں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گيا۔

    جہاں تک مستقبل ميں امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو اس کا جواب يہ ہے کہ امريکہ ميں کوئ بھی حکومت برسراقتدار آۓ، وہ امريکی آئين ميں طے شدہ جمہوری اقدار اور عام انسان کی آزادی اور حفاظت کے حوالے سے کی جانے والی کسی بھی عالمی کوشش کی حمايت کرے گی۔ دہشت گردی کے ذريعے معاشرے پر اپنا تسلط قائم کرنے والے گروہ مستقبل کی کسی بھی امريکی حکومت کے ليے قابل قبول نہيں ہوں گے۔ امريکی حکومتی حلقے اس حقيقت سے بھی واقف ہيں کہ امريکی مفادات کا تحفظ اسی صورت ميں ممکن ہے جب عالمی برادری کے مشترکہ مفادات کو يکساں تحفظ فراہم کيا جاۓ۔ اس ضمن ميں پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات انتہائ اہميت کے حامل ہوں گے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم فواد صاحب ۔
    گوکہ عین موضوع پر ابھی بھی آپ نہیں‌رہے۔ اور زیادہ زور آپکا امریکہ کو " فرشتہ " ثابت کرنے پر ہی رہا ہے۔
    لیکن پھر بھی " موضوع " پر " کچھ " روشنی ڈالنے پر شکریہ قبول فرمائیے۔
     
  19. بجو
    آف لائن

    بجو ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2007
    پیغامات:
    1,480
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    اللہ کرے کہ وہ بہت اچھا ہو۔ اللہ مسلمانوں کی عزت رکھے، آمین! اور ابامہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
     
  20. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکی حکومت اور انظاميہ کے اراکين عقل کل ہيں يا ہميشہ درست فيصلے کرتے ہيں۔ ميں نے اکثر اپنی پوسٹ ميں يہ بات کہی ہے کہ يقينی طور پر غلطياں سرزد ہوئ ہيں اور ايسے فيصلے بھی کيے گۓ ہيں جو وقت گزرنے کے ساتھ غلط ثابت ہوۓ ہيں۔

    ميں صرف اس پس منظر، تاريخی حقائق اور تناظر کی وضاحت کرتا ہوں جن کی بنياد پر فيصلے کيے گۓ تھے اور پاليسياں مرتب کی گئيں۔ يہ نامکن ہے کہ غلطيوں سے پاک ايسی پاليسياں تشکيل دی جائيں جس سے دنيا کے سارے مسائل حل کيے جا سکيں۔ ايسا کرنا امريکہ سميت دنيا کی کسی بھی حکومت کے ليے ممکن نہيں ہے۔

    ليکن ميں اس بنيادی سوچ اور نقظہ نظر سے اختلاف رکھتا ہوں جس کے تحت ہر واقعہ، بيان اور پاليسی کو سازش کی عينک سے ديکھا جاتا ہے۔ يہ سوچ فہم اور منطق کے منافی ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  21. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم
    میرے خیال میں ابامہ ایک سیاستدان ہے۔ وہ بےوقوف جنگجو (بش) کی بجائے ایک سیاستدان نظر آتا ہے ۔ جو مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ ٹیکساس کے کاؤ بوائے اور شدت پسند ، دہشت گرد انتہا پسند بش گروہ اور اسکی یہودی انتظامیہ کے مقابلے میں ابامہ ایک بہتر انسان نظر آتا ہے ۔ کیونکہ میرے خیال میں گولی ، بم ، دہشت کی زبان استعمال کرنے والے انسان نہیں ہوتے بلکہ جانور ہوتے ہیں خواہ انکا تعلق کسی بھی مذہب، قوم یا ملک سے ہو۔

    ایک اور چیز جو مجھے مثبت نظر آتی ہے کہ ابامہ کا " تیل کا بزنس "‌نہیں‌ ہے اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی بھی تیل سے زرخیز زمین کو " ویپن آف ماس ڈسٹرکشن "‌ کا جھوٹا ڈرامہ رچا کر لاکھوں بےگناہوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنا بزنس چمکانے کی فکر نہیں کرے گا۔

    فی الحال یہ سب امیدیں ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔۔۔۔
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم نور العین بہن
    موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر شکریہ ۔ :dilphool:
     
  23. عاطف چوہدری
    آف لائن

    عاطف چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2008
    پیغامات:
    305
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آپ کو پتہ ہے مجیب منصور پیارے اسلامی بھاہی
    پچھے آپ دیکھ رہے ہو کہہ ہمیں رہے ہو

    اللہ اپنے نور سے لوگون کو ہداہت کی طرف بلاتا ہے
    تو جو اللہ کی آیات سے منکر ہوے ان کے لیے جہنم بڑھاکا دی گی ہے
    بہت تھوڑا وقت ہے جب زمین پٹ جایے گا اور آسمان کھل جایے گا
    اس وقت تم دیکھو گے اپنے کرموں کا پھل
    بے شک رب کا وعدہ سچا ہے
    صدق اللہ العظیم
     
  24. قاضی فہد
    آف لائن

    قاضی فہد ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2006
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ویسے تو میں مبتدی ہوں لیکن جہاں ساری دنیا میں اس موضوع پر اظہار کررہے ہیں میں بھی کچھ کہتا چلوں
    ویسے تو میں فواد بھائی سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن وہ بعد میں
    جیسا کہ سبھی ابامہ کی تاریخ و جغرافیہ سے واقف ہیں وہ مسلمان کا بیٹا ہے لیکن/
    امریکی جریدوں کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئیں ہیں ان کے مطابق وہ اپنے کو کٹر عیسائی کہلوانا پسند کرتا ہے نیز ابامہ میں بش جتنی ہٹ دھرمی بھی نہیں ہے کہ وہ امریکی کانگریس سے ایسے فیصلے پر اتفاق کروائے جو وہ چاہتا ہے۔چونکہ امریکی کانگریس کو ملک کی معیشیت اور سائنس و تیکنالوجی میں یہودیوں پر منحصر رہنا پڑتا ہے اس لحاظ سے اسلامی ممالک کے ساتھ سلوک یا پالیسی کے متعلق اکیلے ابامہ سے توقعات رکھنا مناسب (آسان( نہیں ہیں۔
    رہی بات اسلامی ممالک کے خلاف جنگوں کی تو اس سے امریکی عوام خود اوب چکے ہیں اور اسی کو مدعا بناکر ابامہ نے منزل حاصل کی ہے۔چونکہ امریکہ کو جنگ لڑنے سے نہیں بلکہ لڑانے سے فائدہ ہوتا ہے اس لیے اب ہوسکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
    ہماے یہاں ایک کہاوت پتھر سے بہتر نرم اینٹ کو ایسے ہی مواقع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
    آخر میں یہی کہوں گا اللہ رب العزت ابامہ کو اسلام کی طرف واپس لائے اور عالم اسلام میں امن و سکون عطا فرمائے
    اپنی رائے کی طوالت اور بے ربطی کیلئے معافی کا خواستگار ہوں
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم قاضی فہد بھائی
    آپ نے بہت عمدہ اور معلومات افروز تبصرہ کیاہے۔
    بہت شکریہ :dilphool:
     
  26. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

    اگر ميں آپ کی منطق صحيح سمجھ رہا ہوں تو اس کے مطابق صدر بش نے اپنی ذاتی تيل کی کمپنی کے ليے مالی فوائد حاصل کرنے کی نيت سے جان بوجھ کر عراق اور افغانستان کی صورت حال پيدا کی۔ پہلی بات تو يہ ہے کہ صدر بش ذاتی حيثيت ميں کسی تيل کی کمپنی کے مالک نہيں ہيں۔ دوسری اور سب سے اہم بات يہ ہے کہ امريکی آئين ميں درج قوانين کے مطابق امريکی صدر، نائب صدر يا کسی بھی سينير عہدے پر فائز کوئ بھی شخص اپنی ذاتی حيثيت ميں کسی بھی نجی کاروبار ميں فيصلہ کرنے کا مجاز نہيں ہوتا۔ اور اس ضمن ميں امريکی صدر سميت تمام عہدے داروں کو اپنے کمپنی شيرز اور کاروباری فيصلے کے اختيارات ايک "بلائنڈ ٹرسٹ" کے حوالے کرنے پڑتے ہیں۔ ان قوانين کا مقصد ہی يہ ہے کہ کوئ بھی شخص اپنے اختيارات کا ناجائز استعمال کر کے ايسے فيصلے نہ کر سکے جس کے ذريعے وہ ذاتی حيثيت ميں کاروباری فوائد حاصل کر سکے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
     
  28. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ابامہ کے الیکشن جیتنے اور بش کے جانے کی خبر سنتے ہی دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں واضح کمی ہوئی ہے۔ حتی کہ پاکستان جیسے ملک میں بھی تیل کی قیمت کم ہوئی ہے جہاں عام حالات میں قیمت بڑھنے کے بعد کمی کا تصور ہی ناپید ہے۔
    امید کی جاسکتی ہے کہ اگار ابامہ ذاتی طور پر اپنے اصولوں اور وعدوں پر قائم رہا اور اپنے منشور کے مطابق توانائی کے متبادل ذرائع پر عمل درآمد کر گیا تو دنیا کسی حد تک سکون کا سانس لینے کے قابل ہوجائے گی۔

    فی الحال کم از کم ایک ایک بےوقوف ، اکھڑ، دہشت گرد ، انسانیت کش اور انا پرست کاؤ بوائے بش اور اسکی خونخوار ٹیم سے تو کم از کم امریکہ اور دنیا کو نجات ملی ۔ اور یہ امر خود امریکی عوام کے لیے بھی باعث سکون ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

    فواد صاحب ۔ آپ ایک بار پھر موضوع سے ہٹ کر صرف اور صرف اپنے مالکوں کی رضا و خوشنودی کا حق ادا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انتظامیہ سے گذارش ہے کہ سنجیدہ موضوعات میں عنوان سے ہٹ کر پوسٹ پر کڑی نظر رکھی جائے تاکہ عنوان کا تسلسل برقرار رہے۔ شکریہ
     
  29. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    السلام علیکم۔ بہت اہم موضوع ہے اور ہر صاحبِ درد پاکستانی کو اس موضوع پر اظہارِ خیال کرنا چاہیے۔
    ایک کالم جو اسی موضوع پر تفصیلی انداز میں تحریر ہوا ہے۔ پیش خدمت ہے۔

    بارک اوباما سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں ؟
    سفیر احمدصدیقی

    جو لوگ یہ قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ 20 جنوری2009ء کو جب بارک اوباما امریکہ کے چوالیسویں صدر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اُٹھانے کے بعد وہ خالصتاً ماضی میں گزرے ہوئے صدور کے نقش قدم پر چلیں گے اور دنیا کو یہ باور کرانے میں ذرا بھی توقف نہیں کرینگے کہ دنیا اب بھی Uni-Polar ہے اور امریکہ اپنی بے پناہ فوجی وسائل اور طاقت کے نشے میں دنیا کے کسی کونے میں اپنی مرضی کا محاذ کھول کر وہاں کے لوگوں کو غلام بنانے پر مجبور کریگا اور وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے میں ذرا تامل نہیں کرے گا اور یہ کہ Quest for World Hegemony یعنی دینا پر امریکہ کے غلبے کی پالیسی ترک نہیں کریں گے۔ وہ یہ بھی تاثر دینے میں جھجک محسوس نہیں کریں گے کہ امریکہ کی پالیسیاں وہاں کی پالیسی ساز ادارے بناتے ہیں نہ کہ ایک شخص یعنی امریکی صدر کی مرضی سے بنائی جاتی ہیں۔ لیکن عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ لیڈر شپ کے بدلنے سے لامحالہ ایک تغیر جنم لیتا ہے اور قدرتی طور پر ہر امریکی صدر کی دماغی اپج یا ساخت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ چین کے عظیم رہنما ماوزے تنگ اور چواین لائی ایک منفرد لباس کو پہننے میں فخر محسوس کرتے تھے لیکن زمانہ بدل گیا۔آج کے حالات میں چینی لیڈر یورپی لباس زیب تن کرنا دنیا کے ساتھ قدم ملا کے چلنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران اوباما نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی غرض سے احمدی نژاد سے مصالحتی کوشش کرنے کے لئے مذاکرات کرنے پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ ایرانی صدر احمدی نژاد نے بارک اوباما کو صدر منتخب ہونے پر مبارک باد کا ایک طویل خط لکھا ہے۔ ایران۔ امریکہ تعلقات کی نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ بارک اوباما کا انتخابی نعرہ ”تبدیلی“ تھا اور وہ شاید صحیح معنوں میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اگر ایک لیڈر نے اپنی ہٹ دھرمی سے کرہ ارض کو جہنم کا نمونہ بنادیا تھا تو کوئی ضروری نہیں کہ ایک روشن خیال‘ انسانیت دوست منطقی دماغ رکھنے والا لیڈر اپنے پیش رو کی پالیسیوں پر کاربند رہنے کی حماقت کرے گا۔ یہاں میں اس کی ایک مثال دونگا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ اگر ایک لیڈر ہٹ دھرمی اور ضد پر اُتر آئے تو دوسرا لیڈر جس کو خالق کائنات نے سمجھ بوجھ کی صلاحیتوں سے نوازا ہو وہ اول الذکر لیڈر کی رائے ذہنی کیمسٹری‘ آئیڈیالوجی سے 100 فی صد اختلاف کرسکتا ہے۔ جنگ کوریا (1950-53) کے دوران کمیونسٹ شمالی کوریا کے ہاتھون امریکیوں کو ہرمحاز پر ہزیمت اٹھانی پڑی تھی ایک موقعے پر شمالی کوریا نے امریکیوں کو 50X60 میل طویل و عریض خطہ Pusan Perimeter میں محصور کردیا تھا اُس نازک موقعے پر ایک فیصلہ کن (Push) امریکیوں کو بحیرہ جاپان میں ہمیشہ کے لئے غرق کردیتا۔ امریکی جنرل میکارتھر اس جنگ سے بہت پریشان تھے اور اُنہوں نے امریکی صدر پر دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ چونکہ چین شمالی کوریا کی کھلم کھلا نہ صرف سیاسی اور اخلاقی حمایت کررہا ہے بلکہ فنڈ‘ لاجسٹک‘ اسلحہ‘ کمک بھی فراہم کررہا ہے تو کیوں نہ امریکہ‘ جاپان کی طرح چین کے ایک دو شہروں پر ایٹم بم گرادے۔
    میکارتھر کے صحیح لفظ یہ تھے We should nuke main land china لیکن ٹرومین ایک متحمل مزاج‘ ذہین‘ عافیت اندیش اور دور رس نتائج اور عواقب سے شعوری بیداری کی حامل شخصیت تھے۔ انہوں نے میکارتھر کی اس ضد کے آگے ہتھیار نہ ڈالے۔ اس ایشو پر ویک آئی لینڈ میں دونوں کی تکرار بھی ہوئی بعدازاں ہیری ٹرومین نے میکارتھر کو برطرف کردیا۔ 55 سال گزرگئے جنوبی کوریا میں تعینات 47 ہزار امریکی ٹروپس 38 Parallel کے اُس جانب شمالی کوریا کی فوج پر ایک گولی بھی نہیں چلاتے۔ وہاں نہ جنگ ہے نہ امن بلکہ Stalemate ہے۔ لیکن ٹرومین نے چین پر ایٹم گرانے سے گریز کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک مشہور امریکی صدر فرینکن روز ویلٹ جو عقل و فہم سے عاری تھا اُسنے بنی نوع انسان پر انسانی تاریخ کا سب سے بھیانک اسلحہ یعنی ایٹم بم گرادیا۔ جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی چشم زدن میں راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ تقریباً 2 لاکھ جاپانی بھاپ ہوگئے جو بچ گئے وہ زندگی بھر کے لئے اپاہج ہوگئے۔ کیا ہم اسے Holocaust سے تعبیر نہیں کرسکتے۔ الیکشن کے حوالے سے بارک اوباما کا سب سے مضبوط پوائنٹ یہ تھا کہ انہوں نے عراق کی جنگ کی مخالفت کی تھی جب کہ ہلری کلنٹن نے بش کے اقدام کی حمایت کی تھی۔ بارک اوباما دل ہی دل میں جانتے تھے کہ عراق جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے کوسوں دور ہے اور بش کا یہ پروپیگنڈہ کہ عراق کے پاس WMD (وسیع پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیار) ہے مبنی بر حقیقت نہیں تھا۔ علاوہ ازیں IAEA کی رپورٹ کے مطابق ایسے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے تھے جسے بنیاد بنا کر کہا جاسکتا تھا کہ عراق کے پاس WMD ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بارک اوباما نے اصولی بنیادوں پر سچ بولنے پر اکتفا کیا اور عراق پر فوج کشی کے منصوبے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ اُس کی پرزور مخالفت کی اور یہی وہ نازک لمحہ تھا جب اصولی طو رپر ڈیموکریٹ کی نظر میں ہلری کلنٹن کے مقابلے میں اوباما کی مقبولیت کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا گیا۔ بارک اوباما نے کبھی یہ نہیں کہا کہ افغانستان کی سنگلاخ چٹانوں سے افغان مزاحمتی طالبان کو باہر نکالنے کے لئے "We will gas them out" یا اپنی 20 ماہ پر محیط انتخابی مہم میں اوباما نے افغانستان اور عراق میں جنگ کے حوالے سے یہ کبھی نہیں کہا ”صلیبی جنگ ہے“ ۔ اکیسویں صدی کے سب سے سفاک و ظالم‘ ضدی شخص نے عراق میں چھ لاکھ مسلمانوں کو درندگی سے قتل کرکے ہلاکو اور چنگیز خان کو بھی مات کردیا اور افغانستان کے حوالے سے اوباما نے بش کی طرح القاعدہ‘ القاعدہ کا نعرہ نہیں لگایا اور نہ ہی اُس نے اُسامہ بن لادن کو زندہ یا مردہ پکڑنے کا ڈھونگ رچایا۔ کشمیر پر اوباما کی رائے منظر عام پر آچکی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر جو عالمی امن کے لئے ایک Flash Pvint کا درجہ رکھتا ہے مذاکرات کی میز پر حل کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بل کلنٹن کا نام تجویز کیا ہے کہ وہ انہیں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے امن کا سفیر بنا کر بھارت اور پاکستان روانہ کریں گے۔ وہ وادی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی سے بھی پوری طرح باخبر ہیں۔امریکہ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی معیشت کے پس منظر میں اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بارک اوباما کی اولین ترجیح یہ ہوگی کہ وہ اپنے ملک کو اقتصادی تباہی سے بچائیں تاکہ تاریخ اُنہیں ایک مسیحا‘ مدبر‘ دور اندیش لیڈر کے طور پر یاد کرے۔ جس طرح ابراہم لنکن کو امریکہ میں غلامی کو ختم کرنے کی جدوجہد کے لئے یاد کیا جاتاہے۔ کہتے ہیں کہ بش نے اپنی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عراق اور افغانستان کی جنگ کا آغاز کیا۔ نتیجتاً امریکہ کے خزانے سے 3 ٹریلین ڈالر ان دونوں جنگوں میں جھونکا جاچکا ہے۔ امریکہ ان دنوں 30ء کی دہائی والے کساد بازاری سے گذررہا ہے۔ لہٰذا اوباما ڈیموکریٹ ہونے کے ناتے جلد ہی بل کلنٹن کی پالیسیوں پر گامزن ہوجائیں گے۔ بل کلنٹن نے ہمیشہ ایک ہی نعرہ لگایا تھا It is Economy stupid ۔ یعنی کسی ملک کی ترقی کا سارا انحصار اُس کی معیشت پر ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اپنی بگڑتی ہوئی معیشت کو دوام بخشنے کے لئے اوباما ایک اچھی لیڈر شپ کا ثبوت دیتے ہوئے پہلے عراق اور پھر افغانستان سے نیٹو اور امریکی فوجوں کا انخلاء شروع کروادیں گے ۔ ان دونوں خطوں میں خود بخود امن اور استحکام لوٹ آئے گا۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء سے پاکستان کے شمالی علاقے بھی امن کا گہوارہ بن جائیں گے۔ یہ دن بدن کے ڈرون سے کے حملوں کا سلسلہ ہمیشہ ختم ہوجائے گا جو لوگ قنوطیت پسند ہیں انہیں ویتنام سے سبق لینا چاہئے کہ بالآخر امریکہ 59000 لاشیں چھوڑ کر ویتنام چھوڑ نے پر مجبور ہوگیا تھا۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے "There is always a silver lining above the dark cloud" بارک اوباما نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ صدر بنتے ہی گوانتاناموبے میں واقع انتہائی اذیت ناک اور ہیبت ناک عقوبت خانے ہمیشہ کیلئے بند کردیں گے اور زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے وہاں کے باسیوں کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق دیا جائے گا اور اس طرح انسانیت کی تذلیل کا یہ تاریک باب بھی ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق کا ایک حصہ بن جائے گا۔ علاوہ ازیں گوانتاناموبے درحقیقت کیوبا کی سرزمین ہے جسے امریکہ نے طاقت کے بل بوتے پر اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے۔ کیا بارک اوباما ٹھنڈے دل سے اس ناجائز قبضے کے بارے میں نہیں سوچ سکتے اور کیوبا کی ملکیت کیوبا کے حوالے کرکے تاریخ میں اپنا مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ یکم اگست 2007ء کو اوبامانے وڈرو ولسن سینٹر میں ایک اہم پالیسی اسٹیٹمنٹ دی تھی جو کچھ اس طرح ہے اور ہمیں اس کا بھی تجزیہ کرنا چاہئے۔
    "We will wage the war that has to be won, with a comprehensive strategy with five elements:
    getting out of Iraq on to the right battle-field in Afghanistan and Pakistan; developing the capabilitiies and partnerships we need to take out the terrorasts and the worid's most deadly weapons; engaging the world to dry up support for terror and extremism; restoring our values; and securing a more resilient homeland."
    مندرجہ بالا بیان سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اوباما عراق سے فوجوں کا انخلاء کرکے اپنی تمام تر توجہ افغانستان اور پاکستان میں مرکوز کردینا چاہتے ہیں اور وہاں وہ دہشت گردوں کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ چاہتے ہیں اور دنیا کے سب سے مہلک ہتھیار کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔ بین السطور میں اُن کا اشارہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے کی طرف ہے۔ اگر اوباما نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو وہ کینیڈی کی طرح فاش غلطی کے مرتکب ہوں گے۔ لہٰذا Invasion of Pakistan کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ تیسری جنگ عظیم کی تیاری کررہا ہے لیکن اوباما دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ آیئے دیکھیں وہ اپنی ابتدائی تقریر (Inaugration Speech) میں کس قسم کے امریکہ اور ورلڈ آرڈر کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
    "And to all those who have wondered if America's beacon still burns as beighttonight we proved once more that the true strength of our nation comes not from the might of our arms or the scale of our wealth, but from the enduring power of our ideals: democracy, liberty, opportunity, and unyielding hope."

    ریفرنس :روزنامہ جنگ ادارتی صفحہ
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    وسیم بھائی ! السلام علیکم !
    بہت دنوں بعد آپ تشریف لائے ہیں۔

    اس سیر حاصل مضمون کی شئرنگ کے لیے بہت شکریہ
    جی خوش ہوگیا یہ سطور پڑھ کر۔ بہت زبردست !!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں