1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آٹھ ہزار برس قدیم باغات

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    آٹھ ہزار برس قدیم باغات
    upload_2019-6-19_3-27-58.jpeg

    رضوان عطا

    بابل کے معلق باغات دور قدیم کے سات عجائبات میں شامل ہیں۔ ان کا نام جس یونانی لفظ سے اخذ ہوا ہے اس کے معنی ’’آگے کو نکلے یا لٹکے ہوئے‘‘ باغات ہیں۔ غالباً یہ معلق نہیں تھے بلکہ مختلف بلندیوں اور سطحوں پر اگائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دریائے فرات کے کنارے آباد عراقی شہر حلہ کے قریب واقع تھے تاہم مذکورہ سات عجائبات میں سے صرف یہی باغات ہیں جن کا مقام حتماً طے نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اسی طرح کے باغات دریائے دجلہ کے کنارے، مشرقی ترکی میں اس کے ماخذ کے نزدیک آج بھی موجود ہیں اور اندازاً آٹھ ہزار برس قدیم ہیں۔ انہیں ہیوسل کے باغات (Hevsel Gardens) کہا جاتا ہے۔ نویں صدی قبل مسیح کی آرامی (Aramean) دستاویزات میں سب سے پہلے ہیوسل کے باغات کا ذکر ملتا ہے۔ دورقدیم میںانہیں مقدس سمجھا جاتا تھا۔ یہ باغات ترک کردوں کے اہم ترین شہر دیارباقر سے منسلک ہیں۔ پرانا دیار باقر شہر بہت بڑی فصیل کے اندر ہے۔ دریا اور فصیل کے درمیان سیکڑوں ہیکٹر زرخیز زمین ہے جس پر ہزاروں برس قبل یہ باغات اگائے گئے تھے۔ شہر کے گرد دفاعی مقاصد کے لیے دراصل دہری فصیل تعمیر کی گئی تھی۔گویا دو قلعے بنائے گئے، ایک بیرونی اور دوسرا اندرونی۔ دیوارِ چین کے بعد دورِ قدیم میں دفاعی مقصد کے لیے بنائی گئی یہ سب سے طویل فصیل یا دیوار ہے۔ نسبتاً اونچی سطح پر آباد دیار باقر شہر ان باغات سے بھی قدیم ہے۔ اس شہر کا ابتدائی نام ’’آمید‘‘ تھا اور یہ نام آج بھی مقامیوں میں رائج ہے۔ یہ شہر ہیلیائی دور ( سکندرِ اعظم کی موت سے رومی سلطنت کے قیام تک) اور رومی، ساسانی، بازنطینی اور اسلامی و عثمانی سلطنتوں میں اہم رہا۔ ہیوسل کے باغات شہر اور دریا کے درمیان ڈھلوانی زمین پر پانچ سطحوں پر اگائے گئے جو دریا کے رخ میں تبدیلی اور انسانی کاوشوں سے وجود میں آئیں۔ یہ باغات حملہ آوروں کا بھی نشانہ بنے، مثلاً 866 قبل مسیح میں آشوری بادشاہ آشورناصرپال دوم نے اس کا محاصرہ کیا اور قبضہ کرنے کے بعد بطور سزا باغات کو نقصان پہنچایا۔ سترہویں صدی کے وسط تک کے شواہد کے مطابق یہ باغات دریائے دجلہ کے دونوں کناروں پر تھے۔ اس دور میں جنہوں نے انہیں دیکھا، وہ بتاتے ہیں کہ یہ خوشبودار و پھل دار درختوں اور انگور، کالی تلسی وغیرہ سے اٹے ہوئے تھے۔ نویں صدی عیسویں میں یہاں آنے والے سیاحوں نے مختلف الانواع سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے تربوز، انگور، خوبانی اور ایک مشہور تربوز کے بارے میں بتایا جو دریا کے درمیان ایک ریتلے جزیرے پر اگتا تھا۔ ان باغات میں سبزیوں کے کاشت کے علاقوں کو پاپولر اور پھل دار درختوں کی مدد سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ شہر میں ریشم کی صنعت کے لیے شہتوت کے درخت اگائے جاتے تھے۔ یہاں سے لکڑی تختوں پر دریا کے بہاؤ کے ساتھ صوبہ موصل پہنچائی جاتی تھی۔ آج ان باغات کا ایک تہائی پاپولر اگانے کے کام آتا ہے۔ اس کے علاوہ بند گوبھی، پالک، سلاد پتہ، مولی، سبز پیاز، سلاد آبی، ٹماٹر، مرچیں، دالیں، آڑو، خوبانی، چیری، کھمبیاں وغیرہ کو کاشت کیا جاتا ہے۔ قلعے اور باغات کی تاریخی اہمیت کے پیشِ نظر دونوں کو 2015ء میں یونیسکو کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں