1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آئیے کوئی رہنما ڈھونڈیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زاہرا, ‏6 جنوری 2007۔

  1. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ہماری اردو پیاری اردو کے صارفین کے لیے ایک لڑی بنانے کا خیال اس لیے میرے ذہن میں آیا کیونکہ اکثر لڑیوں میں ہم اپنی زبوں حالی کا رونا روتے روتے لڑی کے آخر پر پہنچ کر کوئی رہنما نہ ملنے کی شکایت کر کے چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ ہم اپنے موجودہ رہنماؤں میں سے کچھ اچھے رہنماؤں کا تذکرہ کریں۔ تاکہ مختلف لوگوں کی رائے سے انکی اچھائیاں اور برائیاں سامنے آ سکیں اور شاید ہمیں بہتر بلکہ دستیاب لیڈرز میں سے بہترین رہنما ڈھونڈنے میں مدد مل سکے۔

    کیونکہ انسانی معاشرہ میں رہنما کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ رہنما ہی انسانوں کے ایک جم غفیر کو نظم و ضبط دے کر ایک انسانی معاشرہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ ورنہ انسانوں کے ہجوم اور بھیڑوں کے جتھے میں شاید کوئی فرق نہ ہو۔

    یہ بھی واضح کر دوں کہ کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ہے۔ یقیناً اکثر لوگوں کی کسی نہ کسی جماعت ، کسی نہ کسی لیڈر کے ساتھ کوئی تعلق یا عقیدت ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں عقل و دانش استعمال کرتے ہوئے ، برداشت اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایکدوسرے کے ساتھ دوستانہ ماحول میں ایک مثبت مذاکرہ کر سکیں۔ اور شاید کسی بہتر نتیجہ پر بھی پہنچ سکیں۔

    میں بات شروع کرتی ہوں

    عمران خان موجودہ سیاستدانوں میں بہتر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اسکی دال گلتی نظر نہیں آ رہی۔ اور وہ بھی کبھی کسی کے ساتھ کبھی کسی کے ساتھ بیٹھتا نظر آتا ہے۔ دوسرے اسکو اسلامی قوانین پر دسترس حاصل نہیں ہے۔ اگر وہ قوت میں آ بھی جاتا ہے تو وہ ملک کو منصفانہ نظام تو شاید دے دے لیکن کلیتاً نظامِ مصطفوی کا نفاذ اسکے بس میں نہیں ہو گا

    یا پھر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب تھے۔ جدید و اسلامی علوم پر کمال دسترس رکھنے والے اور اسلامی دنیا کو آج کے جدید دور کے ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھنے والی شخصیت۔ پھر انکے پاس پاکستان بھر میں ایک اچھا عوامی تنظیمی نیٹ ورک بھی تھا۔ جو کہ انہیں ہر طرح کی تحریک کے لیے اچھی بنیاد فراہم کر سکتا تھا۔
    لیکن انہیں پتہ نہیں کیا ہوا ؟ اچھے بھلے اسمبلی میں پہنچ کر ، جب قوم کو جگانے کا وقت آیا تو استعفی دے کر کہیں گوشہ نشین ہو گئے۔

    جنرل مشرف اپنے اوائل دور میں کافی ترقی پسند اور مخلص نظر آئے لیکن امریکہ کی دہشت انکے قلب و ذہن پر کچھ ایسی چھائی کہ وہ بھی روائتی سیاستدانوں کی طرح جھوٹ، منافقت اور مفاد پرستی کی سیاست پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ بلکہ ملٹری ڈکٹیٹر ہونے کے ناطے وہ بہت سے ایسے خطرناک اقدامات کر رہے ہیں جو ہماری آئندہ نسلوں کے لیے اور پاکستان کی نظریاتی سلامتی کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
    اگر آپ کے ذہن میں کوئی اور قابلِ ذکر شخصیت یا رہنما ہو تو آپ بھی یہاں اپنے خیالات لکھیے تاکہ ہمیں اچھے برے کی پہچان میں مدد مل سکے‌
     
  2. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    بہت فکرانگیز موضوع ہے ۔ اور زاہرا جی آپ کا بہت اچھا تجزیہ ہے۔

    میرے خیال میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ یہ دونوں شخصیات ایسی ہیں جن کا دامن صاف اور لب و لہجہ کافی انقلابی ہے۔ اسکے علاوہ نوجوان نسل بھی ان دونوں کو بہت پسند کرتی ہے۔
     
  3. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    دلچسپی کا شکریہ عقرب صاحب۔
    لیکن میں چاہتی تھی کہ باقی سب لوگ بھی دیگر پسندیدہ رہنمایان کے مثبت و منفی پہلو یہاں پر اجاگر کریں تاکہ ہم سب کسی اچھے نتیجے پر پہنچ سکیں۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    زاہرا جی !

    بہت نازک لیکن دلچسپ موضوع ہے۔

    اگر ہم پچھلے دو یا تین عشروں میں پاکستانی سیاست پر نظر دوڑائیں تو چند نام بہت نمایاں ہو کر رہنماؤں کی فہرست میں جگہ بناتے نظر آتے ہیں۔

    سندھ میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ کی تحریک کا آغاز کیا۔ چونکہ اسکا نام ہی معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کے حقوق کی نگہبانی کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اس لیے بعد میں نام تبدیل کرنے کے باوجود وہ درحقیقت تاحال مہاجروں ہی کی نمائندہ جماعت ہے۔ نشیب و فراز سے سبق سیکھنے کے بعد موجودہ جنرل مشرف صاحب سے اپنا حصہ وصول کر کے ایک پریشر گروپ کے طور پر محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بانی تحریک الطاف حسین صاحب بلا عذر سالہا سال سے انگلینڈ میں زندگی گذار رہے ہیں۔ ہندوؤں سے خطاب کرنے ہندوستان تشریف لے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اپنے ہی ورکروں سے خطاب کے لیے صرف ٹیلیفون ہی پسند فرماتے ہیں۔
    مجھے نہیں لگتا کہ بغیر کسی خفیہ طاقت کے اشارے کے اور بغیر کسی سیڑھی کے کبھی ایک وفاقی جماعت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    کرکٹ کے میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد، شوکت خانم میموریل ہسپتال سے عوامی نجات دہندہ کے روپ میں نظر آنے والے عمران خان بلاشبہ ایک باہمت، باصلاحیت، اور مستقل مزاج شخصیت کا نام ہے۔ انکے پرستار بھی ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہیں۔ اور ان میں سے بہت سے انکی تحریک انصاف میں انکے شانہ بشانہ چل بھی رہے ہیں۔ میدان سیاست میں بدقسمتی سے قابل توقع کامیابی انکے حصے میں نہ آسکی۔ جس کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ انکی شادی بھی لی جاسکتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ نقطہ تھا جس سے انکے مخالفین کو عمران خان کے یہودیوں کے ساتھ تعلقات یا انکی پشت پناہی کا زہریلا پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ملا ۔ اور پھر بعد ازاں میدان سیاست کے اوائل دور میں ناکامی کے بعد انکی بیوی کی علیحدگی نے گویا اس پروپیگنڈہ پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
    تاہم عمران خان اپنے کرکٹ کیرئر، کینسر ہسپتال اور اپنی گفتگو سے آج بھی ایک محب وطن پاکستانی رہنما نظر آتے ہیں۔ اور میں انکا دل سے احترام کرتا ہوں۔
    اگر ہم پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان سمجھ کر ایک لیڈر کا انتخاب کرنا چاہیں تو یہاں عمران خان کی ذات میں ایک منفی پہلو نظر آتا ہے کہ دین پر انکا مطالعہ اتنا وسیع نہیں ہے۔ اسکے لیے انہیں کسی نہ کسی دینی رہنما یا ادارے سے رائے لینا ہوگی اور یوں اگر وہ کبھی اقتدار میں آ بھی جاتے ہیں تو ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کے لیے انہیں پھر سے دینی طاقتوں کا دست نگر ہونا پڑے گا جس میں انکے استعمال ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

    لیکن اپنے کردار کے باعث اگر عمران خان اور موجودہ اسمبلی ممبران میں سے کسی کو ووٹ دینا پڑے تو میرا انتخاب عمران خان ہوں گے۔

    80 کی دہائی میں ایک بہت بڑا نام ڈاکٹر طاہر القادری کا نظر آتا ہے۔ جنہوں نے پاکستان کے متوسط طبقے سے تعلق ہونے کے باوجود، پنجاب یونیورسٹی کی پروفیسر شپ سے لے کر پی ٹی وی کے فہم القرآن اور اسکے بعد منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔ منہاج القرآن کے لاکھوں وابستگان کا نیٹ ورک گو دنیا کے مختلف ممالک میں ہے۔ لیکن پاکستان میں بھی انکا تنظیمی نیٹ ورک پورے پاکستان میں نظر آتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ Base پنجاب میں کرتے ہیں اور یہاں انکا کام بہت زیادہ ہے۔
    تحریک کے اندر فکر انقلاب ہونے کے ساتھ ساتھ کارکنان کے اندر جوش و جذبہ بھی بخوبی دکھائی دیتا ہے۔ اسکا مظاہرہ تقریباً انکے ہر قومی اجتماع میں ہوتا ہے۔
    سیاست کے اندر وہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔ اسکے پیچھے بے شمار وجوہات ہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ سیاست سے علیحدگی کے باوجود انکی تحریک کا کام رکتا نظر نہیں آتا۔ انکے روحانی اجتماعات پہلے سے بھی بڑے ہوتے نظر آتے ہیں۔ ریسرچ ورک اور تعلیم و تدریس میں انکے شاگردان پاکستان کے کونے کونے میں پھیلتے نظر آتے ہیں۔ اور ڈاکٹر صاحب کی فکرِ انقلاب کو وہ ہر خاص و عام تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ اگر وہ اسی جانفشانی اور منظم انداز میں دعوت کا کام جاری رکھتے ہیں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ چند برسوں تک ایک بار پھر بھرپور عوامی قوت کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔

    لیکن پھر بھی اگر ہم رہنما سے مراد “راہ دکھانے والا“ ہی لیں تو ڈاکٹر طاہر القادری ہر طرح سے ایک عظیم رہنما کے طور پر نظر آتے ہیں۔ اس بات سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے انکار نہیں‌کیا جاسکتا

    جنرل مشرف کو تو رہنمایان کی فہرست میں شامل کرنا ہی ظلم و زیادتی ہے۔ امریکہ بہادر کی کٹھ پتلیوں کو بھی اگر ہم اپنے عوامی رہنما ہی سمجھنا شروع کردیں تو ہماری سوچ پر اناللہ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ میری اپنی ایک کھٹی میٹھی غزل کا ایک شعر تھا۔

    یہ کیا معیار باندھا ہے یہاں گندی سیاست نے
    کہ توپوں کے دہانوں سے یہاں رہبر نکلتے ہیں​
     
  5. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں​

    رہنما ایسے نہیں ملا کرتے جیسے آپ لوگ تلاش کرتے پھر رہے ہیں ہر کسی کو حق ہے کہ اپنی مرضی سے کسی کو اپنا ہیرو اور لیڈر مانے۔ کسی کے کہنے سے تو کوئی ہیرو نہیں بن جاتا۔
    اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ کسی ایک شخص کی تعریف کرتے رہیں اور لوگ محض آپ سے اتفاق کرتے رہیں۔
    طاہرالقادری صاحب ایک اچھے عالم دین ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔ ایک زمانہ ان کے علم کا معترف ہے۔ یہاں بھی جب ہم پیاجی کے پیغامات میں ان کی تحریریں پڑھتے ہیں تو دل بہت خوش ہوتا ہے۔ اللہ انہیں اس بھی بڑھ چڑھ کر اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے
     
  6. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    بہت اچھی بحث چل رہی ہے لیکن آپ سب کی نظروں‌میں صرف دو ہی لیڈر دیکھ کر حیرانگی ہوئی ہے

    آخر طاہر القادری اور عمران خان ہی کیوں‌

    آپ کو معلوم ہے کہ پچھلے الیکشنز میں ان دونوں‌نے کتنی سیٹیں حاصل کی ہیں

    میری معلومات کے مطابق ایک ایک سیٹ ہی حاصل کر سکے

    طاہر القادری صاحب کو تو ان کی جائے پیدائش سے بھی سیٹ نہیں‌ملی ۔۔۔۔۔ ۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کو سارے ملک کا حکمران بنا دیا جائے، اور سننے میں آیا ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر برطانیہ جا چکے ہیں ، وہی کام ہوا نا جو بینظیر نے کیا اور الطاف حسین نے

    اور عمران خان کو تو اسلام کا پتا ہی نہیں میرے خیال سے ، اس سے تو موجودہ لوگ ہی ٹھیک ہیں ۔۔۔۔۔


    مصیبت یہ ہے کہ جو بھی حکمران بنتا ہے ،، کرسی پر پہنچ کر سب کچھ بھول جاتا ہے کہ اس نے عوام سے کیا وعدے کیے تھے ۔۔۔۔۔۔۔

    الیکشنز میں جو جیتتا ہے اس وقت کافی اچھا لگتا ہے اگلے مہینے دورہ امریکہ کے موقع پر اس کا ستیاناس ہو چکا ہوتا ہے ‌
     
  7. حماد
    آف لائن

    حماد منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    402
    موصول پسندیدگیاں:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    اصل توجہ طلب بات یہ ہے کہ عوام جس بھی لیڈر کو سامنے لائیں کیا معلوم وہ امریکہ یاترا کے بعد کیا روپ دھارے۔ تو اب عوام کس پر اعتماد کریں؟
     
  8. شیرافضل خان
    آف لائن

    شیرافضل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2006
    پیغامات:
    1,610
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    یہاں ابتداء ہی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کا مسئلہ اسلام کی کمی ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ایسا راہنما چائیے جو عالم دین ہو ۔ کیا موجودہ اسمبلیوں میں موجود علمائے دین اسلام کی کوئی خدمت کر سکے ہیں؟ اور ہر پاکستانی کی یہ اولین خواہش دکھائی دیتی ہے کہ وہ اسلام کو دوسروں پر نافذ کرے ، جیسے خود اپنی ذات کے لیے وہ استثنٰی حاصل کر چکاہو ۔نماز کو دین کا ستون کہا گیا ہے تو کتنے لوگ ہیں جو اس ستون کو قائم کر کے دین کو استحکام دینے کا کام انجام دیانتداری سے کر رہے ہیں ۔ کتنے ہیں جو حئی علی الصلوۃ کی آواز پر اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر مسجد کا رخ کرتے ہیں ۔ کیا یہ بھی کوئی راہنما آکر کرے گا ، اگر ہاں تو پھر جنرل ضیاء الحق کی صلوۃ کمیٹیاں اور وہی نظام حکومت اور اسی جیسے کسی راہنما کا نقشہ ملے گا ۔
    ہمارے ملک کو ضرورت ہے جمہوریت کی اور وہ بھی حقیقی نہ کہ اوپر سے ڈکٹیشن لینے والی ۔ جمہوریت نام ہے نظام کا نہ کہ شخصیت کا ۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ایک ہی شخص میں آپ کو سیاست، مذہب،معاشیت، دفاع، صحت، تعلیم وغیرہ وغیرہ سب میدانوں میں اتنی مہارت ملے کہ وہ تن تنہا نظام حکومت چلائے تو معاف فرمائیے گا یہ تو بہت مشکل ہے ۔ لہذا ہمیں ضرورت شخصیت کی نہیں بلکہ نظام کی ہے اور یہ اسی صورت ہی ممکن ہے جب ملک میں جمہوریت کو چلنے دیا جائے چاہے وہ لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ جب جمہوریت اپنا ثمر عوام کے سامنے لائے گی تو پھر کسی کے لئے اس نظام کو بگاڑنا ممکن نہیں رہے گا ۔ اور جمہوری نظام میں آہستہ آہستہ لیڈر عوام کے سامنے آتے رہیں گے ۔ فی الحال تو فوری انقلاب لانے والا کوئی اس ملک میں نظر نہیں آتا ۔
     
  9. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    اصل توجہ طلب بات یہ ہے کہ عوام جس بھی لیڈر کو سامنے لائیں کیا معلوم وہ امریکہ یاترا کے بعد کیا روپ دھارے۔ تو اب عوام کس پر اعتماد کریں؟[/quote:202u39de]

    حماد صاحب آپ سئینیر ہیں اس کا علاج بتائیں‌
     
  10. فیصل سادات
    آف لائن

    فیصل سادات ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2006
    پیغامات:
    1,721
    موصول پسندیدگیاں:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    بے داغ کسی شخص کا کردار نہیں ہے
    یہاں تو ہر شخص کے ہاتھ کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہیں
    اب کسے رہنما کرے کوئی
     
  11. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    میرا خیال ہے اگر ہم لڑی کے عنوان پر غور کریں تو بات سمجھ آ جاتی ہے۔ یہاں پر مقصد صرف ہر “سیاستدان“ کو ڈسکس کرنا نہیں۔ جو نسل در نسل اپنی دولت، جاگیر، سرمائے ، بدمعاشی اور غنڈہ گردی سے کاروبارِ سیاست میں ہیں اور جنہوں نے سیاست کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے۔

    جبکہ لڑی کا عنوان ہے “ راہنما “ تلاش کریں۔ راہ نما ہوتا ہی وہ ہے جو راہ دکھائے۔ اگر ہر وزیراعظم کو راہنما سمجھ لیا جائے تو پھر کئی وزرائے اعلی و وزرائےاعظم ایسے بھی گذرے ہیں کہ شاید جن کے اندر ایک عام سکول ٹیچر جتنی قابلیت بھی بمشکل ہو۔ اور وہ پورے ملک کے سربراہ بن کر بیٹھ گئے۔

    اور کوئی ایسے بھی ہو گذرے ہیں جو امریکہ سے براہ راست تقرری نامے لے کر آئے اور انکے پاکستانی پاسپورٹ بھی بعد میں بنوائے گئے۔ خیر۔۔۔۔

    اور اگر ہم الیکشن اور اسمبلی سیٹوں کو راہنمائی کا معیار قرار دے دیں۔ تو پھر جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف صاحب تو سب سے پہلے راہنماؤں کی فہرست سے خارج ہوتے ہیں۔

    رہ گئی بات الیکشن کی اور وہ بھی ملک پاکستان کے الیکشن ۔۔۔۔۔۔۔

    کیا اس میں کہیں شرافت، قابلیت، اہلیت کا معیار سامنے آتا ہے ؟؟؟
    جہاں دولت لٹانے، غنڈہ گردی کرنے، دھاندلی و بدمعاشی، کردار کشی، میڈیا بلیک میلنگ کے کھیل کو الیکشن کا نام دے دیا جائے۔۔۔ وہاں اللہ ہی حافظ ہے۔۔
    ہمارے جاننے والے ایک صاحب یورپ میں ہوتے ہیں وہاں کے شہریت یافتہ ہیں۔ پاکستانی شہریت سے دستبردار ہوئے برسوں گذر چکے ہیں۔ پاکستان میں لاہور کینٹ میں 1993 سے اسکا ووٹ بنا ہے حالانکہ اس نے کبھی ووٹ نہیں بنوایا۔ اس نے پاکستان میں شادی نہیں کی پھر بھی اسکی بیوی کا بھی ووٹ بنا ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ ہر الیکشن میں ان دونوں کے ووٹ کاسٹ بھی ہوتے ہیں۔ جھنگ کے صرف ایک حلقہ میں سے تحقیق کر کے کم و بیش 25 ہزار جعلی ووٹ ثبوت کے ساتھ نکالے گئے تھے اور ایک اسمبلی ممبر نے قومی اسمبلی میں وہ رپورٹ بھی پیش کی تھی ۔۔۔ یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہے۔

    یہ تو چاولوں کی دیگ میں سے چند دانے تھے۔۔ باقی کی دیگ بھی ایسی ہی ہے۔۔۔
    پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالنے بھلے 200 آدمی جائیں۔۔ ووٹ ہزاروں میں نکل آتے ہیں۔
    پریزائیڈنگ آفیسر الیکشن جیتنے کا نتیجہ کسی کے ہاتھ میں دے کر مبارکباد دیتا ہے۔
    چند گھنٹوں بعد اسلام آباد سنٹر سے ٹی وی پر اعلان کسی اور نام کا ہوجاتا ہے۔

    دور کیوں جائیں ۔ گذشتہ الیکشن میں ہی دیکھ لیں۔ وہی امیدوار جن کی جماعتیں دہشتگردی میں بین کر دی گئی تھیں اور وہ جیلوں میں پڑے تھے۔ اچانک ان کے کاغذات نامزدگی جیلوں میں سے جمع کروائے گئے۔ انکے کیس خارج کیے گئے۔ انہیں الیکشن جتوائے گئے۔۔۔ اور ایک خاص مقصد کے تحت مذہب کے نام نہاد علمبردار طبقے کو اتنی مقدار میں سیٹیں عطا کی گئیں جو پاکستان کی 55 سالہ تاریخ میں انہوں نے حاصل نہ کی تھیں۔
    خود وزیراعظم شوکت عزیز کہاں سے لیڈر نکل آئے ؟؟؟ جمالی صاحب کو حکم عدولی کی بنا پر گھر بھیجنے کے بعد کرسی کی گرد صاف کرنے کے لیے چوہدری شجاعت کو وزیراعظم کی کرسی پر چلّہ کشی کے لیے بٹھایا گیا تو مجھے انکا وہ بیان آج بھی نہیں بھولا جو انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا۔۔۔
    “ہم شوکت عزیز صاحب کو کسی حلقہ سے جتوائیں گے اور وہی آئندہ وزیراعظم ہوں گے“ الیکشن لڑوانے کی بات نہیں کی بلکہ جتوانے کا پورا منصوبہ واضح فرما دیا۔

    کیا گذشتہ الیکشن کے بعد بھی کسی ذی شعور کے شخص میں یہ شائبہ رہ گیا ہے کہ سب کچھ انجینئرڈ تھا۔ پہلے سے الیکشن اور انکے نتائج طے شدہ تھے۔

    اور اگر ہم اپنے دل سے دیانتداری سے پوچھیں کہ اگر آج قائد اعظم (رح) یا علامہ اقبال (رح) اپنی سفید پوشی اور پوری صلاحیتوں کے ساتھ آ موجود ہوں تو کیا موجودہ الیکشن کے نظام میں وہ کامیاب ہو جائیں گے۔۔۔ میرا دل و دماغ کہتا ہے ہرگز نہیں۔

    اگر اپنے اپنے تصورات کی بنا پر راہنمائی کا مفہوم واضح کرنے کی بجائے ہم بطور مسلمان اپنے دین اسلام سے ایک راہنما کا تصور پوچھتے ہیں تو ہمارے بہت سارے اختلافات تو پلک جھپکنے میں دور ہو سکتے ہیں۔

    یا کم از کم بانیانِ پاکستان اور محسنانِ پاکستان یعنی قائدِ اعظم (رح) اور علامہ اقبال(رح) سے ہی پوچھ لیں کہ انہوں نے کیسے پاکستان اور اسکے اندر کیسے راہنماؤں اور کیسی قوم کا خواب دیکھا تھا۔

    خلفائے راشدین (رض) کو جب ہم آئیڈیل کے طور پر لیتے ہیں تو ان میں سے تو ہر ایک خلافت سنبھالتے ہی ہمیشہ ایک ہی اصول پر عمل پیرا ہوئے تھے “ کہ جب تک میں اللہ و رسول (ص) کے تابع رہوں ۔ میری اتباع کرنا ورنہ میری اتباع کا وجوب ختم “

    اس لیے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد اگر “پاکستان کا مطلب کیا ، لاالہ الا اللہ“ پر رکھتے ہیں جیسا کہ بانیانِ پاکستان نے رکھی تھی ۔۔۔ تو ہم دین اسلام کی اہمیت کو کسی طرح بھی کم نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا

    جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
    جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی​

    اگر دیگر دوستوں کے ذہن میں کوئی اور راہنما ہوں تو انہیں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہیئے تاکہ ہم سب کے علم میں اضافہ ہو سکے۔

    مثلاً محترم عبدالستار ایدھی قوم کا درد رکھنے والی شخصیت ہیں۔ گو کہ انکے اندر سادگی ، عجز انکساری انتہا درجے کی ہے۔ لیکن میری رائے میں انکا شمار بلاشبہ ایسے راہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے قوم کو روشنی کی کرن دکھانے میں اپنے تئیں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور قوم کو دوسری کے لیے جینے کا راستہ دکھایا ہے۔
     
  12. حماد
    آف لائن

    حماد منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    402
    موصول پسندیدگیاں:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    بادشاہ سلامت نے اپنے ایک وزیر کو اس کی کسی غلطی پر سزا دینا چاہی اور کہا کہ یا تم ایک سو کچے پیاز ایک ہی نشست میں کھا لو اور یا پھر دربار میں سرعام ایک سو جوتے کھا لو۔

    وزیر نے سوچا سب کے سامنے جوتے کھانے سے بدنامی ہو گی اس لئے پیاز کھا لیتا ہوں۔

    جب اسے پیاز کھانے کو مہیا کئے گئے تو ایک دو پیاز کھانے کے بعد اس کی حالت بگڑنے لگی

    اب وہ بولا مجھے جوتے لگا لو

    دو چار جوتے پڑے تو ہوش ٹھکانے آگئے اب وہ بولا کہ مجھے جوتے مت مارو، میں پیاز کھاؤں گا

    کرتے کرتے کرتے۔۔۔ وہ جوتے بھی کھاتا گیا اور پیاز بھی۔ آخر پر جب سو پیاز کا عدد پورا ہوا تو وہ سو جوتے بھی کھا چکا تھا۔

    یہاں تک تو تھا ایک لطیفہ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک احسان فراموش قوم کے ساتھ مخاطب ہیں اس قوم نے اپنے مفاد کی خاطر ہر اس شخص کو رہنما تسلیم کیا ہے جو اسے پیاز بھی کھلائے اور جوتے بھی لگائے اس قوم کو کیا خبر کہ قیادت کس چیز کا نام ہے اور رہنما کسے کہتے ہیں

    قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
    اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام​

    ویسے بھی وہ جو کہتے ہیں ناں کہ جس قوم میں پھوٹ ڈالنی ہو اس کے لیڈرز کو متنازعہ بنا دو یہی کام پاکستانیوں کے ساتھ ہوا ہے اور یہ بھولی قوم میڈیاوار سے متاثر ہو کر اپنے نبض شناسوں کو اپنا قاتل سمجھ کر انہیں گالیاں دینے لگتی ہے

    آپ نے عبدالستارایدھی کی بات کی اگر وہ سادگی سے فلاحی کاموں تک محدود رہنے کی بجائے قومی سطح پر پاکستان کو ایک عظیم مملکت بنانے کی لئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیں تو یہ قوم ان کی بھی وہ درگت بنائے گی کہ الامان والحفیظ

    جس قوم نے حکیم سعید جیسے عظیم رہنما کے احسانات کو روندھتے ہوئے انہیں قتل کر ڈالا اس سے ہم کس ہوشمندی کی توقع کرتے ہیں

    یہ صرف سوچ کا ایک رخ ہے ۔۔۔ اس سے مقصد مایوسی نہیں ۔۔۔ کچھ سوچیں ۔۔۔
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    زاہرا جی !!

    ماشاءاللہ بہت بے لاگ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے آپ نے۔ مجھے لگتا ہے پاکستانیات آپ کا پسندیدہ سبجیکٹ ہے ۔۔ :wink:

    لیکن واقعی آپ کا تجزیہ بہت زبردست ہے اور آپکو داد نہ دینا بےانصافی ہو گی۔

    حماد بھائی ! آپ کی بات بھی بہت درست ہے۔ ہم بے شعور قوم ہیں۔ اول تو ساٹھ ستر فیصد ان پڑھ اور جو پڑھے لکھے ڈگری ہولڈرز ہیں ان میں سے بھی بہت سوں کو ڈگریوں کے ساتھ ساتھ قومی شعور سے بھی آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔

    ہم لوگ واقعی راہنما کے تصور سے فوراً اپنے مفاد پرست، بے کردار سیاستدان لے لیتے ہیں۔ جبکہ یہ راہنما کے لفظ کے ساتھ ہی ناانصافی ہے۔

    ابھی آپ نے محترم عبدالستار ایدھی صاحب کا ذکر کیا۔ حماد بھائی سے اتفاق کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آج اگر وہ اس قوم کا مقدر سنوارنے کے لیے قوت نافذہ کے حصول کی آواز اٹھائیں۔ تو یہی قوم انکی تمام تر خدمات کو فراموش کر کے انکے اوپر الزام لگانا شروع کر دے گی۔
    ثبوت کے طور پر ایک بہت بڑی مثال محسنِ ملک و ملت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہے۔ پاکستانی قوم کے راہنماؤں اور محسنوں کی فہرست انکے نام کے بغیر یقیناً نامکمل رہے گی۔ وہ شخصیت جنہوں نے اپنی جان داؤ پر لگا کر ملک پاکستان کو دنیا کے 7 طاقتور ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔اور پوری اسلامی دنیا کا تاج پاکستان کے سر پر رکھوا دیا۔۔۔

    ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا ؟؟؟ انہیں قید میں ڈال کر انہیں دل اور کینسر کے مریض بنا کر موت کے دہانے پر لا کھڑا کیا ؟؟؟ ان پر الزامات کی بارش کر کے انکے شرمساری و ذلت کے اندھے گڑھوں میں دھکیل دیا ؟؟ کیوں ؟؟؟ صرف امریکہ کی خوشنودی کے لیے ؟؟؟ صرف چند ٹکوں کے عوض اور صرف ایک حکمران کی کرسی کو طوالت دینے کے لیے ؟؟؟

    ہمارے لیے شرم سے ڈوب مرنے کے مقام ہے۔ اگر بے حمیتی اور بے حسی کی یہی روایت جاری رہی تو وہ وقت قریب ہے جبکہ تباہی و زبوں حالی کے اندھے گڑھوں میں گر چکے ہوں گے۔۔۔۔

    دوستو آؤ اس سے پہلے پہلے کچھ سوچیں۔

    قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ اقبال :ra: کی روح آج بھی پکار رہی ہے

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
     
  14. عمار خاں
    آف لائن

    عمار خاں ممبر

    شمولیت:
    ‏28 ستمبر 2006
    پیغامات:
    212
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    راہنما کی تلاش

    تمہید
    تمام ساتھیوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے سب بخیر ہوں گے۔
    ماشاء اللہ اتنے اعلیٰ تبصرے اور تجزیئے پڑھنے کو ملے ہیں کہ دل خوش ہوگیا۔ مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ میرے ساتھیوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کو دین کے علاوہ سیاست سے بھی اتنا لگاؤ ہے۔
    غالبا یہ پہلی بار ہے کہ حالات حاضرہ سے دلچسپی رکھنے کے باوجود میں اس لڑی میں شریک ہورہا ہوں۔
    تجزیہ
    مجھ سے پہلے یہاں بھیجی گئی آراء پڑھنے کے بعد جب میں نے مزید کسی راہنما کی تلاش شروع کی تو نتیجہ ناقابل یقین ملا۔ اکا دکا چند شخصیات کے علاوہ، کہ جن کا یہاں تذکرہ ہوا، کوئی بھی قابلِ ذکر ہستی ایسی سمجھ نہ آسکی جس کو راہنما مان کر اس پر جرح کی جاسکے۔ ذہن تو جیسے پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان پر ہی اٹک کر رہ گیا۔
    سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو کچھ لمحات کے لئے راہنما فرض کرلینے پر بھی دل راضی نہیں ہوا۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے صرف دنیوی نہیں، بلکہ دینی پہلو پر بھی نظر جاتی ہے۔ مذہبی تاریخ میں کسی خاتون راہنما کا ذکر شاید ہی پایا جائے۔ اور پھر بی بی صاحبہ تو سیکولرازم کے خیالات رکھتی ہیں۔۔۔ جدید اصطلاح میں اسے روشن خیالی کہہ لیجئے۔
    نواز شریف صاحب کے جو حالات ہمارے سامنے ہیں، اس کے بعد ان کو راہنما مانا بھی جائے تو کیوں اور کس لئے؟ سیاست کے اکھاڑے میں اس وقت جو بھی موجود ہے، سب کی منزل صرف اور صرف اقتدار نظر آتی ہے۔
    الطاف حسین صاحب کا معاملہ تو مزید بگرا ہوا ہے۔ ان کے تحریک گرچہ لاکھ دعوی کرے کہ اس کے ہاں فرقہ واریت کا مسئلہ نہیں لیکن لسانی جھگڑے، فساد اس تحریک کی بنیاد ہیں۔ روشن خیالی کا تصور ان کے ہاں بھی پایا جاتا ہے بلکہ جناب قائد نے ہندوستان جاکر دو قومی نظریئے کی جو دھجیاں بکھیری ہیں، توبہ توبہ۔۔۔!
    دیگر موجودہ سیاسی قائدین کا جائزہ لوں تو ایک قسم وہ ہے جو دین سے لاپرواہ ہے، یا دوسری قسم وہ کہ جو قوم پرستی یا لسانی فسادات میں الجھے ہیں۔ علمائے دین کی طرف نظر ڈالتا ہوں تو ان کی اکثریت اپنے جھگڑوں میں الجھی نظر آتی ہے۔ ایک دین صرف چار مسلک ہی پر مشتمل نہیں بلکہ ہر مسلک میں کئی فرقے اور ہر فرقے میں کئی تنظیمیں ہیں جو سب آپس میں نبردآزما ہیں۔ اس میں راہنمائی تو کوئی کیا کرے گا، صرف لعن طعن تک ہی محدود رہ جائے گا۔
    ابھی آپ اتحاد کانفرنس کرواکر دیکھ لیجئے۔۔۔ اول تو ہمارے قائدین صرف یہ جاننے کے بعد شرکت سے انکار کردیں گے کہ ان کا مخالف بھی اس کانفرنس میں شریک ہوگا۔ اور بالفرض محال، اگر سب شرکت کر بھی لیں، تو ان کی شرکت عوام کو صرف اس طرح الو بنانے پر محدود رہے گی کہ وہ اسٹیج پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑے ہوجائیں گے۔ کانفرنس ختم، تو سمجھئے کہانی ختم۔۔۔
    کسی بھی قائد سے اتحاد کی بات کیجئے تو وہ چاہتا ہے کہ جب سب متحد ہوں تو ان سب کا قائد اسے تسلیم کیا جائے۔ کوئی یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں کہ وہ کسی کی قیادت میں ملک کی خاطر متحد ہوجائے۔
    یہ صرف زبانی، تحریری باتیں نہیں، پچھلے کئی برسوں سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ ہم سب کے اتنا کچھ لکھنے کے بعد جو نتیجہ ہمارے سامنے ہے، وہ کس قدر افسوسناک ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایک ایسا راہنما نہیں، جو دنیا و آخرت، دونوں جہانوں میں ہمارے قائد کا کردار نبھاسکے اور ہمیں ترقی اور بہتری کی راہ پر گامزن کرسکے۔
    غالبا گزرے رمضان کا ذکر ہے کہ میں نے اپنے روزنامچہ (ڈیلی ڈائری) میں کوئی 15 صفحات کے قریب اس بات کا جائزہ لیا تھا کہ پاکستان میں انقلاب کیوں اور کیسے؟ اس پر پھر کبھی اظہارِ خیال کروں گا۔ فی الحال اسی قدر۔
     
  15. عمار خاں
    آف لائن

    عمار خاں ممبر

    شمولیت:
    ‏28 ستمبر 2006
    پیغامات:
    212
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ہم خود کیا ہیں؟

    میرے لئے دین اور سیاست کا موضوع ایسا ہے کہ بولنے پر آؤں تو بولتا ہی رہوں۔ کتنے مسائل ہیں، کتنی باتیں ہیں، جن پر ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہے۔۔۔ کبھی کبھی تو دل اس قدر تنگ آجاتا ہے کہ سوچتا ہوں اخبار پڑھنا اور خبریں دیکھنا چھوڑدوں۔ کیا کروں؟؟؟
    موجودہ سیاسی منظرنامے میں لاکھ برائیاں ہیں، تسلیم۔۔۔ مگر کیوں ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ سیاست میں خاندانی نظام چلا آرہا ہے۔ بادشاہی کا تصور کیوں ہے؟ اکثریت اس نظام کو برا کہتی ہے، اکثریت راہنما نہ ملنے کا شکوہ کرتی ہے مگر وجہ؟
    وجہ یہ ہے کہ ہم صرف تنقید کرکے سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوگیا۔۔۔ ہم نے کچھ شعبوں کے بارے میں فرض کرلیا ہے کہ یہ برے ہیں اور ان میں شریف آدمی نہیں جاسکتا۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اپنے خاندان میں یہ بات پہلی بار کہی تھی کہ مجھے سیاست میں جانے کا شوق ہے کہ شاید کچھ بہتر کرسکوں تو کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے میری حمایت کی ہو۔۔۔ اور جانتے ہیں مخالفت کے لئے کیا دلیل تھی؟ یہی کہ یہ شریفوں کا کام نہیں۔۔۔ ہم نے جب خود اس شعبے کو بدمعاشوں کے ہاتھ میں دیدیا ہے تو پھر ان کے انداز پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ بہرحال! میں نے سوچ بچار کرکے دوسرا شعبہ منتخب کیا اور وہ تھا وکالت۔۔۔ پھر وہی مخالفت ہوئی۔۔۔ تنگ آکر تیسرا شعبہ چنا، صحافت۔۔۔ میری قسمت دیکھئے کہ اس بار بھی کوئی حمایت نہ مل سکی۔۔۔ دلیل وہی ایک تھی۔۔۔ گھسی پٹی۔۔۔ کہ یہاں شریف کام نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔
    ساری بات کا مقصد یہ ہے کہ تبدیلی خود سے نہیں ہونی۔۔۔ ہم نے لانی ہے۔ صرف باتوں سے نہیں، عمل سے۔۔۔ کوئی راہنما نہیں ملتا، نہ ملے۔۔۔ لیکن راہنمائی کے لئے کیا ضروری ہے، اس کا تو علم ہے ہمیں۔۔۔ کیوں انتظار کرتے ہیں ہم کہ کوئی اور ہماری راہنمائی کرے۔۔۔ کیوں نہیں سوچتے کہ کیوں نہ ہم سب مل کر اپنی قوم کو راہنمائی کریں۔۔۔ کیوں نہیں کرتے ہم ایسا کہ ہم سب مل کر ان شعبوں سے وابستہ ہوں، جنہیں بدمعاشوں کے ہاتھ میں دیدیا ہے۔۔۔ جو ہم سے پہلے گزر چکے، وہ ہم ہی میں سے تھے جو انقلاب لائے تھے۔۔۔ مگر ہم۔۔۔؟ علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
    تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
    ہاتھ پر ہاتھ دھرے، منتظر فردا ہوا!​

    (فردا= فارسی کا لفظ۔۔۔ معنی: آنے والا کل، مستقبل)
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عمار بھائی !!‌ بہت سنجیدہ تجزیہ ہے اور پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ہمارے اندر بےحسی آ چکی ہے۔ ہم مایوس قوم ہیں۔ بلکہ قوم تو ہیں ہی نہیں۔ قوم تو افراد کا باضابطہ اتحاد ہوتا ہے جو سب اجتماعی طور پر ایک مقصد اور ایک منزل رکھتے ہوں۔
    ہم تو افراد کا ایک غول ہیں جسکا جدھر منہ اٹھتا ہے چل پڑتا ہے۔ چلے جا رہے ہیں۔
    تنگ نظری اتنی کہ کسی کی خدمات، کاوشوں، اور صلاحیتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود کسی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
    گھڑے کی مچھلی کی طرح اپنی اپنی ذات، برادری، فرقہ، گروپ، جماعت، لسانی یا علاقائی گروہ بندی میں بٹے ہوئے ہیں۔
    بہت دل دکھتا ہے یہ سب کچھ دیکھ کر۔ ہم اپنے محسنوں کو زنداں میں دھکیلنے والے اور غیروں کے ایجنٹوں کو سر پر بٹھانے والے لوگ ہیں۔ اور ایسی احسان فراموش قوم کی تقدیر اللہ تعالی بھی اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک ہم خود اپنی حالت بدلنے پر آمادہ نہ ہوجائیں گے۔
     
  17. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    عمار صاحب !

    آپ کی تجزیاتی گفتگو بہت خوب صورت ہے۔

    خوشی ہوئی کہ ہماری اردو پیاری اردو کے صارفین کے اندر ملک و قوم سے محبت کی کرن روشن و تابندہ ہے۔ اور کم و بیش ہر کوئی ایک تبدیلی کا خواہشمند ہے۔

    آپ سب کو معلوم ہو گا کہ ایسی ڈسکشنز یا تبادلہء خیالات زندہ و ترقی پسند قوموں کے اندر ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔ اور اسی سے قومیں‌ تبدیلیء فکر اور بیدارئ شعور کے مراحل طے کرتی ہیں۔
    میں پھر دہرائے دیتی ہوں کہ یہ لڑی تو سب کے لیے اوپن ہے۔ جس کا جو بھی کوئی آئیڈیل ہے۔ جو بھی کسی جماعت ، کسی تنظیم، کسی راہنما کو بہتر سمجھتا ہے دوسروں کو نشانہء تنقید بنانے کی بجائے صرف اپنی پسندیدہ جماعت یا راہنما کی خدمات کو واضح کرے۔ اس کی قومی و ملی خدمات یہاں ہماری اردو کے صارفین کے سامنے پیش کرے تاکہ لوگوں‌کو محسنانِ قوم اور راہنمایانِ قوم کو پہچاننے میں‌آسانی ہو۔
     
  18. عمار خاں
    آف لائن

    عمار خاں ممبر

    شمولیت:
    ‏28 ستمبر 2006
    پیغامات:
    212
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    تجزیہ پسند کرنے کا شکریہ۔
    میری خواہش ہے کہ یہاں صرف تجزیہ تک محدود نہ رہا جائے بلکہ عملی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جائے۔
    (مجھے “عمار صاحب“ کہنے کے بجائے اگر صرف “عمار“ یا “عمار بھائی“ کہنے پر اکتفا کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ ابھی تو میں بیس سال کا بھی نہیں ہوا۔) :wink:
     
  19. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ٹھیک ہے عمار بھائی ۔ جیسے آپ خوش !! :)
     
  20. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کو زندہ رہنےکیلئے جمہوریت ضروری ہے۔

    یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان کو زندہ رہنے ‌‌ جمہوریت ضروری ہے۔اور الیکشنوں سے صرف چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں بدلتا۔
    تو کیا قوم خود انقلاب لانے سے مایوس ہو چکی ہے؟
    کیا پاکستان میں نطام نہیں بدلا جا سکتا؟
    کیا اس قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی؟
    کیا خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب لانے کا طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا؟
    کیا دلوں سے حب جاہ حب مال اور حب دنیا نکال کر قر آن کو ہدایت کیلیئے نہیں پڑہا جا سکتا؟
     
  21. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad - Digital Outreach Team - US State Departmen



    Fawad – Digital Outreach Team - US State Department

    پاکستان ميں اکثر سياسی ليڈروں کی جانب سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا ہے کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجاۓ ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔ اس حوالے سے سياسی جماعتوں کی جانب سے يہ نقطہ بھی کئ بار دہرايا گيا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی زيادہ موثر ثابت ہوتی اگر ملک پر کسی ايسی سياسی جماعت کی حکومت ہوتی جس کی جڑيں عوام ميں مضبوط ہوں کيونکہ صرف ايک مقبول قيادت ہی عوام ميں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کر سکتی ہے۔

    يوں تو سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔ ليکن پچھلے کچھ عرصے ميں اس نقطے کی تشہير ميں شدت آگئ ہے۔ اس کی وجہ ملک ميں ہونے والے عام انتخابات ہيں۔

    کچھ عرصہ پہلے جيو ٹی وی پر "گريٹ ڈبيٹ – خارجہ پاليسی" کے عنوان سے ايک مباحثہ ديکھنے کا اتفاق ہوا جس ميں ملک کی چھ بڑی جماعتوں کے قائدين نے خارجہ پاليسی کے حوالے سے اپنے خيالات کا اظہار کيا اور ايک نقطہ جس پر سب متفق تھے وہ يہی تھا کہ امريکہ صدر پرويز مشرف کی تائيد کر کے پاکستان کے داخلی معاملات ميں براہراست مداخلت کر رہا ہے اور براہراست يا بلاواسطہ پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ يہی ہے کہ تمام اختيارات فرد واحد کے ہاتھ ميں ہيں جو امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے ملک ميں من پسند قوانين نافذ کر کے پاکستان کی تقدير سے کھيل رہا ہے۔

    پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو چکا ہے کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوۓ کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی جاتی گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومبـاحثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا ہے کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔

    آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔

    اس حوالے سے کچھ تاريخی حقائق پيش خدمت ہيں۔

    سات (7) اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔

    اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔

    بارہ اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔

    دو ہزار دو (2002) ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔

    دو ہزارچار (2004) ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔

    دو ہزار پانچ (2005) ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔

    دو ہزار سات (2007) ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔

    اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔

    آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار ہيں، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔

    اسی حوالے سے يہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان پيپلز پارٹی کے شريک چير پرسن آصف علی زرداری نے حال ہی ميں يہ بيان ديا ہے کہ ان کی پارٹی پرويز مشرف کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تيار ہے۔ کيا مستقبل ميں اس لآئحہ عمل کو پھر سے ايک بڑی غلطی قرار دے کر الزام امريکہ پر لگا ديا جاۓ گا؟

    اس ميں کوئ شک نہيں کہ ايک سپر پاور ہونے کی حيثيت سے امريکہ دنيا ميں ايک حد تک اثر ورسوخ رکھتا ہے۔ ليکن يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک کی قيادت اپنی مرضی سے تبديل کر سکتا ہے۔ اگر امریکی حکومت کی مشينری اتنی ہی بااختيار ہوتی تو کوئ بھی امريکی صدر کبھی اليکشن نہ ہارے۔ اگر امريکی صدر کو خود اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کے ليے عوام اور سياسی جماعتوں کی تائيد کی ضرورت ہوتی ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ وہ ايک دور دراز ملک کی حکومتی مشينری کو اپنی مرضی سے چلاۓ۔

    امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔ اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ امريکہ کسی بھی ملک سے سياسی، تجارتی اور فوجی تعلقات ميں پيش رفت سے پہلے اس ملک کی حکومت تبديل کرے۔ عالمی سطح پر مختلف ممالک کے درميان حکومتی روابط ان اصولوں پر نہيں چل سکتے۔

    ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ بتا دوں کہ 12 اکتوبر 1999 کو جب فوج نے ملک کا نظام اپنے ہاتھوں ميں ليا اور ملک کی ساری سياسی جماعتوں نے اس کی تائيد کی تھی۔ اس وقت امريکی حکومت کا موقف يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے اس بيان سے واضح ہے۔

    "ہم پاکستان ميں جمہوريت کی فوری بحالی کے خواہ ہيں ليکن ہم اس پوزيشن ميں نہيں ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی کے ليے کوئ غير آئينی قدم اٹھائيں۔"

    11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد جب افغانستان ميں القائدہ کے خلاف کاروائ کا فيصلہ کيا گيا تو جغرافائ محل ووقوع کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں امريکہ کا اتحادی بن گيا، ليکن امريکہ کا پاکستان کے ساتھ يہ اتحاد ايک ملک کی حيثيت سے تھا اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں تھا کہ امريکہ نے پرويز مشرف کی آمرانہ طرز حکومت کو تسلیم کر ليا تھا۔ يہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تمام تر فوجی اور مالی امداد کے باوجود امريکہ پرويز مشرف سے ملک ميں عام انتخابات اور وردی اتارنے کا مطالبہ کرتا رہا۔

    ذيل ميں آپکو امريکی حکومتی حلقوں کے بيانات دے رہا ہوں جو آپ پر اس موضوع کے حوالے سے امريکی حکومت کے موقف کو واضح کرے گا۔

    "ہم اس بات پر مکمل يقين رکھتے ہيں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات ديرپا اور قابل اعتبار ہونے چاہيے اور يہ تعلقات محض ايک شخص تک محدود نہيں ہيں بلکہ پاکستان کے اداروں سے ہيں- ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات ميں اس بات کو يقينی بنا رہے ہيں کہ اليکشن کے ذريعے پاکستان کو جمہوريت کے راستے پر گامزن ہونے کا موقع فراہم کيا جاۓ اور يہی وہ نقطہ ہے جس پر ہم زور دے رہے ہيں۔ ہم پاکستان کے لوگوں، سياسی ليڈروں اور سول سوسائٹی کو بھی يہی پيغام ديتے ہيں کہ ساتھ مل کر ايک جمہوری مستقبل کے ليے کوشش کريں"۔

    کونڈوليزا رائس - امريکی سيکريٹيری آف اسٹيٹ

    "تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان کے حوالے سے ہمارا بنيادی موقف تبديل نہيں ہوا۔ ہم پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی اور سول حکومت ديکھنا چاہتے ہيں۔ ہم پاکستان ميں شفاف انتخابات کے ذريعے عوامی نمياندوں کو برسراقتدار ديکھنا چاہتے ہيں- اس حوالے سے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں شفاف انتخابات منعقد کيے جائيں۔ ايک مضبوط اور پائيدار جمہوری حکومت اس بات کو يقينی بناۓ گی کہ معاشرے کے مختلف گروہ اور طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ مل کر ايک پائيدار اور مستحکم پاکستان کی بنياد رکھيں۔ اور ايک مضبوط معاشرہ ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عوامل کو ختم کر سکتا ہے- اس ميں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں پاکستان امريکہ کا اتحادی ملک ہے ليکن پاکستان ايک خود مختار ملک ہے اور ہمارا حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کا طريقہ کار انھی کی صوابديد پر ہے"۔

    رچرڈ باؤچر - اسسٹنٹ سيکريٹيری آف اسٹيٹ

    "امریکہ اس بات پر يقين رکھتا ہے کہ کسی بھی ملک ميں انتہاپسندی کے خاتمے کے ليے يہ ضروری ہے کہ وہاں سياسی نظام مستحکم ہو۔ يہی حقيقت پاکستان پر بھی صادق آتی ہے۔ ميں نے اپنی تمام ملاقاتوں اور تمام مذاکرات ميں اسی بات پر زور ديا ہے۔ ايک جمہوری اور مستحکم پاکستان دہشت گردی کے خلاف امريکہ اور پاکستان دونوں کے مفاد ميں ہے۔"

    نيگرو پونٹے - ڈپٹی سيکريٹيری آف اسٹيٹ

    "ہم يہ سمجھتے ہيں کہ يہ انتہاہی ضروری ہے کہ صدر پرويز مشرف اور انکے حکومتی ارکان اس بات کو يقينی بنائيں کہ ملک ميں ايسا ماحول قائم کيا جاۓ کہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد يقينی بنايا جا سکے۔ ايک جمہوری معاشرے کے قيام کے ليے امريکہ پاکستانی عوام کے ساتھ ہے۔"

    کيسی (ترجمان – يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ)

    "ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت بحال ہو کيونکہ صرف يہی ايک طريقہ ہے جس سے ملک ميں تشدد کی فضا کو ختم کيا جا سکتا ہے۔"

    پيرينو (ترجمان – وائٹ ہاؤس)

    " ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"

    جوزف ليبرمين – چيرمين ہوم لينڈ سيکيورٹی کميٹی

    آخر ميں اپنے اسی نقطہ نظرکا اعادہ کروں گا کہ کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار اس ملک کے عوام اور ان کے منتخب کردہ عوامی نمايندے ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قانون سازی کرتے ہيں اور ملک کی خارجہ پاليسی بناتے ہيں۔ "بيرونی عوامل" اور "غير ملکی سازش" ايسے نعرے ہيں جو سياست دان اپنی ناکاميوں اور غلطيوں پر پردہ ڈالنے کے ليے استعمال کرتے ہيں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  22. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    یقین مانیں: ہم اس دنیا کی سب سے بدترین قوم ہیں۔

    یقین مانیں: ہم اس دنیا کی سب سے بدترین قوم ہیں۔​
    کيونکہ
    ہم آمریت کو گالی دیتے ہیں اسکے اسباب رفع نہیں کرتے۔

    جيسا کہ
    ہم دھوکے باز مذہبی و غیر مذہبی سیاستدانوں کے منہ سے آمریت کے خلاف تقریریں سن سن کر آمریت کو تو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھنے لگے ہیں، مگر اس آمریت کو جنم دینے والے اور اسے پروان چڑھانے والے (مذہبی و غیر مذہبی) کاروباری سیاستدانوں کو اپنا مسیحا سمجھتے رہتے ہیں، جنہوں نے ہمیشہ اسلام اور پاکستان کے نام پر اپنی دکانداری چمکائی ہے اوراپنی جیبیں بھرنے کو ہی اسلام اور جمہوریت ٹھہرایا ہوا ہے۔

    ان مذہبی و غیر مذہبی سیاستدانوں کی لوٹ مار اور مفاد پرستی پر مبنی سیاست دیکھ کر لامحالہ فوجی افسران کے منہ میں بھی پانی بھر آتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہم کیوں پیچھے رہیں؟ چنانچہ پچھلے 60 سال میں وہ بھی بار بار میدانِ عمل میں کودے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دیے۔

    حقیقت یہ ہے کی یہ مذہبی و غیر مذہبی سیاستدان اور فوجی حکمران پاکستان میں امریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ بن چکے ہیں اور اپنی قوم کی مخلص رہنمائی کی بجائے اسلام اور پاکستان کی دشمن قوموں کے آگے سربسجود ہیں۔

    مشرف حکومت نے اسلام دشمن طاقتوں کے اشاروں پر سرحد اور بلوچستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیل کر وہاں کے عوام کے دلوں سے پاکستان اور پاک فوج کی محبت و احترام ختم کر کے اس میں نفرت کے بیج بو دیئے ہیں۔

    دوسری طرف طالبان کے حامی مذہبی سیاستدان اس ایشو پر بھی صرف اور صرف اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ طالبان کا دیا ہوا اسلام کا تصور اسلام کا بہت بڑا دشمن ہے مگر جو کچھ مشرف انتظامیہ کر رہی ہے وہ بھی اسلام اور پاکستان کے حق میں تباہ کن ہے۔

    امریکہ نے اس بار ہم پر بڑا خطرناک وار کیا ہے اور ہمیں ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے کہ دونوں طرف ہمارے دشمن کھڑے ہیں اور بھولی قوم دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک دھڑا مشرف کو مخلص سمجھتے ہوئے طالبان کا مخالف ہے تو دوسرا طالبان اور طالبان نما دھوکے بازوں کی ہمدردی میں مشرف کو گالیاں دیتا دکھائی دیتا ہے۔


    حالانکہ
    ہم سب جانتے ہیں کہ کتے کو کنوئیں سے نکالے بغیر خواہ ہم ایک ہزار ڈول پانی نکال باہر کریں، کنواں کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔ یونہی اپنے سیاسی ماحول میں در آنے والی گندگی کو صاف کئے بغیر آمریت کا مستقلاً راستہ روکنا ممکن نہیں۔ گزشتہ 60 سال میں ہم بار ہا یہ تجربہ دہرا چکے ہیں مگر اس سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔

    ہم نے کبھی اپنے سیاستدانوں سے یہ نہیں پوچھا کہ پچھلے الیکشن میں وہ کیا منشور پیش کر کے جیتے تھے؟ اور انہوں نے اس پر کتنے فیصد عمل کیا؟ اگر ہم نے اپنا وطیرہ تبدیل نہ کیا تو فطرت ہمیں کچل کر رکھ دے گی۔

    حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اسی سلسلے میں فرمایا تھا:

    فطرت افراد سے اِغماض بھی کر لیتی ہے
    کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف​

    ہمارا قومی بگاڑ اپنی حدیں پار کرتے ہوئے اس پوائنٹ تک جا پہنچا ہے کہ اب یہاں ایک ہمہ گیر انقلاب کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ ہمیں ضرورت ہے کسی امام خمینی کی، جو اس گندی سیاست کے گٹر میں اتر کر اس کی ایسی صفائی کرے کہ پھر کسی آمر کو اس قوم پر شب خون مارنے کی جرات نہ ہو سکے اور ان کاروباری (مذہبی و غیرمذہبی) سیاستدانوں کا ایسا صفایا کرے کہ قوم کی ان سے مستقل جان چھوٹ جائے۔

    علاوہ ازیں جہاں وہ ایک طرف دین کی روح سے واقف ہو تو دوسری طرف جدید دور کے تقاضوں سے باخبر ہو کہ نہ صرف وہ عوامی مسائل کو حل کر سکے بلکہ اقوامِ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باغیرت لہجے میں ان سے بات کر سکے اور ہمیں زندہ قوموں میں نمایاں مقام پر لا کھڑا کرے۔

    حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے فرمایا:

    بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
    جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا!​

    ماخوذ
    http://www.worstnation.com/Muslim/Pakis ... d=44&cid=2
     
  23. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: یقین مانیں: ہم اس دنیا کی سب سے بدترین قوم ہیں۔

    میں‌آپکی تائید کرتا ہوں
     
  24. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ (ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم ) کے فوادصاحب نے اپنا خوب دفاع کیا ہے۔
     
  25. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad - Digital Outreach Team - US State Departmen

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    آپ يہ کيوں بھول رہے ہيں کہ صدر مشرف قومی اسمبلی سے 57 فيصد ووٹ لے کر اپنے عہدے پر فائز ہيں۔ اس وقت وہ ايک ملٹری ڈکٹيٹر نہيں ہيں۔ اگر امريکہ کی طرف سے يہ بيان آۓ کہ صدر مشرف عوام ميں اپنی مقبوليت کھو چکے ہيں اور انھيں استعفی دے دينا چاہيے تو کيا يہ الزام نہيں لگايا جاۓ گا کہ امريکہ پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے اور عوام کی منتخب اسمبلی کے فيصلے کی توہين کر رہا ہے؟

    يہ کام امريکہ کا نہيں بلکہ حاليہ اليکشن ميں کامياب ہونے والے نمايندوں کا ہے کہ وہ صدر مشرف کے سياسی مستقبل کا فيصلہ کريں۔ بصورت ديگر امريکہ سميت عالمی برادری انھيں پاکستان کے منتخب صدر کی حيثيت سے پروٹوکول ديتی رہے گی۔

    ويسے ريکارڈ کی درستگی کے ليے بتا دوں کا 12 اکتوبر 1999 کو جب ايک "آمر" مشرف نے پاکستان ميں ايک جمہوری حکومت کا تختہ الٹايا تھا تو پاکستان کی تمام سياسی جماعتوں نے اس کی حمايت کی تھی۔ اس وقت يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی طرف سے يہ بيان جاری ہوا تھا۔

    "ہم پاکستان ميں جمہوريت کی فوری بحالی کے خواہ ہيں ليکن ہم اس پوزيشن ميں نہيں ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی کے ليے کوئ غير آئينی قدم اٹھائيں۔"

    اگر آپ اس وقت کے پاکستانی اخبارات نکال کر ديکھيں تو اس وقت امريکہ کی جانب سے نواز شريف کی جمہوری حکومت کے خاتمے اور پرويز مشرف کے غير آئينی قدم کی مخالفت کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار ديا جا رہا تھا۔

    حقيقت يہ ہے کہ صدر مشرف کے برسر اقتدار آنے پر عوام کی اکثريت کی جانب سے خوشی کا اظہار ہمارے سياسی ليڈروں کی کمزوری تھی اور اس وقت بھی اگر وہ ملک کے صدر ہيں تو اس کا ذمہ دار امريکہ نہيں بلکہ پاکستان کا کمزور سياسی نظام ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  26. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    امریکہ نے کیا ساری دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟

    ہم یقیناً ایک بدترین قوم ہیں جو اپنے کردار کی اصلاح کرنے اور مخلص رہنما چننے کی بجائے دوسری قوموں کو اپنی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے بدترین سیاسی نظام میں اصلاحات کرنے کی بجائے بات بات پر امریکہ کو گالی دیتے ہیں۔ امریکہ نے کیا ساری دنیا کے معاملات سدھارنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟

    :143:
     
  27. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: امریکہ نے کیا ساری دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟

    ہم بہترین قوم بن سکتے ہیں اگر توبہ کر کے اصلاح پر کمر بستہ ہو جائیں۔اور ھدایت حاصل کریں جہا ں سے کرنی چاہیئے۔فاما یاتی انکم منی ھداَ فمن تبع ھدایۃ فلا خوف علیھم ولا ہم یحزنون
     
  28. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad - Digital Outreach Team - US State Departmen

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    مجھے اپنے کالج کے زمانے کا ايک واقعہ ياد آ گيا جب ايک مذہبی نما سياسی جماعت کے ليڈر نے ہمارے کالج کا دورہ کيا تھا اور ہمارے کالج کی طلبہ تنظيم نے ان کے اعزاز ميں ايک تقريب کا اہتمام کيآ تھا۔ ميں چونکہ پاکستان ميں نووارد تھا اور کسی پاکستانی ليڈر کی تقریر براہراست سننے کا يہ ميرے ليے پہلا موقع تھا اس ليے ميں بھی اس تقريب ميں چلا گيا۔

    ميرا اندازہ تھا کہ شائد وہ اپنی تقرير ميں اپنی پارٹی کے منشور کی بات کريں گے اور طلبہ کے مفادات کے ليے اپنی پارٹی کے منصوبوں پر روشنی ڈاليں گے۔ ليکن ان کی پوری تقرير محض "امريکہ – دشمن اسلام"، "امريکہ کے سازشی منصوبے" اور "یہودی اور بھارتی لابی کا امريکہ کے ساتھ گٹھ چوڑ" جيسے موضوعات پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ وہ مسلئہ کشمير سميت عالم اسلام کو درپيش تمام مسائل کا ذمہ دار امريکہ کو قرار ديتے رہے۔ ان کی تقرير کے دوران پورا ہال "امريکہ کا جو يار ہے، غدار ہے، غدار ہے" کے پرجوش نعروں سے گونجتا رہا۔ اس کے علاوہ وہ نوجوانوں کو جہاد کشمير ميں شامل ہونے کی تلقين بھی کرتے رہے۔ اس حوالے سے انکی جماعت کے کارکن طلبہ سے جہاد کشمير کے نام پر مختلف فارمز بھی پر کرواتے رہے۔

    اس واقعے کا سب سے دلچسپ پہلو يہ ہے کہ جس وقت يہ مذکورہ ليڈر امريکہ سے نفرت کے حوالے سے زمين آسمان ايک کر رہے تھے اس وقت ان کے اپنے دونوں بيٹے امريکہ کی يونيورسٹيوں ميں اعلی تعليم حاصل کر رہے تھے اور اپنے تابناک مستقبل کے لیے بنياديں مضبوط کر رہے تھے۔

    کچھ دن پہلے ميں نے انہی سياسی ليڈر کو حاليہ انتخابات کے سلسلے ميں ٹی وی پر ايک جلسے ميں تقرير کرتے ہوۓ ديکھا۔ ان کے جلسے ميں کارکنوں نے بہت سارے بينر اٹھا رکھے تھے جس پر مجھے وہی مانوس نعرہ درج دکھائ ديا۔ "امريکہ کا جو يار ہے – غدار ہے، غدار ہے"۔

    يہاں يہ بھی بتاتا چلوں کہ ان ليڈر صاحب کے دونوں بيٹے آج بھی اپنی فيمليز کے ساتھ امريکہ ميں مقيم ہيں اور تعليم مکمل کرنے کے بعد اعلی اداروں ميں ملازمتيں کر رہے ہيں۔

    يہ واقعہ پاکستان کے کسی ايک سياسی ليڈر کی زندگی تک محدود نہيں ہے۔آپ کسی بھی سياسی جماعت کی اعلی قيادت کا جائزہ لےليں وہ ہر پبلک فورم اور ہر عوامی اجتماع ميں "امريکہ سے نفرت" کا ٹکٹ ضرور استعمال کرتے ہيں ليکن اس کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کے ليۓ وہ تمام آسائشيں ضرور سميٹتے ہيں جو امريکی معاشرہ اپنے ہر شہری کو ديتا ہے۔ امريکہ سے نفرت کے يہ نعرے محض عوام کی توجہ اپنی ناکاميوں سے ہٹانے کے ليے تخليق کيے جاتے ہيں۔ کسی بھی قوم کی تقدير کے ذمہ دار "بيرونی ہاتھ" نہيں بلکہ اس ملک کے سياستدان ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قآنون سازی کے ذريعے اس ملک کی تقدير بناتے ہيں۔

    يہی وجہ ہے کہ 1985 سے لے کر اب تک آپ کوئ بھی اسمبلی اٹھا کر ديکھ ليں، کوئ بھی سياسی جماعت اپنے کسی منشور، پروگرام اور عوامی بہبود کے کسی منصوبے کے ليے عوام کے سامنے جوابدہ نہيں کيونکہ تمام تر مسائل کا ذمہ دار تو امريکہ ہے۔ا

    ڈیجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے پچھلے کچھ عرصے سے ميں بہت سے اردو فورمز پر امريکہ کے حوالے سے لوگوں کی آرا پڑھتا رہا ہوں۔ ان تمام فورمز پر مجھے امريکہ کے خلاف وہی جذبہ محسوس ہوا جو برسوں پہلے ميں نے کالج کی اس تقريب ميں محسوس کيا تھا۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  29. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    چین اور ایران جیسے انقلاب کی ضرورت

    ماشاء اللہ آپ کے خیالات اور تجزیہ نے متاثر کیا

    آپ کی بات صد فیصد درست ہے کہ
    اور ہمارے ملک میں ناکام رہنماؤں کی کمی نہیں اور سارے کے سارے اپنی ناکامی کو بیرونی ہاتھ کی طرف منسوب کر کے خود کو بری الذمہ قرار دیتے رہتے ہیں جو بھی سیاستدان الیکشن جیتتا ہے وہ اپنا منشور بھول جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو ویسے ہی جو جتنا صاحب اختیار ہے وہ اتنا ہی بڑا فرعون بھی ہے۔

    جيسا کہ
    کم و بیش ہر سرکاری محکمے میں متعین ذمہ داران اپنی جاب کو انجوائے کرتے ہیں اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے فائلوں کو ایک میز سے دوسری پر منتقل کرنے کے لئے ہزار، پانچ سو روپے کا نذرانہ ضرور وصول کرتے ہیں۔

    حتی کہ ہمارے چپڑاسی بھی بڑے ہوشیار ہو گئے ہیں اور وہ بھی اس کمائی میں افسری کا نشہ لیتے ہیں۔

    علاوہ ازیں بے شمار سرکاری ملازمین مہینے میں صرف ایک دن آفس جاتے ہیں، یعنی صرف تنخواہ لینے۔ اور ہر قسم کی سرکاری مراعات بھی انہیں میسر ہونے کے باوجود وہ اپنی ڈیوٹی کی بجائے دکانداری یا کوئی اور دھندہ کرتے ہیں۔

    اسی لئے تو ہم ایک بدترین قوم قرار پاتے ہیں۔

    حالانکہ
    ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے کہ عہدہ و منصب ایک امانت ہوتا ہے، جس میں ذرہ بھر کی خیانت کا بھی روز محشر حساب دینا ہو گا۔

    بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہر شخص ایمانداری کو اپنا شعار بنا لے تو معاشرہ خودبخود سدھر سکتا ہے، لیکن ہم دوسروں کو نصیحت کرنے کو گھنٹوں صرف کر سکتے ہیں مگر اپنے نفس کو نصیحت کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔

    بگاڑ چونکہ انتہاء درجے کو پہنچ چکا ہے اس لئے انفرادی کوششوں سے ایک کا علاج ممکن نہیں۔ اس کے لئے یقیناً ایک ہمہ گیر انقلاب کی ضرورت ہے، جو انقلاب چین و ایران کی یادوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائے۔

    http://www.worstnation.com/Muslim/Pakis ... .php?mid=8
     
  30. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    Re: امریکہ نے کیا ساری دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟

    یہ ایک دو بندوں کی بات نہیں کہ وہ توبہ پر بآسانی رضامند ہو جائیں یہ معاملہ پوری قوم کا ہے اور قومی سطح کی تبدیلی بہت مشکل ہوتی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں