1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آؤ کہانی بنائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از ہادیہ, ‏19 اپریل 2012۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ابے تُو ؟ کلموہا زور سے چلایا ۔ ۔ ۔
    اور تھوری ہی دیرمیں نوجوان کی دھندلی شبیہہ جو ذہن میں گھوم رہی تھی
    یک دم صاف ہو گئی
    اور معصوم سا کو بیتے ہوئے وہ پرانے پل یاد آنے لگے
    وہ ایک خوبصورت سا چھوٹا سا گاؤں
    ایک گھنے درخت کے نیچھے بیٹھ کر
    نہر کے بہتے پانی میں پتھر پھینکتے ہوئے
    دونوں ماسٹر جی کے گھر کا صفایا کرنے کی پلاننگ بنا رہے تھے
    اور پھر اگلی رات جب آخری پہر چل رہا تھا
    دونوں ماسٹر جی کے گھر دیوار پلانگ کر اترے تھے
    نوجوان تو سامان سیمیٹنے میں مشغول ہو گیا تھا
    لیکن معصوم سا کی پہلی ہی نظر
    ماسٹر جی کی بیٹی پر پڑی .................... اور مبہوت ہو کر رہ گئے.............
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    ابے یار ! کلموہے نے نوجوان ہا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔ ۔ ۔ سوتے ہوئے ماسٹر صاحب کی بیٹی کالی کا مصنوعی ڈھیلہ آنکھ سے نکل کر زمین پر گر گیا ہے ۔ ۔ ۔ وآپس لگا دیتے ہیں بیچاری صبح اُٹھ کر پریشان ہو گی ۔ ۔ ۔
    ابے رہنے دے ! نوجوان بولا ۔ ۔ ۔ جاگ گئی تو مشکل ہو جائیے گی ۔ ۔ ۔
    نہیں نہیں یار ! کلموہا بولا بری بات ہے ۔ ۔ ۔ ایک تو بے چاری کالی کی ٹانگ بھی نہیں اور پھر ڈھیلا نکل کر کتنی دور چلا گیا ہے بے چاری کو صبح اُٹھ کر ڈھونڈھنے اور پھر اُٹھا کر لگانے میں پریشانی ہو گی ۔ ۔ ۔ اور یوں کلموہے نے ڈھیلا اُٹھا کر کالی کی آنکھ والے غار میں فٹ کرنے کی کوشش شروع کر دی ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جب تک کلموہا ڈھیلا اٹھا کر لاتے اور اپنی جگہ فکس کرتے
    تب تک ماسٹر کی بیٹی اٹھ کر برآمدے تک بند آنکھوں سے آئی اور وہیں پر اپنی امی کے پہلو میں لیٹ گئی
    کیوں کہ ماسٹر کی بیٹی کو نیند میں چلنے کی عادت تھی
    چوں کہ ماسٹر صاحب کی بیوی کو علم تھا اس لیے خاموشی سے انہیں وہیں چھوڑ کر
    بیٹی کی جگہ آکر لیٹ گئی
    اتنے میں کلموہا ڈھیلا اٹھا کر لائے لیکن بیٹی کی جگہ ماں نے لے لی تھی اس کا علم ان کو نہیں ہو سکا تھا
    اور جیسے ہی انہوں نے ڈھیلا فکس کرنے کی کوشش کی
    ماسٹر کی بیوی نے کلموہا کو دیکھ لیا تھا
    وہ چلائی................................
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    کمبخت ! یہ ڈھیلا میرا نہیں کالی کا ہے ۔ ۔ ۔ تو کالی کہاں ہے ؟ کلموہے نے پوچھا ۔ ۔ ۔ ماسٹر صاحب کی بیوی نے اُسے گھورا اور بولی ۔ ۔ ۔ ماتھے پر دو دو آنکھیں اور ہاتھ میں ایک عدد ڈھیلا پکڑ کر بھی نظر نہیں آتا ؟ وہ میرے بستر پر مری پڑی ہے ۔ ۔ ۔ کلموہے نے مڑ کر دیکھا اور بولا ۔ ۔ ۔ لیکن ابھی تو یہاں تھی ۔ ۔ ۔ قسم سے ! اس سے پوچھ لو ۔ ۔ ۔ کلموہے نے سامان سے بھرا تھیلا سر پر رکھے نوجوان کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔ ۔ ۔ ماسٹر صاحب کی بیوی کو کسی حد تک ہوش آ گیا تھا بولی ۔ ۔ ۔ اے تم دونوں آدھی رات کو یہاں کیا کر رہے ہو ؟ خالہ ہم ٹرین کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ کلموہے سے پہلے ہی نوجوان بول پڑا ۔ ۔ ۔ اے کمبخت ! اب ٹرین ماسٹر صاحب کے گھر کب سے آنے لگی ۔ ۔ ۔ اور یہ تھیلے میں کیا بھر رکھا ہے ؟ آپ کے گھر کا سامان ہے ۔ ۔ ۔ اس بار کلموہے نے جواب دیا ۔ ۔ ۔ کیا ؟ ماسٹر صاحب کی بیوی چلائی ۔ ۔ ۔ کمبختوں تم چوری کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ نہیں خالہ ! اس بار بھی کلموہا بولا ۔ ۔ ۔ میں تو کالی کا ڈھیلا وآپس لگا رہا تھا ۔ ۔ ۔ چوری تو یہ کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ ماسٹر صاحب کی بیوی اچھل کر کھری ہو گئی اس سے پہلے کہ نوجوان کچھ سمجھتا اُس نے اُس کے سر پر دو ہتڑ بھی رسید کر دئیے ۔ ۔ ۔ کمبخت گھر میں ہے ہی کیا ؟ جو ہے وہ تو لیے جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ چل رکھ تھیلا یہاں ۔ ۔ ۔ اور نکلو دونوں ۔ ۔ ۔ نہیں تو اتنے جوتے مارونگی کہ اماں یاد آ جائیگی ۔ ۔ ۔ خالہ وہ کالی کا ڈھیلا ؟ کلموہا ہاتھ میں پکڑا ڈھیلا اُسے دکھا کر بولا ۔ ۔ ۔ مجھے دے ۔ ۔ ۔ اور تو بھی دفع ہو ۔ ۔ ۔ خالہ نے ڈھیلا اُس سے جھپٹ کر کہا اور دونوں کو گھر سے نکال دیا ۔ ۔ ۔ کمبخت گھر میں دو پلیٹیں ہی بچی ہیں وہ بھی لیے جا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ کلموہا اور وہ نوجوان گلی میں کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔ ۔ ۔ نوجوان غصے سے بولا ۔ ۔ ۔ تُو کلموہا ہی رہے گا ۔ ۔ ۔ عقل نام کی کوئی شے تیرے پاس ہے ہی نہیں ۔ ۔ ۔ نہ خود کچھ کر سکے گا اور نہ مجھے کچھ کرنے دے گا ۔ ۔ ۔ بس میں نے سوچ لیا ہے میں شہر جا رہا ہوں ۔ ۔ ۔ تو گھر دفع ہو ۔ ۔ ۔ اور نوجوان اسٹیشن کی طرف چل پڑا ۔ ۔ ۔ کراچی والی گاڑی نکلنے کو تیار کھری تھی نوجوان نے ٹکٹ لیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ آنکھیں موندھ لی ۔ ۔ ۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی چل پڑی ۔ ۔ ۔ صبح کی پو پھوٹنے لگی نوجوان تیزی سے پیچھے بھاگتے درختوں کے ہیولے دیکھنے لگا اور بولا ۔ ۔ ۔ کراچی ! میں آرہا ہوں ۔ ۔ ۔
     
  5. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    اور جب اس نوجوان نے بولا کراچی میں آرہا ہوں تو وہ ڈبے کے دروازے میں کھڑا باہر صبح صادق کا نظارا لے رہا تھا ۔۔۔ کہ اچانک اس نے نظر پیچھے دوڑائی تو کیا دیکھتا ہے ۔۔۔۔ کہ کلموہا گاڑی کے پیچھے لٹکا ہوا ہے ۔۔۔۔ کلموہا گھر نہیں گیا اسکے پیچھے پیچھے اسٹیشن پر گیا اور چھپ کر گاڑی کے پیچھے لٹک گیا کہ میں بھی کراچی جاؤں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں