1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آؤ آچھی باتیں کریں!!! آؤ آچھی باتیں سیکھیں

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از پنل, ‏15 اگست 2008۔

  1. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    اسلام علیکم!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
    میں نے سوچا آج گپ شپ کے کالم میں دوستوں سے معلاقات کی جائے۔

    وقت ایک ایسا گھوڑا ھے جس نے بھی وقت کے گھوڑے کی لگام صیح وقت اور صیح جگہ پر تھام لی تو یہ وقت کا گھوڑا اُس کو منزل کی طرف لیکر گامزن ھو جاتا ھے۔
    اور جس سے چوک ھو جاتی ھے وہ منزل کا نشان کھو بیھٹتے ھیں میرے دوستوں یہ وقت ھی ھوتا ھے جو دروازے پر دستک دے رہا ھوتا ھے جو جاگ جاتے ھیں وہ وہ سوار ھو جاتے ھیں اور جو سستی کی وجہ سے سویے رہتے ھیں تو وقت اگلے پڑاؤ کی طرف چل پڑتا ھے۔ جب ہی کہتے ھیں کہ نصیب یا قسمت دروازے پر ایک دفع دستک دیتی ھے اور نصیب یا قسمت اپنے ساتھ وقت کے گھوڑے کو ساتھ لاتی ھے تاکہ اُس پر آپ کو سوار کروا سکے۔۔۔۔۔۔
     
  2. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    شیخ سعدی :ra: سے کسی نے دوست اور بھائی کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا
    اِن میں وہی فرق ہیں جو ہیرے اور سونے میں ھوتا ھے ۔دوست ہیرے کی مانند اوربھائی سونے کی مانند ھوتا ھے"
    وہ شخص بہت حیران ھوا،اور کہنے لگا یا حضرت بھائی جیسے حقیقی رشتے کو آپ کم قیمت چیز یعنی سونے منسوب کر رہے ھے اس میں کیا حکمت ھے۔
    شیخ سعدی :ra: نے فرمایا" سونا اگرچہ کم قیمت ھے لیکن اگر ٹوٹ جائے تو پگھلا کر اصل شکل دی جا سکتی ھے۔مگر اگر ہیرا ٹوٹ جائے تو اُس کو اصل شکل نہیں دی جا سکتی بھایئوں میں وقتی چپقش ھو جاے تو وہ دور ھو جاتی ھے لیکن دوستی کے رشتے میں دراڑ آجائے تو اُسے دور نہیں کیا جا سکتا ۔"وہ شخص شیخ سعدی :ra: کے حکمت سے بھر پور جواب سے سحر زدہ رہ گیا۔
     
  3. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2008
    پیغامات:
    5,303
    موصول پسندیدگیاں:
    623
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔۔ اچھا سلسلہ ہے۔۔ ابھی تو میرے اس لڑی کے لئے کچھ نہیں۔۔ لیکن میں اس میں ضرور اضافہ کروں گی۔۔
     
  4. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ماشا اللہ بہت اچھا سلسلہ ہے
     
  5. ایلفا
    آف لائن

    ایلفا ممبر

    شمولیت:
    ‏3 فروری 2007
    پیغامات:
    296
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سچ ہمیشہ حقیقت سے زیادہ اہم ہوتا ہے ۔
     
  6. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    آپ سب دوستوں کا شکریہ ۔ :dilphool:
    مریم سیف صاحبہ آپکا بھی شکریہ۔ :dilphool:

    دُنیا ایک بازار ھے جو عنقریب بند ھو جائے گا۔
     
  7. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    آخرت کے سودے

    :dilphool:
    عباسی خلیفہ ہارون الرشید ایک مرتبہ اپنی ملکہ کے ساتھ شکار پر جارہے تھے کہ راستے میں حضرت بہول :ra: ملے۔جو بلند آواز میں کہہ رہے تھے کہ"جو دُنیا میں دینار دے اُسکے بدلے میں آخرت میں موتیوں کا محل لے"
    خلیفہ اُسے مست سمجھ کر گزر گئے۔پیچھے ملکہ آرہی تھی انہوں نے حضرت بہول کی آواز سنی تو کچھ دینار دئے اور چلی گئیں۔
    رات کو ہارون الرشید نے خواب دیکھا کہ جنت میں ایک خوبصرت باغ ھے جس پر"قصرِ زبیدہ" لکھا ھے۔جب انہوں نے بیوی کا محل سمجھ کر اندر جانے کی کوشش کی تو دربان نے روکا اور کہا کہ وآپس جائے۔آپ بڑے پشیمان ھوئے۔
    خلیفہ نے صبع ملکہ سے خواب کا زکر کیا اور پوچھا "تم نے ایسا کون سا کام کیا تھا جس کے سبب جنت میں محل تعمیر ہوا"
    ملکہ زبیدہ نے کہا"ایسی خاص نیکی تو مجھ کو یاد نہیں البتہ ہاں کل حضرت بہول :ra: ملے تھے جو کہہ رہے تھے جو دُنیا میں دینار دے وہ آخرت میں محل لیں تو میں نے کچھ دینار اُن کو دیئے تھے بس یہی نیکی تھی شاید"
    ہارون الرشید اُسی دن اُسی راستے پر جارہے تھے،جہاں کل حضرت بہول گزرے تھے آخرکار ایک جگہ اُن کو حضرت بہول چُپ چاپ بیھٹے دیکھائی دئیے۔آپ نے آن سے کہا "آج محل نہیں بیچو گے؟" حضرت بہول نے اپنا بستر بوریا اُٹھایا اور یہ کہتے ھوئے چلے گئے"آخرت کے سودے دیکھ کر نہیں ھوتے"
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھا واقعہ ہے۔ پنل بھائی ۔
    آخرت کے سودے دیکھ کر نہیں ہوتے۔ اسی لیے قرآن مجید کے آغاز میں اللہ تعالی نے ہدایتِ قرآنی پانے والے متقین کی جو پہلی تعریف بیان فرمائی ہے وہ یہی ہے " الذین یومنون بالغیب" جو بن دیکھے مان لیتے ہیں۔" اللہ تعالی ہم سب کو ایمان کی سچی حلاوت عطا فرمائے اور ایسے اولیاءے کرام کی تعلیمات سے استفادہ کی توفیق دے۔ آمین

    ہاں۔ یہ بزرگ حضرت بہول نہیں بلکہ انکا صحیح نام حضرت بہلول :ra: ہے انہی کو حضرت بہلول دانا بھی کہا جاتا تھا ۔ شکریہ
     
  9. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جزاک اللہ نعیم بھائی
    نہ صرف مان لیتے ہیں بلکہ ایمان بھی لے آتے ہیں اور اس پر راسخ رہتے ہیں۔ سبحان اللہ!
    اللہ کے نیک بندوں کی باتیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
     
  10. ایلفا
    آف لائن

    ایلفا ممبر

    شمولیت:
    ‏3 فروری 2007
    پیغامات:
    296
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    [glow=red:69hp7fqw]اعمال کا دارو مدار نیتوں‌پر ہے ۔ حدیث[/glow:69hp7fqw]
     
  11. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    سب سے پہلے نعیم صاحب بہت بہت شکریہ جناب تصیع کرنے کا۔:dilphool:

    جستجو

    دُنیا میں جستجو نہ ھوتی اگر سب کی قسمت خوشیاں ھوتی۔
    امید کون کرتا۔حسرتیں کس کی ادھوری رہتی۔
    کوشش کا مقام نہ ھوتا۔
    اگر سب مکمل ھوتے تو ادھورا کون ھوتا۔
    قدرت کا نظام بھلا کیسے چلتا۔
    اﷲ سبحان تعالی نے انسان کو پیدا کیا تاکہ انسان اﷲ سبحان تعالی کو کھوجے۔یہ کھوج ایسی ھے جو حضرت انسان کو ہمیشہ پکار پکار کر کہتی ھے آو تلاش کرو۔ اِس کھوج میں کوئی معراج کو پہچتا ھے تو کوئی سرگردہ سرگردہ رہتا ھے۔یہ روشنی جو ہر سو پیھلی ھوئی ھے انسان کو اﷲ سبحان تعالی اِسی کھوج میں لگا رکھا ھے۔جن من سچے ھوتے ھہیں وہ پا لیتے ھہیں منزل کو اور وہ نیکی کے پیرو کار بن جاتے ھہیں۔اور جو نشان منزل کھوہ بیھٹے ھےوہ بھٹک جاتے ھے۔
     
  12. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    1۔علم کی طلب سے شرم نہ کرو کیونکہ جہالت زیادہ باعث شرم ھے۔
    2۔دین سے اِس طرح محبت کرو جس طرح دُنیا دار دُنیا سے محبت کرتا ھے۔
    3۔چلتے وقت خیال رکھو کہ تمھارے پاؤں سے اٹھنے والی دھول کسی کی انکھوں میں جاکر اُس کی منزل کے نشان نہ چھین لے۔ :dilphool:
     
  13. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ” اللھم اننا ننشدک عھدک و وعدک الذی وعدتنا ”
    اے اللہ! ھم تجھے تیرا وہ وعدہ اور عھد یاد دلاتے ہیں جو تو نے ھمارے ساتھ بھی کر رکھا ہے” ( کہ تو ھماری مدد و نصرت کرے گا ۔ )


    ایک مرتبہ اہل بصرہ حضرت ابراھیم بن ادھم کی خدمت میں حاضر ھوۓ اور گویا ھوۓ کہ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ ھم عرصہ سے دعائيں کر رہے ہیں مگر زمانہ ھوا کہ ھمارے دعائیں قبول نہیں ھوتی ؟

    انھوں نے فرمایا : اے اہل بصرہ ! دس چیزوں کے بارے میں تمھارے دل مردہ ھو چکے ہیں اس لۓ تمھاری دعائیں کیسے قبول ھوں ؟

    ١ ۔ تم نے اپنے اللہ کو پہنچان تو لیا مگر اس کا حق ادا نہیں کیا ۔

    ٢ ۔ تم نے قرآن کریم تو پڑھا مگر اس پر عمل نہیں کیا ۔

    ٣ ۔ تم نے شیطان سے دشمنی و عداوت کا دعوی تو کیا مگر اس کی اطاعت و پیروی اور موافقت و مرضی پر چلے۔

    ٤ ۔ تم یہ تو کہتے ھو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ھو لیکن تم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں پر عمل پیرا نہیں ھوتے ۔

    ٥ ۔ تم دخول جنت کے دعویدار تو بنتے ھو مگر اس کے لۓ عمل نہیں کرتے ھو ۔

    ٦ ۔ تم نار جہنم سے نجات کے طلب گار تو بنتے ھو مگر تم نے اپنے آپ کو اس میں گرا رکھا ہے ۔

    ٧ ۔ تم یہ تو کہتے ھو کہ موت حق ہے مگر اس کے لۓ تیاری نہیں کرتے ۔

    ٨ ۔ تم لوگوں کی عیب چینی تو کرتے ھو مگر اپنے عیوب کی اصلاح نہیں کرتے ۔

    ٩ ۔ تم پر اللہ کی بیشمار نعمتیں سایہ فگن ہیں مگر اس ذات منعم کا شکر ادا نہیں کرتے ھو ۔

    ١٠ ۔ تم اپنے ہاتھوں سے اپنے فوت شدگان کو دفن تو کرتے رہتے ھو مگر خود عبرت و نصیحت نہیں پاتے “۔
     
  14. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    سبحان اللہ۔ بہت ہی نصیحت آموز تحریر ہے۔
    اللہ تعالی جزا عطا فرمائے اور ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ آمین
     
  15. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بہت اچھا سلسلہ ہے :dilphool:
     
  16. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    بھروسہ

    بیوی نے شوہر سے پوچھا"آپ مجھ سے کتنی محبت کرتے ھے؟"
    شوہر نے جواب دیا"بہت زیادہ۔حد سے زیادہ"
    بیوی بولی"پھر بھی کچھ تو بتائیں اگر میں مر گئی تو آپ کیا کرے گئے"
    شوہر بولا"پاگل ھو جاؤنگا ،مجنوں بن جاؤں گا"
    بیوی بولی"دوسری شادی تو نہیں کرے گئے"
    شوہر نے معصومیت سے جواب دیا"پاگل کا کیا بھروسہ ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو کچھ بھی کر گزرتا ھے"

    بد قسمتی

    1۔مرد کی بد قسمتی نہیں تو اور کیا ھے درجن بھر بچوں کی ماں بھی شکوہ کرتی نظر آتی ھے کہ اُس کو شوہر کا سچا پیار نہیں ملا۔
    2۔مرد کو دیکھ کر عورت کا فوری ڈوپٹہ سنھبالنا،چور کو دیکھ کر مال چھپانے کی دلیل ھے۔
     
  17. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    پنل بھائی بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے اور بہت خوبصورت اور نصیحت آموز پیغامات پیش کئے ہیں۔ لیکن ایک بات معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا۔ امید ہے آپ برا نہیں مانیں‌گے۔ وہ یہ کہ آپ کے اس آخری پیغام نے خوبصورت پیغامات کا تسلسل توڑ دیا ہے۔
    ہے تو یہ بھی اچھا لیکن جس طرز پر یہ لڑی چل رہی تھی، اس سے مختلف ہے۔ ویسے آپ جیسے چاہیں لڑی کو چلا سکتے ہیں۔ یہاں کوئی پابندی نہیں ۔
    امید ہے آپ میری گزارش کا برا نہیں مانیں گے۔ :dilphool:
     
  18. ایلفا
    آف لائن

    ایلفا ممبر

    شمولیت:
    ‏3 فروری 2007
    پیغامات:
    296
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
    اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
     
  19. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سررۃ کھف میں 4 واقعات بیان ہوئے ہیں
    پہلا اصحاب کھف کا
    دوسرا واقعہ دو مسلمان دوستوں کامیں بیان کروں گا
    تیسرا حضرت موسیٰ ' حضرت یوشّ بن نون اور حضرت خضر کا ہے
    چوتھا حضرت ذولقرنین کا ہے۔
     
  20. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    سب دوستوں کو اسلام علیکم!!!!!!!!!!!!!!!!!!
    ساگراج بھائی آپ کا شکوہ سر انکھوں پر مجھے بہت خوشی ھے آپ لوگ اِس لڑی کو پسند کر رہے ھہیں۔اگر لڑی کے اندر کبھی کبھار ہنسی کا کوئی پہلو شامل ھو جاے جس میں کوئی معلومات ھو جس سے سیکھنے کا کوئی پہلو نکلتا ھو تو بُرا نہیں۔تاکہ محفل یکسانیت کا شکار نہ ھو جائے۔اور سفر بھی ہنسی خوشی کٹ جائے۔کیا خیال آپ کا جناب۔اگر آپ کو پسند نہیں تو کوئی بات نہیں میں ایندہ احتیاط کرونگا اور آپ کو شکایت کا موقع نہیں دونگا۔
    عرفان بھائی آپ کا بے حد شکریہ جو آپ نے معلومات دی ھے یقین کریں میرا دل جھوم اُٹھا ھے۔میں یہاں پوری سورت کا ترجم لکھ رہا ھوں یقینا آپ دوستوں کو پڑھ کر خوشی بھی ھونگی اور آپ کی معلومات میں بھی اضافہ ھو گا۔
    ۔اِس میں قصہ آلکھف
    2۔دو آدمی کا قصہ
    3۔حضرت خضر:as: کا واقعہ موسیٰ :as: کے ساتھ
    4۔حضرت ذوالقرنین :as: کا واقعہ یاجوج ماجوج

    الفا آپ کا بہت شکریہ۔
    آدی لاحاصل صاحبہ آپ کا پسند کرنے کا شکریہ۔(آدی سرائیکی لفظ ھے جس کے بہن کے ھے)

    سورت الکھف
    شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    سب تعریف خدا ہی کو ہے جس نے اپنے بندے (محمد :saw: ) پر (یہ) کتاب نازل کی اور اس میں کسی طرح کی کجی (اور پیچیدگی) نہ رکھی ﴿۱﴾ (بلکہ) سیدھی (اور سلیس اتاری) تاکہ لوگوں کو عذاب سخت سے جو اس کی طرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوشخبری سنائے کہ اُن کے لئے (ان کے کاموں کا) نیک بدلہ (یعنی) بہشت ہے ﴿۲﴾ جس میں وہ ابدا لاآباد رہیں گے ﴿۳﴾ اور ان لوگوں کو بھی ڈرائے جو کہتے ہیں کہ خدا نے (کسی کو) بیٹا بنا لیا ہے ﴿٤﴾ ان کو اس بات کا کچھ بھی علم نہیں اور نہ ان کے باپ دادا ہی کو تھا۔ (یہ) بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے (اور کچھ شک نہیں) کہ یہ جو کہتے ہیں محض جھوٹ ہے ﴿۵﴾ (اے پیغمبر) اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم کے ان پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے ﴿٦﴾ جو چیز زمین پر ہے ہم نے اس کو زمین کے لئے آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے ﴿۷﴾ اور جو چیز زمین پر ہے ہم اس کو (نابود کرکے) بنجر میدان کردیں گے ﴿۸﴾ کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہمارے نشانیوں میں سے عجیب تھے ﴿۹﴾ جب وہ جوان غار میں جا رہے تو کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم پر اپنے ہاں سے رحمت نازل فرما۔ اور ہمارے کام درستی (کے سامان) مہیا کر ﴿۱۰﴾ تو ہم نے غار میں کئی سال تک ان کے کانوں پر (نیند کا) پردہ ڈالے (یعنی ان کو سلائے) رکھا ﴿۱۱﴾ پھر ان کو جگا اُٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدّت وہ (غار میں) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کس کو خوب یاد ہے ﴿۱۲﴾ ہم اُن کے حالات تم سے صحیح صحیح بیان کرتے ہیں۔ وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی ﴿۱۳﴾ اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط) کردیا۔ جب وہ (اُٹھ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔ ہم اس کے سوا کسی کو معبود (سمجھ کر) نہ پکاریں گے (اگر ایسا کیا) تو اس وقت ہم نے بعید از عقل بات کہی ﴿۱٤﴾ ان ہماری قوم کے لوگوں نے اس کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں۔ بھلا یہ ان (کے خدا ہونے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے۔ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو خدا پر جھوٹ افتراء کرے ﴿۱۵﴾ اور جب تم نے ان (مشرکوں) سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ہے تو غار میں چل رہو تمہارا پروردگار تمہارے لئے اپنی رحمت وسیع کردے گا اور تمہارے کاموں میں آسانی (کے سامان) مہیا کرے گا ﴿۱٦﴾ اور جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ (دھوپ) ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان سے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس کے میدان میں تھے۔ یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں۔ جس کو خدا ہدایت دے یا وہ ہدایت یاب ہے اور جس کو گمراہ کرے تو تم اس کے لئے کوئی دوست راہ بتانے والا نہ پاؤ گے ﴿۱۷﴾ اور تم ان کو خیال کرو کہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوتے ہیں۔ اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے تھے۔ اور ان کا کتا چوکھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ اگر تم ان کو جَھانک کر دیکھتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور ان سے دہشت میں آجاتے ﴿۱۸﴾ اور اس طرح ہم نے ان کو اٹھایا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کریں۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ تم (یہاں) کتنی مدت رہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ انہوں نے کہا کہ جتنی مدت تم رہے ہو تمہارا پروردگار ہی اس کو خوب جانتا ہے۔ تو اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ دے کر شہر کو بھیجو وہ دیکھے کہ نفیس کھانا کون سا ہے تو اس میں سے کھانا لے آئے اور آہستہ آہستہ آئے جائے اور تمہارا حال کسی کو نہ بتائے ﴿۱۹﴾ اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا پھر اپنے مذہب میں داخل کرلیں گے اور اس وقت تم کبھی فلاح نہیں پاؤ گے ﴿۲۰﴾ اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان (کے حال) سے خبردار کردیا تاکہ وہ جانیں کہ خدا کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (جس کا وعدہ کیا جاتا ہے) اس میں کچھ شک نہیں۔ اس وقت لوگ ان کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ان (کے غار) پر عمارت بنا دو۔ ان کا پروردگار ان (کے حال) سے خوب واقف ہے۔ جو لوگ ان کے معاملے میں غلبہ رکھتے تھے وہ کہنے لگے کہ ہم ان (کے غار) پر مسجد بنائیں گے ﴿۲۱﴾ (بعض لوگ) اٹکل پچو کہیں گے کہ وہ تین تھے (اور) چوتھا ان کا کتّا تھا۔ اور (بعض) کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتّا تھا۔ اور (بعض) کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتّا تھا۔ کہہ دو کہ میرا پروردگار ہی ان کے شمار سے خوب واقف ہے ان کو جانتے بھی ہیں تو تھوڑے ہی لوگ (جانتے ہیں) تو تم ان (کے معاملے) میں گفتگو نہ کرنا مگر سرسری سی گفتگو۔ اور نہ ان کے بارے میں ان میں کسی سے کچھ دریافت ہی کرنا ﴿۲۲﴾ اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا ﴿۲۳﴾ مگر (انشاء الله کہہ کر یعنی اگر) خدا چاہے تو (کردوں گا) اور جب خدا کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو۔ اور کہہ دو کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے ﴿۲٤﴾ اور اصحاب کہف اپنے غار میں نو اوپر تین سو سال رہے ﴿۲۵﴾ کہہ دو کہ جتنی مدّت وہ رہے اسے خدا ہی خوب جانتا ہے۔ اسی کو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں (معلوم) ہیں۔ وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے۔ اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی شریک کو کرتا ہے ﴿۲٦﴾ اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے ﴿۲۷﴾ اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو۔ اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا ﴿۲۸﴾ اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ہم نے ظالموں کے لئے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں ان کو گھیر رہی ہوں گی۔ اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی (جو) پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (گرم ہوگا اور جو) مونہوں کو بھون ڈالے گا (ان کے پینے کا) پانی بھی برا اور آرام گاہ بھی بری ﴿۲۹﴾ (اور) جو ایمان لائے اور کام بھی نیک کرتے رہے تو ہم نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ﴿۳۰﴾ ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن میں ان کے (محلوں کے) نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ باریک دیبا اور اطلس کے سبز کپڑے پہنا کریں گے (اور) تختوں پر تکیئے لگا کر بیٹھا کریں گے۔ (کیا) خوب بدلہ اور (کیا) خوب آرام گاہ ہے ﴿۳۱﴾ اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کئے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ﴿۳۲﴾ دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس (کی پیداوار) میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ﴿۳۳﴾ اور (اس طرح) اس (شخص) کو (ان کی) پیداوار (ملتی رہتی) تھی تو (ایک دن) جب کہ وہ اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال ودولت میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے (اور جماعت) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں ﴿۳٤﴾ اور (ایسی شیخیوں) سے اپنے حق میں ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔ کہنے لگا کہ میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو ﴿۳۵﴾ اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ اور اگر میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا بھی جاؤں تو (وہاں) ضرور اس سے اچھی جگہ پاؤں گا ﴿۳٦﴾ تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا ﴿۳۷﴾ مگر میں تو یہ کہتا ہوں کہ خدا ہی میرا پروردگار ہے اور میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ﴿۳۸﴾ اور (بھلا) جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے ماشاالله لاقوة الابالله کیوں نہ کہا۔ اگر تم مجھے مال واولاد میں اپنے سے کمتر دیکھتے ہو ﴿۳۹﴾ تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور اس (تمہارے باغ) پر آسمان سے آفت بھیج دے تو وہ صاف میدان ہوجائے ﴿٤۰﴾ یا اس (کی نہر) کا پانی گہرا ہوجائے تو پھر تم اسے نہ لاسکو ﴿٤۱﴾ اور اس کے میووں کو عذاب نے آگھیرا اور وہ اپنی چھتریوں پر گر کر رہ گیا۔ تو جو مال اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر (حسرت سے) ہاتھ ملنے لگا اور کہنے لگا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا ﴿٤۲﴾ (اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا ﴿٤۳﴾ یہاں (سے ثابت ہوا کہ) حکومت سب خدائے برحق ہی کی ہے۔ اسی کا صلہ بہتر اور (اسی کا) بدلہ اچھا ہے ﴿٤٤﴾ اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو (وہ ایسی ہے) جیسے پانی جسے ہم نے آسمان سے برسایا۔ تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی مل گئی۔ پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں۔ اور خدا تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ﴿٤۵﴾ مال اور بیٹے تو دنیا کی زندگی کی (رونق و) زینت ہیں۔ اور نیکیاں جو باقی رہنے والی ہیں وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے پروردگار کے ہاں بہت اچھی اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں ﴿٤٦﴾ اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف میدان دیکھو گے اور ان (لوگوں کو) ہم جمع کرلیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ﴿٤۷﴾ اور سب تمہارے پروردگار کے سامنے صف باندھ کر لائے جائیں گے (تو ہم ان سے کہیں گے کہ) جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح آج) تم ہمارے سامنے آئے لیکن تم نے تو یہ خیال کر رکھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے (قیامت کا) کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا ﴿٤۸﴾ اور (عملوں کی) کتاب (کھول کر) رکھی جائے گی تو تم گنہگاروں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اس میں (لکھا) ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے شامت یہ کیسی کتاب ہے کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی کو۔ (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے لکھ رکھا ہے۔ اور جو عمل کئے ہوں گے سب کو حاضر پائیں گے۔ اور تمہارا پروردگار کسی پر ظلم نہیں کرے گا ﴿٤۹﴾ اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس (نے نہ کیا) وہ جنات میں سے تھا تو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہوگیا۔ کیا تم اس کو اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو۔ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں (اور شیطان کی دوستی) ظالموں کے لئے (خدا کی دوستی کا) برا بدل ہے ﴿۵۰﴾ میں نے ان کو نہ تو آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا اور نہ خود ان کے پیدا کرنے کے وقت۔ اور میں ایسا نہ تھا کہ گمراہ کرنے والوں کو مددگار بناتا ﴿۵۱﴾ اور جس دن خدا فرمائے گا کہ (اب) میرے شریکوں کو جن کی نسبت تم گمان (الوہیت) رکھتے تھے بلاؤ تو وہ ان کے بلائیں گے مگر وہ ان کو کچھ جواب نہ دیں گے۔ اور ہم ان کے بیچ میں ایک ہلاکت کی جگہ بنادیں گے ﴿۵۲﴾ اور گنہگار لوگ دوزخ کو دیکھیں گے تو یقین کرلیں گے کہ وہ اس میں پڑنے والے ہیں۔ اور اس سے بچنے کا کوئی رستہ نہ پائیں گے ﴿۵۳﴾ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے ﴿۵٤﴾ اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آگئی تو ان کو کس چیز نے منع کیا کہ ایمان لائیں۔ اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگیں۔ بجز اس کے کہ (اس بات کے منتظر ہوں کہ) انہیں بھی پہلوں کا سا معاملہ پیش آئے یا ان پر عذاب سامنے آموجود ہو ﴿۵۵﴾ اور ہم جو پیغمبروں کو بھیجا کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ (لوگوں کو خدا کی نعمتوں کی) خوشخبریاں سنائیں اور (عذاب سے) ڈرائیں۔ اور جو کافر ہیں وہ باطل کی (سند) سے جھگڑا کرتے ہیں تاکہ اس سے حق کو پھسلا دیں اور انہوں نے ہماری آیتوں کو اور جس چیز سے ان کو ڈرایا جاتا ہے ہنسی بنا لیا ﴿۵٦﴾ اور اس سے ظالم کون جس کو اس کے پروردگار کے کلام سے سمجھایا گیا تو اُس نے اس سے منہ پھیر لیا۔ اور جو اعمال وہ آگے کرچکا اس کو بھول گیا۔ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے کہ اسے سمجھ نہ سکیں۔ اور کانوں میں ثقل (پیدا کردیا ہے کہ سن نہ سکیں) اور اگر تم ان کو رستے کی طرف بلاؤ تو کبھی رستے پر نہ آئیں گے ﴿۵۷﴾ اور تمہارا پروردگار بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔ اگر وہ ان کے کرتوتوں پر ان کو پکڑنے لگے تو ان پر جھٹ عذاب بھیج دے۔ مگر ان کے لئے ایک وقت (مقرر کر رکھا) ہے کہ اس کے عذاب سے کوئی پناہ کی جگہ نہ پائیں گے ﴿۵۸﴾ اور یہ بستیاں (جو ویران پڑی ہیں) جب انہوں نے (کفر سے) ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کر دیا۔ اور ان کی تباہی کے لئے ایک وقت مقرر کردیا تھا ﴿۵۹﴾ اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں ﴿٦۰﴾ جب ان کے ملنے کے مقام پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنالیا ﴿٦۱﴾ جب آگے چلے تو (موسیٰ نے) اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارے لئے کھانا لاؤ۔ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی ہے ﴿٦۲﴾ (اس نے) کہا کہ بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے ساتھ آرام کیا تھا تو میں مچھلی (وہیں) بھول گیا۔ اور مجھے (آپ سے) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ اور اس نے عجب طرح سے دریا میں اپنا رستہ لیا ﴿٦۳﴾ (موسیٰ نے) کہا یہی تو (وہ مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ﴿٦٤﴾ (وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا ﴿٦۵﴾ موسیٰ نے ان سے (جن کا نام خضر تھا) کہا کہ جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں ﴿٦٦﴾ (خضر نے) کہا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے ﴿٦۷﴾ اور جس بات کی تمہیں خبر ہی نہیں اس پر صبر کر بھی کیوں کرسکتے ہو ﴿٦۸﴾ (موسیٰ نے) کہا خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پایئے گا۔ اور میں آپ کے ارشاد کے خلاف نہیں کروں گا ﴿٦۹﴾ (خضر نے) کہا کہ اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہو تو (شرط یہ ہے) مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر تم سے نہ کروں ﴿۷۰﴾ تو دونوں چل پڑے۔ یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو (خضر نے) کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ (موسیٰ نے) کہا کیا آپ نے اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کردیں یہ تو آپ نے بڑی (عجیب) بات کی ﴿۷۱﴾ (خضر نے) کہا۔ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے ﴿۷۲﴾ (موسیٰ نے) کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذہ نہ کیجیئے اور میرے معاملے میں مجھ پر مشکل نہ ڈالئے ﴿۷۳﴾ پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ (رستے میں) ایک لڑکا ملا تو (خضر نے) اُسے مار ڈالا۔ (موسیٰ نے) کہا کہ آپ نے ایک بےگناہ شخص کو ناحق بغیر قصاص کے مار ڈالا۔ (یہ تو) آپ نے بری بات کی ﴿۷٤﴾ (خضر نے) کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم سے میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے ﴿۷۵﴾ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس کے بعد (پھر) کوئی بات پوچھوں (یعنی اعتراض کروں) تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیئے گا کہ آپ میری طرف سے عذر (کے قبول کرنے میں غایت) کو پہنچ گئے ﴿۷٦﴾ پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا۔ انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی۔ خضر نے اس کو سیدھا کر دیا۔ موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو ان سے (اس کا) معاوضہ لیتے (تاکہ کھانے کا کام چلتا) ﴿۷۷﴾ خضر نے کہا اب مجھ میں اور تجھ میں علیحدگی۔ (مگر) جن باتوں پر تم صبر نہ کرسکے میں ان کا تمہیں بھید بتائے دیتا ہوں ﴿۷۸﴾ (کہ وہ جو) کشتی (تھی) غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کرکے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ) کرتے تھے۔ اور ان کے سامنے (کی طرف) ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں (تاکہ وہ اسے غصب نہ کرسکے) ﴿۷۹﴾ اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دنوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ (وہ بڑا ہو کر بدکردار ہوتا کہیں) ان کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے ﴿۸۰﴾ تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کی جگہ ان کو اور (بچّہ) عطا فرمائے جو پاک طینتی میں اور محبت میں اس سے بہتر ہو ﴿۸۱﴾ اور وہ جو دیوار تھی سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی (جو) شہر میں (رہتے تھے) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ ایک نیک بخت آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور (پھر) اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے۔ اور یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کئے۔ یہ ان باتوں کا راز ہے جن پر تم صبر نہ کرسکے ﴿۸۲﴾ اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں ﴿۸۳﴾ ہم نے اس کو زمین میں بڑی دسترس دی تھی اور ہر طرح کا سامان عطا کیا تھا ﴿۸٤﴾ تو اس نے (سفر کا) ایک سامان کیا ﴿۸۵﴾ یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑ کی ندی میں ڈوب رہا ہے اور اس (ندی) کے پاس ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا ذوالقرنین! تم ان کو خواہ تکلیف دو خواہ ان (کے بارے) میں بھلائی اختیار کرو (دونوں باتوں میں تم کو قدرت ہے) ﴿۸٦﴾ ذوالقرنین نے کہا کہ جو (کفر وبدکرداری سے) ظلم کرے گا اسے ہم عذاب دیں گے۔ پھر (جب) وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ بھی اسے بُرا عذاب دے گا ﴿۸۷﴾ اور جو ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا اس کے لئے بہت اچھا بدلہ ہے۔ اور ہم اپنے معاملے میں (اس پر کسی طرح کی سختی نہیں کریں گے بلکہ) اس سے نرم بات کہیں گے ﴿۸۸﴾ پھر اس نے ایک اور سامان (سفر کا) کیا ﴿۸۹﴾ یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے جن کے لئے ہم نے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی ﴿۹۰﴾ (حقیقت حال) یوں (تھی) اور جو کچھ اس کے پاس تھا ہم کو سب کی خبر تھی ﴿۹۱﴾ پھر اس نے ایک اور سامان کیا ﴿۹۲﴾ یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے ﴿۹۳﴾ ان لوگوں نے کہا ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں بھلا ہم آپ کے لئے خرچ (کا انتظام) کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں ﴿۹٤﴾ ذوالقرنین نے کہا کہ خرچ کا جو مقدور خدا نے مجھے بخشا ہے وہ بہت اچھا ہے۔ تم مجھے قوت (بازو) سے مدد دو۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط اوٹ بنا دوں گا ﴿۹۵﴾ تو تم لوہے کے (بڑے بڑے) تختے لاؤ (چنانچہ کام جاری کردیا گیا) یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان (کا حصہ) برابر کر دیا۔ اور کہا کہ (اب اسے) دھونکو۔ یہاں تک کہ جب اس کو (دھونک دھونک) کر آگ کر دیا تو کہا کہ (اب) میرے پاس تانبہ لاؤ اس پر پگھلا کر ڈال دوں ﴿۹٦﴾ پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں نقب لگا سکیں ﴿۹۷﴾ بولا کہ یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے۔ جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا تو اس کو (ڈھا کر) ہموار کردے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے ﴿۹۸﴾ (اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے ﴿۹۹﴾ اور اُس روز جہنم کو کافروں کے سامنے لائیں گے ﴿۱۰۰﴾ جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں تھیں اور وہ سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ﴿۱۰۱﴾ کیا کافر یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بندوں کو ہمارے سوا (اپنا) کارساز بنائیں گے (تو ہم خفا نہیں ہوں گے) ہم نے (ایسے) کافروں کے لئے جہنم کی (مہمانی) تیار کر رکھی ہے ﴿۱۰۲﴾ کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں ﴿۱۰۳﴾ وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی۔ اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں ﴿۱۰٤﴾ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے ﴿۱۰۵﴾ یہ ان کی سزا ہے (یعنی) جہنم۔ اس لئے کہ انہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں اور ہمارے پیغمبروں کی ہنسی اُڑائی ﴿۱۰٦﴾ جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے لئے بہشت کے باغ مہمانی ہوں گے ﴿۱۰۷﴾ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور وہاں سے مکان بدلنا نہ چاہیں گے ﴿۱۰۸﴾ کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے (لکھنے کے) لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور (سمندر) اس کی مدد کو لائیں ﴿۱۰۹﴾ کہہ دو کہ میں تمہاری کا ایک بشر ہوں۔ (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (وہی) ایک معبود ہے۔ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ﴿۱۱۰﴾
     
  21. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    پنل بھائی لگتا ہے آپ میری درخواست ٹھیک طریقے سے نہیں سمجھے یا شائید میں اس کی صحیح طرح وضاحت نہیں کر پایا۔ بھائی جان میں نے آپ کی کسی بات کو غلط نہیں کہا اور نہ ہی مجھے بری لگی ہے۔ میں نے تو بولا تھا کہ جناب یہ آپ کی لڑی ہے اسے جس طرح چاہیں چلا لیں۔ اور جو وہ میں نے عرض کی تھی دراصل میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ جہاں اتنی خوبصورت باتیں چل رہی تھیں۔ جن میں نیکی اور بھلائی کا ذکر ہو رہا تھا۔ بڑے ایمان افروز اور روح پرور واقعات سنائےجا رہے تھے۔ وہاں یکدم ایک لطیفہ ذرا عجیب سا لگا تھا۔ اور یہ بھی صرف میری ناقص رائے تھی۔ باقی آپ نے جو کچھ کیا ہے، وہ بالکل درست ہے۔ اور ابھی جو آپ نے سورۃ کہف کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ بہت اچھا لگا۔ اللہ تعالی آپ کو اس کی جزاء دے اور اسی طرح نیکی کی ترغیب دینے کی توفیق عطا کرتا چلا جائے۔ آمین
    مجھے اس ادنی جسارت پر معاف کر دیجئے گا اور دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
    اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین
    :dilphool:
     
  22. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    حضرت رابعہ بصری :ra:

    ایک بار حضرت رابعہ بصری :ra: پر وجد کی کیفیت طاری تھی اہل بصرہ نے دیکھا کہ آپ ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے ہاتھ میں پانی لیے بھاگی چلی جارہی ھے۔لوگوں نے آپ کو اِس حالت میں دیکھا تو پوچھا۔
    یہ کیا ھے ؟
    اور آپ کہا جا رہی ھے؟
    حضرت رابعہ بصری :ra: نے فرمایا"میں اِس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے چلی ھوں کہ اِسی آگ کے خوف سے اﷲ کی عبادت کرتے ہیں۔
    اور یہ آگ کس لیے ہے؟لوگوں نے پوچھا
    "میں اِس آگ سے جنت کو پھونک ڈالنا چہاتی ھوں تاکہ جو لوگ جنت کے لالچ میں اﷲ کی عبادت کرتے ہیں انہیں جنت نہ مل سکے۔
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پنل بھائی ۔ معاف کیجئے گا ۔ لیکن یہ سطور مجھے اخلاقیات کی سفلی سطح پر محسوس ہوتی ہیں۔
    ہماری بہنیں یعنی معزز خواتین بھی یہیں ہوتی ہیں۔ ہمیں لحاظ بلکہ اجتناب کرنا چاہیے۔
    شکریہ
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اس سے کیا سبق ملتا ہے ؟
    براہ مہربانی کوئی دوست وضاحت فرمائیں گے؟
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پنل بھائی ۔ سورہ کہف کا ترجمہ ارسال کرنے پر اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
    واقعی قرآن مجید ہدایت قطعی ہے ایمان اور تقوی والوں کے لیے۔ :mashallah:

    اصحابِ کہف اولیاء اللہ تھے۔ اور بنی اسرائیل کی امتوں میں سے تھے۔ انکی صحبت، سنگت اور معیت میں وفاداری سے رہنے والے کتے کا ذکر بھی قرآن مجید کا حصہ بنا دیا گیا۔ اور اس کتے کے بیٹھنے کی ادائیں تک اللہ تعالی نے بیان فرما دی۔ اصحابِ کہف پر دورانِ نیند اللہ تعالی کا جو جو فضل و کرم کروٹ بدلنے کی صورت میں، جسم کی سلامتی کی صورت میں ہوا۔ اسکا حصہء خیرات ان ولیوں کے در پر بیٹھے رہنے والے کتے کو بھی ملتا رہا۔ سبحان اللہ۔

    سبحان اللہ۔ کیا ایمان افروز آیات ہیں کہ ۔۔۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اصحابِ کہف کی تعداد کا جہاں بھی ذکر فرمایا۔ انکی صحبت، سنگت اور وفاداری میں رہنے والے کتے کو بھی اس عدد میں‌شامل فرمایا۔ سبحان اللہ۔ قربان جائیں اللہ تعالی کے دوستوں اور اولیائے کاملین کی شان کے۔ سبحان اللہ۔

    اس قرآنی حکم میں‌اللہ تعالی نے اصحابِ کہف یعنی اپنے اولیا اور انکے وفادار کتے کا بیان فرما کر ارشاد فرمایا کہ اے بندے انکی سنگت پر صبر و استقامت سے جم جاؤ۔ اور اپنی نظریں انکے چہرے پر یوں‌جماؤ کہ پھر تمھاری نگاہیں ان کے علاوہ آرائشِ دنیا کی طرف نہ دیکھیں۔ اور غافلانِ یاد کی صحبت و سنگت سے بچنے کا حکم دیا ۔
    اللہ اکبر۔

    حضرت خضر :as: بھی قولِ غالب کے مطابق ولی اللہ ہیں۔ اور عظیم نبی حضرت موسی :as: کا انکی تلاش میں جانے کے قرآنی ذکر سے ، اولیائے کرام کی تلاش اور زیارت کو جانا سنتِ انبیاء بن گیا۔ پھر وہ مقام جہاں مردہ بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہوگئی اور دریا میں چلی گئی اور حضرت موسی :as: کا یہ فرمانا " یہی وہ مقام تھا جس کی تلاش میں نکلے تھے" سے اشارہ ملتا ہے کہ ولیء کامل حضرت خضر :as: کے ملنے کی وہی جگہ ہے جہاں‌مردوں کو حیات مل جاتی ہے۔
    پھر علم و حکمت کی بابت بھی راہنمائی ملتی ہے کہ حضرت خضر :as: کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ علوم و حکمت کے کچھ خزانے ایسے بھی تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی انکی حکمت دریافت کرنا پڑی ۔

    حضرت ذوالقرنین کے اس واقعے میں بھی تفکر و تدبر کے بہت سے پہلو ہیں۔ ہم آج کسی بھی مسلمان کو کسی ولی اللہ سے توسل کرنے پر اسے شرک و بدعت کے فتوؤں کی زد میں لے آتے ہیں۔ جبکہ سائل بھی اللہ تعالی ہی کو حاجت روا جانتا ہو اور اسکی نیت محض توسل کی ہو۔ یہاں بھی حضرت ذوالقرنین اپنے لوگوں سے فرما رہے ہیں مجھے قوت سے مدد دو۔
    نہ تو انہوں نے معاذاللہ شرک کیا اور نہ ہی اللہ تعالی نے سرزنش فرمائی کہ خبردار ! میرے علاوہ کسی کو مدد کے لے مت پکارو۔ کیونکہ اللہ تعالی کی ذات گرامی اور ہر ذی شعور جانتا ہے کہ ایسی مدد مانگنے سے مراد شرکیہ مدد نہیں بلکہ اسبابی مدد ہے۔ توسلی مدد ہے۔ جو کہ امرِ الہی کے خلاف ہرگز نہیں۔

    بلاشبہ یہ سب واقعات ہدایتِ ربانی ہیں اور ایمان و تقوی کے ساتھ غور وفکر کرنے والوں کو قرانِ مجید کے ہر ہر حرف سے ہدایت میسر آتی ہے۔

    سبحان اللہ العظیم واللہ اکبر وھو علی کل شیء قدیر
    اللہ تعالی ہمیں قرآن مجید کو صحیح طور پر سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    پنل بھائی ۔ بارِ دیگر جزاک اللہ۔
     
  26. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    اسلام علیکم!!!!!!!!!!!!!!!!!
    آج میں آپ لوگوں کی محفل میں قصہ حضرت یوسف :as: پیش کررہا ھوں جو الله سبحان تعالی اپنے حبیب حضرت محمد :saw: سناتے ھے۔اِس قصے میں زلیخا کو بھی زکر ھے جو مصر کے بادشاہ کی ملکہ تھی۔الله سبحان تعالی کا حضرت یوسف :as:کو خوابوں کی تعبیر کا علم سیکھانا۔
    سبحان الله سبحان الله میرا رب ہر چیز پر قادر ھے بے شک میرا رب ہر چیز پر قادر ھے۔

    سورة يوسف
    شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    الٓرا۔ یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں ﴿۱﴾ ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو ﴿۲﴾ (اے پیغمبر) ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں اور تم اس سے پہلے بےخبر تھے ﴿۳﴾ جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ ابا میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے۔ دیکھتا (کیا) ہوں کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں ﴿٤﴾ انہوں نے کہا کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا نہیں تو وہ تمہارے حق میں کوئی فریب کی چال چلیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ﴿۵﴾ اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ (وممتاز) کرے گا اور (خواب کی) باتوں کی تعبیر کا علم سکھائے گا۔ اور جس طرح اس نے اپنی نعمت پہلے تمہارے دادا، پردادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی اسی طرح تم پر اور اولاد یعقوب پر پوری کرے گا۔ بےشک تمہارا پروردگار (سب کچھ) جاننے والا (اور) حکمت والا ہے ﴿٦﴾ ہاں یوسف اور ان کے بھائیوں (کے قصے) میں پوچھنے والوں کے لیے (بہت سی) نشانیاں ہیں ﴿۷﴾ جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں ﴿۸﴾ تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالو یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی۔ اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے ﴿۹﴾ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو کسی گہرے کنویں میں ڈال دو کہ کوئی راہگیر نکال (کر اور ملک میں) لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہے (تو یوں کرو) ﴿۱۰﴾ (یہ مشورہ کر کے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ اباجان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں ﴿۱۱﴾ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیئے کہ خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے۔ ہم اس کے نگہبان ہیں ﴿۱۲﴾ انہوں نے کہا کہ یہ امر مجھے غمناک کئے دیتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ (یعنی وہ مجھ سے جدا ہوجائے) اور مجھے یہ خوف بھی ہے کہ تم (کھیل میں) اس سے غافل ہوجاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے ﴿۱۳﴾ وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں، اسے بھیڑیا کھا گیا تو ہم بڑے نقصان میں پڑگئے ﴿۱٤﴾ غرض جب وہ اس کو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اس کو گہرے کنویں میں ڈال دیں۔ تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ) تم ان کے اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور ان کو (اس وحی کی) کچھ خبر نہ ہوگی ﴿۱۵﴾ (یہ حرکت کرکے) وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے ﴿۱٦﴾ (اور) کہنے لگے کہ اباجان ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے ﴿۱۷﴾ اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا (کہ حقیقت حال یوں نہیں ہے) بلکہ تم اپنے دل سے (یہ) بات بنا لائے ہو۔ اچھا صبر (کہ وہی) خوب (ہے) اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے ﴿۱۸﴾ (اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب) ایک قافلہ آوارد ہوا اور انہوں نے (پانی کے لیے) اپنا سقا بھیجا۔ اس نے کنویں میں ڈول لٹکایا (تو یوسف اس سے لٹک گئے) وہ بولا زہے قسمت یہ تو (نہایت حسین) لڑکا ہے۔ اور اس کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے خدا کو سب معلوم تھا ﴿۱۹﴾ اور اس کو تھوڑی سی قیمت (یعنی) معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا۔ اور انہیں ان (کے بارے) میں کچھ لالچ نہ تھا ﴿۲۰﴾ اور مصر میں جس شخص نے اس کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے (جس کا نام زلیخا تھا) کہا کہ اس کو عزت واکرام سے رکھو عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔ اس طرح ہم نے یوسف کو سرزمین (مصر) میں جگہ دی اور غرض یہ تھی کہ ہم ان کو (خواب کی) باتوں کی تعبیر سکھائیں اور خدا اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ﴿۲۱﴾ اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم بخشا۔ اور نیکوکاروں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں ﴿۲۲﴾ تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور دروازے بند کرکے کہنے لگی (یوسف) جلدی آؤ۔ انہوں نے کہا کہ خدا پناہ میں رکھے (وہ یعنی تمہارے میاں) تو میرے آقا ہیں انہوں نے مجھے اچھی طرح سے رکھا ہے (میں ایسا ظلم نہیں کرسکتا) بےشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے ﴿۲۳﴾ اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا۔ اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے (تو جو ہوتا ہوتا) یوں اس لیے (کیا گیا) کہ ہم ان سے برائی اور بےحیائی کو روک دیں۔ بےشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ﴿۲٤﴾ اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا تو عورت بولی کہ جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی اس کے سوا کیا سزا ہے کہ یا تو قید کیا جائے یا دکھ کا عذاب دیا جائے ﴿۲۵﴾ یوسف نے کہا اسی نے مجھ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا۔ اس کے قبیلے میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا کہ اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا تو یہ سچی اور یوسف جھوٹا ﴿۲٦﴾ اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچا ہے ﴿۲۷﴾ اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تم عورتوں کے فریب بڑے (بھاری) ہوتے ہیں ﴿۲۸﴾ یوسف اس بات کا خیال نہ کر۔ اور (زلیخا) تو اپنے گناہوں کی بخشش مانگ، بےشک خطا تیری ہے ﴿۲۹﴾ اور شہر میں عورتیں گفتگوئیں کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے۔ اور اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے۔ ہم دیکھتی ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہے ﴿۳۰﴾ جب زلیخا نے ان عورتوں کی (گفتگو جو حقیقت میں دیدار یوسف کے لیے ایک) چال (تھی) سنی تو ان کے پاس (دعوت کا) پیغام بھیجا اور ان کے لیے ایک محفل مرتب کی۔ اور (پھل تراشنے کے لیے) ہر ایک کو ایک چھری دی اور (یوسف سے) کہا کہ ان کے سامنے باہر آؤ۔ جب عورتوں نے ان کو دیکھا تو ان کا رعب (حسن) ان پر (ایسا) چھا گیا کہ (پھل تراشتے تراشتے) اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بےساختہ بول اٹھیں کہ سبحان الله (یہ حسن) یہ آدمی نہیں کوئی بزرگ فرشتہ ہے ﴿۳۱﴾ تب زلیخا نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں۔ اور بےشک میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا مگر یہ بچا رہا۔ اور اگر یہ وہ کام نہ کرے گا جو میں اسے کہتی ہوں تو قید کردیا جائے گا اور ذلیل ہوگا ﴿۳۲﴾ یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید پسند ہے۔ اور اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤں گا ﴿۳۳﴾ تو خدا نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان سے عورتوں کا مکر دفع کر دیا۔ بےشک وہ سننے (اور) جاننے والا ہے ﴿۳٤﴾ پھر باوجود اس کے کہ وہ لوگ نشان دیکھ چکے تھے ان کی رائے یہی ٹھہری کہ کچھ عرصہ کے لیے ان کو قید ہی کردیں ﴿۳۵﴾ اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی داخل زندان ہوئے۔ ایک نے ان میں سے کہا کہ (میں نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ شراب (کے لیے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ (میں نے بھی خواب دیکھا ہے) میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور جانور ان میں سے کھا رہے (ہیں تو) ہمیں ان کی تعبیر بتا دیجیئے کہ ہم تمہیں نیکوکار دیکھتے ہیں ﴿۳٦﴾ یوسف نے کہا کہ جو کھانا تم کو ملنے والا ہے وہ آنے نہیں پائے گا کہ میں اس سے پہلے تم کو اس کی تعبیر بتادوں گا۔ یہ ان (باتوں) میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے سکھائی ہیں جو لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے اور روز آخرت سے انکار کرتے ہیں میں ان کا مذہب چھوڑے ہوئے ہوں ﴿۳۷﴾ اور اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذہب پر چلتا ہوں۔ ہمیں شایاں نہیں ہے کہ کسی چیز کو خدا کے ساتھ شریک بنائیں۔ یہ خدا کا فضل ہے ہم پر بھی اور لوگوں پر بھی ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ﴿۳۸﴾ میرے جیل خانے کے رفیقو! بھلا کئی جدا جدا آقا اچھے یا (ایک) خدائے یکتا وغالب؟ ﴿۳۹﴾ جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سن رکھو کہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ﴿٤۰﴾ میرے جیل خانے کے رفیقو! تم میں سے ایک (جو پہلا خواب بیان کرنے والا ہے وہ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا اور جو دوسرا ہے وہ سولی دیا جائے گا اور جانور اس کا سر کھا جائیں گے۔ جو امر تم مجھ سے پوچھتے تھے وہ فیصلہ ہوچکا ہے ﴿٤۱﴾ اور دونوں شخصوں میں سے جس کی نسبت (یوسف نے) خیال کیا کہ وہ رہائی پا جائے گا اس سے کہا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر بھی کرنا لیکن شیطان نے ان کا اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف کئی برس جیل خانے میں رہے ﴿٤۲﴾ اور بادشاہ نے کہا کہ میں (نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز ہیں اور (سات) خشک۔ اے سردارو! اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ ﴿٤۳﴾ انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں۔ اور ہمیں ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں آتی ﴿٤٤﴾ اب وہ شخص جو دونوں قیدیوں میں سے رہائی پا گیا تھا اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی بول اٹھا کہ میں آپ کو اس کی تعبیر (لا) بتاتا ہوں مجھے (جیل خانے) جانے کی اجازت دے دیجیئے ﴿٤۵﴾ (غرض وہ یوسف کے پاس آیا اور کہنے لگا) یوسف اے بڑے سچے (یوسف) ہمیں اس خواب کی تعبیر بتایئے کہ سات موٹی گائیوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ اور سات خوشے سبز ہیں اور سات سوکھے تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جا (کر تعبیر بتاؤں)۔ عجب نہیں کہ وہ (تمہاری قدر) جانیں ﴿٤٦﴾ انہوں نے کہا کہ تم لوگ سات سال متواتر کھیتی کرتے رہوگے تو جو (غلّہ) کاٹو تو تھوڑے سے غلّے کے سوا جو کھانے میں آئے اسے خوشوں میں ہی رہنے دینا ﴿٤۷﴾ پھر اس کے بعد (خشک سالی کے) سات سخت (سال) آئیں گے کہ جو (غلّہ) تم نے جمع کر رکھا ہوگا وہ اس سب کو کھا جائیں گے۔ صرف وہی تھوڑا سا رہ جائے گا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ﴿٤۸﴾ پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا کہ خوب مینہ برسے گا اور لوگ اس میں رس نچوڑیں گے ﴿٤۹﴾ (یہ تعبیر سن کر) بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف کو میرے پاس لے آؤ۔ جب قاصد ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ بےشک میرا پروردگار ان کے مکروں سے خوب واقف ہے ﴿۵۰﴾ بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا کہ بھلا اس وقت کیا ہوا تھا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ سب بول اٹھیں کہ حاش َللهِ ہم نے اس میں کوئی برائی معلوم نہیں کی۔ عزیز کی عورت نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئی ہے۔ (اصل یہ ہے کہ) میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور بےشک وہ سچا ہے ﴿۵۱﴾ (یوسف نے کہا کہ میں نے) یہ بات اس لیے (پوچھی ہے) کہ عزیز کو یقین ہوجائے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی (امانت میں خیانت نہیں کی) اور خدا خیانت کرنے والوں کے مکروں کو روبراہ نہیں کرتا ﴿۵۲﴾ اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے گا۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے ﴿۵۳﴾ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنا مصاحب خاص بناؤں گا۔ پھر جب ان سے گفتگو کی تو کہا کہ آج سے تم ہمارے ہاں صاحب منزلت اور صاحبِ اعتبار ہو ﴿۵٤﴾ (یوسف نے) کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیئے کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں ﴿۵۵﴾
    (جاری ھے) :dilphool: :dilphool: :dilphool:
     
  27. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)
     
  28. ایلفا
    آف لائن

    ایلفا ممبر

    شمولیت:
    ‏3 فروری 2007
    پیغامات:
    296
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    واہ بہت خوب
    ذولقرنین کا واقعہ زبردست ہے
     
  29. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    الفا آپ کا شکریہ فرحان آپ کا بے حد شکریہ :dilphool:
    نعیم بھائی آپ کا میں احسان مند ھوں:dilphool:
    سورہ یوسف کو دوسرہ حصہ حاضر خدمت ھے :dilphool: :dilphool: :dilphool:

    شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے۔ ہم اپنی رحمت جس پر چاہتے ہیں کرتے ہیں اور نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے ﴿۵٦﴾ اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے ان کے لیے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ﴿۵۷﴾ اور یوسف کے بھائی (کنعان سے مصر میں غلّہ خریدنے کے لیے) آئے تو یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ﴿۵۸﴾ جب یوسف نے ان کے لیے ان کا سامان تیار کر دیا تو کہا کہ (پھر آنا تو) جو باپ کی طرف سے تمہارا ایک اور بھائی ہے اسے بھی میرے پاس لیتے آنا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ناپ بھی پوری پوری دیتا ہوں اور مہمانداری بھی خوب کرتا ہوں ﴿۵۹﴾ اور اگر تم اسے میرے پاس نہ لاؤ گے تو نہ تمہیں میرے ہاں سے غلّہ ملے گا اور نہ تم میرے پاس ہی آسکو گے ﴿٦۰﴾ انہوں نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں اس کے والد سے تذکرہ کریں گے اور ہم (یہ کام) کرکے رہیں گے ﴿٦۱﴾ (اور یوسف نے) اپنے خدام سے کہا کہ ان کا سرمایہ (یعنی غلّے کی قیمت) ان کے شلیتوں میں رکھ دو عجب نہیں کہ جب یہ اپنے اہل وعیال میں جائیں تو اسے پہچان لیں (اور) عجب نہیں کہ پھر یہاں آئیں ﴿٦۲﴾ جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس گئے تو کہنے لگے کہ ابّا (جب تک ہم بنیامین کو ساتھ نہ لے جائیں) ہمارے لیے غلّے کی بندش کر دی گئی ہے تو ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیج دے تاکہ ہم پھر غلّہ لائیں اور ہم اس کے نگہبان ہیں ﴿٦۳﴾ (یعقوب نے) کہا کہ میں اس کے بارے میں تمہارا اعتبار نہیں کرتا مگر ویسا ہی جیسا اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا۔ سو خدا ہی بہتر نگہبان ہے۔ اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ﴿٦٤﴾ اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو دیکھا کہ ان کا سرمایہ واپس کر دیا گیا ہے۔ کہنے لگے ابّا ہمیں (اور) کیا چاہیئے (دیکھیے) یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کر دی گئی ہے۔ اب ہم اپنے اہل وعیال کے لیے پھر غلّہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی نگہبانی کریں گے اور ایک بار شتر زیادہ لائیں گے (کہ) یہ غلّہ جو ہم لائے ہیں تھوڑا ہے ﴿٦۵﴾ (یعقوب نے) کہا جب تک تم خدا کا عہد نہ دو کہ اس کو میرے پاس (صحیح سالم) لے آؤ گے میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجنے کا۔ مگر یہ کہ تم گھیر لیے جاؤ (یعنی بےبس ہوجاؤ تو مجبوری ہے) جب انہوں نے ان سے عہد کرلیا تو (یعقوب نے) کہا کہ جو قول وقرار ہم کر رہے ہیں اس کا خدا ضامن ہے ﴿٦٦﴾ اور ہدایت کی کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا۔ اور میں خدا کی تقدیر کو تم سے نہیں روک سکتا۔ بےشک حکم اسی کا ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں۔ اور اہلِ توکل کو اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے ﴿٦۷﴾ اور جب وہ ان ان مقامات سے داخل ہوئے جہاں جہاں سے (داخل ہونے کے لیے) باپ نے ان سے کہا تھا تو وہ تدبیر خدا کے حکم کو ذرا بھی نہیں ٹال سکتی تھی ہاں وہ یعقوب کے دل کی خواہش تھی جو انہوں نے پوری کی تھی۔ اور بےشک وہ صاحبِ علم تھے کیونکہ ہم نے ان کو علم سکھایا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ﴿٦۸﴾ اور جب وہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جو سلوک یہ (ہمارے ساتھ) کرتے رہے ہیں اس پر افسوس نہ کرنا ﴿٦۹﴾ جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے شلیتے میں گلاس رکھ دیا اور پھر (جب وہ آبادی سے باہر نکل گئے تو) ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو تم تو چور ہو ﴿۷۰﴾ وہ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے ﴿۷۱﴾ وہ بولے کہ بادشاہ (کے پانی پینے) کا گلاس کھویا گیا ہے اور جو شخص اس کو لے آئے اس کے لیے ایک بار شتر (انعام) اور میں اس کا ضامن ہوں ﴿۷۲﴾ وہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم تم کو معلوم ہے کہ ہم (اس) ملک میں اس لیے نہیں آئے کہ خرابی کریں اور نہ ہم چوری کیا کرتے ہیں ﴿۷۳﴾ بولے کہ اگر تم جھوٹے نکلے (یعنی چوری ثابت ہوئی) تو اس کی سزا کیا ﴿۷٤﴾ انہوں نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے شلیتے میں وہ دستیاب ہو وہی اس کا بدل قرار دیا جائے ہم ظالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں ﴿۷۵﴾ پھر یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شروع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی (ورنہ) بادشاہ کے قانون کے مطابق وہ مشیتِ خدا کے سوا اپنے بھائی کو لے نہیں سکتے تھے۔ ہم جس کے لیے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں۔ اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے ﴿۷٦﴾ (برادران یوسف نے) کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہو تو (کچھ عجب نہیں کہ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں مخفی رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (اور) کہا کہ تم بڑے بدقماش ہو۔ اور جو تم بیان کرتے ہو خدا اسے خوب جانتا ہے ﴿۷۷﴾ وہ کہنے لگے کہ اے عزیز اس کے والد بہت بوڑھے ہیں (اور اس سے بہت محبت رکھتے ہیں) تو (اس کو چھوڑ دیجیےاور) اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ احسان کرنے والے ہیں ﴿۷۸﴾ (یوسف نے) کہا کہ خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا کسی اور کو پکڑ لیں ایسا کریں تو ہم (بڑے) بےانصاف ہیں ﴿۷۹﴾ جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہو کر صلاح کرنے لگے۔ سب سے بڑے نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے خدا کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں قصور کر چکے ہو تو جب تک والد صاحب مجھے حکم نہ دیں میں تو اس جگہ سے ہلنے کا نہیں یا خدا میرے لیے کوئی اور تدبیر کرے۔ اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ﴿۸۰﴾ تم سب والد صاحب کے پاس واپس جاؤ اور کہو کہ ابا آپ کے صاحبزادے نے (وہاں جا کر) چوری کی۔ اور ہم نے اپنی دانست کے مطابق آپ سے (اس کے لے آنے کا) عہد کیا تھا مگر ہم غیب کی باتوں کو جاننے اور یاد رکھنے والے تو نہیں تھے ﴿۸۱﴾ اور جس بستی میں ہم (ٹھہرے) تھے وہاں سے (یعنی اہل مصر سے) اور جس قافلے میں آئے ہیں اس سے دریافت کر لیجیئے اور ہم اس بیان میں بالکل سچے ہیں ﴿۸۲﴾ (جب انہوں نے یہ بات یعقوب سے آ کر کہی تو) انہوں نے کہا کہ (حقیقت یوں نہیں ہے) بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے بنالی ہے تو صبر ہی بہتر ہے۔ عجب نہیں کہ خدا ان سب کو میرے پاس لے آئے۔ بےشک وہ دانا (اور) حکمت والا ہے ﴿۸۳﴾ پھر ان کے پاس سے چلے گئے اور کہنے لگے ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس) اور رنج والم میں (اس قدر روئے کہ) ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا ﴿۸٤﴾ بیٹے کہنے لگے کہ والله اگر آپ یوسف کو اسی طرح یاد ہی کرتے رہیں گے تو یا تو بیمار ہوجائیں گے یا جان ہی دے دیں گے ﴿۸۵﴾ انہوں نے کہا کہ میں اپنے غم واندوہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں۔ اور خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ﴿۸٦﴾ بیٹا (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ کہ خدا کی رحمت سے بےایمان لوگ ناامید ہوا کرتے ہیں ﴿۸۷﴾ جب وہ یوسف کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ عزیز ہمیں اور ہمارے اہل وعیال کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں آپ ہمیں (اس کے عوض) پورا غلّہ دے دیجیئے اور خیرات کیجیئے۔ کہ خدا خیرات کرنے والوں کو ثواب دیتا ہے ﴿۸۸﴾ (یوسف نے) کہا تمہیں معلوم ہے جب تم نادانی میں پھنسے ہوئے تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا ﴿۸۹﴾ وہ بولے کیا تم ہی یوسف ہو؟ انہوں نے کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں۔ اور (بنیامین کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے) یہ میرا بھائی ہے خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو خدا نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا ﴿۹۰﴾ وہ بولے خدا کی قسم خدا نے تم کو ہم پر فضیلت بخشی ہے اور بےشک ہم خطاکار تھے ﴿۹۱﴾ (یوسف نے) کہا کہ آج کے دن سے تم پر کچھ عتاب (وملامت) نہیں ہے۔ خدا تم کو معاف کرے۔ اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے ﴿۹۲﴾ یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔ اور اپنے تمام اہل وعیال کو میرے پاس لے آؤ ﴿۹۳﴾ اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے والد کہنے لگے کہ اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ (بوڑھا) بہک گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی بو آ رہی ہے ﴿۹٤﴾ وہ بولے کہ والله آپ اسی قدیم غلطی میں (مبتلا) ہیں ﴿۹۵﴾ جب خوشخبری دینے والا آ پہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہو گئے (اور بیٹوں سے) کہنے لگے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ﴿۹٦﴾ بیٹوں نے کہا کہ ابا ہمارے لیے ہمارے گناہ کی مغفرت مانگیئے۔ بےشک ہم خطاکار تھے ﴿۹۷﴾ انہوں نے کہا کہ میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے بخشش مانگوں گا۔ بےشک وہ بخشنے والا مہربان ہے ﴿۹۸﴾ جب یہ (سب لوگ) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا مصر میں داخل ہو جائیے خدا نے چاہا تو جمع خاطر سے رہیئے گا ﴿۹۹﴾ اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسفؑ کے آگے سجدہ میں گر پڑے اور (اس وقت) یوسف نے کہا ابا جان یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے مجھ پر (بہت سے) احسان کئے ہیں کہ مجھ کو جیل خانے سے نکالا۔ اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا۔ آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بےشک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے ﴿۱۰۰﴾ (جب یہ سب باتیں ہولیں تو یوسف نے خدا سے دعا کی کہ) اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے بہرہ دیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ تو مجھے (دنیا سے) اپنی اطاعت (کی حالت) میں اٹھائیو اور (آخرت میں) اپنے نیک بندوں میں داخل کیجیو ﴿۱۰۱﴾ (اے پیغمبر) یہ اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے تو تم ان کے پاس تو نہ تھے ﴿۱۰۲﴾ اور بہت سے آدمی گو تم (کتنی ہی) خواہش کرو ایمان لانے والے نہیں ہیں ﴿۱۰۳﴾ اور تم ان سے اس (خیر خواہی) کا کچھ صلا بھی تو نہیں مانگتے۔ یہ قرآن اور کچھ نہیں تمام عالم کے لیے نصیحت ہے ﴿۱۰٤﴾ اور آسمان و زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر یہ گزرتے ہیں اور ان سے اعراض کرتے ہیں ﴿۱۰۵﴾ اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ مگر (اس کے ساتھ) شرک کرتے ہیں ﴿۱۰٦﴾ کیا یہ اس (بات) سے بےخوف ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہو کر ان کو ڈھانپ لے یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو ﴿۱۰۷﴾ کہہ دو میرا رستہ تو یہ ہے میں خدا کی طرف بلاتا ہوں (از روئے یقین وبرہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔ اور خدا پاک ہے۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ﴿۱۰۸﴾ اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر (وسیاحت) نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔ اور متّقیوں کے لیے آخرت کا گھر بہت اچھا ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟ ﴿۱۰۹﴾ یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی (اس میں) وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا۔ اور ہمارا عذاب (اتر کر) گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا ﴿۱۱۰﴾ ان کے قصے میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ (قرآن) ایسی بات نہیں ہے جو (اپنے دل سے) بنائی گئی ہو بلکہ جو (کتابیں) اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کی تصدیق (کرنے والا) ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ﴿۱۱۱﴾ :dilphool: :dilphool: :dilphool:
     
  30. ایلفا
    آف لائن

    ایلفا ممبر

    شمولیت:
    ‏3 فروری 2007
    پیغامات:
    296
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شکریہ پنل بھائی اتنی اچھی چیزیں شئیر کرنے کا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں