1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

 آزادی کی پہلی قیمت

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از آریان انیس, ‏4 اگست 2010۔

  1. آریان انیس
    آف لائن

    آریان انیس ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2010
    پیغامات:
    179
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    آزادی کی پہلی قیمت



    امی یہ باہرپاکستان زندہ باد ، قائد اعظم زندہ باد کے نعرے کیوں لگ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کیا ہے سعد نے اپنی امی سے پوچھا۔ بیٹا پاکستان ایک ملک ہے جو ہمارا اپنا ہوگا۔ جہاں یہ گوری چمڑی والے ہم پر حکمران نہ ہونگے۔ لیکن امی یہ بات مجھے سمجھ نہی آتی جب سے پاکستان کے نعرے لگنے لگے ہیں۔ میرے تمام دوست مجھ سے دور کیوں ہو گئے ہیں۔ امی ایک بات بتائیں ، پاکستان کیسے بنے گا۔ امی نے سعد کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹا جب بھی کوئی چیز حاصل کی جاتی ہے تو اسکی قیمت چکانی پڑتی ہے سو پاکستان کی آزادی کی بھی قیمت چکانی پڑے گی۔
    سعد کی عمر نو سال تھی اور اسکا تعلق ایک پنجابی خاندان سے تھا۔ وہ اپنی امی ابو کے ساتھ ضلع ہوشیار پور کے ایک گاﺅں کا رہنے والا تھا اسکے گاﺅں میں دو حصے آبادی سکھوں اور ہندوﺅں کی تھی۔اسے یہ بات سمجھ نہی آتی تھی کہ جب دوستوں کے ساتھ وہ بچپن سے کھیلتا آیا تھا جب سے پاکستان کے نعرے لگنا شروع ہوئے تھے وہ اسکے ساتھ نہیں کھیلتے تھے۔اگر کبھی راستے میں ان سے ملاقات ہو جاتی تو وہ اسکو گھورتے ہوئے بغیر بات چیت کے گزر جاتے۔
    وقت گزر رہا تھا اور پاکستان زندہ باد ، بن کر رہے گا پاکستان کے نعروں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا لیکن ساتھ ساتھ ایک اور تبدیلی بھی رونما ہو رہی تھی کہ اس کے بچپن کے دوست چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس سے الجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس نے محسوس کیا تھا کہ اسکے ابا کے دوست پرسادیادف اور ہرن سنگھ کا اب ملنا جلنا کم ہو گیا تھا۔ اور ساتھ میں انکی بیویاں بھی اب انکے گھر کبھی کبھی ہی آتی تھیں۔ امی ابھی اب اس کو انکے گھر نہی بھیجتی تھی۔
    سعد کی ماں اپنے آس پاس کے گاﺅں کے لوگ ہجرت کرکے پاکستان کے علاقوں کی طرف جا رہے ہیںمجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں بھی ہجرت کرنی پڑے گی۔ایک رات سعد نے اپنی امی ابو کو باتیں کرتے ہوئے سنا ۔ لیکن میں یہ گھر اور سامان کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہوں۔ یہ میرے جہیز کا سامان ہے اور اس گھر کو سجانے میں بڑی محنت کی ہے میں نے۔ سعد کی امی نے جواب دیا۔ اللہ کی بندی جب سے پاکستان اور بھارت کی تقسیم کا اعلان ہوا ہے مسلمانوںکے گھروں پر حملے شروع ہو گئے ہیں۔۔عورتوں کو اغواءکیا جا رہا ہے مردوں کو قتل کر دیا جا رہا ہے ۔ اگر اللہ نے چاہا تو پاکستان جا کر ہم سب کچھ دوبارہ بنالیں گے۔سعد کے ابا نے اماں کو سمجھایا ۔سعد نے محسوس کیا تھا کہ جب سے پاکستان کا اعلان ہوا ہے ان کے گاﺅں کے مسلمان تیزی سے اپنا گھر بار چھوڑ کر جا رہے تھے۔
    رامواس سعد پر نظر رکھنا سنا ہے کہ اس کے گھر والاے بھی پاکستان جا رہے ہیں۔ پرساد یادو نے اپنے بیٹے کو سمجھایا ۔پتا جی وہ میرا دوست ہے اور اسکے پتا آپ کے دوست ہیں پھر وہ ہم لوگوں کو کیسے چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔او پتر کداں دیاں گلاں کردا ایں(بیٹا کسی باتیں کرتے ہو) اے مسلے ساڈے اوس ویلے تکر یار سی جدوں تاں اے ایتھے رندے سی( یہ مسلمان تب تک ہمارے دوست تھے جب تک ادھر رہتے تھے) پتر جے اے ایتھوں جان دی کوشش کرن گے تے اناں دیاں روحاں سورگ وچ پیج دیاں گیں۔ اناں نوں زندہ ایتھوں جاں نئی دیاں گیں(بیٹا اگر انہوں نے ہجرت کرنے کی کوشش کی تو ان کو قتل کر دیں بچ کر کوئی بھی نہی جا سکے گا)ہرن سنگھ نے جذباتی ہو تے ہوئے کہا۔

    پرساد جو ہرن کی باتیں سن رہا تھا بولا ہرن بھائی تم سہی بولنے کا ۔ اپن نے ساتھ والے گاﺅں کے بارے میں سنا ہے کہ وہاں پر مسلوں نے پاکستان جانے کی کوشش کی تھی۔ گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ چھوڑا سالے مسلوں کو۔ اپن نے گاﺅں کے بدمعاش چھوکروں سے بات کی ہے کہ مسلوں پر نظر رکھیں جو جا چکے ہیں انکی قسمت اب ان میں میں کوئی مسلاں زندہ بچ کر نہی جانا چاہے۔ باپو اگر سعد نے میرے کو چھوڑ کر جانے کی کوشش کی تو اپن اس کو اور اسکے سارے خاندان کو سلاد کی صورت کاٹ ڈالے گا۔ جی او پتر دل خوش کیتا۔ہن لگیاں میرا پتیجاں(بیٹا دل خوش کر دیا اب میرے بھتیجے لگے ہو) ہرن سنگھ نے کہا۔
    اللہ کی بندی تیاری رکھو ہم آج رات یا کل کی رات پاکستان کو نکلیں گیں۔ حالات بہت بدترین ہوتے جا رہے ہیں ۔ بلوائیوں نے ساتھ والے گاﺅں میں رات حملہ کیا تھا بہت کم لوگ بچ کر جا سکے۔ جو گئے ہیں وہ بھی رخمی ہیںیا بالکل ہی تباہ حال ہیں۔سنا ہے عورتوں کو اغواہ کر لیا ہے۔مجھے کچھ لوگوں سے پتہ چلا ہے کہ اب ان کا ادھر بھی حملہ کرنے کا ارادہ ہے ۔ سعد جو انکی باتیں سن رہا تھا کو ابو نے سمجھایا کہ کسی سے ان باتوں کا ذکر نہی کرنا ہے۔
    رات کا دوسرا پہر تھا سب لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔سعد،اسکی امی ابو اور گاﺅں کے کچھ اور مسلمان گاﺅں سے باہر اپنے سامان کے ساتھ جمع تھے۔ آج رات ان لوگوں کا پاکستان جانب ہجرت کرنے کا ارادہ تھا۔ رات اندھیری ہونے کی وجہ سے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔قافلے کے جب سارے لوگ ایک جگہ پر اکٹھے ہو گئے۔ تو انہوں نے پاکستان کی جانب سفر کا آغاز کر دیا۔سب لوگ ڈر سہمے ہوئے تھے۔ آگے کیا مشکلات آنے والی تھیں کوئی نہیں جانتا تھا ۔ ہر شخص کے چہرے سے خوف عیاں تھا۔تمام عورتوں اور بچوں کو قافلے کے درمیان میں رکھا گیا تھا۔تاکہ آنے والے مشکل حالات میں انکی حفاظت کی جا سکے۔
    باپو آج سعد میرے کو ملنے آیا تھا۔بہت اداس لگ رہا تھا میرے کو لگتا ہے کہ وہ لوگ جانے کو تیار ہیں۔آج یا پھر کل رات میرے خیال میں وہ نکل جائیں گے۔او پتر کیڑا جا ریاں اے ایتھوں (بیٹا کون جا رہا ہے اھر سے) ہرن سنگھ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔ چاچا سعد میرے کو آج ملنے آیا تھا۔او پتر اونیں کوئی گل کیتی تیرے نال( بیٹا اس نے کوئی بات تیرے سے کی) ہرن سنگھ نے پوچھا ۔ نہیں چاچا بات تو کوئی نہی کی لیکن وہ اداس اداس لگ رہا تھا۔میرے کو شک ہے وہ لوگ آج یا کل ادھر سے جا رہے ہیں۔ اناں مسلاں کولوں بدلہ لین دا موقع آگیا اے میں وی اپنی کرپان تیار کر لئی اے(ان مسلمانوں سے بدلہ لینے کا موقع آگیا ہے میں بھی اپنی کرپان تیار کر لی ہے) رامو پتر جا پانی تے لے آ چاں دا وی بول چھڈی اپنی پرجائی نوں(بیٹا پانی لیکر آنااور چائے کا بھی اپنی امی کو بول دینا)۔
    ہرن بھائی ایک بات بتاﺅ تیرا ڈیرہ آجکل خالی ہے یا اھدر کوئی رہتا ہے ۔ پرساد نے سوال کیا۔ نہیں اوتھے کوئی نہی ہندا پر کرناں کی اے ڈیرے دا(نہی ادھر کوئی نہی ہوتا پر کرنا کیا ہے اسکا )یار میری رامو کے دوست سعد کی ماں پر نظر ہے میں اسکو اغواءکرنا ہے اور قتل کرنے سے پہلے اسکی عجت کا بلدکارکرنا ہے۔ میری اس پر کب کی نظر ہے۔ لیکن کبھی موقع ہاتھ نہی آیا۔ پرساد نے اپنے میلے دانت نکالتے ہوئے آہستہ سے کہا۔ نظر تے میری وی اودے اتے ہیگی سی لیکن میں ڈردا سی گل کرن توں(میری بھی اس پر نظر تھی لیکن میں بات کرتے ہوئے ڈرتا تھا) ہرن سنگھ نے جواب دیا۔

    قافلہ گاﺅں سے کوئی چالیس ،پنتالیس کلو میٹر آگے نکل چکا تھالیکن کوئی بھی معمولی سا واقعہ رونمان نہی ہوا تھا۔ جسکی وجہ سے ان سب کو سکون محسوس ہو رہا تھا۔لیکن سب جانتے تھے کہ وہ رات کے وقت ہی محفوظ ہیں ۔ سب کو پتہ تھا کہ آگے آنے والے حالات بدترین بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن امید کے سہارے دنیا قائم ہے۔ سو قافلہ خاموشی سے اپنے سفر پر رواں دواں تھا کہ جس طرح وہ یہاں تک محفوظ آگئے ہیں ۔شاید آگے بھی محفوظ رہیں۔
    تمام لوگ گاﺅں سے باہر ہرن سنگھ کے ڈیرے پر اکٹھے ہو چکے تھے۔ ان میں صرف ایک رامو ہی لڑکا تھا باقی سب نوجوان ہی شامل تھے۔ پرساد نے بولنا شروع کیا بھائیوں آپ جانتے ہو کہ مسلوں نے پاکستان کی جانب ہجرت شروع کر دی ہے ہمارا فرض بنتا ہے ان کو روکیں ۔ اگر نہی رکتے تو ان کوزندہ پاکستان جانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ ان کی عورتوں کو اغواءکر لو۔ اور ان کو اپنی رکھیل بنا لو۔ ان کا ایسا حال کرنا ہے کہ آئندہ کوئی مسلاں پاکستان جانے کا نام لینے سے بھی سوچتے ہوئے ڈرے۔تمام لوگ اپنا اسلحہ چیک کر لیں۔ ہم نے ان کو گاﺅں سے کوئی پچاس کلومیٹر آگے روکنا ہے تاکہ ہم ان کے مرد شک نہ کرسکیں اگر کوئی زندہ بچ گیا تو۔ سب نے رام کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔
    قافلہ مذید دو کلو میٹر آگے کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔سب نئے آنے والے وقت کے بارے میں سوچتے ہوئے خاموشی سے چلے جا رہے تھے۔ یک دم پودوں میں تھرتھراہٹ محسوس ہوئی۔ سب ڈر کر سہمے ہوئے نظر آنے لگے۔ لیکن وہ ایک گیڈر تھا جو ڈر کر بھاگ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر سب نے سکون کا سانس لیا اور خامو شی سے قافلہ دوبارہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو گیاسعد آگے سے نکل کر پیچھے لڑکوں کے پاس آگیا تھا ۔قافلہ مذید دو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر چکا تھا۔ سب پر سکون تھے ۔کوئی نہی جانتا تھا کہ وہ موت کے دائرے کے قریب ترین ہوتے جا رہے ہیں۔
    قافلے نے جیسے ہی مذید ایک کلو میڑ کا فاصلہ طے یک دم چاروں جانب سے شور اٹھا اور بلوائیوں نے حملہ کر دیا۔ ماحول کی خاموشی ٹوٹی اور ظلم کا پہاڑ گرم ہو نے لگا۔ مردوں اور بچوں کو قتل کیا جانے لگا۔ رامو سعد کو تلاش کر رہا تھا ۔سعد کی نظریں اپنی امی ابو کو تلاش کر رہی تھیں ۔لیکن اسکے ابو پہلے ہی حملے میں شہید ہو چکے تھے۔رامو نے سعد پر چاقو سے حملہ کیاجو اسکے بازوں پر لگا ۔وہ گھوم کر حملہ آور کو دیکھنا چاہتا تھا کہ دوسرا حملہ اسکی کمر پر ہو چکا تھا۔ اس نے گھوم کر دیکھا تو اس پر حملہ کرنے والا رامو تھا وہ حیران رہ گیا حملہ آور کو دیکھ کر ۔ رامو ابھی تیسرا حملہ کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ سعد چکرا کر گرا اور شاید موت کے حوالے ہو شکا تھا۔ سعد کو گرتا دیکھ کر رامو نے چاقو پھینکا اور سعد کو لپٹ گیا۔شاید وہ بچہ تھا ابھی اس میں انسانیت باقی تھی۔ وہ حیران تھا کہ اس نے یہ کیا کر دیا ہے۔ وہ رو رہا تھا اور سعد کو پکار رہا تھا لیکن وقت گزر چکا تھا۔
    ہرن سنگھ نے سعد کی ماں کو قابو کر لیا تھا اس کو کندھے پر ڈال لیا۔ پرساد اپنے میلے دانت نکال کر ہنس رہا تھا۔ سعد کی ماں نے ان کو خدا رسول کے واسطے دی رہی تھی۔لیکن پر شاید شیطان سوار تھا۔ قافلے کو مرد اور عورت قتل ہو چکے تھے ۔زیادہ تر عورتوں نے خود ہی خود کو ختم کر لیا تھا تاکہ ان کی عزت محفوظ رہ سکے۔ سعد کی ماں بھی یہی کرنے جا رہی تھی کہ ہرن سنگھ نے اس کو دبوچ لیا۔ ہرن سنگھ سعد کی ماں کو لے کرفوراً خاموشی سے ایک جانب کو نکل گیا تھا ۔پرساد باقی سب لوگوں کو گاﺅں بھیج کر خود بھی ہرن سنگھ والی سائیڈ پر نکل آیاتھا، جلد ہی دنوں مل گئے۔ دنوں نے ڈیرے پر پہنچنے کی بجائے عزت کا کھیل یہاں ہی کھیلنے کا سوچا۔

    ابھی دونوں عورت کو بے بس کرنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ ہرن سنگھ کی کرپان سعد کی مان کے ہاتھ میں آگئی۔ اس نے فوراً ہرن سنگھ پر حملہ کیا جو اس کے چہرے پر کٹ چھوڑتا گیا۔ کٹ معمولی تھا لیکن اس سے خون کی لکیر نکل آئی تھی جس نے ہرن سنگھ کو پیچھے ہٹ جانے پر مجبور کر دیا۔ یہ دیکھ کر پرساد بھی پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے چاقو نکال لیا تھا۔ ہرن سنگھ کے ساتھ میں اب تلوار نظر آ رہی تھی۔سعد کی ماں نے واپس ڈھوڑ لگا دی تاکہ اپنی عزت کو محفوظ رکھنے کی آخری کوشش کر سکے۔ وہ لاشوں کے پاس ہی پہنچی تو حیران رہ گئی کہ قافلے میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ تھا ۔
    ابھی وہ حیرانگی سے باہر نہ نکل کر سکی تھی کہ دونوں شیطان اس کے سر پر آن پہنچے ۔پرساد نے اس کو دھکا مارا جس سے وہ منہ کے بل گر پڑی۔ ہرن سنگھ نے اس کے دونوں پیر قابو کر لئے۔ جب جب حوا کی بیٹی کو کو اپنی عزت محفوظ رکھنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو اس نے اپنے آپ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور چاقو سے پے در پے دو وار اپنے سینے میں کئے۔دونوں شیطان اس کو روکنے کو آگے بڑھے تو خود کی بیٹی نے ہرن سنگھ کے دل پر چاقو سے حملہ کیا ۔ حملہ کارگر گیا اور وہ پیچھے کی جانب گر پڑا ۔پرساد ہرن سنگھ کو گرتا دیکھ کر سکتے میں آگیا ابھی وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا تھا کہ حوا کی بیٹی نے چاقو واپس کھینچتے ہوئے دوسرا حملہ اسکی گردن پر کیا ۔ چاقوپرساد کی گردن کے درمیان میں پار ہو چکا تھا۔
    حوا کی بیٹی بھی گہرے زخموں سے نڈھال ہو چکی تھی۔ لیکن وہ آسمان کی جانب منہ کرکے اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ وہ محفوظ عزت کے ساتھ اس دنیا سے جا رہی تھی۔
    سورج نکل چکا تھا اور گرمی بڑھ رہی تھی۔ سعد کو بھی ہوش ہو آگیا تھا۔ زخم زیادہ گہرے نہ تھے ۔ لیکن ڈر سے وہ بے ہوش ہو گیا تھا ۔ اپنے آس پاس لاشیں ہی لاشیں دیکھ کر اس کو سمجھ نہی آرہی تھی کہ وہ کہاں پر آگیا ہے۔ ایک جگہ اسکو اپنی ماں کی لاش نظر آئی ۔ پاس ہی دونوں شیطان ہرن سنگھ اور پرساد بھی مردہ حالت میں پڑے تھے۔ وہ رونے لگا ہی تھا کہ ایک بار پھر چکرا کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔
    جب اس کو دوبارہ ہوش آیا تو پاس سے کچھ زخمی لوگ گزر رہے تھے جو اس کے گاﺅں کے ہی تھے۔ ہندوﺅں نے ہرن سنگھ اور پرساد کی واپسی نہ ہونے پر گاﺅں پر حملہ کر دیا جس پر چند ایک ہی مسلمان زخمی حالت میں اپنی جان بچا کر نکل سکے تھے۔سعد کو زندہ دیکھ کر انہوں نے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ سعد بھی اب خاموشی سے ان کے ساتھ چل پڑا ۔ساری رات وہ سفر کرتے رہے ۔صبح اذان کے وقت وہ پاکستان کی سرحد پر پہنچ چکے تھے۔ سرحد پر پہنچتے ہی سعد کو دوبارہ چکر آئے تو پاکستان آرمی کے ایک جوان نے اس کو تھام لیا۔
    سعد نے ایک نظر اٹھا کر دیکھا تو اسکو مسلمانوں کا سبز ہلالی جھنڈا اپنی پوری آب و تاب سے لہلاتا نظر آیا ۔ جوان نے پیار سے سعد کا ماتھا چوما اور کہا بیٹا آپ آزادی کی قیمت ادا کرکے آرہے ہواور اب محفوظ ہو۔ سعد نے بندہوتی آنکھوں سے سوچا شاید وہ یہ پاکستان آرمی کا جوان سچ کہ رہاہے کہ وہ آزادی کی پہلی ادا کرکے آرہا تھا۔ شاید یہ ہی آزادی کی پہلی قیمت تھی۔
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب:  آزادی کی پہلی قیمت

    انیس بھائی ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے ۔ مزید کا انتظار رہے گا۔
     
  3. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب:  آزادی کی پہلی قیمت

    بہت اچھی تحریر ہے۔
    لیکن کیا پاکستان آرمی ان اولیں دنوں میں ہی اتنی منظم ہوچکی تھی کہ بارڈر پر جاکر مہاجرین کا استقبال کررہے تھے جبکہ ابھی پاکستان میں نہ کوئی حکومتی مشینری اور نہ ہی کوئی سیٹ اپ قائم ہوا تھا ؟؟؟
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب:  آزادی کی پہلی قیمت

    خوبصورت تحریر کے لئے بہت شکریہ آریان
    امید ھے‌آپ اس فورم کی رونق اپنی شئیرنگ سے بڑھاتے رھیں گے
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب:  آزادی کی پہلی قیمت

    بہت خوب آریان جی،!!!!!
    خوش رہیں،!!!
     
  6. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب:  آزادی کی پہلی قیمت

    آریان بھائی بہت ہی خوبصورت تحریر ارسال کی ہے بہت عمدہ :222: :a191:
     
  7. آریان انیس
    آف لائن

    آریان انیس ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2010
    پیغامات:
    179
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب:  آزادی کی پہلی قیمت

    جی وسیم بھائی پاکستان آرمی قیام پاکستان کے دن سے منظم ہے اور شاید آپ کو یاد نہ ہو کہ 1952 تک ہجرت کا ہسفر جاری رہا ہے یہ 1965 کی جنگ کے بعد سرحدی پابندی نافض ہوئی تھی
     
  8. آریان انیس
    آف لائن

    آریان انیس ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2010
    پیغامات:
    179
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب:  آزادی کی پہلی قیمت

    السلام علیکم اب کا پڑھنے کے لئے میں‌بہت بہت مشکور ہوں

    :n_thanks::n_thanks::n_thanks::n_thanks::n_thanks::n_thanks::n_thanks:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں