یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
نہ گُل کھلے ہیں نہ اُن سے ملے نہ مے پی ہے عجیب رنگ میں اب کے بہار گُزری ہے فیض
طلب کو تو نہ ملے گا تو اور لوگ بہت کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہوگا یہی نہیں کہ ہمیں توڑ کر گیا ہے کوئ اُسے بھی خود کو بہت دیرجوڑنا ہوگا
یوں تو ہے بے شمار وفا کی نشانیاں لیکن ہر ایک شے سے نرالے تمھارے خط
یادیں وہ سب تمھاری سمندر کو سونپ دی اور کر دیے ہوا کے حوالے تمھارے خط
نہ گئی تیرے غم کی سرداری دل میں یوں روز انقلاب آئے کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب آج تم یاد بے حساب آئے
ٹ سے جاری رکھو اب
ژ سے سے شعر ژولیدہ منہ ، اکھڑی سانسیں بکھرا بکھرا کاجل شب کا سارا حال کہے ہے اس بستر کی سلوٹ
اتنا سناٹا کیوں ہے بھایی ؟؟؟؟؟ اگلا شعر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آتا ہے جنہیں غیض نحیفانِ جہاں پر احکامِ شریعت کو وہ کرتے ہیں سبوتاژ
یہاں کسی کو بھی کویی حسبِ ارزو نہ ملا کسی کو ہم نہ ملے اور ہمیں تو تُو نہ ملا
ایک دریا ہے بس اپنے رخ پر کشتیاں آرغلط پار غلط :)
وہ تو خوش بو ہے ہواوں میں بکھر جاے گا مسلہ پھول کا ہے پھول کدھر جاے گا
ن سے اگلا شعر نہ حلاوتیں، نہ وہ لذتیں، نہ وہ ذائقہ، نہ وہ چاشنی ترے لعلِ تر کے مقابلے رہے قدرِلعلِ یمن غلط
ژ سے شعر آپ سب کی خدمت میں ژولیدہ حال دیکھ کے پوچھا جب اس نے حال کہنا پڑا کہ خوب ہوں، اچھا ہوں، ٹھیک ہوں
یہ کہتا ہے بدلے ہوئے موسم کا اشارہ یہ زندگی اپنی بھی ہوجائے گی سبوتاژ
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھاہے
مجھے موبائل سے لکھنے کی وجہ سے تھرڑی مشکل پیش آرہی تھی پر اب اگلا شعرآپ سب کی نظر ت سے تم ہمارے کسی طرح نہ ہوے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا