وہ میری دسترس میں ہے لیکن مسئلہ دسترس کا تھوڑی ہے۔۔
یقیں سے بے یقینی کا سفر بھی طے کیا میں نے مگر پھر بھی ترے دل کی رضا کچھ اور کہتی ہے
جِنسِ ویرانیِ صحرا میری دوکان میں ہے کیا خریدے گا ترے شہر کا بازار مُجھے
آج ان کی نظر میں کچھ ہم نے سب کی نظریں بچا کے دیکھ لیا آج
صبر ہر باراختیار کیا ہم سے ہوتا نہیں،ہزار کیا
[IMG]
مٹھی میں کچھ خواب اٹھائے پھرتا ہوں خود سے زیادہ بوجھ اٹھائے پھرتا ہوں
[IMG] دعا بھی آخری کوشش تھی روکنے کی تمھیں میری دعا میں نہیں کوئی اثر۔۔۔۔۔ جاو
میں آپ اپنے گلے لگ کے بین کرتا ہوں رووف امیر،میرے ویر،میرے سارے خواب
نہ ہوا نصیب قرارِ جاں ہوسِ قرار بھی اب نہیں ترا انتظار بہت کیا ترا انتظار بھی اب نہیں
نہ گلے رہے نہ گماں رہے، نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو وہ نشاطِ وعدہء وصل کیا، ہمیں اعتبار بھی اب نہیں اعتبار
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں ترے عہد میں دلِ زار کے سب اختیار چلے گئے
ڈوبے سے کہاں پیاس بجھی اہلِ طلب کی میں وادئ گل میں بھی بیا باں کی طرح تھا
ابھی رزم گاہ کے درمیاں ہے میرا نشاں کھلا ہوا ابھی تازہ دم ہے میرا فرض نئے معرکوں پہ تلا ہوا
میں اک آنسو ہی سہی، ہوں بہت انمول مگر یوں نہ پلکوں سے گراکر مجھے مٹی میں ملا مٹی
خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے موجِ ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ ہے
اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئ یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
یہ حادثہ ہے کہ ہے معجزہ نہیں معلوم خدا ہے اور مرے چاروں طرف محبت ہے
تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے شب کی آہیں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے آ کے بیٹھے بھی نہ تھے کہ نکالے...