آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا تیری زلف کے سر ہونے تک عاشقی صبر طلب اور تمنا ہے بیتاب دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جا یئں گے ہم تم کو خبر ہونے تک غمِِِ ہستی کا اسد کیسے ہو جزوِ مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے ہوتا ہت شب و روز تماشہ میرے آگے ایماں مھجے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے مت پوچھ کے کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے یہ دیکھ کے کیا رنگ ہے تیرا میرے آگے ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا میرے ہوتے گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا میرے آگے گو ہاتھ میںجنبش نہیں آنکھوں میںتو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا گریہ چاھے ہے خرابی مرے کاشانے کی در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو آپ جانا ادھر اور آپ ہی حیراں ہونا جلوہ، از بسکہ تقاضاے نگہ کرتا ہے جوہر آئنہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا عشرت قتل گہ اہل تمنا مت پوچھ عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا لے گئے خاک میںہم داغِ تمناے نشاط تو ہو اور آپ بہ صد رنگ گلستاںہونا عشرت پارہ دل ، زخم تمنا کھانا لذت ریش جگر، غرق نمکداں ہونا کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا حیف اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب! جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
درد منت کش دوا نہ ہوا میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشہ ہوا گلہ نہ ہوا کتنے شیریں ہیں اسکے لب کے رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا ہے خبر گرم ان کے آنے کی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا کیا وہ نمرود کی خدائی تھی بندگی میںمرا بھلا نہ ہوا جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یوںہے کہ حق ادا نہ ہوا کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں آج غالب غزل سرا نہ ہوا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا ترے وعدے پر جیے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میںتو کیا ہوتا ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانوں پر دھرا ہوتا ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہے وہ ہر ایک بات پر کہنا کہ یوںہوتا کہ کیا ہوتا
دل ہی تو ہے غالب تو پھر غالب ہی ہیں، انہوں نے سچ ہی کہا تھا کے ‘غالب کا ہے انداز بیاں اور‘ ایک غزل کی کچھ اشعار۔۔۔ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں جب وہ جمال دل فروز، صورت مہر نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوںّ غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں کسی شعر میں کوئی غلطی ہو تو معذرت کے ہمیں سب اشعار ٹھیک سے یاد نہیں ہیں۔
دل نا داں تجھے ہوا کیا ہے؟ آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ ہم ہیں مشاق اور وہ بے زار یا الہّی یہ ماجرا کیا ہے؟ میں بھی منہ میں زباں رکھتا ہوں کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے؟ جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟ شکن زلف عنبریں کیوں ہے؟ نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے؟ سبزہ گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟ ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟ ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہو گا اور درویش کی صدا کیا ہے؟ جان تم پر نثا ر کرتا ہوں میں نہیں جانتا دعا کیا ہے میں نے ما نا کچھ نہیں غالب مفت ہا تھ آئے تو برا کیا ہے
السلام علیکم صارم مغل صاحب ہماری اردو پر خوش آمدید :222: ذرا نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور دیکھیں کتنا دلچسپ پرچہ آپکا منتظر ہے http://www.oururdu.com/forum/viewtopic. ... 4971#34971 براہ مہربانی جلدی سے حل کر دیں۔ شکریہ
مدت ہوئی ہے یار کو مہمان کئے ہوئے جوش قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کئے ہوئے پھر وضح احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے
پسندیدگی کا شکریہ عبدلجبار صاحب۔ َََََََََََ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ وہ فراق اور وہ وصال کہاں وہ شب روز و ماہ وسا ل کہاں فرصت کاروبار شوق کسے ذوق نظار جمال جمال کہاں دل تودل وہ دماغ بھی نہ رہا شور سودا اے خط و خال کہاں تھی وہ ایک شخص کے تصور سے اب وہ رعنائی خیال کہاں ایسا آساں نہيں لہو رونا دل میں طاقت جگر میں حال کہاں ہم سے چھوٹا کمار خانہ عشق واں جو جاویں گرہ میں مال کہاں فکر دنیا میں سر کھپا تا ہوں میں کہاں اور یہ وبال کہاں مضمحل ہو گئے قوي غالب وہ عناصر میں اعتدال کہاں
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار * اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا تنگئ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا بعد یک عمرِ وَرع بار تو دیتا بارے کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا
غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخئ گفتارِ دوست مہربانی ہاۓ دشمن کی شکایت کیجیۓ یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسندآتی ہے آپ ہے ردیف شعر میں غالب! ز بس تکرارِ دوست
مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آ بھی نہ سکوں ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں
تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے غالب ترا احوال سنا دینگے ہم ان کو وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے
غالب کی سدابہار غزل یہ غزل مکمل نہیں کچھ اشعار رہ گئے ہیں مکمل غزل یہ ہے دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں دشنۂ غمزہ جاں سِتاں، ناوکِ ناز بے پناہ تیرا ہی عکسِ رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں حُسن اور اُس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم اپنے پہ اعتماد ہے، غیر کو آزمائے کیوں واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں ہاں وہ نہیں خُدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں