1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سرائیکی وسیب کی پرشانیاں اور محرومیاں،مشکلات

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از پنل, ‏27 جون 2008۔

  1. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    اسلام وعلیکم !
    چن کوئی چین کی تاریخ کا سب سے زیادہ قابل نفرت
    سمجھا جانے والا حکمران تھا۔اوراج یہ قابل نفرت کردار
    کی صورت میں مہجود ھے اسکے جارھانہ اورجسورانہ
    رویوں پر عوام اُس سے نالاں تھی.چینیوں نے اس سے
    نفرت کا اظھار کچھ یوں کیا کہ انہوں نے اگال دان کا
    نام چن کوئی رکھ دیا.چینی اگال دان میں تھوک کر
    چن کوئی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    پاکستان آجکل جس نازک ترین اور مخدوش صورتحال
    سے دوچار ہے.ملکی کشتی اندرونی اور بیرونی خطرات
    کے بحرالکاھل میں ڈگمگارہی ہے.ایک طرف سامراجی
    خواہشات کے تناظر میں دہشت گردی کا ہوا کھڑا کرکے
    امریکی فوجوں کی ہمرکابی کرنے پر ہماری اندرونی یک
    جہتی پارہ پارہ ہوچکی ہے.
    تو دوسری طرف مغربی دنیا پاکستان کو انتہاپسندی کی
    جنت قرار دیکر ہمارے چہرے پر کالک مل رہی ہے.
    ایک طرف کروڑوں ستم گر انسانوں کو بھوک وننگ..
    مہنگائی..اشیائے خوردونوش قحط، محرومیوں و
    مایوسیوں کی تاریک گھاٹیوں میں منہ کے بل گری ہوئی
    اس حرماں نصیب ریاست کے دفاتر دفاتر میں براجمان
    ڈریکولا بنےبیوروکریٹوں کے خونی پنجوں نےجکڑ رکھا ہے
    یہ خونی بھڑیے نقب لگا کر بھٹے ہیں اور مسلسل
    خون پیےجارہے ھے۔
    ان خونی بھڑیوں تعداد وسیب میں سب سے زیادہ ھے۔
    وسیب یہ سرائیکی خطہ کیوں کہ مصوم و سیدھے سادے
    لوگوں پر مشتمل ھے۔اور یہ ظالم لوگ اس معصومیت کا
    فائدہ اٹھا رہے ہیں۔یہ ظالم لوگ کہیں جگیردار ،سردار
    تو کہیں یہ سرمایہ دار کی شکل وچ ھن۔
    ان کے مفادات ان کی زات کے گرد گھومتے ہیں۔
    ان مفادات کا کام صرف اور صرف خون پینا ھے۔
    دوسری طرف پنجابی گردی ہیں اس گردی نے
    پورے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ھے۔
    یہ پنجابی گردی اُس چمچچوڑ کی ماند ھے جس کا
    کام صرف او صرف خون پینا ھے۔یہ چمچچوڑ
    سرائیکیوں کا خون پیے جا رہی ھے۔یہ چمچچوڑ
    خون پی پی کر ھک دھے۔دی شکل اختیار کر گئی ھے۔
    جب تک اس چمچچوڑ سے وسیب کو نجات نہیں
    ملے گئی اُس وقت تک وسب کی مشکلات،بیروزگاری،
    حق تلفی، وسیب کی اقتصادی فاقہ کشی،وسیب کی
    محرمیاں ،قائم رھے گئی جاری و ساری رھے گئی۔
    کیونکہ فوجی دھشت گردی اور پنچابی گردی کا معاملہ
    ساتھ ساتھ ہے لہذا جب تک پنچابی گردی بند نہ ہوگی
    ملک کی دوسری قومیتیں ازادی کی جدوجہد کرنے
    کا سوچیں گی۔
    اب وقت اگیا ہے کہ معاشرے کے ناسور یعنی
    پنجابی گردی پر لگام لگے۔
    اس معاملے میں سب سے بڑی پیش رفت یہ ممکن ہے
    جب وسطی پنچاب اور سرائیکی خطے کو دو صوبوں
    کی صورت میں تقسیم کردیا جاۓ۔ ایک نیا
    صوبہ جس میں‌سرحد کا کچھ حصہ (ڈی آئی خان وغیرہ)
    شامل ہو سرائیکی صوبہ کی صورت میں بنایا جاۓ۔
    سب سے بڑھ کر ملک کے تمام لوگ پنچابی گردی
    پر لعنت بھیجیں۔وگرنہ دوسرے لوگ آنے ہی والے ہیں۔
    اس سے نجات کا ھک بس ھک طریقہ ھے کہ اس
    چمچچوڑ کی گردن کاٹ کر زمین میں دفنا دی جاے۔
    وسیب کے 1٨ اضلاع پر مشتعمل خطے سرائیکی وسیب
    کے پانچ کروڑسے زائد سرائیکی بھی احساس محرومی
    و جاگیردارانہ استحصال کی صلیب پر لٹکے ہوئے ھیں.
    صوفیائے کرام کے مزاروں کی آماجگاہ.لہلہاتے و
    سرسبز و شاداب اور روح کو تازگی و دلکشی بخشنے
    والےباغوں کی اس دھرتی کے ہر کونے کھدرے
    میں بھوک و مفلوک والحالی ،بے روزگاری
    اور پسماندگی و جہالت کی تاریکیوں کا بسیرا ہے
    سرائیکی وسیب کے دل مدینتہ الاولیا.و مرجع ا لخلائق
    مزاروں کی سرزمیں ملتان کو سرائیکی وسیب کا دل
    کہا جاتا ہے۔رنجیت سنگھ کے دور میں ملتان صوبائی
    حیثیت کا علمبردار تھا..اس کی سرحدیں ایک طرف
    اجمیرسے وادی مہران تک اور دوسری طرف دھلی
    تک وسیع تھیں.ملتان کی جغرافیائی.زرعی و خوشحالی
    کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے
    کہ سکندر اعظم سےلیکرظہیرالدین بابر تک کے عالمی
    فاتحین نے ملتان کو اپنا باجگزار بنانے کے لئے بڑے
    پاپڑ بیلے.
    ملتان کے سینے میں دنیا کی قدیم ترین تواریخ پیوست ھیں.
    بیسویں صدی میں بہاولپور برصغیر پاک وہند کے نقشے پر
    خود مختیار وخوشحال ریاست کے روپ میں موجود تھی.
    سرائیکیوں کی پاکستان سے دلی الفت کا اندازہ لگائیے کہ
    ریاست کے نوابوں نے بابائے قوم حضرت قائداعظم کی
    دامے.درمےسخنے و قدمے نہ صرف مالی و اخلاقی معاونت
    فرمائی بلکہ تقسیم برصغیرکے وقت وارثان ریاست نے بھارتی
    پیشکش کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اپنا الحاق
    پاکستان سے کیا۔
    جس کی وجہ سے اج سرائیکی محکوم و غلام ھے.
    اور الفت دیکھاو اور پھر غلامانہ زندگی بسر کرو۔
    یہ کیسا معاہدہ تھا جو سرائیکیوں کو غلام بنا چُکا ھے۔
    یہ کیسی الفت ھے جس نے انے والی نسل کو بیچ دیا
    ھے۔یہ معاہدہ سرائیکی قوم کے سامنے لایا جائے
    تاکہ پتا تو چلے کہ معاہدے کے محرکات کیا تھے
    کیا معاہدے کا مقصد سرائیکی زمین کی بندر بانٹ کرنا تھا؟
    کیا معاہدہ کا مقصد سرائیکی علاقے پر قبضہ کرنا تھا؟
    کیا معاہدة کا مقصد چولستان پر قبضہ کرنا ھے؟
    کیا معاہدة کا مقصدتھل پر قبضہ کرنا ھے؟
    کیا معاہدة کا مقصد سرائیکی علاقے کا پانی بھارت کو
    ١٠٠ کروڑ میں بیچ دینا تھا؟
    کیا معاہدة کا مقصد سرائیکی قوم کو غلام بنانا ھے؟
    کیا معاہدة کا مقصدسرائیکیوں کا اتصال اور پنجابی
    گردی ہوا دینا تھا؟
    کیا معاہدة کا مقصد سرائیکی علاقے کو پسماندا
    اور اس پر قبضہ کرنا ھے؟
    اگر یہ سب تھا تو ھم کسی اسے خرفات اور
    عوام دُشمن معاہدے کو نہیں مانتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس پر مستزاد یہ کہ ظہور پاکستان کے وقت حکومت
    مالی دشواریوں کا شکار تھی اس موقع پر بہاولپور
    کے شاہی خزانوں سے سرکار کے ملازمین کو تنخواہیں
    ادا کی گئیں. قائداعظم نے ریاست کے پاکستان میں ضم
    ہونے کی تقریب میں شاداں و فرحاں ہوکر میں اعلان
    فرمایا تھا کہ مرکزی اتھارٹی بہاولپور کے ریاستی
    معاملات میں نہ تو دراندازی کر ے گی اور نہ ہی ریاست
    کی صوبائی خود مختیاری پر حرف گیری کرے گی.
    اج یہ صلا ھے کہ سرائیکی علاقےکو ھک کالونی بنا لیا
    گیا ھے۔اور اج جو دولت اور جس زمین پر وسیب
    کا حق تھا وہ دوسروں کوبانٹ کر بھگڑے ڈالے جا
    رہے ھیں۔
    اج وسیب کو اپنی شناخت کے لئے نام کیلئے
    سوالی بنے ہوے ھے۔شناخت کب ملے گئی ؟
    یہ کیسا ظلم ھے یہ کیسی ناانصافی ھے
    یہ کیسی انسانیت ھے؟
    پچاس کی دھائی میں ریاست ک بہاولپور
    کے انتخابات ہوئے.55 رکنی اسمبلی معرض
    وجود میں ائی۔ رحیم یار خان سے مخدوم حسن
    محمود قائدایوان منتخب ہوئے.ریاستی حکومت اپنے
    معاملات کامیابی سے چلارہی تھی.اور سرائیکی
    خوشحالی و ہریالی کا دامن تھام کر سکھ چین
    کی زندگی بسر کر رہے تھے۔
    اور اج وسیب وچ لاچاری ھے؟کیا اس وجہ سے
    الحاق ھوا تھا کہ وسیب کو غلام بنا لیا جائے؟
    قائداعظم کے سانحہ ارتحال کے بعد فوجی جرنیلوں نے
    سامراجی غلاموں(جاگیرداروں) اور بیوروکریسی کے
    گٹھ جوڑ سے جہاں ملک سے نوزائیدہ گلستان
    جمہور کو اجاڑ دیا تو وہاں عسکری بابووں نے
    سرائیکیوں کی آزادی و خودمختیاری پر شب خون
    مارتے ہوئے بہاولپور کو ون یونٹ کے قبرستان میں
    ہمیشہ کےکیلئے دفنا دیا فوجی حکمرانوں نے اپنے
    ادوار ظلمت میں وسیب پر مصائب و الام کی یلغار.
    جبروت و سطوت کی بھر ماراور چیرہ دستیوں کی
    برسات کی۔ ایوب خان نے کڑوروں اہل ثروت زمینداروں
    کو اس وقت کشگول اٹھانے پر مجبور کردیا ۔
    جب ایوبی دور کے کج فہم پالیسی سازوں نے
    سوکڑور کے عوض سندہ طاس معاہدےکا پتلی
    تماشا رچایا. دریائے ستلج کا پانی بھارتی کھیتوں
    کو سیراب کرنے لگا۔ اور اس دھرتی سیاہ نصیب
    کی پچاس لاکھ ایکڑ سے زائد سونا اگلتی زمینیں
    دھول اڑاتےصحراوں میں بدل گئیں.
    سینکڑوں غریبوں کو روزانہ دو وقت کی روٹی مہیا
    کرنے والے وسیبی زمیندار خود نشان عبرت بن گئے.
    مغلیہ محلات میں میکاولے کا پرنس بن کرحاکمانہ
    دندناہٹ کا مظاہرہ کرنے والے ایوبی ہرکاروں کو تو
    کچھ معلوم ہی نہ تھا.کہ سندھ طاس معاہدے نے
    وسیب میں کونسی دوزخ سجادی.؟

    کینویں ساڈے ٹوبھے سُکے گائیں کتھا لسیاں کتھاں
    توڈے کتھاں ،ڈُندیاں کتھاں،مڈی وکی مٹی دے مل
    ٹوبھے سُکے ،ساڈے مال مویشی کینویں مُکے
    تساں ساڈے فوٹو ڄھکو،ساڈے اُتے فییچر لکھو۔

    اے سرائیکیوں کیوں غفلت کی نید سو گےتھے؟
    برناڈ شاہ نے شائد اسی موقع کے لئے کہا تھا.
    (اپنی صحت کے لئے شام کو ٹینس و فٹ بال
    کھلنے والو.تمھیں کیا پتہ کے دیہاتوں میں محنت کرنے
    والے کسانوں اور مزدوروں کا بدن کس طرح چور چور ہوجاتا ہے.
    دریائے ستلج کے دلکش کناروں پر دنیائے عالم کی قدیم.جازب نظر،
    روح پرور و چشم کشا تہذیب و ثقافت ھزاروں سال اباد تھی۔
    جہاں کسی دور میں یہ تہذیب دنیا بھر کے سیاحوں مورخین کو اپنے
    سحر میں جکڑ لیتی تھی .وہاں اج الو بولتے ھیں۔
    اج یہ (پنجابی) کہتے ھیں کہ سرائیکی زبان پنجابی کی شکل ھے ۔
    اے چمچچوڑ کی اولادں میں تم کو بتا دینا ڄہاتا ہوں کہ
    سرائیکی زبان کی الگ ثقافتالگ تمدن، الگ رہن سہن ،الگ
    جغرفیاں اور الگ پہڄان ھے۔
    ھم کو ھتیار اٹھانے پر مجبور ناں کرو ورنہ تمہاری گردنیں
    کاٹ کر زمین میں دفنا دے گئے ھم۔
    پنجاب کی کل آبادی 96.260 ملین اور رقبہ 2050345 مربع
    کلو میٹر ہے .نو کروڑ نفوس پر مشتعمل صوبہ پنجاب ابادی و
    وسائل کے اعتبار سے ملک کے مجموعی حصےکا 62 فیصد ہے.
    وسیب کی ابادی پانچ کروڑ سے زائد ہے..
    وسیب کا صرف بائیس فیصد شہروں میں پناہ گزین ھے ۔
    جبکہ بقیہ دیہاتی علاقوں کی رونق ھیں. یہاں غربت کی
    شرح 55 جبکہ بے روزگاری کا لشکر ڈیڈھ کروڑ کے
    ہندسوں کو کراس کرچکا ہے.جن میں پچپن لاکھ خزاں
    رسیدہ تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ڈگریاں ھاتوں میں تھامے روزانہ
    سرکاری دفاتر اور گودوں کے ڈیروں کی خاک چھانتے پھرتے ھیں.
    دوسری طرف سیاسی خانوادوں سے تعلق رکھنے والے نکمے
    و کند زہن چشم و چراغ پرکشش سرکاری ملازمتوں پر فروزاں ھیں
    جبکہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چپڑاسی بھی نھیں لگایا جاتا.
    وسیب کی کوکھ سے جنم لیکر آکاش سیاست پر جھلملانے والے
    کئی سیاسی تاروں نے اپنی چکاچوند سے عالمی بساط تک کو متاثر کیا۔
    لیکن ہائے بدبختی کہ صدر پاکستان فاروق لغاری سے لیکر مصطفی کھر
    تک اورامجد حمید دستی.زوالفقار کھوسہ.. ممتاز دولتانہ گورنر و
    وزیراعلی تک نے ایسے بااختیار عہدوں تک رسائی کےباوجود علاقائی
    درماندگی کی تاریکیوں کو اجالوں میں بدلنے کا فریضہ انجام
    نہ دیا صدر سے لیکر گورنری اور کوتوال پنجاب ایسے جلیل القدر
    عہدوں پرجلوہ گر صرف نت نئی نوٹنکیاں دکھاتے رھے ۔
    اور کیوں کام ناں کیا۔
    وسیب ویسے ہی مشکلات،ناانصافی،ظلم و زیادتی،
    جبر و تشدت،بیروزگاری،حاکمیت کے سائے، جبر
    کے سائے،ظلمت کے سائے میں ھیں۔
    یہ سائے طویل ہوتے جارھے ھیں ۔کھوٹےسکے ہمیشہ
    کھوٹے رہیتے ھے۔چاھے انھیں سونے و چاندی کے پانی
    سے ہی کیوں نہ نہلائیں وہ کھوٹے ہی رھیں گے.
    لوٹ مار.کرپشن ..اقرباپروری..استحصال. اور طاغوت
    سے لبریز موجودہ ریاستی بندوبست اور فسوں کاری و
    پرفریبی کے شاہکاروں و جاگیرداروں کو ختم کئے بغیر
    اس سرزمین پاک پر صبح جمہورکا طلوع ناممکن ہے.
    اور ان کھوٹے سکوں ( جاگیرداروں ) سے عدل..
    و تعمیر وترقی اور عوامی خدمات کی نوازشات کی
    توقع کرنا ایسے ہے جیسے جھاڑیوں کے کھیت سے انگوروں
    کی فصل پیدا کرنے کے خواب دیکھنا..
    سرائیکی وسیب کی سیاست.معیشت.دولت.زراعت
    اور دیگر وسائل پر وڈیروں کا تسلط ہے..
    ظلم در ظلم کی کیفیت کا اندازہ لگائیے کہ ملک بھر
    کی غزائی اجناس کا ستر فیصد یہاں کا جفاکش کسان
    پیدا کرتا ہےلیکن اس کے بچے دووقت کے نوالے کے لئے
    ترستے ھیں.وہ یہاں لاہور وکراچی کے صنعتکاروں کی
    لگائی گئی ملوں میں اپنی محنت شاقہ سے کپڑے بنتا ہے ۔
    لیکن وہ خود بے گور وکفن لاشہ بنا ہوا ہے ہے.جہالت و
    پسماندگی کا راج ہے..
    ظلمت شب کی اتھاہ تاریکیوں میں گھری ہوئی
    اس بستی میں بے روزگاری کے لشکر دندناتے
    پھرتے ھیں.پانچ کروڑ آبادی کے لئے ملتان
    اور بہاولپور میں صرف دویونیورسٹیاں ھیں جبکہ
    اپر پنجاب کے دل لاہور میں سولہ سے زائد۔
    یہاں دو میڈیکل کالج اور لاکھوں مریضوں کے لئے
    نشتر ہسپتال وسیب کے 18اضلاع مییں ایک
    بھی کیڈٹ کالج نھیں۔
    ھمیں تعلیم کے زیور سے محروم رکھا جا رہا ھے۔
    تاکہ وسیب میں سوڄنے سمجھنے کی صلاحیت
    ختم ہو جائے۔تاکہ وسیب کو محکوم رکھا جائے۔
    تاکہ غلامی کا دور طویل ہو جائے۔
    ایک مخصوص پروپیگنڈہ کے زریعے وسیب کی
    آبادی کو کم دکھایا جا رہا ھے۔اس وجہ سے
    جب بھی مردم شماری ہوتی ھے سرائیکی کالم
    غائیب ہوتا ھے۔تاکہ پنجابیوں کی آبادی زیادہ
    ظاہر ہو۔یہ پروپیگنڈہ اُس وقت ختم نہیں ہو گا
    جب تک سرائیکی خود بھرپور احتجاج نہیں کرے گئے۔
    وسیب اپنی مخصوص شناخت کی بدولت آذاد صوبے
    کا حق رکھتا ہے۔پالیسی سازوں کو چاھیے کہ وہ
    سرائیکی علاقے ڈی جی خان…بہاولپور اور ملتان
    ڈو یژنوں کو ملا کر سرائیکی صوبے کا اعلان کردیں۔
    جاگیرداریت کا خاتمہ بھی اتنا ضروری ہے
    جتنا زندہ رھنے کے لئے اکسیجن لازم ہوتی ہے.
    پنجاب کی تقسیم سے جہاں ہجم.رقبے.آبادی و وسائل
    کے اعتبار سے سارے صوبے ہم پلہ ہوجائیں گے.
    وہیں چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف پائی
    جانیوالی نفرت کا خاتمہ ہوجائے گا.قومی یکجہتی
    کو فروغ ملے گا۔سیاسی و ملی استحکام پیدا ہوگا.
    اگر وسیب کے راجکمار یوسف رضا گیلانی کی
    بادشاہت کے دوران وسیب کےپی پی لیڈرز سرائیکی
    صوبے کے قیام کو یقینی بنوانے میں ناکام ٹھرتے ہیں.
    تو پھر انہیں اس نوشتے کو پڑھ لینا چاہیے.كہ یہاں بھی
    سرائیکی اگال دان کا نام چن کوئی رکھ سکتے ہیں۔
    فاروق لغاری، مصطفی کھر،امجد حمید دستی،
    زوالفقار کھوسہ،ممتاز دولتانہ یہ لوگ مفاد پرستوں کا ٹولا ھے ۔
    یہ لوگ اُسں کتے کی ماند ھے جو اپنے مالک سے
    بےوفائی کرتا ھے اور سمجھتا ھے کہ اُسں کا مالک
    بےخبر ھے ۔ان کتوں سے کیا وفا کی امید کی جائے۔
    یہ تو لوسی کتے ھے جو ھک پتھر مارنے سے بھاگ جائے گئے ۔
    یہ پتھر وسیب اٹھائے گئی یہ پتھر سرائیکی اٹھائے گئے ۔
    اے سرائیکیوں اٹھائو پتھر جوجو لوسی کتا ھے اس
    کے سر پر مارو اور پھر اس کی ٹیوں ٹیوں سنو!
    اے سرائیکیوں کڄھ پھتر بڄا کر رکھو کیا پتا کل
    کو یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی
    ،جاوید ہاشمی،دولتانہ لوسی کتوں کی صف میں
    شامل ہو جائے۔یہ لوگ پنجابی گردی کے وفادار ھے۔
    کیوں کہ جس طرح مجودة بجٹ میں سرائیکی خطے کو
    نظر انداز کیا گیا ھے۔اور اس سے پہلے بھی اس طرح نظر
    انداز ہوا ھے سرائیکی خطہ۔
    تعلیم نہیں ہو گئ تو ظلمت کے سائے پروان چہڑے
    گئے۔تعلیم نہیں ہو گئ تو غلامی کا دور لمبا ہو گا۔
    تعلیم نہیں ہو گئ حاکمیت کا دور ہو گا۔
    تعلیم نہیں ہو گئ سوچنے ،سمجحنے کی صلاحیت
    کم ہو گئ۔
    تعلیم نہیں ہو گئ تو دماغ کو زنگ لگے گا۔
    تعلیم نہیں ہو گئ تو پہچاں بھی کم ھو گئ۔
    سرائیکیوں تعلیم حاصل کرو۔اگر تمھیں ایک وقت
    بھوکے پیٹ سونا پڑے تو فکر مت کرو کیوں کہ
    ھم نے اپنی نسلوں کو بچانا ھے۔
    کیوں کہ تعلیم میں ھماری بقا کا راز چُھپا ھے۔
    کیوں کے تعلیم ہو گئ تو ھم اپنا مستقبل محفوظ
    کر سکتے ھیں۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خوش آمدید پنل صاحب۔
    آپکا دردِ دل پڑھنے کو ملا ۔ صرف سرائیکیوں کو ہی نہیں اس وقت پورے پاکستانی عوام کو جاگیرداری، سرمایہ داری، غنڈہ گردی، دہشت گردی اور فوجی و سول آمریت کی غلامی سے آزادی دلانے کی ضرورت ہے۔
    اگر ہم اسی طرح ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹ کر آزادی کی جدوجہد کرتے رہے، تو آزاد سندھ، آزاد کراچی، آزاد ملتان تو بن جائے گا لیکن "آزاد پاکستان" کا وجود شاید نہ رہے (خدانخواستہ)
    اس لیے ہم سب کو مل جل کر ایک پاکستان کے لیے فکر کرنا ہوگی۔ پنجابی عوام کے دل سب کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ خونخوار بھیڑیا خواہ کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو وہ خون ہی پیے گا۔ ڈریکولا کسی نسل کا بھی ہو وہ آپ کی گردن میں دانت گاڑے گا۔ دہشت گرد کسی بھی رنگ، مذہب کا ہو وہ بےگناہوں کی جان لے گا۔
    پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پٹھان کا زہر دراصل ہمارے لیڈر ہی سادہ لوح عوام کے اندر انجیکٹ کرتے ہیں اور اپنی لیڈری چمکاتے ہیں۔ وگرنہ عوام کے اندر ایک دوسرے کے خلاف بالعموم نفرت نہیں پائی جاتی اور نہ ہی کوئی کسی کی حق تلفی کرنا پسند کرتا ہے۔
    آپ نے خود ہی فرمایا
    ہائے بدبختی کہ صدر پاکستان فاروق لغاری سے لیکر مصطفی کھر
    تک اورامجد حمید دستی.زوالفقار کھوسہ.. ممتاز دولتانہ گورنر و
    وزیراعلی تک نے ایسے بااختیار عہدوں تک رسائی کےباوجود علاقائی
    درماندگی کی تاریکیوں کو اجالوں میں بدلنے کا فریضہ انجام
    نہ دیا صدر سے لیکر گورنری اور کوتوال پنجاب ایسے جلیل القدر
    عہدوں پرجلوہ گر صرف نت نئی نوٹنکیاں دکھاتے رھے ۔
    اور کیوں کام ناں کیا۔

    تو بھائی ۔ سب سے پہلے تو آپ کے احتساب کا ہاتھ ان کی گردن پر پڑنا چاہیے۔ نہ کہ پنجابیوں کو زندہ زمین میں‌گاڑنے کی دھمکیاں‌تو بعد میں‌دی جانی چاہیں۔ پہلے اپنا گھر سنوار لیں۔ اپنے لیڈر مخلص کرلیں۔ اپنا قبلہ درست فرما لیں۔ پہلے آپ لغاریوں ، کھروں ، ستیوں، دولتانوں اور کھوسوں سے حساب کتاب کرلیں۔ اور انکی جگہ سچے سُچے "پنل" راہنما سامنے لے آئیں ۔ یہ قدم آپ اٹھا لیں یقین کریں آپ کو اپنے حقوق خود بخود ملنا شروع ہوجائیں گے۔
    وگرنہ آپ صرف پنجابی کیا، پورے پاکستان کو بھی تہس نہس کردیں، آپ کے 5 کروڑ سرائیکیوں‌کو پھر سے کسی لغاری، کسی کھر، کسی دولتانہ یا کسی کھوسہ کی غلامی ہی کرنا پڑے گا۔ حقوق ملنا صرف ایک خواب رہ جائے گا۔

    مجھ فقیر کی بات دل کی تختی پر نوٹ کر لیجئے ۔ یہی کچھ ہوگا۔

    نفرت کرنا ہے تو اس جاگیردار سے کریں، سرمایہ دار سے کریں، لٹیرے، غنڈے ، رسہ گیر اور دہشت گرد لیڈر سے کریں جو آپ کی تقدیر سے کھیل کر آپ کو تگنی کا ناچ نچواتا ہے اور آپ اور ہم اسکی انگلیوں کے اشاروں پر گدھے بن کر ناچتے چلے جاتے ہیں۔ یہی لیڈر نسل در نسل ڈریکولا بن کر ہم غریبوں کا خون چوسے چلے جاتے ہیں اور ہم اپنی گردنیں ان کے سامنے نسل در نسل کیے چلے جارہے ہیں۔
    ہم سب کو جاگنا ہوگا۔ اس نظام کو بدلنا ہوگا۔ ایسا نظام لانا ہوگا جو ہمیں محمد عربی :saw: کے قدموں سے جا ملائے۔ جو ہمیں نہ صرف اس دنیا بلکہ مرنے کے بعد والی دنیا میں بھی عزت و آبرو بخشے۔ جس میں ہر کسی کو حق اسی دہلیز پر ملتا چلا جائے۔ جس میں سیدنا صدیق اکبر :rda: جیسا حکمران ملے جو گھر میں دو چراغ رکھے، ایک سرکاری تیل سے جلنے والا جس سے گورنمنٹ کے کام کیے جائیں اور دوسرا ذاتی کہ جس سے پرائیویٹ زندگی کے امور طے کیے جائیں۔
    عمر فاروق :rda: جیسا حکمران ۔۔ کہ جو رات کو اپنی پشت پر غلہ لاد کر غریب عوام کی دہلیز پر پہنچائے اور جس کو معلوم ہو کہ اگر ریاست کے دوسرے کنارے پر بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن " عمر" سے اسکی جواب طلبی ہوگی۔ عثمان و علی رضوان اللہ عنھما جیسے حکمران کہ جو عوام کے امن و امان کی خاطر اپنی جان بھی راہ خدا میں دے دیں تاکہ اسلامی ریاست پر آنچ نہ آئے۔
    ایسا نظام جس میں خلفائے راشدین اور سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ جیسی خوشحالی ہو کہ جہاں زکوۃ و خیرات دینے کے لیے گھر سے نکلیں تو کوئی غریب نہ ملے کہ جسے زکوۃ یا خیرات دی جاسکے۔
    لیکن اس خواب کی تعبیر کے لیے ہمیں ایک ایسا لیڈر بھی چاہیے ہوگا کہ جو خود ان سب کی غلامی کا دم بھرتا ہو، جو خود کو محمد عربی :saw: کی غلامی میں‌دے چکا ہو۔ جس کا آئیڈیل خلفائے راشدین ہوں اور جسے اللہ تعالی نے ظاہری و باطنی نور سے منور کیا ہو، جسے علم و حکمت کے سمندر مل چکے ہوں ، جو ملکی قوانین کو اسلامی تناظر میں دیکھ کر انٹرنیشنل لیول کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ جو بیک وقت سائینس، ٹیکنالوجی ، کاسمالوجی، آسٹرالوجی سمیت بنکنگ اور معاشی نظام ہائے کائنات پر نظر رکھتا ہوں۔ جسے عوام کی زبان آتی ہو ۔ جو ہمیں میں سے ہو، ہم جیسا ہو، اور جو بنا کسی لالچ کے اس قوم کو بہت کچھ دے چکا ہو، دے رہا ہو اور دیے جا رہا ہو۔
    جس کا ضمیر زندہ ہو، جو چند ٹکوں کے مفاد کی خاطر روز روز مجلسیں بناتا اور سجاتا نہ پھرے، جو آمروں کو ہزار گالیاں دینے کے باوجود انہی کے قدموں سے لپٹا نہ رہے اور جس کے دامن پر کسی سمگلر، کسی سرمایہ دار یا کسی دہشت گرد کی طرح غریب عوام کے خون کا دھبہ نہ ہو۔
    آئیے اپنے گردونواح میں نظر دوڑائیں ۔ خواب غفلت سے بیدار ہوکر ، اپنے ضمیر کو جھنجوڑتے ہوئے ، کسی روز اکیلے میں بیٹھ کر اپنے رب سے ہدایت مانگیں ، اور ایسے کسی راہنما کے لیے دعا کریں۔
    کیا معلوم اللہ تعالی کرم فرمائے اور ایسا ہی کوئی نجات دہندہ ہمیں عطا فرما دے۔
    بقول الطاف حسین حالی

    اے خاصہء خاصانِ رُسل ، وقتِ دعا ہے
    امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
    جو دین بڑی دھوم سے نکلا تھا وطن سے
    پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے


    نوٹ: یہ کاپی پیسٹ نہیں۔ بلکہ میرے دل کی آواز تھی جو انگلیوں سے منتقل ہوکر آپ کی خدمت میں پہنچ گئی ۔

    والسلام علیکم
     
  3. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    نعیم رضا صاحب آپ کا تبصرہ کرنے کا شکریہ۔مجھے اس بات کی خوشی زیادہ ھے کہ اپکا تبصرہ جوکہ اپکے دل کی آواز تھی وہ اپکی باکمال جادوائی انگلیوں سے گزر کر مجھ مسکین تک پُہچا ھے مجھکو یقین ہو چُکا ھے آپ کے پاس کوئی کمالات دیکھانے والی پٹاری ھے؟صاحب کوئی ایسا کمال عنایت ہو جس سے ہر فرد یا ہر قبیلے کو اُس کا حق مل جائے۔
    اگر کوئی قبیلہ بلوچ،سندھی،سرائیکی،پٹھان یا پنجابی بولتا ھے اور وہ اپنی زبان سے محبت کرتا تو یہ محبت اس کی فطرت میں شامل ھے۔آپ یا میں اسکو مجبور نہیں کر سکتے۔اُس کا حق نہیں مار سکتے،اُس سے اُسکا حق چھیں نہیں سکتے اوراگر ھم نے ایسا کیا(ھم ایسا کر چکے ھے) تو نعیم صاحب کتنے سال ھم اسکے حق پر قابیض رہے گئے سو سال یا دو سو سال ۔اُس کے بعد کیا ھو گا ؟کیا محکوم قابیض پر غالب نہیں آ جاتا۔قابیض ہمیشہ محکوم کو دبا کر نہیں رکھ سکتا۔
    نعیم صاحب میں سرائیکی ہو اور مجھکو سرائیکی ہونے پر فخر ھے۔یہ ایسا فخر ھے کہ میرا سینا چوڑا ھو جاتا ھے۔
    میرا قبیلہ ھزاروں سال سے سرائیکی ھیں اور سرائیکی ھی رھے گا چاہئے سر کٹ جائے۔
    نعیم صاحب میں محکوم ھوں، مجھ پر فوج سوار ھے مجھ پر پنجابی سوار ھے۔یہ لوگ میرا خون پیے جا رہے ھے۔میں سرائیکی تھک چُکا ھو۔میں چہاتا ھوں کہ میری آواز پاکستان کے ہر گھر میں سنائی دے۔دنیا کے ہر کونے میں سنائی دے۔مجھے اس چمچچوڑ سے نجات چاہئے۔مجھے پاکستاں سے محبت کی سزا نہ دی جائے پاکستان تو میرے رُوم رُوم میں بسا ھے۔باقی سرائیکی لیڈر ان کی تو شامت انے والی ھے۔ان لوگوں کو چوک پر جوتے لگے گئے وہ سرائیکی لیڈر جو بھڑیئے بن گئے ھیں۔چاہئے وہ فاروق لغاری ھو یا کھر ھو یا کھوسہ ھو یا مخدوم ھو۔یہ لوسی کتے ھے۔یہ تو ایک پتھر کی ماربھی نہیں ھیں۔وقت تبدیل ھو رہا ھے،یہ تبدیلی پورے پاکستان میں ائے گئی۔ھم سرائیکی اسی خطے کے باسی ھے۔پاکستان ایک انقلاب کی طرف بڑھ رہا ھے۔یہ انقلاب جو مر چکے ھے ان کی ہڈیوں کو تک پھانسی دے گا۔اور جو زندہ ھے ھلاکت میں پڑنے والے ھے۔
    نعیم صاحب !
    پاکستان سے الحاق سے پہلے ھم لوگ خوش حال تھے۔اور آج بدحال ھے۔
    پہلے ھم لوگ دوسروں کو دیتے تھے اور آج ھم دوسروں کے دست نگر ھے۔
    پتا نہیں الللہ سائیں کو ھماری کون سی بات ناپسند ٹھری ھے آج ھم محتاڄ بن گئے ھے۔ھم نے تو مہاجریں کی بھی دل کھول کر مدد کی تھی۔آج ھم انہں مُہاجرین کے گھروں میں ملازم ھے۔
    ھم سے کون سے گناہ سرزرد ھو گئے ھے۔اے الللہ ھم اپنے گناہوں کی معافیاں مانگتے ھے۔اے الللہ ھم کو بخش دے ۔اے اپنے حبیب حضرت محمد صلی الللہ علی وسلم سرور دو عالم کے صدقے میں سرائیکیوں کو معاف کر دیں بخش دے میرے مالک تو بے شک بخش دیتا ھے جو تیری طرف پلٹتاھے تیرا وعدہ ھے میرے مالک۔ اے الللہ سرائیکیوں کو پھر سے عروج دے۔اے الللہ سرائیکیوں پر اپنی رحمت برسا ۔اپنا کرم کر۔اے الللہ ھم غفلت میں پڑ گئے ھیں اے الللہ ھماری عقل پر تالے پڑ گئے ھے اے الللہ کھول دے پنی رحمت کے دروازے۔اور پاکستان کو خونی بھڑیوں سے بچا۔
    آمین ثُما آمین
     
  4. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    آمین

    اگر سرائیکی بیلٹ کو ایک نئے صوبے کا روپ مل بھی جاتا ہے تو کیا وہاں کے تمام مسائل حل ہو سکیں گے؟ یہی وڈیرے، یہی لغاری، یہی کھر، یہی دولتانے اور یہی کھوسے ان پر قابض رہیں گے اور غلامی کا ایک نیا روپ ان پر نافذ ہو چکا ہو گا اور ان کی ساری محنت 15 ، 20 سال پیچھے چلی جائے گی اور آج سے 15 ، 20 سال بعد یہ ایک بار پھر اس نئی غلامی کے خلاف متحد ہو رہے ہوں گے۔

    کیا ہی اچھا ہو اگر ہم اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں اور اس سے نجات کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں۔ اگر ہم قومیتوں، برادریوں اور فرقوں میں بٹے رہے اور اپنے محدود مقاصد کے لئے تگ و دو کرتے رہے تو کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ضرورت ہے کہ ہم روایتی سیاستدانوں سے جان چھڑانے کے لئے قوم کے ہمدرد لیڈروں کو سیاست میں آنے کا موقع دیں۔ انہیں مجبور کریں کہ وہ ملک و قوم کی تقدیر سنوارنے کے لئے آگے بڑھیں۔ عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے حقیقی لیڈر سامنے آئیں تو لٹیرے سیاستدانوں سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔

    مزید اسے پڑھیں http://www.worstnation.com/Muslim/Pakis ... d=29&cid=2

    میں ذاتی طور پر پاکستان کے تمام ڈویژنوں کو صوبوں کی شکل میں دیکھنے کے حق میں ہوں، جو ایک خاص حد تک صوبائی خودمختاری کے اصول پر قائم ہوں۔ بھارت اور افغانستان سمیت آس پاس کے کسی ملک میں بھی اتنے بڑے بڑے صوبے نہیں ہیں۔ صوبے چھوٹے ہونے سے اختیارات کی بہتر تقسیم کے علاوہ لوگوں کے معاملات میں بے حد آسانی آ جاتی ہے۔

    اسی طرح صوبوں کے نام مختلف قوموں یا قبیلوں کے نام پر رکھنے سے بھی احتراز ہونا چاہیئے تاکہ کسی صوبے میں کم تعداد میں رہنے والی قوم احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو۔
     
  5. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
     
  6. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    اسلام و علیکم !
    بنت ہوا سب سے پہلے تو اپکا بہت بہت شکریہ ۔ادی میں اپکی خدمت میں ھک نظم پیش کر رہا ھوں جو وسیب کے
    بارے میں ھے۔جس کو جناب عزت مآب سئیں عبداللطیف بھٹی صاحب نے لکھی ھے۔
    اساں کنڈو رانے کنڈ تے سجھ کوں چا تے ٹردوں
    پیریں ہیٹھ اے بھوئیں ترامے دی ،بلدی بھاتےٹردوں

    ہتھیں پتھر،پیٹ تے پتھر،سر تے پتھر ڈھوندئیں
    دل تے پتھر رکھ تے ،بُکھے،بال سُما تے ٹُردوں

    ہتھیں بدھ تے ٹوٹے بٹکے ،پیر پرانے پٹکے
    تتے وا جُھلوڑے ڄھل تے ،تریہہ بُھلا تے ٹردوں

    روندے بال رہیندوں تھپ تے بُکھ تے تریہہ دے ہوٹے
    اپنے بال وندال تے ، اپنے دل روا تے ٹردوں

    کھٹیا ،وٹیا ،پورہیا سارا ہکو سر دا بارا
    رتیں بار لہا تے سُمدوں ،فجریں چاتے ٹردوں

    سارا جیون ساڈے راہیں پتھر روڑا رہ گئے
    لوکیں کیتے ساڑتے تن کوں رہ بنا تے ٹردوں

    ساڈا عشق وی پھلیں وانگوں تتے تاتوں ڈردے
    سک دے سیک بچا تے ٹردوں،سجھ لُکا تے ٹردو
    ایک اور قطہ ھے۔جسکو جہاگیر مخلص صاحب نے لکھا ھے۔بہن جی عرض ھے۔

    تئیں مُونجھاں دی وَستی دے وِچ،کُونجاں لَتھیاں ڈِٹھئن؟
    تَئیں ساوِل کوں سِکدے وَن تے،پَکھی روندا ڈِٹھئے ؟
    تئیں پکھی دے آلھنیں دےوِچ،چوگ دی چوری ڈِٹھئی؟
    ٻَچے بُکھے مَردے ڈِٹھئن،سِینہ زوری ڈِٹھئی؟
    میں تاں اَپنیاں اَکھیں نال، اے سبھ کُجھ ڈِٹھے جانی
    ایں سانگوں تاں سُکدا کائنیں،میڈی اکھ دا پانی ــ

    بنت ہوا میں اتنا جنتا ھو کہ اپکو سچائی کا ادراک نہیں ھے ۔ھم سرائیکی وطن ہر حال میں لیے گئے۔
    ھم سرائیکی اپنی ماں دھرتی کی حفاظت کریں گئے۔ھم مٹ جائے گئے لیکن اپنی ماں دھرتی پر ناپاک قدم نہیں پڑنے
    دیئےگئے۔اپنی ماں دھرتی کی حفاظت میرے ایمان کا حصہ ھے۔
    سرائیکی لیڈر جو بھڑیئے بن گئے ھیں۔چاہئے وہ فاروق لغاری ھو یا کھر ھو یا کھوسہ ھو یا مخدوم ھو۔یہ لوسی کتے ھے۔یہ تو ایک پتھر کی ماربھی نہیں ھیں۔بنت ہوا واقعی ان کی لیڈری چمکنے والی ھے۔یہ لیڈر کتوں سے بدتر ھے۔کتا تو پھر بھی
    اپنے مالک کا وفادار ہوتا ھے۔ھم لوگ ھک انقلاب کی طرف بڑھ رہے ھے۔ایساں انقلاب جو حق دار کو اس کا حق ملے گا۔اور جو ظالم ھو گا اس سے حساب لیا جائے گا اسکی ظلمت کا،ناانصافی کا،اسکی فرعونیت کا۔
    وسیب میں حاضر وقت کے فرعون فاروق لغاری، کھر،کھوسہ،مخدوم،دولتانہ ،دستی ان میں فرعونیت ھے۔جب فرعون کو
    الللہ تعالی نے نشان عبرت بنا ڈالا۔اور اج مقام فرعون عبرت کی جگہ ھے۔یہ تو الللہ کی شان ھے یہ تو الللہ کا وعدہ ھے
    ظالم کو سزا ملتی ھے ظالم کی پکڑ ھوتی ھے۔مظلوم کو رہائی ملتی ھے۔
    ظالم کو حساب دے ناں ھونگا اپنے ظلم کا۔بس الللہ اور اسکے رسول صلی الللہ علی وسلم کی رسی کو مظبوطی کے ساتھ تھام کر رکیھں۔لکین کیوں کہ ہہ منافقوں دنیا ھے لوگ منافق ھو گئے ھے۔لوگ دوسرں کا حق مار رہے ھے۔
    دوسرں کا حق چھین رہے ھے۔اپ بنت ہوا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اپکو فرق صاف نظر آئے گا۔اپ اپنے آس
    پاس ںظر دوڑیں کیا اپ کو منافقوں کمی نظر آتی ھے۔یھاں میر جعفر اور میر صادق کی بُہتات ھے۔یہاں پر تو لوگ اپنا ایمان
    تک بیچ دیتے ھے۔اور یہاں خریداروں کی بھی کمی نہیں ھے۔

    پرت وچوں پرت ڈٹھم ہر پرت دا عجب کیھل ڈٹھم
    بھید وچوں بھید نختا ہر بھید دا عجب راز ڈٹھم۔

    اور اخر میں یہی کہوں گا سرائیکی صوبہ سرائیکی لوگوں کا حق ھے۔اور ھم کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی کا حق ناں مارے بلکہ جس کا جو حق ھے اس تک حق پُہچا دے۔یہ ھم سب کا فرض ھے۔یہ ھمارے ایمان کا تقاضا ھے ۔اور بیچ میں روڑے ناں اٹکائے۔چہائے روڑے تحریر کی شکل میں ہوں یا پھر پروپیگنڈے کی شکل میں یہ روڑے ہی ہوتے ھے۔
    ھم لوگ اسلام کے بنیادی فلسفے کو بھول بیھٹے ھے۔اور اسلام کا بنیادی فلسفہ حق دار کو اس کا حق ملے بی بی ۔
    اور یہاں پر حق دار کا حق مار کر ریوڑیا باٹی جا رہی ھے۔اور ھم لوگ تماشا دیکھنے مست ھے۔کیوں کہ ھم لوگ منافقوں
    اس گروہ سے تعلق رکھتے جو جھولیاں پھلا کر کھڑے ھیں اور اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پنل صاحب ۔ معاف کیجئے گا لیکن آپ کے پہلے پیغام اور آخری پیغام میں ایک واضح فرق محسوس ہورہا ہے۔
    بہرحال اللہ تعالی ہمارے پیارے وطن پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسکے ہرقسم کے اندرونی و بیرونی فتنوں سے محفوظ فرما کر تاقیامت سلامت رکھے۔ آمین کیونکہ ہم سب پہلے پاکستانی اور بعد میں پنجابی سندھی بلوچی پٹھان سرائیکی وغیرہ ہیں۔
     
  8. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    نعیم صاحب کیسی طعبیت ھے آپ کی۔خریت سے ھے آپ۔
    نعیم صاحب میرے لکھے میں کوئی فرق نہیں ھے۔ھاں اگر الفاظوں میں تلخی آجاتی ھے تو یہ وہ احساس ھے کہ جب ھم سرائیکی اپنا حق جو کہ ھمارا حق بنتا ھے مانگتے ھیں تو آپ لوگ ادھر اُدھر کی شروع کر دیتے ھیں۔سرائیکی صوبہ سرائیکی لوگوں کا حق ھے۔آج نہیں تو کل دینا پڑے گا۔کیا ضروری ھے کہ خون خرابہ ھو۔لیکین جو حالات دیکھائی دے رہے ھےاُس سے لگتا ھے خون خرابہ ضرور ھوگا۔سرائیکی صوبہ پاکستان کی ضمانت ھے سرائیکی صوبہ پاکستان کی سلامیت کی ضمانت ھے۔لیکین جس طرح کے حالات چل رہے کیا اپ کے پاس کوئی ٹھوس شہادت ھے کہ پاکستان کو نقسان نہیں ھو گا۔ملک ٹوٹ جاتے ھیں ملک فتح ھو جاتے ھیں عراق اور افغانستاں کی مثال آپ کے سامنے ھیں ۔علاقوں پر قبضہ ھو جاتا ھے۔بندوق کے زور پر یا پھر طاقت کے زور پر یہ ایک الگ بحث ھے۔سئیں میں آپ سے ھک سوال کرتا ھوں۔
    کیا امریکی حملے سے عراق سے عربی زبان کا سفایا ھو جائے گا؟
    کیا امریکی حملے سے افغانستاں میں پرشین،پشتو،تاجک زبان کو ختم کر دیا جائے گا؟
    یا پھر اس سے پہلے دنیا میں جتنے بھی علاقے فتح ھوئے کیا وھاں کا کلچر اور زبان ختم ھو گئی؟
    یا پھر جب سکندر جب ملتان فتح کرنے آیا تھا کیا وہ ملتان کو فتح کر سکا۔
    دور کیوں جائے نعیم صاحب کیا رنجیت سنگھ ملتان سے سرائیکی کلچر ختم کر سکا۔یہ وہی رنجیت سنگھ جس کا آج کل جشن بہارہ منایا جارہاھے۔یہ جشن مُردارہ لاھور میں منیا جارہا ھے۔
    نعیم صاحب سندھ میں بھی سرائیکی دفتری یا سرکاری زبان رہی ھے۔سومرو دور اور ہالیپوتہ دور میں۔
    آپ تاریخ کا مطالعہ دوبارہ کریں آپ میں مطالعے کی کمی ھے۔یا پھر تاریخ کا ادراک نہیں ھے۔میں یہ بات مانتا ھو کہ سرائیکی پر بڑا مشکل دور ھے یہ لیکین ھم اپنی سونی زبان کو اس مشکل سے نکال لئے گئے۔ھمیں اپنی زبان سے بہت ھی محبت ھے۔
    عَلاء سرائیکی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھ سرائیکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لکھ سرائیکی۔
    آخر وچ ھک نظم پیش کریساں۔

    رَب شـعـر دا بھانگا بَخشیا ہِے ٻس طالب ہُݨ تاثِـیر آں
    پَـر بے وارث ہِے ٻولی میݙی ، ہِیں سانگُوں دِلگـیـراں
    اِینکُوں پنج کـروڑ عوام اَلَـیندن وَسدے پاک وطن دے
    میں ہِیندا حق منواوݨ سانگے بـݨیا یار سَــفِــیر آں۔

    دنیا کی ھر زبان میں مشکل وقت آتاھے۔یہ تو ارتقاع کی ھک شکل ھوتی ھے۔یہ ارتقاع جاری وساری رہتا ھے۔کبھی ھم محسوس کرتے ھے کہ جمود تاری ھو گیا ھے اور دُشمن کے ھاں بھگڑے ڈالے جاتے ھیں۔یہ جمود بھی ارتقاع کی شکل ھے۔اس سے زبان میں پختگئی آتی ھے۔
    ایک بات اور کہ سرائیکی صوٻہ پاکستان کے بقا کی ضمانت ھے۔اس سے حق دار کو اسکا حق ملے گا۔پتا نہیں ھم لوگ اتنے ظالم کیوں ھے۔ھم لوگ بخیل کیوں ھے۔ھم لوگوں میں فرعونیت کیوں ھے اور ھم لوگ فرعون کے کردار کو بھول جاتے ھیں۔اور ھم لوگ فرعون کے انجام کو بھی بھول چُکے ھیں۔ھم لوگ پاکستان کے دو ٹکڑے کر چُکے ھیں۔
    اب بھی ھم لوگ نہیں سمجھ رہے۔اگر کسی کا حق مارا جائے تو وہ الگ ھونے کی سوچتا ھے۔پتا نہیں ھم حقدار کو حق کب دیے گئے۔کب اسکا حق تسلیم کرے گئے۔جب چڑیا کھیت چُگ جائی گئی تو پھر بیٹھ کر بین کرنا۔ھم لوگوں کا یہی وطیرہ ھے کہ ھم بعد میں پیشتاتے ھیں۔کہ یہ ھم سے کیا ھو گیا۔

    ھم لوگ موت اور زندگی کی جنگ لڑرہے ھیں فتح ھمارے قدم چومے گئی اور مر بھی گئے تو شہید کہلائے گئے۔کیوں کہ ھم حق پر ھیں۔الللہ حق والوں کا ساتھ دیتا ھے۔
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    الحمد للہ میں خیریت سے ہوں۔ شکریہ پنل بھائی ۔ امید ہے آپ بھی بخیریت ہوں‌گے۔
    میری دعا ہے ۔۔۔۔
    اللہ تعالی ہماری پوری پاکستانی قوم کو اپنے حقوق پہچاننے اور انکے حصول کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور لسانی ، صوبائی عصبیتوں سے بالا تر ہوکر ایک ملک ، ایک دین کے جھنڈے تلے متحد ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
     
  10. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    آمین
     
  11. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ھارون رشید صاحب آپ کی خدمت میں عرض ھے۔ :horse:

    خاموش ناں تھیساں اپنے حق دے اسرار کنوں
    میکوں محکوم ناں سمجھ ناں میڈی گفتار بہودہ
    پر غافل ناں تھیساں دُشمن دے وار کنوں
    ایہو حکم غائب کنوں فرمان آیا۔
    :horse: :horse:
     
  12. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ کریم اس کا آپکو صحیح مطلب سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں
     
  13. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    دَھرتی سَڈمارے
    جاگ سرائیکی لعل دَھرتی سڈ مارے لَہہ اپنی آپ سنبھال دَھرتی سڈمارے
    ظُلم ڈسا توں سہسیں کیں تائیں گونگا باتا رَہسیں ڈُکھڑے قوم دے ٹال
    دَھرتی سَڈمارے
    چُپ دے جَندرے تروڑ اُٹھی پُو غِیرت کوں جَھنجھوڑ اُٹھی پُو جاہ جاہ تے ہڑتال
    دَھرتی سَڈمارے
    فیصلابادی،گجراتی،سیالکوٹی تے لاہوری کیتی ویندن تیڈی چوری تھی گئے حق پامال
    دَھرتی سَڈمارے
    تَھل دَمان کُوں لُٹ کے کھا گئن،روہی تیڈی ویچ وٹا گئن ہُن تاں اَکھیاں اَمبھال
    دَھرتی سَڈمارے
    وقت ڈُکھاں دے ایجہے ویلے،چِھتےنہراں ٹوبھے مَلیے،رُل گئے تُسا مال
    دَھرتی سَڈمارے
    حُسن سِنگھار اُجڑ گئے سارے،خُشیاں دا نہیں ولیا وارا،رُوندے پِئن جتوال
    دَھرتی سَڈمارے
    ماء دھرتی سِر راہوے بُوچھن ،بُوچھن دا توں بَن وَنج اوجھن،ظلم دے اگوں بن ڈھال
    دَھرتی سَڈمارے
    حق تِیڈا اے کَھڑَن پچائی ،آہدن ہیسے بھائی بھائی ،غاصب بد اعمال
    دَھرتی سَڈمارے
    قُوم کو آپ سنبھال سفیرا،قوم دیاں لاجاں پال ،قوم دا بن اقبال
    دَھرتی سَڈمارے
    جاگ سرائیکی لعل دھرتی سَڈ مارے جاگ سرائیکی لعل دھرتی سَڈ مارے
    [
     
  14. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
  15. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    [​IMG]
    [​IMG]

    یہ ارٹیکل ویسب ڈاٹ کوم میں چھپا ھے۔
    سئیں فاروق عباس صاحب دا شکریہ۔
    وسیب ڈاٹ کوم دا شکریہ۔وسیب ڈاٹ کوم سرائیکی وسیب دی آواز ،سرائیکی وسیب کی مشکلات کو اُجاگر کرنے میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کر رہی ھے۔

    شکریہ۔ :dilphool: :dilphool: :dilphool:
     
  16. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    شکریہ وسیب۔

    [​IMG]



    [​IMG]
     
  17. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
  18. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    وسیب دا شکریہ


    [​IMG]
    [​IMG]
     
  19. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    وسیب کی زمین کی بندر بانٹ سرائیکی خطے کو اپنے باپ کا مال سمجھنے والے


    [​IMG]
    [​IMG]
     
  20. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    گریٹر پنجاب کی ایک شکل۔
    وسیب کو مفت کا مال سمجھنے والے کی ایک قسم۔


    [​IMG]
    [​IMG]
     
  21. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    گریٹر پنجاب کی ایک شکل۔
    وسیب کو مفت کا مال سمجھنے والے کی ایک قسم۔



    [​IMG]
    [URL=http://g.imageshack.us/img527/greaterpunjaban1
     
  22. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    سرائیکی خطے میں آباد کاری کی لعنت جو کسی دن پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرے گئی۔جو پاکستان کے وجود کیلئے زہر قتل ھے جو پاکستان کی سلامتی کو داؤ پر لگا رہی ھے۔

    [​IMG]
    [​IMG]

    اِس وجہ سے ارباب اِقتدار کو سوچنا چاہئے کہ پاکستان کی سلامتی کی فکر کرنی چائہے۔
    کیوں کہ وطن عزیز بڑی قُربانیوں سے حاصل ھوا ھے۔اِس وجہ سے ھم لوگ جو کسی کے وجود کو مٹانے کوشش میں مصروف ھے اِس سے بعذ آجائے ورنہ خون کی آندھیاں چلے گئی اور کوئی بھی محفوظ نہیں رہے سکے گا۔
     
  23. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    سرزمین چولستان کو فنڈز کی فرہیمی کی ایک شکل۔

    [​IMG]
    [​IMG]
     
  24. پنل
    آف لائن

    پنل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جون 2008
    پیغامات:
    141
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    کالا باغ پر دو فریق بات چیت کے لیے گول میز کانفرینس کرنے پر راضی ھو گئے ھے۔
    جتنی دیر میں اہل سندھ اور پنجابی راضی ھونگئے اتنی دیر میں سرائیکیوں کا دم نکل جائے گا۔

    [​IMG]
    [​IMG]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں