1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

راستہ صرف ایک ہے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نذر حافی, ‏8 مارچ 2013۔

  1. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    راستہ صرف ایک ہے
    نذر حافی
    nazarhaffi@yahoo.com
    تاریخ وفاداروں اور غداروں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ان غداروں میں سے ایک ایسا بھی تھا کہ وہ تاریخ کے نامور بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔اتنا بڑا بادشاہ کہ اپنے آپ کواعلیٰ الاعلان بادشاہ کہتا اور اپنے نام کے ساتھ بادشاہ لکھتا تھا۔اس کا دعویٰ تھا کہ دنیائے سیاست میں اس کے نام کا سکّہ چلتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ کےتمام منصوبے اس کے تعاون اور مدد سے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا تھا کہ وہ اور امریکہ و یورپ کا اہم اتحادی ہے، وہ ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے ملک کو مسلسل مغرب کے سانچے میں ڈھالتا جارہا تھا۔اس نے دینی طالبعلموں کو اچھوت اور دینی مدارس کو پسماندگی کے مراکز قرار دے دیا تھا،وہ مذہبی حلقوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے زبان سے دین کی سر بلندی کی باتیں کرتا تھا اور عملاً امریکہ و یورپ کا مطیع تھا۔اس نے انگریزوں کی خوشنودی اور رضا مندی کے لیے اپنی قومی عزت اور ملکی وقار کو بڑے خوبصورت انداز میں نیلام کر دیا تھا۔وہ دین کی باتوں سے صرف زبانی چسکا لیتا تھا اور پردے کو ترقی اور خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ گردانتا تھا۔اس نے بے پردگی اور بے حجابی کی تبلیغ کا آغاز اپنے ہی گھر سے کیا۔۱۹۲۸ءکے شروع میں پہلی بار اس کی بیوی اور بیٹی مجمع عام میں بے حجاب آئیں۔اس نے ترکی کا دورہ کرنے کے بعد ۱۹۳۴ء میں کشف حجاب یعنی بے پردگی کا قانون بنایاجو ۱۹۳۵ء میں عملی طور پر نافذ ہوا۔۱۹۲۸ء سے لیکر ۱۹۳۵ء تک وہ اپنی ہی ملکی ،قومی اور اسلامی حدود و روایات کے خلاف ترقی اور خوشحالی کے نام پر سرد جنگ لڑتا رہا۔
    عوام الناس کو"بے پردگی"سے مرعوب کرنے کے لئے جنوری ۱۹۳۵ء میں ایک یونیورسٹی کے افتتاحی پروگرام میں اس بادشاہ کی بیوی اور دوبیٹیاں اور اس کے وزراء و مشراء کی بیویاں اور بیٹیاں سب بے پردگی کے عالم میں شریک ہوئیں۔اسی روز اس جشن میں خطاب کرتے ہوئے اس بادشاہ نے اعلان کیا کہ:آج ہم نے زندان کی تمام سلاخوں کو توڑ دیا ہے۔اب قفس میں رہنے والے قیدی آزاد ہیں اور اُنھیں اختیار ہے کہ وہ اپنے لیے قفس کی جگہ حسین وخوبصورت گھر بنائیں۔
    یہ بادشاہ رضا شاہ پہلوی تھا۔جی ہاں وہی رضا شاہ پہلوی جو اغیار کے ہر حکم کو فرمانبردار بیٹے کی طرح بجا لاتا تھا۔جس نے اپنی عزّت اور خودمختاری کو امریکہ و یورپ کے اشاروں پر قربان کر دیا تھا۔جو امریکہ کی آنکھوں کا تارا ،برطانیہ کا چہیتااور ترکی کالاڈلاتھا۔اسے گھمنڈ تھا کہ امریکہ و یورپ کے ساتھ اس کے مضبوط تعلقات ہیں۔اسے گمان تھا کہ وہ روز بروز مضبوط ہوتا جارہا ہے۔اسے یقین تھا کہ اس کے روشن خیالی اور ترقی کے نعروں کے خلاف زبان کھولنے والے غیر مہذب،جاہل اور پسماندہ لوگ ہیں۔لیکن وقت آنے پر ثابت ہوا کہ اس نے اپنے گرد امریکہ اور یورپ کے وعدوں کی جو فصیلیں کھڑی کی ہوئی تھیں وہ ریت کی دیواریں تھیں ۔آج شہنشاہ ایران کی شخصیّت حرف غلط کی طرح مٹ چکی ہے۔مغرب کی وہی خرافات جنہیں شہنشاہ ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری سمجھتا تھا شہنشاہیّت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئیں اور شہنشاہ کے بلند وبانگ دعوے اور نعرے ہی اس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئے۔
    ہمارے سیاستدان اور اربابِ اقتداربھی جب روشن خیالی ،مغرب کی دوستی اور دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے نعرے لگاتے ہیں تو انہیں سابقہ حکمرانوں کی تاریخ سامنے رکھنی چاہیے۔انہیں ہر یو ٹرن لینے سے پہلے ،ہر سرخ بتی پر اشارہ توڑنے سے پہلے ،ہر ایمرجنسی کا سائرن بجانے سے پہلے ، ہر میراتھن ریس سجانے سے پہلے ،ہر آپریشن اور لاٹھی چارج سے پہلے،امریکی اور برطانوی کارندوں کے ساتھ ملی بھگت کرنے سے پہلے اور ملت پاکستان کے قاتلوں اور دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے ہاتھ بڑھانے سے پہلے صرف ایک مرتبہ اتنا سوچ لینا چاہیے کہ زمانہ محمد علی جناح کا احترام اور میر جعفرپر لعنت کیوں کرتا ہے؟
    تاریخ کے کھنڈر میں بھٹکنے والےلمحے اقوام عالم کو آج بھی یہی پیغام دے رہے ہیں کہ "سیاستدان اور حکمران اپنی ملت کے دینی جذبوں ،مذہبی روایات ،ثقافتی اقدار ،اخلاقی رسومات،تہذیبی ورثے اور استقلال و حریت کے امین ہوتے ہیں،فوج اور پولیس اپنی قوم کی حفاظت کی زمہ دار ہوتی ہے اور جو لوگ بھی حق و حقیقت کے راستے میں وفاداری کے ساتھ اپنی جان قربان کر دیتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں لیکن جو لوگ قوم کے ساتھ خیانت کرتے ہیں دنیا میں ان کی ہڈیوں کی راکھ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔آج ایک طرف تو کتابِ بشریت کا ورق ورق یہ صدا دے رہاہے کہ اے خواب غفلت میں بد مست حکمرانو اورسیاستدانو! آج تمہیں اختیار ہے چاہو تو امر ہو جاؤ اور چاہو تو راکھ بن جاؤ اور دوسری طرف اس قتل و غارت کے گرما گرم بازار میں ، اپنے دین و ملت کے ساتھ عہد وفا کو نبھانے کے لئے کراچی سے لے کر خیبر تک اور پنجاب و بلوچستان سے لے کر گلگت و بلتستان تک ہماری بے بس اور مظلوم پاکستانی قوم کا ہر بچہ شہداء اسلام ،شہداء پاکستان اور پاکستان کی سر زمین پردہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہ مسلمانوں کو یاد کرکے،جذبہ شہادت سے سرشار ہوکرہر لمحےاپنی غیر متوقع موت کا انتظار کررہاہے۔
    ہماری آنکھوں کے سامنے جس طرح میر جعفر اور میر صادق جیسے پاکستان کے دشمنوں اور غداروں کی نسلِ نو ڈٹی ہوئی ہے اسی طرح محمد علی جناح جیسے وفاداروں کی اولاد بھی سینہ سپر ہے۔اب ہم جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں،جس صوبے کے بھی رہنے والے ہوں اور جو بھی زبان بولتے ہوں، ہمارے سامنے بھی صرف ایک ہی راستہ ہے چاہے تو دہشت گردوں،غداروں،خونخواروں،قاتلوں،درندوں،وحشیوں اور بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کرنے والوں کے پرچم تلے جمع ہوجائیں اور چاہے تو امن کے علمبرداروں اور وطن کے وفاداروں کے کندھوں سے کندھا ملا لیں۔ راستہ صرف ایک ہے
    دوسرا نہیں ،ملک و قوم کے ساتھ غداری یا وفاداری۔۔۔
     
    پاکیزہ، پاکستانی55 اور نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نوائے ملت
    آف لائن

    نوائے ملت ممبر

    شمولیت:
    ‏17 اپریل 2014
    پیغامات:
    59
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    ملک کا جھنڈا:
    راستہ صرف ایک ہے
     
    پاکستانی55 اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    درست فرمایا ۔۔۔ بقول ڈاکٹرطاہرالقادری
    10 محرم 61ہجری کے بعد اب معاشرتی تقسیم دو ہی قسم کی ہے۔

    ایک ظلم و بربریت کے خلاف امن کی علمبردار ۔۔۔ " حسینیت "
    دوسری ظلم و بربریت کی علمبردار " یزیدیت "

    ہر فرد کو فیصلہ خود کرنا ہے کہ وہ کس راستے کو اپنانا چاہتا ہے
     
    نوائے ملت، پاکیزہ اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں