1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خود کش حملہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محبوب خان, ‏21 اگست 2008۔

  1. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے پینتیس کلومیٹر دور واقع پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے مرکزی دروازوں پر دو خودکش حملے ہوئے ہے۔ پولیس کے مطابق ان خود کش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد
    پچاس سے زائد ہے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

    واہ آرڈیننس فیکٹری پاکستان کی سب سے بڑی اسلحہ فیکٹری ہے جہاں لگ بھگ پچیس ہزار افراد کام کرتے ہیں۔

    پہلا دھماکہ مرکزی گیٹ پر جبکہ دوسرا دھماکہ گیٹ نمبر ایک پر ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ خودکش حملہ آوروں نے خود کو اُس وقت دھماکے سے اُڑا دیا جب ملازمین چھٹی کرکے گھروں کے لیے جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ خود کش حملہ آوروں کی لاشیں بھی وہاں پر پڑی ہوئی ہیں جو قابل شناخت نہیں ہیں۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    ظلم عظیم۔۔۔بہت غلط ہوا۔۔اس کی پرزور مزمت کرتے ہیں۔۔۔اللہ مجھ سمیت سب کو ہدایت دے آمین۔۔
     
  3. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ٹکروں میں بٹ کر ایک دوسرے کو مارنا اللہ کے عذاب کی ایک شکل ہے۔
     
  4. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    اب سے کچھ عرصہ پہلے تک يہ کہا جاتا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں ہے اور ہم محض امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں۔ ليکن وقت گزرنے کے ساتھ يہ بات ثابت ہو گئ ہے کہ ہميں اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت نہ صرف ہمارے ملک ميں موجود ہے بلکہ اس کی جڑيں اب ہمارے قباۂلی علاقوں سے نکل کر شہروں تک پہنچ چکی ہيں۔ خود کش حملہ آور نہ تو امريکہ کے پاس ہيں، نہ ہی پاکستانی فوج کے پاس ہيں اور نہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے کارکن اس قسم کے حملوں کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ يہ تو اس سوچ کی پيداوار ہيں جو ہر صورت ميں "مارو اور مارتے چلے جاؤ" کی پاليسی پر کاربند ہيں۔ انتہا پسند اور دہشتگرد تنظيميں نہ تو کسی سياسی سوچ اور ڈاۂيلاگ پر يقين رکھتی ہيں اور نہ ہی ان کی طرف سے آج تک عوامی بھلاہی اور بہتری کے ليے کوئ منشور يا پروگرام سامنے آيا ہے۔ انکی کارواۂياں صرف ہمارے ملک تک محدود نہيں ہيں بلکہ برطانيہ، اسپين، الجزاءر سميت ساری دنيا ميں ان کے حملے بغير کسی تفريق کے جاری ہيں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک ميں ابھی تک انتہا پسندی کی حقيقت کو تسليم نہيں کيا گيا۔ کبھی ہم امريکہ کو مورد الزام ٹھراتے ہيں، کبھی فوج کو، کبھی حکومت کو اور کبھی کسی سياسی جماعت کو۔ حالانکہ اگر آپ خود کش حملوں کے اعداد وشمار ديکھيں تو يہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان حملوں ميں غير ملکيوں سے لے کر حکومتی عہديداروں، فوج، سياسی اور مذہبی جماعتوں اور عام عوام، غرض يہ کہ ہر مکتب فکر کے لوگوں کو بلا تفريق نشانہ بنايا گيا ہے۔ انتہا پسندی کی سوچ اور دہشت گرد ہم سب کے مشترکہ دشمن ہيں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  5. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    معاف کیجیئے گا۔۔۔۔۔1965 کی جنگ کے سبھی شہداء سے معذرت کے ساتھ میں ایک سوال پوچھنا چاہوں گی۔۔
    میرے محلے کے کچھ معززین کی زبانی جو کہ 1965 کی جنگ کا آنکھوں دیکھا حال بہان فرماتے تھے۔ کہ 1965 کی جنگ میں ہمارے فوجی اپنے ساتھ آتش گیر بم وغیرہ باندھ کر دشمن کی فوج کی طرف دوڑ لگا دیتے تھے اور اپنے ساتھ دشمن کی فوج کے کچھ حصے کو بھی اڑا دیتے تھے۔ اگر میں غلط ہوں تو اللہ معاف فرمائے۔۔۔بچپن میں جب میں یہ قصے سنتی تھی تو دل فخر سے بھر جاتا تھا لیکن پھر بڑے ہونے کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ اللہ معاف فرمائے یہ تو سراسر خودکش حملہ ہوا اور میرے خیال میں شہادت ایسے نصیب نہیں ہوتی کہ جا کے اپنے آپ کو مار ڈالو۔۔۔۔۔اسلام میں اپنی جان بچانے کا حکم ہے۔ اگر آپ نے جان بوجھ کے اپنی جان لے لی تو اسے سراسر خودکشی کہیں گے جو کہ سراسر حرام موت ہے۔ استغفراللہ العظیم!
     
  6. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    واہ کینٹ خودکش دھماکے ،65افراد ہلاک،دوسوزخمی

    واہ کینٹ : واہ کینٹ میں واہ آرڈیننس فیکٹریز کے مرکزی گیٹ کے سامنے دو خود کش حملوں میں پینسٹھ افراد جاں بحق اور دو سو زخمی ہو گئے۔ طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی۔ اسلم مارکیٹ کے قریب واہ آرڈیننس فیکٹریز کے مرکزی گیٹ کے سامنے دو خود کش حملہ آوروں نے اس وقت خود کو دھماکے سے اڑا دیا جب چھٹی کے وقت بڑی تعداد میں فیکٹری ورکرز موجود تھے۔ اسپتال ذرائع کے مطابق دھماکوں میں پینسٹھ افراد ہلاک اور تقریباً دو سو زخمی ہو گئے۔

    ایدھی ذرائع کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ دھماکے کے فوری بعد ایمبولینس اور امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ جنہوں نے زخمیوں اور لاشوں کو اسپتال میں منتقل کیا۔ پچاس سے زائد افراد شدید زخمی ہیں جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دھماکے کے وقت آرڈیننس فیکٹریز میں کام کرنے والے ملازمین کی شفٹ تبدیل ہو رہی تھی۔

    پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک خود کش حملہ آور کا سر مل گیا تاہم بری طرح مسخ ہونے کی و جہ سے اس کی شناخت مشکل ہے۔ انتہائی حساس علاقے میں ہونے والے خود کش حملوں کے بعد سیکورٹی حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پورا علاقہ گھیرے میں لے لیا ہے اور مواصلاتی نظام بھی جام کر دیا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے اس قدر شدید تھے کہ ہلاک و زخمی ہونے والے افراد کے اعضا جائے وقوعہ پر ہر طرف پھیل گئے۔

    واہ آرڈیننس فیکٹریز روایتی ہتھیار تیار کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اس میں چالیس ہزار سے زیادہ ملازمین کام کرتے ہیں۔ دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر نے اس خود کش دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔طالبان کے ترجمان کا مزید کاکہنا ہے کہ اگرباجوڑ ایجنسی اوردیگرقبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اورامریکی مداخلت ختم نہ ہوئی تھی تو یہ خودکش دھماکوں کادائرہ پاکستان کے مزید بڑے شہروں اسلام آباد ،کراچی اورلاہورتک بڑھ سکتا ہے
     
  7. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

    ڈيرہ اسماعيل خان ميں ايک ہسپتال پر خودکش حملے کے بعد واہ کينٹ ميں آج کا خودکش حملہ اور اس کے نتيجے ميں 100 سے زائد بے گناہ افراد کی ہلاکت اور اس کے بعد طالبان کے ترجمان کا بيان جس ميں نہ صرف ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئ بلکہ مستقبل ميں بھی کراچی اور اسلام آباد ميں ايسے ہی حملوں کی دھمکی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ طالبان اور ان سے منسلک مختلف انتہاپسند گروپ نہ صرف يہ کہ پاکستان کے اندر پوری طرح سے فعال ہو چکے ہيں بلکہ وہ پاکستان کے اندر اپنی حکومت اور اپنے نظريات پر مبنی قوانين کے نفاذ کے ليے کسی بھی حد تک جا سکتے ہيں۔ گزشتہ چند ماہ ميں امن معاہدوں اور مفاہمت نما مصالحتی کوششوں کی جو بازگشت سنائ دے رہی تھی اس کے تناظر ميں کيا طالبان کے سياسی اثرو رسوخ ميں اضافہ پاکستان کے مسائل کے حل کا موجب بن سکتا ہے؟ ميرے نزديک يہ ايک انتہاہی سنگين صورت حال ہے اور اگر اس موقع پر پاکستانی قائدين نے درست سياسی فيصلے نہ کيے تو اس کے نتائج پاکستانی عوام کے مستقبل کے ليے انتہائ تباہ کن ہوں گے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حاليہ حالات کے تناظر ميں امن کا قيام حکومت پاکستان کی اہم ترجيحات ميں شامل ہونا چاہيے ليکن سب سے اہم سوال يہ ہے کہ کيا مستقل امن قائم کرنے کا يہی موثر طريقہ ہے کہ جو گروہ انتہا پسندی اور دہشت گردی جيسے سنگين جرائم ميں ملوث ہيں، امن کی ضمانت کے عوض پاکستان کے کچھ علاقے ان کی تحويل ميں دے ديے جائيں تا کہ وہ وہاں پر اپنی مرضی کا نظام قائم کر سکيں اور اپنے سياسی اثر ورسوخ ميں اضافہ کريں؟

    طالبان کے دور حکومت ميں افغانستان مسلسل خانہ جنگی کا شکار تھا اور اس وقت بھی افغانستان کو بحيثيت ايک ملک تباہی کے دہانے پر لانے ميں ان کا کردار کسی سے پوشيدہ نہيں ہے۔ اس ميں تو کسی کو شک نہيں کہ طالبان کس قسم کے نظام حکومت پر يقين رکھتے ہيں اور انسانی اور سماجی حقوق کے حوالے سے ان کی سوچ کيا ہے۔ گزشتہ ايک دہائ کے دوران انسانی حقوق کی درجنوں تنظيموں کی بے شمار دستاويزات طالبان کے مظالم کی داستانيں سناتی ہيں۔

    گزشتہ چند دنوں ميں فاٹا ميں امن معاہدوں کے باوجود دہشت گردی کی بڑھتی ہوئ کاروائياں اس بات کا ثبوت ہيں کہ آپ سانپ کو ساری زندگی دودھ پلاتے رہيں ليکن اس کی فطرت ميں پھر بھی ڈسنا ہے۔

    ياد رہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات ميں ہلاک ہونے والے سارے پاکستانی باشندے تھے۔ اس بات سے واضح ہے کہ طالبان سياسی اختلافات پيدا ہونے کی صورت ميں کس قسم کا طرز عمل اختيار کرنے کو ترجيح ديتے ہيں۔کيا پاکستان کی حدود کے اندر امن معاہدوں کے ذريعے طالبان کے سياسی اثرورسوخ ميں اضافے کی پاليسی پاکستان ميں جمہوريت کی مضبوطی کے ضمن ميں درست ہے؟ کيا ايسا کرنے سے امن وامان کی صورت حال خراب ہو گی يا اس ميں بہتری آۓ گی؟


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بہنا !
    میں اپنی ذاتی رائے عرض کرنا چاہوں گا۔ یہ 1965 یا دیگر اسلامی جہادات میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے دشمن کو نقصان پہنچانا اور آجکل کے خود کش حملوں کو ایک نظر سے دیکھنا صحیح نہیں ۔

    1965 کا کیس الگ تھا۔ بظاہر اسباب کی کمی کے باوجود اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمنِ اسلام سے برسرِ پیکار ہونا ہی جہاد کہلاتا ہے۔ غزوہء بدر سے لے کر واقعہ کربلا تک اور کربلا سے لے کر 1965 کی جنگ تک اکثر و بیشتر اور جب بھی اسلام کو مجاہدین کے خون کے نذرانے کی ضرورت پڑی تو مجاہدینِ اسلام نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔
    اگر جان بچانا فرض والے حکم کو ہی لے لیے جائے پھر تو محاذِ جنگ پر جانا ہی حرام ٹھہرے کہ آپ دشمنوں کے تیروں، تلواروں ، گولیوں اور بموں کی زد پر خود کو لے کے جارہے ہو۔ یا پھر جیسے ہی دشمن تلوار، ٹینک، بندوق لے کر سامنے آئے تو چوہوں کی طرح چھپ چھپا کے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوجاؤ کہ بھائی اسلام میں جان بچانا فرض ہے۔ اور میں اسلام کے اسی حکم پر عمل کررہا ہوں :201:

    تو معلوم ہوا کہ دورانِ جہاد جب مسلمان دشمنِ اسلام سے نبردآزما ہو تو جان بچانے کے یہ معنی بدل جاتے ہیِں۔ وہاں دینِ اسلام کی بقا اور سلطنتِ اسلام کی حفاظت کے لیے جان نچھاور کردینا اور دشمن کو حتی الامکان اسکے ناپاک ارادوں سے روکنا ہی اطاعتِ الہی بن جاتا ہے۔ اور یہی کچھ 1965 میں‌کیا گیا۔

    اور ہاں ۔ ایک چیز اور ! جہاد میں ہمیشہ مقابلہ پر دشمن کی فوج ہونی چاہیے نہ کہ سویلین۔ سویلین کے ساتھ جہاد کا کوئی تصور اسلام میں نہیں۔ غیر مسلح عوام کی جان کی امان تو کہیں بڑھ کر لازم ہے ہمارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فتح کے بعد مفتوح اراضی کے درخت تک کاٹنے سے بھی منع فرمایا کرتے تھے۔ اور آج ہم نے جہاد کا تصور جیکٹ پہن کر کسی بھی غیر مسلح ، بےگناہ عوام اور وہ بھی مسلمانوں کے مجمعے میں گھس جاؤ ۔ بچوں کو یتیم کردو، عورتوں کو بیوہ کردو، مسلمانوں کے خون سے سڑکیں و بازار رنگین کردو۔ اور بزعمِ خویش جنت پہنچ جاؤ۔ :takar:
    اللہ تعالی ہمیں دین کا صحیح فہم اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  9. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    فواد بھائی
    لگتا ہے آپ کو کچھ موقع ملنا چاہئے اور پھر آپ امریکہ کی صفائی کے لیے کمر کس لیتے ہیں

    واہ کینٹ والے دھماکے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے جو ان کے اس رد عمل کو ظاہر کرتا ہے جو ان کے خلاف ہونے والے ایکشن کا ہے۔

    طالبان کے خلاف جو ایکشن ہو رہا ہے وہ امریکہ ہی کی جنگ ہے جسے وہ پاکستان میں رہتے ہوئے لڑ رہا ہے اور اس پر کسی کی دو آرا نہیں ہو سکتیں۔
     
  10. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ایک عراقی لڑکی جس کے گھر گھس کر امریکی فوجیوں نے گینگ ریپ کیا ہو اور اس کے بھائیوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا ہو۔ اگر وہ خود کش حملہ کرتی ہے تو فواد صاحب اس کو گالیاں نکالتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے۔
     
  11. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ایسے بے بس مجبور اور مشتعل لوگوں کے لیے کوئی دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہیں جاتا!
     
  12. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    فلسظینی نہتے عوام جن کے پاس زمین پر پڑے ہوئے پتھروں کے سوا کوئی ہتھیار نہیں اور یہودی روز ان کو قتل کررہے طیاروں سے بمباری کرکے اور ان کے مکانات بمباری سے تباہ کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہو معصوم بچوں کو قتل کیا جارہا ہو۔تو ایسے میں فلسطینی مسلمان لڑکے اور لڑکیاں یہودیوں پر خود کش حملہ نہ کریں تو کیا کریں۔
     
  13. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم۔
    کچھ بھی کہہ لیا جائے۔ جتنے بھی دلائل دے دئیے جائیں۔ جتنی بھی پشت پناہی کرلی جائے۔
    بےگناہ ، معصوم اور نہتے مسلمان بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتاردینا کسی صورت بھی اسلام کے مطابق عمل نہیں ہوسکتا بلکہ احکاماتِ قرآنی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
    ایسے ظالمانہ حملے ذاتی دشمنیاں نبھانا تو کہلا سکتے ہیں لیکن یہ عمل اسلامی جہاد کی کسی تعریف پر پورا نہیں اتر سکتا۔

    اعداد و شمار کی بھول بھلیوں میں بات کو گھما کر، اور آئی ایس آئی و دیگر ایجنسیوں پر الزامات لگا کر طالبان کے دفاع میں کالم بھرنے والوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ سینکڑوں معصوم جانوں کے قتل کی ذمہ داری بذاتِ خود انکے اسلامی ہیروز، مجاہدینِ اسلام و افغانستان حضرات طالبان نے خود قبول فرما لی ہے۔

    اللہ تعالی ہمیں دین اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین
     
  14. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    برادر
    اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ فواد یا امریکی فوجیوں کا دفاع کر رہے ہیں۔
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    برادر صاحب تو اسکا جواب دیں گے سو دیں گے۔

    لیکن عرفان صاحب ۔میرے دو سوالوں کا جواب دیجئے۔

    میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی مذمت کرنےسے کیا یہ مطلب نکلتا ہے کہ ہم ٹیپو سلطان کے دشمنوں کی حمایت کررہے ہیں ؟؟؟؟؟

    کیا امت مسلمہ میں آج بھی غدار موجود نہیں ہیں ؟
     
  16. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

    اگر کسی دوست کو طالبان کے ارادوں کے حوالے سے کوئ شک ہے تو ميری درخواست ہے کہ يہ ويڈيو ضرور ديکھیں۔ يہ انٹرويو تحريک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر کا ہے جس ميں وہ نہ صرف واہ کينٹ کے حملے کی ذمہ داری قبول کر رہے ہيں بلکہ مستقبل ميں لاہور اور اسلام آباد کے حوالے سے اپنے ارادے بھی واضح کر رہے ہيں۔ يہ کسی غير معروف اخبار ميں طالبان سے منسوب کوئ بيان نہيں ہے اور نہ ہی يہ طالبان سے منسوب کسی غير معروف شخص کا بيان ہے بلکہ يہ تحريک طالبان پاکستان کے ترجمان کا انٹرويو ہے جو پاکستان کے ايک معروف ٹی وی نيٹ ورک کے ذريعے پاکستان کے عوام تک اپنا پيغام پہنچا رہے ہيں۔ اس بات ميں کوئ شک نہيں ہے کہ ان مجرموں نے پاکستان کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر ديا ہے۔

    http://www.friendskorner.com/forum/f137 ... aug-61254/


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    دنیا بھر میں‌جو جو ملک، جو جو طبقہ، جو جو گروہ، جو فرد ، بےگناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے
    وہ دہشت گرد ہے
     
  18. عرفان
    آف لائن

    عرفان ممبر

    شمولیت:
    ‏16 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    443
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میں طالبان کے اس عمل کو defend نہیں کرتا۔

    لیکن امریکی فوجی جو ظلم ، ریپ اور قتل کر رہے ہیں۔اور Zionist کے کی باتوں میں آکر اقدامات کر رہے ہیں۔ ان کی انتہائی شدت سے مذمت کرتا ہوں۔ انکے مذموم اقدامات کی تکمیل میں‌جو نام نہاد مسلمان انکے آلہء کار بنے ہیں وہ بھی قابلِ مذمت ہیں
     
  19. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ميں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بيشتر خودکش حملے پاکستان ميں حاليہ برسوں ميں ہوۓ ہيں۔ اور اس کی وجہ يہ ہے کہ حکومت پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف عملی کاروائ چند برسوں ميں شروع کی ہے ۔ اس حوالے يہ دليل دی جاتی ہے کہ دہشتگردی پاکستان کا مسلۂ نہيں تھا اور اگر ان کے خلاف آپريشن نہ کيے جاتے تو پاکستان دہشت گردی کی کاروائيوں سے محفوظ رہتا۔ ميں اس سوچ سے متفق نہيں ہوں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ يہ صورتحال قابل قبول ہوتی کہ لوگ ہمارے ملک ميں دہشت گردی کی تربيت حاصل کر کے دنيا بھر ميں اپنی کارواۂياں کرتے اور حکومت پاکستان ان کے خلاف کوئ کاروائ نہ کرتی اس دليل کے ساتھ کہ "دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں" 9/11 کے واقعات کے بعد بڑی تعداد ميں طالبان اور القائدہ تنظيم کے لوگ پاکستان کے سرحدی حدود ميں داخل ہو گۓ تھے۔ گزشتہ چند ماہ ميں مولوی فضل اللہ اور بيت اللہ محسود جيسے لوگوں کا اثر ورسوخ اتنا بڑھ گيا تھا کہ وہ اپنے قوانين راۂيج کر رہے تھے اور اپنے ريڈيو اسٹيشن چلا کر نۓ لوگوں کو اپنی تنظيم ميں شامل کر رہے تھے۔ ان حالات ميں حکومت پاکستان کے ليے ناگزير ہو گيا تھا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف کاروائ کرے۔ دہشت گرد چند دنوں ميں تيار نہيں ہوتے، ان کی تربيت ميں کافی عرصہ درکار ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان کی کاروائيوں کے نتيجے ميں دہشت گردی کے واقعات سے يہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دہشت گردي پاکستان کا مسلۂ ہے اور دہشت گردی کا مرض ہمارے معاشرے ميں نہ صرف موجود ہے بلکہ اگر اسے روکنے کے ليے سب نے اپنا کردار ادا نہيں کيا تو اگلے چند برسوں ميں اس ميں مزيد اضافہ ہو گا۔ پاکستانی افواج کے آپريشن کے بعد دہشت گردوں کی بے گناہ لوگوں کے خلاف کاروائيوں کو "ردعمل" قرار دينا ان کے جرائم کو جواز فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ دہشت گرد کسی بھی صورت ميں پاکستان کے خير خواہ نہيں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی اس سوچ کو اپنے معاشرے ميں پيھلنے سے روکيں جس کے نتيجے ميں خودکش حملہ آور تيار ہوتے ہيں۔ ہم امريکہ کی خارجہ پاليسی کے بہت سے پہلوؤں سے اختلاف کر سکتے ہيں، ليکن اپنے ہر قومی مسلۓ کی طرح اس مسلۓ کو بھی "بيرونی ہاتھ" اور "امريکی سازش" قرار دے کر اپنی قومی ذمہ داريوں سے چشم پوشی، دور انديشی اور اس مسلۓ کا حل نہيں ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://usinfo.state.gov
     

اس صفحے کو مشتہر کریں