دعا - 14 اگست (نوید ابنِ منیب، مارچ ۲۰۰۲) اندھیر راہیں، بھٹکتے رہرو، مچلتی آہیں، بکھرتے آنسو کبھی تو آؤ، چراغ بن کے پیاسی کھیتی، زمین بنجر، ترستے خوشے، سلگتے پتھر کبھی تو آؤ، سحاب بن کے وہ سب صدائیں؟،وہ ندائیں؟،وہ سب دعائیں؟، سوال سارے؟ کبھی تو آؤ، جواب بن کے کبھی تو بن کر چراغ روشن، تمام تاریکیاں مٹا دو کبھی تو بادِ بہار بن کر، چمن میں رنگِ حنا سجا دو پھر ایک صبحِ اگست بن کر، ہماری حالت پہ مسکرا دو!
بہت خوب این آر بی بھائی ۔ نثر کی طرح آپ کا شاعرانہ کلام بھی بہت خوب ہے۔ پیاسی کھیتی، زمین بنجر، ترستے خوشے، سلگتے پتھر کبھی تو آؤ، سحاب بن کے :a180: :a180:
اوہو، جتنی بار بھی پڑھ لو، کوئی غلطی رہ ہی جاتی ہے درست یوں ہے: وہ سب صدائیں؟،وہ سب ندائیں؟،وہ سب دعائیں؟، سوال سارے؟ کبھی تو آؤ، جواب بن کے