1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بوا جعفری خانم

'قہقہے، ہنسی اور مسکراہٹیں' میں موضوعات آغاز کردہ از حاجن خوشی, ‏9 اکتوبر 2013۔

  1. حاجن خوشی
    آف لائن

    حاجن خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 ستمبر 2013
    پیغامات:
    43
    موصول پسندیدگیاں:
    63
    ملک کا جھنڈا:

    اب تو خیر گھر پہ بیگم صاحبہ کی ہی حکومت ہے لیکن یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب باورچی خانہ کی سولہ آنہ مالک و مختار بوا جعفری خانم تھیں اور ہمارے اغراض و مقاصد بھی آج کل سے زیادہ باورچی خانہ اور بوا جعفری خانم سے وابستہ تھے۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ بوا جعفری خانم کی پوزیشن واضح کر دی جائے تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ وہ کس پایہ کی عورتوں میں سے تھیں اور ان کا کیا مرتبہ تھا۔تھیں تو وہ 3 روپیہ ماہوار اور کھانے پر ملازم اور اپنے عہدہ کے اعتبار سے بھی ماما سے زیادہ کہے جانے کی مستحق نہ تھیں۔ لیکن انہوں نے ہماری والدہ صاحبہ کا کچھ ایسا اعتماد حاصل کر لیا تھا کہ وہ ہمارے گھر کی اسپپیشل مینجر معلوم ہوتی تھیں اور دیکھنے والے ان کو ہماری والدہ صاحبہ کا وزیراعظم سمجھ سکتے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ باورچی خانہ کی تو وہ گویا مالک ہی تھیں اور وہاں گویا ان ہی کے نام کا سکہ چلتا تھا لیکن چونکہ وہ گھر کے دوسرے انتظامات اور ہمارے خاندانی سیاسیات میں بھی دخل رکھتی تھیں لہٰذا انہوں نے باورچی خانہ ہی کو اپنا ہیڈ کوارٹر مقرر کیا تھا اور وہیں تمام معاملات پیش ہو کر منظور یا نا منظور ہوتے تھے۔چنانچہ اس زمانہ میں ہمارے باورچی خانہ کی حیثیت بلکل دارالعوام کی سی تھی جس کی صدا بوا جعفری خانم تھیں۔
    شادی بیان کے معاملات، ہم لوگوں کی تعلیم و تربیت کے مسائل، معمولی تنازعات، بڑے بڑے خاندانی اختلافات، آمدنی اور خرچ کے حسابات، بجٹ کی منظوری، مختصر یہ کہ تمام دنیا کے قصے باورچی خانہ ہی میں طے پاتے تھے اور بوا جعفری خانم ہی طے کرتی تھیں لاکھ کوئی اختلاف کرے اپنا سر دے مارے دوسروں کا سر توڑ دے اپنی بوٹیاں نوچے، دوسروں کی بوٹیاں چبا لے لیکن نتیجہ ہمیشہ یہی برآمد ہوتا تھا کہ بوا جعفری خانم کی تجویز والدہ صاحبہ کی نظروں میں مناسب ترین ہوتی تھی۔ اور والد صاحب تو گویا اس دارالعوام کی کارروائی پر رسمی طور پر محض تصدیقی دستخط فرما دیا کرتے تھے۔ بہرحال بوا جعفری خانم کا فرمان ہم سب کا نوشتہ تقدیر بن کر رہتا تھا اور باورچی خانہ کا فیصلہ قطعی ہوتا تھا جس کی کہیں اپیل بھی نہیں ہوسکتی تھی ایسی صورت میں‌آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے گھر میں باورچی خانہ کو کیا اہمیت حاصل ہو گی!
    ہوتا یہ تھا کہ باورچی خانہ کی محدود گنجائش میں کھانے پکانے کے سازوسامان کے علاوہ کہیں تو کسی کی چارپائی پڑی ہوتی تھی اور کہیں کسی کی کرسی کوئی پڑے پر ہی بیٹھ جاتا تھا اور کوئی اس سرکار میں ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا بہرحال تمام گھر سمٹ سمٹا کر جس ایک مرکز پر نظر آتا تھا وہ باورچی خانہ تھا۔ باورچی خانہ تو خیر وہ تھا ہی لیکن اس کے علاوہ ملاقات کے کمرے، آفس، خوابگاہ، اسپتال، درزی خانے، رنگریزی کے کارخانے، ڈریسنگ روم، بلکہ بعض اوقات بچوں کے غسل خانے اور پاخانے کی حیثیت بھی اسی باورچی خانہ کو حاصل ہوتی تھی، چولہے کے داہنی جانب رکھا ہوا پڑہ گویا کرسی‌صدارت تھی جس پر بوا جعفری خانم بصد شان و شوکت جلوہ فرما رہتی تھیں اور ان کے اقبال سے تمام باورچی خانہ کے کام ہوتے رہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے معاملات بھی طے ہو جایا کرتے تھے وہ اپنے اس پڑے پر بیٹھی چولہا ہانڈی بھی دیکھتی تھی، گھر کے دوسرے ملازموں کی نگرانی بھی کرتی تھیں، بچوں کی دیکھ بھال بھی فرماتی تھیں، گوشت والے اور دودھ والی پر غصہ بھی کرتی تھیں، گھی والے کے حسابات بھی طے فرماتی تھیں، ہم سب کو تنبیہ بھی کرتی تھیں، گیلی لکڑیوں کی شکایت میں لکڑی والے کی شان میں قصیدہ بھی فرماتی تھیں، خود لکڑیوں کو گالیاں بھی دیتی تھیں، طوطے کو سبق بھی پڑھاتی تھیں، اور کتے کو “کم ان“ اور “ گو آن“ کا مفہوم بھی سمجھاتی تھیں، موسیقی کی مشق بھی فرماتی تھیں اور کہانی بھی کہتی تھیں، گھر کی سیاسیات پر لیکچر بھی دیتی تھیں اور اگر ضرورت پیش آئے تو قسمت کو وہیں بیٹھ کر رو بھی لیتی تھیں، ہر قسم کے مشورے اپنے اسی پڑے پر ہی دیتی تھیں اور تمام احکام وہیں سے نافذ ہوتے تھے مختصر یہ کہ ہمارے گھر کا مرکز باورچی خانہ تھا اور باورچی خانہ کا مرکز وہ پڑہ جس پر بوا جعفری خانم تشریف رکھتی تھیں۔
    آپ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ ہم مبالغہ کر رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو آپ کی سمجھ کا قصور ہو گا ورنہ واقعہ تو یہی ہے کہ بوا جعفری خانم کی خداداد قابلیت اور اعلٰی تدبر نے ہمارے باورچی خانہ کو دنیا بھر کی حیثیتیں بخش دی تھیں اور خود ان کا یہ حال تھا کہ وہ ہر ضرورت پر اس ضرورت کے عین مطابق کارآمد وجود ثابت ہوتی تھیں۔ مثلاً کسی نوکر نے غبن کیا اور جرم اس پر ثابت ہو گیا۔ اس وقت اگر کوئی بوا جعفری خانم کے تیوران کا انداز بیان ان کے ذمہ دار الفاظ اور ان کی آواز کی گرج دیکھتا تو صرف یہی سمجھ سکتا تھا کہ آپ یقیناً تھانہ دار ہیں خود ملزم کا تو یہ حال ہوتا تھا کہ گویا کوتوالی میں کھڑا ہے اور کوتوال صاحب کا مقابلہ ہے اسی طرح اگر کسی بچہ کو چوٹ آ گئی ہے تو بوا جعفری خانم ہی کی طبی امداد سب سے پہلے طلب کی جاتی تھی اور وہ بھی اس مستعدی کے ساتھ مرہم پٹی فرماتی تھیں کہ گویا پانچ سال میڈیکل کالج میں پڑھ چُکی ہیں اور سینکڑوں مریض آپ کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں اور اسی طرح انجینئری، قانون، ادبیات، سیاسیات، مذہبیات، معاشیات، فلکیات، معدنیات، اور نہیں معلوم کن کن واہیات خرافات پر وہ پورا عبور رکھتی تھیں اور کہیں بھی وہ مجبور نظر نہ آتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ گھر کا ہر چھوٹا برا ہر آیا گیا ان کا احترام کرتا تھا اور جس نے کبھی ان کو نظر انداز کیا وہ اپنی سزا کو بھی پہنچ جاتا تھا۔
    ان کی مزاجی حالت عام انسانوں کی طرح ہر وقت مختلف ہوتی تھی۔ اور چونکہ تمام گھر ان ہی کے تابع فرمان تھا لہٰذا ان کی مزاجی حالت کا اثر تمام گھر پر پڑتا تھا اگر کبھی وہ خوش ہوتی تھیں تو گھر بھر میں چہل پہل نظر آتی تھی اور خود وہ باورچی خانہ ہی میں بیٹھی بیٹھی نغمہ سرائی فرماتی تھیں اور تمام گھر کی فضاؤں کو ہمہ نغمہ اور ہمہ موسیقی بنا دیتی تھیں، سوائے ان کی “ اوری نندیا“ “ اوری سوتیا میں تو لیہوں تورا یہی کانگنا“ کے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ طبلہ کی تھاپ سینی پر پڑتی تھی گٹکریاں تو خیر اپنے نشیب و فراز کے ساتھ باورچی خانہ یا زیادہ سے زیادہ گھر کی چہاردیواری کے ان گونج کر رہ جاتی تھیں لیکن جب وہ تان لگاتی تھیں تو تمام محلہ میں بارش نغمہ ہو جاتی تھی۔ ان کے اس عالم وجدان میں ہر ایک کو منہ مانگی مراد ملتی تھی نہ کسی سے کوئی باز پُرس ہوتی تھی نہ کسی پر غصہ نہ کوئی ان کے تیوروں سے ڈرتا تھا اور نہ کوئی برتاؤ سے رنجیدہ ہوتا تھا۔ بس اس وقت تو ان کا دل چاہتا تھا کہ جتنے گانے یاد ہیں سب آج ہی گا کر رکھ دوں۔ پھر خدا جانے زندگی رہے یا نہ رہے چنانچہ اس جشن کے دن مختلف قسم کی ٹھمریاں دادرے، غزلیں، تھیٹر کی چیزیں، ہیجڑوں کے گانے، گراموفون کے راگ، ایک آدھ مزاحیہ غزل، کچھ ڈونیوں کی سمدھن کو دینے والی منظوم گالیاں وغیرہ سننے میں آ جاتی تھیں کبھی “ گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے ہوئے“ چھیڑ دیا تو کبھی “ تیری ذات پاک ہے اے خدا تیری شان جل جلالہ“ شروع کر دیا کبھی “ مہاراجہ کوڑیا کھول رس کی بوندیں گریں“ سے فضاؤں کو معمور کر دیا تو کبھی “ ہریالا بریلی والا وہ تو آگن میں لالے لگادے“ سے کائینات کو مرقص کر دیا کبھی “ جیارا ہالے ڈولے ہو“ گانے لگیں تو کبھی “ بالو شاہی کی ٹکیاں سیاں لایو رے“ میں موسیقی کے کمالات دکھانے شروع کر دئیے غرض اس دن یہ معلوم ہوتا تھا کہ آپ تانسین کی قریبی عزیزہ ہیں اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایسی با کمال مغنیہ ہمارے گھر کی ماما ہے۔ اس دن وہ ہنستی بھی تھیں اور قہقہے بھی لگاتی تھیں لیکن مجال ہے جو ان کے گانے پر کوئی اعتراض کر دے۔ حالانکہ ہمارا خیال ہے کہ ہمارے بڑے بوڑھے یعنی والد صاحب قبلہ اور ماموں صاحب مدظلہ تعالٰی اگر کسی اور کو گھر میں اس طرح گاتے ہوئے سن لیتے تو شاید اس کا دم ہی نکال لیتے لیکن گانے والی تھیں بوا جعفری خانم جو کم سے کم اتنا رعب رکھتی تھیں کہ سب ان کا گانا سنتے تھے مگر کوئی دم نہ مار سکتا تھا اور اگر کوئی دخل دے بیٹھتا تھا تو بس اس کی شامت ہی آ جاتی تھی حالانکہ یہ ہمت ذرا کم ہوتی تھی کہ کوئی بیٹھے بٹھائے یہ کمبختی مول لے اس لئے کہ سب جانتے تھے کہ اگر کہیں خدانخواستہ ان کی مزاجی حالت میں کوئی تغیر پیدا ہوا تو یہی بہشت جہنم بن جائے گا۔ اور اس جہنم کے عذاب تمام گھر پر نازل ہوں گے۔
     
    آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. حاجن خوشی
    آف لائن

    حاجن خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 ستمبر 2013
    پیغامات:
    43
    موصول پسندیدگیاں:
    63
    ملک کا جھنڈا:
    ان کے غیظ و غضب کا عالم کوئی فراموش کر دینے والی چیز نہ تھی اور ہر وقت سب ڈرتے ہی رہتے تھے کہ کہیں ناک پر مکھی نہ بیٹھ جائے لیکن باوجود اس احتیاط کے غصہ اپنے وقت پر آتا تھا اور اس کا آنا برحق سمجھا گیا تھا۔ کچھ نہیں تو برسات کی گیلی لکڑیوں کو سلگانے کی کوشش میں جب حسب دلخواہ کامیاب نہ ہوتی تھیں اور تھوڑی دیر تھ پھونکنی میں منہ لگا کر “پھوں پھوں“ کرنے کے بعد بھی آنچ نہ نکلتی تھی تو بس وہیں سے ان کی پیشانی پر شکنیں پڑ جاتی تھیں اور ہم سب آنے والے طوفان کے منتظر ہو جاتے تھے کہ وہ پھر “ پھوں پھوں “ کرنے کے بعد بھی بجائے آنچ کے چولہے سے دھواں نکلتے دیکھ کر بس ناچ ہی تو جاتی تھیں اس وقت کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی چولہے میں منہ ڈال کر پہلے تو لکڑیوں پر جوش میں آ کر تھوکتی تھیں کہ :۔
    “ تھو ہے تیری اوقات پر، اب کیوں جلے گی حرام زادی تو، خدا غارت کرے اس موئے مولا بخش کو، اللہ کرے اس کی بھی ایسے ہی آنکھیں پھوٹیں جیسی اس موئے نے میری پھوڑی ہیں جیسے ہم نے تو دام دئیے نہیں تھے بھیک مانگ لائے تھے اس موئے کے یہاں سے۔ اور ہم سے کیا مطلب ہم تو نوکر چاکر ہیں، جس طرح بھی ہو یہ مصیبت جھیلیں گے۔ جب گھر کے مالکوں ہی کو پرواہ نہ ہو گی تو اس موئے کی جوتی کو کیا غرض پڑی ہے جو سوکھی لکڑیاں دے آج ہی اگر یہ لکڑیاں اس مونڈی کاٹے کے منہ پر جا کے کوئی مار آئے تو پھر کبھی یہ پانی کی ڈوبی ہوئی لکڑیاں نہ آئیں گی مگر وہ تو ضد مجھ کمبخت سے ہے کہ لے حرام زادی تو ہی مر آنکھیں پھوڑ اور کتے کا بھیجا بنا کر چولہا پھونکے جا، توبہ ہے بی بی میں نے ایسا بے ڈھنگا کارکانہ دنیا جہان میں نہیں دیکھا۔ اور مجھ کو کیا خود ہی کھانے میں دیر ہو گی میں کیا کوئی اپنی بوٹیاں کسی کو کھلا دوں گی یا اپنے ہاتھ پیر سلگا کر ہانڈی پکاؤں گی“
    اور اس کے بعد پھر ان کے لئے ہر بات اشتعال انگیز اور ہر چیز لڑائی کی جڑ بن جاتی تھی۔
    “یہ موا گوشت آیا ہے جیسے کتے کا راتب ہو، حرام کے پیسے ہوتے ہیں، بھر مٹھی دام لئے اور چھیچھڑے دے دئیے جیسے دینے والے ویسے ہی اندھے لانے والے اور پھر ہانڈی خراب ہو جائے تو جعفری کی خطا، تو کیا جعفری اپنا گوشت پکا دے۔“
    “ ابھی تک دہی کا پتہ نہیں ہے دہی لینے کیا گئے ہیں کہ جیسے مر ہی رہے دہی بھی جیسے کوئی لندن میں ملتا ہے کہیں بیٹھے ہوں گے ان کو کیا دیر ہو گی تو آئی گئی ہمارے سر جائے گی، ان کو جوتی کو کیا غرض۔“
    اور یہ مرغیاں الگ سے ناک میں دم کئے ہوئے ہیں ان کمبختوں کا بھی باورچی خانہ ہی میں ٹھکانہ ہے۔ تمام دنیا کی مرغیاں گھر کے باہر نکال دی جاتی ہیں مگر ہمارے یہاں کی مرغیاں بھی نرالی ہیں کہ سر پر موجود ہیں۔ بلی بھی ان کمبختوں کو نہیں پوچھتی اب کوئی پوچھے کہ میں ہانڈی چولہا دیکھوں یا مرغیوں کو ہنکارتی رہوں؟
    برتن الگ بھنک رہے ہیں سب کو تو بس یہ آتا ہے کہ ایک ایک برتن نکالتے جاؤ اور ڈھیر کرتے جاؤ ان کو اس سے کیا جو کوئی دھوئے گا اسی کے سر مصیبت رہے گی ہم برتن دھوتے دھوتے مر جاتے ہیں اور یہاں کسی کو پروا بھی نہیں ہے ابھی سویرے ہی سب برتن دھلے تھے۔ اب پھر سب ڈھیر ہیں۔ واہ۔
    چُپ موئے تو نے اور بھی ٹیں ٹیں کر کے دماغ خالی کر رکھا ہے نہ کلمہ نہ کلام بس ہر وقت ٹیں ٹیں آگ لگے تیرے ٹیں ٹیں کو جھُلسا پڑے۔
    یہ ہمارے گھر کا “دسپنا“ ہے موئے کی ٹانگیں چری ہوئی نہ آگ نکالتے بن پڑتی ہے نہ کچھ، ہاتھ الگ سے جلتے ہیں ہزار دفعہ کہا کہ ایک “دسپنا“ آ جائے یا اسی کو ٹھیک کرا دیا جائے مگر وہ تو مجھ سے ضد ہے کہ جل چڑیل اور اپنے ہاتھوں کو جھُلسا ہم سے نہیں ہو گا اس موئے سے کام
    بمبا الگ بند ہو گیا پانی کی ایک بوند بھی نہیں ہے اب کیا میں اپنے سر سے ہاتھ دھوؤں، سویرے سے چیخ رہی تھی کہ بمبا بند ہو جائے گا تھوڑا سا پانی بھر لیا جائے مگر میں تو جیسے کتیا تھی بھونکا کی اب ہم بھی بیٹھے رہیں گے اور آخر ہم کریں تو کیا کریں۔
    مختصر یہ کہ جو چیز بھی ان کے سامنے آ گئی اس کے متعلق ایک تبصرہ فرما دیا اور ہر ایک چیز کے اس رخ کو بحث میں لے آئیں جو یا تو واقعی قابل اعتراض ہوتا تھا ورنہ ان کے تبصرہ سے قابل اعتراض بن جاتا تھا بہرحال یہ وہ وقت ہوتا تھا کہ گھر کے بوڑھے جوان بچے مرد، عورت سب اپنی اپنی جگہ پر خاموش بیٹھے رہتے تھے، مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگا لتی تھیں بچے اپنی ماؤں سے سہم کر لپٹ جاتے تھے بیویوں اپنے شوہر کی حفاظت میں آ جاتی تھیں اور شوہر سچے دل سے خدا کو یاد کرتے تھے۔ طوطا بولنا چھوڑ دیتا تھا کتا باہر بھاگ جاتا تھا سونیوالے جاگ اٹھتے تھے اور جاگنے والے بھاگنا چاہتے تھے لیکن اگر اس عالم میں کوئی بہادر اور شریر لڑکا جان پر کھیل کر بھوک سے بیتاب ہو کر باورچی خانہ میں جا کر کھانا مانگ بیٹھتا تھا تو گویا توپ کا دہانا اس پر پھیر دیا جاتا تھا۔
    “ تو کیا میں ہاتھوں میں مشین لگا لوں جو تم آ گئے ہاتھ پیر پھُلائے ہتھیلیوں پر سرسوں جماتے ہو بھیا۔ ابھی کوئی ایسی دیر بھی نہیں ہو گئی ہے اور ہو گئی ہے تو میں کیا کروں اپنا سر چولہے میں تھوڑی دے دوں گی۔ ابھی تم کو کھانا کھائے ہوئے دیر ہی کتنی ہوئی ہے ہر وقت کھانا، ہر وقت کھانا کھانا نہ ہوا آفت ہو گئی۔“
    اولاد کے معاملہ میں ماں تو اندھی ہوتی ہے ان صاحبزادے کی والدہ ماجدہ اپنی مامتا سے مجبور ہو کر بو اٹھیں کہ:۔
    “ وہ کون سا ہر وقت نگلا کرتا ہے جو تم اس طرح کہہ رہی ہو نہ کمبخت اس طرح مانگتا اور نہ یہ باتیں سنتا۔“
    پس اس کے بعد سے باورچی خانہ میں ایک زلزلہ اور ایک طوفان اور ایک قیامت، ایک قیامت اور ایک قیامت بالائے قیامت کی کیفیات کے ساتھ ساتھ رونما ہو جاتی تھیں۔ بوا جعفری خانم ایک زخم خوردہ شیرنی کی طرح باورچی خانہ کی زمین کو آسمان سے اور آسمان کو زمین سے ٹکرا کر رکھ دیتی تھیں۔ تھوڑی دیر تک تو ان کی مدمقابل یعنی کھانا مانگنے والے صاحبزادے کی والدہ مقابلہ کرتی رہتی تھیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ تھک کر اعتراف شکست کر لیتی تھیں، لیکن بوا جعفری خانم کا توپ خانہ برابر گولہ باری کرتا رہتا تھا وہ بڑبڑاتی تھیں، چیختی تھیں، پیٹتی تھیں، روتی تھیں اور آخرکار منہ پھلا کر اپنا پاندان لئے ہوئے اپنے پلنگ پر اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ جاتی تھیں گویا احتجاجاً استعفٰی دے دیا ہے اب ان کو باورچی خانہ سے کوئی سروکار نہ ہوتا تھا کھانا پکے یا نہ پکے، کوئی کھانا کھائے یا نہ کھائے ہانڈی جلے یا رہے۔ چوہے روٹیاں گھسیٹیں یا برتن کتا چاٹے ان تمام باتوں سے ان کو کوئی مطلب نہ ہوتا تھا اور باورچی خانہ بلکل سوراجی حکومت بن کر رہ جاتا تھا لیکن بوا جعفری خانم کے ساتھ ہی والدہ صاحبہ بھی باورچی خانہ کا مقاطعہ کر دیتی تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ آخرکار سب کو اس عظیم الشان ہستی اس جلالت مآب وجود اس اہم ترین شخصیت اور اس بلند مرتبہ خاتون کے سامنے جھکنا ہی پڑتا تھا وہ روٹھی رہتی تھیں اور سب مناتے تھے وہ پھولی رہتی تھیں اور سب خوشامد کرتے تھے وہ قہر مجسم ہوتی تھیں اور سب بخشش چاہتے تھے کہ “ اے خدا کی برگزیدہ بندی ہم تیرے حضور گناہگاروں کی حیثیت سے حاضر ہیں اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں اور ہم اپنی خطاؤں کے لئے معافی خواہ ہیں تو اگر چاہے تو ہم کو معاف کر سکتی ہے ورنہ شاید خدا بھی نہ معاف کرے۔“
    لیکن وہ التجاؤں پر بھی اپنا منہ بدستور پھلائے رہتی تھیں اور والدہ صاحبہ کے تیور یہ ہوتے تھے کہ “ اے میری محترمہ ملازمہ اگر کسی نے آنکھ دکھائی ہو تو آنکھ نکلوا دوں، کسی نے ہاتھ اٹھایا ہو تو ہاتھ کٹوا دوں اور کسی نے زبان درازی کی ہو تو گدی سے زبان کھنچوا دوں بہرحال تو خوش ہو جا کہ تیری خوشی ہی میری خوشی ہے اور جو تجھ کو ناکوش کرے وہ میرا دشمن ہے اور جو تجھ کو ستاتا ہے وہ مجھ کو ستاتا ہے۔“
    ان صورتوں کے بعد بوا جعفری خانم دو چار دن میں رفتہ رفتہ ٹھیک ہو کر پھر اپنے اسی “زناٹے“ پر آ جاتی تھیں اور گھر بھر میں ان ہی کا ڈنکا بجنے لگتا تھا۔
    افسوس تو یہ ہے کہ موت کے ظالم ہاتھوں نے اس “جوانمرد خاتون“ کو بھی نہ چھوڑا اور ان کے اٹھتے ہی باورچی خانہ کی رونق بھی لُٹ گئی نہ وہ چہل پہل ہے نہ وہ شان و شوکت ہے۔ بس اب صرف باورچی خانہ جہاں اب کھانا پکتا ہے اور جہاں سے صرف دھواں برآمد ہوتا ہے بس اب ہم کو باورچی خانہ سے اتنا کام رہ گیا ہے کہ دور ہی سے پوچھ لیتے ہیں۔
    پک گیا؟ تو پھر لاؤ۔
    پکا چکیں؟ تو اب لاؤ۔
    وہاں گرمی ہے تو باہر آ جاؤ۔
    اس کے علاوہ تو اب یاد بھی نہیں آتا کہ یہی باورچی خانہ ازمنہ قدیمہ میں کیا کیا رہ چکا ہے لیکن خدا نہ کرے کہ تاریخ اپنے واقعات کو دہرائے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں