1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

من کہ مسمی معمار قوم

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از ساجد, ‏31 جولائی 2013۔

  1. ساجد
    آف لائن

    ساجد ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    61
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    آغاز کہاں سے کیا جائے؟؟؟۔ چلئے وہاں سے آغاز کرتے ہیں جہاں ہم معماری کیا کرتے تھے۔ یہ دریائے راوی کے کنارے آباد ایک گاؤں تھا جو اب بھی اتنا ہی غیر ترقی یافتہ ہے جتنا کم و بیش ربع صدی قبل تھا۔ وہاں ہمیں لوگوں کے لئے پر تعیش مسکن بنانے کا کام نہیں سونپا گیا تھا بلکہ قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے کی ذمہ داری ہمیں سونپی گئی تھی اور اس ذمہ داری کی ادائی کے اجر میں ہمیں معمارِ قوم کا قابلِ فخر لقب ملتا تھا اور بدلہ اجرت کی شکل میں۔ یہ ایک سرکاری ہائی سکول تھا جو چوہدری کی دان شدہ زمین پر قائم کیا گیا تھا۔ دادا چوہدری نے بھلے وقتوں میں زمین حکومتِ پنجاب کوعطیہ کی تھی لیکن پوتا چوہدری اب تک اس زمیں کو اپنی خاندانی وراثت سمجھتا تھا اور اس کا تصرف بھی اسی طرح کرتا۔ چھٹی ہونے کے بعد یہ پوتا اپنی "چوہدراہٹ" سے متعلقہ کچھ لوازمات و افعال کی تکمیل سکول کی عمارت ہی میں کیا کرتا جس میں تاش کی بازی سے لے کرمتعدد اقسام کی "بازیاں" بھی شامل ہوا کرتیں۔ شراب سے لے کر شباب تک کی محفلیں بھی جمتیں۔اس قسم کی چوہدراہٹ اور بالک ہٹ میں ہم نے ایک چیز مشترک پائی ہے اور وہ ہے بے وقوفی۔ سو ایسے بے وقوف کو سمجھانے کے لئے اس سے ماتھا کون بھیڑے ؟ اس لئے عام لوگ صرفِ نظر کرتے دکھائی دیتے لیکن معاملہ جب عام لوگوں سے نکل کر خواص تک آ جائے تو پھر صرفِ نظر کا عمل بذاتِ خود ایک المیہ بن جاتا ہے جو افراد اور معاشرے کو بالترتیب انفرادی اور اجتماعی طور پربکھیر کر رکھ دیتا ہے اور کسی بھی قوم کے خواص اور اشرافیہ کی اکثریت جب برائی کو روکنے کی بجائےصرفِ نظر کی قائل ہو جائے تو پھر معاملہ یہیں موقوف نہیں رہتا بلکہ قانون کی عملداری سے لے کر مثبت روایات اور اخلاقیات سے لے کر معاملات تک یوں اثر انداز ہوتا ہے کہ معاشرے کی شکل مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔
    اُس گاؤں میں یہی معاملہ اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود تھا اور یہ صرف اس چوہدری یا اس کے حواریوں تک ہی موفوف نہ تھا اور نہ ہی گاؤں کے ان کرتا دھرتاؤں پر بات ختم ہوتی تھی جو مذہب ، طریقت ، شریعت ، سیاست ، پنچایت اور فیصلہ سازی پر سند سمجھے جاتے تھے بلکہ صرفِ نظر کے اس عملِ قبیح میں ہم معمارانِ قوم کے بھی بہت سارے افراد شامل تھے جو پیغمبرانہ پیشے سے وابستہ ہونے کے باوجود شیطانی راہوں کے مسافر تھے ۔ جو برائی کو پھیلنے سے روکنے کے ذمہ دار بنائے گئے تھے لیکن اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہ کرتے۔ جو لوگ روایات کو مذہب ، قانون اور اخلاق کی کسوٹی پر پرکھ کر نئی نسل کے لئے ان کے مفید یا مضر ہونے سے آگاہی کے لئے متعین کئے گئے تھے وہ خود روایت پرستی کے طوفان میں اپنی عقل گنوا چکے تھے۔ خود ہم نے کبھی ساگ کی ایک ڈھیری تو کبھی دودھ کا ایک ڈول ، کبھی سنگتروں کی ایک درجن تو کبھی تھوڑے سے رس بھرے میٹھے میٹھے گنے ، کبھی تلوں کے چند پاؤ تو کبھی مکھن کی کٹوری ان کے ضمیر کو خریدنے کے لئے کافی ٹھہرتے دیکھے۔ اور تو اور ایک معمار قوم ، جو اب مرحوم ہو چکے ہیں ، اپنی روح کی سرشاری کے لئے چوہدری کے بھتیجے کے ہاتھ کی کشید کردہ خالص دیسی شراب کے رسیا تھے اور استفسار پر ان کا استدلال یہ ہوا کرتا کہ "یہ میرے دمہ کے مرض کو ٹھیک رکھتی ہے"۔ سبحان اللہ ، عمل تو جیسا تھا سو تھا لیکن استدلال کی جہالت دیکھئے کہ شراب سے دمہ کے علاج کی ان کی اپنی کوئی سائنس تھی ۔
    اب اشرافیہ کی طرف آئیے تو بتلائے دیتا ہوں کہ سکول کے کل طالبعلم تھے 330 اور ان کے لئے 35 اساتذہ بھرتی کئے گئے تھے۔ اس پر مستزاد 2 نائب قاصد ، 3 چوکیدار ، 3 مالی ، ایک لائبریرین ، ایک لیبارٹری اٹینڈینٹ (حالنکہ وہاں لیبارٹری کا نام و نشان نہ تھا)۔ یاد درہے کہ یہ کسی کینیڈین ، آسٹریلوی ، جاپانی یا امریکی سکول کا احوال نہیں بلکہ پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں کے سکول کی بات ہے کہ جس کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں 3 مزید پرائمری سکول بھی تھے اور مزے کی بات ہے کہ ان کا عملہ ایک یا دو اساتذہ پر مشتمل ہوتا اور اکثر پوسٹیں برسہا برس سے پُر ہی نہیں کی گئی تھیں۔ وجہ اور کچھ نہ تھی سوائے سیاست کے!!!۔
    تدریسی و تکنیکی عملے کے علاوہ باقی درجہ چہارم کے ملازمین کہنے کو تو سرکار کے نوکر تھے اور ہر مہینے عوام کی خون پسینے کی کمائی میں سے ادا کئے گئے ٹیکسوں سے تنخواہیں وصول کرتے لیکن عملی طور پر ، سوائے ایک کے، وہ چوہدری ہی کے ملازم تھے کیونکہ وہ اس کے گاؤں کے تھے، اسی کے کمی تھے اور چوہدری نے انہیں سیاسی اثرو رسوخ کی بنا پر نوکریاں دلوائی تھیں جبکہ ان مین اکثر کی وہاں ضرورت بھی نہ تھی۔ چوکیداربھلا چوہدری کو اس کی من مانی سے کیسے روک سکتے تھے ؟ ظاہر ہے چوہدری ان کا محسن تھا جس نے انہیں فارغ بیٹھ کر تنخواہیں لینے کا اہل بنا دیا تھا۔ ادھر سکول سے چھٹی ہوتی ادھر چوہدری پہلے ہی سے سکول کے گیٹ پر منڈلا رہا ہوتا اور سکول خالی ہوتے ہی اس کی محفل پہلے سکول کے میدان میں جمتی پھر شام ہوتے ہی کسی کلاس روم کو اس کے خلوت خانے کا درجہ دے دیا جاتا۔
    "منہ کھائے آنکھ شرمائے" ، جی ہاں بالکل یہ عالمی سچائی وہاں بھی اپنی پوری تابانی کے ساتھ اپنا وجود رکھتی تھی۔ کچھ معمارانِ قوم کی بد اعمالیوں کی بدولت سکول کے نطام میں خرابی کچھ اس طرح سے سرایت کر چکی تھی کہ اس کا سرا پکڑنا اور پھر سلجھانے کی سعی کرنا دشوار تھا۔ مثال کے طور پر چوہدری کے بھتیجے اور بیٹا امتحانوں کے دنوں مین بھی چھٹی کر لیتے اور امتحانوں کے بعد چوہدری ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں آ کر حجت پوری کرنے کے لئے درخواست گزارتا کہ جناب یہ بچے بیمار تھے ان امتحانات دوبارہ لئے جائیں۔ صرفِ نظر کا مبینہ عمل کام دکھاتا اور ہیڈ ماسٹر صاحب ان بچوں کے امتحانات دوبارہ لینے کا فرمان جاری فرما دیتے اور پھر کمال ہوشیاری سے طے شدہ منصوبے کے مطابق چوہدری کا کوئی نہ کوئی منظور نظر معمار قوم اس امتحان کا نگران بن جاتا ۔ یوں چوہدری کے بچوں کا اگر ایک بھی جواب غلط ہوتا تو میں بر ملا کہہ دیا کرتا کہ یہ جواب بچے نے غلط نہیں لکھا بلکہ اس خلاصے میں ہی غلط پرنٹ ہو گیا ہو گا کہ جس کو سامنے رکھ کر اس بچے نے تسلی سے پرچہ حل کیا ہے۔
    جاری ہے
     
    پاکستانی55، ملک بلال اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جاری رکھئے اچھا لکھا ہے
     
    ساجد اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ساجد
    آف لائن

    ساجد ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    61
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    گزشتہ سے پیوستہ
    جیسا کہ سابقہ قسط میں آپ نے ملاحظہ کیا کہ حالات کی ابتری یک طرفہ عمل کا نتیجہ نہیں ہوا کرتی بلکہ انسانی معاشرہ ایک پیچیدہ مشین کی طرح سے بہت سارے سماجی ، معاشرتی ، معاشی ، مذہبی ، سیاسی و اخلاقی کل پرزوں پر مشتمل ہوا کرتا ہے ان پرزوں میں سے کسی ایک میں بھی خرابی پیدا ہو جائے تو اس کے اثرات متاثرہ حصے تک ہی محدود نہیں رہتے ، مشین کی مجموعی کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے اور اگر اس کو مناسب وقت پر دور نہ کیا جائے تو پوری سماجی مشینری کے تار پور بکھر جایا کرتے ہیں ۔ آپ غور فرمائیے کہ ماضی کے اوراق اور حال کے لوحات پر جن اقوام کے نام تہذیبی ترقی کے حوالے سے سنہرے الفاظ میں مرقوم ہیں ان میں ایک چیز بڑے اہتمام کے ساتھ پائی جائے گی جسے خود احتسابی کہا جاتا ہے ۔ جب تک یہ صفت کسی قوم میں موجود رہتی ہے تب تک اس کے مقدر کا ستارہ دیگر اقوام کے لئے قطب نما کا مقام رکھتا ہے لیکن جیسے ہی کوئی قوم اس سے روگردانی کرتی ہے وہ بذاتِ خود راستہ کھو بیٹھتی ہے۔ لہذا قومی ترقی کے لئے لازم ہے کہ ہم سب انفرادی طور پر اپنا احتساب ہر لمحہ کرتے رہیں تا کہ اجتماعیت کے حوالے سے یَداللہ علٰی الجماعۃ کے حق دار بن سکیں اور اگر ہم ذاتی حیثیت میں خود احتسابی کی بجائے معاشرے کے دیگر افراد و طبقات سے یہ توقع رکھیں کہ یہ کام تو ان کے کرنے کا ہے تو جان لیجئے کہ یہ حماقت اس قدر سنگین ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف ہماری معاشرتی بقا کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے بلکہ ہماری نظریاتی و جغرافیائی حدود بھی غیر محفوظ ہو جاتی ہیں ، اور اگر خود احتسابی سے روگردانی کا عارضہ معاشرے کے خواص میں اس حد تک سرایت کر جائے کہ وہ مذہبی ، تہذیبی اور تمدنی اصولوں اور تعلیمات سے روشناس ہونے کے باوجود بد قماشی و بد دیانتی کو اپنا شعار بنا لیں تو پھر مجھے ، اجتماعیت کے حوالے سے ، آپ کی خدمت میں کسی اور کی نہیں آج کے متشدد و منقسم پاکستانی معاشرے کی مثال پیش کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ؛ اور انفرادی تنزلی کے بارے میں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں :
    میرے ایک لائق شاگرد ، آپ کی آسانی کے لئے میں اس کا فرضی نام غلام عباس لکھ دیتا ہوں ، کی دادی اللہ کو پیاری ہو گئی اور گاؤں کے رواج کے مطابق فوتیدگی کے بعد آنے والی پہلی جمعرات کو اس کے ساتویں کا ختم کا اہتمام کیا گیا۔ اور گاؤں کے رواج کے مطابق ہی ختم میں شرکت کے لئے ہم تمام اساتذہ کو مدعو کیا گیا۔ جب ہم پنڈال میں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ غلام عباس کے والد غلام محمد نے اپنی والدہ کے ایصال ثواب کے لئے کوئی 20 دیگیں آگ پر چڑھا رکھی تھیں ۔ گاؤں اور اس کے نواح میں دو روحانی شخصیات خاصی با رسوخ تھیں وہ بھی وہاں تشریف فرما تھیں۔ کوئی 300 افراد وہاں موجود تھے جن کی اکثریت ان شخصیات کے ارد گرد بیٹھنے کو اپنے لئے ایک سعادت سمجھتے ہوئے ان کی قربت کی خواہاں تھی اور کچھ افراد فرطِ جزبات میں ان کے پاؤں میں سجدے کے مشابہہ سر رکھ کر شاید "جنت" تلاش کر رہے تھے ۔ ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ بر انگیختی اس مین کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ، لہذا ان کو سمجھانے کے لئے عام طریقہ اختیار کرنا "آ بیل مجھے مار" کی عملی شکل بھی اختیار کر لیتا ہے لیکن اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے گویائی و دلیل کی کچھ بہتر صلاحیت دی ہے کہ جس کو استعمال کرکے میں اپنے شاگردوں کو ایسے افعال کی خطرناکی سے مختلف اوقات میں آگاہ کرتا رہتا تھا جس کی وجہ سے نئی نسل کے ان طالبعلموں میں سے کچھ بچے ان کے سامنے جھکنے کی بجائے ان سے مصافحہ کرنے سے آگے نہ بڑھتے اس کا لا محالہ یہ نتیجہ تھا کہ میں ان شخصیات کے نزدیک "مرتد" تھا اور ان کے اندھے عقیدتمندوں ، کچھ گاؤں والوں ، کے نزدیک ان کے بچوں کو اسلام سے دور کررہا تھا۔ گاؤں کی اکلوتی مسجد کے مولوی صاحب تو میرے زبردست بیری تھے اور جب کبھی گاؤں کے کسی ختم پر میرا اور ان کا آمنا سامنا ہو جاتا تو اگلے ہی روز جمعہ کی تقریر میں موضوع تقریر میرا "کفرو ارتداد" ہوتا تھا۔ یہاں میں وضاحت کر دوں کہ میری مولوی صاحب سے مخالفت اس بات پر نہ تھی کہ ختم کی شرعی حیثیت کیا ہے بلکہ اس کی وجہ کچھ اور تھی جو اگلی سطروں کے مطالعے سے آپ پر منکشف ہو جائے گی۔
    گاؤں کے دیگر عمائدین کی تکمیلِ آمد پر مولوی صاحب مسجد سے پنڈال کی طرف تشریف لائے اور دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی ان کے احترام میں ان کی آمد پر کھڑا ہو گیا ۔ یہ احترام مولوی صاحب کی ذات کا نہیں بلکہ ان کے مقام کا تھا جس کو وہ پامال کیا کرتے تھے اور میں اسی پامالی پر ان سے اختلاف رکھتا تھا ۔ ان مولوی صاحب نے بھی چند معزز سیاسی و روحانی شخصیات سے دعا سلام کر کے اپنے دائیں طرف کن اکھیوں سے دیکھا اور مجھے وہاں بیٹھا دیکھ کر اپنے چہرے پر عمودی ابھار لے آئے ۔ خیر سے ، غلام محمد کی طرف سے ، ختم شروع کرنے کا اذن مولوی صاحب کو دیا گیا۔ اب مولوی صاحب کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک پیدا ہوئی اور جوں جوں وہ اس قیمتی سامان کو دیکھتے رہے جو ختم کے بعد مولوی صاحب کے ساتھ جانا تھا اس چمک میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ اب اس سامان کی تفصیل بھی پڑھ لیجئے ، سونے کی بالیاں ، ایک روئی بھری ریشمی رضائی معہ ریشمی بستر، لکڑی کی بنی رنگین چارپائی ، 5 زنانہ سوٹ ، 5 مردانہ سوٹ ، ایک پیتل کا لوٹا ،مخمل کے دو جائے نماز ، ایک پگڑی ، ایک جوڑا زنانہ جوتے ، ایک جوڑا مردانہ جوتے اور 2000 روپیہ نقد۔ مولوی صاحب نے ہر چیز کو بغور دیکھا اور چند لمحوں کے لئے ایسے بیٹھ گئے جیسے کسی غیر مرئی مخلوق سے رابطے میں ہوں ، پھر اچانک ہی بہ آواز بلند بولے "اوئے غلام محمد ، تیرا پیو جیوندا اے؟" غلام محمد نے جواب دیا ،"نہیں مولوی صاحب ، آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ 4 برس قبل اس کا انتقال ہو چکا ہے" ۔ مولوی صاحب جلالت بھری آواز میں مخاطب ہوئے "اوئے بیوقوفا ، تو اپنی ماں کو تو پیتل کا لوٹا ، ریشمی رضائی اور رنگین چارپائی دے رہا ہے تیرا باپ وضو کے لئے کس لوٹے میں پانی لے گا؟ وہ سردی کا مقابلہ کیسے کرے گا؟ اور وہ کیا زمین پر سوئے گا؟ شرم کر کہ تیری ماں اس رنگین چارپائی پر گرم بستر میں سوئے گی اور اس کا سرتاج یعنی تیرا باپ نیچے زمین پر سردی میں لیٹے گا۔ ختم شریف کو پہلے ہی بہت تاخیر ہو گئی ہے جا جلدی کر اپنے باپ کے لئے بھی ایک ایسا ہی ریشمی بستر ، ایک رضائی ، ایک پیتل کا لوٹا اور ایک چارپائی بھی لے کر آ تا کہ تیرا باپ تجھ پر ناراض نہ ہو"۔
    ان پڑھ غلام محمد بجلی کی تیزی کے ساتھ گھر کی طرف بھاگا تا کہ مطلوبہ سامان بھی مولوی صاحب کی خدمت میں پیش کر سکے لیکن جب وہ میرے قریب سے گزرنے لگا تو میں نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اسے کھینچ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ مولوی صاھب نے یہ منظر دیکھا تو شدید ناگواری ان کے چہرے سے عیاں تھی ۔ میں غلام محمد کا بازو تھامے تھوڑا سا مولوی صاحب کی طرف سرکا اور ان کے پہلو مین بیٹھی دو نوں روحانی شخصیات کو مخاطب کر کے مولوی صاحب سے بات کی اور کہا " مولوی صاحب ، کوئی قانونی ، اخلاقی ، شرعی یا سماجی رکاوٹ کا بیان کریں جو غلام محمد کی مرحومہ ماں کو اپنے پہلے سے مرحوم شوہر کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر ایک ہی بستر میں ایک ہی رضائی میں لیٹنے میں حائل ہوتی ہو؟ کتنی اچھی بات ہے کہ یہ مرحومہ 4 برس کی جدائی کے بعد اپنے شوہر سے ملے گی اور آپ ہین ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے پر تلے بیٹھے ہیں ، آپ جانتے ہیں نا کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے والے کو اللہ تعالی کتنا ناپسند کرتے ہیں۔ یہ تو وہ رشتہ جہاں روح تک میں شراکت ہو جاتی ہے اور آپ ہیں کہ ایک لوٹے اور ریشمی چارپائی میں ان کی شراکت پر بھی معترض ہیں۔ غلام محمد مزید سامان نہیں لائے گا ، جو سامان یہاں پڑا ہوا ہے اس کی بھی ضرورت نہ مرحومہ کو ہے اور نہ ان کے مرحوم شوہر کو ۔ کیونکہ جب روح جسم سے الگ ہو جاتی ہے تو اس کی دنیاوی ضروریات بھی باقی نہیں رہ جاتیں" اور ساتھ ہی میں نے ان دونوں روحانی شخصیات سے تصدیق چاہی کہ کیوں جی شاہ جی مین نے کچھ غلط کہا؟۔ شاہ صاحب کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ بچا کہ وہ میرا چہرہ دیکھ کر مسکراتے رہے اور چند ثانیے بعد مولوی صاحب سے یوں مخاطب ہوئے " مولوی صاحب ، استاد جی ٹھیک کہتے ہیں ۔ مرحومین ان دنیاوی اسباب و ضروریات کے مکلف نہیں ہوتے ، اب ان کو اس دنیاوی مال کی نہیں بلکہ اعمال کی ضرورت ہے۔ آپ قرآن پڑھنا شروع کریں اور اللہ کے حضور ان کی مغفرت کی دعا کریں کہ مرحومین کو سب سے زیادہ اس کی ضرورت ہوتی ہے"۔
    برسوں گزر گئے ، اب غلام عباس ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن چکا ہے ۔ ڈیڑھ برس قبل اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا ، اس نے مجھے اطلاع دی ۔ ختم تو اب بھی ہوا لیکن نہ کوئی دنیاوی اسباب کسی کو دئیے گئے نہ کسی نے مطالبہ کیا ۔ ختم کے بعد غلام عباس بچوں کی طرح میرے پہلو سے چپک گیا ۔ اس کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں ، میں نے اسے دلاسہ دیا تو وہ بولا " استاد جی یہ آنسو صرف امی کی جدائی کے نہیں ہیں بلکہ آپ کے دئیے اس سبق کےتشکر کے بھی ہیں جو آپ نے برسوں قبل یہیں بیٹھ کر مولوی صاحب کو دیا تھا اور پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ شاہ جی بھی آپ کی دلیل کے سامنے بے بس ہو گئے تھے۔"
    واقعہ بیان کرنے کا مقصد خود نمائی ہر گز نہیں بلکہ ان طریقوں مین سے ایک طریقے اور طرزِ عمل کی وضاحت کرنا مقصود ہے جن کو اختیار کر کے ہم اپنی معاشرے کے سدھار میں انفرادی کوشش کر سکتے ہیں اور میرا یقین ہے کہ انفرادی کوشیں اجتماعی کامیابی پر منتج ہوا کرتی ہیں۔ ہمارے بوسیدہ سماجی نظام میں جس طرح سے لوگوں کا مذہب اور سیاست کے نام پر استحصال کیا جاتا ہےہمیں اس استحسال کے خلاف اپنی ایسی کوششیں ہمیشہ جاری رکھنی چاہئیں ۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی "غلام عباس" ان کوششوں سے استحصال سے بچے گا تو سمجھ لیجئے کہ آپ نے احتساب کے عمل میں حصہ داری کر لی۔۔۔۔۔۔جی ہاں وہی احتساب جو قوموں کی سربلندی کے لئے شرط اول ہے۔
    ختم شد
     
    پاکستانی55 اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں