1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اقتدارکھونے کے 8 اسباب

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نذر حافی, ‏29 جولائی 2013۔

  1. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    مصر کے صدر جناب محمد مرسی کی صدارت کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ان کے خلاف لاکھوں افراد کا سڑکوں پر نکل کر احتجاج اور ان کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک باعث بنی کہ مصری فوج انہیں معزول کرتے ہوئے آئینی عدالت کے جج عدلی منصور کو نگران صدر کے طور پر منصوب کر دے۔ لیکن مصری فوج کا یہ اقدام مصر میں سیاسی جھگڑوں اور کشمکش کو ختم نہ کر سکا اور اگلے دن سے ہی جناب محمد مرسی کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور مصری فوج کے اس اقدام کے خلاف مظاہروں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مصر میں موجود بحران کو سمجھنے کیلئے مندرجہ ذیل آٹھ نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے۔ 1. مصر میں کئی ہفتوں سے جاری کشمکش اور سیاسی بے چینی اپنی نوعیت میں خطے کے دوسرے ممالک میں جاری جھڑپوں اور سیاسی کشمکش سے بالکل مختلف ہے۔ اسی طرح مصر کے سیاسی حالات کی پیچیدگی کے باعث دنیا کے ممالک مصر کے بارے میں واضح موقف اختیار کرنے میں شدید شک و تردید کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاران کی نظر میں مصر کے موجودہ سیاسی حالات دو قسم کی مختلف مشروعیتوں کے ٹکراو کا نتیجہ ہے۔ ایک طرف صدر محمد مرسی کے حامی اور اخوان المسلمین گذشتہ سال برگزار ہونے والے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کی بنیاد پر انتخاباتی مشروعیت کا حامل ہونے کا دعوا کر رہے ہیں تو دوسری طرف صدر محمد مرسی کے مخالفین سڑکوں پر کروڑوں مظاہرین کی موجودگی کی بنیاد پر عوامی مشروعیت کے مدعی نظر آتے ہیں۔ لہذا مصر کا موجودہ بحران دو قسم کی مشروعیت یعنی انتخاباتی مشروعیت اور عوامی مشروعیت کے ٹکراو کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف عالمی برادری کی جانب سے مصر کے بارے میں واضح موقف اپنانے میں شک و تردید کا شکار ہو جانے کا راز بھی مصر کی موجودہ سیاسی صورتحال کی پیچیدگی اور ابہام میں پوشیدہ ہے۔ ان ممالک کے علاوہ جنہیں مصر میں صدر مرسی کی حکومت کی برطرفی کے نتیجے میں یا تو فائدہ ہوا ہے اور یا پھر نقصان پہنچا ہے، امریکہ اور اکثر یورپی ممالک سمیت باقی تمام ممالک نے مصر کے بارے میں انتہائی مبہم سا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ 2. صدر محمد مرسی کی معزولی کے بعد مصر میں برسراقتدار آنے والی فوج اور اس کی اتحادی جماعتوں نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ وہ یکہ تازی کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد اخوان المسلمین سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مصر کی نئی حکومت جسے وہ ایک قومی حکومت کا نام دیتے ہیں، میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہوئے اسے ملک کے موجودہ بحران پر قابو پانے کا واحد راہ حل قرار دیا ہے۔ یہ راہ حل ایک طرف اخوان المسلمین کے راضی ہونے کی صورت میں مصر کی سیاسی فضا کو پرامن کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور دوسری طرف اس راہ حل کے سامنے آنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب محمد مرسی اور ان کی حکومت کی جانب سے گذشتہ ایک سال کے دوران من مانی اور تک روی نے کس حد تک مصری عوام اور سیاسی جماعتوں کو دباو کا شکار کر رکھا تھا اور انہیں ایک ٹیکنوکریٹ اور وسیع البنیاد قومی حکومت تشکیل دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ 3. اخوان المسلمین نے گذشتہ ایک سال کے دوران ثابت کر دیا کہ ان کی حکومت کی سب سے بڑی مشکل ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی تجربہ کا فقدان تھا۔ اس کے علاوہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے میدان میں بھی مرسی حکومت کی کارکردگی انتہائی کمزور رہی۔ اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کمزوری کی بڑی وجہ مصر آرمی اور سیکورٹی فورسز کا حکمران جماعت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے سے گریز کرنا تھا لیکن ملک میں رونما ہونے والی سیاسی حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخوان حکومت اپنی یکطرفہ پالیسیوں کی نسبت عوام میں پائی جانے والی گہری ناراضگی سے کس قدر لاعلمی کا شکار تھی۔ دوسرا یہ کہ مرسی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ملین مارچ سے بھی غافل رہی جبکہ ایسا مارچ کرنے کیلئے کم از کم ایک ماہ قبل سے اس کی تیاری کرنا ضروری ہوتا ہے۔ صدر محمد مرسی کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کو منانے کیلئے مناسب منصوبہ پیش نہ کرنا اور بہت جلد فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور ہینڈز اپ کر لینے کی بھی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں مصری عوام کے رجحانات اور رائے عامہ کے بارے میں کافی حد تک معلومات فراہم نہیں تھیں۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اخوان المسلمین بہت جلد اپنے حامیوں اور عوامی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھی اور سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک سے بھی زیادہ آسانی سے اقتدار فوج کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئی۔ 4. صدر محمد مرسی کی معزولی پر عالمی برادری کی جانب سے ظاہر ہونے والے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے اخوان المسلمین کی اس امید پر پانی پھیر دیا جس کی بنیاد پر وہ یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ ایسے بحران کی صورت میں امریکہ اور یورپی ممالک ان کا ساتھ دیں گے۔ اگرچہ امریکہ نے کئی بار اخوان المسلمین کے رہنماوں کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کروائی تھی اور ان سے وعدہ کیا تھا کہ عوامی احتجاج اور مظاہروں کا شدت اختیار کر جانے کی صورت میں صدر مرسی کی حمایت کریں گے لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ واشنگٹن کی جانب سے یہ وعدہ اخوان المسلمین کی حکومت کو بچانے کی خاطر نہ تھا بلکہ مصر میں سیاسی اختلافات کی آگ کو مزید ہوا دینے اور سیاسی ٹکراو کو مزید شدت بخشنے کی خاطر کیا گیا تھا۔ خلیجی عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور قطر جو مصر میں اخوان المسلمین کے برسراقتدار ہونے سے زیادہ خوش نہیں تھے اور صدر مرسی کے اقتدار میں باقی رہنے کو اپنے لئے خطرے کی گھنٹی تصور کرتے تھے اور اس بات سے خوفزدہ تھے کہ کہیں عوامی تحریکوں کا سلسلہ ان کی کمزور سلطنتوں تک نہ آن پہنچے، نے صدر مرسی کی معزولی کا پرجوش استقبال کیا۔ یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ پہلے دو ملک تھے جنہوں نے صدر مرسی کی معزولی پر مصر آرمی کو مبارکباد کا پیغام بھیجا۔ اس حوالے سے صرف ترکی ایسا ملک تھا جس نے مصر میں صدر مرسی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ ترکی خطے میں امریکی لانگ ٹرم منصوبوں کو جامہ عمل پہنانے کیلئے اخوان المسلمین کے ساتھ بہت گہرا تعاون کرنے میں مصروف تھا۔ اس شدید ردعمل کے نتیجے میں ترکی اور مصر کے تعلقات جو صدر مرسی کے دورہ حکومت میں انتہائی خوشگوار اور قریبی تصور کئے جاتے تھے انتہائی تاریکی کا شکار ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ مصر نے اپنے اندرونی مسائل میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے ترکی کے سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج کیا اور انقرہ سے بھی اپنا سفیر واپس بلا لیا۔
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    بقیہ:۔:۔ 5. مصر کے مختلف صوبوں میں دونوں طرف سے عوامی مظاہروں اور سیاسی رساکشی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں دوسرے زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ عوامی مظاہرے دونوں طرف سے "نیچے سے دباو ڈال کر اوپر سے ڈیلنگ کرنے" کی پالیسی کے تحت انجام پا رہے ہیں۔ مصری میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اگرچہ صدر محمد مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان مصر کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر جھڑپیں جاری ہیں لیکن دونوں دھڑوں کے سیاسی رہنما پشت پردہ مذاکرات میں مصروف ہیں تاکہ جہاں تک ہو سکے اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ مصر میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آنے والی فوج اور اس کی حامی سیاسی جماعتیں قانونی اور مشروع صدر کا تختہ الٹنے جیسے خطرناک الزام کا نشانہ بنی ہوئی ہیں لہذا ان کی کوشش ہے کہ جس طرح ممکن ہو اپنے مخالفین کو سڑکوں پر آنے سے روکیں اور اپنے خلاف برپا ہونے والے مظاہروں کو ہلکا کر سکیں۔ اسی وجہ سے مصری فوج نے اقتدار سنبھالتے ہی اخوان المسلمین کو نگران کابینہ اور نئی حکومت میں شرکت کی دعوت دی اور اخوان المسلمین سمیت تمام اسلام پسند سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو آزاد کرنے کا وعدہ بھی دیا لیکن ان سے مطالبہ کیا کہ وہ مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ ختم کر دیں۔ لیکن دوسری طرف اخوان المسلمین جو اقتدار میں اپنی واپسی کی نسبت تقریبا ناامید ہو چکے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ مصری فوج کبھی بھی صدر محمد مرسی کی معزولی کے فیصلے کو واپس نہیں لے گی، نے اعلان کیا ہے کہ جب تک صدر محمد مرسی کے اقتدار میں واپس آنے کیلئے ملکی سطح پر رفرنڈم برگزار نہیں ہوتا وہ مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اسی طرح اخوان المسلمین نے آئندہ آنے والے انتخابات میں اپنے سیاسی وجود کا احساس دلانے اور اپنے رہنماوں کے خلاف الزام تراشی کا سلسلہ بند کروانے اور انکی گرفتاری کو روکنے کیلئے عوامی دباو میں مزید اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 6. صدر محمد مرسی نے اپنے ایک سالہ دوران صدارت میں بہت سی غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے لیکن ان کی سب سے بڑی اور بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے اپنی کابینہ کیلئے تمام وزراء اور مشاورین کے انتخاب کا دائرہ صرف اخوان المسلمین تک ہی محدود رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر محمد مرسی کے تمام تر قریبی افراد دینی سوچ کے حامل ہم فکر افراد تھے جن کی جانب سے انجام پانے والے فیصلے پورے ملک میں لاگو ہوتے تھے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں موجود دو بڑے مکاتب فکر یعنی اخوان المسلمین کی مذہبی سوچ اور سیکولر طبقے کی واقعیت پسندانہ سوچ کے درمیان اختلافات کا سلسلہ مزید گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال شام کا مسئلہ تھا۔ شام کے بارے میں واقعیت پسند طبقہ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس ملک میں مداخلت کرنے والی طاقتیں اب اپنا دامن چھڑانے کے چکروں میں ہیں لہذا مصر کو شام کے مسئلے میں نہیں الجھنا چاہئے جبکہ اخوان المسلمین کی مذہبی سوچ اس امر کا تقاضا کر رہی تھی کہ شام میں سرگرم عمل ہم فکر دھڑوں کی حمایت کی جانی چاہئے۔ لہذا مصر کی حکمران جماعت اخوان المسلمین نے اعلی حکومتی سطح پر شام کے مسئلے میں مداخلت کرنا شروع کر دی۔ 7. صدر محمد مرسی جو انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آئے تھے کی ایک سال بعد معزولی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران صدر محمد مرسی کی سیاسی غلطیوں کے علاوہ ان کی معزولی کی ایک بنیادی وجہ خود مصر کا نامناسب سیاسی نظام ہے جس میں صدر مملکت کو ایک ڈکٹیٹر جیسے اختیارات حاصل ہیں۔ یہ نامناسب سیاسی نظام دراصل سابق آمر حسنی مبارک کی ہی میراث تصور کی جاتی ہے۔ لہذا مصر میں رونما ہونے والے بحران کا حقیقی حل ملکی آئین میں وسیع پیمانے پر اصلاحات سے ہی ممکن ہے۔ صدر محمد مرسی کی ایک سالہ حکومت اور ان کی معزولی پر مبنی تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ مصر کو آئندہ اس قسم کے سیاسی بحران سے بچانے کا بہترین راستہ ملک کے سیاسی نظام میں طاقت کا صحیح توازن قائم کرنا ہے۔ طاقت کا یہ توازن صدر مملکت، پارلیمنٹ اور فوج جیسے طاقت کے مراکز کے درمیان قائم ہونا چاہئے۔ اگر ایسا توازن برقرار ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں آئندہ مصر کا کوئی صدر، آرمی چیف یا کوئی اور ملکی شخصیت اپنی من مانی نہیں کر سکے گا۔ یہ من مانی اور یکہ تازی عوام میں شدید غم و غصے کا باعث بنتی ہے۔ یہ وہی فضا ہے جو سابق ڈکٹیٹرشپ کے ایک لمبے عرصے میں دیکھی جا چکی ہے۔ 8. مصر کے موجودہ حالات کی روشنی میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگرچہ اخوان المسلمین نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ منصب صدارت پر واپسی پر مبنی جناب محمد مرسی کے قانونی حق کی حمایت میں خون کے آخری قطرے تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے لیکن اس بات کا بھی قوی امکان موجود ہے کہ اخوان المسلمین اس سے کم پر بھی راضی ہو جائے گی اور مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار نہیں کرے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکام بھی اسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں لہذا انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اگر مظاہرین اور دھرنا دینے والے افراد کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے تو وہ جناب محمد مرسی کی حمایت کا اعلان کر دیں گے۔ زمینی حقائق بھی یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ قاہرہ کے رابعہ العدویہ اسکوائر اور رامسس اسکوائر میں جناب محمد مرسی کے حامیوں کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ امر اس بات کی علامت ہے کہ مصر دو سال پیچھے پلٹ گیا ہے جب عوام کو سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے خلاف کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ لہذا اب مصر میں ایک بار پھر نئے آئین کی منظوری، پارلیمنٹ کے انتخابات اور صدارتی انتخابات کے مراحل دہرائے جائیں گے۔
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں