1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ' حیات وتعلیمات

Discussion in 'تعلیماتِ قرآن و حدیث' started by شہباز حسین رضوی, May 25, 2013.

  1. شہباز حسین رضوی
    Offline

    شہباز حسین رضوی ممبر

    alaHazrat-wallpapers-imam-ahmad-raza-khan-barelvi-hanafi-sunni-qadri-islamic-wallpaper-13.jpg


    اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت مفسر،جلیل القدر محدث اور بلند پایہ فقیہ تھے،آپ کی نابغۂ روزگار شخصیت نے تنہا وہ کام انجام دئے جو ایک انجمن اور تحریک انجام نہيں دے سکتی۔آپ نے اپنی ساری زندگی اسلام کی نشر واشاعت اور دفاع اہل سنت کے لئے وقف کردی تھی۔
    ولادت مبارکہ

    آپ کی ولادت مبارکہ 10 شوال المکرم 1272ھ م12 جون1856 ء،بروز اتوار ، ہندوستان کےمشہور شہر بریلی کے محلہ”جسولی“میں ہوئی۔
    اسم گرامی ولقب مبارک
    آپ کے جدا مجد حضرت مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا نام”احمد رضا“رکھاجبکہ آپ کا پیدائشی نام "محمد"تھا،اور تاریخی نام " المختار "ہے

    آپ کا لقب مبارک "اعلی حضرت"زبان زد خاص وعام ہے
    آپ "رضا"بطور تخلص استعمال فرماتے تھے،آپ نے اپنےاسم گرامی کے ساتھ"عبد المصطفی "کا اضافہ بھی فرمایا،چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

    خوف نہ رکھ رضا ذرا تو 'تو ہے عبد مصطفی

    تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے

    آپ کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے جد امجد کا نام مبارک حضرت مولانارضا علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھا

    یہ دونوں حضرات اپنے وقت کے جلیل القدر علماءِ کرام میں شمار کئے جاتے تھے۔

    آپ کی تربیت ایک علمی گھرانہ میں ہوئی جس کے نتیجہ میں آپ نے صرف چار ، پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا تھا اور اپنی بے پنا ہ خداداد صلاحیتوں اور حیرت انگیز قوت حافظہ کی بناء پر صرف تیرہ سال اور دس ماہ کی عمر میں علم تفسیر، حدیث، فقہ و اصول فقہ، منطق و فلسفہ علم کلام اور مروجہ علوم دینیہ کی تکمیل کرلی۔

    آپ علم وفضل کے اتنے بلندترین مقام پر فائز تھے کہ عرب و عجم کے علماء کرام نے شاندارالفاظ میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا اورعظیم الشان القاب سےنوازا۔

    1295ھ/1878ء میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ اپنے والد کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کیلئے حاضر ہوئے،مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران مشہور شافعی عالم دین حضرت" شیخ حسین بن صالح" آپ سے بے حد متاثر ہوئے اور آپ کی بڑی تحسین و تکریم فرمائی،انہوں نے آپ کا یہ حیرت انگیز کارنامہ دیکھا کہ آپ نے صرف ایک دن میں ان کی کتاب ”الجوھرۃالمضیۃ“کی شرح نہایت فصیح و بلیغ عربی میں ”النیرۃالوضیۃ فی شرح الجوھرۃ المضیۃ“کے نام سےتصنیف فرمائی
    ۔
    اس کے بعد آپ نے اس کتاب میں کچھ تعلیقات اور حواشی کا اضافہ فرمایا اور اس کتاب کا تاریخی نام”الطرۃ الرضیۃ فی النیرۃ الوضیۃ “ تجویز فرمایا۔

    اسی طرح1322 ھ/1905ء میں آپ دوبارہ زیارت حرمین شریفین کے لیے گئے تو اس بار وہاں کے علماء کبار کیلئے نوٹ (کرنسی) کے ایک مسئلے کا حل ”کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم“کے نام سے تحریر فرمایا۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب “الدولۃ المکیّہ“بھی تحریر فرمائی، جس میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کے اثبات پرعالمانہ اور محققانہ بحث فرمائی اور حضوراکرم صلی
    للہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کوقرآن کریم واحادیث شریفہ کی روشنی میں ثابت فرمایاہے۔


    آپ کی تصانیف،مؤلفات ،رسائل اور کلام میں عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رنگارنگ جلوے نظر آتے ہیں،آپ کے نظم ونثر میں

    محبت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عنصر غالب رہا-جس کی چند مثالیں یہ ہیں



    اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ

    ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

    قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں

    ایمان یہ کہتا ہے مِری جان ہیں یہ

    دربار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح معروضہ کرتے ہیں

    اک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا

    تم نے چلے پھرتے مردے جلادئے ہیں

    آنے دو یا ڈوبودو اب تو تمہاری جانب

    کشتی تم ہی پہ چھوڑی لنگر اٹھادئے ہیں

    ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی

    مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا

    سرورکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جود وعطا سے متعلق فرماتے ہیں


    واہ کیا جود وکرم ہے شہ بطحاتیرا

    "نہيں"سنتا ہی نہیں مانگنے والاتیرا

    تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال

    جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا



    دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا

    تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا

    فیض ہے یا شہِ تسنیم نِرالا تیرا

    آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا



    اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا

    اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا



    تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں

    کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

    رفعت شان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے متعلق فرماتے ہیں

    فرش والے تری شوکت کا عُلو کیا جانیں

    خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیر



    حضرات اہل بیت کرام کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں

    تیری نسل پاک میں ہےبچہ بچہ نور کا

    تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

    جاری ہےــــ
     
  2. مناپہلوان
    Offline

    مناپہلوان مدیر جریدہ Staff Member

    شہباز بھائی آپ جب بھی پوسٹ کیا کریں تو فارمیٹ ختم کردیا کریں
    یعنی سارا سیلیکٹ کرکے ٹیکسٹ ایڈیٹر کی داہنی اوپر والی طرف جو ربڑ کا نشان لگا ہے اس کو دبا کر پھر جواب بھیجا کریں، اس سے نستعلیق میں ہی آتا ہے
     
  3. شہباز حسین رضوی
    Offline

    شہباز حسین رضوی ممبر

    مناپہلوان


    بھائی


    مجھے پوسٹ پورا کرنے میں کؤی پریشان نہیں ہے پر جب میں پورا لیکھ دیتا ہوں پھر کوچھ ایررررررررررر آجاتتا ہے​
     
  4. شہباز حسین رضوی
    Offline

    شہباز حسین رضوی ممبر

    مناپہلوان


    بھائی


    مجھے پوسٹ پورا کرنے میں کؤی پریشان نہیں ہے پر جب میں پورا لیکھ دیتا ہوں پھر کوچھ ایررررررررررر آجاتتا ہے​
     
    مناپہلوان likes this.
  5. مناپہلوان
    Offline

    مناپہلوان مدیر جریدہ Staff Member

    ایرر کا سکرین شاٹ مہیا فرما دیں تو کچھ حل کیا جاسکتا ہے
     
  6. سجاد مدنی
    Offline

    سجاد مدنی ممبر

    ماشاءاللہ بہت اچھا مضمون شئیر کیا ہےآپ نے۔
    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پیغام اعلی حضرت کو ہر سو عام کیا جائے۔
     
  7. نذر حافی
    Offline

    نذر حافی ممبر

    اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا جزاک اللہ
     
  8. نذر حافی
    Offline

    نذر حافی ممبر

    اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا جزاک اللہ
     

Share This Page