1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

احمد ندیم قاسمی کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عاصم محمود, ‏24 فروری 2012۔

  1. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    لکھوں تو کیا لکھوں‫!
    ‫کیسے لکھوں!
    لفظوں کی ٹوٹی ہڈّیوں کو کیسے جوڑوں
    سبھی روندے ہوۓ حرفوں سے،
    نقطوں سے
    جو پھوٹا پڑ رہا ہے جیتا جیتا خوں
    صفحۂ قرطاس پر چنگاریاں بن کر ٹپکتا ہے
    زباں کچلی پڑی ہے
    اور اگر بولوں
    تو لگتا ہے
    مجھے چیخوں کے سوا کچھ بھی نہیں آتا
    جنازوں پر یہاں زندہ جنازے سینہ زن ہیں
    کچھ اگر باقی ہے تو رگ و پے میں اترتا درد ہے
    قلب و جگر کو چیرتا دُکھ ہے
    مجھے تو یہ کہنا نہیں آتا
    کچھ آتا ہے
    تو ایسے المیے پر
    اور عناصر کے مقابل اپنی فطری بے بسی پر
    ٹوٹ کر رہنا ہی آتا ہے
    لکھوں تو کیا لکھوں!
     
    محمد کاشف اختر اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    خدا عظیم، زمانہ عظیم، وقت عظیم
    اگر حقیر ہے کوئی یہاں تو صرف ندیم
    وہی ندیم، وہی لاڈلا بہشتوں کا
    وہی ندیم، جو مسجود تھا فرشتوں کا
    وہ جس نے جبر سے وجدان کو بلند کہا
    وہ جس نے وسعتِ عالم کو اک زقند کہا
    وہ جس نے جرمِ محبت کی جب سزا پائی
    تو کائنات کے صحراؤں میں بہار آئی
    وہ جس نے فرش کو بھی عرش کا جمال دیا
    وہ جس نے تند عناصر کو ہنس کے ٹال دیا
    بڑھا تو راہیں تراشیں، رُکا تو قصر بنائے
    اُڑا تو گیت بکھیرے، جھکا تو پھول کھلائے
    وہ جس کے نام سے عظمت قسم اٹھاتی ہے
    اسی کی آج خدائی ہنسی اڑاتی ہے
    نہیں ۔۔۔کسی سے بگڑنا مرا سبھاؤ نہیں
    مری سرشت میں گلزار ہیں، الاؤ نہیں
    ہزار بار شکستوں پہ مسکرایا ہوں
    مصیبتوں کی گرج میں بھی گنگنایا ہوں
    اگر حریمِ بقا سے فنا ملی ہے مجھے
    اسی فنا میں بقا کی ادا ملی ہے مجھے
    خدا شناس بھی ہوں اور خود شناس بھی ہوں
    خدا سے دور بھی ہوں اور خدا کے پاس بھی ہوں
    یہاں زمیں پہ بھی تخلیق کام ہے میرا
    کہ کبریائی سے منسوب نام ہے میرا
    زمیں مری ہے، فضا بھی مری، خلا بھی مری
    خلا مری ہے تواقلیم ماورا بھی مری
    خدا کے ذہن کا فن پارۂ عظیم ہوں میں
    تمام دہر کا دولھا ہوں میں۔۔۔۔ندیم ہوں میں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
    دیکھنا، حدِ نظر سے اگے دیکھنا بھی جرم ہے
    سوچنا،اپنے یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے
    آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں الٹ کر جھانکنا بھی جرم ہے
    کیوں بھی کہنا جرم ہے
    کیسے بھی کہنا جرم ہے
    سانس لینے کی آزادی میسّر ہے
    مگر
    زندہ رہنے کیلئے کچھ اور بھی درکار ہے
    اور اس “کچھ اور بھی” کا تذکرہ بھی جرم ہے
    زندگی کے نام پر بس ایک عنایت چاہیئے
    مجھے ان جرائم کی اجازت چاہیئے
    مجھے ان سارے جرائم کی اجازت چاہیئے
     
    پاکستانی55 اور عاطف حسین .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    وہ جو عشق پیشہ تھے
    دل فروش تھے
    مر گئے!
    وہ ہوا کے ساتھ چلے تھے
    اور ہوا کے ساتھ بکھر گئے
    وہ عجیب لوگ تھے
    برگِ سبز کو برگِ زرد کا روپ دھارتے دیکھ کر
    رخِ زرد اشکوں سے ڈھانپ کر
    بھرے گلشنوں سے
    مثالِ سایۂ ابر
    پل میں گزر گئے
    وہ قلندرانہ وقار تن پہ لپیٹ کر
    گھنے جنگلوں میں گھری ہوئی کھلی وادیوں کی بسیط دھند میں
    رفتہ رفتہ اتر گئے!
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    ریستوراں کے فرش پہ لرزاں ساۓ رقاصاؤں کے
    ذھن میں جیسے گڈ مڈ ہو کر ناچیں راز خداؤں کے
    چھنن چھنن چھن ! اے رقاصہ ! فن پہ یہ آوازے کیوں؟
    جس کی لؤ سے پھول لجائیں، اس چہرے پہ غازے کیوں
    یوں تک جیسے چاند کی کرنیں ، یوں سن جیسے ربّ قدیر
    وقت کے اس لمحے کا تاثرّ عالم گیر ہے عالم گیر
    (2)
    راوی کی لہروں پہ رواں ہیں قاشیں چاند ستاروں کی
    کس منزل کو لپکی یہ نورانی فوج سواروں کی
    چپ شپ !۔ جھکتے تنتے مانجھی! تجھ کو سبک ڈانڈوں کی قسم
    دھیرے دھیرے ہو لے ہولے، کاٹ یہ ابرو کا سا خم
    یوں مڑ جیسے پھول کی پتی، یوں چل جیسے سر گوشی
    وقت کے اس لمحے کا تقاضا مدہوشی ہے مد ہوشی
    (3)
    کھیتوں کی ہر یاول پر یہ دھبے ہیں دہقانوں کے
    یا گیتی نے اگلے بو سیدہ تابوت انسانوں کے
    سر سر ! دھپ دھپ! اے محنت کش!چھوڑ درانتی توڑ کدال
    چاک ہوئ دھرتی کی چھاتی مجھ کو اس محشر سے نکال
    چار طرف سے گھیر چکے ہیں جلتی سانسوں کے پیچاک
    وقت کے اس لمحے کی حقیقت، آتش ناک ہے آتش ناک
    (4)
    یہ کس راجہ کا ایواں ہے ملبے کے انباروں میں
    جیسے بلوائ کی بیٹھک، لٹے لٹے بازاروں میں
    الٹی سانسیں اٹکی آہیں ، اے راہی یہ راز ہیں کیا
    پچکے پیٹ دریدہ رانیں، زیست کے یہ انداز ہیں کیا
    راجہ اٹھا ڈال کے اپنی بقچی میں فردا کا نظام
    وقت کے اس لمحے کا ارادہ خون آشام ہے خون آشام!
    (5)
    معصوم انساں کے لاشے پہ فتح کے پرچم لہراۓ
    استبداد کی بیخ کنی میں کتنے انساں کام آۓ
    ہاریں استبدادی قومیں، لیکن کس کی جیت ہوئ
    یورپ کی بے رحم سیاست، پورب کی کب میت ہوئ
    تمغوں کی تقسیم ہوئ ہے یورپ کے بلوانوں میں
    “مال غنیمت” سجتا ہے یورپ کے تمدن خانوں میں
    (6)
    نو میدی کی دھند میں غلطاں جگنو احساسات کے ہیں
    اوّس کے پرّاں قطرے ہیں یا تارے پچھلی رات کے ہیں
    جگنو اڑتے شعلے بن کر دھرتی سے ٹکراتے ہیں
    جھلمل جھلمل، ڈگمگ ڈگمگ، ہچکولے سے آتے ہیں
    موت سے بھڑ جانے کے ارادے اور جینے کی تیاری
    وقت کے اس لمحے کا بلاوا بیداری ہے بیداری
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    بولنے سے مجھے کیوں روکتے ہو؟
    بولنے دو، کہ میرا بولنا دراصل گواہی ہے مرے ہونے کی
    تم نہیں بولنے دو گے تو میں سناٹے کی بولی ہی میں بول اٹھوں گا
    میں تو بولوں گا
    نہ بولوں گا تو مر جاؤں گا
    بولنا ہی تو شرف ہے میرا
    کبھی اس نکتے پہ بھی غور کیا ہے تم نے
    کہ فرشتے بھی نہیں بولتے
    میں بولتا ہوں
    حق سے گفتار کی نعمت فقط انساں کو ملی
    صرف وہ بولتا ہے
    صرف میں بولتا ہوں
    بولنے مجھ کو نہ دو گے تو مرے جسم کا ایک ایک مسام بول اٹھے گا
    کہ جب بولنا منصب ہی فقط میرا ہے
    میں نہ بولوں گا تو کوئی بھی نہیں بولے گا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    مرے آقا کو گلہ ہے کہ مری حق گوئی
    راز کیوں کھولتی ہے
    اور میں پوچھتا ہوں، تیری سیاست فن میں
    زہر کیوں گھولتی ہے
    میں وہ موتی نہ بنوں گا جسے ساحل کی ہوا
    رات دن رولتی ہے
    یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
    اپنے پر تولتی ہے
    اِک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
    بوند بھی بولتی ہے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    عجب خال و خد تھے!
    ستارہ سی آنکھیں
    شرارہ سے لب
    اور صحیفہ سا چہرہ!
    بدن۔۔۔۔اک چمن
    چال۔۔۔۔بادِ صبا
    بات۔۔۔۔خوشبو
    محبت۔۔۔۔بہت گہری آسودگی فصلِ گل کی!
    مگر آج وہ خال و خد دیکھ کر سوچتا ہوں
    کہ میری بصارت کو پت جھڑ کی تنہائی نے کھا لیا ہے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    اسے میں نے دیکھا
    تو سوچا
    کہ اب چاند نے
    اپنے سورج سے
    لَو مانگنا چھوڑ دی ہے!
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    چاندنی نے رنگِ شب جب زرد کر ڈالا۔۔۔۔تومیں
    ایک ایسے شہر سے گزرا۔۔۔۔جہاں
    صرف دیواریں نمایاں تھیں
    چھتیں معدوم تھیں
    اور گلیوں میں فقط سائے رواں تھے
    جسم غائب تھے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    شام کو صبحِ چمن یاد آئی
    کس کی خوشبوئے بدن یاد آئی
    جب خیالوں میں کوئی موڑ آیا
    تیرے گیسو کی شکن یاد آئی
    یاد آئے ترے پیکر کے خطوط
    اپنی کوتاہیِ فن یاد آئی
    چاند جب دور اُفق پر ڈوبا
    تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی
    دن شعاعوں سے الجھتے گزرا
    رات آئی تو کرن یاد آئی
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    مجھے بھی مثردۂ کیفیت دوامی دے
    مرے خدا! مجھے اعزازِ نا تمامی دے
    میں تیرے چشمۂ رحمت سے شاد کام تو ہوں
    کبھی کبھی مجھے احساسِ تشنہ کامی دے
    مجھے کسی بھی معزز کا ہمرکاب نہ کر
    میں خود کماؤں جسے، بس وہ نیک نامی دے
    وہ لوگ جو کئی صدیوں سے ہیں نشیب نشیں
    بلند ہوں، تو مجھے بھی بلند بامی دے
    تری زمین یہ تیرے چمن رہیں آباد
    جو دشتِ دل ہے، اسے بھی تو لالہ فامی دے
    بڑا سرور سہی تجھ سے ہمکلامی میں
    بس ایک بار مگر ذوقِ خود کلامی دے
    میں دوستوں کی طرح خاک اڑا نہیں سکتا
    میں گردِ راہ سہی، مجھ کو نرم گامی دے
    اگر گروں تو کچھ اس طرح سربلند گروں
    کہ مارکر، مرا دشمن مجھے سلامی دے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    راتوں کی بسیط خامشی میں
    جب چاند کو نیند آ رہی ہو
    پھولوں سے لدی خمیدہ ڈالی
    لوری کی فضا بنا رہی ہو
    جب جھیل کے آئنے میں گھل کر
    تاروں کا خرام کھو گیا ہو
    ہر پیڑ بنا ہوا ہو تصویر
    ہر پھول سوال ہو گیا ہو
    جب خاک سے رفعتِ نما تک
    ابھری ہوئی وقت کی شکن ہو
    جب میرے خیال سے خدا تک
    صدیوں کا سکوت خیمہ زن ہو
    اس وقت مرے سلگتے دل پر
    شبنم سی اتارتا ہے کوئی
    یزداں کے حریم بے نشاں سے
    انساں کو پکارتا ہے کوئ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    رات کا پُر وقار سنّاٹا
    گونجتی ہے صدائے پائے نجوم
    اصل میں گونج ہے سکوت کا گیت
    اور پھر کس قدر لطیف و بسیط
    گونج ہی گونج کبریا کی ذات
    گونج ہی گونج ماورائے حیات
    یہ حقیقت مگر کسے معلوم!
    زندگی گونج کے سوا کیا ہے
    ایک انسان، دوسرے کا نقیب
    پھول کی گونج پھول کی مہکار
    اور یہی ہے اثاثۂٔ گلزار
    ایک اک پھول گلستاں کا غرور
    ایک اک آدمی جہاں کا غرور
    کاش سب کو مری نظر ہو نصیب!
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    بہت خوب جناب ۔۔۔۔اعلیٰ
    جاری رکھیں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    ابھی وقت کے ہاتھ میں
    ایک شاخِ شکستہ تو ہے
    اس کے سائے میں چلنا
    بڑا لطف دے گا
    کہ جو سورجوں کی تمازت میں جلتے رہے
    یہ نہیں دیکھتے
    ان پہ جس شاخ کی چھاؤں ہے
    اس میں پتوں کی تعداد کیا ہے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    چلو کچھ اور سوچیں
    ہم نے اب تک جو بھی سوچا ہے
    وہ صدیوں کی پرانی سوچ ہے
    اب عہدِ جوہر ہے
    یہ وہ لمحہ ہے
    جس کے شہپروں پر بیٹھ کر
    ہم کو زمیں سے اپنا ناتا توڑنا اور آسماں سے جوڑ لینا ہے
    چلو کچھ اور سوچیں
    اب یہ دنیا
    اور انساں
    اور اس کے دُکھ
    پرانے، کرم خوردہ، بھربھرے، بد رنگ، بے لذت فسانے ہیں
    چلو کچھ اور سوچیں
    اور محبت کی بساطیں تہہ کریں
    اور حسن کی قدریں بدل ڈالیں
    چمکتی دھوپ پر
    اور چاندنی راتوں پہ لعنت بھیج کر
    پھولوں پہ تھوکیں
    ندیوں کو پتھروں سے پاٹ دیں
    رشتوں کو کاٹیں
    رابطوں کو روند ڈالیں
    سولیاں گاڑیں
    چلو کچھ اور سوچیں
    لفظ سے مفہوم کی دولت اچک لیں
    اور اسے پتھر بنا ڈالیں
    زبانیں نوکِ خنجر کی طرح سینوں میں گاڑیں
    نغمگی کو چیخ میں بدلیں
    سمندر خشکیوں پر کھینچ لائیں
    وادیوں میں دلدلیں بھر دیں
    چلو کچھ اور سوچیں
    اب یہی سوچیں
    کہ جو کچھ آدمی نے آج تک سوچا ہے
    وہ سب کفر ہے
    اور حق فقط یہ ہے
    کہ جو کچھ ہے
    نہیں ہے
    کچھ نہیں ہے
    واہمہ ہے
    خواب ہے
    اور خواب سوچوں کی قدامت کا نتیجہ ہیں!
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
    اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

    تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب لوٹتی ہیں
    نور ہو جاتا ہے کچھ اور ہویدا تیرا

    کچھ نہیں سوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
    چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا

    پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم
    مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

    دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
    میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا

    لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
    میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

    تو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تو ہے
    مجھ کو تو یاد ہے بس اتنا سراپا تیرا

    میں تجھے عالمِ اشیاء میں بھی پا لیتا ہوں
    لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا

    میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سو دیکھیں
    صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارا تیرا

    وہ اندھیروں سے بھی درّانہ گزر جاتے ہیں
    جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا

    ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
    ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا

    شرق اور غرب میں نکھرے ہوئے گلزاروں کو
    نکہتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا

    اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ہے تجھ سے
    رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

    تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
    اب جو تا حشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا

    ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
    راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں
    چاند بلّور کی ٹوٹی ہوئی چوڑی کی طرح اٹکا ہے
    دامنِ کوہ کی اک بستی میں
    ٹمٹماتے ہیں مزاروں پہ چراغ
    آسماں سرمئی فرغل میں ستارے ٹانکے
    سمٹا جاتا ہے، جھکا آتا ہے
    وقت بیزار نظر آتا ہے!
    سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں
    صبح کی نقرئی تنویر رچی جاتی ہے
    دامنِ کوہ میں بکھرے ہوئے کھیت
    لہلہاتے ہیں تو دھرتی کے تنفّس کی صدا آتی ہے
    آسماں کتنی بلندی پہ ہے اور کتنا عظیم
    نئے سورج کی شعاعوں کا مصفّا آنگن
    وقت بیدار نظر آتا ہے!
    سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں
    آفتاب ایک الاؤ کی طرح روشن ہے
    دامنِ کوہ میں چلتے ہوئے ہل
    سینۂ دہر پہ انسان کے جبروت کی تاریخ رقم کرتے ہیں
    آسماں تیز شعاعوں سے ہے اس درجہ گداز
    جیسے چھونے سے پگھل جائے گا
    وقت تیار نظر آتا ہے!
    سربرآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں
    زندگی کتنے حقائق کو جنم دیتی ہے
    دامنِ کوہ میں پھیلے ہوئے میدانوں پر
    ذوقِ تخلیق نے اعجاز دکھائے ہیں لہو اُگلا ہے
    آسماں گردشِ ایّام کے ریلے سے ہراساں تو نہیں
    خیر مقدم کے بھی انداز ہوا کرتے ہیں
    وقت کی راہ میں موڑ آتے ہیں، منزل تو نہیں آ سکتی!
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    لیلِ صبح طَرب ہی سہی یہ سناٹا
    مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
    پسِ نقاب ہی پنہاں سہی عروسِ سحر
    مگر یہ پردۂ ظلمات ہٹ چکے تو کہوں
    یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
    اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
    مجھے تو نیند نہیں آئے گی کہ میرا شعور
    شبِ سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا
    اگر نشانِ سفر تک کہیں نہیں، نہ سہی
    میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا
    شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیم
    سحر ملے نہ ملے رات سے نہ ہاروں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    اب آگے غزلیں شروع ہو رہی ہیں.
     
  22. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    آپ ہی اپنا تماشائی ہوں
    میں مبصر ہوں کہ سودائی ہوں

    نہ کوئی چاند، نہ تارا، نہ امید
    میں مجسم شبِ تنہائی ہوں

    ہے سفر شرط مجھے پانے کی
    میں کہ اک لالۂ صحرائی ہوں

    سیدھے رستے پہ چلوں تو کیسے
    بھولی بھٹکی ہوئی دانائی ہوں

    مجھ سے خود کو نہ سمیٹا جائے
    اور خدائی کا تمنائی ہوں

    میرے ماضی کے اندھیروں پہ نہ جا
    صبحِ آئندہ کی رعنائی ہوں

    کاش یہ جانتا دشمن میرا
    میں ہر انسان کا شیدائی ہوں

    میں پہاڑوں کی خموشی ہوں ندیم
    اور میں بحر کی گویائی ہوں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا
    حسن بر حق ہے ، مگر جب بجھ چکا ہو جی تو کیا

    جب ترا کہنا ہے ، تو تقدیر کا محکوم ہے
    تُو نے نفرت کی تو کیا، تُو نے محبت کی تو کیا

    اب کہاں سے لاؤں وہ آنکھیں جو لذت یاب ہوں
    دستِ باراں نے مرے در پر جو دتک دی تو کیا

    دھوپ کرنوں میں پرو لے جائے گی ساری نمی
    رات بھر پھولوں نے دستِ شب سے شبنم پی تو کیا

    اب تو سیلابوں سے جل تھل ہو گئیں آبادیاں
    اب مرے کھیتوں کی لاشوں پر گھٹا برسی تو کیا

    چور جس گھر میں پلیں، اُس گھر کو کیسے بخش دیں
    لُوٹنے آئے ہیں ہم لوگوں کو اپنے ہی تو کیا

    ہم نہیں ہوں گے تو پھر کس کام کی تحسینِ شعر
    روشنی اک روز ان لفظوں سے پُھوٹے گی تو کیا

    دُور کی آہٹ تو آ پہنچی ہے اب سر پر ندیم
    آگہی نے مدتوں کے بعد کروٹ لی تو کیا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
    کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی

    اپنی پوشاک سے ہشیار! کہ خدام قدیم
    دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی

    صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں ، مگر اس کے ساتھ
    سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی

    دل میں وہ زخم کھلے ہیں چمن کیا شے ہے
    گھر میں بارات سی اتری ہے گلدانوں کی

    ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا ، یا ڈوبا
    بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی

    تیری رحمت تو مسلّم ہے مگر یہ تو بتا
    کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی

    مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
    کِس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی

    ایک اِک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت
    کعبۂ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی
     
    پاکستانی55 اور عاطف حسین .نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    ابھی نہیں اگر اندازۂ سپاس ہمیں
    تو کیوں ملی تھی بھلا تابِ التماس ہمیں

    افق افق پہ نقوشِ قدم نمایاں ہیں
    تلاش لائی کہاں سے تمھارے پاس ہمیں

    کبھی قریب سے گزرے، بدن چرائے ہوئے
    تو دور تک نظر آتے رہے اداس ہمیں

    جو ہو سکے تو اس ایثار پر نگاہ کرو
    ہماری آس جہاں کو، تمھاری آس ہمیں

    ڈبو چکا ہے امنگوں کو جس کا سناٹا
    بلا رہا ہے اسی بزم سے قیاس ہمیں

    یہ پوچھنا ہے، کب آدم زمیں پہ اترے گا
    جو لے چلے کوئی کامل، خدا کے پاس ہمیں

    یہیں ملیں گے تمھیں پھول بھی، ستارے بھی
    بتا رہی ہے دلآویزیِ لباس ہمیں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    اپنے ماحول سے بھی قیس کے رشتے کیا کیا
    دشت میں آج بھی اُٹھتے ہیں بگولے کیا کیا

    عشق معیار وفا کو نہیں کرتا نیلام
    ورنہ ادراک نے دکھلائے تھے رستے کیا کیا

    جیسے ہم آدم و حوا کی سزا بھول گئے
    ورغلاتے رہے جنت کے نظارے کیا کیا

    یہ الگ بات کہ بر سے نہیں گرجے تو بہت
    ورنہ بادل مرے صحراؤں پہ اُمڈے کیا کیا

    آگ بھڑکی تو درو بام ہوئے راکھ کے ڈھیر
    اور دیتے رہے احباب دلاسے کیا کیا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
    وہ جو اسکی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا

    مرا درد کیسے وہ جانتا مری بات کیسے وہ مانتا
    وہ تو خود فنا ہی کے ساتھ تھا اسے روکنا بھی محال تھا

    وہ جو اسکے سامنے آگیا کسی روشنی میں نہا گیا
    عجب اسکی ہیبتِ حسن تھی عجب اسکا رنگِ جمال تھا

    دمِ واپسیں اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
    وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ جو اپنی آپ مثال تھا

    وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا
    اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا

    میرے ساتھ لگ کے وہ رودیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا
    جسے جانتا تھا میں زندگی وہ تو صرف وہم و خیال ت
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: احمد ندیم قاسمی کی شاعری

    انجمنیں اجڑ گئیں، اٹھ گئے اہلِ انجمن
    چند چراغ رہ گئے، جن کی لویں ہیں سینہ زن

    اب ترا التفات ہے، حادثۂ جمال و فن
    اندھے عقاب کی اڑان، زخمی ہرن کا بانکپن

    ہائے یہ مختصر حیات، ہائے یہ اک طویل رات
    اے مرے ’’دوست‘‘ اک نظر اے مرے چاند، اک کرن

    حسن اگر جھکا رہا، بر درِ خسروانِ دہر
    کٹتے رہیں گے کوہسار، مرتے رہیں گے کوہکن

    اترے ہیں برگہائے زرد لالہ و گل کے روپ میں
    ایسے نحیف جسم پر، اتنا مہین پیرہن
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. عاطف حسین
    آف لائن

    عاطف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    190
    موصول پسندیدگیاں:
    20
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ہی عمدہ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں