1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ملی شعور کی بیداری ہمارا اولین فریضہ

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از گھنٹہ گھر, ‏27 اگست 2006۔

  1. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملی شعور کی بیداری ہمارا اولین فر

    Date: Saturday, August 26, 2006 ادارتی صفحہ


    ملی شعور کی بیداری ہمارا اولین فریضہ



    اس وقت دنیا میں انسانوں کے مابین حد فاصل قائم کرنے کے لئے مغرب کے نظریہ وطنی قومیت پر عمل ہورہا ہے یعنی قوم وطن سے بنتی ہے۔ ”اس کے علاوہ قوم کے اندر مزید قومیتوں کے تشخص کے خیالات بھی فروغ پارہے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہماری اجتماعی شناخت کی بنیاد ہمارا ایمانی شعور ہے۔ اسی ایمانی شعور نے برطانوی ہند کے مسلمانوں کو وہ اجتماعی یکجہتی عطا کی جس کے نتیجے میں ہم جہت شدید مخالفتوں کے باوجود پاکستان نام کی مملکت عالم وجود میں آئی۔ بحیثیت مسلمان ہماری پوری تاریخ میں پاکستان وہ واحد مملکت ہے جس کی جغرافیائی اسلام کے نام پر قائم کی گئی ہیں اور اس اعلان کے ساتھ قائم کی گئی ہیں کہ عصری تقاضوں کے پیش نظر ”پاکستان کو اطلاقی اسلام کی تجربہ گاہ بنایا جائے گا۔“
    جہاں تک غیرمسلموں کا تعلق ہے ان کے لئے تو ہمارے ملّی وجود کے نظریئے کو سمجھنا دشوار ہے۔ وہ سب مذہب کو انسان کا شخصی یا ذاتی مسئلہ قرار دیتے ہیں جس کا ہمہ جہت معاشرتی معاملات اور مسائل سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی اجتماعی کے معاملات سے ان کے مذاہب کا واقعی کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا اگر غیرمسلم ہمارے جداگانہ ملّی تصور کو موضوع گفتگو بنائیں یا اسے تسلیم نہ کریں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تعجب اور اس کے ساتھ افسوس اسی وقت ہوتا ہے جب مسلمان اس سے اختلاف ہی نہیں عملاً انحراف بھی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ عموماً اسلام کے پورے نظریہٴ زندگی سے جزوی واقفیت یا عدم واقفیت ہوتی ہے یا پھر شخصی، گروہی یا طبقاتی محدود اور عاجلانہ مفادات کی خاطر ایسا کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے اسلامی ملی شعور کی بیداری کی بنیاد پر حصول پاکستان کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے تاریخ ساز قربانیاں دیں۔ وہ شعور دنیا کے دوسرے مسلمان ملکوں میں عام طور پر نظر نہیں آتا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی ہم خود ”پاکستانی قومیت“ کے تعین اور تحفظ کے دائرے میں گھر کر رہ گئے۔ حصول پاکستان کی جدوجہد جس ایمانی شعور کی بنیاد پر ہوئی تھی اس شعور کی بازیافت کے لئے یہ سوال پھر نایاب ہورہا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان صرف مسلمان ہونے کی بنا پر ایک الگ، جداگانہ ملت ہیں یا نہیں؟ بحیثیت مسلمان ہم صرف اس لئے اپنا ملّی تشخص نہیں رکھتے کہ ہم نے پاکستان بنالیا ہے بلکہ یہ ملک قائم ہی اس لئے ہوا کہ برصغیر کے مسلمانوں میں اپنے ایمانی شعور کی بنا پر اپنا ملّی تشخص بیدار ہوگیا تھا۔ ہم صرف اس لئے جداگانہ قوم نہیں کہ سرسید یا اقبال نے مسلمانوں کو ایک الگ قوم کہا ہے بلکہ یہ بزرگ ہمارے لئے اس بنا پر محترم ہیں کہ انہوں نے ایک ابدی حیثیت کو اس دور کے تقاضوں کے تحت اس طرح پیش کیا کہ اس سے ہمارے اندر اپنے ملّی تشخص کا شعور بیدار ہوا۔
    مسلمانوں کے ملّی تشخص اظہار گزشتہ صدی میں ہوا لیکن اس ملّی تشخص تو ارشادات قرآنی اور ہمارے ہادیٴ برحق کی تعلیمات اور انداز قیادت سے چودہ سو برس پہلے ہی ہوگیا تھا۔ انسانی زندگی میں ایمانی رشتے کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ قرآن پاک میں سورئہ ہود کی ایک آیت مبارکہ سے ہوسکتا ہے۔
    حضرت نوح نے جب دیکھا کہ ان کا بیٹا اس طوفان میں ڈوب رہا ہے تو اللہ کے حضور انہوں نے عرض کیا۔”نوح نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بہتر حاکم ہے۔ جواب میں ارشاد ہوا اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، اس کے اعمال صالح نہیں ہیں لہٰذا تو اس بات کی درخواست مجھ سے نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں میں شامل نہ کر۔“
    سورئہ التوبہ میں ارشاد ہوا ہے:”اے ایمان والو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔“ دوسرا پہلو سورئہ الحجرات میں بیان ہوا ہے ”مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست رکھو اور اللہ سے ڈرو۔ امید ہے تم پر رحم کیا جائے گا۔“
    خطبہ حجتہ الوداع میں ہمارے ہادیٴ برحق نے ارشاد فرمایا ہے:”لوگو! میری بات سنو اور سمجھو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ دیکھو میرے بعد کہیں گمراہ نہ ہوجانا کہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ اے اہل قریش! اللہ نے تمہاری جھوٹی نخوت کو خاک میں ملادیا ہے اور باپ دادا کے کارناموں پر فخر کی کوئی گنجائش تمہارے لئے نہیں ہے۔“
    عملی اعتبار سے بحیثیت مسلمان ہمارے ملّی وجود کا عملی تعین حق و باطل کے درمیان پہلے مصر کے یعنی میدان بدر میں ہوا۔ باپ، بیٹے، بھائی بہن، چچا بھتیجے، شوہر بیوی، یہ سار ے خونی اور جسمانی رشتے ٹوٹ گئے اور صرف ایک رشتہ، ایمانی رشتہ نمایاں ہوگیا۔
    غزوہ بدر میں ایک اہم واقعہ حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے بیٹے کا ہے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اہل قریش کی جانب سے مسلمانوں کے حریف لشکر میں شامل تھے۔ بعد میں وہ جب ایمان لے آئے تو کسی موقع پر گفتگو کے دوران انہوں نے حضرت ابوبکرسے یہ بات کہی کہ بابا جان میدان بدر میں ایک موقع ایسا آیا تھا جبکہ آپ میرے تیر کی زد پر تھے۔ میں نے کمان کھینچی لیکن پھر میرا ہاتھ لرز گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ بیٹے تیرا ہاتھ تو لرز گیا ہوگا لیکن اگر تو میرے تیر کی زد پر آتا تو میرے ہاتھ میں کوئی لرزش پیدا نہ ہوتی۔
    ارشادات قرآنی، احکامات نبوی اور تاریخی حقائق کے اس پس منظر میں اسلام کے ملّی تصور کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے۔ اقبال نے اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ نرالہ سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے دور حاضر کی تہذیب نے جو نئے بت تراشے ہیں، وطن کی حیثیت اس میں سب سے ”بڑے خدا“ کی سی ہوگئی ہے۔ یہ تصویر ”دھرتی ماتا“ ”مادروطن“ یا ”مدرلینڈ“ جیسی اصطلاحات کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ وطن سے محبت ایک الگ بات اور وطن کی پرستش ایک جداگانہ مسلک ہے۔ اسلام پر ایمان کے اعلان کےبعد ہم وطن سے محبت برقرار رکھ سکتے ہیں لیکن اس کی پرستش نہیں کرسکتے۔ اسلام نے دنیا کو انسانی سطح پر وحدت کا ایک لازوال تصور دیا ہے اور انسانوں کے درمیان حدفاصل صرف ایمان، عقیدے اور نظریہ زندگی کو بنایا ہے۔ اسلام کی رو سے رنگ، نسل اور شعوب و قبائل کا فرق اور جغرافیائی سرحدوں کی تمیز صرف باہمی تعارف کے لئے، ایک کی پہچان کے لئے ہے اور انسانوں کے درمیان عزت اور تکریم کا معیار صرف اور صرف تقویٰ یعنی اعلیٰ ایمانی کردار ہے۔ خون کا رشتہ حیوانی سطح کا رشتہ ہے اور ایمانی یا نظریاتی رشتہ، انسانی سطح کا رشتہ ہے۔ دنیا کو جمہوریت پسندوں کے درمیان ایک فکری رشتہ ہے، اشتراکیت کے حامی ایک دوسرے سے قربت محسوس کرسکتے ہیں تو یہ بات مزید تصدیق کرتی ہے کہ انسانوں کے مابین ایمانی رشتہ سب سے محکم، سب سے مضبوط ہے۔مغرب کے تصور قومیت نے جس کی بنیاد وطنیت پر ہے، عالم انسانیت کو جس بڑے عذاب میں مبتلا کردیا ہے اور اس کے مقابلے میں اسلام کے تصور اخوت کو جو فوقیت حاصل ہے، اس کا اعتراف ایک بہت بڑے مغربی مفکر آرنلڈ نوائن بی نے اپنی کتاب "The World and the West" میں اس طرح کیا ہے۔”یورپ میں بعض ایسے تصورات ہیں جن کا انسانوں کے لئے کارآمد ہونا بے حد مشکوک ہے ان میں سے ایک ہماری نیشنلزم (Nationalisam) ہے۔ ترک اور بعض دوسرے اسلامی ممالک اس تصور سے بھی اسی طرح متاثر ہوتے چلے جارہے ہیں جس طرح مغرب کے دوسرے تصورات سے۔ ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ جن مسلمانوں کا دینی عقیدہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان بلالحاظ اختلاف نسل و رنگ اور زبان اور عادات، محض مسلمان ہونے کی بنیاد پر بھائی بھائی ہیں، ان میں بھی نیشنلزم جیسا تنگی نظر کا عقیدہ رائج ہوگیا تو دنیا کا حشر کیا ہوگا؟
    مسلمانوں کا اخوت باہمی کا عقیدہ یقینا مغرب کی تنگ قومیت پرستی کے عقیدے سے کہیں بہتر ہے اوریہی عقیدہ موجودہ زمانے کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے۔ ایک عالمگیر برادری کا تصور ویسے تو انسانی فلاح کے لئے ہمیشہ ضروری رہا ہے لیکن اس ایٹمی دور میں اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔“ یہ مغرب کے خوش فکر مفکرین کا اندازہ فکر ہے۔ یہ صدیوں کی تاریخ کے المیات کا شعوری حاصل ہے۔ اللہ کی ہدایات کی روشنی میں ہمارے ہادیٴ برحق نے ایک مکمل اسلامی معاشرے کی مثالی تشکیل فرمادی تھی اللہ کی ہدایت انسان کی کوششوں میں کفایت کردیتی ہے اور انسانیت سوز عذابوں کے تجربات سے انسان کو محفوظ کردیتی ہے۔ اللہ کی ہدایت انسان کو ”صراط مستقیم“ پر لے آتی ہے اور ”صراط مستقیم“ منزل مقصد کو دوسرے پیچیدہ راستوں کے مقابلے میں قریب تر کردیتی ہے۔ انسانی تجربات کی راہ دھندلی ہوتی ہے، تاریک ہوتی ہے، اللہ کی ہدایت انسان کے لئے زندگی کی راہوں کو روشن کردیتی ہے۔
    عصر حاضر میں ایمانی تقاضوں کو توانائی میں پاکستان کا قیام اس روشن ایمانی توانائی کی بہت واضح مثال ہے۔ پھر اس کے بعد کیا ہوا اور کیوں ہوا یہ سوالات ہمارے ایمانی دعوؤں کے حوالے سے ہماری فکر اور عمل دونوں کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ اسلام پر ایمانی روایات کا معاملہ نہیں، یہ ترکے یا ورثے میں ملنے والی دولت بھی نہیں، ایمان کا معاملہ مسلمان کی مسلسل شعوری ذمہ داریوں کی ادائیگی کا معاملہ ہے۔ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی ہمیں حقیقی کامیابیوں کی راہوں کا سفر آسان بنائے گی، اس میں کسی بھی نوعیت کی آمیزش اور انتشار ہماری دشواریوں اور ہماری رسوائیوں میں اضافہ کرتا جائے گا۔
     
  2. راجا نعیم
    آف لائن

    راجا نعیم ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    96
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت اہم خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ، بہت خوب!
     
  3. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    ماشاء اللہ
    اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق بھی دے۔
     
  4. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں