1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فرقہ واریت کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏4 ستمبر 2006۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    فرقہ واریت کا خاتمہ کیونکر ممکن ہ

    فرقہ واریت کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟

    اسلام دینِ اعتدال ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام کا لغوی مفہوم ہی سلامتی، امن، سکون اور تسلیم و رضا ہے۔ امن و سکون مہذب انسانی معاشرے کی اعلیٰ خصوصیت ہے جہاں توازن و اعتدال نہیں وہاں ظلم و تشدد ہے اور ظلم درندگی کی علامت ہے انسانیت کی نہیں۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دینِ اعتدال کی حیثیت سے اسلام زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف اور میانہ روی کا داعی ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی جہاں بھی اور جس بھی معاملے میں ہو گی اس کا انجام انتہائی خطرناک، مہلک اور عبرتناک ہو گا۔ اس لئے دینِ فطرت ہمیں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے جملہ معاملات میں توازن و اعتدال برقرار رکھنے کا سختی سے حکم دیتا ہے۔ وہ نظامِ سیاست و معیشت ہو یا جہاں فکرو نظر، میدانِ جہاد ہو یا تبلیغ و اقامتِ دین، حقوق العباد کی ادائیگی ہو یا حقوق اﷲ کی بجا آوری سماجی اقدار کا معاملہ ہو یا مذہبی اعتقادات کا الغرض جس جس گوشے کو جس جس زاویے سے بھی دیکھا جائے اس میں حسنِ توازن جھلکتا نظر آئے گا۔

    اس وقت امتِ مسلمہ کی تباہی اور بے سروسامانی کی وجہ اگرچہ ہر شعبہ حیات میں عدمِ توازن اور بے اعتدالی ہے لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہر جماعت، طبقہ اور قیادت اپنے علاوہ ہر ایک کو صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے سوچ و فکر کی اس شدت اور انتہاپسندی نے ہمیں ان راہوں پر گامزن کر دیا ہے جو آگ اور خون کی وادیوں میں جا اترتی ہیں۔ اس کی طرف اقبال رحمۃ اللہ علیہ یوں اشارہ کرتے ہیں:

    کھویا گیا جو مطلب ہفتاد و دو ملت میں
    سمجھے گا نہ تو جب تک بے رنگ نہ ہو ادراک​

    اگر ہم طبیعت، مزاج اور زاویہ نگاہ میں اعتدال اور میانہ روی لائیں اور ایک دوسرے کی بات کو خندہ پیشانی اور تحمل سے سننے اور برداشت کرنے کی خو پیدا کر لیں تو تضاد اور مخاصمت کی فضا کی جگہ باہمی موافقت و یگانگت اور محبت و مروت ہماری زندگیوں میں آجائے گی نفرت کی وہ دیوار ہمارے درمیان سے ہٹ جائے گی جو ملی اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر مذہبی رواداری اور تحمل و بردباری ہمارا شیوہ بن جائے تو بہت سے مسلکی فروعی اختلافات ختم یا کافی حد تک کم ہو سکتے ہیں ان اقدامات سے امتِ مسلمہ کے اندر تباہ کن انتشار و افتراق کا یقینی خاتمہ ہو جائے گا اور امت مسلمہ کو فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا دیکھنے والی طاقتوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔

    جسدِ ملت میں فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کا زہر اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ نہ صرف اس کے خطرناک اثرات کا احساس و ادراک ہر شخص کے لئے ضروری ہے بلکہ اس کے تدارک اور ازالے کے لئے مؤثر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے ہمارے گردو پیش میں تیزی سے جو حالات رونما ہو رہے ہیں ان کی نزاکت اور سنگینی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم نوشتہء دیوار کو پڑھیں اور اپنے درمیان سے نفرت، بغض، نفاق اور انتشار و افتراق کا قلع قمع کرکے باہمی محبت و مودت، اخوت و یگانگت، یکجہتی اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ اسی میں ہماری فلاح و بقا اور نجات مضمر ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔

    فرقہ واریت کے نقصانات

    وہ مسلمان جو کبھی جسد واحد کی مانند تھے فرقہ واریت کی لہر نے انہیں گروہوں اور طبقات میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ اسی امر کی طرف اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یوں اشارہ کیا ہے:

    فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں​
    اسی فرقہ واریت کے باعث ہم عروج کی بجائے زوال کی طرف گامزن ہیں وہ مساجد و امام بارگاہیں جو امن و آشتی کا مرکز تھیں آج لوگ قتل و غارت گری کے خوف سے ان میں داخل ہونے سے کتراتے ہیں وہ مسلمان جو بھائی بھائی تھے آج فرقوں اور گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔

    دورِ جدید کے چیلنجز

    عصر حاضر میں باعزت مقام اور اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرنے کے لئے امت مسلمہ کو متعدد چیلنجز درپیش ہیں آج ہمیں عقیدے اور مسلک کے نام پر پروان چڑھنے والے فتنوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف ہماری باہمی چپقلشوں کے باعث اسلام دشمن قوتیں اپنی بھرپور یلغار کے ذریعے چراغ مصطفوی کو بجھانے کے لئے سرگرداں ہیں۔ مسلمانوں کے متحد نہ ہونے کے باعث اسلام پر آئے روز حملے ہو رہے ہیں اسلام کو دنیا کے سامنے دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید میں تحریف کی ناپاک جسارتیں ہو رہی ہیں اگر ہم نے عصر حاضر کے ان چیلنجز کو نہ سمجھا اور ان کے مقابلے کے لئے منصوبہ بندی نہ کی تو ہمارا وجود صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دیا جائے گا کیونکہ یہ قانون فطرت ہے کہ

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا​
    1۔ اتحاد و اخوت کے فروغ اور فرقہ پرستی کے خاتمہ کا ممکنہ لائحہ عمل

    2۔ اتحاد و اخوت کے فروغ اور فرقہ پرستی کے خاتمہ کے لئے درج ذیل اصول و ضوابط پر مشتمل ایک ہمہ گیر لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے۔

    3۔ عقائد و اعمال کے مشترک پہلو تلاش کرکے باہمی اخوت و اتحاد کو فروغ دیا جائے اور تمام تر اختلافات کا خاتمہ کیا جائے۔

    4۔ متنازعہ اور تنقیدی کی بجائے مثبت اور غیر تنقیدی اسلوبِ تبلیغ اختیار کیا جائے۔
    حقیقی رواداری کا عملی مظاہرہ کیا جائے اور عدمِ اکراہ کے قرآنی فلسفے کو اپنی زندگیوں میں لاگو کیا جائے۔

    5۔ دینی تعلیم کے لئے مشترکہ اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔

    6۔ علماء کے لئے جدید عصری تعلیم کا اہتمام کیا جائے تاکہ مناظرانہ اور مجادلانہ طرزِ عمل کا خاتمہ ہو۔

    7۔ تہذیبِ اخلاق کے لئے مؤثر روحانی تربیت کا انتظام کیا جائے۔

    فرقہ پرستانہ سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے درج ذیل قانونی اقدامات کے جائیں:

    1۔ منافقانہ اور خفیہ فرقہ پرستی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

    2۔ تمام مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماء پر مشتمل قومی سطح کی سپریم کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے۔

    3۔ ہنگامی نزاعات کے حل کے لئے سرکاری سطح پر مستقل مصالحتی کمیشن قائم کیا جائے۔

    4۔ مذہبی سطح پر منفی اور تخریبی سرگرمیوں کے خلاف عبرتناک تعزیرات کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔

    درج بالا عملی اقدامات سے فرقہ پرستی کی لعنت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
    اگر ہم فرقہ واریت کی لعنت پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی پیغام ’’واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا ولا تفرقوا‘‘ کو اپنا حرزِ جاں بنانا ہو گا اور برداشت، اخوت اور رواداری کو اپناتے ہوئے جسد واحد کی طرح متحد ہونا ہو گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف متحد ہو جائیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیں، ہمیں اس واضح حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کی بقا اور اس کا عروج فرقہ پرستی اور گروہی اختلافات میں نہیں بلکہ باہمی اتحاد و یکجہتی میں پنہاں ہے۔

    تحریر: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری​
     
  2. راجا نعیم
    آف لائن

    راجا نعیم ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    96
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: فرقہ واریت کا خاتمہ کیونکر ممک

    بہت اہم نکات ہیں، عمل درآمد کی اشد ضرورت!
     
  3. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    ان نکات پر عمل ہو جائے تو فرقہ واریت کی جڑ ہی کٹ جائے گی۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم !
    لیکن فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ہم سب کو بھی مشترکہ کوششیں کرنا ہوں‌گی۔ ہمیں اپنے اپنے حلقہ اثر میں ان نکات کو زیر بحث لانا چاہیے۔ فضول گپ شپ کی بجائے لوگوں کو ذہن کو تبدیل کرنے کو کوشش کرنا چاہیے۔
    اور مصنف ڈاکٹر طاہر القادری جیسے غیر متنازعہ اور امن پسند اہل سکالرز کو بھرپور سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ جو کچھ انہوں نے کتاب میں لکھا ہے اس کو عملی طور پر نافذ کرنا بھی ان کے لیے ممکن ہو سکے۔ یہ کسی ایک اکیلے کے کرنے کا کام نہیں۔
    ہم سب کو متحد ہو کر اس کے لیے جد وجہد کرنا ہو گی۔
    والسلام علیکم !
     
  5. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    بہت ہی عمدہ تحریر ہے اور اس پر عمل آج کے دور کی سب سے اہم ضرورت
    کاش ہم اس کو سمجھیں
     
  6. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    بالکل
     
  7. عمار خاں
    آف لائن

    عمار خاں ممبر

    شمولیت:
    ‏28 ستمبر 2006
    پیغامات:
    212
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    آپ کا کہنا ٹھیک ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب اس سلسلہ میں کافی کام کررہے ہیں لیکن افسوس ہمارے علماء نجانے کس خیال کے تحت ان کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں۔
     
  8. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    اللہ ان علما کو ہدایت دے اور ان کا ساتھ دینے کی توفیق دے آمین
     
  9. الطاف حسین
    آف لائن

    الطاف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2007
    پیغامات:
    47
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سراب اور خواب

    فرقے ختم نہیں ھو سکتے لہٰدا فرقہ واریت بھی ختم نہیں ھو سکتی۔کیوں کہ ہر فرقہ دوسرے فرقے کو ختم کرنے کو جہاد اکبر سمجھتا ہے۔بریلوی مسلک کے مخصوص اعمال کو دیوبندی شرک اور کفر اور بدعت ثابت کرتے ہیں جبکہ بریلویوں کے نزدیک دیوبندی فرقہ گستاخ رسول ہے اب آپ ہی بتایئں کہ کیسے اتحاد ہوگا۔ شیعہ نے تو حد کر رکھی ہے وہ اصحاب رسول کو لعن طعن کرنا اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ تحریف قرآن کا عقیدہ رکھتے ہین
    بھائی ضرورت ہے فرقوں کو ختم کرنے کی۔ اگر عوام فیصلہ کرلے کہ جو بھی فرقہ وارانہ نام استعمال کرے اسے نظر انداز کردے۔اور جو صرف اپنے آپ کو مسلم کہے اگر رسول عربی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی کہے تو ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کی جاے۔
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    الطاف بھائی نے بہت خوبصورت بات کی۔ اگر ایسے مثبت رویے و روایات امت مسلمہ میں پیدا ہو جائیں تو اتحاد امت ممکن ہے۔
     
  11. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    محترم الطاف بھائی ! معافی چاہتاہوں ۔ میں آپکی طرح زیادہ علم تو نہیں رکھتا ۔ لیکن میں‌ صرف آپ کی ایک بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ “ فرقے ختم نہیں ہو سکتے “
    البتہ فرقہ واریت ختم ضرور ہو سکتی ہے۔ سوچ کی خرابی وہیں سے پیدا ہوتی ہے جب انسان صرف اور صرف خود کو حق اور باقی سب کو باطل سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔

    خود کو حق سمجھنا فرقہ واریت نہیں ہے۔

    لیکن دوسروں کو کافر اور باطل سمجھنا فرقہ واریت ہے۔

    لہذا اگر ہم صرف پہلے اصول کو اپنا لیں۔ کہ خود کو حق پر ہی سمجھیں ۔

    لیکن دوسروں کو کافر کہنا اور سمجھنا چھوڑ دیں تو فرقہ واریت ختم ہو سکتی ہے۔

    خدا کے بندو !! یورپ امریکہ اور غیر اسلامی معاشروں میں جب مسلمان عیسائی ، یہودی اور ہندو کے ساتھ امن امان سے رہ سکتے ہیں تو اپنے ہی ملک میں کلمہ گو مسلمانوں کے ساتھ کیوں‌نہیں‌رہ سکتے ؟؟؟

    بات صرف سوچ کی تبدیلی اور قانون پر عملدرآمد کی ہے۔ پاکستان میں نہ کوئی قانون ہے نہ کوئی دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار ہے۔ یہی ہماری بدقسمتی ہے
     
  12. الطاف حسین
    آف لائن

    الطاف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2007
    پیغامات:
    47
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    توجہ طلب

    بریلوی عقیدہ دوسروں کے بارے میں۔ملفوظا ت عالیہ ۔۔احمد رضا خان کی تحریر کردہ
    کہ دیو بندی ، شیعہ، وہابی اور دیگر فرقے سب کافر ہیں ۔ان سے نکا ح کرنا حرام ۔ذبیح حرام،، دیو بندی کے نزدیک بریلوی مشرک اور بدعتی ہے۔ شیعہ کے نزدیک اصحاب رسول ،،کافر ہیں۔ اور سنی لعنتی ہیں۔
    اب بتا ؤ کیسے مسئلہ حل ہوگا۔ اب اگر یہ فرقے اپنے اپنے موقف سے ہٹتے ہیں تو خود کے بنائے ہوئے اصولوں کے تحت خود کافر ہو جائیں گے۔
    بنیا د ہی دوسرے کو کافر کہنے پر کھڑی ہے ۔ اب یہ سب اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  13. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    Re: توجہ طلب

    یہ سب صرف اپنے ھی ملک اور پڑوسی ملک میں ھی ایک دوسرے کے مخالف ھیں ھر ایک فرقہ کی مسجد الگ الگ ھے کوئی ایک دوسرے کی مسجد میں نماز پڑھ نہیں سکتا - کیا یہ سب مساجد ایک اللٌہ کی نہیں ھیں -

    مگر مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ یھاں سعودی عرب میں ھمارے اور پڑوسی ملک کے ھر فرقہ کے لوگ موجود ھیں اور یہاں کوئی بھی ایک دوسرے کے عقائد کے بارے میں نکتہ چینی کرتے دیکھا نہیں گیا، اور سب سے اچھی بات یہ ھے کہ سب ایک ساتھ ایک مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ھیں -

    یہان کے مقامی بھی ھمارے ھر فرقہ کے لوگوں کے ساتھ اکھٹا نماز پڑھتے ہیں، کوئی ھاتھ چھوڑ کے کوئی ھاتھ باندھ کے اور کوئی رکوع سجود میں ھاتھوں کو کان تک لے جاتے ھوئے، بلکہ ھر طریقہ سے نماز پڑھتے ھوئے جس فرقہ کا بھی امام ھو ، اسکی پیچھے نماز پڑھتے ھیں -

    مگر کبھی کسی بات پر کوئی اعتراض نہیں کرتا ھے - یہاں تک کہ ھر جگہ ھر مسجد میں اگر ایک جماعت ختم ھو جائے تو دوسرے جماعت کھڑی ھوجاتی ھے چاھے دو آدمی ھی کیوں نہ ھوں - کہتے ھیں کہ ھمیشہ کوشش یہی ھونی چاھئے کہ باجماعت نماز ھو، چاھے وہ نماز سفر میں قصر یا قضا نماز ھی کیوں نہ ھو -

    ایک اور بات کہ یھاں پر لوگ بیمار ھوں، بوڑھے ھوں، چل نہیں سکتے ھوں لیکن لوگ باجماعت نماز پڑھنے مسجد میں ضرور جاتے ھیں لوگ وھیل چیر پر بیساکھی کے سہارے کچھ تو لوگ دوسروں کے کاندھوں کا سہارا لے کر مسجد کی طرف جاتے ھیں ----سبحان اللٌہ
    اور ایک اچھی بات یہ بھی ھے کہ پانچوں وقت نماز کے وقت تمام بازار، دکانیں اور کاروبار بند رھتے ھیں -
    اپنے ملک میں اگر زکام بھی ھو جائے تو ھم نماز نہ پڑھنے کا بہانہ بنالیتے ھیں -
    اللٌہ تعالیٰ ھمارے حال پر رحم فرمائے اور پانچون وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق دے - آمین
     
  14. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    محترم عبدالرحمن بھائی ! آپ کی بات بالکل درست ہے۔

    بریلوی کوئی عقیدہ یا فرقہ ہے ہی نہیں۔ اعلیحضرت شاہ احمد رضا خان بریلوی :ra: سچے اہلسنت والجماعت اور بہت بڑے عاشقِ رسول :saw: گذرے ہیں جو کہ اسلام کے سوادِ اعظم کے عقائد کی حفاظت و ترویج کے لیے ساری عمر مصروفِ عمل رہے اور برصغیر میں آج شمعِ عشق رسول :saw: کے فروزاں ہونے میں انکی بہت بڑی خدمات ہیں۔
    انکے بعد مخالفین نے ایک سازش کے تحت انکے نظریات کو محدود کرنے کے لیے انکے نظریات اور انکی خدمات کو “بریلوی“ کے نام میں مقید کردیا اور کچھ انکے عقیدتمند بھی اس سازش کی گہرائی کو نہ سمجھتے ہوئے اسی “بریلویت“ کے گھڑے میں محدود ہوتے چلے گئے۔

    اور عبدالرحمن سید صاحب کی یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ فرقہ بندی اور اسکے نام پر قتل و غارت کا بازار صرف برصغیر بلکہ بالخصوص پاکستان میں گرم ہے اور اسکے پیچھے بہت سے ہاتھ کارفرما ہیں۔ سعودی عرب کے ریال سے لے کر امریکی ڈالرز تک اس آگ کو بھڑکائے رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اور ہمارے نادان مسلمان بھائی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو مساجد میں، دینی مجالس میں شہید کر کے خود کو جنت کا حقدار سمجھنے کے چکر میں پھر رہے ہیں۔

    اللہ تعالی ہم سب کو کشائشِ قلبی اور اتحادِ امت عطا فرمائے۔ امین
     
  15. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    میری مشاھدات کی بنا پر جہاں تک سمجھ میں یہ آیا ھے کہ !!!!!!

    ھمارا مذھبِ اسلام بہت آسان اور سہل ھے، خوامخواہ ھی ھمارے لوگوں نے اسے بہت مشکل میں ڈال دیا ھے -

    ھمارا دین اسلام ھمیں کیا سکھاتا ھے جس پر ھم سب کا ایمان ھے “ اللّہ ایک ھے، ھماری کتاب قران ایک ھے اور ھمارے آخری نبی حضرت محمّد(صلی اللّہ علیہ وسلم) ھیں اور آخرت پر یقیں“، اور تمام ارکان “توحید، نماز، روزہ، حج، ذکاۃ پر سب کا کامل ایمان ھے-
    اور اللٌہ کی وحدانیت پر یقین اور قران اور ھمارے آخری پیارے نبی :saw: کے بتائے ھوئے طریقوں پر چلنا ھے اور ساتھ سنٌتِ رسول پر عمل کرنا ھے

    اور تمام مسلمان بھائی اس سے متفق بھی ھیں تو کس بات کی فرقہ واریت ھم پھیلا رھے ھیں، صرف اپنے آپ کو گریبان میں جھانک کر دیکھیں، اپنے آپ کو صحیح کرلیں، اور دوسروں پر نکتہ چینی چھوڑ دیں

    ھر کوئی اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ھے، ھمارا فرض لوگوں تک حقیقت سے روشناس کرانا ھے، احادیث، قران و سنت کی اچھی مستند کتابیں اردو ترجمے کے ساتھ موجود ھیں، مطالعہ کریں اور کم از کم جو ھمارے فرائض ھیں اُنہیں دیانت داری اور ایمانداری سے انجام دیں اور پانچوں وقت کی نمازوں کو قائم رکھیں، رمضان کے پورے روزے رکھیں اور زکاتہ اور حج ادا کریں اگر استطاعت ھو تو !!!!!!!!!! یہ تو سب جانتے ھیں کہ نماز اور روزہ تو کسی صورت میں بھی معاف نہیں ھے اگر کسی وجہ سے نماز میں تاخیر ھو جائے یا روزہ نہ رکھ سکے تو اسکی کی قضا کرنا لازم ھے

    اب ھم ان فرض احکامات کو نہ بجا لائیں اور خامخواہ مذھبی عقیدوں ،روایتوں اور ایک دوسروں پر لعن طعن کی بحث میں الجھے رھیں تو کیا فائدہ، !!!!!!!!!
    اللٌہ تعالیٰ نے انساں کو اشرف المخلوقات بنایا ھے، ھم اچھائی اور بُرائی سے مکمل طور سے واقف ھیں، ھمارا ضمیر خود ھمیں ھر برائی کی طرف جانے سے باخبر کرتا ھے، لیکن ھم اپنی ضمیر کی آواز جان بوجھ کر در گذر کردیتے ھیں، ھر وہ کام کر گزرتے ھیں، جسکی ھمارے مذھب میں قطعاً ممانعت ھے اور ھم یہ سمجھتے ھیں کہ ھمیں کون دیکھ رھا ھے، اس کا مطلب یہ کہ ھمیں اللٌہ سبحان تعالیٰ (نعوذباللٌہ) پر یقین نہیں ھے اور یہاں ھمارا ایمان بھی ڈگمگا رھا ھے!!!!!!!!!

    بس ھم اپنی آخرت کو سنوارنے کے بجائے بگاڑ ھی رھے ھیں -

    اللٌہ تعالیٰ ھم سب کو صحیح اسلامی قران اور سنت کی روشنی پر
    چلنے کی توفیق عطا فرمائے !!! آمین ثم آمین
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عقرب بھائی اور عبدالرحمن سید بھائی !

    آپ کی باتیں بہت مثبت اور اصلاحی ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔آمین
     
  17. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    السلام عليکم
    برادران
    واقعي خدا وند عالم ھميں توفيق دے کہ ھم آپس ميں متحد ھو کر دين مبين اسلام کي خدمت کر سکيں
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    توقیر بھائی ! ماشاءاللہ آپ کے خیالات جان کر خوشی ہوئی۔

    قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ آپ ، میں اور دیگر مسلمان بھائی جب “ہم“ بن کر اسلام کے پرچم تلے اکٹھے ہونے کا عزم کر لیں گے تو وہی دن اتحادِ امت کا سورج لے کر طلوع ہو گا ۔ ان شاءاللہ
     
  19. گجر
    آف لائن

    گجر ممبر

    شمولیت:
    ‏22 فروری 2007
    پیغامات:
    115
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام عليکم
    توقیر صاحب نے کہا
    (آمین)
     
  20. گجر110
    آف لائن

    گجر110 ممبر

    شمولیت:
    ‏4 مئی 2007
    پیغامات:
    10
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت اچھا سلسلہ ہے

    السلام علیکم
    فرقہ وریت میرے خیال صرف ایک ہی صورت میں ختم ہوسکتی ہے۔اور وہ طریقہ ہے “ جیو اور جینے دو“۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یعنی کسی کے خلاف بات کرنے سے کیا ہوگا سوائے اختلاف کے اور لڑائی جھگڑے کے کچھ نہیں ملے گا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    لحاظہٰ امن قائم کریں اور آپس میں مل جل کر رہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اتحاد بین المسلمین زندہ باد ۔
     
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم گجر 110 بھائی ۔

    آپ کے خیالات جان کر کافی اچھا لگا کہ آپ بھی اتحاد بین المسلمین کے حامی و داعی ہیں۔ ہماری اردو کے دوستوں کو آپ کے بارے میں مزید جاننے کا شوق ہے ذرا نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں اور دیکھیں کیسا دلچسپ پرچہ آپکا منتظر ہے

    http://www.oururdu.com/forum/viewtopic. ... 1831#31831

    جلدی سے حل فرما دیں۔ شکریہ
     
  22. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی،
    آپ کی بات بالکل100٪صحیح ھے ،

    بہت اچھا موضوع ھے، اور اسے جاری رھنا، اور ھمیں چاھئے کہ ھم سب سے پہلے اپنے لوگوں کو ھماری بنیادی ذاتی اخلاق کی کوتاھیوں کی طرف پہلے توجہ دلائیں، جب تک ھم اپنی ذاتی اخلاق اور اخوت، بھائی چارے کو خوب سے خوب تر کی طرف اور اپنا مثبت رویہ اختیار نہیں کریں گے، اس وقت تک ھم کسی بھی طرح سے ھم اپنے آپ کو بدل نہیں سکتے،
    چھوٹی چھوٹی سی عام مثالیں ھیں، جن کا اخلاقیات سے تعلق ھے، جنہیں ھم جان بوجھ کر اپنی خودی اور انا کا مسئلہ بنا کر اس پر دھیان نہیں دیتے، اور جان بوجھ کر ترک کردیتے ھیں!!!!!

    1- سلام نہ کرنا اور سلام کا جواب نہ دینا،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کچھ لوگ اپنے دنیاؤی رتبہ کو دیکھتے ھوئے اپنے سے کم حیثیت کے درجے والے کو سلام میں پہل کرنے کو اپنی توھین سمجھتے ھیں، اور کچھ تو اس لئے سلام نہیں کرتے کیونکہ اس آدمی نے مجھے نقصان پہنچایا تھا،

    2- ایک دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد ناراضگی،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    لوگ اکثر دوستی کے بجائے دشمنی مول لینے پر ترجیح دیتے ھیں، کیونکہ کئی لوگوں کی دشمنی پالنا ایک عادت ھے، اور کچھ تو اگر ناراض ھوگئے تو زندگی بھر ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے،

    3- ایک دوسرے کی برائی یعنی غیبت کرنا،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ تو ایک ھم لوگوں میں ایک عام بیماری ھے، مردوں سے زیادہ عورتوں میں اسکا تناسب زیادہ ھے، کیونکہ جب بھی کسی دوسرے سے ملتی ھیں تو اپنے ھی گھر کے افراد یا اڑوسی پڑوسی کی برائیوں میں مصروف ھو جاتیں ھیں، کچھ نہیں تو کوئی اپنی نند یا ساس کی اور کوئی اپنی بہو یا اسکے سسرال کی برائیاں خوب طیش میں آکر جذباتی انداز میں کرتیں ھیں،

    4- ایک دوسرے کی کسی مشکل میں کام نہ آنا،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جو کہ آپ کے بس میں ھے، لیکن آپ کسی کا بھلا اس لئے نہیں کرنا چاھتے، کیونکہ اس کے ساتھ آپ کی ناراضگی ھے، اور اسکو آپ پریشان دیکھ کر آپکو ذھنی تسکین ملتی ھے، بلکہ کچھ تو حالات مزید خراب کرنے کے بہانے تلاش کرتے ھیں،

    5- نماز میں اپنے رقیب، یا کم حیثیت والے کے ساتھ نہ کھڑا ھونا،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اکثر یہ دیکھا گیا ھے کہ نماز باجماعت ھو رھی ھے اور آپ اسکے ساتھ کھڑے ھونے سے اس لئیے گریز کرتے ھیں کیونکہ اس سے آپکی ناراضگی ھے، یا کوئی آپ سے پوزیشن میں کم حیثیت درجہ رکھتا ھے،

    6- مہمان کے آنے کی اطلاع پا کر کھانے کھاتے ھوئے اٹھ جانا،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    جیسے ھی کسی مہمان کی آنے کی اطلاع ملتی ھے فوراً ھی کچھ لوگ دستر خوان کو سمیٹ دیتے ھیں کہ ایسا نہ ھو کہ کھانا کم پڑ جائے، یا اس کو شریک صرف اس لئے نہیں کرنا چاھتے کیونکہ وہ آپکا مخالف ھے یا کوئی اس سے ناراضگی ھے،

    مسافر کو غلط راستہ پر ڈال دینا یا اس سے مذاق کرنا،ِِِِِِِِِِِِِِ
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    کچھ ایسے بھی شوقین مزاج ھیں کہ کسی بھی مسافر کو غلط راستہ پر ڈال کر بہت خوش ھوتے ھیں، اور ذھنی تسکین پاتے ھیں،

    8- دین اسلام ، سیرت نبوی :saw: کے درس اور تدریس سے دوری،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اسلامی درس اور تدریس کی تقریب کو چھوڑ کے کسی رقص اور سرور کی محفل یا سینما تھیٹر کی طرف شوقیہ رجوع کرنا تو اکثر لوگوں کا ایک مشغلہ ھے، ساتھ ھی دوسرے ساتھی کو بھی ورغلانا اور کہنا کہ یہ اسلامی تقریب تو ھوتی رھتی ھیں مگر یہ فلم کا یا تھیٹر کا آخری شو ھے، یہ پھر دیکھنے کو نہیں ملے گا،!!!!

    ایسی اور بھی اخلاقیات سے جڑی ھوئی بہت سی قدریں ھیں، جنہیں ھم جان بوجھ کر صرف اس لئے گریز کرتے ھیں کہ صرف ھمارا دل نہیں چاھتا، اور یہ نہیں سوچتے کہ اوپر بھی کوئی ھے جو آپکی ھر ایک اچھی بری چیز کا مشاھدہ کررھا ھے جس کا حساب آخرت میں ھوگا،!!!!
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ عبدالرحمن سید بھائی ۔ آپ نے ہماری اردو کا “بڑا بھائی “ ہونے کا حق ادا کردیا۔

    اتنی خوبصورت اور مفید باتیں پڑھنے کو ملیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    کاش ہم سب یہ تحریر پڑھنے کے بعد کمپیوٹر آف کرنے سے پہلے یہ عہد کر کے اٹھیں کہ اولاً تو مندرجہ بالا تمام وگرنہ ان میں سے کم از کم چند اور اگر وہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم کوئی ایک خرابی ہی اپنے اندر سے ختم کرکے آئندہ زندگی بھر اس سے بچنے کی کوشش کریں گے۔

    اے اللہ کریم ! اپنے حبیب :saw: کے اعلی اخلاق و کردار کا صدقہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرما۔ آمین
     
  24. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ نعیم بھائی،!!!!!
    یہ تو اللٌہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ھے، اور ھمیں اس بات پر فخر ھونا چاھئے کہ ھم نے ایک مسلم گھرانے اور ایک مسلم ریاست کے آزاد مملکت میں آنکھ کھولی ھے، ھمیں اپنے آباؤاجداد کے بارے میں بھی سوچنا چاھئے کہ انہوں نے کس کس مشکل وقت میں کتنی تکلیفوں سے، اپنی جان ومال کی قربانیوں کے بعد ھمیں انگریزوں کی غلامی سے اس ملک کو آزاد کراکے ھمیں سونپا تھا کہ ھم اس اپنے پیارے وطن کو ایک مثالی ملک بنائیں گے، لیکن ھم ان کی قربانیوں کا صلہ اس طرح آپس میں اختلافات اور فرقہ واریت پیدا کرکے اپنے آزاد وطن کو کس طرف لے کر جارھے ھیں، کیا ھم نے کبھی یہ سوچا ھے، ؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  25. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ایک بات کی کچھ وضاحت چاھوں گا،!!!!!

    ویسے مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی بھی فرقہ یا کسی بھی مسلک کے ماننے والوں کی باتوں اور ان کے عقائد پر کوئی تنقید کروں، کیونکہ میں نہ تو کوئی مستند عالم ھوں اور نہ ھی کوئی کسی مسلک کے بارے میں اتنی معلومات ھے،

    میں یہ بھی مانتا ھوں کہ ھر فرقہ اور مختلف مسلک کے ماننے والوں کے علماء دین اور دینی درس و تدریس کے اساتذہ دین اسلام کی معلومات میں اپنا ایک بہت اچھا مستندعالم دین کا مقام رکھتے ھیں، اس سے مجھے انکار بھی نہیں ھے، لیکن،!!!!!!

    بس کچھ مجھے تھوڑی سی مدد چاھئے کہ میں اپنے ذھن میں جو کچھ اس بارے میں غلط فہمی ھے اسے دور کرلوں،!!!!!

    میرے بھی پاکستان میں بہترین دوست ھیں، جن کا کہ مختلف مسلک اور فرقوں سے تعلق ھے مثلاً شعیہ، سنی، بریلوی، وہابی الحدیث، حنفی، حنمبلی، مالکی، اور سب میرے دوست میرے لئے بہت محترم بھی ھی، جب میں پاکستان میں تھا، تو جب بھی ھم ایک جگہ اکھٹا ھوتے، تو ایک دوسرے پر جان چھڑکتے، اور ایک دوسرے کے ساتھ بہت ھی ایک خلوص اور محبت کا رشتہ تھا اور اب تک ویسا ھی قائم ھے، لیکن مجھے یہ افسوس ھوتا تھا کہ جب بھی اذان ھوتی تو تقریباً سارے ماشااللٌہ پانچوں وقت کے نمازی جب نماز پڑھنے کیلئے نکلتے ھیں تو سب الگ الگ اپنی اپنی مساجد میں چلے جاتے تھے، جس پر ھم سب دوستوں کو کسی بات پر اعتراض بھی نہیں تھا، لیکن جب میں یہاں سعودی عرب میں دیکھتا ھوں، یہاں پر بھی میرے اسی طرح کے مختلف مسالک کے ماننے والے ھیں، لیکن جب اذان ھوتی ھے تو میں نے سب کو دیکھا ھے، کہ سب مل کر جہاں بھی نزدیکی مسجد ھو یا آفس کے اندر ھو، ایک ھی صف میں کھڑے ھوکر کسی بھی امام کے پیچھے نماز کیلئے کھڑے ھو جاتے ھیں، کوئی ھاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ رھا ھے تو کوئی ھاتھ باندھ کر، تو کوئی رکوع اور سجود میں رفائے دین کے لئے ھاتھ کانوں تک لاتے ھیں، تو کوئی سلام پھیرتے وقت امام کے ساتھ سلام پھیرتے ھیں، اور زیادہ تر اکثریت میں امام کے سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرتے ھیں، !!!!

    اسکے باوجود کوئی بھی کسی طور پر بھی اعتراض نہیں کرتا، اور یہاں کے مقامی بھی اسی مختلف طریقوں سے کسی بھی، چاھے وہ پاکستانی یا ھندوستانی یا کسی بھی ملک کا ھو یا کوئی بھی عقائد رکھتا ھو اس امام کے پیچھے نماز پڑھتے ھیں، اور کوئی مقامی اس بات پر کسی سے جھگڑا یا بحث نہیں کرتا، اور ایک جماعت ختم ھوجائے تو دوسری جماعت بھی کھڑی ھوجاتی ھے لیکن ھمارے یہاں اگر کوئی دوسری جماعت کرائے تو اسے باھر ھی نکال دیتے ھیں، کہتے ھیں کہ صرف اذان کے بعد ایک ھی جماعت ھوسکتی ھے، بلکہ اسلام میں اس بات کی اجازت ھے کہ اگر دو آدمی بھی ھوں تو جماعت لازم ھو جاتی ھے، تو ھم دوسری یا اس سے زائد جماعت کرانے پر اعتراض کیوں کرتے ھیں!!!!!!

    کیا ھمارے نبی حضورپاک :saw: جن کو ھم سب اپنا آخری نبی مانتے ھیں، ان کے زمانے میں کیا ایسا ھی تھا، اور کیا مختلف مساجد مختلف مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے لئے مختصص تھی، جیساکہ اب برصغیر ھند و پاک میں ھے، اور کیا انہوں نے اس طرح کی کوئی ھدایت دیں تھیں، اگر ایسی کوئی ھدایت نہیں دی تھیں تو اب ھم کیوں مختلف عقائد پر عمل کرتے ھوئے، مختلف فرقوں میں بٹتے جارھے ھیں اور ھر ایک دوسرے پر تنقید اور مختلف رسومات اور عبادت کے علیحدہ علیحدہ طریقہ کار کو اپنائے ھوئے ھیں، جس سے ھماری اولاد پاکستان میں بہت ھی زیادہ کنفیوز ھے، کہ کس کی بات کو مانیں اور کس کے مسلک کے اصولوں اور عقائد کی پیروی کریں، وہ اکثر ھم سے سوال کرتے ھیں جب ھمارا اللٌہ ایک قران ایک آخری پیغمبر ایک، سب ایک ھیں تو ھمارے ملک میں یہ تفرق کیوں ھے، اس کے علاوہ کیوں ھم ایک دوسرے کو ھر مسئلے کی بحث میں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ھیں، ھمارے بچے ھم سے اکثر یہ سوال کرتے ھیں جب ھم صحیح طرح مطمین نہیں کر پاتے تو وہ اپنے مذہب سے ایک لاتعلقی کی صورت اختیار کرتے ھوئے گمراہ ھو جاتے ھیں، یعنی (گم راہ) اپنے راستے سے گم ھو جاتے ھیں،!!!!!!

    کیا ھمارے ھر مسئلک کے عالم دین کوئی ایسا درمیانی راستہ اختیار نہیں کر سکتے، جس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ھو اور کسی بھی مسجد میں ھر ایک کوئی ھر نمار باجماعت پڑھ سکے جسکا کہ باجماعت اور ایک ھی صف میں تمام مسلمانوں کو پڑھنے کا حکم بھی ھے،!!!!

    ایک ھی صف میں کھڑے ھوگئے محمود و ایاز
    نہ کوئی بندہ رھا نہ کوئی بندِء نواز​


    اللٌہ تعالیٰ ھمیں اسلامی اصولوں اور سنت رسول :saw: پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین،!!!!!
     
  26. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    انکل جی ۔ آپ کی باتیں ہمیشہ سبق آموز اور مفید ہوتی ہیں۔

    کاش ہمارے علمائے کرام امتِ مسلمہ کو اتحاد کی منزل کی طرف گامزن کر سکیں۔
     
  27. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ بیٹا زاہرا جی
    خوش رھیں
     
  28. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ابھی تک مجھے کوئی مثبت وضاحت نہیں ملی، کیا ھم سب مسلمان مل کر تمام مسجدوں میں ایک ھی جگہ ساتھ کھڑے ھوکر نماز نہیں پڑھ سکتے، جیساکہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی(ص) :saw: میں تمام عالم اسلام کے مسلمان ایک ھی صف میں ایک ساتھ مل کر نماز پڑھتے ھیں، یا کوئی ایسا حکم ھمارے نبی (ص) :saw: نے جاری کیا تھا کہ سب اپنی الگ الگ مسجدیں اور فرقہ جات میں بٹ جاؤ، اور اگر ایسا کوئی حکم نہیں ھے تو ھم لوگوں نے اپنے اپنے مذہبی قانون کیوں بنائے ھوئے ھیں، اور مسجدیں بھی الگ الگ مسلک اور مختلف فرقوں سے تعلق کی ھوئی ھیں اور یہ پابندی بھی کہ کوئی ایک دوسرے کی مسجد میں نماز پڑھ نہیں سکتا، کیا یہ سب مسجدیں ایک ھی اللٌہ ایک ھی رسول(ص) اور ایک ھی کتاب کو ماننے والوں کی نہیں ھیں،

    ایسا کیوں ھے، ھم کس اسلامی قانون کو نافذ کرنے کی بات کرتے ھیں، جب ھمارے عالم دین (معذرت کے ساتھ) کے مزاج ھی ایک دوسرے کے عقائد سے نہیں ملتے، اس طرح تو اسکولوں میں بھی اسلامی تعلیم کیلئے بچوں کے لئے الگ الگ مسلک کے عالم دین کو فائز ھونا چاھئے، اور ھر بچے کے ھاتھ میں مختلف عقائد کی اسلامی تعلیمات کی علیحدہ علیحدہ کتاب ھونی چاھئے،!!!!

    آج ھمارے بچے ھم سے سوال کرتے ھیں کہ ھمارے اسلامی مذہب کے اصل اور حقیقی عقائد کیا ھیں، بتایئے کہ ھم اپنے بچوں کو کیا جواب دیں، کیوں ھم نے خاموشی اختیار کررکھی ھے، ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اسلام تو ایک ھے بتاؤ، کِسے کیا بتائیں
    مولانا کے دماغ میں، کِسے کیا بٹھائیں

    کونسی مسجد میں کون سا قانون ھے
    کیا سمجھیں اور، کِسے کیا سمجھائیں

    سب کہتے کہ ھمارا، الگ الگ پیام ھے
    ھر بندے کا اپنا انداز، کِسے کیا جگائیں

    معبود ایک نبی بھی، کتاب بھی ایک
    دلوں میں یقین ھم، کِسے کیا دلائیں

    رزق بانٹتا وہ ھے، بادشاہ ھو یا فقیر
    ھم ھیں سوچتے، کِسے کیا کھلائیں

    فرقہ جات میں اب، ھم ایسےبٹ گئے
    پہچان اپنی بھُولے، کسے کیا بھُلائیں

    دیکھ کر یہ بٹوارا، اپنے ارمان تڑپ گئے
    روز کا تماشہ ھے، کِسے کیا دکھائیں​
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    برادرِ گرامی سید عبدالرحمن بھائی !!

    مجھے آپکی عمر، تجربہ اور پختہ نظری کے پیشِ نظر یقین ہے کہ آپکے سوالات کا جواب آپ کے قلب و ذہن کے کسی نہ کسی دریچے میں ہوگا۔ تاہم ایک مختصر سا فارمولا جو میری سمجھ میں آتا ہے وہ عرض کردوں کہ ۔۔۔ جہاں

    اللہ سبحانہُ وتعالیٰ کی محبت، خشیت اور خوف ملے
    حضور نبی اکرم :saw: کی محبت، ادب، تعظیم، نسبتِ غلامی، اورسیرتِ طیبہ پر عمل ملے
    قرآن وحدیث کی مکمل تعلیمات و اہمیت کی بات ملے
    اہلبیتِ اطہار :as: سے محبت، تعلق اور عقیدت کی دولت ملے
    صحابہ کرام :rda: سے محبت، ادب و تکریم اور انکی تعلیمات سے تعلق ملے
    اولیائے کاملیں، صلحائے عظام، مشائخ کبار :ra: کی محبت، تعلیماتِ تصوف کی خیرات نصیب ہو
    سب آئمہ ، محدثین، فقہائے کرام کا ادب و تعظیم کی بات کی جائے۔
    اتحاد امت کا سبق ملے
    کسی طرح کی نفرت و عداوت کا درس نہ ملے۔
    امن و محبت ، بھائی چارہ اور پیار کی طرف رہنمائی ملتی ہو


    ایسے لوگ ہی اس امت کا سوادِ اعظم ہیں اور بقول سیدنا رسول اکرم :saw: “میری امت کا اکثریت (سوادِ اعظم ) کبھی غلطی (گمراہی) پر جمع نہیں ہوسکتی“ (الحدیث)

    اب بطور مسلمان ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اگر ہم ضرورت کی کوئی چیز خریدنے بازار جاتے ہیں تو عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے دکان بہ دکان پھرتے ہیں۔ چیز پسند کرتے ہیں۔ اسکا تجزیہ کرتے ہیں۔ قیمت کا جائزہ لیتے ہیں۔ کوالٹی کو پرکھتے ہیں اور پوری محنت و توجہ سے کوئی قیمتی چیز خریدتے ہیں۔

    تو جہاں ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا مسئلہ ہے۔ وہاں ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے بلکہ اللہ تعالی اور حضور نبی اکرم :saw: کے مختلف احکامات بھی ہیں کہ “تفقہو فی الدین“ یعنی دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرو۔ علم حاصل کرو، عقل استعمال کرو،

    فسئلو اہلذکر ۔۔۔ (القران) یعنی اہلِ ذکر (یاد رکھنے والے یعنی اہلِ عمل علما اور باعمل صوفیاء) سے پوچھو،

    تجزیہ کرو، اور پھر اسکے بعد اپنے قلب و ذہن سے کوئی فیصلہ کرو۔ کیونکہ ایک زندہ ضمیر ایک صاحبِ علم و حکمت کو کبھی غلط راہ کی طرف نہیں لے جائے گا۔

    یہ میری عاجزانہ رائے ہے۔ اور جو معیارات اوپر دیئے گئے ہیں اگر اس کسوٹی پر پرکھ کر کسی کو پرکھا جائے تو میرا ایمان یہی ہے کہ بفضلہِ تعالی انسان دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کر سکتا ہے۔
     
  30. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی
    ماشااللۃ آپکی باتیں تو دل میں اتر جاتی ھیں، آپکی تحریر کی ھوئی باتیں حقیقت میں ایک بہترین مشعل راہ ھے، آپکی علمی ادبی اور مذہبی قابلیت کا میں تو اعتراف کرتا ھوں،

    آپ کا نہت بہت شکریہ،

    یہاں اس محفل میں بات یہ ھورھی تھی کہ فرقہ واریت کو ختم کرنا کیسے ممکن ھے، میرا تو بس آخر میں یہی ناچیز سی ایک رائے ھے، کہ ھم سب مسلمانوں کو خاص کر پاکستان میں ایک پاکستانی مسلمان کی حیثیت سے ایک ھی پلیٹ فارم پر کھڑے ھوجانا چاھئے، اور قران اور سنت کی روشنی میں ایک ایسا لائحہ عمل منشور تیار کرنا چاھئے جو سب کو قابل قبول ھو، اور سب لوگ ایک ھی صف میں کھڑے ھوکر اللۃ تعالیٰ کے حضور سجدہ بسجود ھوں، اور ھمارے نبی اکرم (ص) :saw: کی سنت پر عمل کرتے ھوئے اپنے لئے ایک ایسی راہ نکالیں کہ کسی کو نہ کوئی گلہ ھو اور نہ کوئی شکوہ،!!!!!!

    میں کیا کروں مجھ سے رھا نہیں جاتا کیونکہ میں نے بچپن سے یہ دیکھا ھے کہ ھمارے کچھ مذھبی رھنما مسجد سے ان لوگوں کو گریباں پکڑ کر نکال دیتے ھیں، جو انکے مسلک کو ماننے والے نہیں ھوتے، بعض اوقات تو کھڑی ھوئی جماعت میں سے بھی نماز پڑھتے ھوئے زبردستی باھر نکال دیتے ھیں، اور کئی دفعہ تو جھگڑے کی نوبت بھی آجاتی ھے!!!!!!

    اللۃ تعالیٰ ھم سب کو ایک سچا اور دیانت دار مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے، اور قران اور سنت کی روشنی میں عمل کرنے کی طاقت اور حوصلہ بھی بخشے، آمین،!!!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں