1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از بزم خیال, ‏3 جون 2012۔

  1. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    پروفیسر ڈاکٹر مجیداللہ قادری
    قرآن مجیدفرقان حمید دنیا میں واحد کتاب ہے جس کو مسلسل 1400سال سے شائع کیاجارہا ہے اور کسی زمانے میں اس کی اشاعت کے وقت اس کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہ کی جاسکی یہاں تک کہ زیرزبر پیش میں بھی کبھی مسلمانوں میں (معاذاللہ) تنازعہ نہ ہوسکا اور نہ ہوسکے گا کیو نکہ جب سے یہ نازل ہوئی ہے اس کو عربی زبان میں حفظ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اسی لئے اس میں کبھی بھی کسی قسم کی تبدیلی ناممکن ہے یہاں راقم صرف ایک حوالہ انسائیکلو پیڈیا سے دینا چاہے گا جس سے دنیا کے سامنے یہ بتایاجا سکے کہ مسلمان ایک ایسی کتاب کے پیروکار ہیں جس پر تمام مسلمان ١٤٠٠ سال سے متفق ہیں اور تاقیامت متفق رہیں گے۔ اور یہ گواہی بھی ایک عیسائی مصنف کی ہے۔

    Yet There is no doubt that the Koran of today is substantially same as it came from Prophet (Muhammad Sallallaho Aalaihe Wasallam) (The Webster Family Encyclopedia V.10 p. 237, 1984(


    قرآن کریم کا نزول مکہ کی وادی سے شروع ہوا جہاں تمام مقامی لوگ عرب تھے اور عربی زبان بولتے تھے اور قرآن کریم کے نزول کا اختتام مدینہ پاک کی وادی میں ہوا جہاں انصار بھی عربی ہی بولتے تھے۔ اللہ پاک نے اپنے کلام کو عربی زبان میں اس لئے نازل کیا تاکہ پہلے پہل عمل کرنے والے اس کو اچھی طرح سمجھ کر عمل کرسکیں تاکہ وہ رہتی دنیا تک کے لئے ماڈل بن جائیں اور پھر عجمی لوگ عملی قرآن ان صحابہ کرام کے عمل سے سیکھ سکیں اور یوں یہ سلسلہ جاری رہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

    اِنَّآ اَنزَلْنٰہُ قُرئٰنًا عَرَ بِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ O (الیوسف:10)

    بے شک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو ۔


    ابتداً اہلِ عرب بالخصوص اہلِ مکہ کو ان کی مادری زبان میں کلام اللہ سنایا جارہا ہے تاکہ سب سے پہلے وہ اہلِ زبان ہونے کے باعث اس پر ایمان لائیں اور اس کو آسانی سے سمجھ سکیں اس کے بعد یہی لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو اس کے مفاہیم پہنچائیں تاکہ قرآن کریم کی آیاتِ کریمہ کی صحیح مراد کا ابلاغ ان تک ہو اور انہیں عربی زبان میں نازل شدہ وحی الٰہی کے معانی و مطالب واضح ہوسکیں۔ چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے :

    وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُراٰناً عَرَبِیًّا لِّتُنْذِ رَ اُمُّ القُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا۔۔۔۔ (الشوریٰ : 7)

    ''اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی قرآن بھیجا کہ تم ڈر اؤ سب شہروں کی اصل (مکہ) والوں کو اور جتنے اس کے گرد ہیں۔۔۔۔۔۔''


    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری صرف قرآن کریم کے متن(کلمات) کو پہنچا نا نہیں تھی اگر چہ اول اول مخاطبین اہل عرب ہی تھے مگر اہل عرب عربی زبان جاننے کے باوجود اس کلام اللہ کی منشاء کو سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے اسی لئے نبی کے ذریعہ اللہ بندوں سے خطاب فرمارہا ہے چنانچہ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بحیثیت نبی ورسول ذمہ داریوں کا ذکر فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ ان آیات کے معانی ومطالب جو حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہیں، وہ لوگوں تک پہنچائیں چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتاہے :


    لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلْیْھِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ج وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ O (اٰل عمران: 164)

    ''بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجاجو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتاہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔''


    نبی کریم کی ظاہری حیات طیبہ میں ہی اسلام عرب سے نکل کر عجم تک پہنچ گیا تھا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں متعدد عجمی لوگ، ہندو ایران کے باشندے، دائرے اسلام میں داخل ہوچکے تھے اور پھر خلفائے راشدین کے 30 سالہ دور میں انتہای کثیر تعداد میں عجمی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ پہلی صدی ہجری کا دور صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کا دور تھا جو قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت نبوی پر عمل درآمد کا مکمل آئینہ تھا اس لئے قرآن فہمی عجمی لوگوں کے لئے زیادہ دشوار نہ تھی کیونکہ ان کے سامنے عملی نمونے موجود تھے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اور عملی قرآن کے نمونے کم ہونا شروع ہوگئے تو عجم سمیت عرب لوگوں نے بھی آیات کی منشائے الٰہی کو سمجھنے کی خاطر قرآن کریم کی طرف( اصل نمونے کی خاطر) رجوع کرنا شروع کردیا۔ عام عربوں کو عربی زبان کے باعث بہت زیادہ مشکلات نہ تھیں مگر عجمیوں کے لئے قرآن کریم کو عربی میں سمجھنا آسان نہ تھا اس لئے جلدہی عجمی زبانوں میں ترجمہ قرآن کی شدید ضرورت محسوس کی گئی ۔ ابتدائی دور میں ترجمہ قرآن کی سخت مخالفت بھی کی گئی مگر ضرورت کے پیش نظر قرآن پر ترجمہ کی پابندی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی اور سلسلہ تراجم دوسری صدی ہجری میں باقاعدہ شروع ہوگیا۔ یہ کام اس لئے بھی ضروری تھا کہ قرآن کا پیغام امر بالمعروف ونہی عن المنکر جب تک لوگوں کی مادری زبانوں میں نہیں پہنچایا جاتا اس وقت تک اس پر عمل درآمدمیں مطلوبہ تیزی اور اثرپذیری کا حصول ناممکن تھا۔


    تمام آئمہ کرام اس بات پر متفق رہے کہ ترجمہ قرآن کسی بھی زبان میں کیا جاسکتا ہے مگر ترجمۂ قرآن کے الفاظ دلیل قطعی نہ ہوں گے یعنی شرعی معاملات میں اس ترجمہ پر انحصار نہیں کیا جائے گا بلکہ اصل متن ہی سے استنباط کیاجائے گا کیونکہ قرآن پاک کے ہر ہر لفظ میں جو معنوی گہرائی اور گیرائی ہے اس کو کسی بھی زبان کے ترجمہ میں نہیں ڈھالا جاسکتا جب عام کتاب کا ترجمہ اس پہلی زبان کی تمام مراد کوبعینہ نہیں ڈھال سکتا تو پھر قرآن تو کلام اللہ ہے اس کا ترجمہ آسانی سے کسی بھی زبان میں کیونکر اللہ اور اس کے رسول کی بعینہ مراد کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمہ قرآن کی بہت سخت اور بہت زیادہ شرائط ہیں۔ یہاں انتہائی اختصار سے ان دشواریوں کی نشاندہی کررہا ہوں تاکہ اردو ترجمۂ قرآن کا مطالعہ کرتے وقت قاری اس بات سے آگاہ رہے کہ مترجم قرآن ترجمۂ قرآن کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر اہلیت رکھتا ہے تو اس ترجمۂ قرآن کو مطالعہ میں رکھنا چاہئے اور اگر مترجمِ قرآن، ترجمہ قرآن کا اہل ہی نہیں تو اس ترجمہ کے مطالعے سے اس کو مکمل پرہیز کرنا چاہئے اب ملاحظہ کریں چند بنیادی شرائط:


    فن ترجمہ اور اس کے بنیادی اصول:

    قرآن مجید کے ترجمہ کی شرائط سے قبل فنِ ترجمہ کے چند بہت ہی اہم اور بنیادی اصول یہاں پیش کررہا ہوں جو راقم نے مندرجہ ذیل اہل فن کی کتابوں سے اخذ کئے ہیں مثلا شان الحق حقّی ، پروفیسر رشید امجد، ڈاکٹر سہیل احمدخاں ، مظفر علی سید، احمد فخری ، ڈاکٹر سید عابد حسین، ڈاکٹر جمیل جالبی ، صلاح الدین احمد صاحب ، نیاز فتحپوری وغیرہ۔

    1۔ دونوں زبانوں اور ان کے ادب پر کامل دسترس۔

    2۔ ترجمہ نگار کا اس زبان سے جن میں ترجمہ کیا جارہا ہے جذباتی اور علمی واقفیت اور ہم آہنگی۔

    3۔ زبان کے ساتھ ساتھ جس موضوع پر کتاب لکھی گئی ہے مترجم کا اس علمِ اور فن پر بھی کامل دسترس ہونا ۔

    4۔ دونوں زبانوں کے ساتھ ادبی مساوات اور ادبی رنگ برقرار رکھنا۔

    5۔ اہل کتاب کے مصنف کے لب ولہجہ کی کھنک کا باقی رکھنا جو کہ بہت ضروری ہے۔

    6۔ مترجم کی تحریر میں انشاپردازی بھی بنیادی ضرورت میں شامل ہے۔


    یہاں تفصیل میں جائے بغیر احقر قارئین کرام کی توجہ ترجمہ کے حوالے سے شق نمبر 3 کی طرف دلانا ضروری سمجھتا ہے کہ مترجمِ کتاب کو زبان کے ساتھ ساتھ اس علم وفن پر بھی مہارت رکھنا نہایت ضروری ہے جس فن کی کتاب کا ترجمہ کیا جارہا ہے مثلاً ایک انجینئر جو انگریزی زبان کا بھی ماہرہے کیا ایک Advance Medical Science پر لکھی گئی کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کرسکے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر میں کوئی انجینئر بھی اس کام کے لئے تیار نہ ہوگا کیونکہ وہ جانتاہے کہ وہ میڈیکل سائنس کی اصطلاحات سے بہت زیادہ واقف نہیں اس لئے وہ منع کردے گا اور کہے گا کہ یہ کام کسی اچھے میڈیکل سائنس کے استاد سے کروایئے جو میڈیکل سائنس کی اصطلاحات کو اچھی طرح جانتاہے ۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھ سکتاہے کہ ایک انجینئر اس کام کو کیوں منع کررہاہے کیا وہ لغت کی مدد سے اس میڈیکل سائنس کی کتاب کا ترجمہ نہیں کرسکتا تو وہ انجینئر مخلصانہ جواب دے گاکہ بے شک لغت (Dictionary) کی مدد سے میں ترجمہ تو کرلوں گا مگر میرے لئے انتہائی مشکل ہوگا کہ جب ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معنی لغت میں مل رہے ہوں گے تو میں کون سالفظ ترجمہ کے لئے استعمال کروں کیونکہ اس لفظ کا صحیح چناؤ وہی کرسکے گا جو اس فن پر مکمل دسترس رکھتاہوگا۔


    قارئین کرام !اب آپ خودہی سوچیں کہ ترجمہ کتنا مشکل کام ہے اور جب یہ مشکلات ایک عام فن کی کتاب میں اتنی زیادہ ہیں تو قرآن تو جمیع علوم کا خزانہ ہے اس کے لئے تو وہ تمام علوم وفنون کا جاننا ضروری ہو گا جو اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتاہے ۔


    ترجمہ قرآن اور تفسیر قرآن کے سلسلے میں علماء نے شرائط قائم کی ہیں کہ جب کوئی ان شرائط کو پورا کرسکے تب ہی وہ ترجمہ یا تفسیرقرآن کسی بھی زبان میں کرنے کے لئے سوچے اور پھر قلم اٹھائے۔


    تفسیر وترجمہ قرآن کے لئے شرائط:

    امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ (م٩١١ھ/١٥٠٥ئ) مفسر قرآن کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ضروری قرار دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ مفسر قرآن کم از کم درج ذیل علوم پر ضروری دسترس رکھتاہو:

    ''علم اللغۃ، علم نحو، علم صرف، علم اشتقاق، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم قرأ ت، علم اصول دین، علم اصول فقہ، علم اسباب نزول، علم قصص القرآن، علم الحدیث، علم ناسخ ومنسوخ، علم محاورات عرب، علم التاریخ اور علم اللدنی''

    (الا تقان فی علوم القرآن جلد 2 ص: 180 سہیل اکیڈمی 1980ء)


    مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ ساتھ مفسر کو بہت زیادہ وسیع النظر ، صاحب بصیرت ہونا چاہیے کیونکہ ذراسی کوتاہی تفسیر کو تفسیر باالرائے بنادے گی جس کاٹھکانہ پھر جہنم ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

    ومن قال فی القران برایئہِ فلیتبوأ مقعدہ من النار (جامع ترمذی جلد 2 حدیث 861)

    اور جو قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔


    قارئین حضرات! علامہ سیوطی کی قائم کردہ شرائط کی روشنی میں مترجم قرآن کی ذمہ داری مفسر قرآن سے بھی زیادہ سخت نظر آتی ہیں کیونکہ تفسیر میں مفسر ایک لفظ کی شرح میں ایک صفحہ بھی لکھ سکتا ہے مگر ترجمہ قرآن کرتے وقت عربی لفظ کا ترجمہ ایک ہی لفظ سے کرنا ہوتاہے اس لئے مترجم قرآن کا کسی بھی زبان میں ترجمہ منشاالٰہی کے مطابق یا منشائے الٰہی کے قریب قریب کرنا مشکل ترین کام ہے۔ البتہ تمام شرائط کے ساتھ ترجمہ قرآن اس وقت ممکن ہے کہ جب مترجم قرآن تمام عربی تفاسیر ، کتب احادیث ، تاریخ، فقہ اور دیگر علوم و فنون پر دسترس کے ساتھ ساتھ عربی زبان وادب پر مکمل عبور رکھتاہو اور وہ ایک عبقری شخصیت کا حامل ہو ساتھ ہی مترجم قرآن کتاب اللہ کو عربی زبان میں سمجھنے کی حددرجہ صلاحیت رکھتا ہو تب ہی ترجمہ قرآن منشائے الٰہی اور فرمان رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہوگا۔


    قارئین کرام! آیئے چند معروف اردو تراجمِ قرآن کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ کون کون سے تراجمِ قرآن وہ تمام شرائط پوری کرتے نظر آتے ہیں جو علامہ سیوطی اور دیگر اکابرین نے قائم کی ہیں۔ اگر ترجمۂ قرآن تمام ضروری شرائط کے ساتھ پایا گیا تو یقینا وہ ترجمۂ قرآن عوام الناس کے مطالعہ کے لئے کار آمد ہوگا اور اگر ترجمۂ قرآن ان شرائط پر پورا نہیں اترتا تو وہ ترجمہ لوگوں کو نہ صرف دین سے دور کردے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں اس لئے ان عبارتوں کو غور سے پڑھیں اور سمجھیں۔


    مختصر تاریخ اردو ترجمہ قرآن:

    بارہویں صدی ہجری میں اردو زبان برصغیر پاک وہند میں نہ صرف ادبی زبان بن کر اُبھر رہی تھی بلکہ کثیر تصنیفات و تالیفات اور تراجم کے باعث ایک عام فہم زبان بھی بنتی جارہی تھی ۔ اگرچہ دکن کی اسلامی ریاستوں میں عرصۂ دراز سے اردو زبان میں عقائد تصوف و اخلاقیات اور فقہی کتابوں کے تراجم ہورہے تھے مگر اردو ترجمۂ قرآن کا آغاز ابھی نہ ہوا تھا۔ شاید اردو کی نشوونما کی ابتداء میں چونکہ ذخیرہئ الفاظ محدود تھا اس لئے ترجمۂ قرآن کی طرف علماء نے قدم نہ اٹھایا۔ دوسری طرف بر صغیر سے عربی زبان کے بعد فارسی زبان بھی تیزی کے ساتھ رخصت ہونے لگی تو عوام تو عوام، خواص کے لئے بھی اب ترجمہ قرآن اردو زبان میںضروری سمجھا جانے لگا چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م1176ھ)جو خود فارسی ترجمہ قرآن کے برصغیرمیں اولین مترجم میں شمار ہوتے ہیں ان کے دو صاحبزادں کو اردو زبان کے ترجمہ قرآن کے اولین مترجم ہونے کا شرف حاصل ہوا۔


    شاہ محمد رفیع الدین دہلوی (م 1233ھ/1817ء) نے اردو زبان کا پہلا مکمل لفظی ترجمہ قرآن 1200ھ میں مکمل کیا جب کہ آپ کے چھوٹے بھائی شاہ محمد عبدالقادر دہلوی (م 1230ھ/1814ء) نے اردو زبان کی تاریخ کا پہلا مکمل بامحاورہ ترجمہ قرآن 1205 ھ /1790ء میں مکمل کیا ۔ یہ دونوں تراجم قرآن تیرھویں صدی ہجری ہی میں شائع ہونا شروع ہوگئے جس کے باعث ان کو اولیت کے ساتھ ساتھ پذیرائی بھی حاصل ہوئی اگرچہ تاریخ میں ان دونوں اردو تراجم قرآن سے قبل کے بھی تراجم پائے جاتے ہیں لیکن یاتو وہ مکمل ترجمہ قرآن نہیں تھے یا مخطوطہ ضائع ہوگئے اس لحاظ سے ان دونوں بھائیوں کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ایک لفظی ترجمہ قرآن کا بانی ہے تو دوسرا با محاورہ ترجمہ قرآن کا حامل ۔


    شاہ برادران کے بعد فورٹ ولیم کالج ( قائم شدہ 1214ھ/ 1800ء) نے پہلے انجیل کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے شائع کیا اور پھر 5 مولوی حضرات نے مل کر اردو میں ترجمہ قرآن (1219 ھ /1804ء) میں مکمل کیا ۔ تیرھویں صدی ہجری میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 25 ترجمہ قرآن اردو زبان میں کئے گئے مگر کسی کو بھی شاہ برادران کی طرح پذیرائی حاصل نہ ہو سکی البتہ سرسید احمدخاں کی تفسیر اور ترجمہ 15 پاروں تک شائع ہو ا تھا اور علی گڑھ کے ہم خیال لوگوں کے درمیان اس کو پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ مگر سر سید احمدخاں کے ترجمہ قرآن سے جدید ترجمہ قرآن کا دور شروع ہوتاہے جس میں عام روایت سے ہٹ کر ترجمہ اور تفسیر کی گئی۔ اس جدید رجحان کو علی گڑھ سے فارغ التحصیل افراد نے سر سید کی فکر کو آگے بڑھا نے میں بہت مدد دی۔ سر سید احمد خان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی دانست میں ترجمہ قرآن کو ایک عام کتاب سمجھ کر ترجمہ کرنا شروع کردیا جس کے باعث ایک بڑی تعدداد مترجمین کی سامنے آئی جن میں سے چند اردو مترجمین قرآن کے نام معروف ہیں مثلاً نذیر احمد دہلوی ، مولوی عاشق الٰہی میرٹھی ، مولوی فتح محمد جالندھری ، مرزا وحیدالزماں، مولوی عبداللہ چکڑالوی ، ابو الکلام آزاد ، چودھری غلام احمد ، عبدالماجد دریاآبادی۔ سرسید احمد خان کے رفقاءکار کے علاوہ ایک بڑی تعداد مترجمین قرآن کی دارالعلوم دیوبند (قائم شدہ 1283ھ) کے مترجمین کی بھی چودھویں صدی ہجری میں سامنے آتی ہے جن میں مندرجہ ذیل مترجمین کے نام قابل ذکر ہیں: مولوی فیروز الدین روحی، مولوی محمد میمن جونا گڑھی ، مرزا حیرت دہلوی ، مولوی عبدالحق، مولوی محمد نعیم دہلوی، مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی محمد الحسن دیوبندی وغیرہ۔


    چند معروف اردو مترجمین قرآن کا مختصر علمی تعارف:

    راقم یہاں ان چند اردو مترجمین قرآن کا تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہے جن کے تراجم کا تقابلی مطالعہ آگے پیش کیا جائے گا۔ ان کے علمی تعارف کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قارئین حضرات جب کسی اردو ترجمہ قرآن کا مطالعہ کررہے ہوں تو وہ مترجم کے متعلق اتنا ضرور جانیں کہ آیا وہ ترجمہ قرآن کا اہل بھی تھا یا نہیں کیونکہ ترجمہ قرآن پڑھنے والا عربی زبان سے واقف کار نہیں ہوتا وہ تو جو اردو میں ترجمہ دیکھے گا، پڑھے گا اس کو وہ من جانب اللہ ہی سمجھے گا کہ یہ ہی اللہ کی منشا اور حکم ہے۔ یہ انسان کی عام فطرت بھی ہے کہ جو علم اس کو نہیں آتا اور پہلی مرتبہ اس کے متعلق سنے گایا پڑھے گا وہ اس کو ہی حق جانے گا اس لئے راقم بہت ذمہ داری سے یہ بات لکھ رہا ہے کہ اردو زبان میں ترجمہ پڑھنے والے مطالعہ سے پہلے مترجم کے متعلق ضرور معلومات حاصل کریں۔ جس طرح آپ اپنے پیچیدہ مرض کے لئے کسی بھی ڈاکٹر کو دکھانے سے پہلے دوچار سے مشورہ کرکے اور اس ڈاکٹر کی صلاحیتوں کے متعلق معلومات حاصل کرکے اس کے پاس جاتے ہیں اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کہ راستہ پر چلنے سے پہلے یہ ضروری معلومات حاصل کرلیں کے اللہ کی طرف راستہ دکھانے والا اس بات کا اہل بھی ہے اورکیا وہ ترجمہ قرآن کی تمام شرئط پوری کرتا ہے ۔

    یہاں جن معروف مترجمین قرآن کا تعارف پیش کیا جارہا ہے ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

    (1) سرسید احمدخان علی گڑھی (2) مولوی عاشق الٰہی میرٹھی

    (3) مولوی فتح محمد جالندھری (4) ڈپٹی نذیر احمد دہلوی

    (5) مولوی محمود الحسن دیوبندی (6) مولوی مرزا وحید الزماں

    (7) مولوی اشرف علی تھانوی (8) امام احمدرضا محدث بریلوی

    (9) ابوالکلام آزاد (10) سید ابو الا علی مودودی


    1۔ سرسید احمدخاں :

    آپ دلّی میں 1233ھ/1817ء میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد سید میرتقی سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ شاہ غلام علی دہلوی (م١٢٤٠ھ/١٨٢٤ء) کے مرید تھے۔ ابتدا میں دینی تعلیم گلستان، بوستان اور عربی میں شرح ملاجامی تک چند کتابیں پڑھیں اور اس کے بعد دنیا وی تعلیم کی طرف توجہ دی۔ آپ کے سوانح نگار مولوی الطاف حسین حالی ''حیات جاوید'' میں رقمطراز ہیں جن میں خود سرسید اپنی سوانح بیان کرتے ہیں:

    ''میری لائف میں سوا اس کے کہ لڑکپن میں خوب کبڈیاں کھیلیں، کنکوّے اڑائے ، کبوتر پالے ،ناچ مجرے دیکھے اور بڑے ہوکر نیچری، کافر اور بے دین کہلوائے اور رکھا ہی کیا ہے '' (حیات جاوید، ص 26)


    سرسید احمد خان ملازمت کے سلسلے میں 1841ء تا 1876ء بطور کلکٹر مختلف شہروں میں رہے اور پھر پنشن لے کر علیگڑھ آگئے۔ سر سید احمد خاں نے دوران ملازمت تصنیف و تالیف اور ترویج علوم کے لئے خاصا وقت صرف کیا اس دور کی تصانیف میں (1) قول متین درابطال حرکت زمین ، (2) انتخاب الا خوین (3) رسالہ اسباب بغاوت ہند اور مشہور تالیف آثارالصنا دید قابل ذکر ہیں ۔


    سر سید احمد خاں نے 1875ء میں ابتدائی مدرسہ علی گڑھ میں قائم کیا اور جلدہی 1876ء میں کالج کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کالج نے 1878ء سے کام شروع کردیا اور 1883ء میں اس کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا ۔ سرسید احمد خاں نے اسی دوران برٹش انڈین ایسوسی ایشن ، سائنٹفک سوسائٹی ، علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ کا اہتمام ابھی کیا جس کے باعث آپ کو ''سر'' اور خاں بہادر کے القاب سے نوازا گیا ۔ آپ کی تصنیفات وتالیفات میں ترجمہ قرآن اور تفسیر قرآن بھی ہیں جن کو لکھ کر آپ نے برصغیر میں آزاد خیال ترجمہ اور اردو تفسیر قرآن بالرائے کی بنیاد رکھی۔


    2۔ مولوی عاشق الٰہی میرٹھی:

    آپ 1298ھ/1881ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے 1315ھ میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ۔ مولوی رشید احمد گنگوہی سے بیعت کی۔ 1317ھ میں ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مدرس دوم کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور جلدہی خیر المطابع کے نام سے مطبع کھولا اور اپنا ترجمہ کردہ ترجمہ قرآن (1318ھ) 1319ھ میں شائع کیا۔

    (قاری فیوضی الرحمن ''مشاہیرعلماء دیوبند '' جلد اول ص 242 مطبوعہ لاہور)


    مندرجہ بالا تحریرسے معلوم ہوتاہے کہ مولوی عاشق الٰہی نہ تو کسی معروف مدرسہ سے فارغ ہیں اور نہ اتنی دینی صلاحیت کے ماہر ہیں کہ 20 سال سے بھی کم عمر میں قرآن کریم کا اردو ترجمہ کرلیا یقینا یہ تعجب خیز عمل معلوم ہوتاہے کہ ایک شخص جو صرف مولوی فاضل کی کتابیں پڑھا ہواہے اس میں کہاں سے یہ استعداد آگئی کہ اس نے قرآن پاک کا صرف ٢٠ سال کی عمر میں ترجمہ مکمل کرلیا۔ محسوس یہ ہوتاہے کہ اپنا مطبع اس لئے قائم کیا کہ ترجمہ قرآن کی زیادہ سے زیادہ شائع کیا جائے لیکن یہ ترجمہ عام لوگوں میں مقبول نہ ہوسکا ۔ دوسرا تعجب یہ ہے کہ آپ نے اور کوئی قابل ذکر علمی تصنیف یادگا ر نہ چھوڑی جس سے آپ کی علمی صلاحیتوں کا صیح اندازہ ہو تاکہ واقعی آپ کم عمر میں ترجمہ قرآن کرنے کے اہل تھے۔


    3۔ مولوی فتح محمد جالندھری :

    مولوی فتح محمد مترجم قرآن کی حیثیت سے عوام میں متعارف ضرور ہیں مگر نہ تو مورخین نے اور نہ ہی سوانح نگاروں نے آپ کا تعارف اپنی تالیفات میں کرایا جس سے معلوم ہوتا کہ آپ عالم دین ہیں اور دینی کتابوں کے مصنف بھی۔ البتہ ترجمہ قرآن ان کا ایک واحد قلمی کارنامہ ہے جو تاریخ میں محفوظ ہے۔ تاریخی شواہدکے مطابق یہ ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد کا تھا۔ مولوی فتح محمد اس ترجمہ کو آپ اپنے ساتھ لے گئے کہ اس کو صاف صاف لکھ کر واپس کردیں گے مگر اس ترجمہ کو واپس لانے کے بجائے کچھ عرصے کے بعد ''فتح الحمید'' کے نام سے اس ترجمہ کو( اپنے نام سے) شائع کردیا۔ اگریہ حقیقت ہے تو یہ علمی سرقہ قرار پائے گا۔ یہاں راقم اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا صرف یہ بتانامقصود ہے کہ جالندھری صاحب کا علمی پایہئ کیا ہے اور کیا وہ ترجمۂ قرآن کے اہل تھے یانہیں ۔ تو تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ نہ آپ مستند عالم دین تھے نہ مصنف اور نہ ہی آپ کی اس زمانے میں کوئی علمی شہرت تھی البتہ ترجمۂ قرآن کے باعث آپ مترجمین قرآن کی صف میںضرور شامل ہوگئے اور افسوس کہ حکومت پاکستان نے اس ترجمہ قرآن کو سرکاری ترجمہ بنارکھا ہے کہ جس کامترجم ایک غیر معروف اور مجہول العلم شخص ہے۔ مولوی فتح محمد نے اپنی خفت مٹانے کے لئے شاہ عبد القادر کے ترجمہ کا سہارا لیا اور ایک مقام پر لکھا کہ :

    ''یوں سمجھئے کہ شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ اگر مصری کی ڈالیاں ہیں تو یہ ترجمہ شربت کے گھونٹ نہایت آسان''۔

    (ڈاکٹر صالح شرف الدین قرآن حکیم کے اردو تراجم ص ٢٦٢)

    قارئین کرام! یہاں راقم کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خود مترجم اس بات کا اقرار کررہا ہے کہ یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر دہلوی کے ترجمہ کا چربہ ہے۔


    4۔ڈپٹی نذیر احمد دہلوی:

    مولوی نذیر احمد دہلوی 1830ء یا 1836ء میں پیدا ہوئے ۔ اپنے والد سعادت علی دہلوی سے فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ مولوی نصر اللہ خورجی (م1299ھ) سے عربی صرف ونحو اور فلسفہ ومنطق کی تعلیم حاصل کی اور پھر قدیم دہلی کالج کے شعبہئ مشرقی علوم میں تعلیم حاصل کی۔


    ڈپٹی نذیر احمد دہلی کالج میں تعلیم کے دوران نئے دور کے تقاضوں سے متاثر ہوئے اور اردو ادب کے استاد رام چندر سے تفصیلی استفادہ کیا جو علمی اسلوب نثر نگاری کے بانی تھے ۔ انگریزحکومت کی طرف سے ''شمس العلماء کا خطاب بھی ملا اور L.L.D اور L.L.O کی اعزازی سندیں بھی حاصل کیں ۔ ڈپٹی نذیر احمد کا ابتدئی دور 1872تا 1893ء ادبی تصنیفات کا دور ہے جس کے دوران 30 سے زیادہ کتابیں تحریر فرمائیں۔ ان میں ادبی کتابوں کے علاوہ درسیات و اخلاقیات اور مذہبیات کے عنوان پر تحریریں بھی قابل ذکر ہیں۔ لیکن آپ کااصل جوہر اردو زبان کے ناول نگار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جن کے وہ بانی بھی قرار دیئے جاتے ہیں ۔ آپ نے ایک کتاب بعنوان ''امہات المومنین'' بھی تحریر فرمائی تھی جس میں اپنے مخصوص ظریفانہ لب ولہجہ کا اظہاراور محاوروں کا کثرت سے بے جا استعمال کیا جس کے باعث اس کتاب کے خلاف تکفیر کا ہنگا مہ برپا ہوا اور اس کی تمام جلدیں جلادی گئی ۔ (ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ''ڈپٹی نذیر احمد '' مطبوعہ)

    ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے اردو ترجمۂ قرآن سے متعلق ایک عجیب وغریب انکشاف پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد دہلوی صاحب نے اپنے PhDکے مقالے بعنوان ''قرآنی تراجم وتفاسیر ایک تاریخی جائزہ'' (غیر مطبوعہ) میں ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے پوتے مسلم احمد دہلوی کی روایت کردہ ایک بیان سے کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجئے :


    ''مولوی نذیر احمد دہلوی کی ہمشیرہ اُم عطیہ بڑی عالمہ وفاضلہ تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی نذیر احمد صاحب روز انہ چند آیات کا ترجمہ کرکے اپنی ہمشیرہ کے پاس بھیج دیتے اور وہ نظر ثانی فرماتیں۔ مولوی صاحب نے ترجمہ لکھوانے کے لئے پانچ آدمی کی ایک ٹیم بنائی تھی جس میں مولوی فتح محمد جالندھری بھی شامل تھے۔ مولوی فتح محمد ڈپٹی صاحب کے کئے ہوئے ترجمہ کا مسودہ ام عطیہ کے پاس لے جاتے اور وہ اس کی تصحیح فرماتیں ۔ جب یہ ترجمہ مکمل ہوگیا تو ڈپٹی صاحب نے پورے ترجمہ کا مسودہ مولوی فتح محمد جالندھری کو نقل کرنے کے لئے دے دیا۔۔۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مولوی فتح محمد نے اس ترجمہ کو اپنے نام سے شائع کردیا۔ ڈپٹی صاحب کو اس واقعہ سے سخت تکلیف پہنچی اور ان کی ہمت ٹوٹ گئی لیکن ان کی ہمشیرہ نے پھر ہمت بندھوائی اور فرمایا کہ دوبارہ اس ترجمہ کے کام کو شروع کیا جائے ۔ اس دفعہ 10 آدمی ترجمہ لکھنے کے لئے مقرر ہوئے اور ام عطیہ نے دوبارہ اس پورے مسودے کی تصحیح فرمائی ۔ ڈپٹی نذیر احمد صاحب کے ترجمہ قرآن میں جو عبارتیں قوسین میں ہیں وہ ام عطیہ کی عبارتیں ہیں ''۔

    (پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد ''قرآنی تراجم اور تفاسیر ایک تاریخی جائزہ '' PhDمقالہ ، ص400۔ 401)


    ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا ترجمہ اور حواشی ''غرائب القرآن'' کے نام سے مشہور ہے جو 1895ء میں شائع ہوا جس کی اشاعت کے بعد کئی علماء نے تنقیدبھی فرمائی۔ مولوی اشرفعلی تھانوی نے ''اصلاحِ ترجمہ دہلویہ'' کے نام سے ٢٤ صفحات پر مشتمل رسالہ لکھا جس میں اس ترجمۂ قرآن پر اعتراضات وارد کئے ہیں اس کے علاوہ ان کے کئی ہم عصر اور بعد کے علماء نے ان کے ترجمہ کوسخت تنقید کا نشانہ بنایا۔


    شاہ برادران کے اردو تراجم قرآن کے لگ بھگ 100 سال کے بعد 1314ھ میں ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ قرآن سامنے آتا ہے ۔ یہ ترجمہ اگرچہ ان دونوں تراجم سے مختلف ہے لیکن انتہائی کثرت سے محاورات کاجاو بے جا استعمال کیاگیا ہے ۔ ڈپٹی صاحب چونکہ بنیادی طور پر ناول نگار تھے بلکہ ناول نگاری کے بانی تھے انھوں نے اپنے ترجمہ میں بھی اس رنگ کو اپنا نے کی کوشش کرتے ہوئے محاورات کا بے جا استعمال کیا ہے جس کہ باعث اس کو ترجمہ کہنے کے بجائے محاوراتی ترجمہ یا تو ضیحی و تشریحی ترجمہ کہا جائے تو بہتر ہوگا ۔ تعجب یہ ہے کہ انھوں نے محاورات کے استعمال کے آگے قرآنی متن کا بھی خیال نہ رکھا۔


    اردو ادب کے بعض ناقدین نے ڈپٹی صاحب کو مترجم قرآن کی حیثیت سے بہت سراہاہے مگر ترجمۂ قرآن میں کی گئی بے اعتدالیوں سے صرف نظر کرگئے۔ خیال رہے کہ یہ کلام الٰہی ہے کلام انسان نہیں لہٰذا کسی بھی قسم کی بے اعتدالی قرآن کے ترجمہ میں مناسب نہیں ہوگی۔


    5۔مولوی محمود الحسن دیوبندی:

    آپ 1268ھ/1852ء میں بانس بریلی میں پیدا ہوئے اور دارالعلوم دیوبند سے 1288ھ میں فارغ التحصیل ہوئے اور اس مدرسہ میں 1308ھ میں صدر مدرس کے منصب پر فائز ہوئے ۔ مولوی قاسم نانوتوی (م 1297ھ/1880ء) سے کتب صحاح ستہ کا درس لیا ۔ آپ نے جزائر مالٹا میں اسیری کے دوران (1335ھ/1317ء تا 1338ھ/ 1919ء) قرآن مجید کا اردو زبان میں ترجمہ مکمل کیا اور ساتھ ہی سورہ النساء تک حواشی بھی تحریر فرمائے ۔ رہائی کے بعد جب ہندوستان واپس لوٹے تو ١٣٣٩ھ/١٩٢٠ء میں انتقال ہوگیا۔ آپ نے ترجمہ قرآن کے علاوہ چند مذہبی نوعیت کی چھوٹی بڑی ١٠ کتابیں اردو زبان میں اور تحریر فرمائیں مگر آپ کی وجہ شہرت ترجمہ قرآن ہے ۔


    مولوی محمود الحسن دیوبندی نے شاہ عبدالقادردہلوی کے ترجمہ قرآن ''موضح القرآن'' کو بنیاد بناکر ترجمہ کیا ہے ۔ حقیقت میں مولوی محمود الحسن دیوبندی صاحب نے صرف متروک محاورات یا الفاظ کو جو شاہ عبدالقادر کے ترجمہ میں ہیں ان کو تبدیل کیا ہے اور کہیں کہیں الفاظ کے تو ضیحی ترجمے کئے ہیں احقر نے اپنی پی۔ایچ۔ڈی تھیسس ''کنزالایمان اور دیگر معروف تراجم کا تقابلی جائزہ''کی تیاری کے دوران مولوی صاحب کے ترجمہ کا بغائر تجزیہ کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ محولہ ترجمہ میں مولوی محمود الحسن صاحب کا حصہ بمشکل 20 فیصد ہے جبکہ 80 فیصد ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب کے ''موضح القرآن'' کا چربہ ہے چنانچہ مترجم موصوف خود اپنے مقدمہ میں اس بات کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ اقرار کرتے ہیں کہ مترجمین کی صف میں ایساہی شامل ہوا ہوں جس طرح کوئی لہولگا کر شہیدوں میں شامل ہوتاہے ملاحظہ کیجئے آپ کی اپنی تحریر ترجمہ قرآن سے متعلق:


    ''تراجم موجودہ صحیحہ معتبرہ (ترجمہ شاہ عبدالقادر وشاہ رفیع الدین دہلوی) کے ہوتے ہوئے ہمارا جدید ترجمہ کرنا لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا ہے جس سے نہ مسلمانوں کو کوئی نفع معتبرہ پہنچ سکتاہے نہ ہم کو۔۔۔۔۔ہم کو جدید ترجمہ کرنا فضول سے بڑھ کر نہایت مذموم اور مکروہ تک نظر آتاہے ۔

    (مولوی محمود الحسن 'ترجمہ قرآن' مقدمہ، ص: 2، مطبوعہ کراچی)


    قارئین کرام! خود مترجم کے اعتراف کے بعد کہ اس کو مترجم کہنا مناسب نہیں اور جدید ترجمہ کرنا فضول سے بڑھ کر مذموم ہے اس لئے مولوی محمود الحسن کا ترجمہ قرآن شاہ عبدالقادر کے ترجمہ قرآن کا چربہ قرار پائے گا اور اس کو اصل ترجمہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ آپ کیونکہ عالم دین تھے اور دیوبند کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے تھے اسلئے مترجمین کی صفوں میں شامل سمجھے گئے۔


    6۔ مولوی نواب وحید الزماں:

    مولوی وحید الزماں ابن نور محمد ابن شیخ احمد فاروقی کا نپور میں 1850ء میں پیدا ہوئے اور ١٩٢٠ء میں حیدرآباد دکن میں انتقال ہوا۔ درس نظامی کی سند مدرسہ فیض عام کانپور سے حاصل کی ۔ آپ ابتدأ میں پکے حنفی تھے اور ابتداً سلسلۂ قادریہ، پھر نقشبندیہ سلسلہ میں مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی (م1895ء) سے بیعت بھی ہوئے جن سے حدیث مسلسل بالترجمہ کی سند بھی حاصل کی ۔ مولوی وحید الزماں اپنے بڑے بھائی مولوی بدیع الزماں (م 1312ھ) سے متاثر ہو کر حنفیت چھوڑ کر اہلِ حدیث کے مکتبہ فکر میں شامل ہوگئے اور ساتھ ہی طریقت کو بھی ترک کردیا۔ آپ نے ایک سو سے زیادہ کتب یاد گار چھوڑی ہیں ان میں تراجم وتالیفات وتصنیفات سب شامل ہیں مگر زیادہ رشحات قلم فنِ حدیث کی کتابوں کی صورت میں ہیں۔ آپ کی ایک کاوش ترجمۂ قرآن بھی ہے جس کو'' موضحۃ القران'' کے نام سے آپ نے 1903ھ میں مکمل فرمایا اس کے علاوہ تفسیری وحیدی ، لغات القرآن اور اشارۃ الاخوان بفضائل القرآن کے نام سے بھی تالیفات تحریر فرمائیں۔

    مولوی وحید الزماں حدیث وفقہ کی کئی درجن کتابوں کے مصنف ومترجم ہیں مگر آپ کے ترجمہ قرآن کے مطالعہ کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ یاتو قرآن کے اصل معانی ومطالب پر ان کی نظر کمزو رتھی یا آپ کسی نئے رجحان کی نمائندگی کررہے ہیں جدید خیالات وافکار کی ترجمانی کا عنصر ان کے ترجمۂ قرآن میں نمایاں ہے اور ترجمہ قرآن کرتے وقت اکثر مقامات پر وہ غیرضروری اضافے کرجاتے ہیں جس سے روحِ قرآن مجروح ہوتی ہے۔ مثلاً:


    (اے پیغمبر) خدا تعالیٰ کے ساتھ دوسرے کو معبود نہ بنا۔ (بنی اسرائیل : 22)

    (اے پیغمبر) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے خدا کو (مشرکوں کی طرح) مت پکار۔ (الشعراء:213)

    اور (اے پیغمبر)تجھ کو یہ امیدکہاں تھی کہ تجھ پر کتاب اترے گی مگر یہ تو ترے مالک کی مہربانی ہوئی کہ تجھ پر قرآن اترا۔ (القصص: 86)


    7۔ مولوی اشرفعلی تھانوی:

    مولوی اشرفعلی تھانہ بھون، ضلع مظفر نگر میں (1280ھ/1863ء) میں پیدا ہوئے ۔ دارالعلوم دیوبند میں 1295ء میں داخل ہوئے اور 21 سال کی عمر میں فارغ تحصیل ہوئے۔ اس دارالعلوم میں آپ نے مولوی یعقوب نانوتوی ، مولوی محمو دالحسن دیوبندی ، مولوی سید احمد دیوبندی اور مولوی عبدالعلی میرٹھی سے اکتسابِ فیض کیا۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (المتوفی1317ھ) سے بیعت ہوئے اور خلافت و اجازت بھی حاصل کی۔


    مولوی اشرفعلی تھانوی کثیر تصانیف لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں مگر صحیح تعداد اور موضوعات پر تذکرہ نگاروں نے ابھی تک توجہ نہیں دی۔ مولوی اشرفعلی تھانوی کی تصانیف علوم دینیہ کے مختلف موضوعات پر صرف اردو زبان میں ملتی ہیں۔ ان میں ترجمہ قرآن اور تفسیر قرآن کے علاوہ فتاویٰ بھی ہیں آپ نے طویل عمر پائی اور 82 سال کی عمر میں 1362ھ میں تھانہ بھون میں انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے ۔ آپ نے اپنے ترجمۂ قرآن اور کتاب ''بہشتی زیور'' سے کافی شہرت پائی ۔ مولوی صاحب کا ترجمہ قرآن 1905ء میں مکمل ہوا اور 1908ء میں دہلی سے شائع ہوا اس ترجمہ کے ساتھ مقدمہ بھی تحریر ہے جس میںاپنے ترجمہ کرنے کی غرض وغایت بھی بیان کی ہے آپ لکھتے ہیں:


    ''بعض لوگوں نے محض تجارت کی غرض سے نہایت بے احتیاطی سے قرآن کے ترجمے شائع کرنا شروع کئے ہیں جن میں بکثرت مضامین خلاف قواعد شرعیہ بھردیے جن سے عام مسلمانوں کو بہت مضرت پہنچی ۔۔۔۔۔چونکہ کثرت سے ترجمہ بینی کا مذاق پھیل گیا ہے۔۔۔ مشورے سے یہ ہی ضرورت ثابت ہوئی کہ ان لوگوں کو کوئی نیا ترجمہ دیاجائے جن کی زبان وطرز بیان وتقریر مضامین میں ان کے مذاق و ضرورت کا حتی الامکان پورا لحاظ رہے ۔''

    (مولوی اشر فعلی تھانوی مقدمہ بیان القرآن، ص: 2، تاج کمپنی لمیٹڈ)


    ڈاکٹر صالحہ اشرف اپنی تصنیف ''قرآن حکیم کے اردو تراجم'' میں مولوی اشرفعلی تھانوی کے اس مقدمے پرگفتگو کرتے ہوئے ص:283 پر رقمطراز ہیں:

    ''جن تراجم کے غیر اطمینان ہونے کی طرف مولانا نے اشارہ کیلئے اس میں ڈپٹی نذیر احمد دہلوی ، مرزا حسرت دہلوی اور سرسید احمد خاں کے ترجمے شامل ہیں۔ مولانا تھانوی مسلک میں روایتی عقائد کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ''


    مندرجہ بالا تحریر سے یہ بات سامنے آئی کہ اشرفعلی تھانوی نے اس لئے ترجمہ قرآن کی طرف توجہ کی کہ ان کے زمانے میں جتنے بھی ترجمہ قرآن تھے اولاً وہ معیاری نہ تھے۔ دوم، وہ قواعد شرعیہ کے خلاف تھے۔ قارئین کرام! احقر نے یہاں سات (7) مترجمین کا تعارف کروایا ہے اور ان سب کے ترجمہ سے متعلق مولوی اشرفعلی تھانوی کا تجزیہ میرے مقصد کی حمایت کرتاہے کہ یہ مترجمین ترجمہ قرآن کے اہل نہ تھے اور اس قسم کے تراجم سے مترجمین کی طرح لوگوں کے نظریات میں بھی تبدیلی آئی جس کے باعث فرقے بنتے چلے گئے اور وہ روح قرآن سے دور ہوتے چلے گئے۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ جن غیر معیاری اور خلاف قواعد تراجم کی نشاندہی مولوی اشرفعلی تھانوی اپنے مقدمے میں کررہے ہیں اسی قسم کی بے اعتدالیاں خود ان کے ترجمۂ قرآن میں پائی جاتی ہیں۔ کاش کہ وہ اپنے ترجمۂ قرآن کو بھی اسی نظر سے دیکھ لیتے جس طرح دوسرے تراجم کو دیکھا تھا تاکہ ان کا ترجمہ قرآن ان اغلاط سے پاک ہوجاتا جو پچھلے مترجمین کرچکے تھے۔


    مولوی اشرفعلی تھانوی کا ترجمہ قرآن اگرچہ پچھلے تراجم کے مقابلے میں زیادہ سلیس اور عام فہم ہے اور محاورات کا استعمال بھی قدرے کم اور کسی حد تک ضرورت کے مطابق ہے مگر آپ کا یہ ترجمہ توضیحی اور نثری زیادہ ہے۔ اس نہج کو بعد کے مترجمین نے اور آگے بڑھایا اور ترجمہ قرآن کے بجائے مفہوم القرآن اور پھر تفہیم القرآن کردیا۔

    مولوی اشرفعلی تھانوی نے اپنے ترجمۂ قرآن میں انبیاء کی عظمت کو اجاگر کرنے کے بجائے اتنا گرادیا کہ مسلمان کا دل لرزجائے مثلاً وہ نبی کو خطاکار (ص:574)، غافل (ص:360)، شریعت سے بے خبر (ص:481)، ایمان سے بے خبر (ص:551) تک لکھ دیتے ہیں۔ (مولوی اشرفعلی، ترجمہ قرآن، تاج کمپنی لمیٹڈ، کراچی)


    8۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی:

    مولانا احمد رضا خاں محمدی حنفی قادری برکاتی محدثِ بریلوی ابن مولانا مفتی محمد نقی علی خاں قادری برکاتی بریلوی (م 1297ھ/ 1880ھ) ابن مولانا مفتی محمد رضا علی خاں بریلوی (م1282ھ/ 1866ء) بریلی میں (1272ھ/ 1856ء) پیدا ہوئے اور 14 سال سے بھی کم عمر میں اپنے والد کے قائم کردہ مدرسہ ''مصباح العلوم'' سے 1286ھ میں فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ سلسلہ قادریہ میں شاہ اٰلِ رسول مارہروی (1296ھ) سے بیعت ہوئے اور والد صاحب کے ساتھ ہی پہلا حج 1295ھ میں ادا کیا جبکہ دوسرا حج 1324ھ میں ادا کیا۔ آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ دورِ طالبعلمی میں شروع کردیا تھا اور آخر عمر تک یہ مشغلہ جاری رہا جس کے باعث ایک ہزار سے زیادہ کتب تصنیف و تالیف فرمائیں جو اردو، فارسی اور عربی زبان پر مشتمل ہیں۔ آپ نے علومِ نقلیہ و عقلیہ کے تمام عنوانات پر قلمی رشحات یادگار چھوڑے ہیں جن میں سے 40فیصد زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ آپ کے قلمی رشحات میں سے چند کتب نے بہت زیادہ شہرت حاصل کی مثلاً:

    1۔ فتاویٰ رضویہ 12 مجلدات جس میں ہزاروں فتاویٰ کے علاوہ 150 سے زیادہ رسائل ہیں۔ یہ فتاویٰ تین زبانوں پر مشتمل ہے یعنی اردو، فارسی اور عربی جبکہ ایک فتوی انگریزی میں بھی ہے۔

    2۔ ترجمہ قرآن ''کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن'' جو آپ نے 1330ھ میں مکمل فرمایا۔

    3۔ حدائقِ بخشش نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا مجموعہ جس میں اردو زبان کا طویل ترین سلام ''مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام'' بھی ہے جو زمین کے ہر خطے میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

    4۔ کفل الفقیہ الفاہم فی قرطاس الدراھم۔ 5۔ الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ۔

    6۔ فوزِ مبین در ردِ حرکت زمین۔ 7۔ حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین۔

    8۔ جِد الممتار علی ردّ المحتار۔ 9۔ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت۔

    10۔ احکامِ شریعت وغیرہم

    مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی غیر معمولی صلاحیتوں کے پیشِ نظر آپ کے ہم عصر علمائے عرب و عجم نے آپ کو 1318ھ/1900ء میں 14ویں صدی ہجری کا مجددِ دین و ملت تسلیم کیا اور آپ کو مجدد مأتہ حاضرہ، امام، محدث، مجتہد، اور فقیہہ اعظمِ و وقت کا نابغہ روزگار تسلیم کیا گیا۔ آپ دنیائے اسلام میں امام احمد رضا اور اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی کے لقب سے زیادہ معروف ہوئے۔ آپ کی علمی کاوشیں گواہ ہیں کہ آپ اپنے زمانے کے ہر علم و فن پر دسترس رکھنے والے راسخ العلم عالم تھے اور اس اعتبار سے آپ کا کوئی مدّمقابل نہ آپ کے دور میں نہ ہی اس دور میں نظر آتاہے ،یہی وجہ ہے کہ آپ حضراتِ علماء کے درمیان اعلیٰ تسلیم ہوتے ہوئے اعلیٰ حضرت کے لقب سے پکارے گئے جو اب آپ کے نام کا حصہ بن چکا ہے۔


    9۔ ابو الکلام آزاد:

    آپ کا نام احمد تھا اور مکہ مکرمہ میں 1305ھ/ 1888ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدِ گرامی مولوی خیر الدین دہلوی (م1326ھ/ 1908ء) شاہ عبد الغنی دہلوی کی مسند پر ایک زمانے تک درسِ بخاری دیتے رہے۔ صوفی منش بزرگ تھے جن کے ہزارہا مرید کلکتہ اور دہلی میں آباد تھے۔ مولوی آزادصاحب نے دس برس کی عمر میں کلکتہ میں اپنے والد سے اردو، فارسی ادب کے علاوہ فقہ کی ابتدائی کتابیں بھی پڑھیں۔ ان کے علاوہ مولوی آزاد کے استادوں میں قابلِ ذکر نام مولوی نذیر الحسین امیٹھوی، مولوی سعادت حسین اور مولانا محمد شاہ رامپوری قابلِ ذکر ہیں۔


    ابتداء میں مولوی آزاد کی طبیعت کو ان علوم سے زیادہ رغبت نہ تھی چنانچہ موسیقی سے لگاؤ بڑھا اور مرزا محمد ہادی سودا سے فنِ موسیقی میں استفادہ کیا، ستار سے کافی پیار تھا یہاں تک کہ چاندنی راتوں میں ستار لے کر تاج محل چلے جاتے تھے۔


    مولوی آزاد نے لڑکپن میں شاعری کی طرف بھی رغبت رکھی اور اس فن کا شوق دلانے والے عبد الواحد سرامی تھے اور آزاد تخلص ان کے استاد ہی کا رکھا ہوا ہے۔


    مولوی آزاد اگرچہ بیک وقت کئی سمت میں قدم جماتے نظر آتے ہیں ، ایک طرف دینی تعلیم بھی حاصل کی اور دوسری طرف شاعری اور موسیقی سے بھی کافی حد تک لگاؤ رکھا مگر عملی زندگی کا آغاز صحافت کے میدان سے کیا۔ ماہانہ ''لسان الصدق'' جریدہ کی ادارت کے ساتھ ہی ادبی رسالہ ''مخزن'' مین مضامین لکھنا شروع کئے اور پھر جلد ہی 1902ء میں ''الہلال'' کے نام سے اپنا اخبار جاری کیا۔


    الہلال کے اجراء کے ساتھ ہی مولوی آزاد کا علمی اور سیاسی غلغلہ بلند ہوا اور جلد ہی سیاسی افق پر چھاگئے۔ الہلال کے بعد البلاغ، تحریک حزب اللہ اور تحریکِ خلافت اسی راہ کے اہم سنگ میل ہیں لیکن 1930ء کے بعد ابو الکلام آزاد جو تجدید و احیائے دین کے علمبردار تھے، متحدہ قومیت اور کانگریس سیکولرازم کے مبلغ بن گئے۔ ابو الکلام آزاد کا انتقال 1377ھ/ 1957ء میں ہوا اور دہلی کی جامع مسجد کے احاطے میں سپردِ خاک ہوئے۔


    اس سے قبل کہ راقم مولانا آزاد کے ''ترجمان القرآن'' پر کوئی تبصرہ کرے، مناسب سمجھتا ہوں کہ وقت کے مؤرخ جناب خورشید احمد صاحب کا تبصرہ جو انہوں نے مولانا آزاد کی تفسیر اور ترجمہ پر کیا ہے وہ یہاں پیش کروں۔ جناب خورشید احمد رقمطراز ہیں:

    ''صفاتِ باری تعالیٰ کی بحث میں وہ وقت کے مذہبی ارتقاء کے نظریات سے پوری طرح اپنے آپ کو نہ بچا سکے۔''


    ابو الکلام آزاد تفسیر کرتے وقت اپنی رائے کو اتنی اہمیت دے گئے کہ جو بات قرآن کے حوالے سے کوئی نہ کہہ سکا وہ آپ کے قلم سے سامنے آئی۔ آپ ادیان کی بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ''اسی طرح وحدتِ ادیان کی بحث میں بھی وہ ہندوستان کی فکر اور سیاسی مصلحتوں کو کلی طور پر نظر انداز نہ کرپائے اور یہ لکھ گئے کہ

    قرآن نے صرف یہ ہی نہیں بتایا کہ ہر مذہب میں سچائی ہے بلکہ صاف صاف کہہ دیا کہ تمام مذاہب سچے ہیں۔''

    (تاریخ ادبیات مسلمانانِ پاکستان وہند، جلد 10، ص ،295-296)


    مولانا آزاد نے ترجمہ قرآن کرتے وقت ایک نیا اسلوب اختیار کیا کہ لفظی، محاوراتی ترجمہ قرآن کی بجائے قرآن کریم کے الفاظ کے معنی و مطلب سمجھ لینے کے بعد اس کے مفہوم کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس اسلوب کو بعد میں مولوی غلام احمد پرویز اورابوالاعلی مودودی صاحب نے خاصا آگے بڑھایا جس کے باعث ترجمہ قرآن معنویت سے ہٹتا چلا گیا۔

    ان مترجمین قرآن نے متعدد مقامات پر آیاتِ قرآنی کا اپنی فہم کے مطابق (قرآنی فہم سے ہٹ کر) وہ مطلب بیان کیا جو متنِ قرآن سے دور ہی نہیں بلکہ متنِ قرآن کے مخالف تھا۔ مولانا آزاد نے کئی مقامات پر قرآن سے ہٹ کر آزاد ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے جو ترجمہ کرنے کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ ترجمہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لفظوں کو ایک نظم کے ساتھ دوسری زبان میں ڈھالا جائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر مترجم کی اپنی عقل اور رائے کا دخل لازم قرار پاتا ہے اور یہ ترجمہ قرآن کے لئے قابلِ قبول نہیں۔ چند تراجم ملاحظہ کریں:

    1۔ مسلمانو! صبر اور نماز (کی معنوی قوتوں) سے سہارا پکڑو۔ O (البقرۃ : 153)


    2۔ اے پیغمبر! کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے اس لشکر کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہاتھیوں کا ایک غول لے کر مکہ پر حملہ ہوا تھا؟ خدا نے ان کے تمام داؤ غلط نہیں کروائے اور ان پر عذاب کی نحوستوں کے غول نازل نہیں کئے؟ جنہوں نے انہیں سخت بربادی میں مبتلا کردیا جو ان کے لئے لکھ دی گئی تھی یہاں تک کہ پامال شدہ کیفیت کی طرح تباہ ہوگیا۔ ( سورۃ الفیل)


    ایک عالم جو عربی زبان اور قرآنی علوم پر دسترس رکھتا ہے وہ اس ترجمہ کے بعد یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ مترجم نے وہ بات کہہ دی ہے جو منشائے الٰہی نہیں اور اپنی فہم سے متنِ قرآنی کو بگاڑ دیا ہے۔اس ترجمہ سے یقینا ایک صحافتی ذہن کا پتہ تو چلتا ہے لیکن مصطفوی ذہن سے دور تک ہم آہنگی نظر نہیں آتی ہے۔لہٰذا فرق صاف ظاہر ہے۔


    10۔ ابو الاعلیٰ مودودی:

    آپ 3رجب المرجب 1321ھ/ 25ستمبر 1903ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے۔ 1914ء میں مولوی کا امتحان پاس کیا، اس کے بعد حیدرآباد کے ایک دارالعلوم میں داخلہ لیا مگر والد کے انتقال کے باعث تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ معاشی زندگی کا آغاز صحافتی پیشہ سے کیا اور اخبار ''مدینہ'' اور ''الجمعیۃ'' (دہلی) میں صحافی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ جلد ہی الجمعیۃ کے ایڈیٹر بھی بنادیئے گئے اور 1928ء تک کام کیا مگر جمعیت علمائے ہند کی کانگریس سے مفاہمت کی پالیسی کے اختلاف پر الجمعیۃ سے استعفیٰ دے دیا اور پھر خود حیدرآباد دکن سے 1932ء میں رسالہ ''ترجمان القرآن'' کا اجراء کیا۔

    مودودی صاحب کی زندگی کا ایک نیا دور ''ترجمان القرآن'' کی اشاعت سے شروع ہوتا ہے۔ بہت جلد آپ پنجاب منتقل ہوگئے اور 1932ء تا 1941ء اس کی اشاعت مسلسل جاری رہی اور ایک عشرے کے بعد آپ کے ہم خیال لوگوں کا 25اگست 1941ء میں اجتماع ہوا جہاں ''جماعتِ اسلامی'' نام سے ایک مذہبی جماعت کی بنیاد ڈالی گئی اور مودودی صاحب کو اس کا اول بانی امیر چنا گیا۔ آپ 41 سال تک جماعتِ اسلامی کے امیر رہے اور 1972ء میں امیر کی حیثیت سے استعفی دے دیا اور 22ستمبر 1979ء میں امریکہ کے ایک ہسپتال میں انتقال ہوا۔


    مودودی صاحب نے صحافتی پیشہ کے تجربہ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت آسان اور سادہ اسلوب میں ترجمۂ قرآن اور تفسیر لکھی ہے جو ایک کم علم انسان کے لئے عام فہم ضرور ہے مگر مترجم چونکہ بنیادی طور پر عربی زبان اور دینی علوم سے واقف نہیں اس لئے مترجم عربی تفاسیر ماثورہ اور احادیث کے عربی خزانے سے زیادہ استفادہ نہیں کرسکا جس کے باعث ان کا ترجمہ اور تفسیر اصل سے ہٹ کر تفسیر بالرائے بن گیا ہے اور خود مترجم اس کو تفہیم کہہ رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ ترجم منشائے الٰہی سے زیادہ فہمِ مودودی کا عکاس ہے جو یقینا دین کو سمجھنے میں نقصان دہ ہے اور ایک نئی فکر اور فرقہ کی بنیاد ہے۔ جناب مودودی اپنے مقدمہ میں خود ان باتوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن خدشات کا احقر نے اوپر اظہار کیا۔ وہ رقمطراز ہیں:

    ''میں نے اس قرآن کے الفاظ کو اردو جامہ پہنانے کے بجائے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کی ایک عبارت کو پڑھ کر جو مفہوم میری سمجھ میں آتا ہے اور جو اثر میرے دل پر پڑتا ہے، اسے حتی الامکان صحت کے ساتھ اپنی زبان میں منتقل کردوں۔


    آگے چل کر رقم طراز ہیں:

    ''اس طرح کے آزاد ترجمے کے لئے یہ تو بہرحال ناگزیر تھا کہ لفظی پابندیوں سے نکل کر ان کے مطالب کی جسارت کی جائے لیکن معاملہ کلامِ الٰہی کا تھا اسی لئے میں نے بہت ڈرتے ڈرتے ہی یہ آزادی برتی ہے''۔ (تفہیم القرآن، ج:1، دیباچہ، ص:11)


    جناب مودودی کے خود ان وضاحتی کلمات کے بعد ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ان کے ترجمہ یا تفسیر پر مزید اظہارِ خیال کیا جائے۔ جب وہ خود فرمارہے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کا جو مفہوم میری سمجھ میں آیا اور جس کو میرے دل نے قبول کیا، وہ تحریر کے ذریعہ منتقل کردیا اور اپنی مرضی مسلط کرنے کے لئے ڈرتے ڈرتے آزاد خیالی کی جسارت بھی کرلی جو منشائے الٰہی کے مخالف بھی تھی۔ لہٰذا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جناب مودودی کا ترجمۂ قرآن ''تفہیم القرآن'' خود مترجمِ قرآن کی اپنی قرآن فہمی کا عکاس ہے اصل قرآن کا ترجمان نہیں جبکہ کلامِ الٰہی کی منشائ، تفاسیر ماثورہ، اور احادیث نبوی کے بغیر ممکن نہیں۔ بغیر اس کی روشنی کے ہر ترجمہ تفسیر بالرائے ہوگا جو یقینا قرآن کے اصل کے خلاف ہوگااور پڑھنے والے کے بنیادی دینی واسلامی عقائد ونظریات کے لئے تباہ کن۔ مودودی صاحب نے جسارت کرتے ہوئے ایک جملے میں پچھلے تمام تفسیری اور احادیث کے ذخیرے کو اپنے ان الفاظ سے مسترد کردیا۔

    ''قرآن و سنت کی تعلیم سب پر مقدم ہے مگر قرآن و حدیث کے پرانے ذخیرے سے نہیں۔''


    جناب مودودی قرآن و سنت کے اس ذخیرے کو مسترد کرنے کی وجہ بھی خود بیان کردیتے ہیں۔ آپ رقمطراز ہیں:

    ''آپ کے نزدیک ہر اس روایت کو حدیثِ رسول مان لینا ضروری ہے جسے محدثین سند کے اعتبار سے صحیح قرار دیں لیکن ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں ہے۔ ہم سند کی صحت کو، حدیث کے صحیح ہونے کے لئے لازم دلیل نہیں سمجھتے۔''

    (رسائل و مسائل،ج:1، ص:229)


    اصولِ دین کا ہر طالبِ علم فنِ حدیث کے اس اصول کو سمجھتا ہے کہ کسی حدیث کی صحت کے لئے دو بنیادی چیزوں کی پڑتال ضروری ہے۔ اول اس کی ''سند'' اور دوم اس کا ''متن'' اور اگر سند درست ہے تو اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر حکم کا نفاذ ہوتا ہے مگر جناب مودودی صاحب اس اصول کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں اور سند کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں بلکہ خود ان کا فہم بنیادی اصول اور سند ہے کہ اگر ان کی عقل نے تسلیم کرلیا تو وہ حدیث صحیح ورنہ وہ حدیث اور قرآن کے مطالب قابلِ عمل نہیں۔




    امام احمد رضا اور ترجمہ کنز الایمان:

    امام احمد رضا کے ترجمۂ قرآن کنز الایمان کا تفصیل کے ساتھ علمی تعارف تو یہاں ممکن نہیں کہ مقالہ طول پکڑ جائے گا البتہ مختصر تعارف ضرور کروانا چاہوں گا تاکہ قارئین کرام، امام احمد رضا اور دیگر مترجمینِ قرآن کی صلاحیتیوں کا از خود تقابل کرسکیں۔


    امام احمد رضا خاں بریلوی کے ترجمہ قرآن (1330ھ) سے قبل کئی تراجم عوام میں متعارف ہوچکے تھے جن کی تعداد 25۔30 سے کم نہ تھی۔ شاہ برادران کے تراجم کے ساتھ ساتھ ڈپٹی نذیر احمد، سرسید احمد خاں، عاشق الٰہی میرٹھی، فتح محمد جالندھری، مولوی وحید الزمان، مولوی اشرفعلی تھانوی اور دیگر غیر معروف تراجم عوام الناس کے مطالعہ میں آرہے تھے جبکہ مولوی محمودالحسن دیوبندی، ابو الکلام آزاد کے تراجم قرآن کی اشاعت بھی برابر ہورہی تھی۔ قارئین کرام کو یہاں یہ ضرور بتاتا چلوں کہ یہ تمام مترجمین سوائے شاہ برادران کے اہلِ سنت وجماعت کے عقائد سے متفق نہ تھے۔ ان تراجم سے نت نئے عقائد اور نظریات سامنے آرہے تھے جس کے باعث عوامِ اہلِ سنت میں بے چینی بڑھ رہی تھی اور ضرورت اس امر کی تھی کہ اہلِ سنت و جماعت کے قدیمی عقائد اور نظریات رکھنے والاکوئی اہل اور مستند عالمِ ترجمہ قرآن کی خدمت سرانجام دے تاکہ مسلمانوں کے عقائد کو محفوظ اور مضبوط رکھا جاسکے۔ بیشتر تراجمِ قرآن مسلمانوں کے نظریاتِ الوہیت و شانِ رسالت کے خلاف تھے۔ یہ بات بھی قطعی طور پر فہم سے بالا تر ہے کہ یکے بعد دیگرے اتنی کثرت سے اردو زبان میں تراجمِ قرآن کی کیا ضرورت تھی جبکہ بنیادی طور پر امام احمد رضا کے ترجمۂ قرآن سے قبل کے اردو قرآنی مترجمین کی ذہنی و فکری اور عقائد میں کسی حد تک ہم آہنگی بھی تھی ۔امام احمدرضا کے بعد کے مترجمینِ قرآن کی اکثریت بھی اسی فکر کی داعی تھی کہ مسلمانوں کے ذہن و دل سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کو کم کیا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت و رسالت کی اہمیت و افضلیت کو بھی مشکوک کیا جائے۔ البتہ اردو زبان میں تراجمِ قرآن کی کثرت کے باعث اردو ادب کو الفاظ اور محاورات کا ایک بڑا ذخیرہ ضرور میسر آیا۔


    اکثر مترجمین نے اپنے جدید افکاروخیالات و نظریات کو تراجمِ قرآن میں ڈھالنے کی کوششیں کی ہیں جن کے باعث برصغیر میں نئے نئے فرقوں نے جنم لیا اور ترجمہ قرآن کے سہارے فروغ بھی پایا۔

    امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے برصغیر میں اس نازک صورتحال کے دیکھتے ہوئے اپنے احباب و خلفاء کے بے حد اصرار پر ترجمہ قرآن کا وعدہ فرمالیا اور کثیر تصنیفی مشغولیات کے باعث آپ نے اپنے ایک خلیفہ حضرت مولانا مفتی امجد علی اعظمی (م1368ھ/ 1948ء) سے گذارش کی کہ آپ میرے پاس کاغذ و قلم لے کر آجایا کریں، جیسے جیسے وقت ملے گا احقر قرآن کریم کا اردو ترجمہ لکھوادے گا چنانچہ اس عظیم کام کی ابتداء جمادی الاول 1329ھ میں ہوئی اور چند نشستوں میں وقفے وقفے سے یہ کام ہوتا رہا ۔مخطوطہ کے آخر میں جو تاریخ درج ہے وہ شب 28جمادی الآخر 1330ھ ہے جہاں امام احمد رضا خاں کے دستخط بھی ہیں۔ اس طرح 13 ماہ میں چند نشستوں میں یہ کام مکمل ہوا۔ سارا مخطوطہ علامہ مولانا امجد علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جس کے آخر میں امام احمد رضا کے دستخط موجود ہیں۔ اس مخطوطہ کی فوٹوکاپی ادارہئ تحقیقات امام احمدرضا کراچی کے کتب خانے میں محفوظ ہے۔ یہ ترجمۂ قرآن کیونکہ 1330ھ میں مکمل ہوا لہٰذا علمِ الاعداد کی بنیاد پر امام احمد رضا نے مندرجہ ذیل نام تجویز کیا:

    ''کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن''

    یہ ترجمہ قرآن مولانا احمد رضا کی حیات ہی میں شائع ہوگیا تھا۔ اس کے بعد مراد آباد سے یہ ترجمۂ قرآن مولانا نعیم الدین مراد آبادی (م1367ھ/ 1948ء) کے حاشیہ ''خزائن العرفان'' کے ساتھ شائع ہوا اور مسلسل 100 سال سے شائع ہورہا ہے۔ مولانا نعیم الدین مراد آبادی کے علاوہ کئی تفسیری حاشیہ اور تفاسیر اس ترجمہ کے ساتھ شائع ہورہی ہیں۔ مثلاً

    1۔ امداد الدیان فی تفسیر القرآن

    مولانا حشمت علی خاں قادری پیلی بھیتی (م1380ھ)

    2۔ احسن البیان لتفسیر القرآن

    مولانا عبد المصطفیٰ الازھری، کراچی (م1989ء)

    3۔ نور العرفان فی حاشیۃ القرآن

    مولانا مفتی احمد یار خاں نعیمی، گجرات (م 1391ھ/ 1971ء)

    4۔ خلاصۃ التفاسیر

    مولانا مفتی خلیل احمد میاں برکاتی، حیدر آباد، سندھ (م 1984ء)

    5۔ تفسیر الحسنات

    مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری، لاہور (م1980ء)

    7۔ فیوض الرحمن ترجمہ روح البیان

    مترجم اردو: مولانا محمد فیض احمد اویسی


    امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے ترجمۂ قرآن پر سیکڑوں اہلِ قلم کی مثبت رائے موجود ہیں جن کو یہاں پیش کرنا ناممکن ہے۔ میں یہاں ان چند اہلِ قلم کی رائے کو پیش کررہا ہوں جو عرف میں امام احمد رضا کی فکری اور ایمانی سوچ سے ہم آہنگی نہیں رکھتے مگر انہوں نے علم دوستی کے رشتے کے باعث جو اظہارِ خیال کیا وہ یہاں پیش کررہا ہوں، ملاحظہ کیجئے۔


    پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد جالندھری، (ڈائریکٹر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور) لکھتے ہیں:

    ''اردو زبان میں جن اہلِ علم نے ترجمے (قرآن) کئے، آدمی ان کی نیکی، اخلاص اور محنت کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تراجم کی اکثریت ایسی ہے جو قرآن مجید کے بے مثال ادبی و معنوی حسن کی ترجمانی نہیں کرتی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان خدا ترس اہلِ علم کو اردو زبان کے ادبی سرمایہ پر عبور حاصل نہیں تھا نیز یہ کہ ہر زبان کا اپنا اسلوب ہے جس کا ترجمہ ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ 'ذہب فلاں' [He went] لیکن اس کا ترجمہ اردو زبان میں شخصیت کے مقام و مرتبہ کے لحاظ رکھتے ہوئے جمع کے ساتھ کیا جائے گا مثلاً 'وہ تشریف لے گئے'۔ اگر کسی بڑی علمی و مذہبی، خاص طور پر پیغمبر کی ذاتِ گرامی کے ذکر میں عربی یا انگریزی سے ترجمہ مفرد ہی کیا جائے تو وہ ذوقِ سلیم پر گراں گزرے گا۔ چنانچہ ترجمہ اور تشریح میں ادب کا ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔''


    آگے چل کر ڈاکٹر جالندھری صاحب، امام احمد رضا کے ترجمۂ قرآن پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:

    ''گذشتہ دنوں جب مولانا عبد القیوم ہزاروی (مہتمم جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور) نے ازراہِ کرام مجھے مولانا احمد رضا خاں مرحوم کے ترجمہ قرآن کا تحفہ دیا تو خاکسار نے اس ترجمہ کو مقدور بھر غور سے پڑھا۔ اس ترجمہ کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ مولانا مرحوم نے ترجمہ قرآن میں اور حاملِ قرآن کے مقامِ بلند کے آداب کو نگاہ میں رکھا ہے اور آپ نے سورۃ والضحیٰ کی آیت ''ووجدک ضالا فہدی'' کا جو ترجمہ ''اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی'' کیا ہے، وہی زیادہ مناسب ہے''۔

    (مجلہ تعارف فتاویٰ رضویہ جدید، ص:٢١، باہتمام رضا فاؤنڈیشن، لاہور، 1993ء)

    جناب کوثر نیازی(سابق وفاقی وزیر اور سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل) سورہ والضحیٰ کی آیت ''ووجدک ضالا فہدی'' کے ترجمہ پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

    ''امام نے کیا عشق افروز اور ادب آموز ترجمہ کیا ہے! فرماتے ہیں:

    ''اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔''

    کیا ستم ہے فرقہ پرور لوگ رشدی (ملعون) کی لغویات پر تو زبان کھولنے سے اور عالمِ اسلام کے قدم بقدم کوئی کاروائی کرنے میں اس لئے تامل کریں کہ کہیں آقایانِ ولیِ نعمت ناراض نہ ہوجائیں مگر امام احمد رضا کے اس ایمان پرور ترجمہ پر پابندی لگادیں جو عشقِ رسول کا خزانہ اور معارفِ اسلامیہ کا گنجینہ ہے۔

    جنوں کا نام خرد رکھ دیا، خرد کا جنوں

    جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے"

    (کوثر نیازی، ''امام احمد رضا ایک ہمہ جہت شخصیت''، ص:19، مطبوعہ کراچی)


    پروفیسر امتیاز احمد سعید (م1993ء) (سابق ڈائریکٹر، وزارت مذہبی امور، حکومتِ پاکستان)، امام احمد رضا کے ترجمہ قرآن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

    ''یہ بات بلاتامل کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایسا ترجمہ قرآن ہے جس میں پہلی بار (دوسرے اردو تراجمِ قرآن کے مقابلے میں) اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ جب باری تعالیٰ کی ذات و صفات کا ذکر آئے تو ترجمہ کرتے وقت اس کی عظمت و جلالت، تقدس اور کبریائی ملحوظِ خاطر رہے۔ اسی طرح جب آیت میں حضور کا ذکر ہو تو ان کے مرتبے و مقام کو پیشِ نظر رکھا جائے۔''


    قارئین کرام! راقم اب چند آیاتِ قرآنی کے تراجم پیش کرررہا ہے جن کا تقابل امام احمد رضا کے ترجمہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ انتہائی اختصار کے ساتھ اس تقابلی جائزہ پر اظہارِ خیال ضرور کروں گا مگر اس کا نتیجہ پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔ وہ خود تجزیہ کرلیں کہ کس کا ترجمہ قرآن ان کو منشائے الٰہی سے قریب تر محسوس ہوتا ہے اور جو ترجمہ منشائے الٰہی اور تفسیر ماثور سے قریب تر ہوں، وہی ترجمہ بھی قابلِ تقلید اور قابلِ مطالعہ ہے۔ باقی تراجم سے پھر پرہیز کرنا ضروری ہوگا کہ وہ ہمارے ایمان کو بگاڑ سکتا ہے اور ہم کو قرآن اور صاحبِ قرآن سے دور کرسکتا ہے۔

    1۔ سرسید احمد کا ترجمہ قرآن:

    1) قُلْ اَرَءَ یتَکُم إِنْ أَتٰکُم عَذَابُ اللّہِ أَوْ أَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ أَغَیْرَ اللّہِ تَدْعُونَ إِن کُنتُمْ صٰدِقِینَO (الانعام: 40)

    ''کہ (اے پیغمبر!) کیا دیکھاہے تم نے اپنے لئے اگر تم پر اللہ کا عذاب آوے یا تم پر بری گھڑی آوے، کیا خدا کے سوا اور کسی کو پکارو گے اگر تم سچے ہو۔''

    (جلد سوم، ص:13)


    قارئین کرام!غور کا مقام ہے کیا اللہ تعالیٰ یہ خطاب نبی سے فرمارہا ہے؟ یا نبی کے ذریعہ کفار اور مشرکین سے خطاب ہے؟ اور اس ترجمہ کے بعد کیا کم علم مسلمان یہ عقیدہ اختیار نہیں کرے گا کہ نبی بھی (معاذ اللہ) خدا کے علاوہ کسی اور کو مدد کے لئے پکار سکتے ہیں اور پھر ان پر اللہ کا عذاب آسکتا ہے۔ اگرچہ بعض روایات کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رسول دنیا میں آئے لیکن الحمدللہ کسی پر نہ عذاب آیا اور نہ کبھی کسی نبی نے عذابِ الٰہی کو معاذ اللہ احکام خداوندی کی خلاف ورزی کرکے دعوت دی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مترجم یومِ قیامت پر یقین نہیں رکھتے اس لئے وہ قیامت کو'' بری گھڑی'' تعبیر کرکے یومِ آخرت پر بھیلوگوں کا ایمان متزلزل کررہے ہیں۔


    ملاحظہ کیجئے صحیح ترجمہ قرآن:

    ''تم فرماؤ! بھلا بتاؤ تو اگر تم پر اللہ کا عذاب آئے یا قیامت قائم ہو، کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکاروگے اگر سچے ہو۔''

    (کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن)

    سرسید احمد خاں کا ایک اور آیت کا ترجمہ ملاحظہ کریں:

    2) قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰۤ أَنْ یَّاتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْ تُوْنَ بِمِثْلِہ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیرًا O (اسریٰ: 88)

    ''یعنی کہہ دے اے پیغمبر! اگر جمع ہوجاویں اس یعنی ''شہروں کے رہنے والے'' اور ''جن یعنی بدو'' جو خالص عربی زبان جاننے والے تھے، اس بات پر کہ کوئی چیز اس قرآن کی مانند لادیں تو اس کی مانند نہ لاسکیں گے اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار ہوں۔'' (جلد ششم، ص:138)


    قارئین کرام! اس ترجمے سے ایک نیا عقیدہ سامنے آیا کہ قرآن نے لفظ ''جن'' دیہاتی لوگوں (یعنی بدو جو خالص عربی زبان جانتے ہیں) کے لئے استعمال کیا ہے جبکہ قرآن نے ''جِن'' کو ایک الگ مخلوق بتایا ہے جو آگ سے پیدا کی گئی ہے اور ان کا سردار ابلیس قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن نے ارشاد فرمایا:

    وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ (الرحمن:15)

    '' اور جن کو پیدا فرمایا آگ کے لوکے سے''


    وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاہُ مِن قَبْلُ مِن نَّارِ السَّمُومِ (الحجر:٢٧)

    ''اور جن کو اس سے پہلے بنایا بے دھویں کی آگ سے۔ ''


    محسوس یہ ہوتا ہے کہ مترجم اس مخلوق کی تخلیق کے قائل نہیں اس لحاظ سے یقینا وہ ابلیس کے وجود کے قائل بھی نہیں ہوں گے اور ان کا اس مخلوق سے انکار حقیقتاً قرآن کی منشاء الٰہی کا انکار ہوگا۔ فیصلہ قارئین خود فرمائیں۔ صحیح ترجمہ ملاحظہ کریں:


    ''تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لاسکیں گے اگرچہ ان میں ایک دوسرے کا مددگار ہو۔'' (ترجمہ کنز الایمان)

    آخر میں مولوی عبد الحق حقانی، مصنف ''تفسیر فتح المنان'' کی رائے کو پیش کررہا ہوں جو انہوں نے سرسید احمد کے ترجمہ اور تفسیر سے متعلق اپنے مقدمہ قرآن میں لکھی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:


    ''تفسیر القرآن، آنر ایبل سید احمد خاں بہادردہلوی کی تصنیف ہنوز ناتمام ہے۔ اس شخص نے ترجمہ شاہ عبد القادر کو ذرا بدل کر ترجمہ لکھا ہے اور باقی اپنے خیالاتِ باطلہ کو جو ملحدینِ یورپ سے حاصل کئے ہیں اور جن کا اتباع، ان کے نزدیک ترقی، قومی اور فلاحِ اسلام ہے اور بے مناسب آیات و احادیث و اقوال علماء کو اپنی تائید میں لاکر الہامِ الٰہی کو تحریف کیا ہے۔ دراصل یہ کتاب تحریف قرآن ہے اور خاں بہادر کی اسی بے باکی اور الحاد کی وجہ سے تمام ہندوستان کے علماء نے تکفیر کا فتویٰ دیا ہے۔''


    2۔ عاشق الٰہی میرٹھی کا ترجمہ قرآن:

    اللّٰہُ یَسْتَہْزِءُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ O (البقرۃ: 15)

    ترجمہ: ''اللہ ہنسی کرتا ہے ان کے ساتھ اور ان کو ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بہکے پھریں۔''


    قارئین کرام! کیا کسی کا ہنسی مذاق اڑانا شریعت میں جائز ہے؟ نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے لئے اس عمل کو لکھنا کیونکر جائز ہوگا جیسا کہ مولوی عاشق الٰہی میرٹھی لکھ رہے کہ ''اللہ ہنسی کرتا ہے''۔ ایک عربی دان تو یہ سمجھتا ہے کہ یہ جملہ عربی قواعد کے مطابق ہے کہ صنعت مشاکلت میں کسی بھی جرم کی سزا کے لئے بھی انہی الفاظ مین جواب دیا جاتا ہے مگر دونوں کے معنی میں فرق ہوتا ہے۔ مثلاً استہزیٰ کے معنی مذاق اڑانا یا ہنسی اڑانا ہے لیکن یہاں جب اللہ کے لئے یہ لفظ استعمال ہوگا تو اس کے معنی ہوں گے کہ وہ ہنسی اڑانے کی سزا ان کو دے گا مگر جب اس کا اردو ترجمہ کیا جائے گا تو یہ ضرور دیکھا جائے کہ جرم کون کررہا ہے اور سزا کون دے رہا ہے، اس کی مناسبت سے اردو میں ترجمہ کرنا چاہئے ورنہ یہ صریح اللہ کی صفت میں بے ادبی اور گستاخی قرار پائے گا۔ مولانا احمد رضا کا ترجمہ ملاحظہ کریں:

    ''اللہ ان سے استہزیٰ فرماتا ہے (جیسا اس کی شان کے لائق ہے) اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔''

    امام احمد رضا نے یہاں لفظ ''استہزأ'' کا اردو زبان میں ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ اس کو متشابہ خیال کرتے ہوئے اور صفت مشاکلت کو مدنظر رکھتے ہوئے احتیاط برتی ہے اور استہزأ کو اس کی شان کے لائق کہہ کر چھوڑ دیا۔

    وَعَصٰی آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی (طہ:121)

    ''اور آدم نے نافرمانی کی پس گمراہ ہوئے۔''

    اس ترجمہ کو پڑھنے کے بعد ایک عام مسلمان یقینا یہ عقیدہ قائم کرے گا کہ انبیاء کرام بھی (معاذ اللہ) گمراہ گذرے ہیں، ان سے بھی خطائیں اور گناہ سرزد ہوئے ہیں، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی دنیا میں نافرمانی کرتے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ نبوت اور رسالت پر درست عقیدہ ہے یا کسی نئے عقیدے کی بنیاد رکھی جارہی ہے؟ صحیح ترجمہ ملاحظہ کیجئے:

    ''اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔'' (امام احمد رضا)


    قارئین کرام! مولوی عاشق الٰہی میرٹھی سب سے کم سن اردو مترجمِ قرآن ہیں۔ انہوں نے اپنی عمر کے 21ویں سال میں ترجمہ کیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی علمیت ابھی ابتدائی دور میں ہو وہ اپنے دورِ طالبِ علمی میں ہی ایسا کام کردے جو مفسرین اپنی زندگی کے آخری ایام میں انجام دیتے ہیں جب کہ وہ علمی اعتبار سے بہت پختہ ہوجاتے ہیں لہٰذا کم عمری میں ترجمہ کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔


    3۔ مولوی فتح محمد جالندھری کا ترجمہ قرآن:

    1) الْحَقُّ مِن رَّبِّکَ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِینَ (البقرۃ:147)

    ترجمہ: ''(اے پیغمبر! یہ نیا قبلہ) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔''

    قارئین کرام! کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ خطاب یا ایسا انداز اللہ تعالیٰ کا اپنے چنے ہوئے برگزیدہ بندے یعنی نبی یا رسول سے ہوگا پھریا نبی کے ذریعہ بندوں سے ہوگا؟ یہ حقیقت ہے کہ اللہ کے احکامات نبی کے ذریعے ہی بندوں تک پہنچتے ہیں مگر مولوی فتح محمد صاحب نے اس خطاب کو خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیرکر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ (معاذ اللہ) نبیؐ کو اللہ کے احکامات میں شبہ رہتا تھا اس لئے اللہ نے ان کو تنبیہ فرمائی کہ ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

    ''(اے سننے والے!) یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے تو خبردار شک نہ کرنا۔''

    (امام احمد رضا)


    2) وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْا ئَ نْعَامِ لَعِبْرَۃً نُّسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُونِہ مِنْ مبَیْنِ فَرْثٍ وّدَمٍ لَّبَناً خَالِصاً سَآئِغاً لِّلشَّارِبِینَO (النحل:66)

    ترجمہ:''اور تمہارے لئے چارپایوں میں بھی (مقام) عبرت (غور) ہے کہ ان کے پیٹوں میں جو گوبر اور لہو ہے، اس سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں، جو پینے والوں کے لئے خوشگوار ہے۔''


    قارئین کرام! ذرا غور فرمایئے کہ کہ مترجم نے جلدبازی میں مندرجہ بالا آیات کا کیا ترجمہ کیا ہے؟ غالباً مترجم عربی زبان سے زیادہ واقف کار نہیں اور اس کو اس عمل کی بھی خبر نہیں کہ دودھ بننے کا عمل کس طرح پیٹ کے اندر ہوتا ہے۔ بظاہر اس کا مطلب یہ ہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون سے دودھ بناتا ہے جو ہم پیتے ہیں۔ مقامِ تعجب ہوگا کہ جس چیز کو وہ حرام قرار دے رہا ہے یعنی گوبر اور خون، اسی سے ایک غذا بناکر ہم کو پلارہا ہے۔ کاش کہ مترجم دیگر علوم بھی جانتے ہوتے کہ یہ دودھ کب اور کس طرح ماں کے پیٹ میں بنتا ہے یا پھر عربی زبان پر اچھا عبور ہوتا یا کم از کم عربی تفاسیر اور احادیث دیکھ لیتے۔ آیت کریمہ میں لفظ ''بین'' موجود ہے جو کہ درمیانی کیفیت بتارہا ہے کہ جب کوئی چوپایا یا عورت غذا کھاتے ہیں تو معدے میں جاکر اس کے ہاضمہ کا عمل شروع ہوجاتا ہے، اس دوران خون بنتا ہے، جو دل کے ذریعہ نالیوں میں چلا جاتا ہے اور فضلہ اپنے راستے سے خارج ہوجاتا ہے۔ اللہ کی قدرت یہ ہے کہ جب غذا ہاضمہ کے درمیان ہوتی ہے تو اس کے خون اور گوبر بننے سے پہلے اس میں سے دودھ کو کھینچ کر نالیوں کے ذریعہ تھنوں/ پستانوں میں پہنچادیتا ہے اور پھر بنا ہوا خون بقیہ خون میں شامل ہوجاتا ہے نہ کہ گوبر اور خون سے دودھ بنا۔ آیئے صحیح ترجمہ دیکھیں:


    ''اور بے شک تمہارے لئے چوپایوں میں نگاہ حاصل ہونے کی جگہ ہے۔ ہم تمہیں پلاتے ہیں اس چیز میں سے جو ان کے پیٹ میں گوبر اور خون کے ''بیچ'' میں سے ''خالص دودھ'' سہل اترتا ہے پینے والوں کے لئے۔'' (امام احمد رضا)


    4۔ نواب وحید الزمان کا ترجمہ قرآن:

    1) نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُواْ حَرْثَکُمْ أَنّٰی شِئْتُمْ وَقَدِّمُواْ لِأَنْفُسِکُمْ ؕ(البقرۃ:223)

    ترجمہ: ''عورتیں کھیتی ہیں تمہاری اپنی کھیتی میں جس طرح سے (یا جہاں سے) چاہو آؤ۔''

    مولوی وحید الزمان نے اس مقام پر نصِ قرآن کے مسئلہ جماع کے خلاف ترجمہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کھیتی ضرور بنایالیکن اس کھیتی میں یہ نہیں فرمایا کہ جہاں سے بھی چاہو، صرف ایک مقام کی اجازت ہے اور کسی مقام سے آنے کی اجازت نہیں کہ فرج کے علاوہ دبر سے بھی داخل ہوجاؤ جبکہ احادیث میں بھی دبر سے داخلے پر سخت وعید بتائی گئی ہے۔ نواب صاحب نہ جانے کیوں اس جگہ سے اجازت دے رہے ہیں جہاں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ ایک حدیث بھی ملاحظہ کیجئے:

    ان اللہ لایستحی من الحق ثلاث مرات لاتاتوا النسآء فی ادبارہن

    (ابن ماجہ، ج:1، حدیث 1992)

    ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ حق بات کہنے سے حیا نہیں کرتا۔ عورتوں سے ان کے پیچھے کی جگہ میں جماع نہ کرو۔ آپ نے یہ بات تین بار فرمائی۔

    اب ملاحظہ کریں، صحیح ترجمہ: ''تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں تو آؤ اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو اور اپنے بھلے کا کام پہلے کرو۔'' (کنزالایمان)


    2)وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْ أَن یُّلْقٰۤی إِلَیْکَ الْکِتَابُ إِلَّا رَحْمَۃً مِّن رَّبِّکَ فَلَا تَکُونَنَّ ظَہِیراً لِّلْکَافِرِینَO (القصص:86)

    ترجمہ: ''اور (اے پیغمبر!) تجھ کو یہ امید کہاں تھی کہ تجھ پر کتاب اترے گی مگر یہ تو تیرے مالک کی مہربانی ہوئی کہ تجھ پر قرآن شریف اترا۔''


    اگر یہ خطاب نبی سے ہے کہ اس کو خبر ہی نہیں اور نہ اس قسم کی امید کہ مجھ پر وحی اترے گی تو پھر وہ نبی کہاں رہا؟ جب کہ سورہئ اٰلِ عمران میں اللہ تعالیٰ روزِ میثاق کی آیات میں تمام انبیاء کو ان کی ذمہ داری بتا رہا ہے اور ان سے گواہی لے رہا ہے کہ جب تم کو کتاب دوں اور یہ نبی تشریف لے آئے تو ان کی ضرور ضرور مدد کرنا۔ ملاحظہ کیجئے، ارشادِ باری تعالیٰ :

    ''اور یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔''

    (اٰلِ عمران:81) کنز الایمان

    قارئین! اب غور کریں کہ مترجم یا تو اپنی کم علمی کا مظاہرہ کررہے ہیں،یا پھر نبوت کے متعلق کوئی نیا عقیدہ دینا چاہتے ہیں جس میں نبی کو خود اپنے متعلق خبر نہیں کہ وہ نبی ہے اور نہ اس بات کی خبر کہ وحی کے ذریعہ اس کو کوئی کتاب ملے گی یا پھر مترجم قرآن کریم کو صحیح سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ یہ خطاب کس سے ہے اور اگر ایک آیت قبل سے اس کو ملائیں تو بات اور واضح طور پر سمجھ میں آجاتی ہے کہ عام لوگوں سے خطاب ہے اور آپ سے کہا جارہا ہے کہ قل:

    قُل رَّبِّی أَعْلَمُ مَن جَآءَ بِالْہُدٰی وَمَنْ ہُوَ فِی ضَلٰلٍ مُّبِینٍO (القصص:85)

    ترجمہ: ''تم فرماؤ میرا رب خوب جانتا ہے اسے جو ہدایت لایا اور جو کھلی گمراہی میں ہیں۔'' (کنز الایمان)


    یہ خطاب ان لوگوں سے خاص کر مکہ کے کافروں، مشرکوں سے ہے کہ جن سے کہا جارہا ہے کہ:

    ''تم امید نہ رکھتے تھے کہ کتاب تم پر بھیجی جائے گی، ہاں تمہارے رب نے رحمت فرمائی۔'' (کنز الایمان)


    قارئین کرام! آپ خود ہی تجزیہ کریں کہ اس قسم کے تراجم سے ملت کو کتنا نقصان ہوا ہوگا اور یہ ترجمہ آپ کو نئے فرقے کی بنیاد نظر آرہا ہوگا کہ نبی کو خبر ہی نہیں۔ یعنی نبی جانتا ہی نہیں کہ اس کے پاس وحی آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم کو سیدھی راہ چلائے۔


    5۔ مولوی اشرفعلی تھانوی کا ترجمہ قرآن:

    1) وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَآءَ ہُم مِّن م بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّکَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِینَO (البقرۃ: 145)

    ترجمہ: ''اور اگر آپ ان کے (ان) نفسانی خیالات کو اختیار کریں (اور وہ بھی) آپ کے پاس علم (وحی) آئے پیچھے تو یقینا آپ ظالموں میں شمار ہونے لگیں۔''

    (ترجمہ اشرفعلی تھانوی)


    قارئین کرام! اس ترجمہ کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ (معاذ اللہ) سب سے زیادہ خطرہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نبی سے ہے کہ کہیں وہ نفسانی خواہشات نہ کرنے لگیں، وحی کے پیغام کے باوجود وہ نافرمانی کرنے لگے اور گناہ کرکے اپنے اوپر ظلم کرے۔ سوال یہ پیدا ہوگا کہ نبی کیا ہدایت یافتہ نہیں ہوتا؟ اوراللہ تعالیٰ اس کی حفاظت نہیں فرماتا؟ اور ساتھ ہی یہ بات ذہن میں آئے گی کہ کتاب اللہ کیا نبی کی ہدایت کے لئے نازل ہوتی ہے یا عام لوگوں کی ہدایت کے لئے؟ اور اگر (معاذ اللہ) ایسا ہی ہے جیسا مترجم ترجمہ کررہا ہے تو پھر بشمول نبی کوئی بھی پیروی کرنے کے لائق اسوہ نہ ہوگا۔ جبکہ یہ ہی قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ارشاد فرمارہا ہے:


    لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ (الاحزاب:21)

    ترجمہ: ''بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔'' (کنز الایمان)


    سورہ بقرہ کی اس آیت میں مخاطب دراصل وہ منکرین ہیں جو قرآن کی تعلیم کو جھٹلارہے تھے اور خاص کر یہودیوں سے خطاب کہ وہ قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کررہے تھے۔ اس آیت کو اس کے پچھلے حصے کے ساتھ ملاکر ترجمہ پڑھیں پھر سمجھ میں آتا ہے کہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یا رسول کے ذریعہ عام انسانوں سے اور بالخصوص منکرینِ قرآن سے ہے:


    ''اور اگر تم ان کتابیوں کے پاس ہر نشانی لے کر آؤ، وہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرو اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کے تابع نہیں۔''


    ''اور (اے سننے والے کسے باشد!) اگر تو ان کی خواہشوں پر چلا، بعد اس کے کہ تجھے علم مل چکا تو اس وقت تو ضرور ستم گار ہوگا۔'' (کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن)


    آگے ان یہودیوں کے متعلق مزید ارشاد ہورہا ہے کہ یہ لوگ نبی کو اچھی طرح پہچانتے ہیں جیساکہ اگلی آیت میں ارشاد ربانی ہے:


    ''اور جن کو ہم نے کتاب دی، وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے آدمی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے۔'' (البقرۃ: 146)


    اب آپ خود یہ فیصلہ کریں کہ یہ خطاب حضور سے تھا یا منکرین سے مگر مترجم قرآن نے اس نافرمانی کو نبی کی طرف لوٹا کر مسلمانوں کے عقیدہ ''عصمتِ انبیاء'' کو متزلزل کردیا ہے۔ مولوی اشرفعلی تھانوی کے ترجمہ قرآن سے ایک اور آیت کا ترجمہ ملا حظہ کریں:


    2) وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی (الضحیٰ:7)

    ترجمہ: ''اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شریعت سے) بے خبر پایا سو آپ کو شریعت کا رستہ بتلادیا۔'' (مولوی اشرفعلی تھانوی)


    قارئین کرام! ہم میں اور نبی میں کیا فرق رہا کہ ہم یقینا شریعت سے بے خبر ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمادیتا ہے تو ہم شریعت کے مطابق اعمال کو ڈھالنے لگتے ہیں،کیا نبی بھی (معاذ اللہ) ہماری طرح اللہ کا نافرمان اور اللہ سے بے خبر ہوتا ہے۔ یہ کونسا دین ہے کہ جس کا سربراہ بھی بے خبر جبکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے:


    یٰۤا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنٰکَ شَاہِداً وَمُبَشِّراً وَّنَذِیراًO وَّدَاعِیاً إِلَی اللَّہِ بِإِذْنِہ وَسِرَاجاً مُّنِیراً O (الاحزاب:46)

    ترجمہ: ''اے غیب کی خبریں دینے والے (نبی)! بے شک ہم نے تمہیں بھیجا، حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب۔''


    اور سورۃ الفتح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِینِ الْحَقّ (الفتح:28)

    ترجمہ: ''وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا۔''


    مولوی اشرفعلی تھانوی کے مندرجہ بالا آیت کے ترجمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دین مذہب میں نبی کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اور اتنا بڑا الزام لگانے سے بھی نہیں چونکتے کہ نبی (معاذ اللہ) شریعت ہی سے بے خبر تھا اور یہ خیال نہ کیا کہ نبی ایک لمحہ بھی اگر اللہ سے غافل ہوجائے تو وہ منصبِ نبوت کا اہل نہیں رہتا جبکہ ہر نبی پیدائشی نبی ہوتا ہے۔ حقیقت میں مولوی اشرفعلی نے آیت کے سیاق و سباق ہی کو نہ دیکھا اور نہ سمجھا اگر چند تفاسیر ماثورہ دیکھ لیتے توشاید ایسا ترجمہ کرنے کی جسارات نہ کرتے۔ تفاسیر کی روشنی میں اور نبوت کے منصب کو سامنے رکھتے ہوئے جو محتاط ترجمہ ہوسکتا ہے، اس کو مولانا احمد رضا نے یوں فرمایا ہے:

    ''اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔'' (کنزالایمان)


    جگہ جگہ قرآن کریم میں نبی کا جو منصب اللہ نے بیان فرمایا ہے، مولوی اشرفعلی تھانوی اس کو ترجمہ میں ڈھالتے وقت بدل ڈالتے ہیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ کیجئے جس میں اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالمین کے لئے مطلق رحمت بنانے کا اعلان فرمایا مگر مولوی اشرفعلی تھانوی اپنے قلمی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے روحِ قرآن کے برخلاف ترجمہ کرتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:

    وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنO (الانبیاء:107)

    ترجمہ: ''اور ہم نے (اپنے مضامین نافع دے کر) آپ کو کسی بات کے واسطے نہیں بھیجا مگر دنیا جہاں کے لوگوں (مکلفین) پر مہربانی کے لئے۔'' (مولوی اشرفعلی)


    اور صحیح ترجمہ ملاحظہ کیجئے:

    ''اور ہم نے تمہیںنہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔'' (ترجمہ کنز الایمان)


    6۔ مولوی محمود الحسن دیوبندی کا ترجمہ قرآن:

    1) أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّہُ الَّذِینَ جَاہَدُواْ مِنکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِینَ (آل عمران:142)

    ترجمہ: ''اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں اور معلوم نہیں کیا ثابت قدم رہنے والوں کو۔'' (محمود الحسن)


    اس ترجمہ کو پڑھنے کے بعد ایک انسان اپنا عقیدہ یہ بنائے گا کہ اللہ تعالیٰ کا علم بھی (معاذ اللہ) ناقص ہے کہ اس کو ہر آن، ہر بات کا علم نہیں، اس کو مستقبل کے معاملات کا علم نہیں، اس کو انسانوں کے ارادوں کا علم نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور مترجم نے شاید پورے قرآن کا مطالعہ بھی نہیں کیا جس میں خود باری تعالیٰ کے علم کا ذکر متعدد آیات میں موجود ہے مثلاً وہ ''علام الغیوب''ہے، ''اعلم الغیب والشاہدہ''ہے، ''وللہ غیب السموت والارض'' وغیرہ وغیرہ۔


    یہ بات عقل سے بالاتر ہے کہ ایک عالم جو باقاعدہ دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہے، عربی زبان و ادب کا سمجھنے والا ہے، درس و تدریس سے اس کا تعلق ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے علم سے متعلق ایسا جملہ لکھ دیتا ہے کہ جس سے خالق اور بندہ کا علم برابر محسوس ہوتا ہے (معاذ اللہ)۔ لگتا یہی ہے کہ مترجم نہ تو عربی زبان کی وسعت سے بھرپور واقف اور نہ ہی وہ لفظ ''حسب'' کے معنی سے واقف ہوسکا۔ آیئے مولانا احمد رضا بریلوی کے ترجمہ کو ملاحظہ کریں جس میں عظمتِ خداوندی اور علمِ قدرت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے:

    ''کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤگے اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں کی آزمائش کی۔'' (کنزالایمان)


    2) إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیناً O لِّیَغْفِرَلَکَ اللَّہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَمنبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہ، عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطاً مُّسْتَقِیماً O (الفتح:2)

    ترجمہ: ''ہم نے فیصلہ کردیا تیرے واسطے صریح فیصلہ۔ تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوچکے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے۔''


    قارئین کرام! سورہ فتح کی اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ صلح حدیبیہ سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فتحِ مکہ کی بشارت دے رہا ہے کہ جلد ہی مکہ فتح ہوجائے گا مگر مترجم قرآن مولوی محمود الحسن دیوبندی نے اس آیت کے ترجمہ کا رخ ہی بدل دیا کہ اللہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کردے گا۔ اس ترجمہ سے کسی کو بھی فتحِ مکہ کی نشاندہی نہ ہوگی مگر نبی کے گناہوں کی معافی کا اعلان اس کا عقیدہ بن جائے گا جو عقیدہ عصمتِ نبوت کے خلاف ہے۔ کیا یہ بات نبی کے لئے معیوب نہ ہوگی کہ امتیوں کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی نہ صرف نشاندہی کرے بلکہ اس کے مستقبل میں ہونے والے گناہوں کا بھی ذکر کرے اور پھر معافی کا اعلان کردے۔ کیا ترجمہ سے نبی کی امت کے سامنے توہین نہ ہوئی جب کہ وہ خود ستار ہے، عیبوں کو چھپانے والا ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ امتیوں کے سامنے اپنے نبی کے عیبوں کو، گناہوں کو ظاہر کرے اور پھر معافی کا اعلان کرے۔ یہ بات امت کے لئے تو فخر کی ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کی دعا آپ کی امت کے حق میں قبول کرتے ہوئے ان کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو معاف کردے اور یقینا یہ صریح فیصلہ امت کے لئے بہت بڑی کامیابی اور نبی کے لئے بہت خوشی کا باعث ہوگا۔ ملاحظہ کریں وہ ترجمہ جو منشاء الٰہی سے قریب تر ہے۔


    ''بے شک ہم نے تمہارے لئے روشن فتح دی۔ تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں اور تمہارے پچھلوں کے۔'' (کنز الایمان)


    نوٹ: ''سورۃ فتح کی اس آیت میں ''ذنب'' کے موضوع پر کئی محقق نے مقالات تحریر کئے ہیں جس میں ثابت کیا ہے کہ یہاں ذنب نبی کی طرف منسوب نہیں ہے بلکہ نبی کی خاطر اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے امتیوںکی گناہ کی معافی کا اعلان کیا۔ اس موضوع پر ایک انتہائی مدلل تصنیف مولانا محمد شاہ حسین گردیزی مدظلہ کی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔''



    7۔ ابو الکلام آزاد کا ترجمہ قرآن:

    1) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجاً وَّذُرِّیَّۃًؕ (سورۃ الرعد:38)

    ترجمہ: ''اور یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے بھی (بے شمار) پیغمبر قوموں میں پیدا کئے (اور وہ تیری ہی طرح انسان تھے) ہم نے انہیں بیویاں دی تھیں اور اولاد بھی۔'' (ابو الکلام آزاد)


    آیت کے اندر ایسے کوئی کلمات ہی نہیں جن سے یہ معنی نکلیں (اور وہ تیری ہی طرح انسان تھے)۔ یہ دراصل مترجم کی طرف سے اضافہ ہے۔ جب یہاں کوئی مماثلت کی بات ہی نہیں کی جارہی تو اردو ترجمہ پڑھنے والوں کو کیوں غلط راہ دکھائی جارہی ہے۔ مترجم کو شاید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور منصب سے لگاؤ نہیں، اس لئے پڑھنے والوں کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ رسول کا نام آتے ہی یہ خیال مت کرنا کہ وہ کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں بلکہ ان کو اپنا جیسا ہی انسان سمجھنا جب کہ یہ منظرکشی قرآن کے خلاف ہے۔نبوت و رسالت جن انسانوں کے لئے اللہ نے منتخب فرمائی، وہ دیکھنے میں ضرور ہماری طرح کے انسان ہیں لیکن ان کے ساتھ مماثلت ممکن ہی نہیں کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے:

    مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُّؤْتِیَہُ اللّہُ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ۔۔۔ (اٰل عمران: 79)

    ''کسی آدمی کا یہ حق نہیں کہ اللہ اُسے کتاب اور حکم اور پیغمبری دے۔'' (کنزالایمان)


    امام احمد رضا کا ترجمہ سورۂ رعد کی مندرجہ بالا آیت سے متعلق ملاحظہ کیجئے:

    ''اور بے شک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لئے بیبیاں اور بچے کئے۔''

    جن کو اللہ نے پیغمبری دی، پھر وہ ہماری طرح کے انسان نہ رہے کہ اللہ کے ساتھ انبیاء کا بلاواسطہ رابطہ ہوتا ہے اور ہم انسان نہ اس کو دیکھ سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں اور نہ ہی بلا واسطہ اس کو پہچان سکتے ہیں، سوائے نبی کے واسطے کے۔ اس لئے انبیاء کی انسانیت ہم سے بلند و بالا اور عقل سے ورا ہے۔

    2) لَعَمْرُکَ إِنَّہُمْ لَفِی سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُونَO (الحجر: 72)

    ترجمہ: ''(تب فرشتوں نے لوط سے کہا) تمہاری زندگی کی قسم! یہ لوگ اپنی بدمستیوں میں کھوگئے۔''(مولانا آزاد)


    یہاں مترجم کے ترجمے کے مطابق فرشتے، حضرت لوط علیہ السلام کی زندگی کی قسم کھارہے ہیں۔ یہ معنویت نہایت غیرموزوں کہ فرشتوں کو کیا ضرورت کہ نبی کی زندگی کی قسم کھائیں؟ اگر قسم یہاں اٹھائی بھی گئی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے مخاطب ہے۔ تفسیر فتح القدیر کے حوالے سے گفتگو کررہا ہوں کہ اکثر مفسرین نے یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کی قسم مراد لی جس طرح اللہ نے آپ کے اور اعضاء اور اداؤں کی قسم اٹھائی۔ اسی طرح یہاں آپ کی حیات کی قسم اٹھاکر فرمایا اور یاد دلایا کہ قومِ لوط بدمستیوں میں کھوگئے۔ ملاحظہ کیجئے شوکانی کی عبارت:

    اتفق اہل التفسیر فی ہذ أنہ قسم من اللہ جل جلالہ بمدۃ حیات محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔


    اب ملاحظہ کریں امام احمد رضا کا ترجمہ:

    ''(اے محبوب!) تمہاری جان کی قسم بے شک وہ اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں۔'' (کنز الایمان)

    8۔ ابو الاعلی مودودی کا ترجمہ قرآن:

    1) وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللّہُ وَاللّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَO (الانفال:30)

    ترجمہ: ''وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔'' (مودودی)


    قارئین کرام! لفظ مکر کے عربی میںمتعدد معنی ہیں، مثلاً چال چلنا، داؤ مارنا، دھوکا دینا، فریب دینا، تدبیر کرنا، خفیہ تدبیر کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ مترجم نے یہاں ''اللہ'' کو (معاذ اللہ) عام لوگوں کے برابر لاکر کھڑا کردیا ہے کہ جس طرح ایک عام انسان دوسرے انسان کو دھوکا دیتا ہے، یا اس کے ساتھ مکر و فریب کرتا ہے یا دھوکے کی چالیں چلتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس طرح بندوں کے ساتھ عمل فرمارہا ہے۔ یہ مترجم کی بہت بڑی غلطی ہے کہ وہ اللہ کے لئے بھی وہی الفاظ استعمال کرے جو عام انسانوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ دراصل صفت مشاکلت کو یہاں مترجم نے سمجھا ہی نہیں کہ عربی میں یہ قاعدہ ہے کہ جواباً بھی وہی الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اس کے معنی دوسرے سمجھے جاتے ہیں اور یہ عربی جاننے والا عربی عبارت کو ویسے ہی سمجھ لے گا مگر جب اس کا اردو ترجمہ کیا جارہا ہو تو ضروری ہے کہ اردو ادب و لغت کے لحاظ سے ترجمہ کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی شان و عظمت متاثر نہ ہو۔ صحیح ترجمہ ملاحظہ کریں:


    ''اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر۔'' (کنز الایمان)

    2) إِنَّ اللَّہَ وَمَلَآئِکَتَہ، یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یٰۤا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیماًO (الاحزاب:56)

    ترجمہ: ''اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجو (یعنی تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دعا کرو اور پوری طرح دل و جان سے ان کا ساتھ دو ان کی مخالفت سے پرہیز کرو)۔''

    (مودودی)


    مترجم نے قوسین میں جو وضاحت کی ہے وہ تو اصل عبارت کے حکم سے بالکل مختلف ہے۔ حکم تو اللہ نے یہاں کثرت سے درود و سلام پڑھنے کا دیا ہے کہ نہ جس میں وقت کی قید ہے، نہ صیغے کی کوئی نشاندہی، نہ ہی طریقہ کار کا تعین،نہ ہیئت کی پابندی ہے نہ اوقات کی پابندی، نہ کوئی گنتی کی بات۔ صرف مطلق حکم درود و سلام پڑھنے کا ہے،اس میں کوئی جتنا پڑھنا چاہے، جس وقت پڑھنا چاہے جس جگہ چاہے، جس طرح پڑھنا چاہے، اس کو اجازت ہے۔ جبکہ مترجم اصل مفہوم سے لوگوں کی توجہ ہٹاتے ہوئے ایک قسم کے جہاد کی باتیں کررہے ہیں کہ دل و جان سے ان کا ساتھ دو، ان کی مخالفت نہ کرو اور ان کی سلامتی کی دعائیں کرو۔ یہ حکم بجا ہیں لیکن اس آیت کے حوالے سے نہیں، آیت تو حکم دے رہی ہے کہ ایک مومن کو چاہئے ہر آن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دل و زبان سے درود و سلام کو جاری رکھے کہ یہ اس کے لئے سب بڑا آخرت کا سرمایہ ہے۔ مترجم نے ترجمہ میں یہ ضرور لکھا ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجو لیکن مترجم کی کسی بھی دوسری تصنیف و تالیف میں کہیں بھی درود و سلام پڑھنے کی ترغیب لکھی ہوئی نظر نہیں آتی، اور نہ کبھی ان کو سلام پڑھتے ہوئے کسی نے دیکھا، جب کہ مولانا احمد رضا بریلوی نے جب اس کا ترجمہ کیا ''ان پر درود اور خوب سلام بھیجو'' تو انہوں نے قصیدہئ سلامیہ لکھاخود پھر ذوق وشوق سے پڑھ کرسنایا:

    ''مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام''

    قصیدہ سلامیہ کایہ مصرعہ سو سال سے ہر مسلمان کی زبان پر جاری ہے اور لکھنے والے کی نیت کو اللہ نے جانچ لیا اور دنیا ہی میں اس کو اتنا اجر دیا کہ کروڑوں مسلمان روزانہ یہ مصرع پڑھتے ہیں اور انہوں نے درود کے لئے بھی ایک قصیدہ درودیہ تحریر کیا جس کا پہلا شعریہ ہے:

    کعبہ کے بدر الدجیٰ، تم پہ کروڑوں درود

    طیبہ کے شمس الضحیٰ، تم پہ کروڑوں درود


    9۔ امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی کا ترجمہ قرآن:

    1) بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمO

    ترجمہ: ''اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔''(کنزالایمان)


    سوائے امام احمد رضا کے، بقیہ ٨ مترجمین نے اسم اللہ سے ترجمہ نہ کیا بلکہ سب نے لفظ ''شروع'' سے ترجمہ کیا اور اسم ''اللہ کو مضاف کے بعد رکھا ہے جبکہ اردو قواعد کے مطابق اسم ''اللہ'' جو مضاف الیہ ہے، پہلے آنا چاہئے۔ اس لحاظ سے امام احمد رضا کا ترجمہ بالکل درست قرار پاتا ہے۔


    ترجمہ کنزالایمان میں جامعیت کے اعتبار سے مندرجہ ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ کریں جس کی جامعیت کو کوئی مترجم بیان نہ کرسکا اور ان آیات کا تعلق مختلف علوم و فنون سے ہے جن کی ترجمانی امام احمد رضا اس علم کی اصطلاح سے کرتے ہیں جبکہ اور کوئی مترجم ان علوم کی اصطلاح بھی استعمال نہ کرسکا کیونکہ وہ ان علوم سے واقف ہی نہ تھے۔


    یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُواؕ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍO (الرحمن:33)

    ترجمہ: ''اے جن و انس کے گروہ! اگر تم سے ہوسکے آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ۔ جہاں نکل کر جاؤگے، اسی کی سلطنت ہے۔''


    قرآن کریم کی یہ آیتِ شریفہ سائنس اور حکمت کے بہت اہم نکتہ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ اس آیت میں لفظ ''سلطن'' کے ترجمے میں اکثر مترجمین کے یہاں ابہام پایا جاتا ہے اور لفظ ''سلطن'' کی جامعیت کو کوئی بھی مترجم صحیح ترجمہ نہیں کرسکا۔ اس کی وجہ بنیادی یہ ہے کہ آیت میں علم ہیئت سے متعلق گفتگو ہے کہ تم کوشش کرو اور زمین سے باہر جانے کی کوشش کرو، کرتے رہو، باہر نکل بھی جاؤگے، آسمانوں پر اڑوگے، چاند تک اور اس سے آگے بھی نگل جاؤگے مگر یادرکھنا کہ ہرجگہ سلطنت، بادشاہت، حکمرانیت اسی ایک اللہ کی ہے کہ امام احمد رضا ترجمہ کرتے ہیں کہ ''جہاں نکل کر جاؤگے، اسی کی سلطنت ہے۔'' جبکہ بقیہ تراجم ملاحظہ کریں:


    ٭ ''نہیں بھاگ سکتے اس کے لئے بڑا زور چاہئے۔''(سید مودودی)

    ٭ ''اور زور کے سوا تم نکل سکتے ہی نہیں۔''(مولوی فتح جالندھری)

    ٭ ''مگر بدون زور کے نہیں نکل سکتے (اور زور ہے نہیں)۔''(مولوی اشرفعلی تھانوی)


    قارئین کرام! غور کریں کہ یہ تینوں تراجم انسان کو زمین کے کناروں سے نکلنے کی نفی کررہے ہیں جبکہ انسان زمین کے کناروں سے نکل چکا ہے اور آپ جب بھی ہوائی جہاز کا سفر شروع کرتے ہیں، زمین کے کناروں کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں،انسان کے بنائے ہوئے راکٹ اور سیارے چاند اور مریخ پر پہنچ رہے ہیں، تو کیا قرآن مجید کے خلاف یہ عمل ہوا؟ نہیں ،قرآن کریم تو ارشاد فرمارہا ہے کہ نکل سکو تو نکل جاؤ، جہاں بھی نکل کر جاؤگے، اسی رب کی سلطنت ہے۔'' امام احمد رضا کے ترجمے کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ امام موصوف دینی معلومات کے ساتھ ساتھ عقلی اور سائنسی پہلوؤں کو بھی ترجمہ کرتے وقت اپنے پیشِ نظر رکھتے ہیں جس کے باعث سائنسی شعور رکھنے والا اس بات کا قرار کرتا ہے کہ ہر علم قرآن میں موجود ہے یا قرآن ہر علم کے متعلق نشاندہی کرتا ہے۔


    قارئین کرام! علمِ ارضیات کے ایک قانون Plate-Tectonic کے تحت تمام براعظم نیچے موجود سیال کے اوپر بہت آہستہ آہستہ حرکت کررہے ہیں جس کے باعث براعظم ادھر سے ادھر حرکت کرتے ہیں جس کے باعث بعض جگہ زمین پھیلتی جاتی ہے، بعض جگہ سکڑتی جاتی ہے۔ قدرت نے اس عمل کو سورۃ النزعت میں مختصراً بیان کیا:

    وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاہَا (النزعات:30)

    ترجمہ: ''اور اس کے بعد زمین پھیلائی۔''


    اس آیت میں ''دَحَاہَا'' کے لفظ کو جب تک نہیں سمجھا جائے گا کوئی مترجم اس کا صحیح ترجمہ نہیں کرسکتا۔ امام احمد رضا کو اللہ نے چونکہ بے شمار علوم و فنون میں مہارت اور دسترس عطا کی تھی، وہ قدرت کے اس عمل کو جان گئے کہ ہر براعظم کسی نہ کسی جگہ اوپر اٹھ رہا ہے یا پانی سے باہر آرہا ہے۔ جس طریقے سے کراچی کے ساحل کا رقبہ برابر بڑھ رہا ہے کہ سمندر پیچھے جارہا ہے، زمین اٹھ رہی ہے، اس سارے عمل کے باعث زمین پھیلتی ہے اور لفظ''دَحَاہَا'' اس عمل کی نشاندہی کرہا ہے جس کے باعث زمین پھیلتی ہے جس کو صرف امام احمد رضا نے سمجھا جبکہ اور مترجمین کیونکہ اس علمِ ارضیات سے واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے وہ اس کی معنویت اور گہرائی کو نہیں پہنچ سکے اور وہ آیت کی صحیح سائنٹفک ترجمانی بھی نہ کرسکے۔ مثلاً بقیہ مترجمینِ قرآن کے تراجم ملاحظہ کریں:

    ٭ ''اور اس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا۔'' (مولانا مودودی)

    ٭ ''اور اس کے علاوہ زمین کو بچھایا۔'' (ڈپٹی نذیر احمد دہلوی)

    ٭ ''اور زمین کو پیچھے اس کے بچھایا۔'' (مولوی اشرفعلی)

    ٭ ''اور جس نے زمین کو بچھایا۔'' (وحید الزمان)


    قارئین کرام! قرآن مجید کی آخری سورتیں اور ان کی آیات میں ایک عجیب صوتی حسن اور سلاست، ترنم پایا جاتا ہے جس طرح شاعری میں ردیف اور قافیہ غزل کا اہم ترین جزو ہوتے ہیں جن کے باعث غزل میں جو بات بیان کی جارہی ہوتی ہے، اس سے سامعین بہت محظوظ ہوتے ہیں، اسی طرح آپ قرآن مجید کا صوتی حسن ملاحظہ کریں:


    وَالنَّازِعَاتِ غَرْقاًO وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطاًO وَالسَّابِحَاتِ سَبْحاًO فَالسَّابِقَاتِ سَبْقاًO

    (سورۃ النازعات: 1 تا 4)


    امام احمد رضا نے ترجمہ کے اندر اس صوتی حسن اور سلاست کو بھی قائم رکھا ہے:

    ترجمہ: ''قسم ان کی سختی سے جان کھینچیں۔ اور نرمی سے بند کھولیں۔ اور آسانی سے پیریں۔ پھر آگے بڑھ کر جلد پہنچیں۔''


    اسی طرح سورۃ البلد کی آیات ملاحظہ کریں:

    أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِO وَلِسَاناً وَّشَفَتَیْنِO وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِO (البلد:8 تا 10)

    ترجمہ: ''کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور اسے دو ابھری چیزوں کی راہ بتائی۔'' (کنز الایمان)

    اب ملاحظہ کریں مولوی اشرفعلی اور محمود الحسن دیوبندی کے تراجم، سورۃ البلد کے حوالے سے:

    ٭ ''کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے۔ اور (پھر) ہم نے ان کو دونوں دونوں رستے (خیر و شر کے) بتلادیئے۔'' (مولوی اشرفعلی تھانوی)


    ٭ ''بھلا ہم نے نہیں دیں اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور دکھلادیں اس کو دو گھاٹیاں۔'' (مولوی محمود الحسن دیوبندی)


    قارئین کرام! یہ دونوں مترجم لفظ ''نجد'' کے معنی کو نہیں پاسکے جس کے باعث ترجمہ بھی غلط کردیا اور سورۃ البلد کے استفہام کی لذت بھی مسخ ہوگئی۔ مولوی اشرفعلی نے ''نجد'' کے معنی خیر و شر کے رستے بتادیئے جبکہ مولوی محمود الحسن دیوبندی نے ''النجد'' کے معنی دو گھاٹیاں (وادیاں) بتادیں۔ آپ آیات دوبارہ پڑھیں کہ یہ آیات انسان کے کس وقت کی نشاندہی کررہی ہیں اور نجد کے اصل معنی کیا ہیں۔ آیات بتارہی ہیں کہ اس کو اللہ نے دو آنکھیں دیں، ایک زبان اور دو ہونٹ، اگلی آیت میں راہ کا تعین ہے اور وہ ہے دو ابھری ہوئی جگہیں۔ یہ اصل میں اشارہ ہے اس گود کے بچے کی طرف کہ جب وہ اپنے ان دو ہونٹوں سے ماں کے سینے پر دو ابھری جگہوں میں اپنی غذا کی راہ پاتا ہے۔ ماں کا یہ پستان گھاٹیاں نہیں ہیں اور نہ ہی خیر و شر کے دو راستے بلکہ یہ اس کے سینے پر دو ابھری چیزیں ہیں جس کو ہم پستان کہتے ہیں اور عربی میں لفظ ''نجد'' کے معنی ہی ہیں بلند جگہ کے ہیں اور عربی میں Plateau یعنی ابھری ہوئی زمین کو نجد کہتے ہیں۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ امام احمد رضا ترجمہ کرتے وقت ایک ایک بات کا خیال رکھتے ہیں اور یہاں لفظ پستان بھی نہیں لائے بلکہ دو ابھری چیزوں کے ساتھ ترجمہ کرکے فصاحت و بلاغت کو بھی قائم رکھا اور شرم و حیا کا بھی پاس رکھا اور حسن سلاست بھی قائم ہے جبکہ دیگر مترجمین ''نجد''کی اصطلاح کی گہرائی تک ہی نہ پہنچ سکے۔


    امام احمد رضا قادری محدث بریلوی کاترجمہ قرآن ''کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن'' اردو زبان میں سب سے بہتر اور مستند قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ آپ نے ہر آیت کا ترجمہ بہت احتیاط کے ساتھ کیا ہے کہ جب کہ اور مترجمین کے قلم سے لغزشیں بھی ہوئی ہیں مگر آپ کا ترجمہ ہر قسم کی اغلاط اور لغزشوں سے پاک ہے۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ نے آیت کے موضوع کے لحاظ سے ترجمہ میں اصطلاح استعمال کی ہے تاکہ اس علم کا جاننے والا ترجمہ کے ذریعہ اس علم کی گہرائی اور گیرائی تک رسائی حاصل کرسکے اور جان سکے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام علوم و فنون کے اصول و ضوابط کا قرآن میں ذکر کیا ہے۔ تیسرے یہ کہ آپ نے بوقت ضرورت محاورات کا استعمال کیا ہے، غیر ضروری محاورات کا اور غیر ضروری توضیحی ترجمہ سے بھی پرہیز کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ ترجمہ بامحاورہ بھی قائم رہے اور قارئین اس آیت کی منشائے الٰہی کو بھی پاسکیں جو ترجمہ کا اصل مقصد ہے۔ آخر میں ڈاکٹر صالحہ عبد الحکیم شرف الدین کے پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے ''قرآن حکیم کے اردو تراجم'' سے ایک اقتباس پیش کررہا ہو جو انہوں نے امام احمد رضا کے ترجمہ سے متعلق لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

    ''امام احمد رضا قرآن میں غیر معمولی بصیرت رکھتے تھے۔ امام احمد رضا کا شمار عالم، اسلامی کے ان خواص علماء میں ہوتا ہے جن کی قامت پر ''رسوخ فی العلم'' کی قبا راست آتی ہے۔ قرآن کریم سے ان کو غیر معمولی شغف تھا، انہوں نے اللہ کے کلام میں برسوں تدبر کیا۔ اسی مسلسل تدبیر و فکر کا نتیجہ تھا کہ امام احمد رضا کو قرآن پاک سے خاص نسبت ہوگئی اور ان کا ترجمہ قرآن ان کے برسوں کے فکر و تدبر کا نچوڑ ہے۔''
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    بہت ہی شاندار مضمون ہے۔۔۔۔اور ان میں سے کئی تراجم کبھی کبھی مجھے بھی پڑھنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔سب سے پہلے یہ تو بتادوں کہ میں اس شعبہ میں بالکل ہی کورا ہوں۔۔۔یعنی ایک عام بندے سے بھی زیادہ کم علم۔۔۔۔۔لیکن پتا نہیں مجھے لگا کہ بس ایک ہی ترجمہ کو درست سمجھتے ہوئے باقی تمام پر اعتراضات کیے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔بس ایک عام قاری کے طور پر مجھے جو محسوس ہوا پیش کردا۔۔۔۔مجھے امید ہے کہ جو اہل علم ہیں اور جن کا یہ شعبہ ہے وہ اس پر کچھ اظہار خیال کرسکیں گے۔

    مضمون کے لیے بہت بہت شکریہ۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    بہت اچھے جناب
     
  4. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    السلام علیکم ۔ بزم خیال بھائی ، اتنے مفید علمی موضوع پر تحقیقی مقالہ شیئر کرنے پر بہت بہت شکریہ ۔

    صرف ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس مقالے میں جن تراجم کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے ، ان میں سے اکثریت ان تراجم کی ہے ، جو گزشتہ صدی میں لکھے گئے ۔ ہر صاحبِ علم و شعور شخص جو زبان و بیان سے واقفیت رکھتا ہو ، اس حقیقت کو بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ موجودہ صدی اور گزشتہ صدی کی اردو زبان میں بہت ساری تبدیلیاں وقوع پذیر ہوچکی ہیں ، جنکی بنا پر گزشتہ صدی میں لکھے گئے بہت سے تراجم مفید ہونے کے باوجود دورِجدید میں ابلاغ کے تقاضے کماحقہ پورے نہیں کرتے ۔
    اسی وجہ سے ترجمہ قرآن کا کام رکا نہیں بلکہ اب بھی جاری ہے ۔ کم و بیش تمام قابلِ ذکر مکاتب فکر کے علمائے کرام نے دورِ جدید میں تراجم قرآن کی روایت کو مزید آگے بڑھانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ دوسری قسط میں آپ بعد کے تراجم کا تقابلی مطالعہ بھی قارئین کے سامنے پیش فرمادیتے تاکہ مضمون مکمل ہوجاتا ، اس حوالے سے دوسری قسط کا انتظار رہے گا۔
     
  5. محمد نبیل خان
    آف لائن

    محمد نبیل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2012
    پیغامات:
    656
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    اسلام علیکم ۔ بزم خیال بھائی
    میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ وہ کون سے علمائے عرب و عجم ہیں جنہوں نے مولوی احمد رضاخان صاحب کو ایسے عظیم القابات سے نوزا ؟؟؟
    ایک طرف تو مولوی احمد رضاخان صاحب کو علمائے عرب 14ویں صدی کا مجدد دین و ملت تسلیم کریں اور دوسری طرف مولوی احمد رضاخان صاحب کے ترجمعہ قرآن پر عرب میں پابندی لگا دی جائے یہ بات کچھ سمجھ نہیں آ رھی ۔ ۔ ۔ رہی بات مولوی احمد رضا خان صاحب کے ترجمعہ کنزالایمان کی تو اس پہ بات بعد میں ہو گی ان شاءاللہ
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    بزم خیال بھائی ۔ محمد اکرم صاحب کی بات قابل توجہ ہے۔
    موجودہ دور کے آسان اسلوب تراجم پر بھی ایک مضمون ہوجانا چاہیے۔ شکریہ
     
  7. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    حافظ نذر احمد کے " آسان ترجمہ قرآن مجید " کوبھی کئی اعتبار سے منفرد قرار دیا جاتا ہے۔
    1۔ ہر لفظ کا جدا جدا ترجمہ اور پوری سطر کا سلیس ترجمہ یکساں ہے۔
    2۔ ہر سطر کا ترجمہ اسی سطر میں دیا گیا ہے تاکہ قاری کو اشتباہ نہ ہو۔
    یہ ترجمہ تینوں مسالک کے علمائے کرام ( اہل سنت و الجماعت ، دیو بندی، بریلوی اور اہل حدیث) کا نظر ثانی شدہ اور ان کا متفق علیہ ہے۔
     
  8. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    جزاک اللہ خیرا ....................


    آج کے دور میں سائنسی تقاضوں کے مطابق اور جدید اصطلاحات کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کا عرفان القرآن ترجمہ قرآن بھی بے حد مقبول ہے
     
  9. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اپریل 2012
    پیغامات:
    33,894
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    جزاک اللہ بہت خوب
     
  10. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    واہ جی واہ ڈاکٹر صاحب تحقیق کا حق ادا کر دیا جزاک اللہ احسن الجزاء ،آپکی اسی طرح کی معلوماتی تحاریر کا منتظر
    ابو محمد رضوی
     
  11. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    ڈاکٹر صاحب کو سنبھال کر رکھیں اچار کے ساتھ لگا کر کھائیے گا امام احمد رضا کی بات کریں،
     
  12. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    نبیل صاحب میں علمی طور پر آپکا جواب دینے کے لیے حاضر ھوں اب جلدی کیجئے کنز الایمان پر تبصرہ فرمائیے ،مجھے آپکی تحریر کا انتظار رھے گا،اگر اتنا حوصلہرکھتے ھیں تو جلدی کریں ،یہ دال نہیں بٹ رھی جو آپ فورا لے کر ڈکار مار جائیں گے۔
    نہ خنجر اٹھےگا نہ تلوار ان سے
    یہ بازو میرے آزمائے ھوئے ھیں
     
  13. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    آپ نےیقینا درست سمجھا ساتھ میں آپ نے اپنی علمی بے بسی بھی ظاھر فرمادی، ترجمہ تو یقینا یہی درست ھے گر خدا عقل دے،وگرنہ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    رضوی بھائی ۔۔۔ اگر آپ کا اشارہ کنزالایمان کی طرف ہے تو آپ کا یہ فرمان کہ
    "یہی درست" کا حصر لگا کر کیا آپ یہ فرمانا چاہ رہے ہیں کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ کنزالایمان کے علاوہ ان سے پہلے یا انکے بعد کے سارے تراجم معاذاللہ "غلط" ہیں ؟

    اور پھر آپ نے فرمایا
    تو کیا اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ تاریخ‌اسلامی کے باقی سارے مترجمین معاذ اللہ "عقل سے بے بہرہ" ٹھہرے ؟
     
  15. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    پیارے بھائی! ایسے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں جو کسی کی دل آزاری کا باعث بنیں۔
    اگر آپ کو کسی سے کوئی اختلاف ہے تو اُس کا اظہار مناسب الفاظ میں کر لیجیئے۔ شکریہ۔
     
  16. شانی
    آف لائن

    شانی ممبر

    شمولیت:
    ‏18 فروری 2012
    پیغامات:
    3,129
    موصول پسندیدگیاں:
    241
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    اللہ سب کا بھلا کرے
     
  17. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    جزاک اللہ
    ----------------
     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    السلام علیکم
    تمام معزز دوستوں سے گزارش ہے کہ محمود بھائی کے اس معلوماتی مضمون سے جس بات سے دل متفق ہو اُسے قبول کر لیں اور جس سے اختلاف ہو اُس سے صرفِ نظر کر دیں اور لا یعنی اور غیر ضروری بحث سے پرہیز کریں ۔شکریہ
     
  19. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    جی ھاں اگر حصر والی زبان میں بات کر رھے ھیں تو یاد رکھیئے یہ حصراضافی نہیں حقییقی ھے ’’ تو اس کا مطلب یہ ھے کہ یہ وہ واحد ترجمہ ھے جو روایت تفسیر وحد یث پر مشتمل ھے جو تفسیر بالرای سے خالی ھے ، باقی اس کے علاوہ تراجم کو میں نے کلیۃ غلط نہیں کہا ، بلکہ یہ کہا ھے کہ وہ وہ عربی دانی کے اعتبار سے لکھے گئے ھیں جبکہ یہ ترجمہ متقدمین کی تفسیر کاھی ترجمہ ھےجن کے بارے میں آُ پ سمجھ رھے ھیں کہ میں نے انکی عقل بات کی ھے ، میں ان لوگوں کی بات کی ھے جو تفسیر بالرای کرتے ھیں جیسے کسی مفکر اسلام کا ’’فیھا عین جاریۃ" کی تفسیر کرتے ھوئے مشترک کا فائدہ اٹھاتے ھوئے مجمع میں بیتھے بیتھے تفسیر جیب سے نکالی کہ جانے چشم ھو گا یا چشمہ" اب سمجھے کہ نہیں
    بقول اعلی حضرت
    دل کو جو عقل دے خدا
    انکی گلی سے جائے کیوں
    ویسے بھی
    الحق مر
    حق کڑوا ھوتا ھے
     
  20. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    جناب منتظم اعلی صاحب جب ھر کام کے لیے پروفشینلز ھے تو دینیات پر ھر ایک کو تبصرہ کی اجازت کیوں دوسرا ھر بندہ اپنے دینی جذبات رکھتا ھے جب نبیل صاحب نے کہا کہ باقی رھا کنز الایمان تو پھر تبصرہ کروں گا اور اعلی حضرت پر بات کی تب تو کوئی نہیں بولا یہ ملاحظہ فرمائیں
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ
    اقتباس:
    مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی غیر معمولی صلاحیتوں کے پیشِ نظر آپ کے ہم عصر علمائے عرب و عجم نے آپ کو 1318ھ/1900ء میں 14ویں صدی ہجری کا مجددِ دین و ملت تسلیم کیا اور آپ کو مجدد مأتہ حاضرہ، امام، محدث، مجتہد، اور فقیہہ اعظمِ و وقت کا نابغہ روزگار تسلیم کیا گیا۔
    اسلام علیکم ۔ بزم خیال بھائی
    میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ وہ کون سے علمائے عرب و عجم ہیں جنہوں نے مولوی احمد رضاخان صاحب کو ایسے عظیم القابات سے نوزا ؟؟؟
    ایک طرف تو مولوی احمد رضاخان صاحب کو علمائے عرب 14ویں صدی کا مجدد دین و ملت تسلیم کریں اور دوسری طرف مولوی احمد رضاخان صاحب کے ترجمعہ قرآن پر عرب میں پابندی لگا دی جائے یہ بات کچھ سمجھ نہیں آ رھی ۔ ۔ ۔ رہی بات مولوی احمد رضا خان صاحب کے ترجمعہ کنزالایمان کی تو اس پہ بات بعد میں ہو گی ان شاءاللہ
    آپ اسپر تو نہیں بولے جب میں نے دکھ کا اظھار کیا جو میرا حق ھے تو اب سب کود پڑے
     
  21. فارقلیط
    آف لائن

    فارقلیط ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2013
    پیغامات:
    12
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ

    ''کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن'' حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر نورالعرفان کے ساتھ بھی شائع ہو چکا ہے۔
    ''کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن'' کو یہ ہیچمداں بزبانِ اُردو بخط گجراتی بھی شائع کر چکا ہے
    نیز اس کا گجراتی ترجمہ بھی اس نا چیز نے کیا ہے جو ہمت نگر، گجرات انڈیا سے شائع ہو چکا ہے۔:p_rose123:
     
  22. اشفاق ساقی
    آف لائن

    اشفاق ساقی ممبر

    شمولیت:
    ‏11 جنوری 2019
    پیغامات:
    8
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بھائیو ذرا اردو ترجمہ کے اصول کی کتب کی طرف رہنمائ فرما دیں تو نوازش ہوگی
    شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں