1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بیداری شعورو احساس

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏20 ستمبر 2011۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    السلام علیکم پیارے محبوب خان بھائی ۔ حوصلہ افزا کلمات کے لیے شکریہ ۔ :n_thanks:
    آپکی کی دردمندانہ تحریر سے مجھے دو سوال نکلتے دکھائی دیتے ہیں
    پہلا : قومی کوتاہیوں کی نشاندہی کیوں ضروری ہے؟
    دوسرا ۔۔ بیداری شعور کے بعد آئندہ لائحہ عمل کیا ہے ؟

    پہلے سوال کا جواب عرض ہے کہ ۔۔
    ہر دردمند ،مخلص اور محب وطن شخص جب بات بیداری کی بات کرتا ہےتو اسکا مطلب واضح ہے ہم غفلت کی نیند میں ہیں جبھی تو بیداری کی ضرورت ہے۔۔۔ سب سے پہلے تو یہی بنیادی احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ہم پر پیش آمدہ مصائب ومشکلات میں سب سے زیادہ خود ہماری اپنی "غفلت " کا ہاتھ ہے۔ یہی اخلاص و دیانت کا تقاضا ہے کہ قوم کو اسکی غفلت کا احساس دلایا جائے۔
    اسکے برعکس مفاد پرست اور جھوٹے عناصر جو اس قوم کو غفلت میں رکھ کر اپنے مذموم مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اور گذشتہ 60-65 سال سے جاری لوٹ مار کا سلسلہ جمہوریت و آمریت کے نام پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں وہ ہمیشہ اس قوم کو غافل رکھنے کے لیے قوم کو یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ قوم غفلت میں نہیں بلکہ "بیدار " ہوچکی ہے۔ یہ جملے ہم اکثر ٹی وی پر ، جلسوں اور پریس کانفرنسز میں موجودہ ظالمانہ و غیر منصفانہ "غریب کش "نظامِ سیاست کے علمبرداروں سے سنتے ہیں کہ
    "قوم بیدار ہے" ۔
    " قوم کو اپنے اچھے برے بھلے کی تمیز ہوچکی ہے"
    "قوم اب لٹیروں‌کے دھوکے میں نہیں آئے گی"
    "قوم باشعور ہے جبھی تو اس نے ہمیں ووٹ دے کر منتخب کیا ہے۔"
    " اگر ہم غلط ہیں تو باشعور قوم اگلے الیکشن میں فیصلہ کردے گی"
    قوم ہم سے مطمئن ہے جبھی تو ضمنی الیکشن میں‌ہم بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے ہیں"
    یہ سب جملے دراصل قوم کو غفلت کی نیند سلائے رکھنے کے لیے بولے جاتے ہیں اسی "احساسِ زیاں " کے چھن جانے پر علامہ اقبال رح نے اظہارِ تاسف فرمایا تھا۔
    وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا​

    آپکے دوسرے سوال یعنی آئندہ لائحہ عمل یا کرنے کا کام کیا ہے ۔۔ اس کے لیے اگلا پیغام ملاحظہ فرمائیے۔ شاید آپکو جواب میسر آجائے۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    پاکستانی قوم اس وقت دوراھے پر ہے
    ریاست بچائی جائے ۔۔۔۔۔۔ یا پھر ۔۔۔۔۔۔ سیاست یعنی نظام بچایا جائے
    ہمارے بڑوں کی سیاسی خاموشیاں آج ہمیں اس مقام پر لے آئی ہیں کہ آج ہمارے پاس دو ہی راہیں بچی ہیں
    ۱- ریاست کو بچالیں اور موجودہ ظالمانہ نظام جس نے قوم کو مایوسیوں، غربت، افلاس، بدامنی، دہشت گردی ، خودکشیوں، لوڈ شیڈنگ اور نااہل و کرپٹ اور بےغیرت لیڈرشپ کے سوا کچھ نہیں دیا اسکو سمندر برد کرکے اسکی جگہ بہتر منصفانہ نظام لانے کے لیے متحد اور صف آراء ہوجائیں۔اسکےلیے ہمیں
    اس غاصبانہ نظام کے خلاف ایک عوامی انقلاب یعنی پرامن تبدیلی کے لیے عزم مصمم کرنا ہوگا
    یا پھر
    ۲- مروجہ ظالمانہ و غاصبانہ نظامِ سیاست کو بچائے رکھیں یعنی ظلم و بربریت، قتل و غارت، مہنگائی، بیروزگاری، دہشتگردی اور جہالت تک پہنچانے والوں کی نام نہاد جمہوری سیاست کو بچا کر ان کے ان جرائم کی سزا میں حصہ داری اختیار کریں ۔۔۔۔ آخرت میں خود ذلت اٹھائیں اور دنیا میں اپنے بچوں کو غلامی و ذلت کے طوق خود پہنا دیں۔۔۔
    __ ریاست بچانے کے لئے سیاست کی راہ ہموار کرنے والے ہر زہریلے بل کو بند کرنا ہوگا۔۔۔۔ خواہ وہ نام نہاد ظالم محافظ جمہوریت ہو ۔۔۔۔۔ یا پھر ۔۔۔۔۔ ڈکٹیٹرشپ،
    خواہ وہ پرانے وعدہ کی پرفریب تقریروں کا روپ دھار کر آئے ۔۔۔۔۔ یا پھر ۔۔۔۔۔ نئی نویلی پارٹیوں کی عروسی چادر اوڑھ لے۔۔۔
    ہمیں اسے ہر روپ میں شکست دینی ہوگی۔۔۔۔ تبھی ریاست بچ سکتی ہے۔۔۔
    ورنہ ظالم کو تحفظ دینے والی سیاست ہی بچے گی ۔۔۔
    جس کوبچانے کا مطلب ہے قومی خودکشی، ظلم، قتل و غارتگری، بے روزگاری، غنڈہ گردی، عزتوں کی پامالی، مہنگائی، بحران، لوڈشیڈنگ، غلامی کی جرائم میں حصہ داری ۔۔۔۔۔
    آئیے خود سے پوچھیں ۔۔۔
    کیا آپ قومی خودکشی کر کے ظالم کے شریکِ جرم ہونا پسند کریں گے
    ۔۔۔۔۔۔ یا پھر ۔۔۔۔۔۔
    اس نظام ظلم کو سمندر برد کرکے ہمیشہ کے لئے باعزت طور پر زندہ رہنا چاہیں گے ۔۔۔۔۔

    اس غاصبانہ نظام کے خلاف ایک عوامی انقلاب یعنی پرامن تبدیلی کے لیے عزم مصمم کرنا ہوگا

    عوامی انقلاب کی راہ ہموار کرکے۔۔۔۔۔۔۔۔
    انتخابی فریبکارانہ نظام کو مسترد کرکے۔۔۔۔۔۔۔
    قوم کو سڑکوں پر لا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس غاصبانہ نظام کے خلاف ایک عوامی انقلاب یعنی پرامن تبدیلی کے لیے عزم مصمم کرنا ہوگا
    کیسے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    سپریم کورٹ اور اس ملک کی محب وطن قوتوں کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ 3 یا 5 سال کے لئے ملک کے تعلیم یافتہ، محب وطن، اور ایماندار لوگوں پر مبنی عبوری حکومت بنائی جائے ۔۔
    جو ظالموں کا بےلاگ احتساب شروع کرے
    لوٹی ہوئی دولت ملک میں‌ واپس لا کر یہ دولت بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے غربت کی شرح کم کرنے کے لیے استعمال کی جائے ۔۔۔۔۔
    معاشی انقلابی پالیسیوں کا اجرا کیا جائے ۔
    ملک کو اندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے ٹھوس پالیسی جاری کی جائے۔
    ظالموں، لٹیروں اور ملک کے غداروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔۔
    کرپشن کا خاتمہ اور انصاف کا بول بالا کیا جائے۔۔۔
    اسلامی تعلیمات سے روشنی لے کر اور اسلامی دنیا کی کامیاب جمہوریتوں سے سبق سیکھ کر ایسا نظامِ انتخاب وضع کیا جائے جس میں ہر پڑھا لکھا، باشعور ، محب وطن متوسط طبقے کا انسان بھی شرکت کرسکے ۔
    تمام ممکن ذرائع سے قوم کو ایک نئے منصفانہ نظام انتخاب سے متعارف کروا کے ووٹ کی اہمیت کا احساس کروایا جائے ۔۔۔
    بعد میں مناسب وقت نئے منصفانہ انتخابی نظام کے تحت انتخابات کروائے جائیں ۔۔
    پاکستان کو حضرت قائد اعظم اور حضرت اقبال کے خوابوں کی تعبیر باننے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
    آئیں کسی سیاسی مداری کے ہاتھوں کت پتلی بننے کے بجائے ۔۔۔۔۔
    اپنی راہ خود ہموار کریں کیونکہ یہ ظالم تو ملک چھوڑ کر بھاگ سکتے ہیں لیکن ہمیں اور ہماری نسلوں کو تو اسی ملک میں رہنا ہے۔۔۔۔۔۔ ہمیں کوئی دوسرا ملک سیاسی پناہ نہیں دے گا کیونکہ ہم۔۔۔۔ عوام ہیں کرپٹ سیاستدان نہیں
    ..........................................................................................
    اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
    کارخ امراء کے در و دیوار ہلادو
    جس کھیت سے دہکاں کو میسر نہ ہو کھیتی
    اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
    علامہ اقبال بال جبریل

    سب سے پہلے عوامی انقلاب ۔۔۔۔۔
    پھر احتساب ۔۔۔۔۔
    بعد میں انتخاب
     
  3. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    نعیم بھائی ہمیشہ کی طرح آپ مدلل اور بہت ہی زبردست گفتگو کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور جو کچھ آپ نے کہا اس میں میں تو اتفاق کرتا ہوں۔۔۔۔مگر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو عام عوامی یا اجتماعی شعور ہے۔۔۔۔کیا وہ پیر، فقیر، وڈیرہ، افسر، سردار، نواب، چوہدراہٹ اور برادری کے نظام کو برا سمجھتا ہے؟ کم از کم میرے خیال میں ابھی شاید وہ وقت نہیں آیا۔۔۔۔۔آپ نے جو طریقہ بیان کیا ہے اس سے اتفاق اپنی جگہ مگر اجتماعی طور پر ہم ابھی بھی دو صدیاں پیچھے رہ رہے ہیں۔۔۔۔۔آپ یقین کریں میں‌پورا پاکستان پھرا ہوں۔۔۔۔۔۔اور خاص طور پریہاں کی دیہاتی زندگی اور شعور کو پختگی تو چھوڑیں ان میں یہ احساس زیاں ہی موجود نہیں۔۔۔۔ دیکھیں‌نعیم بھائی یا قومیں مذہب یا عصری حوالوں سے ہی ایک لائحہ عمل سامنے رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرنےکی کوشش کرتے ہیں۔۔۔مگر تعلیم کی شدید کمی کی وجہ سے ہمارے پاس یہ دونوں پہلو بہت ہی کم حیثیت میں‌موجود ہیں۔۔۔۔۔یعنی چنگاری کی موجودگی اپنی جگہ۔۔۔۔۔مگر ابھی اس کو شعلہ بننے کے لیے مزید توانائی کی ضرورت ہے۔۔۔۔کہ چنگاری بہت ہی زیادہ راکھ تلے دبی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہرحال جو کچھ میں‌نے درج بالا سطروں میں عرض کیا ہے وہ میرے خیالات ہیں اور احساسات ہیں۔۔۔۔یعنی جو کچھ محسوس کررہا ہوں بس بیان کرنےکی کوشش کی ہے۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    آفتاب اقبال کی حیرت انگیز گفتگو
    جمہوری ڈھکوسلہ اور وقت کی ضرورت
    یوں لگتا ہے جیسے اس نے ہماری اوپر والی تحریر پڑھ لی
    یا پھر اس وقت ہر دانش مند اور محب وطن کی یہی متفقہ و مشترکہ رائے ہے۔
    چند منٹ کی گفتگو ہے لیکن ضرور سنیے ۔


     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    انتخاب کے ذریعے "انقلاب" کی ایک جھلک تو ملتان کے حالیہ الیکشن میں واضح ہوگئی ہے
    سرمایہ، وڈیرہ شاہی، غنڈہ گردی ، جعل سازی کے پلندے کا نام الیکشن رکھا جاچکا ہے۔۔ ایک پاکستان کے طور پر مجھے سوچنا چاہیے کہ وہ نظام جس میں محب وطن، متوسط طبقے کا ، پڑھا لکھا، ایماندار اور شریف آدمی انتخاب میں بطور امیدوار کھڑا بھی نہیں ہوسکتا ۔۔۔ تو وہ نظام میرا نظام ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ وہ نظام کسی سرمایہ دار، کسی وڈیرے، کسی غنڈے، کسی قاتل، کسی کرپٹ، کسی رسہ گیر، کسی دہشتگرد کا تو ہوسکتا ہے۔ کسی عام پاکستانی کا نہیں ہوسکتا۔
    اگر یہ سوچ ہمارے اندر پیدا ہوجائے تو پھر ہم یقینا وہ نظام جو ہمارا ہے ہی نہیں۔ اسے ٹھکرانے اور اسکی جگہ ایسا نظام جو ہمارے لیے، ہمارے ذریعے اور ہماری خاطر ہو کے لیے کمر بستہ ہوجائیں گے اور وہی دن "عوامی انقلاب " کا ہوگا۔
    ورنہ تو 65سال سے ذلت و خواری ، مفلسی اور خود کشی و دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں، بنتے رہیں گے۔۔ غلامی ہی غلامی ۔۔ ذلت ہی ذلت ۔۔جہالت ہی جہالت۔۔ خود بھی جھیلی اور اپنی اولادوں کو بھی یہی وراثت آگے منتقل کرجائیں گے۔
     
  6. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: بیداری شعورو احساس

    یہ بڑی عجیب اور کنفیوژڈ قوم ہے۔ اس کو دورے بہت پڑتے ہیں۔
    جب بے نظیر تھی تو انہیں نواز شریف کا دورہ پڑجاتا تھا۔
    جب نواز شریف تھا تو اسے بے نظیر کا دورہ پڑتا تھا۔
    جب مشرف آیا تو انہیں نواز شریف کے دورے پڑتے تھے۔
    جب زرداری آیا تو انہیں مشرف کے دورے پڑنے شروع ہوگئے ہیں۔

    میرا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور میں نے وہاں‌صورتحال دیکھی کہ مر یہ بھوکے رہے ہیں لیکن بھٹو پھر بھی زندہ ہے۔ کمال صرف بے نظیر انکم سپورٹ کا ہے۔ سندھ میں صورتحال تو اس سے بھی گھمبیر ہے۔بلوچستان میں تو خیر حالات بہت ہی خراب ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں ڈیزل، عمران، اسفندیاروغیرہ کے نام ہیں جبکہ پنجاب میں وہی شیرآیا اور عمران ہے۔ یہ قوم مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے۔ کوئی ایسا لیڈر جوساری قوم کو متحد کرسکے ابھی تک نہیں‌آیا۔ طاہرالقادری آئے تو قوم نے لفٹ نہیں‌کرائی، پھر بھی شیروں اور تیروں کے پیچھے بھاگتی رہی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب تو کسی کو ہضم نہیں‌ہورہے لیکن جیسے ہی انہوں نے الیکشن میں‌حصہ لیا تو ان کی کردار کشی شروع ہوجائے گی۔ انقلاب صرف ڈائیلاگ بازی ہے جو نعرہ ہمارا ایک صنعت کار اور سرمایہ دار سیاست دان بھی لگاتا ہے اور ایک وڈیرہ بھی۔ ہمارا وزیراعلیٰ پنجاب حبیب جالب کی نظمیں سنا سنا کر لوگوں کو گرمانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے یہ نہیں‌پتہ کہ حبیب جالب نے نظمیں ہی اس جیسے سرمایہ دار لوگوں کے خلاف لکھی ہیں۔ یہ حبیب جالب وہی ہے جو اس کے بھائی کے وزارت اعلیٰ کے دور میں جیلیں‌کاٹتا رہا ہے۔سارے شعبدہ باز اکٹھے ہوئے ہیں‌یہاں پہ۔
     
  7. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    راشد بھائی اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں صرف اور صرف سیاستدان برے ہیں اور دوسرے سب بہترین۔۔۔۔۔ایماندار اور ہر معاملے میں‌کامل ہیں۔۔۔۔۔اگر ایسا آپ سمجھتے ہیں تو شاید اختلاف کی گنجائش ہوگی۔۔۔۔۔میرے بھائی۔۔۔۔یہاں کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

    ایک ریڑھی والا جو چنے بیچتا ہے۔۔۔۔۔وہ بھی من مانی کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔سبزی والا، دفتروں میں چوکیدار سے لے کر افسر شاہی تک۔۔۔۔۔۔عام راج مستری سے لے کر بڑے بڑے تعمیر کندگان تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک طالب علم سے لے کر ایک سکالر تک۔۔۔ایک سپاہی سے لے کر اوپر تک۔۔۔۔۔۔۔۔کونسا میدان ہے۔۔۔۔۔۔کون سے لوگ ہیں جو برا نہیں‌کررہے ہیں۔۔۔۔۔اور کیا صرف سیاستدانوں کے اچھا ہونے سے یہ اچھے ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔۔یہاں نعیم بھائی کے بیان کا سہارا لینا پڑے گا۔۔۔۔کہ اس گلے سڑے نظام سے اگر آپ بہتری کی امید رکھیں گے تو یہ بہت ہی برا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔مگر کیا کریں۔۔۔۔۔۔ہم تو اسی چمن کے رہنے والے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو ٹھیک بھی کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو آغاز ایک فرد سے ہو کہ ہر فرد ملت کا ستارہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔اور اگر فرد نے ٹھیک ہونے کی کوشش شروع کی۔۔۔۔تو یقین کریں کہ رہنما بھی ٹھیک ہونگے۔۔۔۔۔کیونکہ وہ بھی فرد تو اول اول ہیں۔
     
  8. محمد نزاکت
    آف لائن

    محمد نزاکت ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2012
    پیغامات:
    5
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    http://nizambadlo.com/english/tid/16611/Literature-for-Bedari-e-Shaoor.html
    تمام قارٕئین مندرجہ بالا لنک پر ضرور کلک فرمإئیں۔ شکریہ
     
  9. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    بہت ہی زبردست لڑی ہے۔یہ درست ہے کہ ہم ایسے ہیں تو ہمارے اوپر ایسے حکمران مسلط ہیں۔جب تک ہم اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے ،ہمیں اسی طرح کی قیادت ملتی رہے گی۔جس دن ہم نے اپنے آپ کو بدل ڈالا اور اللہ سے مدد مانگی تو وہ ہمارے حال پر ضرور رحم کرے گا۔اور جس طرح آپ سب نے فرمایا کہ کچھ ہوم ورک صرف ہمیں کرنا ہے،اور اپنے ووٹ کا استعمال صیح اور سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا ۔ملک تو اللہ نے دےدیا(ہمارے بزرگوں نےبےشمار قربانی دی ہیں) مگر ہم ان کی قربانیاں اللہ کا احسان سب کچھ بھول گے اور اسی وجہ سے آج یہ حالت ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم ہر چیز کو ترس رھے ہیں۔لیڈر شپ ایسی ہے جنہیں کلمہ شریف بھی صیح نہیں آتا۔اس میں سب قصور ہمارا ہے کسی اور کا نہیں۔اب بھی ہم بیدار ہو جائیں تو اللہ ہماری حالت پر رحم فرما کر اسے بدل دیں گے۔ہمیں ایک ہونا ہے ۔سب اختلاف بھول کر سچے مسلمان اور سچے پاکستانی بننا ہے۔اللہ ہماری حالت پر رحم فرمائیں آمین
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    محبوب خان بھائی ۔ آپ کی خوبصورت اور حقیقت پسند تحریریں ہمیشہ ہی پسند آتی ہیں۔
    آپ کی بات بالکل درست ہے یقینا ہر حقیقت پسند شخص یہی کہے گا کہ تبدیلی ہفتے دس دن کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے طویل صبر آزما مراحل درکار ہوتے ہیں بعض اوقات پوری پوری نسلیں‌ اپنے خون کی آبیاری سے فلاح و ترقی کی منازل حاصل کرتی ہیں۔ رفتار پر بحث کی گنجائش یقینا ہوسکتی ہے۔
    لیکن ۔۔ کم از کم سمت تو درست ہو ۔ کم از کم امید تو دکھائی دے کہ جس سمت ہم رواں دواں ہیں وہ تبدیلی، ترقی اور فلاح ہی کا راستہ ہے ۔ موجودہ راستے یا موجودہ نظام میں‌رہ کر ترقی ، فلاح، کامیابی کے سراب دکھانے والے دراصل فریبی، دھوکہ باز اور شاطر سیاستدان ، ملا ، آمر اور انکے آلہ کار میڈیا کے اشخاص ہیں جو دراصل موجودہ نظام کے پروردہ اور محافظ ہیں۔
    عربی کی ضرب المثل "العوام کالانعام" کے مصداق ہم عوام بھیڑ بکریوں کی طرح پچھلے 65 برس سے ان فریبی رہزنوں کی فریب کاریوں کے پیچھے چلتے جارہے ہیں اور تباہی کے گڑھے میں‌گرتے جارہے ہیں ۔ ذلت و رسوائی کی دلدل دن بدن گہری ہوتی جارہی ہے۔ اور ڈر ہے کہ آئندہ نسلیں بھی اسی میں غرق نہ ہوجائیں۔
    اس لیے معاشرے کے باشعور افراد، طبقات کو کم از کم درست سمت میں رہنمائی کا فریضہ ضرور سرانجام دینا چاہیے۔ چراغ سے چراغ جلتا رہے گا تو انشاءاللہ روشنی ہوگی۔
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    میری رائے کے مطابق یہ اختلافی بات نہیں‌بلکہ لازم و ملزوم چیز ہے۔ یہ سچ ہے کہ عوام میں‌سے ہی حکمران نکلتے ہیں ۔ لیکن سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جائے تو اجڈ ، گنوار عربوں میں سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انقلابی رہنما نکل آیا ۔ یہ درست ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہستی بحکم اللہ تعالی مبعوث ہوتی ہے۔ اور ان کے بعد اب کوئی پیغمبر نہیں‌آسکتا۔
    لیکن "لقد کان فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ" کے حکم پر غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ آسکتی ہے کہ انقلابی اور قابل رہنما کے لیے باشعور قوم میں سے بھی آسکتا ہے۔ لیکن فرانس، ملائیشیا و ترکی سمیت انقلابات زمانہ پر نظر دوڑانے سے یہ حقیقت بھی مترشح ہوتی ہے کہ انقلابی رہنما پسماندہ ذہن اور پسماندہ عوام میں سے ابھر کر بھی قوم کو علم و شعور، آگہی، ترقی اور عظمت کی منزلوں سے ہمکنار کرسکتا ہے۔
    اس لیے سارا الزام لیڈروں کو دیتے رہنا اور قوم کو پوتر ثابت کرنا بھی درست نہیں۔ بعینہ قوم کو قصوروار بنا کر لیڈروں کی کرپشن، بدقماشی اور بےراہ رویوں اور ملک دشمن چالوں کو بھی نظرانداز نہیں‌کرنا چاہیے۔
    لیکن ایک حقیقت اٹل ہے کہ اچھی قیادت پوری قوم کو اچھی راہ پر ضرور ڈال سکتی ہے۔ بشرطیکہ قوم اس قیادت کو "قیادت" کا حق دینے پر تیار ہوجائے۔
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    میرا ایک سوال

    لیکن میرا سوال نہ کیانی جیسے جرنیلوں سے ہے
    میرا سوال شریف و بھٹو جیسے بار بار باری لینے والے خاندانی لیڈروں سے بھی نہیں ہے
    میرا سوال اسفند اور شجاعت جیسے گھٹیہ ترسیاست کرنے والوں سے بھی نہیں
    میرا سوال بدانصافی و کرپشن کی دلدل میں رہ کر "انصاف" کا پاکیزہ نعرہ لگا کر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرنے والوں سے بھی نہیں۔

    میرا سوال ہے پاکستان کی سترہ کروڑ عوام سے
    میرا سوال ہے پاکستان کی جری فوج کے نوجوانوں سے
    میرا سوال ہے ان ہوش مند پڑھے لکھے نوجوانوں سے
    میرا سوال ان سرفروشوں سے بھی ہے

    جنہیں عرصۂ ہوا گو امریکہ گو کی تحریک بھی چلا رکھی ہے
    کیوں تمہاری عزت و حرمت بےتقدیس ہوچکی ہے؟
    کیوں دکھوں اور مصیبتوں کے سوداگر بن گئے ہو ؟
    کیوں تمھارے گھروں سے سکون اٹھ گیا ؟
    کیوں تم معاشی اور اخلاقی مفلس بن گئے ؟
    کیوں تمہارے فضائی اڈے تمھارے دشمنوں کے عتاب میں ہیں ؟
    کیوں تمہارا خون بے وقعت ٹھہرا ؟
    اپنے گھر کےخنجر بھی تمہاری گردنوں پر
    اور دشمنوں کی بندوق کے نشانے بھی تم پر
    تم عذاب میں ہو لوگو ۔۔۔۔ لیکن کیوں احساس نہیں ؟
    سب کچھ لٹ چکا اب کس سانحے کا انتظار ہے ؟
    کہیں اس انتظار میں تو نہیں کے بم تمھارے قدموں میں آ پھٹے ؟
    تمہارا سب کچھ لٹ چکا !
    تمہاری خود مختاری کو ڈرون سے اڑا دیا گیا
    تمہاری آبرو کو امریکی عدالتوں میں تار تار کردیا گیا!
    تمہاری عزت کی لاش سرحد کے پہاڑوں پر لٹکا دی گئی!
    تمہاری جرات کو گوانتا نامے کی کال کوٹھڑیوں میں پہنچا دیا گیا !
    تمھارے دلاوروں کو ڈینی بنا دیا گیا !
    تمھارے اسلاف کو، تمہاری میراث کو افغان کی پہاڑیوں میں بمبوں سے نیست و نابود کر دیا گیا !
    کیا کیا نہ لٹ گیا اور
    آج
    تمہاری شناخت ہی تبدیل کر دی گئی - تم ناقابل اعتبار ٹھہرے ہو اور دہشت گرد تمہارا نام ہے

    مسلمانو !
    پاکستانیو !
    اگر آج نہ اٹھے تو تمھیں بمبوں کی بہار اور اسلحے کی مہک اور گہرا سلا دے گی
    پھر قیامت کے دن اس حال میں اٹھو گے کے ذلت اور نامرادی تمھارے دائیں ہاتھ میں پکڑا دی جاۓ گی
    پھر تمھیں جہنم کے اندر خود تمہاری چیخیں تمہیں جگا کے رکھیں گی
    وقت کا نقارہ ہے اور ایمان کا تقاضا ہے
    خطہ پاکستان تم سے سوال کر رہا ہے
    حالات تمہی کو صدا دے رہے ہیں
    انقلاب تمھارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے
    انقلاب کی آواز پر لبیک کہو اور میدان عمل میں گود پڑو
    کیوں کہ
    انقلاب نہ عمران خان کی روایتی سیاست کی کوکھ سے جنم لے گا
    نہ انقلاب نواز شریف کے بے روح ، بے حس اور بے دانش رویے سے آئے گا
    نہ الطاف حسین کے انقلاب انقلاب الاپ کر کراچی کو خون میں لت پت کرنےسے آئے گا
    نہ ہی باطل سے خفیہ ڈیلیں کرنے والے مولاناؤں کی انتہا پسندانہ سوچ سے آئے گا
    انقلاب آئے گا تو آپ کے بیدار ہونے سے آئے گا

    اٹھو سوچوں کو بدلو
    مصر کےانقلابیوں سے اپنی راہ متعین کرو
    میدان عمل کی طرف بڑھو
    کہ راستے آپکی چا پوں کو تک رہے ہیں
    منزل آپ کا انتظار کر رہی ہے
    وقت کی آخری پکار ہے
    وڈیرہ شاہی کے بت گرا دو ، نظام جاگیردار بدلو
    اٹھو کہ غیرت پکارتی ہے یہ مسکنت کا مزاج بدلو
    تمہاری فطرت میں حریت ہے،غلام غیروں کے کیوں ہو خالد
    اتار پھینکو جبہ غلامی کا ، تخت بدلو یہ تاج بدلو
     
  13. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    اس وقت ہمیں اپنی گفتار میں مٹھاس پیدا کرنا ہے
    اس وقت ہمیں اپنے کردار میں جذبہ اخلاص پیدا کرنا ہے
    اس وقت ہمیں ملک کو کچھ دینے کا عملی مظاہرہ کرنا ہے
    اس وقت ہمیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو ووٹ کی اہمیت پہ زور دینا ہے اور غیر آذمودہ قیادت کی حمایت کرنا ہے
    اور سب سے بڑھ کر اس وقت ہمیں برداشت، اخوت، بھائی چارہ اور مستقل مزاجی سے قوم و ملک کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ شامل کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    پاکستان زندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  14. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    فقط پتوں کے برقعے میں تبسم کی اجازت ہے

    کسی کوئل کی کُوکُو بھی غنا کے ذیل میں ہے

    اور خوشبو کا کسی جھونکے کی انگلی تھام کر چلنا نہیں جائز

    کہ جھونکے غیر محرم ہیں

    وگرنہ ہم تمہاری پشت پہ درے لگائیں گے

    ہوا اٹکھیلیاں مت کر!

    کہ شاخیں جھومتی ہیں تو چمن میں رقص کی بنیاد پڑتی ہے

    بجائے رقص کے طاؤس کو مرغِ مقدس سے

    اذانیں سیکھنا ہوں گی

    یہاں ہر سر کشیدہ سرو کو اب سر جھکانا ہوگا

    ورنہ ہم اسے پھانسی سزا دیں گے

    خدایا!

    کنکروں والی ابابیلوں کو جلدی بھیج
     
  15. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    کم گوئی اور صبر و استقامت سے مشکل منزلیں بھی آسان ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ازغوری
     
  16. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جواب: بیداری شعورو احساس

    آپ سب احباب کی باتیں دراصل ہر دردمند پاکستانی کے دل کی آواز ہیں
    ہمیں چاہیے کہ چراغ سے چراغ جلاتے رہیں انشاءاللہ ساری تاریکیاں چھٹ جائیں گی اور روشن سویرا ضرور طلوع ہوگا۔
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    آمین ثم آمین
    بہت خوب حافی بھائی ۔ بہت عمدہ نظم ہے۔
    جزاک اللہ خیر۔
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    غوری بھائی ۔ میں آپ کے دلکش تحریروں کا پرستار ہوں۔ ماشاءاللہ۔
    آپ کے آخری جملے پر سوال اٹھتا ہے کہ جن 35 یا 40 فیصد ووٹ دہندگان کو "ووٹ " کی اہمیت کا شعور حاصل ہے ۔ انکے ووٹوں سے کوئی تبدیلی گذشتہ 30-40 برسوں سے کیوں‌نہیں آسکی ؟
    کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں‌کہ مسئلہ "ووٹ" دینا یا نہ دینا نہیں ۔ بلکہ مسئلہ کی جڑ یہ "انتخابی نظام" ہے
    جس نظام میں ایک شریف، لائق اور ایماندار آدمی کھڑا ہونے کا بھی حقدار نہیں۔
    جس نظام میں انتخاب لڑنے کے معیارات "غنڈہ گردی، برادری، کروڑوہا روپے، کلاشنکوف اور جعل سازی کے ہزاروں ووٹ" ٹھہریں
    وہاں پوری قوم بھی ووٹ دینے چلی جائے ۔ لیکن پارلیمنٹ میں جب غنڈے، کرپٹ اور بدکردار لوگ ہی پہنچ پائیں گے ۔۔
    تو کیا تبدیلی آئے گی ؟؟؟

    البتہ آپ کے اس فرمان کی سو فیصد تائید کرتا ہوں کہ :
    پاکستان زندہ باد ۔
     
  19. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    نعیم بھائی جزاک اللہ۔۔۔۔۔۔
     
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    ڈاکٹر طاہر القادری کی وطن واپسی اور "انتخابی نظام میں تبدیلی" کے لیے 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان کا جلسہ وطنِ عزیز کے سیاسی نقشے کو تبدیل کرسکتا ہے۔ کنور دلشاد

    https://www.facebook.com/photo.php?v=2573421551683
     
  21. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    ہمارے پیارے وطن کو روز اول سے گوں ناگوں چیلنچز کا سامنا رہا کہ ہماری سرشت میں دین اسلام کا نور ہے اور ہمارے آباء نے اسی دین کی سربلندی کیلئے اپنے گھربار قربان کئے اور نئے دیس کی بنیاد رکھی۔

    ہمارے پیارے وطن کی بنیادوں میں بیسیوں نہیں، سینکڑوں اور لاکھوں پاکیزہ صفت مسلمان بچوں، خواتین اور مردوں کا خون شامل ہے

    اس قوم کو غلام بنانے کیلئے کیاکیا حیلے بہانے کئے گئے،کبھی ترقی میں مددکےنام سے ہمارا اعتماد حاصل کیا گیا اور کبھی 71 کی جنگ میں بہری بیڑے کی نوید سنا کر ہمیں ناامیداور رسوا کیاگیا اور پھر 1979 میں اسی ٹولے نے ہمیں جہاد کا رستہ دکھا کے نجانے کتنی ماوں کے لال شہید کروادیے اور پھر 2001 میں نائن الیون اور پھر دہشت گردی کے نام پہ ہمیں آپس میں لڑوا یا جارہا ہے مگر اس ملک پہ قدرت کا خاص کرم ہے ان تمام نامساعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قوم آج بھی پر حوصلہ ہے کہ کوئی راہنماء انھیں بھی میسر ہوگا اور ان کی نیا پار لگوائےگا۔

    وہ راہنما کون ہے ہم سب ان کے منتظر ہیں اور انشاءاللہ ہم ہوں گے کامیاب ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    السلام علیکم غوری بھائی
    ہمیشہ کی طرح دردمندانہ الفاظ سیدھا دل میں اتر گئے ۔ اللہ تعالی نے واقعی پاکستان کو اپنے خاص کرم سے سہارا دے رکھا ہے۔
    وگرنہ ہمارے لیڈروں جیسے لیڈر اگر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کو چند سال کے لیے میسر آئے ہوتے تو دیوالیہ نکل چکا ہوتا۔

    جیسا کہ آپ نے بھی ذکر کیا ۔پاکستان کی بنیاد برصغیر میں دوقومی نظریہ تھا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام اور پاکستان کا ازلی ساتھ ہے۔ نہ اسلام کو پاکستان سے جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان کو اسلام سے کاٹا جاسکتا ہے۔
    رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کو وجود پانے والا یہ ملک الوہی نشانی کے طور پر ہمیں عطا ہوا ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود اسکا ایٹمی قوت بن کر پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک حوصلہ مند بھائی کے طور سامنے آنا بھی کسی کرامت سے کم نہیں۔

    اب اگر اس ملک کو کئی نجات دہندہ ملنا ہے یا پاکستانی قوم نے کسی رہنما کو اپنا نجات دہندہ ماننا ہے تو اسکے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربی نظریات کا حامی ہونے کی بجائے اسلام کے دامن سے روشنی اخذ کرکے حال اور مستقبل کو عالمی حالات کے ساتھ مطابقت دینے کی اہلیت رکھنے والا ہو۔ قرآن و سنت سے عطا کردہ نظام حیات کی روشنی ہی اس ملک کے مستقبل کو جگمگا سکتی ہے۔ لیکن اسلام چونکہ ہر دور کے لیے قابلِ عمل دین ہے۔ اسلیے ضروری ہے کہ اسلام کی "طالبانی تشریح" نہ ہو بلکہ مجددانہ انداز فکر کے ساتھ حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی رکھنے والے اسلامی تعلیمات کے ذریعے ہی ہم عظمت و وقار اور فلاح و کامیابی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔
     
  23. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    نعیم بھائی آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ القائدہ، طالبان، جماعت اسلامی، اخوان المسلمین وغیرہ وغیرہ سبھی کے تانے بانے انکل سام کے دربار سے جا ملتے ہیں اس لئے ہمیں نئی قیادت درکار جو موجودہ سیٹ کے برعکس کام کرے اور مصلحتوں سے بالا تر ہوکر صدق دل سے عوام کے مسائل عوام کی امنگوں کے مطابق حل کریں!۔

    پرامید رہیے کہ ہماری سرزمین بہت ذرخیز ہے۔۔۔۔۔۔
     
  24. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جواب: بیداری شعورو احساس

    السلام علیکم ۔آپ سب احباب کی فکر و محنت کو سلام ۔ اللہ پاک آپ سب کو اور پوری قوم کو سلامتی عطا فرمائے۔ آمین
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    مجھے یہ جان کر قطعا حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اس بات کا یقین مجھے 11ستمبر2001 سے ہے۔ :suno:
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    اصل مسئلہ ہمارے ہاں رائج یہ نظامِ انتخابات اور نظامِ سیاست ہے۔ جو کسی بھی مخلص اور لائق راہنما کے آگے آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

    یہ انتخابی نظام جس میں سوائے 200 خاندانوں کے ڈیڑھ دو ہزار افراد جن میں اکثریت کرپٹ، خاندانی جاگیردار، حلال و حرام سے بلاامتیاز سرمایہ دار، قاتل، غنڈے، رسہ گیر اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کارکن و سرپرست اور جعلی ڈگری ہولڈر جیسے بددیانت افراد ہی اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔
    لیڈر چاہے کوئی بھی ہو، جماعت کوئی بھی ہو، پارٹی کوئی بھی ہو، منشور کچھ بھی ہو، نعرے خواہ جیسے بھی ہوں۔ جب اسمبلی کی اکثریت انہی کرپٹ و بدقماش اور نااہل افراد پر مشتمل ہوگی تو بڑے سے بڑا لیڈر بھی انہی کے ہاتھوں بلیک میل ہوگا، ایماندار سے ایماندار شخص کو بھی اسی کالک میں ہاتھ کالے کرنے پڑتے ہیں اور یہ نظام ایک گھن کی طرح ہر بااصول و اہل شخص کو پیس کے رکھ دیتا ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ آج تک :
    اس نظام نے 18 کروڑ عوام کو 200 خاندانوں کا غلام بنا کے رکھ دیا ہے۔
    اس نظام نے 65 سال سے عوام کو سوائے بھوک، غربت، مایوسی، لوڈشیڈنگ، بےروزگاری، خود کشیوں، بےراہ روی اور دہشت گردی کے اور کچھ نہیں دیا۔
    یہی نظام انتخاب ملک کو تباہی کے دہانے لے آیا ہے۔
    موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اس انتخابی نظام کو تبدیل کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کام پلک جھپکتے میں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے اہل ، باکردار، ایماندار، اعلی تعلیم یافتہ ، صاف ستھرے دماغ اور شفاف ماضی رکھنے والے چند درجن افراد پر مشتمل ایک ٹیم درکار ہے جس میں ماہرِین قانون، ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ زراعت، ماہرین بینکاری، ماہرینِ دفاع، ماہرین امور خارجہ وغیرہ الغرض مختلف شعبہ حیات سے ماہرین کی ایک ٹیم بنا کر ایک عبوری حکومت قائم کردی جائے ۔
    یہ ٹیم 3 یا 4 یا 5 سال تک کے لیے بنائی جائے جس کے ذمے:
    1۔۔ سب سے پہلے "بےلاگ احتساب"
    2۔۔ پھر نئے انتخابی نظام سے متعلق میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور
    3۔۔ پھر نئے انتخابی نظام کے نفاذ کے تحت انتخابات کروانے کا عمل
    ہو ۔
    موجودہ کینسر زدہ سیاست کو اگر ملک سے کاٹ کر الگ نہ کیا گیا تو یہ ناسور پورے پاکستان کو ہڑپ کرجائے گا۔ اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
    اس لیے ہر پاکستانی پر لازم ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو سمندر برد کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔
    نظامِ انتخاب کو بدلنے اور ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا مطالبہ :
    ڈاکٹر طاہر القادری ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سید زید حامد، سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد ، کالم نویس قیوم نظامی، کالم نویس آفتاب اقبال ، حسن نثار اور دیگر بہت سے دانشوران کرچکے ہیں۔
    اسی مطالبہ کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری نے 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان پر پاکستانی عوام کو اٹھ کھڑا ہونے کے لیے کال دے دی ہے۔
    امید کی جاتی ہے کہ عوام ان 200 خاندانوں کی غلامی سے آزادی پانے اور ملک کو عظمت و وقار کی راہ پر چلانے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پرامن تبدیلی کے لیے انکے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے
     
  27. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    نعیم جی۔۔ آپ کی باتیں حقیقت کے قریب ترین ہوتی ہیں۔۔
     
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    السلام علیکم۔
    سنجیدہ فکر دانشواران اور عام پاکستانی سے یہ جملے اکثر سننے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ
    ہمیں ایک اہل قیادت کی ضرورت ہے۔
    اللہ کرے کوئی خمینی آجائے ۔
    اللہ کسی مخلص راہنما کو بھیج دے۔
    موجودہ بحرانوں میں‌پاکستان کو دوسرا قائد اعظم درکار ہے۔
    وغیرہ وغیرہ
    اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم کو ایک مخلص، اہل، اعلی تعلیم یافتہ، باصلاحیت، انقلابی افکار کی حامل اور محب وطن قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ یقینا ہمارے وطن میں ایسی بہت سی شخصیات ہوں گی۔ لیکن قیادت کا معیار اگر :
    علم، دیانت، امانت، فہمِ دین، فکری جدت ، جمہوریت مزاجی، عالمی بصیرت، اعلی تنظیمی و انتظامی صلاحیت، سیاسی و سماجی، فکری و روحانی انقلابی فکر، تحریر و تقریر پر ملکہ ، اخلاص، حب الوطنی وغیرہ ہیں تو ایسی صلاحیتوں کی حامل شخصیات میں ایک نمایاں ترین نام ڈاکٹر طاہر القادری ہیں جنہوں نے اپنی بےشمار علمی و فکری، تنظیمی ، فلاحی صلاحیتوں کا لوہا عالمی سطح پر منوایا ہے۔
    :n_great: وہ 1000، 1 ہزار سے زائد اردو، عربی ، انگریزی کتب کے مصنف ہیں جن میں سے تقریبا 500 کتب چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ www.minhajbooks.com
    :n_great:وہ 6ہزار سے زائد موضوعات پر اردو، انگریزی و عربی لیکچرز ریکارڈ کروا کے عظیم علمی ذخیرہ کی صورت میں امت کو دے چکے ہیں۔
    :n_great:منہاج القرآن تنظیم پاکستان کے گوشے گوشے کے علاوہ دنیا کے 100 ممالک میں اپنا نیٹ ورک رکھتی ہے اور اقوام متحدہ سے غیرسرکاری تنظیمات میں سب سے بڑی تنظیم کا درجہ پا چکی ہے۔
    :n_great:پاکستان میں 1 انٹرنیشنل چارٹرڈ یونیورسٹی کے علاوہ 600 سکول وکالج اور آئی ٹی کالجز کے ذریعے قوم کو تعلیم دی جار ہی ہے۔
    :n_great:دنیا بھر میں 40 سے زائد اسلامک سنٹر جہاں غیرممالک میں پاکستانی نسلیں ایمان و پاکستانیت کا شعور حاصل کررہی ہیں۔
    :n_great:دنیا بھر میں اسلام کے چہرے پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے بدنما داغ کو اپنے تاریخی فتوی کے ذریعے صاف کرکے اسلام کو دنیا میں امن و محبت کے دین کے طور پر متعارف کروانے کا سہرا ڈاکٹر طاہر القادری کے سر ہے۔
    :n_great:پاکستانی قوم کو 1992 میں سود سے پاک بینکاری کا قابلِ عمل معاشی خاکہ دے چکے ہیں جو آج تک چیلنج نہیں‌کیا جاسکا۔
    :n_great:منہاج ویلفئیر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام لاہور میں 500 یتیم و بےسہار بچوں کے لیے پناہ گاہ کا منصوبہ "آغوش" مکمل ہوچکا ۔
    :n_great:300 یتیم و مستحق بچیوں کے لیے پناہ گاہ "بیت الزاہرا" زیر تعمیر۔
    :n_great: ملک بھر میں‌ 200 ڈسپنسریز، 50 ایمبولینس سروسز، 40 سے زائد بلڈ بنکس اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی بستیاں، عارضی سکولز کے بےشمار پراجیکٹس
    :n_great:ہر سال 100 کے لگ بھگ یتیم و بےسہارا غریب خاندانوں کے بچے بچیوں کی اجتماعی شادیاں کروائی جاتی ہیں۔
    :n_great:قومی و بین الاقوامی قوانین کے ماہر اور پاکستان کے سینکڑوں ججز و وکلاء کے استاد ہیں
    مزید تفصیلات کے لیے www.minhaj.org وزٹ مفید ہے۔


    قوم کی خدمت کرنے والے اگر ایسے با صلاحیت ، مخلص، محب وطن لوگ قیادت کے حقدار نہیں تو پھر کون ہوسکتا ہے ؟
    اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنی صلاحیتوں‌کا حامل شخص 14-13 سال سیاسی جدوجہد کے باوجود قوم کی قیادت کے منصب پر فائز کیوں نہ ہوسکا ؟؟؟
    آئیے مندرجہ ذیل سطور میں اسکا جواب دیکھتے ہیں۔
    اصل خرابی ہمارے ہاں رائج نظامِ انتخابات اور نظامِ سیاست میں ہے۔ جو کسی بھی مخلص اور لائق راہنما کے آگے آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
    یہ انتخابی نظام جس میں سوائے کم و بیش 200 خاندانوں کے ڈیڑھ دو ہزار افراد جن میں اکثریت کرپٹ، خاندانی جاگیردار، حلال و حرام سے بلاامتیاز سرمایہ دار، قاتل، غنڈے، رسہ گیر اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کارکن و سرپرست اور جعلی ڈگری ہولڈر جیسے بددیانت افراد ہی اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔
    لیڈر چاہے کوئی بھی ہو، جماعت کوئی بھی ہو، پارٹی کوئی بھی ہو، منشور کچھ بھی ہو، نعرے خواہ جیسے بھی ہوں۔ جب اسمبلی کی اکثریت انہی کرپٹ و بدقماش اور نااہل افراد پر مشتمل ہوگی تو بڑے سے بڑا لیڈر بھی انہی کے ہاتھوں بلیک میل ہوگا، ایماندار سے ایماندار شخص کو بھی اسی کالک میں ہاتھ کالے کرنے پڑتے ہیں اور یہ نظام ایک گھن کی طرح ہر بااصول و اہل شخص کو پیس کے رکھ دیتا ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ آج تک :
    اس نظام نے 18 کروڑ عوام کو 200 خاندانوں کا غلام بنا کے رکھ دیا ہے۔
    اس نظام نے 65 سال سے عوام کو سوائے بھوک، غربت، مایوسی، لوڈشیڈنگ، بےروزگاری، خود کشیوں، بےراہ روی اور دہشت گردی کے اور کچھ نہیں دیا۔
    یہی نظام انتخاب ملک کو تباہی کے دہانے لے آیا ہے۔


    موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اس انتخابی نظام کو تبدیل کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کام پلک جھپکتے میں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے اہل ، باکردار، ایماندار، اعلی تعلیم یافتہ ، صاف ستھرے دماغ اور شفاف ماضی رکھنے والے چند درجن افراد پر مشتمل ایک ٹیم درکار ہے جس میں ماہرِین قانون، ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ زراعت، ماہرین بینکاری، ماہرینِ دفاع، ماہرین امور خارجہ وغیرہ الغرض مختلف شعبہ حیات سے ماہرین کی ایک ٹیم بنا کر ایک ٹیکنو کریٹ عبوری حکومت قائم کردی جائے ۔
    یہ ٹیکنوکریٹ عبوری حکومت 3 یا 4 یا 5 سال تک کے لیے بنائی جائے جس کے ذمے:
    1۔۔ سب سے پہلے "بےلاگ احتساب"
    2۔۔ پھر نئے انتخابی نظام سے متعلق میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور
    3۔۔ پھر نئے انتخابی نظام کے نفاذ کے تحت انتخابات کروانے کا عمل ہو ۔


    موجودہ کینسر زدہ سیاست کو اگر ملک سے کاٹ کر الگ نہ کیا گیا تو یہ ناسور پورے پاکستان کو ہڑپ کرجائے گا۔ اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
    اس لیے ہر پاکستانی پر لازم ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو سمندر برد کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔
     
  29. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    تبدیلی ایک فرد کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ مجموعی طور پر پوری قوم کی آواز حق کی بلندی سے ہوتی ہے۔ ابھی تبدیلی کا پہیہ حرکت میں نہیں آیا۔

    جونہی زرا سی جنبش ہوئی تولیڈر بھی اٹھ کھڑے ہوں گے اور قوم بھی آٹھوں پہر جاگے گی۔

    ارادے جواں رکھیئے تبدیلی ضرور ہوگی اور ہم ہوں گے کامیاب ایک دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرور
     
  30. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیداری شعورو احساس

    میں نے اپنی کزن سے بات کر لی ہے۔۔ ماما سے بھی کری تھی۔۔ میں ان کے ساتھ 23 دسمبر کو لاہور مینار پاکستان اس نظام کو چینج کرنے جا رہی ہوں۔۔ :car:
    میری کزن نے ان کی لیٹسٹ سپیچ سنائی تھی۔۔ کیا کماااااال باتیں کرتے ہیں۔۔ سن کر میرے میں اتنا جذبہ ہوا۔۔ دل کرا ابھی لاہور چلی جاؤں۔۔ :horse:
    ان کی باتوں میں بہت سچائی ہوتی ہے۔۔ سیدھا دل مین اتر جاتے ہیں۔۔
    صداقت ہو تو دل سینوں سے کھچنے لگتے ہیں واعظ
    حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی :119:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں