1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

فرقہ واریت کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏4 ستمبر 2006۔

  1. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    نعیم بھائی ۔ آپ نے انکل عبدالرحمن سید صاحب کے سوالات کے جواب میں واقعی بہت مثبت اور دلنشین انداز میں حقائق کی پہچان کروائی ہے۔ اور میرا بھی دل مانتا ہے کہ وہی طبقہ، جماعت یا علماء ہمارے دین کے سچے نمائندے ہوسکتے ہیں جن کا سبق ، محبت، امن، اخوت ، اتحاد اور بھائی چارہ ہو۔ جو نہ کسی سے نفرت کریں نہ نفرت کا درس دیں۔

    مثال کے طور پر حالیہ واقعات کو لے لیں۔ جامعہ حفصہ یا لال مسجد کے ساتھ جو کچھ ہوا سو ہوا۔ کون کتنا قصوروار تھا ؟ الگ سوال ہے۔ میرا خیال ہے کہ تالی دونوں طرف سے بجی تھی۔

    لیکن اب جو خود کش حملے پاک فوج کے جوانوں اور نہتے معصوم شہریوں پر کر کے دہشت اور خوف و ہراس اور بد امنی کا ماحول گرم کیا جارہا ہے۔ کوئی مولانا مجھے بتا دے کہ یہ کونسا “ اسلام “ ہے ؟؟؟

    ایسے حملے کروانے والے کون ہیں۔ کس مکتبہء فکر سے تعلق رکھتے ہیں ؟

    کیا ہم نہیں جانتے کہ افغانستان ، سرحد میں ایک مخصوص مکتبہء فکر کی مذہبی اجارہ داری ہے اور وہی خود کش حملوں کے ذمہ دار ہیں ؟

    کیا ہمیں نہیں معلوم کہ یہ سعودی میڈ اسلام ہے جو اسلام کے شاید ایک فیصد حصے (اسلامی سزاؤں) کو لے کر باقی 99 فیصد اسلام کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے ؟

    اگر ہماری قومی و ایمانی غیرت زندہ ہے تو کیا ہم پر لازم نہیں کہ ہم انکو بے نقاب کر کے امت مسلمہ میں سے کالی بھیڑوں کو الگ کردیں ؟؟

    اللہ تعالی ہم سب کو حق کو پہنچاننے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    عبدالرحمن سید صاحب نے لکھا ہے ۔۔۔

    درست فرمایا آپ نے۔ لیکن بات وہی نعیم بھائی والی آجاتی ہے کہ خود ہمارے (یعنی عامۃ المسلمین) ‌‌‌‌میں دینی شعور کو اجاگر کرنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسلام کا بنیادی شعور ہمارے اندر ہونا چاہیئے اور ہمیں اسکے لیے محنت کرنا ہوگی۔

    یہ اسلام کا بنیادی شعور ہی تھا کہ جب سیدنا عمر :rda: نے حق مہر کی مقدار مقرر کرنا چاہی تو ایک عام سی عورت کھڑی ہوکر بول اٹھی ۔ اے خلیفۃ المسلمین ! کیا آپ اس چیز کی حد مقرر کرنا چاہتے ہیں جسے رسول اللہ :saw: نے محدود نہیں کیا ؟؟
    حضرت عمر :rda: کو فوراً احساس ہوگیا اور انہوں نے فیصلہ واپس لے لیا۔

    ایسا ہی دینی شعور ہر مسلمان کے اندر پیدا ہونا چاہیئے۔ تاکہ ہم سچے مسلمان اور منافق کا فرق محسوس کر سکیں۔

    نعیم بھائی نے کسی لڑی میں “اسامہ دوست یا دشمن“ کے عنوان سے بہت سے حقائق آشکار کیے ہیں۔ بلاشبہ اختلافِ رائے رکھنا ہر کسی کا حق ہے لیکن میرا مشورہ ہے کہ اس لڑی کو ایک بار ضرور پڑھیں۔‌

    http://www.oururdu.com/forum/viewtopic.php?t=2177
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بجا فرمایا۔۔۔ بالفاظ دیگر

    اپنا عقیدہ چھوڑو مت
    دوسروں کو چھیڑو مت​



    یہی طریقہ ہے اتحاد و اتفاق سے زندہ رہنے کا۔
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی، عقرب صاحب

    آپ دونوں کی باتیں بالکل اپنی جگہ پر درست ھیں، اور میں نے پہلے بھی اس سے اتفاق کیا تھا، !!!

    لیکن مجھ جیسے بے عقل اور کم علم لوگوں کی تعداد کا تناسب پاکستان میں زیادہ ھے، آپ ان کو جس طرف بھی لے جانا چاھیں وہ آرام سے چلیے جائیں گے، اور ایسی بہت سی ایسی مشنریاں بہت تیزی سے معصوم لوگوں کو اپنے صحیح دین سے ھٹانے میں اپنے مشن میں تیزی سی سے مصروف سرگرم عمل ھیں، کیا آپ جانتے ھیں ؟؟؟؟

    اس کے علاوہ جو اعلٰی تعلیم یافتہ ھیں، ان میں سے اکثریت اسلام کی تعلیم کی ظرف سے صرف ان فرقہ واریت اور مختلف عقیدوں کی وجہ سے ھی اپنے دین بے راہ روی اختیار کئے ھوئے ھے، اگر ھم نے مکمل خاموشی اختیار کی تو مزید ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ھوتا جائے گا،

    ھم کم از کم اپنے تمام مختلف مکتبہ فکر اور فقاء علمائے دین سے جن کی ھم بہت عزت اور قدر کرتے ھیں، ان سے یہ تو درخوست کر سکتے ھیں، کہ وہ کم از کم اس طبقے کو تو بچائیں، جو بے راہ روی کا شکار ھوتی چلی جارھی ھے اور اپنے صحیح دین سے دور ھوتے چلے جارھے ھیں، چاھے کتنے اختلافات ھی صحیح لیکن چندخاص بنیادی اسلامی تعلیمات کو لے کر، جن پر سب متفق ھیں، اگر ھمارے علمائے دین مل جل کر وہاں پر جائیں اور صحیح اور بنیادی اسلامی شعور لوگوں میں جگانے کی کوشش کریں،

    ھمارے ملک کی زیادہ تر آبادی پسماندہ علاقوں، دیہات، گاؤں اور قصبوں پر مشتمل ھے،جہاں کی مسجدوں میں لوگ اچھی خاصی تعداد میں نماز پڑھنے تو جاتے ھیں، لیکن انہیں وہاں پر صحیح دینی تعلیم دینے والا کوئی نہیں ھے،اور وہاں کے لوگوں کی اکثریت نہ تو اس قابل ھیں کہ وہ کسی بڑے راے ونڈ جیسے اسلامی تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرسکیں اور نہ ھی انکی معاشی صورت حال اس بات کی اجازت دیتی ھے، اور انہیں لوگوں کی اکثریت ھے، جو بالکل مذھبی، سیاسی شعور نہیں رکھتے اور وہ اپنے لیڈروں کو بھی منتخب بھی کرتی ھے، بس کچھ اپنے زمینداروں اور سرکاری دباؤ کے زیر اثر ووٹ انہیں کو دیتے ھیں جن کا دباؤ اور اثر رسوخ ھوتا ھے،!!!!!

    میرا صرف سوال یہ ھے کہ کیا ان حقائق کی روشنی میں کیا ھمارے ملک میں کوئی صحیح جمھوری حکومت کے نمائندے چنے جاسکتے ھیں، اور کیا ھمیں اپنی قوم کو اسی طرح انکے حال پر بے یار و مددگار چھوڑ دینا چاھئے،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اب سوال یہ اٹھے گا کہ کون ھے جو اپنی قوم کو جگانے میں اور ان میں ذہنی شعور کو دین اسلام کے مطابق اجاگر کرنے میں مدد کر سکتا ھے، ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اللٌہ تعالیٰ ھمیں صحیح اسلامی اصولوں اور قدروں پہچاننے کی اور سیرت نبوی(ص) :saw: پر چلنے کی طاقت اور حوصلہ بخشے، آمین !!!!!!!!

    خوش رھیں،

    علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ھے،!!!!!!!​
    يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
    جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے

    پھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
    پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے

    محروم تماشا کو پھر ديدئہ بينا دے
    ديکھا ہے جو کچھ ميں نے اوروں کو بھي دکھلا دے

    بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
    اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

    پيدا دل ويراں ميں پھر شورش محشر کر
    اس محمل خالي کو پھر شاہد ليلا دے

    اس دور کي ظلمت ميں ہر قلب پريشاں کو
    وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے

    رفعت ميں مقاصد کو ہمدوش ثريا کر
    خودداري ساحل دے، آزادي دريا دے

    بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو
    سينوں ميں اجالا کر، دل صورت مينا دے

    احساس عنايت کر آثار مصيبت کا
    امروز کي شورش ميں انديشہء فردا دے

    ميں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
    تاثير کا سائل ہوں ، محتاج کو، داتا دے!​
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اس وقت بہت ساری تحاریک و قیادتیں اپنی بساط بھر کوششیں علم و شعور کی فروغ کے لیے صرف کر رہی ہیں۔ اب بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ کوئی فرشتہ اتر کر ہمیں ہدایت دینے نہیں آئے گا۔
    یہ کام تو ہمیں خود ہی کرنا ہوگا کہ جن لوگوں‌کو اللہ تعالی نے علم و شعور کی تھوڑی بہت روشنی دے دی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہم خود کو سنواریں۔ اس نورِ ایمان کے چراغ سے اپنے اندر کے اندھیروں کو دور کریں اور اس نور سے اپنا ظاہر و باطن منور کریں۔
    پھر اس نور کو آگے ان لوگوں تک پہنچائیں جو اس سے محروم ہیں۔ اور یہی آج کے دور میں سب سے بڑا جہاد ہے۔ جبکہ ہم نے جہاد محض خود کش حملے کر کے بے گناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا سمجھ لیا ہے۔

    بدقسمتی سے آج ہمارے اندر یہی کمی ہے۔ ہم سمجھ لیتے ہیں میں چپ چاپ اپنے دین پر عمل کرتا رہوں۔ اپنے اللہ کو راضی کرتا رہوں ۔ وہ مجھ پر بہت سارے انعامات کر رہا ہے۔ میں اپنی زندگی جیتا رہوں۔ مجھے اوروں سے کیا لینا دینا۔ میں حق کا پیغام لے کر کیوں‌دوسروں تک پہنچاؤں۔ یہ تو شاید علما کا کام ہے۔ یہ تو شاید تنظیموں اور جماعتوں کا ہی کام ہے۔ یہ تو شاید فرشتوں کا کام ہے۔

    نہیں ۔۔ ایسا نہیں ہے۔۔۔ یہ کام ہر مسلمان کا ہے۔ حضور نبی اکرم :saw: نے غالباً حجۃ الوداع کے موقع پر آخری خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے حکم فرمایا تھا ۔۔جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔۔۔۔

    “جو کچھ مجھ سے سنا اب ان تک پہنچا دو جو یہاں موجود نہیں“۔ (الحدیث)‌

    تو گویا سرکارِ دوجہاں :saw: نے ساری امت کو تبلیغ و فروغِ تعلیماتِ اسلامی کا ذمہ دار بنا دیا۔ اور اس حوالے سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی ہم سے اس بارے میں بھی بازپرس کرے گا کہ خود کو تو سنوار لیا ۔ اللہ اللہ کر لیا لیکن تمھارے ہمسائے میں، پڑوس میں، محلے میں، علاقے میں ، دوست رشتہ داروں میں کتنے لوگ تھے جو راہِ خدا سے دور تھے کیا کبھی ان کو اللہ کی راہ کی طرف بلایا ؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟؟

    دعوتِ دین ایک بہت عظیم فریضہ ہے۔ جو بطور امت ہم سب کو ادا کرنا ہوگا۔ اس پر قرآن وحدیث کے درجنوں حوالے موجود ہیں ۔ لیکن مختصر یہی ہے کہ ہم سب کو اجتماعی طور پر دین کو دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ احوالِ امت کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ بطور قوم اٹھنا ہوگا۔ جب ہی ہماری حالت سنور سکے گی ۔

    اور ہاں جماعت، تحریک، قیادت کے انتخاب کے سلسلے میں بھی ہمیں دھیان سے قدم اٹھانا ہوگا۔ کسی تحریک ، جماعت، یا تنظیم کا حصہ بننے سے پہلے اس کے ماضی ، حال اور مستقبل کے پروگرام کو دیکھنا ہوگا۔ پھر اسکے دعووں کے مطابق اسکی کارکردگی اور اسکا “سکوپ“ بھی دیکھنا چاہئے۔ اسکا طرزِ عمل اور قومی اور عالمی سطح پر اسکا تشخص بھی دیکھنا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہی بات کہ وہ جماعت ، وہ تحریک، وہ قیادت ہمیں اپنے اللہ اور اسکے حبیب مصطفےٰ :saw: سے کتنا قریب کرتی ہے ؟؟؟ کون محبت، امن، اور اخوت کا درس دیتا ہے اور کون نفرتیں پھیلاتا ہے ؟

    یہ بطور فرد ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں چراغ سے چراغ جلا کر ساری قوم کو جگانا ہوگا۔ اگر ہم اپنی ذاتی آرام و سکون، ذاتی مفادات اور دنیوی زندگی کو ہی ترجیح دیتے رہے اور دین ہماری تیسری چوتھی یا اس سے بھی نچلی ترجیح بن کے رہ گیا (جیسا کہ الا ماشاءاللہ آج ہماری حالت ہے) توپھر وعدہء قرآنی کے مطابق ہمارے حالات بدلنا ایسی صورت حال میں ممکن نظر نہیں آتا۔

    دوسری سطح پھر اجتماعی سطح پر کوشش اور جدوجہد بن جاتی ہے۔ جب ساری قوم یا اکثریت ایک نقطے پر متفق ہو جائیں۔ اور اصلاحِ احوال کا عزمِ مصمم کر کے ایک قیادت یا ایک متفقہ قیادت کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے تو پھر قومی تبدیلیء کا مرحلہ آتا ہے۔ قوم کی معاشی، روحانی، سماجی، تعلیمی، اور مذہبی حالت سنور جانے کے بعد پھر۔۔۔۔

    انٹرنیشنل سطح پر اتحاد امت کے عظیم مقصد کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک ہماری اپنی صفوں میں اتحاد نہیں ہوگا۔ ہمارے اپنے ملک میں امن، سکون، خوشحالی کا دور دورہ نہیں ہوگا ۔ ہم کسی کو خیر کی دعوت دیتے اچھے نہیں لگتے۔

    اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔‌‌‌آمین بجاہ سید المرسلین :saw:
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللٌہ، نعیم بھائی،!!!
    آپ نے واقعی بالکل واضع طریقے سے اور تفصیل کے ساتھ ایک ایک بات کو بہت ھی خوبصورتی سے بیان کردیا ھے، ماشااللٌہ،

    آللٌہ تعالیٰ ھم سب کا اپنے حبیب :saw: کے صدقے نگہبان ھو،
    اور اللہ تعالیٰ ھم سب کو توفیق دے کہ ھم سب اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں، اور لوگوں تک سچے اور صحیح ایمان کی روشنی پہنچانے کی ھر ممکن کوشش کریں، آمین، ثمہ آمین،!!!
     
  6. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    بجا فرمایا۔ کاش ہم سب وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے دردِ دل سے ملتِ اسلامیہ کے وقار کی بحالی کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
     
  7. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    بجا فرمایا۔ اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص فی النیۃ اور استقامت فی العمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  8. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے دوسرے فرقوں کو کافر و مشرک کہنے کی بجائے اپنا عقیدہ چھوڑو نہ اور دوسرے کا عقیدہ چھیڑو نہ کی پالیسی ہی بہتر ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی اپنے آپ کو جہنم میں نہیں دھکیلنا چاہتا اور ہر فرقے کے پاس اپنے اچھے اور برے اعمال کی کوئی نہ کوئی دلیل ضرور ہوتی ہے۔

    اس ذیلی ربط پر آپ کو ایک آزاد خیال اہل حدیث عالم دین تمام فرقوں کے درمیان صلح کا ایک ایسا راستہ دکھاتے نظر آئیں گے جسے مکمل سننے کے بعد آپ کے دل میں تمام فرقوں کے بارے میں نرم گوشہ پیدا ہو جائے گا خواہ آپ کسی بھی عقیدہ و مسلک سے وابستہ کیوں نہ ہوں۔

     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ واہ واہ ۔۔۔ ماشاءاللہ

    صابر پیا بھائی ۔ موضوع کی مناسبت سے اتنی زبردست گفتگو بہت کم سننے میں ملتی ہے۔ بہت فراخ قلب اور کشادہ فکر مولانا صاحب ہیں۔ ماشاءاللہ
     
  10. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    محترم نعیم بھائی دوسرے بھائیوں کو بھی اس بارے میں بتا دیں۔ لوگ کسی شخص کو سنے بغیر اس بارے رائے بنا لیتے ہیں۔ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کسی کو خالی الذہن ہو کر سنا جائے۔ اور پوری بات سننے کے بعد اس کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔
     
  11. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
  12. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    میں پیا جی کی باتوں سے سو فیصد اتفاق کرتی ہوں!
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
     
  14. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    محترم پیا جی۔ آپ کا بھیجا ہوا لنک میں اسلامی تعلیمات کے چوپال کی لڑی “امت مسلمہ اور شرک“ میں پوسٹ کر رہی ہوں۔ اس خیال کے پیش نظر کہ شائد کسی اور بہن بھائی کی نظر سے یہ نہ گزرا ہو۔ اگر انہوں نے ادھر مِس کر دیا تو اُدھر دیکھ سکتے ہیں۔ ماشاءاللہ آپ کی تحاریر ہمیشہ بہت مفید ہوتی ہیں۔ جزاکَ اللہُ خیر!
     
  15. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    آمین ثم آمین ۔ ماشاءاللہ محترم سید عبدالرحمن صاحب۔
    آپ کے خیالات بہت مثبت، عمدہ اور نفیس ہیں۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔
    دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
     
  16. فاروق
    آف لائن

    فاروق ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مئی 2006
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ایک مختصر مگر جامع مقولہ ہے:

    اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں، دوسروں کو چھیڑو نہیں۔

    آج بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اس پر عمل کی ضرورت ہے۔
     
  17. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16

    السلام علیکم پیاجی ۔۔۔۔ اللہ آپ اور آپ کے گھر والوں کو خوش رکھے۔۔۔۔آمین
     
  18. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    جس وقت تک باذوق اور کارتوس مار خان جیسے لوگ فورمز پر موجود ہیں اس بات کی گارنٹی ہے کہ فرقہ ورایت نہیں ختم ہو سکتی آپ چاہیں جو مرضی کر لیں ۔۔۔۔۔ کم از کم فورمز پر ۔۔۔
     
  19. موسوئ
    آف لائن

    موسوئ ممبر

    شمولیت:
    ‏15 اپریل 2008
    پیغامات:
    9
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سب مشکلوں کا حل امام مھدے :as: کے ظھور میںھے اللھم عجل لو لیک الفرج
     
  20. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے

    موسوی صاحب کیا اب باقی کام چھوڑ کر امام مہدی ع کا انتظار کرنا شروع کر دیا جائے ؟

    میرے خیال سے ہمیں عملی کوششوں یہ کام کرنا چاہیے

    خوش رہیں
     
  21. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    اللہ تعالی ہر دور میں امت مسلمہ کے اندر پیدا شدہ بگاڑ کی اصلاح کے لیے ایک مصلح، ریفارمر، امام ، مجدد یا راہنما (کوئی بھی نام دے لیں) بھیجتا ہے۔
    ہمیں بھی آج کے دور میں اپنے گردا گرد کسی ایسی شخصیت کو تلاش کرنا چاہیئے جو دین اسلام کو ایک “کُل“ کے طور پر سمجھ کر اسکے ہر ہر گوشے میں اصلاح واحیاء کے لیے خدمات سرانجام دے رہی ہو۔
    تعلق باللہ عزوجل
    تعلق بالرسالت :saw:
    تعلق باالقرآن
    احیائے تصوف و روحانیت
    اتحادِ امت مسلمہ
    فروغِ تعلیم و بیداریء شعور
    فروغِ امن و محبت
    خدمتِ انسانیت (ویلفئیر)
    علم و تحقیق (ریسرچ ان اسلامک سائنسز)
    عالمگیریت ۔ گلوبل اپروچ

    اللہ تعالی کی عطا کردہ عقل و شعور اور جذباتِ ایمانی کو استعمال کرکے اپنے گردا گرد بپا تحریکوں، تنظیموں اور جماعتوں کے پروگرام، قیادت، کردار، اور انکے عرصہء عمل کو دیکھ کر انکی اچیومنٹس کا جائزہ لیں۔ پھر جو تحریک اور قیادت ان سارے مقاصد پر مجموعاً و کاملاً کام کرتی نظر آئے۔ سمجھ جائیں کہ آج کے دور میں اصلاحِ احوال امت مسلمہ کی سچی تحریک اور اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ قیادت وہی ہے۔
    اس کے ساتھ شانہ بشانہ چلیں۔ تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالی ہمارا شمار صرف اپنے دین کے خادمین میں کرسکے۔ آمین
     
  22. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    :salam:
    بہت خوب عقرب صاحب ۔
    بہت اچھے خیالات ہیں آپ کے۔
    واقعی ہم سب کو اس وقت “عمل“ کی ضرورت ہے۔
     
  23. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: توجہ طلب


    فرقہ واریات کا کاتما ایک طریقے سے ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہے مضبوطی سے قرآن کو پکڑ لینا
    اسی کو اللہ کی رسی کہا گیا ہے

    صد افسوس ہم لوگ قرآن کو صرف عربی میں پڑھ کر سمجتے ہین کہ قرآن پڑھنا جانتے ہین
    ھالانکہ قرآن کا ھق یہ ہے اسکو سمجھ کر پڑھا جایے
    ایک سچا مسلم کا کسی فرقے سے تعلق نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن میں جب آ رہا ہے کہ تمھارا دین دین ابراھیمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ابراھم علیہ اسلام نہ تو عیساہی تھے نہ یہودی،۔۔۔۔۔۔
    اللہ ہی ہے اب تو۔۔۔۔۔۔

    قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھو۔۔۔۔(یہ والےجس میں ڈیشنی ہین) چھوڑ کر پڑھو۔۔۔اس سے یہ ہو گا کہ آپ کسی کاص فرقے کے ذہنت رکھنے والے انسان کے ماہنڈ سے قرآن نہیں پرھ سکو گے بلکہ اپنے دماغ سے پڑھ کر اسکو پک کرو گے

    اللہ ہم سبکو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق دے آمین
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم زمرد رفیق بھائی !
    قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرتا۔ اور نہ ہی اسکے ہدایت ابدی ہونے کا کوئی انکار کرتا ہے۔ لیکن یہی قرآن کچھ کو ہدایت اور کچھ کی گمراہی کی ضمانت بھی تو دیتا ہے ؟ تو آپکو کیا معلوم کہ آپ اس قرآن سے ہدایت لینے والوں میں‌سے ہیں یا گمراہ ہونے والوں‌میں سے ہیں ؟
    اسکے لیے معیار و پیمانہ سنت و حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنا ہے تو قول مصطفیٰ اور عمل مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھنا ہوگا۔

    معاف کیجئے گا۔ لیکن قرآن فہمی کا جو انداز آپ اپنے اساتذہ کرام سے سیکھ کر یا اپنی عقل شریفہ سے لوگوں کو سمجھا رہے ہیں۔ میں اس سے اختلاف کرتا ہوں۔ بریکٹس یا ڈیش والے قرآن مجید کے ترجمے سے بچنے کی تلقین آپ نے کیوں فرمائی؟ کیا کسی خاص ترجمہ کی طرف اشارہ دینا پسند فرمائیں گے ؟

    قرآن فہمی کے لیے تفسیر و تشریح کی ضرورت سے انکار صرف جہالت اور قرآنی علوم سے عدم واقفیت اور کسی خاص مولانا یا ڈاکٹر کے سحر لسانی میں مسحور ہونے کی دلیل ہے۔
    اگر قرآن مجید صرف اپنے عربی ٹیکسٹ یا اسکے سیدھے سیدھے ترجمہ سے (بغیر تشریح و تفصیل) کے سمجھا جا سکتا تو سب سے پہلے عظیم صحابی سیدنا ابن عباس :rda: کبھی "ترجمان القرآن) نہ کہلاتے۔ خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم بھی عربی السان ہونے کے باوجود حضرت عبداللہ ابن عباس رض سے جا کر مختلف آیاتِ قرآنی کی تشریح و تفصیلات معلومات کرتے تھے۔ پھر قرآن مجید کے ہزاروں مفسر پیدا ہوئے، شارحین آئے ۔ اگر قرآن مجید کے صرف عربی ٹیکسٹ سے ہی مکمل ہدایت سمجھ آجاتی تو عالم عرب میں تو ہر شخص ہدایت یافتہ ہوتا اور قرآن کا عالم ہوتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں انکی حالت بھی بہت دگرگوں ہے۔ برصغیر میں سینکڑوں علمائے کرام ہمیشہ سے قرآن مجید کی تفصیلات و تشاریح لکھتے چلے آئے ہیں۔
    آج بھی لاہور میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے قرآن فہمی کے لیے باقاعدہ ادارہ بنایا ہوا ہے اور انکی عمر مبارک قرآن مجید پر گھنٹوں گھنٹوں لیکچر دیتے بیت گئی ہے۔
    کبھی آپ نے انہی سے جا کے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب ! قرآن کو توصرف لفظ بہ لفظ پڑھنے سے ہی ہدایت مل جاتی ہے تو پھر آپ نے ساری زندگی اسکی تفصیل و تشریح و تفسیر کرنے میں وقت کیوں گذار دیا ؟

    اس لیے میرے بھائی ! اگر آپ بریکٹس یا ڈیشوں والے قرآن مجید سے کسی خاص ترجمے سے لوگوں کو دور رکھنا چاہ رہے ہیں تو خدارا سیدھا سیدھا اس ترجمہ کا نام لکھیں۔ اور اسکے نقائص و نقصانات لوگوں پر واضح کریں۔
    لیکن قرآن فہمی کے لیے تفصیل و تشریح کا انکار کرکے لوگوں کو غلط راہ پر گامزن نہ فرمائیں۔

    اللہ تعالی ہم سب کو قرآن مجید اور صاحبِ قرآن سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے پختہ نسبت عطافرمائے۔آمین
     
  25. عطارقادری
    آف لائن

    عطارقادری ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اپریل 2008
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    Re:

    یہ کیوں نہیں کھتے ہو بھائی کہ جب تک فورم پر ہمارے ہم خیال لوگ ہوں گے تب تک فرقہ واریت ختم نہیں ہوگی کیوں کہ اکثر جب سے میں آیا ہوں یھی دیکھ رہاہوں کہ ہمارے ہی میٹھے بھائی بات کو ادھر ادھر گھمارہے ہیں
     
  26. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم بھاہی

    میں کوہی مفسر یا علامہ نہیں نہ مجھے عربی آتی ہے
    لیکن اللہ تعالی کی ذات نے مجھ پر بہت کرم کیا ہے اس نے مجھے ہدایت دی ہے اس نے مجھے قرآن کو سمجھنے کی توفیق دی
    اس میں صرف اللہ کی عبادت کا ذکر ہے اس میں اللہ کے سوا عبادت کرنے والے کو اسکے انجام کا ذکر ہے
    الھمداللہ آپ مسلمان ہو۔۔۔۔۔۔یقینا اس بات پر آپ متفق ہو گے کہ
    دنیا میں بسنے والے دو آدمی اس میں ایک کہے دو دو جمع چار جبکہ دوسرا یہ جانتا ہو کہ آسمانوں کےاوپر اللہ رہتا ہے
    تو آپ کیا کہیں گے دونون میں زیادہ علم والا کون ہے؟


    قرآن صرف اللہ کی عبادت سکھاتا ہے۔۔۔اس میں بہت سکت عمل بھی ہین جو کرے گا وہ اپنے لیے نہیں اللہ کی رضائ کے لیے کرے گا
    جو قرآن کے ذریعے اپنی زندگی گزرے گا اللہ اسکے اجرا کو ضآیع نہیں کرے گا
    قرآن کیا ہے؟
    وھی اللہ کی طرف سے اس وھی کی روشنی میں اللہ کے رسول صلم نے جہاد کیا اب مومنین اس کی روشنی اپنے دین کی ھفاظت کرین گے
    میری باتون کا مقصد صرف اپنی عزت یا اپنی ذہانت کا ثبوت یا دوسروں متاثر کرنا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔قسم سے نہیں میں صرف اللہ کے لیے کرتا ہون اللہ پوری طرع کبربین ہے
    اللہ ہی سب کچھ کرے گا وہ ہی سزا جزا دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اپنا لاہف سٹاہل نبی کریم صلم جیسا بنا لوووووو
    آپ بھی قرآن کھول کر باقاعدگی سے پڑھین ۔۔۔۔۔۔۔
    پھر انٹرنیٹ پر مھلے میں لوگوں کو دعوت دین جہاد کی ۔۔۔۔اللہ کے رسول جیسی زندگی گزرانے کے طریقے ساری زندگی ان کا مقصد تھا اللہ کے دین کو اونچا کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا پر عبادت صرف اللہ کی ہو بس
    اللہ مجھے مزید ہداہت دے آمین
    اللہ سب کو ہدایت دے ھقیقی مومن اور سچا امتی بنے کی توفیق دے آمین
    اگرچہ شوک نہیں ہے میرا اندازہ بیان
    کہ اتر جاے تیری بات میرے دل میں
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم زمرد رفیق بھائی !
    اللہ تعالی ہم سب کو قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    قرآن مجید کو پڑھ کر بتوفیق الہی جو تھوڑی بہت سدھ بدھ مجھے میری ناقص علم اور تنگ دامانی کے مطابق میسر آئی ہے۔ وہ عرض کرتا ہوں۔ آپ بھی پڑھیئے اور غور فرمائیے۔ اور اگر کچھ غلط ہوتو میری اصلاح کیجئے۔
    کیونکہ قرآن حکیم کو صرف پڑھ کر، سمجھ لینا ہی مقصود نہیں بلکہ اسکے احکامات و ہدایات پر عمل پیرا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور ہاں یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال لینی چاہیے کہ جو کوئی ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کی بات کرتا ہے وہ عبادت الہی کا منکر ہے۔ معاذ اللہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالی کی توفیق کے مطابق باقی مسلمان بھی عبادت الہی کرتے ہیں۔ ذکر الہی بھی کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ وہ دلوں میں اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عظمت کے گن بھی گاتے ہیں۔ اور ایمان کو اس "طریقہ" سے حاصل کرتے ہیں جس طریقے سے مکرم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے حاصل کیا تھا ۔

    قرآن مجید میں ذات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری عمر مبارک اور بالخصوص قبل از بعثت 40 سالہ دور کی اہمیت

    مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والتسلیم نے دین اسلام اور "توحید الہی" کی پہلی دعوت پر سب سے پہلے جو دلیل پیش کی تھی ۔ وہ اپنی ذات مقدسہ کے پہلے 40 سال کی تھی۔

    قُل لَّوْ شَاءَ اللہُ مَا تَلَوْتُہُ عَلَيْكُمْ وَلاَ اَدْرَاكُم بِہِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِہِ اَفَلاَ تَعْقِلُونَO
    فرما دیجئے: اگر اللہ چاہتا تو نہ ہی میں اس (قرآن) کو تمہارے اوپر تلاوت کرتا اور نہ وہ (خود) تمہیں اس سے باخبر فرماتا، بیشک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo (يُوْنـُس ، 10 : 16)


    پھر اللہ تعالی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا

    لَعَمْرُكَ اِنَّھُمْ لَفِي سَكْرَتِھِمْ يَعْمَھُونَO
    (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بیشک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیںo (الْحِجْر ، 15 : 72)


    سبحان اللہ ۔ خود اللہ رب العزت تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے ایک ایک لمحے کی قسم کھائے۔ اور ہم اس نبی رحمت اللعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی بات کرنے سننے کی بجائے فقط "قرآن قرآن " کرتے چلے جائیں۔ جبکہ دستور قرآنی کی عملی تفسیر ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔

    مجھے سمجھ یہ آتی ہے قرآن مجید کو سمجھنا ہے تو صاحبِ قرآن یعنی حضور نبی اکرم :saw: سےسمجھنا ہوگا۔ کیونکہ آپ :saw: ہی کی ذات کو قرآن مجید نے ساری امت کے لیے "اسوہء حسنہ " قرار دیا ہے۔

    لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّہَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّہَ كَثِيرًاO
    فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo (الاَحْزَاب ، 33 : 21)


    کیا قرآن مجید واضح انداز میں ہمیں حکم نہیں دے رہا کہ اگر آخرت کی کامیابی درکار ہے، اور اللہ تعالی کا ذکر و عبادات بےشک کثرت سے کرنے والے ہو۔ لیکن ان سب سے پہلے رول ماڈل اور نمونہء کامل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات گرامی ہے ؟

    آئیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے عمل کی طرف۔۔۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید پر اولین دور میں لبیک کہنے والے صحابہ کرام بشمول سیدنا صدیق اکبر، سیدنا علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیھم کے ایمان کی بنیاد کیا چیز بنی تھی ؟ قرآن یا ذات مصطفیٰ ؟ ظاہر ہے ذات مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھی ۔ کیونکہ قرآن مجید کی تو شاید ابھی چند آیات اتری تھی۔ پورا قرآن مجید تو بقیہ 23 سالوں میں درجہ بدرجہ نازل ہوا۔

    رسول اکرم :saw: کو چھوڑ کر فقط قرآن کو پکڑنے والوں کی حقیقت کے قرآنی بیان

    آئیے دیکھتے ہیں کہ کسی استاد / ڈاکٹر / مفسر یا علامہ کے کہنے پر ہم جیسے کم علم لوگ جو صرف قرآن پڑھ کر درِ مصطفیٰ :saw: سےکترانا شروع کردیتے ہیں۔ ان کے بارے میں قرآن مجید ہی کیا فیصلہ فرماتا ہے

    وَاِذَا قِيلَ لَھُمْ تَعَالَوْاْ اِلَى مَااَنزَلَ اللّہُ وَاِلَى الرَّسُولِ رَاَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاO
    اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیںo (النِّسَآء ، 4 : 61)


    یعنی منافقین کو قرآن کی طرف آنے سے کوئی تامل نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف اور صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ قرآنی الفاظ واضح ہیں کہ "یصدون عنھما" یا "یصدون عنھم" نہیں ہیں کہ وہ قرآن اور رسول (ص) دونوں سے کتراتے ہیں۔ بلکہ الفاظ ہیں "یصدون عنک" اے رسول صلی اللہ علیک وسلم ، یہ منافقین صرف آپ کی ذات گرامی کی طرف آنے سے کتراتے ہیں۔ ورنہ قرآن قرآن تو ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔

    وَاِذَا قِيلَ لَھُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّہِ لَوَّوْا رُؤُوسَھُمْ وَرَاَيْتھُمْ يَصُدُّونَ وَھُم مُّسْتَكْبِرُونَO
    اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لئے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیں ۔(الْمُنَافِقُوْن ، 63 : 5)


    مفسرین اسکا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ آیت رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبیّ کے بارے میں نازل ہوئی، جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بخشش طلبی کے لئے حاضر ہونے کا کہا گیا تو سر جھٹک کر کہنے لگا: میں نہیں جاتا، میں ایمان بھی لا چکا ہوں، ان کے کہنے پر زکوٰۃ بھی دے دی ہے۔ اب کیا باقی رہ گیا ہے فقط یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ بھی کروں؟ (الطبری، الکشاف، نسفی، بغوی، خازن)۔

    لیکن قربان جائیں اللہ تعالی کی حکمتوں پر کہ جس نے یہاں صیغہ واحد استعمال کرنے کی بجائے قرآن مجید کے الفاظ کو صیغہ جمع میں بیان فرما کر ابدالآباد تک ایک قرآنی اصول بتا دیا کہ منافقین ہمیشہ درِ رسول :saw: کی طرف آنے سے سر جھٹک کر ، تکبر کرتے ہوئے ، دور ہوجائیں گے۔

    اگر ہم مندرجہ بالا قرآنی حقائق کو پڑھ کر اور سمجھ کر ایک لمحے کے لیے اپنےاپنے گریبان میں جھانک کر دیانتداری سے سوچ لیں تو ہمارا ایمان ضمیر ہمیں جواب دے دے گا کہ ہم ایمان کی کس سمت میں اور کس درجے پر کھڑے ہیں۔

    زمرد رفیق بھائی ! آپ کی طرح مجھے بغیر کسی فلسفہ کے ، سیدھا سیدھا قرآن مجید یا احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں یہی سمجھ آئی ہے کہ اگر قرآن مجید کامل طریقے سے سمجھنا اور اس سے ہدایت لینا ہے تو ہمیں ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا سوالی بننا ہوگا ؟

    میں اگر غلط ہوں تو آپ ایک بھائی کے طور پر میری راہنمائی کیجئے اور برائے مہربانی قرآن مجید سے یا حدیث پاک کی روشنی میں مجھے راہ حق سمجھا دیجئے تاکہ مجھ کم عقل کو بھی آپ کی بات سمجھ آسکے۔ اوراگر قرآن مجید یا حدیث پاک کی بجائے آپ کے پاس اپنے ذہن بارسا کا یا اپنے اساتذہ، ڈاکٹرز اور علامہ حضرات کا فلسفہ ہے تو پھر رہنے دیجئے۔ خواہ مخواہ اپنا قیمتی وقت مجھ ناقص العقل کے لیے برباد مت کیجئے گا۔

    شکریہ ۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
     
  28. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    زمرد رفیق بھائی ! آپ کی طرح مجھے بغیر کسی فلسفہ کے ، سیدھا سیدھا قرآن مجید یا احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں یہی سمجھ آئی ہے کہ اگر قرآن مجید کامل طریقے سے سمجھنا اور اس سے ہدایت لینا ہے تو ہمیں ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا سوالی بننا ہوگا ؟


    اللہ پاک آپ پر رھم کریے آمین

    نبی کریم کو رول ماڈل بنانے کا ملطب ہے کہ جیسی لاہف نبی کریم صلم نے گزری ہے ویسی گزرو نبی کریم صلم جیسا۔۔۔۔۔ ہر سٹاہل اپنا یا فیر ڈارھی رکھ یہ اسلام نیں ہے بھیی۔۔۔۔۔

    کود کو نبی کریم صلم کی جگہ کھڑے کرو ۔۔۔۔۔۔نبی کریم صلم اس زمانے کے پیغمبر تھے ۔۔ہم اس زمانے کے پیغمبر ہین امت مھمدیہ۔۔۔
    جسکو قرآن مین کہا ہے کہ۔۔۔ہم نے رسول کو تم پر اور تم کو پوری دنیا دیگر اقوام کے لیے گواہ بنا کر بھئجا
    یہ ہے اطاعت رسول
    جب نبی کریم صلم دین کی تبلخ کرتے تھے تو کفار مکہ آپ کو پاگل مجنوں کہتے تھے
    آپ بھی اسقدر اللہ کے دین کے لیے لوگون کو بلاو کہ لوگ آپکو پاگل کہیں مجنوں کہین
    یہ ہے نبی کریم صلم کی اطاعت جسکو قرآن کہتا ہے نبی کریم صلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے
    نبی کریم صلم کی سوچ کو اپنا لو
    نبی کریم صلم کود کو مسافر سمجھتے تھے دنیا مین ہم بھی یہ سمجھین ہم بھی مسافر ہین۔
    نبی کریم صلم صرف اللہ کے لیے تمام معاملے طے کرتے تھے ہم کو بھی چاہے تمام معاملے اللہ کے لیے کرین
    اللہ پاک مجھکو اور آپ سب کو ہدایت دے آمین
     
  29. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    اللہ تعالی ہمیں منافقت کی ہر ہر علامت سے بچا کر اپنے پیارے محبوب نبی رحمت کل جہان کی محبت، ادب، تعظیم، تکریم، اطاعت اور اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  30. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    در مصطفی آپ کس کو کہتے ہو؟
    کچھ واضآھت ہو جایے تو ہمارے علم میں بھی اضآفہ ہو جایے
    سب فرقے نبی کریم صلم سے پیار کرتے ہین۔۔۔۔۔۔۔آپ کا سٹاہل انوکھا ہی ہے۔۔۔مہربانی ہو کچھ واضاھت ہو جایے مجھے بہت شوق ہے علم کے ھصول کا
    شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں