1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سعودی عرب کے امتیازات و خدمات دین

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏9 جولائی 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ کے بندو ! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو بھی اللہ کا تقوی و خوف اختیار کرنے کی تاکید کرتا ھوں کیونکہ یہی تمام بھلائیوں کا مجموعہ ، برکتوں کا سرچشمہ ، رحمتوں کا مصدر ، ظلمات و اندھیروں کو بھگانے والا نور ، اعلی و بلند درجات تک ترقی پانے کا ذریعہ ، تنزل کی کھڈوں میں گرنے سے حفاظت کا باعث اور گناہ و برائیوں کا کفارہ ہے۔


    ارشاد الہی ہے :

    [ اے ایمان والو ! اللہ کا تقوی و ڈر اختیار کرو اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ ، وہ تمھیں اپنی رحمت سے دوگناہ اجر عطا فرماۓ گا اور تمھارے لۓ روشنی مہیا کر دے گا ، جس میں چلو گے اور تمھیں بخش دے گا ۔ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ] ۔
    ( الحدید : 28)

    مبادیات و امتیازات :

    مسلمانو ! امتوں کی بقاء کا بھید ، شعوب و قبائل کے فخر کا باعث ، عظمتوں کی عمارت کی بنیاد اور تھذیبوں کی رفعت و نیک نامی کی بنیاد مبادیات و اصول اور امتیازات کے قواعد پر قائم ھوتی ہے ، اس کا وجود اخلاق و اقدار کے سایوں میں نپنا ہے ۔

    تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے والا جب تھذیبون کے مٹنے ، عظمتوں کے پامال ھونے ، شعوب و قبائل کے ٹوٹنے اور امتوں کے بحرانوں کے اسباب کا احاطہ کرنے کی کوششوں کرے گا تو اسے بآسانی پتہ چل جاۓ گا کہ ان تمام امور کا اصل سبب مبادیات و اصولوں میں کوتاہیوں اور اپنے امتیازات سے دست برداری ہے ۔

    ھدایت عالم کا نفطۂ آغاز :

    اللہ جل و جلالہ نے ھم امت محمدیہ علی صاحبھا الصلاﺓ و السلام کے افراد پر یہ احسان عظیم فرمایا ہے کہ ھمیں یہ دین اسلام عطا فرمایا ہے جو کہ قوی و سیدھا ہے اور اپنی خاص حکمتوں کے پیش نظر ۔ اور اس کا ہر کام ہی انتہائی حکمت و دانائی پر مبنی ھوتا ہے ۔ اس نے اس جزیرہء عربیہ کو اس غرض سے منتخب فرمایا کہ یہ دین اسلام کے روۓ زمین پر بسنے والی تمام اقوام و مخلومات تک پہنچنے کا نقطہ آغاز ھو ۔

    فرقہ ناجیہ و منصورہ :

    مسلمانو ! لوگوں کی دنیا میں بیشمار تھذیبیں قائم ھوئیں اور طرح طرح کے بحرانوں میں مبتلا ھو کر اجڑیں ۔ لیکن پوری تاریخ میں افراد اور امتوں کی زندگی کا سب سے اھم ترین مسئلہ ان کے ذاتی امتیازات اور منھج کا مسئلہ و قضیہ ہے ۔ اور اس امت محمدیہ علی صاحبھا الصلاﺓ و السلام پر اللہ تعالی کا یہ احسان و کرم ہے کہ اس نے اسے تباہی و بربادی اور بیخ کنی سے بچایا ھوا ہے ۔ اور یہ فیصلہ فرما رکھا ہے کہ ایک فاتح و منصور گروہ اور نجات پانے والی جماعت کا وجود قیامت تک قائم رہے گا ۔ توحید کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہیں ھو گا اور نہ ہی کبھی اسلام کی صدائیں منقطع ھونگی ۔
    چنانچہ ارشاد الہی ہے :

    [ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ھدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان ( باطلہ ) پر غالب کر دے ، اگر چہ یہ بات مشرکوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے ] ۔ ( التوبہ : 33)

    صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

    [ میری امت میں سے ایک گروہ ھمیشہ حق پر قائم و غالب رہے گا یہاں تک کہ ان کے پاس اللہ کا حکم (موت یا قیامت ) آ جاۓ گی اور وہ حق پر قائم و غالب ہی ھونگے] ( بخاری و مسلم )

    اللہ تعالی اپنے فضل و کرم اور منت و احسان سے عقیدہ توحید کی اقامت کی توفیق ارزاں فرماتا رہے گا اور شریعت اسلامیہ کو تمکین و اقتدار اور غلبہ عطا کرت رہے گا ۔ اگر چہ ضعف و کمزوری کے اسباب و عوامل موجود ہیں اور اسلام و اہل اسلام کو طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے جن کے نتیجے میں امت وھن و کمزوری میں مبتلا ھو رہی ہے اور اس کے زخموں سے چور و کمزور جسم کے کئی اعضاء کو بیماریاں گھیرے میں لیتی جا رہی ہیں ۔ لیکن پھر بھی اللہ اس دین کو غالب ہی رکھے گا ۔

    دوام اسلام :

    برداران عقیدہ ! اس امت کے مختلف اداوار و اطوار پر گہری نظر رکھنے اور غور و خوض کرنے والا شخص یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اللہ کے فضل سے ، جب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی تھذیب کے قلعے کی بنیاد رکھی ہے تب سے آج تک اس کے انوار و روشنیاں کبھی نہیں بجھیں اور نہ ہی کبھی اس کی گاڑی کہیں رکی ہے ۔ ہاں اسلام کی شمع کو بجھانے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور اس چراغ کو بجھانے کی وہ کوششیں آج بھی جا رہی ہیں اور اہل اسلام کو ان کی مادی و معنوی امکانیات سے تہی دست کرنے کی تمام تر چارہ سازیاں ھوتی رہیں اور ھو رہی ہیں انھیں ان کے حقوق سے محروم کیا گیا ۔ ان کے عقائد و فکر ، تعلیم و تربیت اور ذرائع ابلاغ و اطلاعات پر یلغاریں کی گئیں لیکن اللہ نے ان کی تمام کوششوں کو ناکام کر دیا اور ان کی ایسی ہر خواہش پوری کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے اس نور اسلام کو مکمل فرمایا ۔ اگر چہ بات کافروں کے لۓ انتہائی ناگوار ہے۔

    مغربی آلہ کاروں کی ناکام کوششیں اور حفظ الہی :

    برادران ایمان: اللہ نے اس جزیرہء عربیہ کو منتخب فرما لیا تا کہ یہ اسلام کے دائمی پیغام کا مرکز قرار پاۓ ، اس کی وحی کے نزول کی جگہ بنے ، اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا گہوارہ ثابت ھو ، اس کے بندوں کا قبلہ اور ان کے دلوں کی کشش کی جگہ اور محل ثقل ھو اور ان کے مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی کا مقام بنے ۔ اس ملک کا امن تمام ممالک کا امن ہے اور اس کے ایمان کا نور ساری دنیا میں اللہ کے فضل و کرم سے چمک رہا ہے ۔ یہ ملک تمام ممالک کے ان تمام لوگوں کا ملجا و ماوی ہے جنھیں دین کے سلسلہ میں مشکلات و مصائب کا سامنا ھو ، یہ ھدایت کے قلعوں میں سے ایک مضبوط قلعہ ہے اور ایک بلند بام چٹان ہے جس کے سامنے دشمن کے تمام تیرے بے کار ہیں اور اس کی رفعت و بلندی کے آگے ھلاکتوں کے تمام عوامل و اسباب مٹ کر رہ جاتے ہیں ، یہ اسلام کا مینار ہے ، ایمان کی آماجگاہ ، عقیدے کا گہوارہ ، تھذیب کا مرکز اور عالم اسلامی کے لۓ قیادت و سیادت ، اقتدار و حکومت اور ھدایت کا نقطۂ آغاز ہے ، یہ وجود اسلامی کے چہرے کا آخری خط اور عقائد و ایمانیات کے دفاع کی دیوار کا آخری حصہ ہے ۔ یہ شریعت اسلامیہ کا گہوارہ اور اس کا دائمی پایۂ تخت ہے ، یہ امت کا راس المال اور ان کے فوائد و منافع میں سے قیمتی ترین چـیز ہے ۔ اس کا مقام دنیا میں ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں دل کا مقام ھوتا ہے ، اس ملک کی اللہ نے خود حفاظت فرمائی ہے اور آج تک استعماری طاقتوں کے نجس پاؤں اس میں داخل نہیں ھو سکے

    اسے اللہ نے سلامتی عطا کر رکھی ہے اور اس کے امن و امان کو کسی لاپرواہ اور غیر مسلم اقوام کے آلۂ کار لوگوں کے ہاتھ تہہ بالا نہیں کر سکے ۔ اس ملک میں دھشت گردی اور تخریبی کاروائیوں کے لۓ کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسے دوسرے مجرمانہ افعال و حرکات کی کوئی گنجائش ہے ۔

    اللہ تعالی نے اس کے چپے چپے میں امن کی دولت پھیلا رکھی ہے ۔ فلہ الحمد و المنۃ ۔

    ہر حقیقی مسلمان کا دل اسلام کے قبلہ پر تمکین و تسلط حاصل ھو رہنے سے مسرور ھو گا جو کہ اس کی دعوت کا بہت بڑا نقطۂ ابتداء ہے اور ہر مسلمان اس وقت خوشی و فرحت محسوس کرتا ہے جب وہ عقیدے کی صفائي دیکھتا ہے اور جب وہ حج و عمرے کے دوران مکمل امن و راحت پاتا ہے تو کیف و سرور میں وہ جھومنے لگتا ہے جبکہ کبھی یہی سفر حج اتنا کٹھن تھا کہ موت و حیات کا سفر قرار دیا جاتا رہا ہے اس نعمت امن و امان پر اول و آخر اور ظاھر و باطن تمام تعریفیں صرف اللہ تعالی کے لے ہی ہیں ۔



    جزیرہ عربیہ کا ماضی :

    مسلمانو ! اس جزیرہء عربیہ پر ایک طویل زمانہ وہ بھی گزرا ہے کہ یہاں کوئي قابل ذکر چیز نہ تھی سواۓ اس کے کہ ہر طرف ظلم کا بازار گرم تھا ۔ ڈاکہ زنی و چوری چکاری تھی ، لوٹ کھسوٹ ناخواندگی و لا علمی اور جہالت و گمراہی تھی ۔ قتل و غارت گری اور اندھیر نگری تھی ۔ یہ علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کا میدان تھا ، اور کثرت خوف و خطرات اور فقدان امن و امان میں یہ اپنی مثال آپ تھا اور صورت حال یہ تھی کہ ( حجاج کرام کی چیخ و پکار اٹھتی ، بیت اللہ اور حرم پاک بھی زبان حال سے چلاتے نظر آتے تھے اور مکہ مکرمہ میں اقوام و امم اپنے رب کو چیخ چیخ کر پکارا کرتی تھیں )

    یہ حالات تب تھے جب اہل جزیرہ عربیہ کے عقائد میں افراط و تفریط آ گئی تھی اور اس علاقے کی ھوا اکھڑ چکی تھی اور یہی پتلی حالت اس وقت تک قائم رہی یہاں تک اللہ تعالی نے مبارک اصلاحی دعوت کے آئمہ کو میدان میں اتارا اور خوف و خطرات کی کثرت کے زمانے میں سلطان حکومت اور سلطان علم و معرفت نے باھم معانقہ کیا اور اس وقت سے پہلے تخلف و پسماندگی اور قلق و اضطراب کا دور دورہ تھا ، لوگوں کا اپنے عقائد سے تعلق کمزور پڑ چکا تھا ۔ اور اپنی شریعت سے وثوق اٹھ چکا تھا ۔ ایسے میں اللہ تعالی نے آئمہ دعوت و سعودی سلاطین اسلام کے ہاتھوں اس ملک اور اللہ کے بندوں کے لۓ خیر و بھلائی کے چشمے جاری فرما دیۓ جس کی گواہی ہر منصف مزاج شخص دیتا ہے اور ہر حاقد کو اس سے کرنٹ لگتا ہے اور یہ اس کے گلے کی پھانس بنتا رہتا ہے ۔

    توحید کا علم بلند ھوا ، خرافات زندہ درگور کر دی گئیں ، شرک کا بطلان ھوا اور یہ اہل مجد و ثناء اور عظمت و بزرگی والے رب کی طرف سے توفیق و عنايت اور اس غالب صاحب حمد کی عطا کردہ آسانی سے ممکن ھوا یہاں تک کہ اس کے انتشار و پھیل جانے سے ، اس کے قواعد اور اصولوں کے راسخ ھونے ، نور علم کے روشن ھو جانے ، شکوک و شبہات کے زائل ھو جانے ، جہالت کے بادلوں کے چھٹ جانے ، مسائل جاھلیت کے کمزور پڑ جانے ، وحدت و اخوت کے وجود میں آ جانے ، راستوں کے پرامن ھو جانے ، امن و امان کا دور دورہ ھو جانے ، تیز موجوں کے وسط میں پوری مہارت و لیاقت سے سفینہ امت کو چلانے والے پر سواریوں کے مطمئن ھو جانے سے جو کہ انھیں اللہ کے فضل و کرم سے ساحل مراد اور سلامتی و نجات کے کنارے پر پہنچا دینے والا ہے ۔
    ان سب چیزوں کو دیکھ کر موحدین کی آنکھیں ٹھنڈی ھو گئیں ۔ یہ چیزیں اس دین میں امامت و حکومت کے تقاضوں میں سے ہیں ۔ اور مال و متاع ملک و قوم اور لوگوں کا تحفظ اسی سے ہی تو ممکن ہے اور دین تو یہ ہے کہ اس کے قوانین و احکام نافذ کۓ جائیں اور ھمارے تمام راستے پر امن ھو جائیں ۔

    جزیرہء عربیہ کے امتیازات :

    صاف عقائد توحید :

    اے امت اسلام ! اس جزیرہ پر اللہ تعالی کے بہت احسانات و انعامات ہیں کہ عظیم اصلاحی دعوت کی نعمت کےساتھ ساتھ اللہ تعالی نے اس جزیرے کو بہت سے خصائص و امتیازات سے نواز رکھا ہے جن میں سے اھم ترین امتیاز یہ ہے کہ اس سیاہ دور میں بھی اس جزیرے کے لوگوں کا عقیدہ خرافات سے پاک و صاف ہے ۔ تمام انحرافات و خرافات سے پاک اللہ کی توحید خالص کا راج ہے اس جزیرے کے لوگوں پر جب خرافات و انحرافات کا رنگ چڑھنا شروع ھو گیا ۔ اور یہ تو ھم پرستیوں میں مبتلا ھونا شروع ھو گۓ ۔۔ اور ظلم و اندھیروں کے گہرے گڑھے میں گر گۓ اور انہی ظلمتوں میں گھری ھوئی تھی کہ مصلح شہیر اور مجدد کبیر امام ( محمد بن عبد الوھاب ) کی آواز صحراء نجد کی طرف سے گونجھی اور سارے علاقے پر چھا گئی ۔ وہ نجد جو کہ توحید و علم اور دعوت و عظمت کا گہوارہ ہے ، وہاں سے ان کی آواز اٹھی تاکہ وہ امت کو گہری نیند سے بیدار کرے یہاں تک کہ صبح اصلاح کا سپیدہ نمودار ھوا اور منادی حق نے یہ ندا لگائی کہ فلاح و نجات کی طرف آ جاؤ اور حق و حقیقت کا سورج طلوع ھوا جبکہ وہ افق سے کب کا ڈھل چکا تھا ، جہالت و ناخواندگی کے اندھیرے چھٹ گۓ جبکہ وہ ہر چہار سو پر غالب ھو چکے تھے ۔

    اے اللہ ! تیری ہی تمام تعریفیں ہیں ۔

    اور اے اللہ ! ھم تیرے ہی بہت شکر گزار ہیں ۔

    اے اللہ ! تمام تر تعریفیں تیرے ہی لۓ ہیں جن کی کوئی ابتداء و انتہاء نہیں ہے ۔ اور اللہ تعریفوں کا صحیح مستحق ہے ۔ کل تک ھمارا یہ جزیرہ عرب لباس توحید سے ننگا تھا اور آج اسے ان کپڑوں کی زینت حاصل ھو چکی ہے ۔

    2 ۔ وحدت :

    اس جزیرہ کی حالت ایسی پتلی تھی کہ جس کی تفاصیل سے آنکھیں اشکبار ھو جاتی ہیں ۔ یہ ہر طرف سے کٹا پھٹا تھا ، خیر و بھلائی کا فقدان تھا ، امن و امان ناپید تھے ، اور اس کے بنیادی ارکان اور ستون گر چکے تھے اور جب اس میں اتحاد پیدا ھوا اور عقائد و تعلیمات کی تجدید ھوئی تو یہ ایک عظیم علاقہ بن گیا ۔ اب یہ خوب آباد ہے اس کی زمین زرخیز و پررونق ہے ، اس کے بادل بارشیں برسانے والے ہیں اور امن و امان پورے جزیرے میں عام اور اس پر سايہ فگن ہے ۔

    دعوت اصلاح کے بعد اس جزیرہ کے میں ایسی وحدت آئي کہ جس کی نظیر ملنا مشکل ہے ، اس کے نجد و حجاز اور جنوب و شمال سب تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی ڈور میں پروۓ ھوۓ ہیں جبکہ اس سے قبل وحدت و اتحاد کا مفہوم غائب تھا اور امت کو اختلافات نے پارہ پارہ کر رکھا تھا ۔ اور علاقائی جھگڑوں ، ملکی تقسیموں اور تفرقہ کے تکلیف دہ اثرات سے کئی ملک کراہ رہے تھے ۔

    اس جزیرے کے اتحاد و دعوت ۔۔ اصلاح کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس علاقے میں امن و امان کے ساۓ پھیل گۓ جہاں خوف و خطرات نےخیمے گاڑ رکھے تھے اور مال و جان ، عزت و آبرو کوئي چیز پر امن نہیں تھی اس امن و امان پر اور اس کی نعمتوں پر اللہ کی حمد و ثناء اور اس کی لا انتہائی تعریفیں ہیں

    3 ۔ نفاذ شریعت :

    اے امت مسلمہ ! اے فرزندان جزیرہ ! اس جزیرے کے اھم ترین امتیازات میں سے ہی ایک یہ تھا کہ اس میں شریعت اسلامیہ کا قانون نافذ تھا ، کتاب و سنت سے فیصلے کۓ جاتے تھے ۔کسی مذھب سے متعصبانہ تعلق نہ تھا ، اور کسی مسلک و مشرب پر جمود نہ تھا ۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی جاتی رہی ہے ۔ علوم و مناھج اور شرعی و دینی اداروں کا خاص اہتمام کیا جاتا رہا ہے اور ان دینی قدروں اور اداروں میں اسلامی وحدت کا قیام ، اسلامی تعاون باھمی کی تائید و نصرت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی عزت افزائی ۔ احتساب کے معاملے کی رفعت اور اس میں کام کرنے والوں کی تعظیم و تکریم ، مسلمان عورت کے حجاب و پردے ، عفت و عصمت ، اور حیاء و حشمت کے تحفظ کے التزام کا اہتمام کرنا اور انھیں بے حجابی و بے پردگی اور مردوں سے آزادانہ میل جول سے دور رکھنا وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں جزیرے کی عورت کو اتنا مکمل تحفظ ملا جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی سوسائٹی نہیں کر سکتی اور وہ آزادی نسواں کے بدبودار نعروں سے بچ گئی اور وہ جعلی ترقی اور مزعومہ آزادی کے دعووں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ رہی ۔

    4 ۔ امت مسلمہ کے مسائل کا حل :

    اس جزیرے عربیہ ( سعودی عرب ) کے خاص امتیازات میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ اس نے مسلمانوں کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا جن میں سے صف اول ک مسئلہ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معراج کے نقطۂ آغاز یعنی فلسطین کا مسئلہ ہے جو کہ اب انتہائي خطرناک مرحلہ سے دوچار ہے جن میں داخل ھو چکا ہے اور انتہائی بدترین سازشوں اور چیلنجوں سے دوچار ہے جن سے پہلے کبھی اسے واسطہ نہ پڑا تھا ۔ اللہ تعالی جلد از مسلمانوں کے قبلۂ اول کو آزاد کروا کر اس سے مسلمانوں کی آنکھوں کی ٹھندک کا ذریعہ بناۓ ۔ اسی طرح ہی تمام دنیا میں مسلم اقلیات کے مسائل کا تعاون بھی ہے ، اللہ تعالی ان تمام مساعی کو اپنی رضاء کے لۓ خالص کر دے ۔

    اے مسلمانو ! صرف اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ھوۓ یہ بات کہی جا رہی ہے تا کہ ذات منعم کا شکر بجا لایا جاۓ اور اپنے مضبوط امتیازات کی تاکید کرنے کے لۓ کہہ رہے ہیں تاکہ اسے آج کی نوجوان نسل یاد رکھے جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ کہیں موجودہ تھذیب و تمدن کی چمک و دھمک سے دھوکہ میں نہ آ جاۓ اور ساتھ ہی ھم چاہتے ہیں کہ امت ان باتوں کو یاد رکھے اور ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرے ۔ اور یاد رکھیں کہ ھم نہ یہ باتیں کسی کا دل رکھنے کے لۓ کہہ رہے ہیں نہ کسی کی بلاوجہ تعریف مقصود ہے نہ بے سبب کی مذمت و قدح بلکہ یہ صرف اللہ کے لۓ کہہ رہے ہیں اور پھر اظہار حقیقت کی خاطر تا کہ تاریخ کے اوراق آنکھوں کے سامنے آ جائیں ۔

    ذمہ داری :

    اھل جزیرہ کو یہ بات ذھن میں رکھنی چاہیۓ اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سلف کا منھج اختیار کریں تاکہ وہ ان کے خلف رشید ثابت ھوں ، اپنے اصول و امتیازات پر سختی سے قائم رہیں اور موجودہ دور کے برے حالات سے اچھے طریقے سے پیش آئیں ۔ اور اس سلسلہ میں اعتدال کے منھج اور میانہ روی کے انداز کو اختیار کریں ، غلو و انتہاء پسندی اور جفا کی راہ سے دور رہیں ، افراط و تفریط سے بچیں اور شکست خوردگی میں مبتلا نہ ھوں اور عقائد و منھج ، فکر و نظر ، تعلیم و تربیت ، ذرائع ابلاغ و اطلاعات اور تمام میدانوں میں ثابت قدم رہیں ، نہ شکست کھائيں نہ دل چھوڑیں اور نہ ہی غیروں سے متاثر ھوں ۔۔۔۔۔۔۔

    دشمنوں کی فطرت :

    مسلمانو ! دشمن اس بات کا عادی ھو چکا ہے کہ اس جزیرہ کو جب کوئی نعمت حاصل ھو یا کوئی مصیبت ٹلے تو وہ شور مچا دیتے ہیں ، انھون نے ذرائع ابلاغ سے خوب حملوں کی یلغار کر دی اور اس جزیرے اور اس کی اصلاحی دعوت کے خلاف کھل کر بدزبانی کی اور اس اصلاحی دعوت کو پانچواں مذھب اور پہلے دور کے مسلمانوں کے مذھب سے خروج قرار دیا اور اسے وہابیت کے لقب سے نوازا اور اس پر یہ الزام لگا دیا کہ یہ وہابی تحریک ہی دھشت گرد ہے ۔۔۔ بقول کسے :

    میرے اپنے ہی بیٹوں نے مجھے ذلت کی چادر اوڑھا دی اور میں اس چادر کی سرسراہٹ سے ہی سمجھتا ھوں کہ مجھے یہ کس نے اوڑھائی پہنائی ہے ۔ اس الزام کو وہ لوگ دہرا رہے ہیں جنھوں نے اپنی باگ ڈور دشمن کے ہاتھ میں دے رکھی ہے اور اپنی عقل و فکر دوسروں کے یہاں گروی رکھ دی ہے وہ کیا کہہ رہے ہیں جانتے نہیں ۔ وہ محض جہالت و لاعلمی میں مبتلا ہیں نہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں نہ تحقیق کر کے بولتے ہیں ، نہ فکر و نظر سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی دلیل و بیان کی راہ اختیار کرتے ہیں حالانکہ ایک سمجھدار اور دانا مسلمان کی شان یہ ھوتی ہے کہ وہ نقل صحیح ( قرآن و سنت صحیحہ ) اور عقل صریح کے آئینے سے دیکھتا اور انہی کی میزان پر ہر بات کو تولتا ہے

    ثبات و استقلال :

    اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرماۓ ، ھم سب کے لۓ ضروری ہے کہ ھم ہر اس دعوت اور نعرے سے بچیں جو کہ ھمارے امتیازات و اصولوں اور ھمارے صحیح منھج کے مخالف ھو ۔

    اے اللہ کے بندو ! اے اس جزیرہ کے باسیو ! اللہ سے ڈرو اور اپنے عقیدہ و شریعت پرجمے رھو اور اپنی تھذیب اور جزیرے کی ترقیوں کا تحفظ کریں ، محض ماضی کی عظمتوں کو یاد کر لینے اور محفوظ رکھنے میں ہی کفايت نہیں بلکہ انھیں مضبوطی سے تھامے رکھنے ان کی بقاء و ترقی کے لۓ پورے عزم سے جد و جہد کرنے اور ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی ترقی والی اور بلند و بالا عمارت بنائي جاۓ جو عام عمارتوں کی طرح نہ ھو اور ایسی تھذیب کی تشکیل دی جاۓ جو عام تھذیبوں جیسی نہ ھو اور ترقی و تھذیب کی عمارت بنانے میں جیسے پہلے آباء و اجداد نے کام کیا تھا اب ان کے ابناء و احفاد ( بیٹے اور پوتے ) حصہ لیں اور اسی طرح کریں جس طرح انھوں نے کیا ۔اسی طرح اہل جزیرہ کی ھمتوں میں نکھار آ جاۓ گا اور وہ اس شرف کے ساتھ ساتھ اہل ثقہ ھونے کے معیار پر پورے اترنے لگیں گے اور وہ مسلمانوں کی جماعت کی راہ پر چلتے رہیں گے اور ان کے سروں پر توحید کا پرچم لہر رہا ھو گا اور منھاج نبوت نبوی طرز زندگی ان کا شعار ھو گا ۔ وہ خواہشات نفس کی پیروی کی رو میں بہہ کر اور اپنی اپنی راۓ پر اڑے رہنے کی بناء پر تفرقہ و دھڑا بندی میں مبتلا نہ ھونگے ۔ وہ اس دین کے مٹ جانے والے شعائر کو زندہ کرنے والے اور اس کے ان مفاھیم کی تصحیح کرنے والے جن میں شکوک و التباس در آۓ ہیں وہ ہر تشویش و طریقہ سے بچنے والے اور افواہ سے اجتناب کرنے والے ھونگے جو لوگوں میں لڑنے بھڑنے کی کیفیت پیدا کرنے اور اسلام کو بدنام کرنے کا باعث نہ ھو ، وہ اس جزیرہ میں شریعت کی روشنی میں بلا تقلید اعمی اس کے امتیازات پر قائم و باقی ر ہنے والے ھونگے ۔ ان کے گھر عقیدہ و شریعت کی نگرانی میں تھذیب حاضر کی مفید ایجادات سے بھی مستفید ھونے والے ھونگے اور اس سلسلہ میں وہ اپنی اصل پر قائم ھونگے غیروں کی تقلید و پیروی کرنے والے نہ ھونگے ۔ لھذا امید و خوش فہمی کی فضاء قائم کرنی چاہیۓ اور عقل پیہم یا جد و جہد مسلسل کی روش اپنانی چاہیۓ تا کہ ایسی زندگی کا آغاز اور اس کی بنیاد رکھی جا سکے جو کہ سعادت و خوش سے مالا مال ھو اور اس جزیرے کی اصلیت اور دورحاضر کی ترقیوں کی جامع ھو اور وہ بھی اس جزیرہ کے اپنے سپوتوں کے ہاتھوں سے ھو ، اس میں بیرونی ممالک سے درآمد شدہ لوگوں کی تاثیر شامل نہ ھو ۔

    تحفظ امتیازات :

    خبردار ! شکست خوردہ ذھنوں کے مالکوں کو معلوم ھونا چاہیۓ جنھوں نے کجی روی منحرفانہ فکر کے مالکوں کو اپنی باگ ڈور سنبھال رکھی اور انہی کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کر رکھا ہے جو بیرونی اخلاق و کردار کے دلال ہیں جن کی اسی خود سپردگی کی وجہ سے وہ کل پرزے سامنے آۓ ہیں جنھیں آپ پہنچانتے اور ان پر نکیر بھی کرتے ہیں ۔

    احباب گرامی ! اللہ نے اس گہوارہء اسلام اور ملجا و ماوی ایمان کو جن جن امتیازات و خصائص سے نواز رکھا ہے اس کے ساتھ ہی ہر اہل انصاف کے نزدیک یہ طے ہے کہ کمال صرف اللہ ہی کے لۓ خاص ہے اور اس کی تمام مخلوقات میں سے معصوم صرف اس کے انبیاء و رسل ہی ہیں ۔ کہ شرعی امور کے پہنچانے میں ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ھوتی ۔ صاحب توفیق اور صاحب الھام وہ ہے جو خیر کی چابی بننے اور شر کو بند کرنے کی توفیق پا گیا ۔ اور اس نے دین و شریعت کی حمایت کی خاطر ان امتیازات مذکورہ کو ظاھر کرنے کی کوشش کی ، اور ان کے تحفظ کے لۓ ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کی اور وہ بھی ایسے عالم و دور میں جو چیلنجوں کے موجیں مارتے سمندر کی شکل اختیار کۓ ھوۓ ہے ، اور وہ شرعی اسلوبوں کے ذریعے صلاح و اصلاح کے جھنڈے کو بلند کرنا چاہتا ہے اور اس پسپائی کو روکنے میں کوشاں ہے ، اور ان سرکش امواج کو اس جزیرہ اور اس کے اہالیان خصوصا نوجوان نسل کے لڑکوں اور دوشیزاؤں سے روکتا ہے تا کہ بیرونی ممالک سے آنے والی بیمار لہروں ، منحرف افکار اور زہریلی ثقافت و کلچر کو قبول کرنے کے لۓ فضا ھموار نہ ھونے پاۓ ، اپنے دین ، امت اور معاشر ے کے مخلص لوگوں کا اللہ معین و مدد گار ہے وہ بہترین کار‎ساز اور بہت ہی اچھا حامی و ناصر ہے ۔ ارشاد الہی ہے :

    [ اور جو شخص اللہ ( کے دین ) کی مدد کرتا ہے ، اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے ، بیشک اللہ قوی و توانا اور غالب ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ھم انھیں زمین میں دسترس و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکاﺓ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں ۔ اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ] ۔ ( الحج : 40 ، 41 )

    اللہ کے بندو ! اللہ کا تقوی اختیار کرو کیونکہ ارشاد الہی ہے :

    [ اور اس دن سے ڈرو جبکہ تم اللہ کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پاۓ گا اور کسی کا کچھ نقصان ( ظلم ) نہ ھو گا ] ۔ ( البقرہ : 281)

    اور مسلمانوں کی جماعت سے جڑے رھو کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے :

    [ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ھوتا ہے ] ۔

    ( ترمذی ، و السند ابن ابی عاصم ، صحیح الجامع : 8065)

    اور جو شخص جماعت سے کٹ گیا وہ جہنم میں جا گرا ۔

    ایک عالمی و آفاقی دعوت :


    اللہ کے بندو ! اس جزیرہء عربیہ کے جو اوصاف و امتیازات اور خصائص شمار کۓ گۓ ہیں یہ کوئی عنصریت و تعصب نہیں ہے بلکہ یہ محض اسلامی عالمی اور آفاقی دعوت ہے ، کیونکہ اسلام ہی درحقیقت عالمی دین ہے ۔
    جیسا کہ ارشاد الہی ہے :

    [اور ھم نے آپ ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کو تمام جہانوں کے لۓ رحمت بنا کر بھیجا ہے ] ۔

    ( الانبیاء : 107)

    اور یہ اس جزیرہ کی کونی و شرعی تقدیر ہے بلکہ اس کے لۓ باعث فخر و شرف ہے اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :

    [ھم نے تمھاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا تذکرہ ہے ، کیا تم نہیں سمجھتے ؟ ] ( الانبیاء : 10)

    اس جزیرہ عربیہ کا مقام دنیا کے لۓ وہی ہے جو کہ نمازی کے لۓ قبلہ کا مقام ہے ، حلہ کے لۓ تاج اور روشن اعضاء میں سے چمکدار پیشانی کا ہے ، اللہ کی قسم کھا کر مجھے بتائیں کہ کون ہے جو اپنے قبلہ کو بوسہ نہیں دیتا ، اور مقامات مقدسہ سے پوری محبت نہیں کرتا ، یہی ہر حاجی و عمرہ کرنے والے کے لۓ مقامات ہیں ۔ یہیں خاتم الانبیاء و اشرف المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کا مقام ولادت و وفات ہے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گھر ہے اور قبر بھی بلکہ اس جزیرے کی محبت ہر مومن کے دل میں موجیں مارتی ہے ۔اور ہر دشمن کے دل سے اس کی محبت غائب ھو جاتی ہے اور دانا و بینا منصف مزاج جسکی بصارت و بصیرت کو حسد و بعض ، نفرت اور حقد و دشمنی نے اندھا نہ کر دیا ھو اسے یہ معلوم ھو جاۓ گا کہ یہ حقیقت اس شریعت کے معالم میں سے ایک سنگ میل ہے اور یہ اس ملت کے خد و خال میں سے ایک اھم نشانی ہے ۔ اسے بیان کرنا چاہیۓ ، لپیٹے نہیں رہنے دینا چاہیۓ ۔ چھپانا و دفن نہیں کرنا چاہیۓ ۔

    سعودی عرب کی خدمات :

    اس جزیرہ اور اس کے سپوتوں کی تاریخ شاھد ہے کہ انھوں نے دعوت کے عالمی میدانوں میں حصہ لیا ہے اور دنیا کے بہت سارے حصوں کی اسلامی و خیراتی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ اور امید ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مزید آگے ہی بڑھتے چلے جائيں گے ۔ اور اس میں تعجب والی بھی کوئي بات نہیں کیونکہ یہ چیز اس جزیرے کے امتیازات و خصائص ، اس کے اغراض و مقاصد اور اھداف میں سے ہے اور یہ ایک انتہائي نادر قسم کے منھج کے تحت رونما ھوتا ہے ، جو کہ حق ، عدل وانصاف اور انسانی بھلائی کے جھنڈے کو بلند کرتا ہے اور برائی ، تشدد ، دھشت گردی اور لا قانونیت و انارکی سے اسے دور رکھتا ہے ۔

    اللہ تعالی اہل جزیرہ کی ان تمام خدمات کو خالص اپنی رضاء کے لۓ قبول فرماۓ اور اس کا اجر دو بالا کرے اور اپنے فضل و کرم سے اسے توفیق خیر سے مزید نوازے ۔ اس جزیرے کو مکاروں کی مکاری سے محفوظ رکھے ، حاقدوں کے حقد سے بچاۓ اور زیادتی کرنے والوں کی زیادتی سے اس کا تحفظ فرماۓ ۔ ھمارا یہ جزیرہ سلامت رہے گا ، ھمارے یہ علاقے شاداب و آباد رہیں گے ، رہتی دنیا تک باقی و قائم رہے گا ، جو امن و امان کا گہوارہ ہے ، اور پوری بشریت کے لۓ خیر و سلامتی کا نقطہ آغاز ہے ۔ ہر خیر و بھلائی کے ہر کام کے لۓ کوشاں ہے بلکہ پوری انسانیت کی خیر کا خواہاں ہے ، اس کی گھات مین بیھٹے دشمنوں کے منہ کالے ھونگے اور اس سے حقد و حسد رکھنے والوں کی ناک خاک الود ھو گی
    ۔ارشاد الہی ہے :

    [ اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے ۔ لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ] ( یوسف : 21)


    و صلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین


    سبحان ربك رب العزﺓ عما یصفون و سلام علی المرسلین

    و الحمد للہ رب العالمین

    سعودی عرب ( جزیرہء عربیہ ) کے امیتیازات و خدمات
    "فضیلة الشیخ / عبد الرحمن السدیس : حفظہ اللہ

    29/ 7 / 1424 ھ 26 / 9/ 2003 ء"
     
  2. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سعودی عرب کے امتیازات و خدمات دین

    شاعر نے کہا ہے :
    یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
    یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

    اسلامی نظام حکومت میں قرآن و سنت ہی بالاتر ہوتے ہیں ، نہ کہ مطلق شخصی بادشاہت ۔ کیا قرآن وسنت یہاں پر بالاتر ہیں ؟

    اسلامی نظام کی بنیاد تو شورائیت کے اصول پر استوار ہوتی ہے ، جسمیں خلیفہ کا انتخاب اور دیگر تمام معاملات میں عوامی مشاورت لازمی ہوتی ہے، کیا یہاں یہ بنیاد موجود ہے؟

    اگر بنیاد درست نہ ہو تو تعمیر کیسی ہوگی ؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں