1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از آبی ٹوکول, ‏29 مئی 2012۔

  1. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم معزز قائین !
    آپ سب کی خدمت میں ایک نئے سلسلہ کہ آغاز کہ ساتھ حاضر ہوں کرنا یہ ہے کہ یہاں اس گوشہ میں تاریخ اور ادب کی روایت کو پروان چڑھانے کے لیے مسلم امہ سے لیکر تاریخ اقوام عالم اور عالمی ادب سے لیکر اسلامی علوم و فنون کہ مختلف زوایہ ہائے فکر کو بصورت اقتباسات کہ نقل کرنا ہے ۔
    سو پہلا اقتباس درج ذیل میں ہماری طرف سے حاضر ہے
    ۔۔

    جو لوگ اسلام کے حقیقی تصور تاریخ کی تفہیم سے قاصر تھے ۔ وہ اس مجوزہ تجربہ گاہ (پاکستان) کی تشکیل کے راستے میں حائل ہورہے تھے ۔ جن لوگوں نے تصور تاریخ کی حقیقی قدروں کو،فکری اور تہذیبی بنیادوں کو پوری کلیت کے ساتھ سمجھ لیا ،ان کے لیے پاکستان کہ قیام کی تحریک کو تسلیم کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا کار ثواب تھا ۔ یہ بات اپنی جگہ بڑی معنی خیز ہے پورے ہندوستان میں موجود اور مروج چاروں سلاسل تصوف (نقشبندیہ، سہروردیہ ، قادریہ اور چشتیہ ) کی کوئی ایک خانقاہ بھی ایسی نہ تھی کہ جس کہ موجود سجادہ نشین نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی ہو۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جہاں تاریخ کہ مکمل وجدان کی کارفرمائی موجود ہے اور وجدان ،تہذیبی معنویت کو جنم دے رہا ہے تو ایسی فکری اور بالخصوص متصوفانہ تحریک کو روکنا مشکل ہی نہیں ، نامکمن تھا۔ پھرجس تحریک کہ پیچھے علامہ اقبال جیسے نابغے کا فکر کام کررہا ہو ، وہ تحریک کسی کہ روکنے سے کب رکنے والی تھی۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔ تحریک پاکستان کی تفہیم کہ پس منظر میں کتاب " اقبال کا تصور تاریخ " سے اقتباس از آبی ٹوکول
     
  2. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

    فرمایا ’’خودی کی تربیت میں پہلا مرحلہ اطاعت ہے۔ اسی لیے اسلام کے معنی ہیں احکام شرع کی بلا چون و چرا اطاعت کرنی۔ جب انسان احکام شرع کی اطاعت کرتا ہے تو اس میں اختیار کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے یعنی وہ صاحب اقتدار ہو جاتا ہے۔ حقیقی آزادی (حریت)احکام الٰہی کی تعمیل ہی سے پیدا ہوتی ہے۔
    کائنات پر نظر ڈالو۔ جو شے قیمتی اور معزز ہے وہ اطاعت ہی کی وجہ سے ہے ۔ ہوا جب پھول میں مقید ہوتی ہے تو خوشبودار بن جاتی ہے۔ اسی طرح مرد مومن، اطاعت سے مراتب عالیہ حاصل کرتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو سختی، آئین کی شکایت کرنی زیبا نہیں ہے۔ اور نہ آئین میں تاویل کرنی چاہیے۔
    اطاعت سے ضبط نفس کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ انسان دو عناصر سے مرکب ہے‘ خوف اور محبت۔ ان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دنیا کی طرف مائل رہتا ہے اور یہ دنیا طلبی اسے فحشاء اور منکرات پر ابھارتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ اپنے دل میں راسخ کر لے کہ اللہ کے سوا اور کوئی ہستی مجھے نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ ’’لا الہ‘‘ کا عصا اس قدر طاقتور ہے کہ خوف اور محبت کے طلسم کو چشم زدن میں باطل کر دیتا ہے۔ دیکھ لو! حضرت ابراہیم نے اپنے فرزند کے گلے پر چھری رکھ دی، کیوں؟ محض اس لیے کہ انہیں اللہ کے سوا اور کسی سے محبت نہیں تھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو قیامت تک مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا کہ مومن وہ ہے جس کے دل میں خدا کے سوا اور کسی کی محبت نہ ہو۔ خالد جانباز کو ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب اسی چیز نے دلوایا کہ وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔


    فرمان اقبال علیہ رحمہ ۔۔ یوسف سلیم چشتی کی یاداشتوں سے اقتباس
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

    بہت خوب آبی بھائی
     
  4. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

    السوال : صوٍفیاء کے نزدیک علم الیقین اس یقین سے عبارت ہے جو کہ اثر سے مؤثر پر استدلال سے حاصل ہو اور چونکہ یہ معنی اہل نظر اور اہل استدلال کو بھی میسر ہے تو صوفیاء کے علم الیقین میں کیا فرق ہوتا ہے اور صوفیاء کا علم الیقین کشف و شہود میں کیوں داخل ہوتا ہے اور علماء کا علم الیقین کس وجہ سے فکر و نظر کی تنگی سے باہر نہیں آتا ؟؟؟؟

    الجواب :جاننا چاہیے کہ دونوں جماعتوں کے علم الیقین میں اثر کا شہود لازم ہے تاکہ اس جگہ سے مؤثر کا سراغ لگایا جاسکے جو کہ غیر مشھود ہے ۔
    خلاصہ کلام یہ کہ وہ تعلق جو کہ اثر اور مؤثر کہ درمیان حاصل ہے اور اثر کہ وجود سے مؤثر کہ وجود تک پہنچنے کا سبب ہے ۔ صوفیا کہ علم الیقین میں وہ تعلق بھی مشھود و مکشوف ہے ۔اور اہل استدلال کہ علم الیقین میں وہ واسطہ نظری ہے جو کہ فکر و دلیل کا محتاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔پس پہلی جماعت کا یقین کشف و شہود میں داخل ہوتا ہے اور دوسری جماعت کا یقین استدلال کی تنگی سے باہر نہیں آتا ۔اور صوفیاء کے علم الیقین میں استدلال کا اطلاق ظاہراور صورت پر مبنی ہے جو کہ اثر سے مؤثر تک انتقال کو متضمن ہے اور حقیقت میں کشف و شہود ہے۔
    برخلاف علماء کے علم الیقین کے کہ وہ حقیقتا استدلالی ہے ۔اور چونکہ یہ باریک فرق اکثر لوگوں پر پوشیدہ رہا، تو ناچار وہ مرتبہ حیرت میں پڑے ہوئے ہیں ۔اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی نارسائی کیو جہ سے بعض بزرگوں پر اعتراض کی زبان دراز کرلی ہے ۔جنہوں نے صوفیاء کے علم الیقین میں اثر سے موثر پر استدلال سے تفسیر کی ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ان کو حقیقت الامر کی اطلاع نہیں ہے ۔ اور اللہ حق کو حق کرتا ہے اور وہی رستے کی راہنمائی کرتا ہے ۔
    مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ حصہ ہشتم دفتر سوم

    نوٹ : اسی بات کو مشھور دانشور و فلسفی احمد جاویدصاحب نے اپنے انداز میں کچھ اس طرح سے بیان فرمایا کہ ۔۔۔۔۔

    پہلے اس میں یہ دیکھنا چاہیے کہ صوفی ایپسٹیم یعنی صوفیاء کا نظام العلم دین سے دین کی ترجمانی کرنے والے دیگر اسالیب علم سے مختلف ہے۔
    ان دونوں اسالیب میں بنیادی بنائے اختلاف یہ ہے کہ صوفیا ء کے نزدیک معنی حضور کا نام ہے۔ یعنی کسی بیان کا معنی حضور پیدا کرے گا شعور میں،اور جو دوسرا اپیسٹیم ہے یعنی NON SUFI وہ انڈر اسٹینڈنگ پیدا کرے گا ۔یعنی ایک بیان ایک شعور میں UNDERSTANDING پیدا کررہا ہے جبکہ وہی بیان ایک دوسرے شعور میں جو کہ صوفی ہے اس میں PRESENCE پیدا کررہا ہے ۔

    اسکی مزید تشریح جاوید صاحب پھر یوں فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

    اندراسٹینڈنگ کہ عمل میں آدمی نامعلوم پے قانع ہوجاتا ہے یعنی اس بیان کے اندر موجود یا اس سے EXPRESS ہونے والی نامعلومیت پر UNDERSTANDING والا شعورقانع ہوجاتا ہے جبکہ جو صوفی شعور ہے یعنی PRESENCE OF MEANING والا شعور وہ نامعلوم پر قانع نہیں ہوتا ۔(جبتک کہ وہ نامعلوم کی کفیت مجہولہ کو اپنے شعور میں ہیئت وجود و ظہور کے اعتبار سے منزل شہود پر ملاحظہ نہ کرلے ۔ آبی ٹوکول ) ۔مطلب یہ لوگ یعنی صوفیاء غیب کو ان پرنسپل ملحوظ اور محفوظ رکھتے ہوئے اس کے غیاب میں بھی ایک قسم کی presence پیدا کرلیتے ہیں ۔اور اسے صوفیاء کی اصطلاح میں اعتبار کہتے ہیں ۔اعتبار جو صوفیاء کی اصطلاح ہے اس کا ایک بہت بنیادی مطلب غیب میں presence پیدا کرلینا ہے ۔۔۔۔۔
     
  5. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

    شعور کا سب سے بڑا ملکہ اُن اہداف ومقاصد کے لیے یکسوئی کا ملکہ ہے، جن کو یا تو کبھی بدلنا نہیں ہے یا شعور انھیں کبھی بدلنے نہیں دیتا۔ یعنی تبدیلی کی تمام قسموں کو شعور قبول کرلیتا ہے، اچھے یا برے دونوں معنی میں، لیکن تبدیلی کی رو کو اس حد تک غالب نہیں آنے دیتا کہ وہ اسے اس کے مرکز سے ہٹا دے اور اس کے مستقل مقاصد کو ڈھانپ لے۔ بڑا شاعر، تقدیری معنی کا شاعر ہوتا ہے۔ تقدیری معانی وہ معانی ہیں جن کی طرف انسانی شعور ہمیشہ یکسو رہتا ہے۔ شعور کے زاویوں میں، اندازِ نظر میں تو تبدیلی آتی ہے، شعور کی استعداد میں یاشعور کی ساخت کے کچھ حصوں میں تو تبدیلی آتی رہتی ہے لیکن اپنی تمام تر تبدیلیوں کے باوجود شعور کے کچھ داخلی موقف ہوتے ہیں جو بدلتے نہیں۔ اسی طرح شعور کے کچھ معروضی سانچے ہوتے ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے۔ سو تقدیری معانی کا مطلب یہ ہوگا کہ شعور اپنے مستقل موقف پر کھڑا ہوکر اپنی تمام تر تبدیلیوں اور تغیرات کی قوت کو مثبت طور پر صَرف کرتے ہوئے، اپنے مستقل آدرش اور مقاصد کے ساتھ تعلق پیدا کیے ہوئے ہے۔ اس طرح شعور اس استقلال اور تغیر کو جمع کرکے اپنی فعلیت کو ایک تواتر میں رکھتا ہے۔ استقلال اور تبدیلی کے اس ہم آن عمل کا مطلب یہ ہے کہ شعور اپنے مادہ علم اور مستقل مقاصدِ علم کے درمیان نئی نئی نسبتیں پیدا یا دریافت کرتا رہتا ہے۔ یوں تبدیلی بھی ایک دھارے میں آجاتی ہے، تغیر بھی ضائع نہیں ہوتا۔ علامہ اقبال کا کوئی مجموعہ کلام اگر ان سب معیارات پر پورا اُترتا ہے، ان سب باتوں کا جامع ہے تو وہ ہے بالِ جبریل! اس میں مستقل حقائق کو جیسے جیسے نئے زاویے (angling) دیے گئے ہیں، جہاتِ نو دریافت کی گئی ہیں اور شعور کے مستقل مادّے کو جس طرح شعور کے تمام شعبوں میں، ان شعبوں کے لیے fulfilling بنایا گیا ہے، وہ ایک کمیاب چیز ہے۔۱؎ یہ اُردو شاعری ہی میں نہیں بلکہ بڑی شاعری کی پوری روایت میں بھی ایک نادر چیز ہے۔
    اقبال نے اس کتاب میں بڑے معانی کی جمالیاتی تشکیل اعلیٰ ترین سطح ہنر پر کرکے دکھا دی ہے۔ یہ اس کے کمال کا ایک پہلو ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب ہم کسی معنی کو اپنے ذہن و شعور کے لیے اس طور حاضر کردیں کہ اس کا حضورِ ذہنی ہمارے احساسات کو بھی متاثر کرنے لگے تو معانی کی جمالیاتی تشکیل بھی عمل میں آجاتی ہے۔ لیکن اقبال نے اس میں ایک اور کارنامہ بھی کرکے دکھایا ہے۔ عقل کے نظریات یا تو تصوراتی ہوتے ہیں یا منطقی۔ عقل اپنے نظریات سے جو تعلق رکھتی ہے اس میں ایسی شدت اور ہمہ گیری نہیں ہوتی کہ وہ شعور کے علاوہ عقلی و منطقی مطالبات اور تقاضوں کی تسکین کے لیے بھی کافی ہوجائیں۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے شعور کے جملہ مطالبات کو اس خوبی سے پورا کیا کہ ورائے طورِ عقل مطالبات کی تکمیل عقل کے لیے بھی قابلِ قبول بن گئی۔ عقلی مطالبات پورے کرتے ہوئے اُنھوں نے شعور کی بالاتر سطحوں، ورائے عقل درجاتِ شعور کی تسکین کا سامان بھی کردیا۔ یہ بالِ جبریل کا دوسرا نقطہ کمال ہے۔ اقبال جن محسوسات کو بیان کرتے ہیں وہ حسّیت کے ساتھ ساتھ یعنی محسوس ہونے کے علاوہ ایک گہری معنویت بھی رکھتے ہیں اور اقبال جن خیالات کو بیان کرتے ہیں وہ خیالات معنویت کے ساتھ گہری حسّیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ کمال جسے حاصل ہوگیا وہی بڑا شاعر ہوتا ہے۔
    بڑی شاعری کے لیے ایک اور وصف درکار ہوتا ہے، اعلیٰ درجے کی فنکاری اور ہنرمندی۔ لفظوں کے درمیان فنی مناسبتیں اتنی گہرائی کے ساتھ پیدا کردینا کہ الفاظ کا فنی اور تکنیکی نظامِ تعلق بھی معانی کی تعمیر میں ایک بہت بنیادی کردار ادا کرنے لگے۔ بالِ جبریل میں آواز اور آہنگ کا بھی ایک نظام ہے جو معانی میں رُوح پھونک دیتا ہے، لفظوں کے درمیان تکنیکی رعایتیں اور مناسبتیں ہیں جو معانی کو زیادہ خوشگوار اور زیادہ غیرمحدود بنا دیتی ہیں۔ فنِ شعر کیا ہے؟ یہی کہ معنی کی ایک لازمی خصوصیت کو ختم کردیا جائے، معانی کا ایک جبر توڑ دیا جائے۔ وہ جبر یہ ہے کہ معانی محدود ہوئے بغیر معانی نہیں بنتے۔ لفظ معانی کے اظہار کا فعّال وسیلہ ہیں۔ لفظ، معنی کا ظرف تو ہے ہی، اس سے کچھ زیادہ بھی ہوتا ہے۔ الفاظ کے درمیان تکنیکی مناسبتیں، مشابہتیں، رعایتیں تحدیدِ معانی کا تاثر ختم کردیتی ہیں اور شاعر کو معانی پر ایک خلّاقانہ تصرف اور غلبہ دے دیتی ہیں۔ بالِ جبریل ان سب عناصر سے مملو ہے۔
    بالِ جبریل کا عنوان بھی ایک ’’آمد‘‘ کے تحت رکھا گیا ہے، سوچ کر متعین نہیں کیا گیا۔ پیامِ مشرق کو چھوڑ کر، اقبال کے اکثر مجموعوں کے نام گویا پکار کر کہتے ہیں کہ ہمیں سوچا نہیں گیا، ’’وصول‘‘ کیا گیا ہے۔

    اقتباس از : شرح بال جبریل: ایک سلسۂ گفتگو
    شرح و بیان: احمد جاوید
    تدوین: محمد سہیل عمر
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

    السلام علیکم آبی ٹو کول بھائی ۔
    اہم، منفرد اور تحقیقی سلسلہ شروع کرنے پر مبارک باد اور شکریہ قبول فرمائیں۔

    معافی کے ساتھ عرض گذار ہونے کی جسارت کرتا ہوں کہ "موضوع ، نفسِ مضمون سے مماثلت رکھتا نظر نہیں آتا "

    ممکن ہے یہ میری کج نظری ہو۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں