1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

علمی مکالمہ ما بین باذوق اور آبی ٹوکول

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از آبی ٹوکول, ‏3 اپریل 2008۔

  1. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم قارئین کرام یہاں ہم آب سب کے علمی ذوق کے پیش نظر اپنے اور محترم جناب باذوق صاحب کے مابین ہونے والے ایک علمی مکالمے کو نقل کریں گے تاکہ آپ احباب بھی اس علمی اور فنی گفتگو سے فیضیاب ہوسکیں ۔ موضوع ہے کہ آیا بخاری شریف کی تمام کی تمام مرفوع متصل احادیث کی صحت قطعی ہے اور آیا کیا اس پر اجماع واقع ہے۔؟۔ جواب کے لیے دیکھیے درج زیل مکالمہ ۔
    اصل مکالمہ کا لنک یہ ہے ۔
    نوٹ: اس مکالمہ میں ہم اپنی تمام تر گفتگو کو نیلے رنگ سے اور اور بازوق صاحب کی گفتگو کو سرخ رنگ سے واضح کریں گے ۔
    http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=3435
    آبی ٹوکول کا اعتراض ۔ ۔ ۔ ۔بھائی برائے مہربانی زرا اپنی بات کا ثبوت فراہم کردیجیے کیوں کہ میں نے آج تک یہ نہیں پڑھا کہ صحیح بخاری میں آنے والی تمام کی تمام احادیث کے صحیح ہونے پر محدثین کا اجماع ہے اگر ایسی بات ہے تو کسی بھی محدث کی کسی بھی ایسی کتاب کا باحوالہ یہاں تذکرہ کیجیے کہ جس میں اس محدث نے یہ دعوٰی کیا ہو۔
    بازوق صاحب کا جواب ۔ ۔ ۔ ۔ امام شمس الدين السخاوی کی "فتح المغيث شرح ألفية الحديث" یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
    صفحہ نمبر 34 پر لکھا ہے :
    ولفظ الأستاذ أبي إسحاق الإِسفرائيني أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها
    اردو ترجمہ (ارشاد الحق اثری) :
    امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائينی المتوفی 408ھ ، فرماتے ہیں :
    فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔

    صحیحین کی صحت ، تلقی بالقبول یا قطعیت پر اجماع کا دعویٰ درج ذیل مستند علماء نے بھی کیا ہے :
    ابن کثیر (774ھ)
    ابن تیمیہ (728ھ)
    ابن الصلاح (643ھ)
    ابن القیسرانی (507ھ)
    تفصیل کے لیے درج ذیل کتاب دیکھیں :
    "احادیث الصحیحین بین الظن والیقین" - حافظ ثناءاللہ زاہدی

    علامہ عینی حنفی کی شرح بخاری "عمدۃ القاری" یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجئے۔
    جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے :
    اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري
    مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔

    امام نسائی فرماتے ہیں :
    اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین
    بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔
    حوالہ : نصرۃ الباری

    امام ابوالفلاح فرماتے ہیں :
    تمام فقہاء نے صحیح بخاری کی ہر سند حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
    حوالہ : نصرۃ الباری ، باب شذرات الذہب

    شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :
    صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔
    حوالہ : حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134

    آبی ٹوکول کا اعتراضات ۔ ۔ ۔ ۔ محترم بھائی مجھے آپکی پیش کردہ اس عبارت کی سمجھ نہیں آئی کہ اس میں اس جملہ یعنی صحیحین کے اصول و متون قطعا صحیح ہیں سے کیا مراد ہے یعنی اصول و متون سے کیا مراد ہے جبکہ آگے چل کر لکھا ہے کہ اگر چہ کچھ اختلاف ہے تو تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے ؟ پلیز ان دونوں جملوں کی مثالوں کے ساتھ وضاحت فرمائیں کیونکہ جہان تک میں نے پڑھا ہے تو کسی بھی حدیث کی صحت کا مدار تو اسکی سند اور راویوں کے حلات پر ہی منحصر ہے تو جب آپ کو یہ تسلیم ہے کہ صحیحین کی راویوں اور اسناد پر اختلاف موجود ہے تو پھر اجماع کا دعوٰی باطل ہوجاتا ہے بحر حال امید ہے آپ وضاحت فرمائیں گے۔


    آبی ٹوکول کے اعتراضات ۔۔ ۔ ۔ ۔
    میرے بھائی میں نے آپ سے جس دعوٰ ی کا ثبوت مانگا وہ آپ کا یہ دعوٰی تھا کہ صحیح بخاری کی ہر ہر حدیث کی قطعی صحت پر امت کا اجماع ہے نہ کہ اس بات پر کہ قرآن پاک کے بعد سب سے صحیح کتاب بخاری ہے ۔ امید ہے ان دونوں باتوں میں جتنا فرق ہے وہ آپ جیسے صاحب علم سے ہرگز پوشیدہ نہ ہوگا۔


    بازوق صاصب کے جوابات۔ ۔ ۔ ۔ برادر محترم ! اگر آپ برا نہ مانیں تو سب سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ خواہ مخواہ کی ضد کا کسی کے پاس بھی علاج نہیں ہوتا۔

    میں نے لکھا تھا کہ :


    اقتباس:
    وہ تمام احادیث ، جن کی مکمل سند کے بیان کا امام بخاری نے اہتمام کیا ہے ، بےشک ان تمام احادیث کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔

    یہ وہ عام فہم اور سادہ زبان کا خلاصہ تھا جو شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کے درج ذیل اصل فقرے سے اخذ کیا گیا تھا :
    صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔

    میں نے بطورِ ثبوت ایک نہیں بلکہ چھ حوالے دئے۔ اور میں نے تین کتابیں بھی پیش کیں کہ تفصیل وہاں پڑھ لی جائے۔
    پھر بھی آپ کی "صد" میری سمجھ سے باہر ہے۔

    مزید حیرت کی بات دیکھئے کہ آپ ابراہیم بن محمد اسفرائينی کی "فتح المغيث" کے ایک فقرے کی وضاحت مجھ سے چاہتے ہیں۔ ادباۂ عرض ہے کہ میں اس کتاب کا مترجم یا شارح نہیں ہوں۔ پوری کتاب آپ سے صرف ایک "کلک" کا تقاضا کرتی ہے۔ آپ ڈاؤن لوڈ کیجئے اور تفصیل سے متعلقہ صفحات پڑھیں تو ان شاءاللہ آپ کے سارے شبہات دور ہو جائیں گے اور آپ اس فقرے "وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها" کی معنویت سے واقف ہو جائیں گے اور آپ کی یہ معنوی غلط فہمی بھی دور ہو جائے گی کہ "صحیحین کی راویوں اور اسناد پر اختلاف موجود ہے"۔



    بازوق صاحب کے جوابات ۔ ۔ ۔ ۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ میرا ذاتی دعویٰ نہیں تھا بلکہ محدثین کا دعویٰ تھا جن کے ثبوت میں پیش کر چکا ہوں۔ ہاں ۔۔۔۔ ابن کثیر، ابن تیمیہ ، ابن الصلاح ، ابن القیسرانی ، امام نسائی ، امام ابوالفلاح اور شاہ ولی اللہ رحمہم اللہ کے دعوے ، آپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے تو یہ ایک مختلف امر ہے۔
    دوسری بات یہ کہ مجھے آپ کے اعتراض پر انتہائی سخت تعجب ہو رہا ہے۔ کوئی دعوی کرے کہ دنیا بھر کا اجماع ہے کارل مارکس کی "داس کپیٹل" دنیا کی صحیح ترین کتاب ہے اور آپ اٹھ کر اعتراض جڑ دیں کہ اجماع ہی کے ذریعے اس کتاب کے ایک ایک صفحہ یا ایک ایک فقرے کو صحیح ثابت کرو تو ۔۔۔۔ تو یقین مانیں لوگ یکبارگی ہنس پڑیں گے۔
    علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ : مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔۔۔۔ اس ہی بات کی دلیل ہے کہ :
    صحیح بخاری میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں !!
    قرآن مجید کو دنیا کی صحیح ترین کتاب کیوں کہا جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقانیت پر مبنی ہے۔
    اگر بخاری میں کوئی ایک مرفوع متصل حدیث ، ضعیف ثابت ہو جاتی تو محدثین کبھی بھی اس کو "اصح الکتاب بعد کتاب اللہ" کا درجہ نہ دیتے !!


    بازوق صاحب کے جوابات ۔ ۔ ۔ آپ کی تسلی کے لئے ، چلئے میں مان لیتا ہوں کہ میں "صاحبِ علم" نہیں ہوں!
    اب آپ سے مخلصانہ گذارش ہے کہ اپنے قائم کردہ اس مجوزہ فرق کی وضاحت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیر۔


    آبی ٹوکول کے اعتراضات ۔ ۔ ۔ ۔ محترم جناب آپ بھی عجیب آدمی ہیں بھلا اس میں ضد والی کیا بات ہے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی میں اس کی آپ سے وضاحت مانگ رہا ہوں اور آپ مہیں کہ خواہ مخواہ کی بات کررہے ہیں ارے بھئی وضاحت نہیں کرسکتے تو سیدھا سیدھا کہہ د یں کہ بھئی میرا اتنا علم نہیں کسی اہل علم سے پوچھ لو بات ختم تھی۔ مجھے تو بس اس بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جب حدیث کی صحت کادارو مدار علم حدیث کی روسے سند پر ہے اور آپ نے جو حوالہ جات نقل کیے ہیں ان میں یہ بات لکھی بھی ہوئی ہے کہ فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔
    تو بس یہیں سے بات مجھے کچھ عجیب سی لگی کی ایک طرف تو یہ کہا جاتا کہ کسی بھی حدیث کی سند کو جانچا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ صحیح ہے یا غیر صحیح یا ضعیف اور دوسری طرف یہ کہا جارہا ہے کہ صحیح بخاری کی تمام کی تمام احادیث کے صحیح ہونے پر علماء کا اجماع ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہ اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ راویوں اور اسناد کی بنا پر ہے بس اسی ایک جملے کی سمجھ مجھے نہیں آرہی اگر آرہی ہوتی تو میں آپ سے پوچھتا اور باقی رہا یہ کہ جن کتابوں کے آپ نے حوالہ جات نقل کیے ہیں تو میرے بھائی وہ عربی میں ہیں تو مجھے تو عربی آتی نہیں اگر آتی ہوتی تو آپ سے کیوں وضاحت مانگتا
    ؟
    ۔
    بھائی اتنی عربی مجھے آتی ہوتی تو میں آپ سے اس کا مطلب پوچھتا اب اس کتاب میں اس فقرے سے کیا مراد ہے اسکی وضاحت تو لازما عربی میں ہی ہوگی نا اس لیے میں نے آپ سے پوچھ لیا اگر آپ کو بھی نہیں پتا تو خیر کوئی بات نہیں جس کسی ممبر کو پتا وہ بتا دے گا اس میں اتنا چیں بہ جبیں ہونے کی کیا بات ہے؟


    آبی ٹوکول ۔ ۔ ۔ ۔ یہی تو بات میں نے پوچھی ہے کہ کیا بخاری میں تمام کی تمام روایات مرفوع اور متصل ہیں ؟ اور کیا آج تک بخاری کی کوئی بھی حدیث ضعیف ثابت نہیں ہوئی ؟ اور کیا آج تک کسی محدث نے بخاری کہ کسی راوی پر کوئی جرح نہیں کی؟ اگر ایسا ہی تو پلیز بتا دیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو جن لوگوں نے بخاری کے راویوں پر جرح کی ہے انکی کیا حیثیت ہے؟ اور کیا بخاری کہ کسی راوی پر جرح ثابت ہوجانے سے بخاری کی ایک ایک حدیث کی صحت کہ اجماع والی بات پر کوئی اثر نہیں پڑتا پلیز ان سب امور کی اگر آپ وضاحت کرسکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ کوئی اور کردے اس میں برا منانے والی تو کوئی بات نہیں ہے مجھے ایک بات سمجھنا ہے وہ سمجھا دیں پلیز میں سوال تو کروں گا نا

    بازوق ۔ ۔ ۔ ۔۔السلام علیکم برادر !
    کیا بات ہے کہ اس دفعہ آپ کا لہجہ کچھ نرم و معتدل ہے؟ آپ نے لکھا ہے کہ آپ وضاحت مانگ رہے ہیں۔ بھائی ! وضاحت اس طریقہ سے نہیں مانگی جاتی کہ منفی تاثر اجاگر ہو۔ جیسا کہ آپ کے اس اولین قول سے واضح تھا:

    بازوق صاحب کا جواب ۔ ۔ ۔ اگر آپ نے نہیں پڑھا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ احادیثِ بخاری کی صحت پر محدثین کا اجماع نہیں ہے۔ آپ کے سامنے محدثین کے اقوال سے ثبوت پیش کئے چکے ہیں۔ خاص طور پر شاہ ولی اللہ ، علامہ عینی حنفی ، امام ابوالفلاح اور امام نسائی کی تحقیق۔ اب اپنے طبقۂ فکر کے چند مزید اکابرین کے ثبوت بھی ملاحظہ فرما لیں :

    غلام رسول سعیدی صاحب فرماتے ہیں :
    تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصحح کتاب ہے۔
    حوالہ : تفہیم البخاری شرح صحیح بخاری 5/1 ، غلام رسول سعیدی

    پیر کرم شاہ بھیروی بریلوی فرماتے ہیں :
    جمہور علمائے امت نے گہری فکر و نظر اور بےلاگ نقد و تبصرہ کے بعد اس کتاب کو "اصحح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری" کا عظیم الشان لقب عطا فرمایا ہے۔
    حوالہ : سنت خیر الانام ، ص:175 ، طبع:2001ء

    ملا علی قاری الحنفی کہتے ہیں :
    پھر (تمام) علماء کا اتفاق ہے کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔
    حوالہ: مرقاۃ المفاتیح ، 58/1 ۔

    علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں :
    اور حفاظ حدیث کے نزدیک سب سے اعلیٰ درجے کی صحیح حدیث وہ ہے جس کی روایت پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہو۔
    حوالہ : نصب الرایۃ ، 421/1 ۔

    یہ آٹھ عدد (پہلے کے چار اور اس دفعہ کے 4) حوالے اتنے واضح ترین ثبوت ہیں کہ آپ کا شک و شبہ اب زائل ہو جانا چاہئے۔

    اب رہ جاتا ہے امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائينی کا وہ قول جس کو سمجھنے سے آپ قاصر ہیں۔
    تو میرے بھائی ! کیا اس کو سمجھنا اتنا ہی ضروری ہے؟ کیا مذکورہ بالا آٹھ ثبوت آپ کو کافی نہیں ہوتے؟
    حالانکہ امام ابو اسحاق بھی واضح طور پر فرما رہے ہیں کہ : صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں۔
    متن کی جمع متون ہے اور یہ تو آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ حدیث کی اصل عبارت یا الفاظ کو متن کہتے ہیں۔ اور اصول تو وہ شرائط ہیں جن کی بنیاد پر شیخین نے حدیث کو "صحیح" قرار دیا۔
    لہذا اس فقرے "صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں" سے ثابت ہو گیا کہ صحیحین کی سبھی احادیث قطعاً صحیح ہیں۔

    اب جس فقرے سے آپ کو شک پیدا ہو رہا ہے اسے آپ غالباً صحیح طور سمجھ نہیں پا رہے۔
    ورنہ فقرے کا پہلا ہی حصہ آپ کو کافی ہو جانا چاہئے تھا۔


    بازوق صاحب کا جواب ۔ ۔ ۔ ۔ برادرم ! اگر اس فقرے کے حقیقی معنی و مفہوم کو سمجھانے بیٹھا جائے تو علم و اصول حدیث کی تاریخ کے کئی گوشے سامنے لانا پڑیں گے ، جس کو تفصیل سے پڑھنے کے لئے نہ آپ کے پاس وقت ہوگا اور نہ لکھنے کے لئے میرے پاس فرصت۔
    البتہ اتنی بات لازماً کہی جائے گی کہ ۔۔۔ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اختلاف کی بنا پر ایسا اجماع کبھی بھی نہیں ہوا کہ صحیحین کی کچھ احادیث کو ضعیف یا مردود قرار دیا گیا ہو۔
    اگر آپ کی نظر میں بخاری کی ایسی کوئی حدیث ہو تو بطور ثبوت پیش فرمائیں۔ بخاری و مسلم کی جتنی بھی مشکل احادیث پر اعتراضات وارد کئے گئے ہیں ، ان سب کے دندان شکن جواب میں بیشمار کتب علمائے متقدمین و متاخرین نے تحریر کر رکھی ہیں۔

    مزید آپ کے یہ سوالات :
    بازوق صاحب کے جوابات ۔ ۔ ۔ ۔ بےشک ! صحیحین کے بعض مرکزی راویوں پر بعض لوگوں نے جرح کر کے ان کی روایات کو ردّ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ لوگ منکرین حدیث گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔ چند نام : حبیب الرحمٰن کاندھلوی ، تمنا عمادی ، شبیر احمد ، ازہر میرٹھی ، محمد ہادی وغیرہ۔

    یہ جرحیں درج ذیل دو باتوں پر مبنی ہیں :

    (1)۔
    بعض جرحیں ، اصل جارحین سے ثابت ہی نہیں ہیں !
    مثلاً : صحیحین کے بنیادی راوی ابن جریج پر نوے عورتوں سے متعہ کا الزام ، جوکہ حافظ ذہبی سے ثابت ہی نہیں ہے۔ لہذا یہ جھوٹ ہے۔
    مومل بن اسماعیل پر امام بخاری سے منسوب جرح ۔۔۔ جو کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔

    (2)۔
    بعض جرحیں اصل جارحین سے ثابت ہوتی ہیں لیکن ، جمہور کی توثیق یا تعدیلِ صریح کے مقابلے میں جرح غیر صریح ہونے کی وجہ سے مردود ہوتی ہے۔
    مثلاً امام زہری ، عبدالرزاق بن ھمام ، عکرمہ مولی ابن عباس ، محمد بن اسحاق بن یسار وغیرھم پر تمام جرحیں ، جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔

    ------
    صحیحین پر جرح والے اس معاملے میں ۔۔۔
    اب آخر میں "حرفِ آخر" کے طور پر ایک خاص مکتب فکر کے بانی کا فیصلہ بھی سنتے جائیں:

    سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ نے صحیحین کے راوی "محمد بن فضیل بن غزوان" پر جرح کی تھی (بحوالہ: معیار الحق ، ص:396) تو احمد رضا خان بریلوی صاحب نے ردّ کرتے ہوئے لکھا :
    اقول اولاً : یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری و صحیح مسلم کے رجال سے ہے۔
    حوالہ : فتاویٰ رضویہ ، طبع جدید 174/5 ۔

    معلوم ہوا کہ احمد رضا خان صاحب کے نزدیک صحیحین کے راویوں پر جرح کرنا بےشرمی کا کام ہے !!

    (تنبیہ : محمد بن فضیل ثقہ و صدوق راوی ہے ، اس پر جرح مردود ہے)


    اگر آپ نے نہیں پڑھا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ احادیثِ بخاری کی صحت پر محدثین کا اجماع نہیں ہے۔

    آبی ٹوکول کے جوابات ۔ ۔ ۔اسلام علیکم محترم جناب باذوق صاحب میں نے آپ سے ایک علمی مسئلہ کے اوپر اختلاف کیا تھا اور وہ اختلاف اس وجہ سے تھا کہ جو تحقیق آپ نے بیان کی تھی میں نے اس کے خلاف پڑھ رکھا تھا اس لیے چند سوالات آپ پر وارد کیے وگرنہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اگر کوئی چیز میرے مطالعہ سے نہیں گذری تو فی الواقع اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے نہ ہی میں نے اپنے مطالعہ کو کسی بھی مسئلہ میں حجت قرار دیا ہے لہذا آپ کا مندرجہ بالا قول میرے بارے میں محض خلط مبحث ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔
    آبی ٹوکول کے جوابات ۔ ۔ ۔میں نے اکثر آپ کی پوسٹوں میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کے حوالاجات دیکھے ہیں وجہ اس کی مجھے نہیں معلوم مگر ایک چیز میں نے بطور خاص نوٹ کی ہے کہ آپ ان کے حوالاجات میں اکثر غلطی کھا جاتے ہیں اب آپ جیسے صاحب علم سے میں یہ گمان تو نہیں رکھ سکتا کے آپ جان بوجھ کرایسا کرتے ہیں بحرحال میں اس کو آپ کی غلطی پر ہی محمول سمجھوں گا علامہ غلام رسول سعیدی صاحب چونکہ میرے پسندیدہ رائٹر ہیں لہذا انکی تقریبا تمام کتابیں میرے پاس موجود ہیں پاکستان میری ذاتی لائبریری میں اور ان کی کوئی بھی کتاب تفھیم البخاری کے نام سے نہیں ہے بلکہ انھوں نے تو بخاری کی شرح حال ہی میں لکھنا شروع کی ہے اور اس کا نام نعمۃالباری رکھا ہے جبکہ تفھیم البخاری ایک سنی رائٹر کی شرح بخاری کا نام ہے اور انکا نام علامہ غلام رسول رضوی ہے اور وہ فیصل آباد سے ہیں جبکہ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کراچی سے ہیں میرا خیال ہے کہ یہاں آپ کو ناموں کی مماثلت کی وجہ سے غلطی لگی ہے(اور آپ رضوی کو سعیدی سمجھ بیٹھے ہیں) لیکن اس کے علاوہ بھی جب میں نے اسی فورم پر آپ کی ایک اورپوسٹ پر غور کیا کہ جس میں آپ نے علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کو کوٹ کیا تھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ آپ نے وہاں علامہ صاحب کی شرح صحیح مسلم کے حوالے سے بالکل ایک ایسی بات لکھ دی جو کہ کم ازکم میں نے شرح صحیح مسلم میں نہیں پڑھی اور وہ بات تھی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی چالیس رکنی کابینہ کا احوال جو آپ نے کچھ یون بیان کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ( آپ کے الفاظ ایک اور فورم پر یہاں ، صحیح مسلم کی اسی شرح کے حوالے سے امام ابوحنیفہ(رحمة اللہ علیہ) کی "مفروضہ" چالیس رکنی فقہی کمیٹی کے نام گنائے گئے ہیں۔) آپ کی اس پوسٹ کا لنک درج زیل ہے۔
    http://www.urduvb.com/forum/showthread.php?t=2975
    سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ علامہ غلام رسول کی شرح مسلم کا میں نے قریبا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے مجھے تو اس میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملا کہ جس میں انھوں نے امام ابو حنیفہ علیہ رحمہ کی چالیس رکنی کابینہ کا تذکرہ کیا ہو لیکن میں بھی بندہ بشر ہوں بلکہ ایک عام سا انسان ہوں ہوسکتا ہے کہ ایسا ذکر میری نظروں سے اوجھل رہا ہو لیکن اگر آپ کو شرح صحیح مسلم میں سے کہیں اس ذکر کا حوالہ یاد ہے تو پلیز جلد نمبر اور صفحہ نمبر یہاں باحوالہ کوٹ کریں تاکہ ہم سب کا بھلا ہو خیر یہ تو ایک ضمنی بات آگئی تھی اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف آپ نے سعیدی صاحب کا جو حوالہ صحیح بخاری کی صحت کے بارے میں لکھا ہے اس پر میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ مطلقا صحیح بخاری کی صحت کے معاملے میں میرے اور آپ کے بیچ نزاع نہیں ہے بلکہ نفس مسئلہ یہ ہے کہ آیا صحیح بخاری کی تمام کی تمام احادیث جو کہ صحیح بخاری میں آئی ہیں وہ صحت کے قطعی معیار پر پورا اترتی ہیں اور دوسرا یہ کہ اگر واقعی ایسا ہے تو کیا اس بات پر محدثین کا اجماع بھی واقع ہے یا نہیں ۔آپ بار بار محدثین کے وہ اقوال نقل کرتے ہیں کہ جن میں انھوں نے کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب صحیح بخاری کو قرار دیا ہے اور اقوال نقل کر کے آپ استدلال اس بات پر کرتے ہیں کہ صحیح بخاری کی ہر ہر حدیث قطعی صحیح ہے آپ کا یہ استدلال چند وجوہ سے باطل ہے اول تو قرآن کی ایک ایک آیت تواتر سے ثابت ہے اور اور اسکی صحت قطعی ہے اور اس پر اجماع ہے کیونکہ قرآن پاک تمام کا تمام قطعی الثبوت بالتواتر ہے اور اسی پر اجماع ہے اور قر آن کی ہر ہر آیت سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے اور جو بھی اس کا انکار کرے وہ بالاجماع کافر قرار پائے گا جبکہ بخاری کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کیونکہ بخاری کی احادیث سے متواترہ کو چھوڑ کر ہر ہر حدیث سے علم قطعی حاصل نہیں ہوتا اور جو کوئی بھی شخص بخاری کی کسی صحیح حدیث کو اسکی سند یا متن میں کسی علت قادحہ یا واضح نقص کی بنا پر انکار کرئے تو وہ کافر ہرگز نہیں ہوگا بلکہ اگر حدیث صحیح ہوگی اور وہ شخص اپنے ذاتی اجتھاد کی وجہ سے اس کو صحیح نہ سمجھ رہا ہو تو بھی زیادہ سے زیادہ وہ شخص گمراہ کہلائے گا نا کہ کافر ۔ کافر وہ ہو ہوگا جو کہ مطلقا حجیت حدیث کا انکار کردے اور حجیت حدیث پر اس کو شک ہو ناکہ بخاری کی کسی روایت کو اپنے ذاتی اجتھاد کی وجہ سے مشکوک سمجھنے والا بالاجماع کافرکہلائے گا۔ اور اس کے علاوہ بھی قرآن پاک اللہ کا کلام ہے اور امت کے اجماع قطعی سے یہ بات ثابت ہے کہ جو قرآن آج ہمارے ہاتھوں میں مصحف کی شکل میں ہے اس میں ہر ہر آیت جو کہ شامل ہے وہ ایک تو اپنے ثبوت کے اعتبار سے تواتر اور قطعی الثبوت ہے اور دوسرا یہ کہ ہر ہر آیت اس قرآن پاک میں بالکل اسی طرح شامل ہے جیسا کہ آج سے چودہ سو سال پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری تھی ۔اور جبکہ بخاری شریف میں خود امام بخاری علیہ رحمہ کے اپنے بیان کے مطابق ہر ہر صحیح حدیث موجود نہیں بلکہ امت کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ان صحیح احادیث کی تعداد کہیں زیادہ ہے ان صحیح احادیث کے مقابلے میں جو کہ بخاری میں ہیں۔
    اسی لیے تمام علماء بخاری کو اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کہتے ہیں اور یہاں بعد کتاب اللہ لانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اصح صرف کتاب اللہ ہے اور اسکے بعد اگر کوئی صحیح کتاب ہے تو وہ بخاری و مسلم دونوں ہیں اور ان دونوں میں بھی افق بخاری کو ہے ۔ لہذا ثابت یہ ہوا کہ کتاب اللہ کے بعد بخاری کو صحیح ترین کتاب کہنے سے بخاری کی ہر ہر حدیث پر صحت کی مہر نہیں لگ جاتی اگر ایسا ہو تو پھر مسلم کے بارے میں بھی ایسا ہی کہنا چاہیے کیونکہ اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کی نوید جو علماء امت نے امت کو سنائی ہے اس میں بخاری منفرد نہیں بلکہ مسلم بھی شامل ہے (نوٹ امام شافعی علیہ رحمہ جو کے بخاری و مسلم کی تدوین سے پہلے کہ امام ہیں وہ موطا امام مالک کو روئے زمیں پر سب سے صحیح کتاب قرآن پاک کے بعد تسلیم کرتے ہیں) یہ الگ بات ہے کہ بخاری کو افق حاصل ہے اور یہیں سے ہمارا مدعا بھی حاصل ہورہا ہے کہ اگر کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب کہنے سے بخاری کی ہر ہر حدیث کا صحیح ہوجانا ثابت ہوجائے تو پھر مسلم کو بھی اسی مرتبے میں بعض علماء نے نقل کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بخاری و مسلم کا آپس میں تقابل کرکے بخاری کو مسلم سے افق قرار دیا جاتا ہے؟ بات بالکل سادھا سی ہی ہے کہ اصح الکتاب بعد کتاب اللہ کہنے سے بخاری کا قرآن کے ساتھ تقابل نہیں بنتا(کیونکہ قرآن کے ساتھ کسی بھی کتاب کا تقابل کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ قرآن کی ہر ہر آیت قطعی الثبوت بالتواتر ہے )جبکہ بخاری کے ساتھ ایسا معاملہ ہرگز نہیں اس کے برعکس بخاری و مسلم کا باہم آپس میں تقابل اس حقیقت کا واشگاف اعلان کرہا رہا ہے کہ بخاری کو قرآن کی طرح نہ تو تواتر حاصل ہے اور نہ ہی اسکی ہر ہر حدیث کی صحت قرآن کی طرح قطعی اور اجماعی ہے بات صرف اتنی سی ہے کہ اسناد کے اتصال میں جو خوبی بخاری کو حاصل ہے وہ مسلم کو نہیں لہذا بخاری و مسلم کے باہم تقابل نے ہی ثابت کردیا کہ بخاری و مسلم کا باہم صحت کے معاملے میں تو تقابل جائز ہے جبکہ بخاری کا قرآن کے ساتھ کسی بھی طریقے سے تقابل کرنا تو دور کی بات ایسا سوچنا بھی حرام ہے۔، لہذا جب یہ بات ثابت ہوگئی تو آپ کا دعوٰی بھی باطل ٹھرا جس کو کے آپ نے محدثیں کی زبانی (اپنی سمجھ کے مطابق) بیان کیا ہے کیونکہ ہمارے نزدیک محدیثین کا ایسا کہنے سے صرف یہ مراد ہے کہ بخاری میں نسبتا تمام کتابوں سے سب سے زیادہ صحیح احادیث موجود ہیں اس لیے قرآن کے بعد صحیح ترین کتاب بخاری ہے نہ کہ قرآن کی طرح صحیح ترین کتاب بخاری ہے۔
    امید کرتا ہوں میں اپنا مدعا آپ پر واضح کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں گا

    آبی ٹوکول کا جواب ۔ ۔ ۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک مجھ پر امام ابو اسحاق کی اس بات کی حقیقت منکشف نہیں ہوئی لیکن اگر اس کو ویسے ہی لے لیا جائے جیسا کہ آپ فرما رہے ہیں تو پھر بھی اس بات سے اجماع قطعی لازم نہیں آتا کہ یہ امام صاحب کا منفرد قول ہے۔

    آبی ٹوکول کا جواب ۔ ۔ ۔ ۔ اب آپ کے اس مطالبے پر ہم آپ کو علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کی کتاب نعمۃالباری سے اختصار کے ساتھ چند حوالاجات نقل کرنے پر اکتفا کریں گے علامہ صاحب مسامحات بخاری کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ امام بخاری بھی اپنے تمام تر علمی اور فنی کمالات کے باوجود انسان اور بشر تھے اس لیے صحیح بخاری کی تصنیف میں ان سے سھو نسیان اور تسامح کا واقع ہوجانا کوئی امر مستعبد نہیں ہے اس کے برخلاف بعض وہ حضرات جو صحیح بخاری کو حرف آخر قرار دیتے ہیں ان کی رائے ہے کہ بخاری میں مندرج ہر ہر حدیث صحیح ہے اور سند اور متن کے بیان میں ان سے کسی جگہ غلطی نہیں ہوئی ۔ ہماری رائے ان لوگوں سے بحرحال مختلف ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ بخاری میں دیگر تمام کتب احادیث کی بہ نسبت سب سے زیادہ صحیح احادیث ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ اس میں مندرج کوئی بھی حدیث ضعیف نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں ایسے راویوں کی تعداد کافی زیادہ ہے جو کہ جہمی ،قدری، رافضی یا مرجئہ عقائد کے حامل تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے راوی بھی ہیں جو منکر الحدیث ، واہی اور وہمی تھے چناچہ ان تمام کی تفصیل حافظ ابن حجر عسقلانی نے ھدی الساری مقدمہ فتح الباری میں مہیا کی ہیں لیکن ان کے مجروح اور مطعون راویون کے بارے میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ان راویون پر جرح دوسرے لوگوں نے کی ہے امام بخاری کے نزدیک ان لوگوں پر جرح ثابت نہیں ہوسکی اس لیے انھون نے انکی احادیث کی اپنی صحیح میں وارد کیا ہے ۔ یہ عذر اپنی جگہ صحیح ہے اگر چہ یہ لوگ دوسروں کہ حق میں یہ جواب تسلیم نہیں کرتے لیکن اب اس بات کا کیا کیا جائے کہ امام بخاری نے جن راویون پر خود دوسری کتابوں میں جرح کی ہے صحیح بخاری میں ان سے بھی روایات لے آئے ہیں اس قسم کے متعدد شواہد موجود ہیں ہم ان میں سے آپ کے سامنے چند مثالیں پیش کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
    باب الاستنجاء بالماء کے تحت امام بخاری نے ایک روایت اس سند کے ساتھ ذکر کی ہے : حدثنا ابو سعید ھشام بن عبدالملک قال حدثنا شعبہ عن ابی معاذ واسمہہ عطا بن ابی میمونہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اس حدیث کی سند میں ایک راوی عطا بن ابی میمونہ ہے اس کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں ۔۔ ۔ ۔ کہ یہ شخص عقائد قدریہ کا حامل تھا (تاریخ کبیر جلد 6 س 256 مطبوعہ بیروت)
    اسی طرح انھوں نے کتاب المغازی میں ایک حدیث نقل کی ہے : حدثنی عباس والوحید قال حدثنی عبدالواحد عن ایوب بن عائذ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    اس روایت میں ایوب بن عائذ کو امام بخاری نے کتاب الضعفاء میں درج کیا اور فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شخص مرجئہ عقائد کا حامل تھا ۔(کتاب الضعفاء الصغیر ص 271 تاریخ کبیر ج 1 ص 389)
    نیز حافظ ذھبی ایوب بن عائذ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ امام بخاری نے
    ایوب بن عائذ کو مرجئہ قرار دے کر اس کا ضعفاء میں شمار کیا ہے اور حیرت ہے کہ اسکو ضعیف قرار دے کر پھر اس سے اتسدلال کرتے ہیں۔ (میزان الاعتدال ج 1 ص 459)
    اس کے بعد علامہ بھی علامہ صاحب نے متن حدیث میں تسامح ، سند حدیث میں تسامح اور استنباط مسائل میں تسامح کے عنوانات سے صحیح بخاری سے متعدد شواہد امام بخاری کے تسامحات پر نقل کرنے کے بعد بطور اعتذار لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احادیث پرکھنے میں امام بخاری کا مقام سب سے اونچا ہے ۔ چند مسامحات سے قطع نظر کہ کوئی بھی بشر اس سے خالی نہیں امام بخاری کی فن حدیث میں انتہائی عظیم حیثیت ہے انہیں امیرالمومنین فی الحدیث کہنا بجا ہے لیکن اس کے باوجود بشری تقاضے سے ان سئ کچھ تسامح ہوئے ہیں جن کی ائمہ فن نے نشاندہی کی ہے مجموعی طور پر صحیح بخاری کو مدون کرکے امام بخاری نے اسلام کی ایک عظیم خدمت انجام دی ہے ۔ اللہ نے اس کتاب کو بے پناہ مقبولیت عطا فرمائی ہے اور امت کی عظیم اکثریت قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری کو تواتر کے ساتھ بطور حجت مانتی چلی آرہی ہے اللہ تبارک وتعاٰلی اس کے مصنف کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں حدیث بخاری کے انوا ر اور فیوض برکات سے بہرہ مند فرمائے آمین۔
    (نعمۃالباری فی شرح صحیح البخاری جلد اول ص نمبر 98 تا100)

    آبی ٹوکول کا جواب ۔ ۔ ۔ ۔اب سب سے آخر میں اس معاملے کی طرف آتا ہوں جو کہ آپ نے امام احمد رضا کی خاص معاملے میں رائے کو غلط طریقے پیش کرکے اپنا مدعاثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اگر آپ امام صاحب کی مکمل عبارت نقل کردیتے تو آپ کا دعوٰی کی قلعی کھل کر سب کے سامنے آجاتی خیر اب ہم آپ کے سامنے اصل صورتحال رکھتے ہیں۔ ۔ ۔
    اصل معاملہ یہ ہے غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں جمع کرکے ایک ساتھ پڑھنے والے مسئلہ میں ابو داؤد کی ایک روایت کو محمد بن فضیل کے سبب ضعیف قرار دیا تو امام احمد رضا نے یہ فرمایا : اقول اولا ۔ ۔ یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے رجال سے ہے ۔ ۔ ۔
    اس بات سے امام صاحب کا مقصود یہ نہیں کہ مطلق صحیح بخاری و مسلم کے رجال پر کو ئی جرح نہیں کی جاسکتی بلکہ صرف یہ واضح کرنا تھا کہ مذکورہ راوی کس درجہ کاصحیح اور صدوق ہے کہ اس پر بخاری و مسلم متفق ہیں ہمارے اس مدعا پر امام صاحب کی بعد والی عبارت شاہد جو کہ انھوں ثانیا کہہ کر وارد کی ہے وہ فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔امام ابن معین جیسے شخص نے ابن فضیل کو ثقہ امام احمد نے احسن الحدیث اور امام نسائی نے لا باس بہ (اس میں وکئی نقص نہیں)کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میزان میں اصلا کوئی جرح مفسر اس کے حق میں منقول نہیں ہے ۔ ۔ ۔
    اس عبارت سے ثابت ہوا کہ امام صاحب کے نزدیک مطلق بخاری کا راوی ہونا ہی قابل احتجاج نہیں اگر ہوتا تو وہ بعد میں ائمہ جرح و تعدیل کے حوالہ سے ابن فضیل کی تعدیل نہ نقل کرتے بلکہ صرف اوپر والی بات کہہ کر ہی رد فرمادیتے کہ بخاری و مسلم کے رجال کو مردود کہنے والا خود مردود ہے لہذا اس سے کوئی بحث نہیں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کہا بلکہ بخاری و مسلم کے ثقہ و صدوق راویوں پر شتر بے مہار کی طرح چڑ دوڑنے کی اصلا نفی فرمائی کہ شیخین کہ رواۃ پر اصلا جرح کرنے سے پہلے زرا غور فکر کر لینا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔
    اس کے بعد اصل معاملہ جو ہے وہ محترم باذوق صاحب نے ذکر ہی نہیں کیا کہ جس کی طرف امام احمد رضا نے ثالثا کہہ کر توجہ دلائی اور غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل کا شیخ الکل ہونا یون ظاہر کیا کہ ۔ ۔ ۔ ۔
    ثالثا :یہ بکف چراغی قابل تماشہ کہ ابن فضیل کے منسوب بر رفض ہونے کا دعوٰی کیا اور ثبوت میں عبارت تقریب سے رمی بالتشیع ملا جی کو بایں سالخوردی و دعوٰی محدثی آج تک اتنی کبر نہیں کہ محاورات سلف و اصطلاح محدثین میں تشیع اور رفض میں کتنا فرق ہے زبان متاخرین میں شیعہ روافض کو کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ سلف میں جو تمام خلفاء سے حسن عقیدت رکھتا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے افضل جانتا تھا اسے شیعی کہا جاتا تھا ۔ ۔ حالانکہ یہ مسلک بعض اہلسنت کا تھا اسی بنا پر بعض ائمہ کوفہ کو شیعی کہا گیا بلکہ کبھی محض غلبہ محبت اہل بیت کو شیعیت سے تعبیر کیا جاتا حالانکہ یہ محض سنیت ہے

    امام ذھبی نے تذکرۃالحفاظ میں خود انھی محمد بن فضیل کی بابت تصریح کی ہے کہ ان کا تشیع صرف موالات تھا بس چناچہ وہ لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ محمد ابن غزوان جو کہ محدث اور حافظ ہیں اور حدیث کے علماء میں سے تھے یحیٰی ابن معین نے ان کو ثقہ قرار دیا ہےاور احمد نے کہا کہ اچھی حدیثیں بیان کرتا ہے مگر شیعہ ہے میں نے کہا صرف اہل بیت سے محبت رکھتا ہے
    ۔۔
    قارئین کرام آپ نے اوپر امام احمد رضا کی ہماری پیش کردہ عبارت پڑھ لی ہوگی اب آپ ہی بتایئے کہ ایک مخصوص مسئلہ میں نذیر حسین دہلوی نے جو جو حدیث دانی کے جوہر دکھلائے ہیں اس بابت اگر امام صاحب ان پر بے شرمی کا قول کریں تو اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ مطلق کسی بھی کتب حدیث کے راوی پر جرح کرنا ہی بے شرمی ہے جبکہ اصل واقع ہم نے نقل کردیا کہ امام صاحب نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ایک شخص جو کہ روایت پر جرح کرتا ہے اور اس پر وہ اتنا جری ہے کہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ وہ روای کس پائہ کی کتب حدیث کا رجال ہے کہ جس پر میں جرح کررہا ہوں اگر کسی عام کتب حدیث کا راوی ہو تو خیر کے اس قسم کے معاملات میں زیادہ تفصیل معلوم نہیں ہوتی جبکہ صحیحین کے راویوں کے حالات پر تو کتابیں ہی بے شمار ہیں اس کے باوجود ایک شخص اتنا جری ہے کہ صحیحین کے ایک ثقہ اور صدوق راوی پر بے دریغ اور غلط جرح نقل کر کے لوگوں کو دھوکا دینے کی ناکام کوشش کرتا ہے کہ سلف میں جو اصطلاح شیعی کی رائج تھی اس کو رفض پر محمول کرکے ایک صحیح اورصدوق راوی کو مجروح ثابت کرنے کی مذموم کوشش اگر بے شرمی نہیں تو اور کیا ہے ۔یعنی بے شرمی یہ نہیں کہ مطلق صحیح کی کسی راوی پر جرح ثابت کی جائے بلکہ بے شرمی یہ ہے کہ صحیحین کے ثقہ اور صدوق راویوں پر دھوکا دہی سے جری ہوکر جرح ثابت کی جائے۔
    اب آخر میں ہم غیر مقلدین علماء کے حوالہ سے صحیح بخاری کے رواۃ پر کیے گئے اعتراضات کو بطور نمونہ نقل کرتے ہیں تاکہ حجت رہے ۔ ۔ ۔
    صحاح ستہ کے مترجم علامہ وحید الزماں امام بخاری پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔امام جعفر صادق مشہور امام ہیں بارہ اماموں میں سے اور بڑے ثقہ فقیہہ اور حافظ ہیں اور امام مالک ،ابو حنیفہ کے شیخ ہیں ، امام بخاری کو پتا نہیں کیا شبہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنی صحیح میں ان سے روایت نہیں کرتے ۔ ۔۔ ۔اللہ پاک امام بخاری پر رحم فرمائے کہ مروان اور عمران بن حطان اور کئی خوارج سے تو انھون نے روایت کی اور امام جعفر سے جو کہ ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان سے روایت میں شبہ کرتے ہیں (لغات الحدیث ج 1 ص61)
    مروان بن الحکم جو کہ بخاری کہ راوی ہیں ان کے بارے میں یہی علامہ صاحب لکھتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہہ کو جو کچھ بھی نقصان پہنچا وہ اسی کمبخت شریر النفس مروان کی بدولت پہنچا خدا اسے سمجھے ۔(لغات الحدیث)
    امام بخاری نے جو حدیث واقعہ افک کے حوالے سے بخاری شریف میں نقل کی ہے اس کی تردید کرتے ہوئے حیکم فیض عالم صاحب رقم طراز ہیں ۔ ۔ ۔ ان محدثین ان شارحین حدیث ، ان سیرت نویس اور ان مفسرین کی تقلیدی ذہنیت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جو اتنی بات کا تجزیہ یا تحقیق کرنے سے بھی عاری تھے کہ یہ واقعہ سرے سے ہی غلط تھا لیکن اس دینیو تحقیقی جراءت کے فقدان نے ہزاروں المیے پیدا کیے اور پیدا ہوتے رہیں گے ہامرے امام بخاری نے جو کچھ بخاری میں درج فرمادیا وہ صحیح اور لاریب ہے خواہ اس اللہ پاک کی الوہیت ، انبیاء کی عصمت ، ازواج مطہرات کی طہارت کی فضائے بسیط میں دھجیاں بکھرتی چلی جائیں کیا یہ امام بخاری کی اسی طرح تقلید جامد نہیں جس طرح ائمہ اربعہ کے مقلدین انکی تقلید کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ پھر لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دراصل امام بخاری میرے نزدیک اس روایت کے معامہ میں مرفوع القلم ہیں داستان گو کی چابک دستی کے سامنے امام بخاری کی احادیث کے متعلق چھان بین دھری کی دھری رہ گئی (بحوالہ صدیقہ کائنات 106)
    پھر عمر عائشہ رضی اللہ تعاٰلی عنھا والی نو سال کی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ایک طرف بخاری کی نو سال والی روایت ہے اور دوسری طرف اتنے قوی شواہد و حقائق ہیں اس سے صاف نظر آتا ہے کہ نو سال والی روایت ایک موضوع قول ہے جسے ہم منسوب الی الصحابہ کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے (صدیقہ کائنات 80)
    بخاری کے مرکزی راوی امام ابن شہاب زہری پر حکیم فیض عالم غیر مقلد کی بے جا تنقید ۔۔
    ابن شہاب زہری منافقین و کذابین کے دانستہ نہیں نا دانستہ ہی سہی مستقل ایجنٹ تھے اکثر گمراہ کن خبیث اور مکذوبہ روایتیں انہی کی طرف منسوب ہیں ۔ (صدیقہ کائنات 108)
    یہ چند نمونے تھے کہ جنھیں ہم قارئین کی عدالت میں پیش کرکے انصاف کے متقاضی ہیں وگرنہ دفتر کے دفتر نقل کرنا بھی اکثر اوقات بے کار ہی جاتا ہے وما علینا الاالبلاغ ۔ ۔‌:
     
  2. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ماشاءاللہ ۔
    محترم آبی ٹو کول صاحب۔ اللہ تعالی آپکے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
    یقیناً آپ نے متعلقہ موضوع پر بہت محنت و تحقیق کی ہے جس پر اللہ تعالی کے حضور اجرعظیم کے لیے دعا ہے۔
    ہماری اردو کے “علمی و تعلیمی“ سیکشن کے لیے آپ جیسی شخصیت بلاشبہ بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ امید ہے آپ ہماری اردو کے صارفین کی بھی رہنمائی فرماتے رہیں گے۔
    جزاک اللہ الخیر
     
  3. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    محترم زاہرا صاحبہ ! سب سے پہلے تو یہ واضح کردوں کہ میں کوئی علمی شخصیت وغیرہ نہیں ہوں یہ آپ کا حسن ظن ہے ۔ ہان بس اتنا ضرور ہے کہ دینی کتابوں سے شغف ہے اور مطالعہ کا بہت شوق ہے ۔ بحرحال آپ کا تحریر کو پسند کرنے کا بہت شکریہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
     
  4. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ابی ٹی کول۔۔۔۔۔گبردست تحریر ہے یار مزا آ گیا پہلی بار اردو لنک میں کوہی تحریر ٹھیک طرع سے پڑھی ہے ورنہ لمبی تحریر میں کم ہی پڑتا ہون
    :a180:
     
  5. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم باذوق صاحب۔
    سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے امام صاحب کی بات کی وضاحت میں کوئی تاویل پیش نہیں کی بلکہ ہم نے امام صاحب کے قول کی توجیہ بیان کی ہے اور اس توجیہ کو بیان کرنے میں ہم نے امام صاحب کی مکمل عبارت نقل کرکے اسے بطور قرینہ پیش کیا ہے لہذا اس میں تاویل والی کوئی بات نہیں بات صاف اور سیدھی سی ہے کہ اگر امام صاحب کے نزدیک صحیحین کے راویوں پر مطلقا جرح کرنا ہی مردود ٹھرتا تو وہ اپنی بات کی دلیل کے طور پر ائمہ جرح و تعدیل کے ارشادات کو صحیحین کے راویوں کی تعدیل کے بطور نقل نہ فرماتے ۔ رہا آپ کا دوسرا مطالبہ کہ اگر امام صاحب صحیحین کے راویوں پر مطلقا جرح کو مردود نہ سمجھتے ہوں تو ہمین چاہیے کہ امام صاحب کے قلم سے صحیحین کے راویوں پر جرح ثابت کریں ۔ تو میرے نزدیک اولا آپ کا یہ طفلانہ مطالبہ ہے اس کی علمی اور استدلالی میدان میں کوئی وقعت نہیں اور ثانیا نہ تو میں امام صاحب کی تمام کتابوں کا حافظ ہون اور نہ ہی انکی تمام کتابیں میں نے پڑھ رکھی ہیں اور نہ ہی اس وقت انکی کوئی بھی کتاب مجھے میسر ہے


    آپ کی ان ساری عبارات کے سلسلے میں ہم دیو بندی مکتبہ فکر کہ مشہور عالم دین محمد علی صدیقی کاندھلوی کی مشہور کتاب امام اعظم اور علم حدیث سے چند اقتباسات نقل کرنے کی جسارت کریں گے ۔آپ صحیحین میں صحت کے معیا رکے عنوان کے تحت لکھتے ہیں : یہاں پہنچ کر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دعوٰی اتفاقی کی کہ یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہیں بنیاد کیا ہے؟ آخر وہ معیار کیا ہے جس کی وجہ سے از روئے صحت ان کو دوسری تمام کتابوں پر فوقیت حاصل ہوئی ۔ ہماری معلومات کے مطابق اب تک اس سلسلے میں جو کچھ کہا گیا وہ تین باتین ہیں۔
    نمبر ایک : یہ کہ ان کتابوں کے اصح ہونے کی وجہ خود انکے مؤلفین کا التزام صحت ہے
    نمبر دو: ان کتابوں کے اصح ہونے کی وجہ ان کے مؤلفین کی قائم کردہ شروط ہیں ۔
    نمبر تین: اس کے اصح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کتابوں کو جمہور امت کی طرف سے شرف قبولیت حاصل ہے۔
    آگے چل کر پھر التزام صحت اور اس کا مطلب کے تحت علامہ کاندھلوی صاحب توضیح الافکار میں سے امام یمانی صاحب کا یہ قول لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک صحیحین کے مقدم ہونے کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان کے مؤلفین نے یہ پتا دیا ہے کہ انکی احادیث صحیح ہیں ۔آگے چل کر پھر بخاری و مسلم کی شرطیں کا عنوان قائم کرکے علامہ کاندھلوی صاحب رقم طراز ہیں کہ اگر ان کتابوں کی اصحیت کی علت ان کتابوں کے مؤلفین کی پیش کردہ شرائط ہیں تو ہمیں افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ ان بزرگوں نے اپنی شرائط کو نہ تو کہیں بیان کیا ہے اور نہ ہی اس موضوع پر ان سے کوئی علمی سرمایہ منقول ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ متاخرین خود ہی چند شرطیں ان کی کتابوں کو دیکھ کر مقرر کرلی ہیں اسی لیے علامہ یمانی توضیح الافکار میں لکھتے ہیں کہ شیخین سے ایسی کوئی شرط منقول نہیں ہے صرف علماء نے ان کے اسلوب اور طریق سے تلاش کرکے اپنے خیال کے مطابق شرائط بنالی ہیں ۔ ۔۔ اور چونکہ مسئلہ شرائط ہر ان بزرگوں سے کوئی تصریحی بیان منقول نہیں ہے بلکہ بعد میں آنے والوں کی تلاش و جستجو کا رہین منت ہیں اس لیے ان شرائط کی تعیین اور تقدیر میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے آئیے اس موضوع پر مختلف ائمہ کی رائے معلوم کریں ۔ ۔ ۔ ۔
    محمد بن طاہر مقدسی شروط الائمۃ الخمسۃ میں رقم طراز ہیں کہ بخاری و مسلم کی شرط یہ ہے کہ وہ حدیث ان راویوں سے روایت کرتے ہیں جن کی ثقاہت اتفاقی ہو ۔ لیکن راویوں کی اتفاقی ثقاہت کا دعوٰی درست نہیں ہے ۔
    حافظ زین الدین کو ابن طاہر کا یہ دعوٰی تسلیم نہیں وہ فرماتے ہیں کہ ابن طاہر کا یہ دعوٰی درست نہیں کیونکہ امام نسائی نے ایسے بہت سے راویوں کی تضعیف کی ہے جن سے شیخین نے روایت کی ہے۔
    نوٹ :(باذوق صاحب یہاں پر آپ اپنا امام نسائی کے حوالہ سے بیان کردہ وہ دعوٰی بھی یاد رکھیں کہ جس میں آپ نے امام نسائی کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ۔ ۔ ۔ امام نسائی فرماتے ہیں
    اجتمعت الامۃ علی صحۃ ھذین الکتابین
    بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔ اب جبکہ امام نسائی نے صحیحین کی صحت پر امت کا اجماع ہونا فرمایا ہے اور خود امام نسائی صحیحین کے راویوں کی تضعیف بھی فرماتے ہیں تو اس بات صاف صاف ہماری بات کی تائید ہوتی ہے کہ محدثین میں سے کسی نے بھی صحیحین پر اجماع والی بات سے صحیحین کی ایک ایک حدیث کی صحت مراد نہیں لی ہے جو کہ آپ کا دعوٰی ہے۔ آبی ٹوکول )
    حافظ محمد بن ابراہیم الوزیر نے تو ایک قدم اور بڑھا کر یہ بھی لکھ دیا ہے کہ صرف نسائی کی خصوصیت نہیں ہے بلکہ اس معاملہ میں ایک سے زائد دوسرے ائمہ جرح وتعدیل امام نسائی کے ہم زبان ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ مشہور محدث امیر یمانی لکھتے ہیں کہ صحیحین کے راویوں میں سے جن پر جرح ہوئی ہے ان میں سے ہر ایک پر جرح مطلق ہی نہین ہوئی بلکہ ان میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہے جن پر مکمل اور بھر پور جرح کی گئی ہے کچھ ایسے ہیں جن کو مرجئہ کہا گیا ہے مثلا ایوب بن عائذ بخاری و مسلم کے رجال میں سے ہیں ان کو امام ابوداؤد اور نسائی مرجئہ قرار دیتے ہیں ۔
    نوٹ : ہم اپنی پچھلی رپلائی میں اسی ایوب بن عائذ کو خود امام بخاری کی کتاب الضعفاء اور تاریخ کبیر کے حوالہ سے امام بخاری کا مرجئہ قرار دینا ثابت کرچکے ہیں۔
    اور کچھ کو ناصبی بتایا گیا ہے جسیے ثور بن یزید بخاری کے راویوں میں سے ہے جریر بن عثمان بخاری کے راویوں میں سے ہے فارس مشھور ناقد رجال نے بتایا ہے کہ یہ حضرت علی سے بغض رکھتے تھے اسی طرح خالد قطوانی بھی بخاری کے رجال میں سے ہیں مگر ابن سعد نے ان کو غالی شیعہ قرار دیا ہے ۔
    (بحوالہ امام اعظم اور علم حدیث ص 539 )
    اس موضوع پر تفصیلی بحث لکھ کر ساری بحث کے آخر میں علامہ کاندھلوی صاحب یہ لکھتے ہیں کہ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ بخاری و مسلم کی دوسری کتابوں پر اصحیت شروط کی وجہ سے نہیں ہے۔
    (بحوالہ امام اعظم اور علم حدیث ص 541)
    آگے علامہ صاحب تلقی امت بالقبول اور صحیحین کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہین کہ:حدیث کی دوسری کتابوں سے صحیحین کی اصحیت کو ثابت کرنے کی جو وجوہ بتائی جاتی ہیں ان میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ صحیحین کو تلقی امت بالقبول کا شرف حاصل ہے اور یہ نکتہ آفرینی صحیحین کے بارے میں ابن الصلاح کی قائم کردہ ہے ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔لیکن امام نووی نے حافظ ابن الصلاح کے خلاف یہ کہہ کر ایک بہت بڑا محاذ کھڑا کردیا ہے کہ تلقی امت بالقبول کا مفاد کسی چیز کے صحت میں برتر ہونے میں نہیں ہے بلکہ امت کے وجوب عمل کے لیے ہے ۔ وہ توجیہ النظر میں لکھتے ہیں تلقی امت بالقبول کا فائدہ وجوب عمل ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ حدیثیں جو کہ بخاری و مسلم کے باہر ہیں اگر ان کی اسانید صحیح ہوں تو ان پر ہی عمل واجب ہے اور مفید ظن ہے ۔ ۔ ۔ امیر یمانی نے حافظ ابن الصلاح کے مؤقف پر دوسوال وارد کرکے صورتحال کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے ۔
    نمبر ایک ۔:تلقی امت بالقبول میں کیا امت کا ایک ایک فرد خاص و عام مراد ہے ؟
    نمبر دو: کیا تلقی امت سے یہ مراد ہے کہ پوری امت یہ جانتی ہے کہ یہ کتابیں ان بزرگوں کی تصنیف ہیں یا یہ مراد ہے کہ امت کے ایک ایک فرد نے صحیحین کی ایک ایک حدیث کو اپنا لیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اپنے ان دونوں سوالوں کو بطور دلیل رقم کرنے کے بعد امیر یمانی اور بھی بہت کچھ کہا ہے مگر ہم نے طوالت کے پیش نظر نقل کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    اور صرف یہی نہیں بلکہ امام نووی کی حمایت اور ابن الصلاح کی مخالفت میں اور بہت کچھ کہا گیا ہے چناچہ علامہ الجزائری فرماتے ہیں کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تلقی امت بالقبول درست ہے لیکن یہ صحیحین کی خصوصیت نہیں بلکہ ابو داؤد ، نسائی اور ترمذی کو بھی یہ مقام حاصل ہے
    نوٹ: یہاں سے ہمارے اس دعوٰ ی مزید تقویت ملتی ہے کہ جو معنٰی صحیحین کی اصحیت کا ہم نے بیان کیا ہے وہی حق ہے نہ کہ جو باذوق صاحب نے بیان کیا ہے وہ درست ہے ۔ آبی ٹوکول)
    مگر اس کے باوجود مذکورہ بالا کتابوں کی اصحیت کا کوئی بھی قائل نہیں اگر امت سے پوری امت مراد ہے تو اس سے زیادہ کوئی غلط بات نہیں کیونکہ ان کتابوں کی تحسین بخاری اور ائمہ مذاہب کے بعد منصہ شھود پر آئی ہے اورا گر امت سے ساری امت نہیں بلکہ وہ افراد مراد ہین جو کہ ان کتابوں کی تالیف کے بعد ہوئے ہیں تو یہ ساری امت نہیں ہے اور کچھ لوگوں کی تلقی مفید مدعا نہیں ۔
    (اور ہم کہتے ہیں کے ان کتابوں سے بعد والے بھی اس نظریے سے ان کتابوں کی صحت کے ساتھ متفق نہیں ہیں جو کہ بازوق صاحب نے پیش کیا ہے جیسا کہ ہم نے اپنے دعوٰی کے ثبوت کے طور پر کتنے ہی دلائل ماقبل بیان کیے )
    اور آخر میں اس طویل بحث کو لکھنے کے بعد علامہ کاندھلوی یہی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اصل بات یہی ہے کہ یہ دونوں کتابیں اس لیے اصح ہیں کہ ان کے مؤلفین نے یہ کہا کہ ہم نے اپنی کتابوں میں صحیح احادیث نقل کی ہیں
    (اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کے مؤلفین بھی انسان اور بشر تھے اور انھوں نے اپنی بساط کے مطابق حتی المقدور کوشش کی کہ ان کی کتابوں میں کوئی ایسی روایت نہ آئے جو کہ ضعیف ہو مگر بتقاضہ بشریت ان سے بھی تسامح ہوسکتا ہے اور ایسا ہوا بھی ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی متعدد شواہد پیش کرچکے کہنا یہ چاہتا ہوں کہ جب ائمہ میں سے کسی کہ بھی نزدیک صحیحین کی اصحیت کا مدار اجماع پر نہیں ہے بلکہ اکثر کا یہی قول ہے کہ ان کی اصحیت سے یہی مراد ہے کہ ان کتابوں کے مؤلفین نے ان کتابوں میں صحیح ترین روایات کو نقل کیا ہے تو پھر بازوق صاحب کا بار بار اس پر اجماع کا دعوٰی کرنا بے بنیاد ہے اور بالفرض جن عبارات میں اجماع کا دعوٰی آیا بھی ہے ان عبارات کا صحیح محمل یہی ہے کہ ان سے مراد ان دونوں کتابوں کی امت میں شہرت ہے نہ کہ دونوں کتابوں کی ایک ایک حدیث کی قطعی صحت پر امت کا اجماع ہونا ہے۔ آبی ٹوکول )
    اور آخر میں علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے اجماع والے آپکے پیش کردہ دعوٰی کے جواب میں ہم آپ ہی کہ مکتبہ فکر کے مشھور عالم جناب علامہ نواب صدیق حسن خان کا فرمان آپکی خدمت میں پیش کریں گے وہ فرماتے ہیں کہ نزد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ومن قال بقولہ اصح کتب در حدیث و فقہ مؤطا است پستر بخاری و پستر مسلم
    (بحوالہ امام اعظم اور علم حدیث ص 546 از مسک الختام نواب صدیق بھوپالی ج 1 ص 18
    نیز علامہ کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب نے اس کے ترجیحی دلائل اور وجوہ نہایت شرح و بسط کے ساتھ اپنی کتاب مصفٰی میں بیان کردیئے ہیں۔ (ایضا)
    اب آپ ہی بتایئے باذوق صاحب کہ آپ نے امام نسائی کے حوالہ سے اجماع والی بات نقل کی تو ہم نے خود امام نسائی کے حوالہ سے یہ بتا دیا کہ وہ خود صحیحین کے راویوں پر جرح کرتے ہیں لہذا اس معاملے میں امام نسائی آپ کے نہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہیں اور انھوں نے صحیحین کی اصحیت کا وہی مطلب لیا ہے جو ہم نے بیان کیا اور آپ نے حافظ ابن الصلاح کے حوالہ سے اجماع کا دعوٰ ی نقل کردیا تو ہم نے امام نووی اور امیر یمانی کہ اقوال سے حافظ ابن الصلاح کے دعوٰی کی نفی ثابت کردی دیگر آپ نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا دعوٰی اجماع نقل فرمایا تو ہم نے خود آپ کو آپ کے گھر کی شہادت سے یہ نقل کردیا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نزدیک مؤطا امام مالک کو بخاری اور مسلم پر تقدم حاصل ہے لہذا یہاں شاہ ولی اللہ بھی اجماع والی بات میں ہمارے مؤقف کو واضح کررہے ہیں نہ کہ آپ کے مدعا کو نیز آپ نے ابن خلدون سے بخاری کی تمام حدیثوں کی صحت کے بارے میں یہ قول نقل کیا کہ علامہ ابن خلدون ، "تاریخ ابن الخلدون" کے مقدمۃ میں لکھتے ہیں :
    امام بخاری نے صحیح بخاری کے لیے ان ہی احادیث کو قابل اعتماد سمجھا جن کی صحت پر اجماع تھا۔
    تو عرض یہ ہے کہ اولا خود آپ ہی کے بیان کے مطابق ہر فن میں اس کے ماہرین کی رائے کا احترام کیا جائے گا لہذا ابن خلدون تاریخ کے فن میں شہرت رکھتے ہیں نہ کے حدیث کے فن میں دیگر ابن خلدوں اس قول میں انفرادی ہیں کہ امام بخاری نے تمام کی تمام وہ روایات نقل کی ہیں کہ جن کی صحت پر اجماع تھا جبکہ ہم پیچھے کر آئے کہ ایسا بالکل غلط ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ابھی جاری ہے
     
  6. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    تو محترم جناب باذوق صاحب نہایت ہی دوستانہ انداز میں یہ عرض ہے کہ یہ میری ہی تحریر ہے کیونکہ آپ نے نہایت ہی دوستانہ انداز میں دریافت کیا لہذا ہم نے نہایت ہی دوستانہ انداز میں بالکل سچ سچ بتا دیا ۔ امید ہے آپ کو یہ سب کچھ جان کر کوئی خوشی نہیں ہوئی ہوگی ۔
    اور ہماری یہ تحریر آپ کے اس مطالبہ کے بطور تھی جو کہ آپ نے ہماری اس بات یعنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امید ہے ان دونوں باتوں میں جتنا فرق ہے وہ آپ جیسے صاحب علم سے ہرگز پوشیدہ نہ ہوگا۔
    آگے آپ کے الفاظ کچھ یوں تھے ۔ ۔ آپ کی تسلی کے لئے ، چلئے میں مان لیتا ہوں کہ میں "صاحبِ علم" نہیں ہوں!
    اب آپ سے مخلصانہ گذارش ہے کہ اپنے قائم کردہ اس مجوزہ فرق کی وضاحت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیر۔


    جہاں تک آپ کا یہ فرمانا ہے کہ آپ کو لگتا ہے اس کو پوسٹ کرنے سے پہلے اس پر نظر ثانی نہیں کی گئی تو یہ آپ کا ارشاد بالکل بجا ہے اور میں اکثر اپنی پوسٹنگ پر نظر ثانی نہیں کرتا اسی لیے اکثر املائی غلطیاں واقع ہوجاتی ہیں لیکن جہان تک مغالطوں کا تعلق ہے تو ان کا تعلق چونکہ فکری اور معنوی غلطیوں سے ہوتا ہے لہذا آپ کو چاہیے کہ اگر آپ کو ہمارے پیش کردہ اقتباس میں کوئی فکری یا معنوی غلطی نظر آئی تو اس کا واضح دلائل کے ساتھ رد فرمائیں۔

    درج بالا اقتباس کے اولین جملے تب باطل ٹھرتے جب ہم آپ کے دعوٰی کا حصر اپنے بیان کردہ درج بالا جملوں لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا بلکہ لفظ بار بار استعمال کیا ہے جو کہ اس بات پر شاہد ہے کہ آپ کا دعوٰی اس سے دیگر بھی ہے لیکن چونکہ دعوٰی کی دلیل کے طور پر آپ نے زیادہ تر محدثین کی وہی عبارات پیش کی ہیں کہ جن کی طرف ہمارے درج بالا جملے میں اشارہ تھا اس لیے ہم نے یہان لفظ بار بار وارد کیا ہے جو کہ اپنی جگہ بالکل صحیح ہے۔ باقی آپ کا دعوٰ ی تو یہ ہے کہ بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں۔
    لیکن آپ نے ابھی تک کوئی ایک بھی ایسی عبارت نہیں پیش کی کہ جس میں محدثین نے ان دونوں صحاح کی ایک ایک حدیث کی قطعی صحت کے بالاجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہو ۔ باقی ہم اپنی مندرجہ بالا رپلائی میں یہ ثابت کر آئے ہیں کہ صحاح کی ہر ہر حدیث پر اجماع قطعی نہ ہونے کے قائل نہ صرف ہمارے طرف کے علماء ہیں بلکہ دیگر محدثین بھی ہیں جیسا کہ ہم نے امام نووی ، امام نسائی ، ابو داؤد شاہ ولی اللہ اور امیر یمانی کی عبارات دیو بندی مکتبہ فکر علامہ محمد علی صدیقی کاندھلوی کے حوالہ سے نقل کیں۔ لہذا آپ کا اس رائے کو صرف ہمارے طرف کے علماء میں منحصر کرنا بے جا ہے۔


    ہم نے قرآن کی آیت کے انکار پر جو کفر ہونے کا بیان نقل کیا ہے وہ شوشہ نہیں ہے بلکہ علم دین سے معمولی سا بھی شغف رکھنے والا ایک مبتدی طالب علم یہ بات جانتا ہے کہ اس قسم کی باتیں عامۃالکتب میں اصول کی کتابوں کے حوالوں منقول ہیں ہمیں تو آپ کی اس بات پر حیرانگی ہوئی جو آپ نے اس پر بھی اعتراض جڑ دیا تفصیل کے لیے تمام مکاتب فکر کی بنیادی کتب کہ جن میں عقائد کا بیان ہوتا ہے کی طرف رجوع کیا جائے۔
    باقی ہم نے جو اپنے اقتباس میں قرآن کی آیات اور بخاری شریف کی روایات کا باہم موازنہ کیا ہے تو وہ موازنہ آپ پر بطور الزامی تھا تاکہ ہم تقابل کرکے آپ پر یہ واضح کردیں کہ قرآن کہ اصح ہونے سے کیا مراد ہے اور اس سے کیا احکامات لاگو ہوتے ہیں اور صحاح کہ اصح ہونے سے کیا مراد ہے اور اس سے کیا احکامات لاگو ہوتے ہیں۔
    رہا آپ کا یہ فرمانا کہ جب مسلمان یا کافر کی شرط صحیحین کی حدیث کو ماننے سے وابستہ ہی تو پھر ہم نے اس کا یہاں ذکر کیوں کیا ؟
    تو عرض یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ مطلقا حدیث کی حجیت سے انکار کفر ہی ہے اس میں کسی بھی صحیح کتاب کی حدیث کی تخصیص نہیں کہ جو بھی شخص قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ جب وہ اپنے ثبوت میں صحیح ثابت ہوجائے کو اگر اپنے اوپر حجت نہ سمجھے تو اس کا دین اسلام کے ساتھ کیا واسطہ ؟ثانیا ہمارا اس بحث کو یہاں نقل کرنا کوئی کافر یا مسلم کی شرائط کے بطور نہیں تھا بلکہ اس وجہ سے تھا کہ قرآن کی اصحیت اور حدیث بخاری ک اصحیت سے کیا مراد ہے وہ واضح کرسکیں کیونکہ اگر قرآن کی ہر ہر آیت کی طرح تمام کی تمام احادیث بخاری بھی اپنے ثبوت کےا عتبار سے قطعی الثبوت بالتواتر ہوتیں تو پھر دیگر صحیح کتابوں کی طرف رجوع کرنے سے پہلے صحیح بخاری کی ہر ہر حدیث پر عمل کرنا واجب ہوتا اور جب بخاری شریف میں سے کسی مسئلہ پر حدیث نہ ملتی تو دیگر کتابوں کی طرف رجوع کیا جاتا اور دوسری کتابوں میں سے جب کوئی بھی حدیث ملتی تو اسے سب سے پہلے بخاری پر پیش کیا جاتا جیسا کے مطلقا حدیث کو قرآن پر پیش کیا جاتا ہے اور جب وہ حدیث بخاری کے موافق آجاتی تو اسے قبول کرلیا جاتا اوراگر معارض آجاتی تو ترک کردیا جاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
     
  7. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    محترم ہم نے یہ استدلال آپکی اس بات کے رد میں پیش کیا تھا جو کہ آپ نے ان الفاظ کے ساتھ فرمائی تھی میں آپ کے الفاظ کو کوٹ کی شکل میں پیش کررہا ہوں ۔ ۔

    محترم میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ہماری مذکورہ بالا تمام عبارت کہ جس کے بارے میں آپ کو شک تھا کہ ہماری نہیں وہ ہم نے ایک تو آپ کے اس مطالبے پر پیش کی تھی جو کچھ یوں تھا ۔ ۔ ۔آپ کی تسلی کے لئے ، چلئے میں مان لیتا ہوں کہ میں "صاحبِ علم" نہیں ہوں!
    اب آپ سے مخلصانہ گذارش ہے کہ اپنے قائم کردہ اس مجوزہ فرق کی وضاحت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیر۔
    اور دوسرا ہم نے قرآن اور حدیث کی قطعی صحت کا تقابل کرکے الزامی طور پر آپ کا رد کیا تھا کہ بخاری کے اصح ہونے سے مراد بالکل قرآن کی طرح اصح ہونا نہیں ہے پتا نہیں کیوں ایک چھوٹی سی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی اور آپ بار بار ہمیں کوس رہے ہیں کہ ہم نے بچگانہ باتیں کی ہیں ۔
    اور محترم لگتا ہے آپ میری بات سمجھ نہیں پا رہے میں نے یہ نہیں کہا کہ ایک حدیث جب صحیح ثابت ہوجائے تو اس پر عمل نہ کرنے والا کافر ہوجاتا ہے بلکہ میں نے حجیت حدیث کے حوالے سے کہا تھا کہ کوئی شخص اگر مطلقا حدیث کی حجیت کا ہی انکار کردے تو بلاشبہ وہ کافر ہے میرے الفاظ یہ تھے ایک بار آپ کی نذر کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قر آن کی ہر ہر آیت سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے اور جو بھی اس کا انکار کرے وہ بالاجماع کافر قرار پائے گا جبکہ بخاری کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کیونکہ بخاری کی احادیث سے متواترہ کو چھوڑ کر ہر ہر حدیث سے علم قطعی حاصل نہیں ہوتا اور جو کوئی بھی شخص بخاری کی کسی صحیح حدیث کو اسکی سند یا متن میں کسی علت قادحہ یا واضح نقص کی بنا پر انکار کرئے تو وہ کافر ہرگز نہیں ہوگا بلکہ اگر حدیث صحیح ہوگی اور وہ شخص اپنے ذاتی اجتھاد کی وجہ سے اس کو صحیح نہ سمجھ رہا ہو تو بھی زیادہ سے زیادہ وہ شخص گمراہ کہلائے گا نا کہ کافر ۔ کافر وہ ہوگا جو کہ مطلقا حجیت حدیث کا انکار کردے اور حجیت حدیث پر اس کو شک ہو ناکہ بخاری کی کسی روایت کو اپنے ذاتی اجتھاد کی وجہ سے مشکوک سمجھنے والا بالاجماع کافرکہلائے گا۔ امید کرتا ہوں اب بات آپ کی سمجھ آگئی ہوگئی اور ویسے بھی میں نے یہ بات قرآن اور سنت کا الزاما تقابل کرتے ہوئے لکھی تھی نہ کہ مطلقا لکھی تھی ۔لہذا آپ کا خواہمخواہ پریشان نہ ہوں کہ ہمارے کافر کہنے سے کون کون اس کی زد میں آتا ہے۔


    حضور ہمارا یہ استدلال غیر منطقی نہیں تھا بلکہ اس سے ہم یہ واضح کرنا چاہ رہے تھے کہ اصح الکتاب بعد القرآن سے حقیقتا مراد کیا ہے ؟ کیا قرآن ہی کی طرح اصح ؟ یا پھر قرآن کے بعد اصح مگر بعینہ قرآن کی طرح اصح نہیں۔ کیونکہ قرآن کی ہر ہر آیت قطعی الثبوت بالتواتر ہے جبکہ بخاری کی ہر ہر حدیث کے ساتھ یہ معاملہ نہیں اور اگر آپ اسکی بھی ہر ہر حدیث کو قطعی صحت کا درجہ دے دیں گے تو پھر ان تمام پر عمل وجوب کے درجے میں لازمی ہوجائے گا بس ہماری تقریر سے یہی واضح کرنا مقصود تھا ۔ اور آپ چونکہ بخاری کی اصحیت کو قرآن پر قیاس کررہے ہیں تو ہم نے بطور دلیل آپ کا رد اس طرح سے کیا ہے کہ قرآن میں اللہ پاک کی بھیجی ہوئی ہر ہر آیت موجود ہے جبکہ بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر حدیث موجود نہیں ہے لہذا قرآن ہر لحاظ سے کامل اور اکمل ہے جبکہ بخاری ہر لحاظ سے کامل اور اکمل نہیں اس لیے بخاری کو قرآن کی اصحیت پر قیاس کرنا قیاس فاسد ہے۔
    اب آخر میں ہم آپ سے خود آپ ہی کے بیان کیے گئے مفہوم کے مطابق چند سوالات کریں گے


    جب کسی بھی حدیث کی صحت کو جانچنے کا معیار سند ہے اور آپ کو یہ تسلیم بھی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ بخاری و مسلم کے رواۃ کی اس سے تخصیص کرنا چاہتے ہیں اور آپ کو بخاری و مسلم کے تمام رجال کو اس پل پر سے گذارنے پر اختلاف ہورہا ہے یا آپ کے نزدیک بخاری و مسلم کے تمام رجال کےثقہ اور صدوق ہونے پر بھی اجماع ہوچکا ہے ؟
    اور اگر ایسا ہے تو پھر جن لوگوں نے بخاری و مسلم کے رجال پر جرح کی ہے ان کا کیا حکم ہے؟
    اور اگر آپ کے نزدیک بخاری کی حدیث کی قطعیت سے وہی مراد ہے جو کہ آپ نے بیان کی ہے یعنی جس طرح قرآن قطعی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تمام مکتبہ ہائے فکر کے لوگ بخاری کی ہر ہر حدیث پر عمل کیوں نہیں کرتے جیسا کہ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ خود غیر مقلدین کے ہان بخاری کی ہر ہر حدیث پر عمل نہیں بلکہ اس کے برخلاف اگر ایک حدیث بخاری میں موجود ہے تو بھی غیر مقلدین کا عمل دوسری حدیث پر ہوتا ہے جو کہ دیگر صحاح میں پائی جاتی ہے کیا بخاری کی اصحیت اور اس کا تمام صحاح سے افق پر ہونا آپ سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ آپ اس کی ہر ہر حدیث پر عمل کریں اور اسکے مقابلے میں دیگر صحاح کی روایات کو ترک کریں ؟ یہ آپ لوگوں دوہرا معیار آخر کیوں کے لوگوں کو تو بخاری بخاری کی اصحیت کا شور مچا کر اس کا افق پر ہونا ثابت کرتے ہیں لیکن جب اپنے عمل کی باری آتی ہے تو خود اپنے ہاتھ بخاری سے بھی دھو بیٹھتے ہیں؟
    نیز اگر بخاری کی اصحیت سے وہی مراد ہے جو کہ آپ نے لی ہے یعنی قرآن کی طرح قطعی صحت تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ لوگوں کو جب بھی کوئی معاملہ پیش آئے اس مسئلہ کو بالترتیب اول قرآن پھر بخاری اور پھر دیگر صحاح میں کیوں نہیں دیکھتے اور بالکل اسی کے بر عکس جب کو ئی بھی حدیث دیگر صحاح سے ملے تو اسے کیوں نہیں پہلے بخاری پر پیش کرتے اگر اس کے موافق ٹھرے تو فبھا ورنہ اس کے معارض ہونے کی بنا پر اسے ترک کردیا جائے آخر کیوں آپ لوگوں کا یہ رویہ بخاری کے ساتھ نہیں ہے جب کہ آپ کا کہنا اور ماننا یہ ہے کہ بخاری بھی قرآن ہی کی طرح اپنے ثبوت میں قطعی ہے۔
    اور آخر میں اتنا عرض کر کے اجازت چاہوں گا کہ آپ پر ہمارے تمام سوالات اور ان سے پیشتر تمام تر حوالاجات چاہے وہ نعمۃالباری سے ہوں یا پھر خود آپکے اپنے گھر سے سب کے جوابات آپ کے زمہ ہیں ۔ والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت ۔
     
  8. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام علیکم
    آبی ٹو کول صاحب
    میں یہاں بھی آتا رہتا ہوں۔
    لہذا یہاں بھی آپ سے پوچھ لوں کہ :
    کیا آپ کی بات اب مکمل ختم ہو چکی ہے؟
    تاکہ میں اپنا جواب دینا شروع کروں ؟؟
     
  9. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام جناب باذوق صاحب جی مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ یہاں بھی آتے رہتے ہیں اور اب کچھ دنوں سے میری معلومات میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے کہ اس کے علاوب بھی آپ کے کافی فورمز پر آئی ڈی ہیں خیر آپ چونکہ یہاں آتے ہیں اور یہں کے ممبران آپ سے شناساں ہے اسی لیے میں نے یہ ےتھریڈ یہان بھی شئر کیا ہے اور باقی میرے اسلوب سے صاف طور پر عیاں ہے کہ فی الوقت تک میں اپنی بات مکمل کرچکا ہوں اس لیے آپ جواب دے سکتے ہیں باقی ایک گذارش ہے کہ اب آپ اپنا جواب خود ہی یہاں پوسٹ کردیا کریں تاکہ میرے ذمہ سے آپ کا بھی اور اپنا دونوں جوابات یہان لگانے کا بھاری بوجھ اتر جائے، والسلام آپکا خیر اندیش عابد عنائت
     
  10. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بھائی صاحب !
    کیوں ایسا غضب کر رہے ہیں؟
    بوجھ تو آپ نے خود سر لے رکھا ہے ، میں نے تو نہیں کہا تھا نا آپ سے۔
    اگر میرے پاس اتنی فرصت ہوتی تو میں یہاں بعض ادھورے چھوڑے گئے مباحث کو مکمل کرتا یا وہیں محفل پر منکرینِ حدیث کو جوابات دیتا جو میرے پاس تیار بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔
    امید کہ ناچیز پر رحم فرمائیں گے۔ بھائی آخر میں بھی آپ کی طرح اہل و عیال کے ساتھ غریب الدیار میں رہتا ہوں جہاں چند لمحات فرصت کے اپنی ہی فیملی کے لئے نکالنا بھی دم غنیمت ہوتا ہے
     
  11. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم میرے بھائی کاپی اور پیسٹ میں وقت ہی کتنا لگتا ہے ۔ اس لیے آپ مہربانی فرما ہی دیجیئے تو بہتر ہے میرا بوجھ کچھ کم ہوجائے گا۔ شکریہ
     
  12. مون لائیٹ
    آف لائن

    مون لائیٹ ممبر

    شمولیت:
    ‏27 دسمبر 2007
    پیغامات:
    69
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نہایت کم وقت میں یہ کام کرجاتے ہیں۔
     
  13. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نہایت کم وقت میں یہ کام کرجاتے ہیں۔[/quote:11taxcb7]
    حضرت آپ تو کمزور عورتوں کی طرح کوسنے دینے پر اُتر آئے ہیں۔
     
  14. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نہایت کم وقت میں یہ کام کرجاتے ہیں۔[/quote:2qiq6fnh]
    حضرت آپ تو کمزور عورتوں کی طرح کوسنے دینے پر اُتر آئے ہیں۔[/quote:2qiq6fnh]
    السلام علیکم !
    کمزور عورتیں بیچ میں کہاں سے آگئیں :takar:
    عابدعنائیت صاحب اور دیگر صارفین سے التماس ہے کہ اتنی عمدہ علمی و تحقیقی لڑی میں اسکے علمی معیار کے مطابق ہی گفتگو کی جائے۔ تاکہ پڑھنے سننے والوں کا فائدہ ہوسکے۔
    شکریہ
     
  15. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ بہن یاد دہانی کا بات صرف اتنی تھی کہ باذوق صاحب اپنی پوسٹنگ کو پہلے بھی بہت سی جگہوں پر کاپی پیسٹ کرتے ہیں تو میں نے ان سے عرض کی ایک کاپی پیسٹ یہان بھی کردیا کریں تاکہ جب آپ خود کریں گے تو اس پر اعتماد بھی زیادہ لوگوں کا ہوگا نہ کہ جب میں آپ کہ مواد کو کاپی پیست کروں تو شبہ ہوسکتا ہے کہ دنڈی ماری گئی ہے لہذا میں نے ان سے عرض کی جب اور بہت سی جگہون پر آپ کا کاپی پیسٹ چلتا ہے تو ہماری اردو پر بھی اگر ہوجائے تو کون سا اتنا زیادہ وقت لگتا ہے جس پر انھون نے تو کوئی خاص جواب نہیں دیا لیکن ان کے ایک حمایتی صاحب سے جب کچھ نہ بن پڑا تو لگے مجھے کوسنے دینے بس وہیں سے ان کی کمزوری کی کمزور ورتوں سے تعبیر کردیا ۔ ویسے آپ کو اگر برا لگا تو میں معذرت خواہ ہوں آئندہ احتیاط کروں گا۔والسلام
     
  16. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    جزاک اللہ آبی بھائی، اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے آمین۔
     
  17. مون لائیٹ
    آف لائن

    مون لائیٹ ممبر

    شمولیت:
    ‏27 دسمبر 2007
    پیغامات:
    69
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کاپی پیسٹ میں کم وقت لگتا ہے۔ یہ آپ نے باذوق کے لیے کہا۔
    اسی بناء پر میں نے کہا کہ آپ بہت کم وقت میں یہ لمبی تھریڈ لگانے کا سہرا اپنے سر پر سجائے ہیں۔
    اس میں کوسنے کی کونسی بات ہے ۔ ایک ہی بات کو اگر آپ استعمال کریں تو صحیح اور اگر ہم استعمال کریں تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟۔۔۔۔
    یہ تو دو رنگی ہے جناب۔ یک رنگ ہوجا۔
    رہاعورت کی کمزوری کا مسئلہ
    ۔ تو ہر عورت کمزور نہیں ہوتی ۔ شاید آپ کا واسطہ ایسی عورت سے ہو تو اس میں ہماری کیا غلطی۔
     
  18. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    کاپی پیسٹ میں کم وقت لگتا ہے۔ یہ آپ نے باذوق کے لیے کہا۔
    اسی بناء پر میں نے کہا کہ آپ بہت کم وقت میں یہ لمبی تھریڈ لگانے کا سہرا اپنے سر پر سجائے ہیں۔
    اس میں کوسنے کی کونسی بات ہے ۔ ایک ہی بات کو اگر آپ استعمال کریں تو صحیح اور اگر ہم استعمال کریں تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟۔۔۔۔
    یہ تو دو رنگی ہے جناب۔ یک رنگ ہوجا۔
    [/quote:lv4n2eey]
    میرے محترم بات ہے سمجھ کی ! بات ایک ہی بات کو دو لوگون کے استعمال کرنے کی نہیں ہے بلکہ ایک ہی بات کو دو مختلف پیرایؤں میں استعمال کرنے کی ہے میں نے کاپی پیسٹ والی بات حقیقتا کی تھی کہ باذوق صاحب خود بھی بہت سی جگہون پر کاپی پیسٹ ہی کرتے ہیں جبکہ آپ نے مجھ پر طنز فرماتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا تھا اب آپ اتنے بچے اور کم فھم تو ہیں نہیں کہ آپ پر آپ کی اپنی کہی ہوئی بات میں جو طنز کے نمایاں نشتر ہیں وہ ظاہر ہی نہ ہوں اس لیے اب آپ سیدھے سیدھے سے تسلیم کرکے خود یک رنگی اختیار فرمالیں اور اپنے قول کو سچ کردکھائیں ۔
     
  19. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    کول صاحب
    آپ نے کاپی پیسٹ والی بات حقیقتا کہی تھی تبھی تو یہ اعتراضات ہو رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے آپ کی وضاحت پڑھنے سے پھلے آپ کا ارشاد بھی طنز ہی لگ رہی تھی لیکن اب آپ نے اس سے انکار فرمایا ہے تو اسے مانا جا سکتا ہے
     
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم !
    میرا خیال ہے ایک آدھ لفظ کو گھسیٹنے کی بجائے بہتر ہے کہ ہم آبی ٹوکول اور باذوق صاحب کی علمی و تحقیقی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرکے انکے لیے اجرعظیم اور اپنے لیے صراط مستقیم کی دعا کر لیں۔

    اللھم اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیھم ۔ غیر المغضوب علیھم ولاالضآلین۔ آمین بجاہ شفیع المذنبین و رحمۃ اللعلمین۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    والسلام علیکم
     
  21. مون لائیٹ
    آف لائن

    مون لائیٹ ممبر

    شمولیت:
    ‏27 دسمبر 2007
    پیغامات:
    69
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    آپ نے یہ کہا کہ باذوق کاپی پیسٹ سے کام لیتا ہے ۔ اور اس کو آپ حقیقت کا نام دے رہے ہیں۔ تو میرا سوال ہے کہ کیا آپ کاپی پیسٹ سے کام نہیں لیتے ہیں۔؟ جواب ہاں یا نہیں میں چاہیئے۔(یاد رہے کہ “ کتمان“ جو کہ روافض کا شیوہ ہے، سے ہٹ کر جواب دیجیئے گا۔)
    اگر ہاں میں ہے تو میری بات کو طنز نہ سمجھو بلکہ حقیقت ہی سمجھو۔
    اور اگرجواب “ نہ “ میں ہو یہ لمبی لمبی تھریڈ کیسے ؟ اس کی بھی وضاحت درکار ہے؟
    :soch:
     
  22. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    ماشاءاللہ ۔ نعیم صاحب کی بات بہت خوبصورت ہے۔
    لگتا ہے باذوق صاحب اور انکے وہابی پیروکاروں کے پاس علمی جواب ختم ہوگئے ہیں۔ :84:

    محترم آبی ٹوکول صاحب۔ میری آپ سے گذارش ہے کہ آپ بجائے چھوٹے موٹے فضول مباحث اور لایعنی وضاحتوں کے ، اپنے کام پر توجہ دیجئے۔ اور عقیدہء حق کے خلاف کی جانی والی سازشوں کا قلع قمع کرنے کا عظیم فریضہ سرانجام دیتے رہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں