1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بیسویں آئینی ترمیم - عوام کے خلاف ایک نیا این آر او

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محمداکرم, ‏22 فروری 2012۔

  1. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:

    [​IMG]

    بیسویں آئینی ترمیم ، عوام کے خلاف ایک نیا این آر او ہے ، جس سے کرپٹ نظام انتخاب کے محافظ ، جعلی عوامی نمائیندوں کا عوام کے خلاف بے مثال اتحاد کھل کر سامنے آگیا ہے اور ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ ان لٹیرے سیاستدانوں کو عوامی مسائل سے ہرگز ہرگز کوئی سروکار نہیں ۔ انکی ترجیحات میں سرفہرست قومی خزانے کی بندر بانٹ میں اپنا اپنا حصہ وصول کرنا ہے اور بس ۔ تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیے:

    [​IMG]


    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قومی مرض کی درست تشخیص کی ہے کہ :

    "موجودہ ظالمانہ استحصالی نظام انتخاب ہی دراصل عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے ، کیونکہ یہ نظام مفاد پرست و بددیانت سیاستدانوں کو پروموٹ کرتا ہے اور دیانتدار ، باصلاحیت ، حقیقی محب وطن قیادت کو آگے آنے سے روکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔موجودہ انتخابی نظام کینسرزدہ ہوچکا ہے ، جب تک میجر سرجری کے ذریعے اسمیں اصلاحات نہ کرلی جائیں ، یہ نظام انتخاب قوم کو دکھوں ، محرومیوں اور مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتا ۔ ۔ ۔ ۔یہ نظام جمہوریت نہیں بلکہ مجبوریت اور دجل و فریب ہے ۔ ۔ ۔ حقیقی تبدیلی کا راستہ صرف اور صرف موجودہ نظام کے خلاف قومی بغاوت ہے ، مگر یہ بغاوت مکمل پرامن ہو ، ہرقسم کے تشدد ، جلاو گھیراو ، توڑ پھوڑ اور گالی و گولی سے پاک ہو ۔ ۔ ۔ ۔"


    بیسویں آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر اور سینیٹ سے دوتہائی اکثریت سے منظوری کے واقعے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے ، کہ عوام چاہے غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری ، قتل و غارت ، بد امنی ، دہشت گردی اور ان گنت دوسرے مسائل کے عذاب میں گرفتار ہوکر ، سسک سسک کر جیتے اور کڑھ کڑھ کر بیشک شب و روز مرتے رہیں ، یہ نام نہاد جعلی عوامی نمائیندے سیاسی و نظریاتی اختلافات کا بہانہ کرکے عوام کو مسلسل دھوکہ دیتے رہتے ہیں ، مگر اپنے مفادات کیلئے یہ لوگ تمام تر اختلافات کو پلک جھپکتے میں بھلا کر باہم شیر و شکر ہوجاتے ہیں ۔

    اے اہل وطن ! اس کرپٹ نظام میں ووٹ دینا گناہ جاریہ ہے ، آئیے اس گناہ سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔ اگر ہم حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس عوام دشمن کرپٹ انتخابی نظام کو سمندر برد کرنا ہوگا ۔ آئیے !اس عظیم جدوجہد کیلئے ، پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ دیجئے۔

    اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
    کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو

    اے اہل پاکستان ! سسک سسک کر جینے اور کڑھ کڑھ کر مرنے سے بہتر ہے کہ پوری قوم ایک آواز ہوکر موجودہ کرپٹ استحصالی نظام انتخاب کے خلاف بغاوت کیلئے اٹھ کھڑی ہو ، جو غریب کیلئے تمام دروازے بند کردیتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ بار بار روپ بدل کر اقتدار میں آنے والے لٹیروں کی مدد کرتا ہے ۔ آج ضرورت ہے کہ قوم اصل دشمن کو پہچانے اور بیدارئ شعور کے ذریعے مزید دھوکہ کھانے سے انکار کردے ۔

    اٹھو غریبو ! مکروہ چہروں سے شرافت کے نقاب نوچ ڈالو ، اور اپنی تقدیر خود رقم کرنے کا آغاز کر ہی ڈالو ۔ ۔ ۔

    یاد رکھو ! تبدیلی ظلم سہتے رہنے سے کبھی نہیں آئے گی ، بلکہ ظلم و ناانصافی کے نظام کے خلاف متحد ہوکر صدائے حق بلند کرنے سے ہی آئے گی !

    اور ۔ ۔ ۔ ۔

    میرے عزیز ہم وطنو ! ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھوگے ، اتنی ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی ۔ اب فیصلہ آپ پر ہے !

    قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا فیصلہ ہے :

    اِنَّ اللّہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنفُسِہِم - بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا ، جب تک کہ وہ قوم خود اپنی حالت کو بدلنے کی جدوجہد نہ کرے ۔

    ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
    خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

    عبث ہے شکوئہ تقدیر یزداں
    تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟​


    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ :91:
     
  2. محمداقبال فانی
    آف لائن

    محمداقبال فانی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 اپریل 2011
    پیغامات:
    64
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بیسویں آئینی ترمیم - عوام کے خلاف ایک نیا این آر او


    ہم وہ حرماں نصیب مسافر ہیں، جس کی کمند ہمیشہ دوچار ہاتھ لبِ بام ہی ٹوٹتی رہی۔ ہماراسفر منزل سامنے دیکھ کر بھی ختم نہ ہوسکا، ہمارے ناخدا منزل کے نہیں سراب کے پیروکار رہے۔ ہم نشانِ منزل سے بے خبر اُن کی اقتداء میں سرپٹ دوڑتے رہے، نہ منزل کی خبر ، نہ نشانِ منزل کا پتہ۔ نہ یہ معلوم کہ ہم آئے کہاں سے؟ نہ یہ پہچان کہ ہمیں جانا کہاں ہے؟ ہم صحرائے حیات میں ، امکانِ حیات تلاشنے والے وہ بد قسمت راہ گُم کردہ مسافر ہیں جو "نشانِ منزل " بتانے والے اور راہ راست پر چلانے والے مرد حر کی بات پر کان بھی نہیں دھر رہے۔ بقول علامہ ڈاکٹرمحمد اقبالؒ کہ
    رفتم کہ خار از پاکشم،محمل نہاں شُد از نظر
    یک لمحہ غافل گشتم، کہ صد سالہ راہم دور شُد

    راہ گم کردہ مسافر کے لیے صحرائے حیات میں جب قطبی ستارہ بھی ہدایت آفرینی چھوڑ دیتا ہے تو ایسے میں انسان کا دھڑکتا دل اس کے لیے قطب نما بن جاتا ہے۔ قوت قلب و جگر راہ یابی کے لیےمہمیز کاکام کرتی ہے، ارادے پھر سنورنے لگتے ہیں ،تمنائیں مچلنے لگتی ہیں،امکانِ حیات پیداہونے لگتے ہیں،صحرائے حیات کی شادابی سے ہر قدم پر نشانِ منزل کا سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ بقول شاعر
    ارادہ ِمصمم خود ہي منزل کا پتا ديتا ہے
    نشانِ منزل کےليئے کوئ رہبر ضروري تو نہيں​

    جستجوءِ منزل میں بھٹکتے مسافر کے لیے ، اِ ک ٹھوکر ہی کافی ہے سنبھلنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے جب مردِ مسلماں سنبھلتا ہے تو منزلیں خود چل کر اس کی طرف آتی ہیں۔ بقول شاعر
    جب بھی رجوع کیا ہے قرآن کی طرف
    منزل کا نشاں مل گیا آغازِ سفر میں​
    رُجوع اِلٰی القرآن سے ہی ہمیں نشانِ منزل اور مقصدِ زیست ملتا ہے،دامنِ قرآں سے وابستہ شخص نہ صرف نشانِ منزل پاتا ہے بلکہ کمالِ منزل پاکر اوروں کے لیے چراغِ سحر اور نشانِ منزل بن جاتا ہے۔ بقول علامہ ڈاکٹرمحمد اقبالؒ
    کشتئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
    عصر ِ نو رات ہے دھندلا سا ستارہ تو ہے​

    اس عالَمِ ایجاد میں صاحبِ ایجادکے لیے راستے کا ہر پتھر نشانِ منزل کا پتہ دیتا ہے۔
    دُنیا کو ہے اُس مہدی برحق کی ضرورت
    ہو جس کی نِگہ زلزلۂ عالم ِ افکار​
    اور اگر اس کے برعکس ہوتومنزلیں راستہ بدل لیتی ہیں،کمندیں ٹوٹ جاتی ہیں،راستے کا ہر پتھر دیوار بن جاتا ہے۔ بقول علامہ ڈاکٹرمحمد اقبالؒ
    خُود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
    وہ نگاہیں نا اُمیدِ نُور ِ ایمن ہو گئیں​
    اور اب ہماری حالت یہ ہے کہ
    جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
    نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
    بجلیاں جس میں ہوں آسُودہ، وہ خِرمن تم ہو
    بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو​

    آج اگر نشانِ منزل پانا ہے تو پھر علامہ اقبالؒ کی نصیحت پر ہمیں عمل پیراہوناہوگا کہ
    تُو اپنی خُودی کو کھو چکا ہے
    کھوئی ہوئی شے کی جُستجُو کر
    بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
    جو اس سے نہ ہو سکا، وہ تُو کر​
    منزل کی جستجو میں بھٹکتے مسافر کو فرماتے ہیں کہ
    اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
    سِرّ ِ آدم ہے، ضمیر ِ کُن فکاں ہے زندگی​
    پھرعلامہ اقبال ؒ سراب کے پیچھے بھٹکتے مسافر کو خطاب کرتے ہیں کہ
    آہ کس کی جُستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
    راہ تُو، رہرو بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو
    کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
    ناخُدا تُو، بحر تُو، کشتی بھی تُو، ساحل بھی تُو​
    نشانِ منزل سے بے خبر، منتظرِ فردا،کوتاہ بیں جوان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
    عبث ہے شکوۂ تقدیر ِ یزداں
    تو خُود تقدیر ِ یزداں کیوں نہیں ہے
    کوہ شگاف تیری ضرب، تُجھہ سے کشادِ شرق و غرب
    تیغ ہلال کی طرح، عیش ِ نیام سے گزر​

    امتِ مسلمہ کا وہ جواں ذھن جس کے ارادے مضمحل ہو چکے ہیں، جسے اس کارگہ حیات میں ہر طرف تاریکی نظر آرہی ہے،جو اس بدترین سیاسی غلامی کے نظام میں جکڑاہوا بے غیرت اور کمینہ صفت بے ضمیر سیاسی پنڈتوں کے سحرمیں مبتلا اس نظام کے خلاف ٹکر لینے کی بجائے اس دھندلکے میں پوچھ رہا ہے کہ " ہے نشانِ منزل کہاں؟" میرا انھیں صرف ایک ہی پیغام ہے کہ
    جرأت ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
    اے مردِ خدا ملک خدا تنگ نہیں ہے​


    بیٹھ کر کڑھنے اور ذلت کی موت مرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اس بدترین نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ورنہ ہماری نسلیں ہمیں یاد نہیں‌کریں گی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں