1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سچی محبت کا تقاضہ !!!

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از ناصر نعمان, ‏26 جنوری 2012۔

  1. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم​
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    ماہ ربیع الاول آچکا ہے ۔۔۔اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سب سے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے ۔
    گذشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی جیسے جیسے 12 ربیع الاول کا دن قریب آتا جائے گا لوگوں کے جوش خروش میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔
    اور لوگ مختلف طور طریقوں سے کہیں محافل کا انعقاد کرکے تو کہیں جلسے جلوس کرکے تو کہیں اپنے گھروں ،مسجدوں اور علاقوں میں جھنڈے لگا کے اوررنگ برنگی لائیٹیں لگا کرچراغاں کرکے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے ۔
    یوں تو دنیا میں خوشیاں منانے کے بہت سے طریقے ہیں۔کہیں خوشی منانے کے لئے ہلہ گلہ کیا جاتا ہے۔کہیں خوشی منانے کا اظہار پٹاخے چلا کر،ایک دوسرے پر رنگ پھینک کرکیا جاتا ہے۔ اور کہیں خوشی منانے کا اظہار کے لئے مختلف طریقوں سے موسیقی وغیرہ کی پارٹیوں کے انعقاد سے کرتے ہیں۔
    مسلمانوں کے دوخوشیوں کے تہوار (عید الفطر اور عید الضحیٰ) میں ایک بات مشترک ہے ۔ایک تو دن کا آغاز ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت سے کرتے ہیں (یعنی نماز عید ادا کرتے ہیں)اور دوسری خاص بات یہ ہے کہ اسلام ہمیں اپنی خوشیوں میں اپنے غریب بھائیوں کو بھی شامل کرنے کا درس دیتا ہے۔یعنی عید الفطر پر ہم زکوة اور فطرہ ادا کرتے ہیں تو عید الضحیٰ پر ہم قربانی کا گوشت غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
    مگر ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم اپنے پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی کس طرح مناتے ہیں؟
    حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقعہ پرلوگ رنگ برنگی لائٹیں،جگہ جگہ جھنڈے،جھنڈیاں اور لنگر ،سبیلیں وغیرہ وغیرہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
    لیکن کیا واقعی یہ طریقے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کے اظہار ہیں؟
    یہاں کئی پہلو سامنے آتے ہیں ۔جن کو ہم پیش کرنا چاہیں گے۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾ قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ )اٰ ل عمران31-32 پارہ 3
    (ترجمہ :کہدے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ،خود اللہ تم سے محبت کرے گا،اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا ،اللہ بڑا بخشنے ولامہربان ہے ،کہدے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو)
    ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ نے فیصلہ کردیا جو شخص اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے ،اس کے اعمال ،افعال،عقائد فرمان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہوں ،طریقہ محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم پر کار بند نہ ہوتو وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے۔
    یعنی اگر دنیا کا کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعوے دار ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے۔

    (مطلب یہ کہ محبت کے دعوے دار کے لئے اطاعت محبوب ضروری ہے۔اس کے بغیر محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے)
    آپ نے اکثر وضو خانے پر ایک حدیث پاک پڑھی ہوگی ۔جس کا مفہوم ہے ”وضو کے لئے پانی کا ضیاع اسراف ہے ،چاہے بہتی نہر ہی کیوں نہ ہو“
    ہمارے بہت سے مسلمان بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی دولت سے نوازا ہے ۔ہم غریبوں کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں اوراگر ہم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی پر تھوڑا بہت مال خرچ کرلیں گے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟
    لیکن اس بات کو سمجھیں ”وضو“ فرض ہے۔
    ”پانی“ معمولی چیز ہے۔
    ”بہتی نہر“یعنی اتنی بہتات جس کی کوئی حد نہیں۔
    تو فرض کی ادائیگی میں بھی پانی جیسی معمولی چیز اور وہ بھی اتنی بہتات سے کہ جس کی کوئی حد نہ ہو پھربھی ہمارے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق ”اسراف“ ہے(یعنی فضول خرچی ہے)
    تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی پر یہ رنگ برنگی لائیٹیں لگانا،جھنڈے ،جھنڈیاں لگانا،لنگر اور سبیلیں لگانے پر جو لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں کیا یہ اسراف نہیں؟
    کیا یہ سب طریقے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہیں؟
    کیا ہم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ناواقف ہیں؟
    کیا ہم نہیں جانتے کہ ہمارے پیارے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کن اعمال پر خوشی فرماتے تھے ؟
    کیا ہم لوگ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے دو خوشی کے تہوار(عید الفطر اور عید الضحیٰ) پر ہمارے لئے کیا احکامات ہیں کہ ہم کس طرح خوشی منائیں؟
    ہمیں ہمارا دین اسلام دونوں خوشی کے تہوار پر خصوصی طور پر اپنے غریب بھائیوں کو اپنی خوشیوں میں شریک رکھنے کا درس دیتا ہے۔لیکن ہم نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی کس طرح مناتے ہیں کہ جس میں ظاہری نمود اور نمائش کی جاتی ہے ؟
    حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت پر یہ تمام اہتمام کرنے والے مسلمان بھائیوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ پورے سال ہم نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی انکھوں کی ٹھنڈک نماز کا کتنا اہتمام کرتے ہیں؟
    پورے سال حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر کتنے عامل ر ہے ہیں؟
    یہ اہتمام کرنے والے مسلمان بھائی پورے سال ٹی وی کیبل سے کتنا اجتناب کرتے ہیں؟
    پورے سال کتنے حقوق العباد پورے کرتے ہیں؟
    یقینا بہت کم مسلمان بھائیوں کے پاس ان سوالات کے جوابات موجود ہوں گے۔
    یہ کیسی محبت کا دعوی ہے ،کہ ہم سارا سال نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں ٹھنڈک (نماز)کا اہتمام نہ کریں لیکن 12 ربیع الاول پرصرف جھنڈے، جھنڈیاں ،رنگ برنگی لائیٹیں لگا کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عاشق بن جانے کا دعوی کریں؟
    سارے سال حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو نظر انداز کر کے حقوق العباد اداد نہ کریں،ٹی وی کیبل دیکھیں اور سال میں ایک دفعہ لنگر اور سبیلیں لگا کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے دار بن جائیں؟
    یہ کیسی محبت ہے ؟
    ایک بیٹا اپنے باپ سے کہتا ہے کہ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں ۔
    باپ کہتا ہے بیٹا مجھے بھوک اور پیاس لگ رہی ہے مجھے کچھ کھانے پینے کے لئے لادو ۔
    بیٹا باپ کو بھوکا پیاسا چھوڑ کر ، مگر پورے محلے میں اپنے باپ کے نام سے لنگر کرواتا ہے ،پانی اور شربت کی سبیلیں لگواتا ہے۔تاکہ سارے محلے کو پتہ چل جائے کہ ےہ بیٹااپنے باپ سے کتنی محبت کرتا ہے ؟
    باپ کہتا ہے کہ بیٹا میرے کپڑے پھٹ گئے ہیں ،میرے لئے کپڑے لادو ۔
    لیکن بیٹاباپ کو پھٹے پرانے کپڑوں میں چھوڑ کراپنے باپ کی سالگرہ پر پورا گھر سجاتا ہے ،اور پورا محلہ جھنڈیوں سے بھردیتا ہے،اپنے باپ کے نام کے جھنڈے پورے محلے میں لگوادیتا ہے تاکہ پورا محلہ دیکھے کہ یہ بیٹا اپنے باپ سے کتنی محبت کرتا ہے؟
    باپ یہ کہے بیٹا میرا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے ،میرے پیر دبا دو یا میرے لئے دوائی لا دو ۔
    لیکن باپ کے بار بار یاد دہانی کے باوجود،باپ کو درد تڑپتا دیکھنے کے باوجود ،بجائے باپ کے لئے دوائی کا انتظام کرتا،باپ کے ہاتھ پیر دباتا۔لیکن اپنے باپ کی سالگرہ پراسٹیج پرپورے محلہ کے سامنے اپنے باپ کی محبت میں ایسی تقریر کرتا ہے کہ سارے محلے کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹا ہو تو ایسا؟
    ہمیں اپنا اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارا حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی ایسا ہی تو نہیں ؟
    ایک طرف ہم ”زبانی “ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے دار ہیں۔
    تودوسری طرف ہماری زندگیاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی فرما برداری سے خالی ہیں؟
    یقیناحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی کے موقعہ پر لوگوں کے یہ اہتمام کرنااللہ تعالیٰ کی رضا اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خوشی کے لئے ہوتے ہیں۔
    ایک طرف ہم اپنے گھر میں کسی کی بھی خوشی مناتے وقت اس کی خوشی کا خیال رکھتے ہیں ۔۔۔اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے جس کی خوشی منائی جارہی ہے ۔
    لیکن دوسری طرف ہم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ہی تعلیمات کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے مطابق خوشیاں مناتے ہیں۔
    آخرہم یہ سب کر کے کس کو دکھاتے ہیں ؟ کس کو خوش کرنا چاہتے ہیں؟
    اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا کردیا ؟
    میرے مسلمان بھائیوں دوستو اور بزرگو!
    دنیا میں کسی سے محبت کے زبانی دعوے کرنے کا اعلان آسان ہوتا ہے
    لیکن دنیا کی نظروں سے اوجھل اپنے محبوب کی اطاعت مشکل ہوتی ہے۔
    اپنا مال ظاہری نمود و نمائش کے لئے خرچ کرنا آسان ہوتا ہے
    لیکن اس مال کو سب سے چھپا کراپنے محبوب کی رضا کے لئے خرچ کرنا مشکل ہوتا ہے
    اگر آپ لوگ پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی پر یہ تمام اہتمام اسلام کے اصولوں کے مطابق ہیں تو آپ نیچے بیان کئے ہوئے طریقے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنااپنامحاسبہ کر سکتے ہیں کہ آپ کا یہ عمل درست ہے یا نہیں ۔آپ کو جو جواب ملے آپ اس کو اپنالیجیے۔
    ہمیں ہر ایک اسلامی حکم کو پورا کرنے میں ہمارے نفس کوایک مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے۔
    جیسے فجر کی نماز کے وقت نیند سے اٹھنے میں.......یا نماز کے دوران اپنی تمام توجہ نماز پر مرکوز کرنے میں....یا دعا مانگتے وقت اپنی توجہ رب کریم کی طرف رکھنے میں ........یا سجدے میں سر رکھ کر سچی توبہ کرنے میں......یا روزے کی حالت میں سارے دن اپنے غصے کو قابو کرنے میں اور سارے دن جھوٹ ،دھوکہ اور غلط کاموں سے بچنے میں...... یا کبھی کسی کمزور کو اپنے سامنے بے بس پاتے ہوئے صرف اس لئے کہ ہمارے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کمزور پر ظلم اور زیاتی کو منع فرمایا ہے صرف یہ سوچ کر اپنے سے کمزور یا اپنے ماتحت سے غصے پر قابو کرکے اچھا سلوک کرنے میں نفس کی جو کیفیات ہوتی ہیں ،ہم جن مشکلات سے گذرتے ہیں اگر آپ سب کو حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ولادت کی خوشی پر یہ سب اہتمام کرنے میں ایسی ہی کیفیات ہوتی ہیں یا آپ کا نفس ایسی ہی مشکلات سے گزرتا ہے توآپ سب کو مبارک ہو کہ آپ لوگ شیطان کو اپنا سر پیٹنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اور آپ کے ان اہتمام سے اللہ تعالیٰ اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں۔
    کیوں کہ یہ بہت آسان سی بات ہے کہ جتنے بڑے اجر و ثواب کا خالص شرعی حکم ہوتا ہے ،شیطان کی اتنی ہی بھر پور محنت ہوتی ہے امت کو اس حکم کو پورا کرنے سے روکنے کے لئے جس کا احساس ہر مسلمان کر سکتا ہے اور جب مسلمان اس شرعی حکم کو پورا کرتا ہے تو پھر شیطان نہ صرف اپنا سر پیٹتا ہے بلکہ غمگین اور اداس ہوجاتا ہے ۔
    لیکن اگر آپ لوگوں کو ان تمام اہتمام کے لئے ایسی کوئی کیفیات نہیں ہوتیں ،آپ کے نفس کو ایسی کوئی مشکلات نہیں پیش آتیں تو پھر یہ بڑی فکر کی بات ہے ۔
    ہمارا حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی اس وقت تک ادھورا ہے جب تک ہم اپنے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عامل نہیں بن جاتے۔
    عشق اور محبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اپنی ذاتی پسند نا پسندکو بالائے طاق رکھ کر ،اپنی ذات کو بھلا کرجی جان سے اپنے محبوب کی اطاعت کی جائے، محبوب کو راضی اور خوش کیا جائے۔
    پھر محبوب کے ہر حکم کی اطاعت میں سچے عشق کی جھلک ہوگی جویقینا کسی دعوے کی محتاج نہیں ہوگی ۔
    یاد رکھیے! گلاب کو کبھی بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ میں گلاب ہوں بلکہ گلاب اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔

    اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اتباع کی توفیق عطاءفرمائے۔آمین ثمہ آمین​
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    اِہتمامِ چراغاں


    جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات میں اِجتماعاتِ ذکر اور محافلِ نعت کا اِنعقاد اَدب و اِحترام اور جوش و جذبے سے کیا جاتا ہے۔ شبِ ولادت چراغاں کا اِہتمام جشنِ میلاد کا ایک اور ایمان اَفروز پہلو ہے۔ عمارتوں اور شاہراہوں کو رنگا رنگ روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر علم و آگہی کے اُجالوں میں لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نورِ اِلٰہی کا مظہر اَتم ہے۔ لہٰذا دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشیاں منانے کے لیے بساطِ زندگی کو رنگ و نور سے سجایاجاتا ہے۔ ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ کیا اَوائل دورِ اسلام میں بھی اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ دِقتِ نظر سے دیکھا جائے تو یہ عمل ثقہ روایات کے مطابق خود ربِ ذوالجلال کی سنت ہے۔

    1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت عبد اللہ ثقفیہ رضی اﷲ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تھیں۔ آپ شبِ ولادت کی بابت فرماتی ہیں :

    فما ولدته خرج منها نور أضاء له البيت الذي نحن فيه والدّار، فما شيء أنظر إليه إلا نور.

    ’’پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ کے جسمِ اَطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘

    1. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 147، 186، رقم : 355، 457
    2. شيباني، الآحاد والمثاني : 631، رقم : 1094
    3. ماوردي، أعلام النبوة : 247
    4. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
    5. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 111
    6. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
    7. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 247
    8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 79
    9. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
    10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264
    11. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 220
    12. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
    13. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583

    2۔ حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا سے ایک روایت یوں مروی ہے :

    إني رأيت حين ولدته أنه خرج مني نور أضاء ت منه قصور بصري من أرض الشام.

    ’’جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ بے شک مجھ سے ایسا نور نکلا جس کی ضیاء پاشیوں سے سر زمینِ شام میں بصرہ کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘

    1. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 214، رقم : 545
    2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 313، رقم : 6404
    3. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 318
    4. دارمي، السنن، 1 : 20، رقم : 13
    5. شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 56، رقم : 1369
    6. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 397، رقم : 2446
    7. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 673، رقم : 4230

    8۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے، اور احمد کی بیان کردہ روایت کی اسناد حسن ہیں۔

    9. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، رقم : 2093
    10. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 102
    11. ابن إسحاق، السيرة النبوية، 1 : 97، 103
    12. ابن هشام، السيرة النبوية : 160
    13. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 455
    14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 171، 172
    15. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 466
    16. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
    17. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 275
    18. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 78
    19. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 83
    20. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46
    اُتر آئے ستارے قمقے بن کر

    اِنسان جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں، قمقے جلاتے ہیں، اپنے گھروں، محلوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین و منور کرتے ہیں، لیکن وہ خالقِ کائنات جس کی بساط میں شرق و غرب ہے اُس نے جب چاہا کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر چراغاں کروں تو نہ صرف شرق تا غرب زمین کو منور کر دیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اِس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔

    حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت عبد اﷲ ثقیفہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :

    حضرت ولادة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فرأيت البيت حين وضع قد امتلأ نوراً، ورأيت النجوم تدنو حتي ظننت أنها ستقع عليّ.

    ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں مجھ پر نہ گر پڑیں۔‘‘

    1. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 1 : 278، 279
    2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 459
    3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
    4. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
    5. بيهقي، دلائل النبوة، 1 : 111
    6. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 2 : 247
    7. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
    8. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 40
    9. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 94
    10. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 25
    جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر مکہ مکرّمہ میں چراغاں

    مکہ مکرمہ نہایت برکتوں والا شہر ہے۔ وہاں بیت اللہ بھی ہے اور مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اس شہر کی قسمیں کھاتا ہے۔ اہلِ مکہ کے لیے مکی ہونا ایک اعزاز ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اہلِ مکہ ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے۔ اَئمہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند روایات درج ذیل ہیں :

    اِمام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں :

    وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة الشافعي يتهيّ. أ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بأزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذکر آنفاً بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلّون العشاء وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم علماً بذلک.

    ’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہلِ مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ۔ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘

    ابن ظهيرة، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف : 201، 202

    علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

    يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفاً في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذّن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرّقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.

    ’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘

    قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355، 356

    اِس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ خوشی کے موقع پر چراغاں کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ میلاد سے بڑھ کر خوشی کا موقع کون سا ہوسکتا ہے! لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بحث و نزاع میں پڑنے کی بجائے سنتِ اِلٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مکہ کے طریق پر جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر حسبِ اِستطاعت چراغاں کا اِہتمام کریں۔

    اہتمام چراغاں
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    اِہتمامِ چراغاں


    جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات میں اِجتماعاتِ ذکر اور محافلِ نعت کا اِنعقاد اَدب و اِحترام اور جوش و جذبے سے کیا جاتا ہے۔ شبِ ولادت چراغاں کا اِہتمام جشنِ میلاد کا ایک اور ایمان اَفروز پہلو ہے۔ عمارتوں اور شاہراہوں کو رنگا رنگ روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر علم و آگہی کے اُجالوں میں لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نورِ اِلٰہی کا مظہر اَتم ہے۔ لہٰذا دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشیاں منانے کے لیے بساطِ زندگی کو رنگ و نور سے سجایاجاتا ہے۔ ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ کیا اَوائل دورِ اسلام میں بھی اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ دِقتِ نظر سے دیکھا جائے تو یہ عمل ثقہ روایات کے مطابق خود ربِ ذوالجلال کی سنت ہے۔

    1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت عبد اللہ ثقفیہ رضی اﷲ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تھیں۔ آپ شبِ ولادت کی بابت فرماتی ہیں :

    فما ولدته خرج منها نور أضاء له البيت الذي نحن فيه والدّار، فما شيء أنظر إليه إلا نور.

    ’’پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ کے جسمِ اَطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘

    1. طبراني، المعجم الکبير، 25 : 147، 186، رقم : 355، 457
    2. شيباني، الآحاد والمثاني : 631، رقم : 1094
    3. ماوردي، أعلام النبوة : 247
    4. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
    5. بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 111
    6. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
    7. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الأمم والملوک، 2 : 247
    8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 79
    9. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
    10. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 264
    11. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 8 : 220
    12. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
    13. عسقلاني، فتح الباري، 6 : 583

    2۔ حضرت آمنہ رضی اﷲ عنہا سے ایک روایت یوں مروی ہے :

    إني رأيت حين ولدته أنه خرج مني نور أضاء ت منه قصور بصري من أرض الشام.

    ’’جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ بے شک مجھ سے ایسا نور نکلا جس کی ضیاء پاشیوں سے سر زمینِ شام میں بصرہ کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘

    1. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 214، رقم : 545
    2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 313، رقم : 6404
    3. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 318
    4. دارمي، السنن، 1 : 20، رقم : 13
    5. شيباني، الآحاد والمثاني، 3 : 56، رقم : 1369
    6. شيباني، الآحاد والمثاني، 4 : 397، رقم : 2446
    7. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 2 : 673، رقم : 4230

    8۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 : 222)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے، اور احمد کی بیان کردہ روایت کی اسناد حسن ہیں۔

    9. هيثمي، موارد الظمآن إلي زوائد ابن حبان : 512، رقم : 2093
    10. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 102
    11. ابن إسحاق، السيرة النبوية، 1 : 97، 103
    12. ابن هشام، السيرة النبوية : 160
    13. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 455
    14. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 1 : 171، 172
    15. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 3 : 466
    16. ابن عساکر، السيرة النبوية، 3 : 46
    17. ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 275
    18. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 78
    19. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 83
    20. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 46
    اُتر آئے ستارے قمقے بن کر

    اِنسان جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں، قمقے جلاتے ہیں، اپنے گھروں، محلوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین و منور کرتے ہیں، لیکن وہ خالقِ کائنات جس کی بساط میں شرق و غرب ہے اُس نے جب چاہا کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر چراغاں کروں تو نہ صرف شرق تا غرب زمین کو منور کر دیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اِس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔

    حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت عبد اﷲ ثقیفہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں :

    حضرت ولادة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فرأيت البيت حين وضع قد امتلأ نوراً، ورأيت النجوم تدنو حتي ظننت أنها ستقع عليّ.

    ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں مجھ پر نہ گر پڑیں۔‘‘

    1. سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 1 : 278، 279
    2. ابن أثير، الکامل في التاريخ، 1 : 459
    3. طبري، تاريخ الأمم والملوک، 1 : 454
    4. أبو نعيم، دلائل النبوة : 135، رقم : 76
    5. بيهقي، دلائل النبوة، 1 : 111
    6. ابن جوزي، المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، 2 : 247
    7. ابن رجب حنبلي، لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف : 173
    8. سيوطي، کفاية الطالب اللبيب في خصائص الحبيب، 1 : 40
    9. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 94
    10. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 25
    جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر مکہ مکرّمہ میں چراغاں

    مکہ مکرمہ نہایت برکتوں والا شہر ہے۔ وہاں بیت اللہ بھی ہے اور مولد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اس شہر کی قسمیں کھاتا ہے۔ اہلِ مکہ کے لیے مکی ہونا ایک اعزاز ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اہلِ مکہ ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے۔ اَئمہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند روایات درج ذیل ہیں :

    اِمام محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں :

    وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة الشافعي يتهيّ. أ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بأزاء قبة الفراشين، ويدعو الداعي لمن ذکر آنفاً بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلّون العشاء وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم علماً بذلک.

    ’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہلِ مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ۔ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘

    ابن ظهيرة، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف : 201، 202

    علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

    يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفاً في وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ الفراشين خلعة. ثم يؤذّن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرّقون. وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.

    ’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘

    قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355، 356

    اِس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ خوشی کے موقع پر چراغاں کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ میلاد سے بڑھ کر خوشی کا موقع کون سا ہوسکتا ہے! لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بحث و نزاع میں پڑنے کی بجائے سنتِ اِلٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مکہ کے طریق پر جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر حسبِ اِستطاعت چراغاں کا اِہتمام کریں۔

    اہتمام چراغاں
     
  4. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    ھارون بھائی شاید آپ نے ہمارا مضمون تسلی سے نہیں پڑھا ۔۔۔یا آپ ہمارے مضمون کا مقصد نہ سمجھ سکے ۔۔۔۔ براہ مہربانی ایک دفعہ پھر ہمارا مضمون تسلی سے مطالعہ فرمالیں ۔جزاک اللہ
    باقی چراغاں کے حوالے سے آپ کی وضاحت سے سلسلہ میں محض ہماری اتنی عرض ہے کہ کیا یہ چراغاں دسویں صدی ہجری میں جا کر لوگوں‌کو سمجھ آیا ؟؟؟
    اس سے قبل کےعلماء، فقہاء ،ائمہ ،محدثین اور سب سے بڑھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کرام رحمھم اللہ اور تبع تابعین کرام وغیرہم (اُن روایتوں کو جو آپ نے پیش فرمائیں) نہیں سمجھ سکے ؟؟؟
    اگر تو اس سے قبل کے مسلمانوں کو بھی (بالخصوص صحابہ اور تابعین کرام اور تبع تابعین کرام )یہ چراغاں سمجھ آیا تھا اور ان تمام حضرات میں سے کسی نے چراغاں کیا تھا ۔۔۔۔تو براہ مہربانی وضاحت فرمادیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ؟؟؟
    جزاک اللہ
     
  5. جیلانی
    آف لائن

    جیلانی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 ستمبر 2011
    پیغامات:
    72
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    [font=&quot]قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ[/font][font=&quot]۝۵۸[/font][font=&quot][/font]​
    [font=&quot](سورۃ یونس[/font][font=&quot].[/font][font=&quot] آیت [/font][font=&quot]58 [/font][font=&quot])[/font][font=&quot][/font]​
    [font=&quot] [/font]​
    [font=&quot]ترجمہ؛[/font][font=&quot]تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں[/font][font=&quot] ،[/font][font=&quot]وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے[/font][font=&quot][/font]​
    [font=&quot] [/font]​
    [font=&quot]درس :[/font][font=&quot]اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالٰی کی عطا کردہ نعمت کا چرچا کرنے اور اس پر خوشی منانے کا واضح حکم موجود ہے۔[/font][font=&quot][/font]​
    [font=&quot]یاد رہے خدا تعالیٰ کی بے مثال، یکتا ، لاثانی ،بے مثل نعمتِ عظمٰی حضرت محمد مصطفٰے [/font][font=&quot]ﷺ [/font][font=&quot]ہیں۔ میلاد مصطفٰے [/font][font=&quot]ﷺ [/font][font=&quot]منانے کا جو انکار کرتے ہیں ۔۔۔۔وہ اس آیت کی روشنی میں اپنی اصلاح کریں۔[/font][font=&quot][/font]​
     
  6. جیلانی
    آف لائن

    جیلانی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 ستمبر 2011
    پیغامات:
    72
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝۵۸
    (سورۃ یونس. آیت 58 )

    ترجمہ؛
    تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں ،وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے

    اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کا چرچا کرنے اور اس پر خوشی منانے کا واضح حکم موجود ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اور دیگر جملہ مشائخ و علمائے اہلسنت اس کی وضاحت میں یہی فرماتے ہیں کہ یہ محبت عمل سے بھی ظاہر ہو ،قول سے بھی ،چراغاں کرکے ، کھانا کھلا کر، ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرکے ،بیماروں کی عیادت کرکے ،دکھیاروں کے دکھ دور کرکے ،سرکار کی نعتیں سنا کر احادیث بیان کرکے قرآن پڑھ کر،


    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں :


    ليس في الحلال اسراف، وإنما السرف في إرتکاب المعاصي.


    1 ۔ شربيني، مغني المحتاج إلي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 1 : 393
    2
    ۔ دمياطي، إعانة الطالبين، 2 : 157



    حلال میں کوئی اِسراف نہیں، اِسراف صرف نافرمانی کے اِرتکاب میں ہے۔


    حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :


    الحلال لا يحتمل السرف


    حلال کام میں اِسراف کا اِحتمال نہیں ہوتا۔


    1۔ ابو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 6 : 382
    2
    ۔ شربيني، مغني المحتاج إلي معرفة معاني ألفاظ المنهاج، 1 : 393
    3
    ۔ دمياطي، إعانة الطالبين، 2 : 157


    مذکورہ اَقوال سے واضح ہوتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جتنا بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور خرچ کیا جائےجیسے جشن ولادت پر جو لوگ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں رنگ برنگی لائٹیں،جگہ جگہ جھنڈے،جھنڈیاں اور لنگر ،سبیلیں وغیرہ وغیرہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں یہ سب اسی کا حصہ ہیں ۔ اُس کا شمار اِسراف میں نہیں ہوتا۔

    یہاں یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ بعض لوگ وضو اور پانی کی مثال دیتے ہیں
    یہ مثال وضو کے لیے یا اسی طرح کے مصارف کے لیے تو درست ہے بالکل جیسے بے حیائی کا پروگرام ہو تو دف﴿ڈھول﴾ بجانا ناجائز اور اگر جائز پروگرام ہو جیسے شادی تو اس خوشی کے موقع پر جائز ،جنگ کے موقع پر اعلان کے لیے جائز ، کبھ لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے تو قافلے والوں کی آگاہی کے لیے جرس ﴿گھنٹی﴾اور ڈھول بجائے جاتے تھے یہ سب جواز کی صورتیں ہیں۔

    یاد رہے خدا تعالیٰ کی بے مثال، یکتا ، لاثانی ،بے مثل نعمتِ عظمٰی حضرت محمد مصطفٰے ہیں۔ میلاد مصطفٰے منانے کا جو انکار کرتے ہیں ۔۔۔۔وہ اس آیت کی روشنی میں اپنی اصلاح کریں۔
     
  7. آصف 26
    آف لائن

    آصف 26 ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    59
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    اسلا م علیکم ھارون بھائی اور جیلانی بھائی نے اچھا جواب دیا میں تو صرف یہی کہون گا نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں
     
  8. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔:dilphool::91:

    جناب ناصر نعمان صاحب نے اپنی تحریر میں جو چند نکات بیان کئے ہیں ، انمیں سے کچھ بھی نیا نہیں ، بلکہ وہی رٹے رٹائے فقرے ہیں جن کی گردان اس مکتب فکر کے حاملین اکثر جپتے نظر آتے ہیں۔ ان سب نقاط کا شافی جواب بارہا مختلف مواقع پر دیا جاچکا ہے اور خود اس فورم میں بھی ڈسکس ہوچکا ہے [تفصیلی علمی دلائل کیلئے نیچے دیے گئے حوالہ جات دیکھئے] ، مگر یہ لوگ اپنے خودساختہ فہم دین کو ہی اصلِ دین قرار دینے پر مصر رہتے ہیں اور اسی زعم میں اپنے باطل نظریات کو امت مسلمہ کے سواد اعظم پر زبردستی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ دلیل سے سمجھنے والے ہوتے تو "میں نہ مانوں" کی گردان ترک کردیتے۔

    بالکل ، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے غلاموں کیلئے تو ربیع الاول کا مہینہ واقعی "ربیع" یعنی بہار کا پیغام لاتا ہے ، مگر جن کے دلوں میں مرض ہے ، انکو "بہار" سے کیا سروکار؟
    نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
    سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں​

    1۔ کیا میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دن اور اس حوالے سے ہونے والی ہر تقریب کا آغاز اللہ عزوجل کے پاک ذکر سے نہیں ہوتا؟ جب یہ سب محافل اور تقریبات اللہ عزو جل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک روح پرور اذکار سے پُر ہوتی ہیں، تو پھر اس پر اعتراض ، چہ معنی دارد؟
    2۔ کیا محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہزاروں غریب مسلمانوں کو مفت کھانا میسر نہیں آتا؟ کیا اس طرح سے امتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غریبوں کو عملی طور سے اس خوشی میں شریک نہیں کیا جاتا؟ قرآن کریم میں اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
    کیا محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سی حسنات کے ساتھ ساتھ اللہ کریم کے اس فرمان کی تعمیل سے عبارت نہیں ہوتیں؟ اگر خود انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق نہیں ، تو جو مسلمان اس کارخیر کو انجام دیتے ہیں ان پر اعتراض ، چہ معنی دارد؟

    سبحان اللہ ، کیا استدلال ہے۔ آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر خوشی منانے سے یہ کہاں اور کیسے لازم آتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہ کی جائے ؟

    عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ منکرین جشن میلاد اکثر اس زعم باطل کا شکار رہتے ہیں کہ وہ اور انکے ہم نوا ہی صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ہیں اور اس بات کا اظہار بڑے شد ومد کے ساتھ کرتے ہیں کہ انکے مکتب فکر سے ہٹ کر باقی سب مسلمان اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہیں ، حالانکہ انکا یہ دعویٰ باطل اور مبنی بر تکبر ہے ، کیونکہ میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی منانے سے تو محبت و اطاعتِ رسول اور نصرت دین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات کو جلا ملتی ہے جوکہ استحکام ایمان کا ذریعہ ہے۔ اگر بعض لوگ جشن میلاد منانے کے باوجود اطاعت کے راستے پر نہ چلیں تو اس سے یہ استدلال ہرگز درست نہیں کہ جشن میلاد کے مبارک عمل کو ہی برا کہا جائے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ قرآن کریم میں آتا ہے :
    إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ - بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے،
    اب کوئی شخص نماز پڑھنے کے باوجود برے کاموں سے نہ رکتا ہو تو ہم اسکو برے کاموں سے روکنے کی بجائے نماز ہی سے روکنا شروع کردیں۔

    سچ بات یہ ہے کہ مذکورہ فکر کے اکثر پیروکار ، الا ماشاءاللہ، اپنے اعمال کے بارے میں تکبر میں مبتلا ہیں اور جب کسی فرد یا جماعت کو اپنی عبادات یا طاعات پر گھمنڈ شروع ہوجائے تو درحقیقت یہ ان کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ، مگر اسکا شعور ہوتو تب نا! یہ درست ہے کہ عبادات اور طاعات کی اہمیت اپنی جگہ بجا ہے، مگر ان پر غرور و تکبر شیطان کو بھی لے ڈوبا [جو اپنے زعم میں خود کو سب سے بڑا موحد ، سب سے بڑا عبادت گزار اور سب سے بڑا طاعت گزار سمجھ بیٹھا تھا] اور اسی فکر کے پیروکار خوارج کو بھی جو ظاہری اسلام پر عمل کرنے میں سب سے آگے آگے تھے ، حتی کہ احادیث میں آیا کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بھی فرمایا کہ تم انکے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانوگے۔

    باپ اور بیٹے کی اس مثال کا تجزیہ کرنے سے پہلے اسی سے متعلقہ ایک دوسری مثال ہے ، جسکا ذہن میں رکھنا ، مکمل تصور دین کو درست طور سے سمجھنے کیلئے بہت مفید ہوگا:
    اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک سپاہی اپنے جرنیل کا حکم بلا چون وچرا مانتا چلا جاتا ہے۔ ایک پولیس مین اپنے افسر کا، ہر سرکاری ملازم اپنے سے اوپر کے انچارج کے حکم پر پوری طرح سے عمل پیرا ہوتا ہے، گویا کہ کامل اطاعت کرتا ہے۔ سوال ہے کہ کیا یہ سب کچھ وہ محبت کے جذبے کے تحت کرتا ہے؟ تو سیدھا سادا جواب ہے کہ اس اطاعت میں محبت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ سب ملازمت کی مجبوری سے کیا جاتا ہے۔
    اسکا مطلب ہوا کہ خالی اطاعت تو محبت کے بغیر بھی ممکن ہے۔ تو پھر سچی محبت اور سچی اطاعت کیا ہے؟ تو اسکا سادہ جواب ہے کہ ان دونوں مثالوں کو یکجا کردیں تو حق کی سمجھ آجائے گی۔ یعنی ہمیں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور تعلیمات ، دونوں سے اپنا قلبی تعلق پختہ کرنا ہوگا۔ نہ ہماری محبت رسول ، اطاعت کے بغیر خالی زبانی دعوی ہو اور نہ ہی ہماری اطاعت رسول ، قلبی محبت کے بغیر سرکاری ملازموں کی طرح کی پھیکی اور جذبات سے خالی اطاعت ہو۔
    لہذا جہاں محبت کے زبانی دعویداروں کو سچی محبت کے ثبوت کیلئے ، اپنی زندگیوں میں اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بھرنے کی ضرورت ہے ، وہاں پر آج کے کج فکر نام نہاد موحدین کو بھی اپنے طرز فکر کا محاسبہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ کہیں انکی اطاعت پھیکی ، بے کیف اور حقیقی جذبات محبت سے خالی تو نہیں؟


    اسراف کے حوالے سے شافی جواب اوپر جیلانی بھائی کی پوسٹ میں گزر چکا ہے اور ہارون بھائی نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے ، مگر میں اسی پر کچھ اضافہ کرنا چاہوں گا:
    مشہور عربی مقولہ ہے کہ "لا خیر فی الاسراف" یعنی اسراف میں کوئی خیر نہیں ، مگر ساتھ ہی اسی سے متعلق ایک اور مقولہ ہے کہ "لا اسراف فی الخیر" یعنی خیر کے کام میں کوئی اسراف نہیں۔ اب آپ سمجھ لیجئے کہ جہاں اپنی ذات کے فائدے [یعنی مکان ، خوراک ، لباس ، آرائش ، زیب وزینت وغیرہ ] کی بات آئے تو پہلے مقولے پر عمل ہوگا ، مگر اسکے برعکس جب مخلوق خدا کے فائدے [صدقات ، خیرات ، اطعام المساکین وغیرہ]کی بات آئے تو دوسرے مقولے پر عمل ہوگا۔ یہی اسلام کی سچی تعلیمات کا خلاصہ ہے، جسے محولہ بالا آیت : "لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ ۔ ۔ " میں بیان فرمایا گیا ہے۔
    اب ذرا منکرین کا حال دیکھئے کہ جو فی الواقع اسراف ہے ہی نہیں ، اس پر اسراف کا حکم لگاتے ہیں، مگر اسکے برعکس جو امور فی الواقع اسراف ہیں ، ان پر اسراف کا حکم لگانے سے انکی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ، مثال کیلئے ملاحظہ فرمائیں بعض عرب ممالک میں اسراف کی تصاویر :

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    یہ بچا ہوا کھانا کتنے ہی بھوکوں کی بھوک مٹا سکتا تھا ، مگر اسراف کی نذر ہوگیا - کیا اسکے بارے میں بھی کبھی کسی نام نہاد موحد کا قلم حرکت میں آیا؟

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    ایک طرف تعیشات کے یہ مناظر ہیں اور دوسری طرف غربت و افلاس اور بھوک سے بے حال سسکتی دم توڑتی انسانیت کے یہ دل ہلادینے والے مناظر!

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]


    فاعتبروا یا اولی الابصار !
    حوالہ جات:
    [1] ... حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، اہل بیت اور اولیائے کرام کا جشن میلاد منانے کا کیا حکم ہے؟ - جامعہ الازہر الشریف کا فتویٰ

    [2] ... میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم - از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
    [​IMG]


    [3] ... میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اہم نیوز لیٹر

    [4] ... http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?t=12374
     
  9. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    محترم جناب اکرم بھائی و دیگر صاحبان !
    ہم کوشش کرتے ہیں کہ بحث برائے بحث سے اجتناب کیا جائے۔۔۔کیوں کہ یہ فقط وقت کا ضیاع ہے اور کچھ نہیں
    اگر تو آپ حضرات سمجھتے ہیں کہ آپ حضرات کے پیش کردہ جوابات ہمارے مضمون میں موجود نکات کےتسلی بخش جوابات ہیں
    اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ حضرات کے جوابات میں نے ہمارے درج ذیل سوال کا جواب موجود ہے
    ۔۔۔۔ تو پھر مزید بحث کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کے دلوں میں اپنے موقف کے سوا دوسرے کا موقف سمجھنے کی گنجائش رکھی ہے ۔۔۔وہ حضرات بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ درست بات کیا ہے ۔۔۔ اور اس کے باوجود بھی اگر کسی منصف مزاج دوست کو ان صاحبان کے پیش کردہ جوابات میں کوئی اشکال درپیش ہو ۔۔۔یا کسی دوست کو ہمارے سمجھنے کی کمی کوتاہی نظر آئے تو ایک ایک کرکے مختصرا نشادہی ضرور فرمائیں ۔۔تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں۔جزاک اللہ
    کامیابی اپنے موقف کی جیت میں نہیں بلکہ کامیابی اپنے نفس ،اپنی سوچ اوراپنی ذاتی پسند ناپسند کودین اسلام کے تابع کردینے میں ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
    تسلی بخش جوابات ہیں
     
  10. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    جناب ناصر نعمان صاحب ، السلام علیکم ۔
    میرے بھائی ، آپ نے جو سوالات لکھے تھے ، انکا تسلی بخش جواب بارہا دیا جاچکا ہے ۔ اوپر حوالہ جات موجود ہیں ۔ مزید آپ اس لڑی : جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت کا مطالعہ فرمائیں ، یہاں پر بھی اسی بارے میں سیر حاصل گفتگو کی جاچکی ہے۔ براہ مہربانی اپنے ذہن میں پہلے سے بنے ہوئے تصورات کو تھوڑی دیر ایک طرف رکھ کر دیانتداری کے ساتھ مطالعہ فرمائیں ، تو انشاءاللہ حق آپ پر واضح ہوجائے گا۔

    میرے خیال میں جن نقاط پر ٹھنڈے دل سے آپکو غور کرنے کی ضرورت ہے ، وہ مختصراً درج ذیل ہیں:

    1۔ بدعت کے درست مفہوم کو سمجھیں اور یہ جانیں کہ ہر نیا کام شریعت کی نظر میں مذموم نہیں ہوتا ، بلکہ محمود بھی ہوسکتا ہے۔ حتی کہ بعض ایسے نئے کام جو لغوی اعتبار سے تو بدعت کے تحت آتے ہیں ، مگر عند الشرع نہ صرف محمود بلکہ واجب کے درجے میں بھی آتے ہیں۔ اگر ہم اس بنیادی تصور کو سمجھے بغیر بلا روک ٹوک ہر نئے کام پر بدعت شرعی کا اطلاق کرنا شروع کردیں ، تو پھر ہمارے پاس دین کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا، حتی کہ قرآن کریم کی تلاوت تک ہمارے لئے محال ہوجائے گی ، کیونکہ جس قرآن کریم کی تلاوت خیر القرون میں ہوتی تھی وہ اعراب اور نقطوں سے خالی ہوتا تھا جسے آجکل کے عجمی تو کیا عربی لوگ بھی نہیں پڑھ سکتے ! اگر اس بنیادی تصور کواچھی طرح سمجھ کر ذہن نشین کرلیا جائے تو موضوع سے متعلق باقی تفصیلات کا سمجھنا کچھ مشکل نہ رہے گا ، انشاءاللہ۔

    2۔ آپ نے اس لڑی کا عنوان "سچی محبت" قائم فرمایا تھا ۔ اس بارے میں درج ذیل معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں:

    ہم دیکھتے ہیں کہ آج ہرکوئی رسول کریم [صلی اللہ علیہ وسلم] سے سچی محبت کا دعویدار ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ سچی محبت ہے کیا ؟ اور یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کس کی محبت سچی ہے اور کس کی جھوٹی؟ آئیے اس سوال کا درست جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ محبت ایک اندرونی قلبی کیفیت کا نام ہے ، اور قلبی کیفیات کو اللہ کریم تو دیکھتا ہی ہے ، مگر ہم کیسے دیکھیں؟ کس کو محبت کے دعویٰ میں سچا جانیں اور کس کو جھوٹا؟ اس پر ایک نقطہ نظر تو وہ ہے جسکو آپ نے بھی بیان کیا کہ سچا محب وہی ہے جو متبع سنت و پابند شریعت ہو، بمطابق آیت قرآنی : قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ ۔ بالکل درست ، مگر دوسرے نقطہ نظر کے مطابق ، دیکھنا یہ ہے کہ اس اطاعت اور اتباع کے پیچھے اصل قوّتِ مُحرِّکہ کیا ہے؟ اگر ہم رسول کریم [صلی اللہ علیہ وسلم] کے احکامات کی اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی مطلقاً نقل کرتے چلے جانے کو ہی اصل "اتباع رسول [صلی اللہ علیہ وسلم]" قراردے دیں ، تو اس قاعدے کی رو سے تو سب منافقین اور اعدائے دین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع و متبع اور نتیجتاً اللہ کے محبوب قرار پائیں گے ، کیونکہ یہ سب لوگ اپنے دلوں میں موجود نفاق اور عداوتِ رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] کے باوجود تمام اعمالِ صالحہ مثلاً کلمہ شہادت ، نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، مساجد کی تعمیر حتی کہ جہاد کے معرکوں تک میں شریک ہوتے تھے ، مگر ان کی یہ سب عبادتیں انکو کچھ بھی نفع نہ دے سکیں۔ کیوں؟ احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ آخری زمانے میں ایک بے دین اور گمراہ قوم پیدا ہوگی ۔ سچے اور خالص مسلمان انکی نمازوں کے مقابلہ میں اپنی نمازوں کو حقیر جانیں گے۔ معلوم ہوا کہ دل میں جذباتِ محبت کے بغیر محض اعمال صالحہ نری نقالی کے سوا کچھ بھی مفید نہیں ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اتباع کے درست معنیٰ و مفہوم کو سمجھ کر درست معیارِ محبت تلاش کیا جائے !

    درست معیارِ محبت کیا ہے؟
    اللہ کریم نے قرآن کریم میں فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ فرما کر بتادیا ہے کہ اتباعِ رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] کا لازمی نتیجہ اللہ عز وجل کی محبوبیت ہے ۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ اپنے محبوب مصطفےٰ کریم [صلی اللہ علیہ وسلم] کے کسی دشمن کو اپنا محبوب بنالے؟ پتہ چلا کہ اس آیت مبارکہ میں فَاتَّبِعُونِي کا معنیٰ جذبہ محبت سے خالی محض نقالی نہیں ہے بلکہ فَاتَّبِعُونِي کا درست معنی یہ ہے کہ محبوب خدا کے نشہ محبت میں مخمور ہوکر بتقاضائے محبت ، اس محبوب رسول کریم [صلی اللہ علیہ وسلم] کی اداؤں کے سانچے میں ڈھلتے چلے جاؤ ، تب اللہ عزوجل تمہیں بھی اس سچی قلبی محبت کی بنا پر اپنا محبوب بنا لے گا!

    مگر یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ ٹھیک ہے، ایسے مسلمان کو اللہ اپنا محبوب تو بنالے گا ، مگر ہمیں اسکا پتہ کیسے چلے گا کہ کون شخص سچی محبت کی بنا پر اتباع رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] کر رہا ہے اور کون شخص ، قلبی محبت کے بغیر محض نقالی میں مصروف ہے؟

    اس سوال کا جواب امام بخاری کی کتاب "الادب المفرد" میں منقول اس حدیث صحیح سے ہمیں ملتا ہے : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حبک الشئی یعمی و یصم یعنی جب انسان کو کسی شے سے محبت ہوجاتی ہے تو وہ اسے [محبوب کا عیب دیکھنے سے] اندھا اور [محبوب کا عیب سننے سے] بہرا بنادیتی ہے۔

    اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلا کہ سچی محبت کو جاننے کا درست اور ناقابل تردید معیار یہ ہے کہ مدعی محبت کی آنکھیں اور کان محبوب کے کسی بھی عیب کو دیکھنے اور سننے سے پاک ہوجائیں ، تب ہی اس مدعی کا دعوائے محبت سچا ہو گا۔ اب آئیے اس معیارِ محبت پر دور حاضر کے مختلف گروہوں کو پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی محبوب حقیقی اللہ عزوجل کی شانِ الوہیت میں امکانِ کذب کا عیب لگا رہا ہے ، کوئی محبوب رب العالمین کی شان میں طرح طرح کے عیب لگا رہا ہے [ کہیں سرکار کے کمالات علمی کا انکار کرکے، کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات ، آپ کے خصائص اور بہت سی شانوں کا انکار کرکے]، کوئی محبوبانِ بارگاہ الہی و بارگاہ رسالت [صحابہ و اہل بیت کرام اور اولیائے عظام] کی گستاخی کرکے بالواسطہ طور پر تنقیص رسالت پر کمر بستہ ہے ، کوئی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ وہ مر کر مٹی میں مل گئے ، کوئی کہتا ہے وہ رتبے میں ہمارے بڑے بھائی کی طرح ہیں ، حتی کہ بعض تو کہتے ہیں کہ ان سے بےشمار غلطیاں ہوئیں ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا ، العیاذ باللہ العظیم!

    جب حدیث رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] سے یہ بات متحقق ہوگئی کہ اہل محبت کو محبوب کی ذات میں نہ کوئی عیب نظر آتا ہے اور نہ ہی انکے کان محبوب کے عیب سن سکتے ہیں، تو جس گروہ کا وطیرہ ہی یہ ہوکہ قرآن و حدیث اور عقلی و نقلی دلائل سے محبوب کے عیب تلاش کرنے ہی پر شب وروز کمربستہ رہیں ، تو عقل سلیم ایسے لوگوں کو دعوائے محبت میں کیونکر سچا مان سکتی ہے؟ شاعر دربار رسالت ، صحابی رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] نے کیا خوب نعت لکھی ہے ، سن کر دل محبت رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] سے مہک مہک اٹھتا ہے :

    وَ اََحسَنُ مِنكَ لَم تَرَ قَطُّ عينى
    وَ اَجمَلُ مِنكَ لَم تَلِدِ النِسَاءُ
    خُلِقتَ مُبَراً مِّن كُلِّ عَيبٍ
    كَاَنَّكَ قَد خُلِقتَ كمَا تَشَاءُ
    اے اللہ ، ہم سب کو حق سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرما ، آمین!

    ضروری گزارش
    یہاں پر میں اس معزز فورم کے سب اراکین کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی نئی لڑی شروع کرنے سے پہلے ذرا دیکھ لیا کریں کہ کہیں اس موضوع پر پہلے سے لڑی موجود تو نہیں ہے۔ اگر موجود ہو تو ، پھرنئی لڑی شروع کرنے کی بجائے پہلے سے موجود لڑی میں ہی ، اپنی بات کو بیان کیا جائے ۔ اگر ہم سب اس بات کی پابندی کریں تو اپنے قیمتی وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاسکتے ہیں بلکہ اس طرح تمام ابحاث کو زیادہ جامع ، مربوط اور قابل فہم بنایا جاسکتا ہے۔ فورم کے ایڈمن سے بھی میری گزارش ہے کہ اس امر کی پابندی یقینی بنائی جائے۔ شکریہ، والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
     
  11. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    محمد اکرم بھائی اللہ کریم آپ کے علم و عقل میں توسظ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اضافہ فرمائیں
     
  12. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سچی محبت کا تقاضہ !!!

    محترم جناب اکرم بھائی آپ کا یہ جواب بھی واضح طور پر عکاسی کررہا ہے کہ یا تو آپ ابھی تک ہمارا مضمون پڑھ نہ سکے یا کم از کم آپ سمجھ نہ سکے
    آپ آسانی کے لئے میلاد منانے والوں کو دوحصوں میں تقسیم کرلیں
    ایک تو وہ لوگ جن کی زندگیاں رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے بالکل خالی ہیں ...فرائض میں شدید کوتاہیاں ہیں....سارا سال کیبل ڈش ،ناچ گانے کیبل وغیرہ میں گذارتے ہیں
    کیا آپ کے نزدیک ایسے لوگوں کاسال میں ایک بار جھنڈے ،جھنڈیاں ،لائٹیں لگا کر حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق ادا ہوجاتا ہے ؟؟؟
    یعنی حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے احکامات میں شدید کوتاہیاں کریں .... اور دعوی کریں عاشق رسول ہونے کا ؟؟
    کیا اسی کو کہتے ہیں سچی محبت ؟؟؟
    اور دوسرا طبقہ آپ وہ لے لیں جو کسی نہ کسی حد تک سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پابند ہیں اور فرائض کی ادائگیاں بھی کرتے ہیں ...اور وہ لوگ اس طرح 12 ربیع الاول کو جلسے جلوس لائیٹیں ،جھنڈے جھنڈیاں لگا کر اپنے عشق کا اظہار کرتے ہیں...تو کیا ان کا یہ عمل درست ہے ؟؟؟
    تو اس طبقہ کی غلطی کی نشادہی کے لئے ہم نے آپ سے ایک سوال کیا ...جس کا جواب آپ اپنی اس پوسٹ میں بھی نہ دے سکے ؟؟...ہم نے لکھا تھا کہ :
    باقی چراغاں کے حوالے سے آپ کی وضاحت سے سلسلہ میں محض ہماری اتنی عرض ہے کہ کیا یہ چراغاں دسویں صدی ہجری میں جا کر لوگوں‌کو سمجھ آیا ؟؟؟
    اس سے قبل کےعلماء، فقہاء ،ائمہ ،محدثین اور سب سے بڑھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین کرام رحمھم اللہ اور تبع تابعین کرام وغیرہم (اُن روایتوں کو جو آپ نے پیش فرمائیں) نہیں سمجھ سکے ؟؟؟
    اگر تو اس سے قبل کے مسلمانوں کو بھی (بالخصوص صحابہ اور تابعین کرام اور تبع تابعین کرام )12 ربیع الاول کا یہ چراغاں سمجھ آیا تھا اور ان تمام حضرات میں سے کسی نے چراغاں کیا تھا ۔۔۔۔تو براہ مہربانی وضاحت فرمادیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ؟؟؟جزاک اللہ

    باقی آپ کا بدعت کے حوالے سے قرآن شریف پر اعراب اور نقطے لگانے، تدوین فقہاور اصول فقہ،کتب احادیث بشمول صحاح ستہ بخاری مسلم سمیت دیگر مجموعات کی تدوین وغیرہ کی مثالیں دینا دراصل بدعت کے مفہوم کو نہ سمجھنے کے سبب ہے ..... ہم نے ایک دوسرے دھاگہ میں بھی عرض کیا تھا کہ
    "بدعت اُس کو کہتے ہیں جس چیز کا محرک اور داعیہ اور سبب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں موجود تھا مگر وہ دینی کام آپ نے نہیں کیا اور حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کرام نے بھی باوجود کمال عشق و محبت اور محرکات و اسباب کے نہیں کیا تو وہ کام بدعت کہلائے گا"
    مسئلہ کی تفصیل سمجھنے کے لئے درج ذیل لنک پر مراسلہ نمبر 15 کا مطالعہ فرمائیں ...
    http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?p=437190#post437190
    اس کے بعد بھی کوئی اشکال رہتا ہو تو ضرور واضح فرمائیں .... یا ہماری غلطیوں کی نشادہی فرمائیں تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں. جزاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں