1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏16 جنوری 2012۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شرک کے فتوے لگانے والا خود مشرک ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    [​IMG]

    اللہ پاک ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے اور حق و باطل میں امتیاز کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    اللہ کریم سب کو ہدایت عطا فرمائیں
    آمین
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    اُمتِ مسلمہ کے خصائص میں سے ایک یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس کے لئے یہ خوشخبری دی ہے کہ اُمت مسلمہ کی اصل آزمائش مال و زر کی حرص و ہوس سے ہو گی لیکن یہ شرک میں مبتلا نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ باقی بگاڑ اور نقائص اپنی جگہ گھمبیر کیوں نہ ہوں مجموعی طور پر اُمت مسلمہ شرک سے محفوظ ہے۔

    حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

    صَلّٰي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي قَتْلٰي اُحُدٍ. ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ کَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَآءِ وَ الْأَمْوَاتِ. فَقَالَ : اِنِّيْ فَرَطُکُمْ عَلَي الْحَوْضِ. وَاِنَّ عَرْضَه کَمَا بَيْنَ اَيْلَةَ اِلَي الْجُحْفَةِ. اِنِّيْ لَسْتُ اَخْشٰي عَلَيْکُمْ اَنْ تُشْرِکُوْا بَعْدِيْ. وَلٰکِنِّيْ أَخْشٰي عَلَيْکُمُ الدُّنْيَا اَنْ تَنَافَسُوْا فِيْهَا، وَتَقْتَتِلُوْا فَتَهْلِکُوْا، کَمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ. ۔۔۔قَالَ عُقْبَةُ : فَکَانَتْ اٰخِرَ مَا رَاَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي الْمِنْبَرِ.

    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداء اُحد کی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر آپ نے مبنر پر رونق افروز ہو کر اس طرح نصیحت فرمائی جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو نصحیت کر رہا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا اور اس حوض کا عرض اتنا ہے جتنا مقام اَیلہ سے لے کر جحفہ تک کا فاصلہ ہے، مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ تو نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے لیکن مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ ہے کہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے اور ایک دوسرے سے لڑ کر ہلاک ہو گے۔‘‘
    مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم و صفاته، 4 : 1796، رقم : 2296
    ’’حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری بار منبر پر دیکھا تھا۔‘‘

    یہ بات ذہن نشین رکھنے والی ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر معروف صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی یہ حدیث دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری خطبہ کی روایت ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی خطبہ، کوئی باقاعدہ وعظ اور خطاب منبر پر نہیں فرمایا۔ اس اعتبار سے یہ روایت اور بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے اور اس میں بیان کیے گئے مضامین کی حجیت مزید مسلم ہو جاتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے شرک میں مبتلا ہونے کا خدشہ ظاہر نہیں فرمایا، اس کا معنی یہ ہر گز نہیں کہ کوئی فرد شرک نہیں کرے گا بلکہ من حیث الکل شرک جیسے ظلمِ عظیم سے امت محفوظ رہے گی۔
     
  4. ایس کاشف
    آف لائن

    ایس کاشف ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    جزاک اللہ نعیم بھائ
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
  6. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    بہت اچھی بات آپ نے کی اللہ آپکو جزا دے آمین
     
  7. جیلانی
    آف لائن

    جیلانی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 ستمبر 2011
    پیغامات:
    72
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    محمد نعیم جزاک اللہ خیراً ۔۔۔۔۔۔ اب اس حدیث پر وہ لوگ خصوصی طور پر غور کریں ، سبق حاصل کریں اور عمل بھی کریں اور تمام درس چھوڑ کر اس ایک حدیث کا درس دیں تاکہ اسلام اور اہل اسلام کو جو نقصان ان کی وجہ سے ہوا ہے اس کا اللہ کرے کچھ مداوا ہو ۔

     
  8. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    کچھ لوگوں نے دین کو گھر کی لونڈی بنا لیا ہے
    خُدا ہمیں محفوظ رکھے ہر قسم کے شر سے آمین
     
  9. بانیاز خان
    آف لائن

    بانیاز خان ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2012
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    جناب آپ کی پوسٹ کے تناظر میں تو ہمارے سارے علما ہی کافر قرار پاگئے ہیں

    کیونکہ ہر عالم کا تعلق کسی نہ کسی فرقے سے ہے اور ہر فرقہ دوسرے کو مشرک ، کافر اور نہ جانے کیا کچھ
    کہتا ہے

     
  10. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    نعیم بھائی شکریہ جزاک اللہ
    اللہ تعالی ہم سب کو اپنے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے گئے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرعمائے
    اللہ تعالی ہمیں سچے اولیا ء سے جوڑے رکھے ،قرآن کے مطابق زندگی دستور العمل بن جائے
    اور بالخصوص سنتوں کا اتباع نور اللہ تعالی مسلمانان عالم کو نصیب فرمائے
    اس لیے کہ ۔۔
    نقش قدم نبی ص کے ہیں جنت کے راستے
    اللہ ج سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
     
  11. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    محترم بانیاز خان جی
    یہاں کسی نے بھی خود سے کسی کو کافر و مشرک نہیں کہا
    احادیث کا بیان دیا گیا ہے ۔ ذرا غؤر فرمائیں
     
  12. جبران
    آف لائن

    جبران ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جنوری 2012
    پیغامات:
    39
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    زاہد تنگ نے مجھے کافر جانا
    اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
     
  13. بانیاز خان
    آف لائن

    بانیاز خان ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2012
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    جناب میں نے بھی تو یہی کہا ہے کہ آپ کی پوسٹ کے تناظر میں
    یہ تو نہیں کہا کہ آپ کسی کو کافر کہہ رہے ہیں
    صرف یہ بتائیں کہ آگے جو میں‌نے بات کی ہے وہ اس وقت سچ ہے یا نہیں

    سب ہی کافر تو پھر مسلم کون اور اگر مسلم کوئی ہے تو پہچان کیا
     
  14. ابو عزیر
    آف لائن

    ابو عزیر محسن

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2011
    پیغامات:
    35
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود مشرک ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    نعیم بھائی اگر اس حدیث کی سند بیان کردیں تو سونے پہ سہاگہ تاکہ ہمیں اور لوگوں کوسمجھانے میں آسانی ہو۔نیز اس حدیث کے بارے میں جن آئمہ نے اس روایت کومعتبر کہا ہے اُن آئمہ کے اقوال بمعہ ریفرینس مل جاتے تو اورزیادہ بہتر :n_TYTYTY:
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    مسلمان کو کافر و مشرک بنانا بذات خود کفر و شرک کا سبب ہے۔

    سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    ان ممااخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی؟قال بل الرامی۔
    ترجمہ:یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر(ظاہری روپ)اسلام ہوگا۔یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا،اور اپنے(مسلمان)ہمسائے پر تلوار اٹھائے گااور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا:یانبی اللہ!دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا؟جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا،آپ نے فرمایا:فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا)
    یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہواتھاواپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا،اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا۔
    اس روایت کو حافظ ابن کثیر علیہ الرحمۃ نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے۔
    ملاحظہ ہو!1-تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵،امجد اکیڈمی لاہور۔
    2-تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵ دارالفکر، بیروت
    علاوہ ازیں یہ مضمون درج ذیل مقامات پر بھی موجود ہے:
    3…مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵)
    4-الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔
    5…صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔
    6-المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔
    7…شرح مشکل الآثار للطحاوی،جلد۲صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔
    8…مسند الشامیین للطبرانی،جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔
    9…کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔
    10…جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔
    11…جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔
    12…کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔
    13…ناصر الدین البانی (غیر مقلدسلفی) نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
    دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴…کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲صفحہ۳۵۸۔

    ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے۔
    کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر،شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے۔مثلاً:
    ارشاد نبوی ہے:
    من کفر مسلما فقد کفر(مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)
    جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا۔
    مزید فرمایا:
    من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔
    ( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱)

    جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا۔
    مزید ارشاد فرمایا:
    اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما۔
    (بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)

    جس نے اپنے (مسلمان)بھائی کو کہا:اے کافر!… تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔
    یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا۔
    امام بخاری علیہ الرحمۃ نے لکھا ہے:
    من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال۔(بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱)
    جس نے بغیر تاویل کے اپنے(اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا۔

    ان دلائل اور مستند حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک بننا ہے۔العیاذباللہ تعالیٰ ۔

    والسلام علیکم۔
     
  16. بانیاز خان
    آف لائن

    بانیاز خان ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جنوری 2012
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    جناب آپ کی پیش کردہ احادیث و روایات اور واقعات میں تو تضاد موجود ہے کہیں کافر کہنے والا کافر ہوجاتا ہے کہیں‌ کہنے والا اگر سچا ہے تو دوسرا کافر

    خیر ان سب باتوں پر میں‌ بحث نہیں کرنا چاہتا

    پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی کسی مسلم کو کافر نہیں‌ کہتا بلکہ جو مسلم کسی دوسرے کو کافر کہتا ہے یا فتویٰ لگاتا ہے وہ درحقیقت دوسرے کو مسلم سمجھتا ہی نہیں لہٰذا وہ تو یہ کہہ گا کہ میں‌نے مسلم کو نہیں‌بلکہ مشرک کو کافر کہا ہے

    مجھے ایک بات سمجھ نہیں‌آتی ہم مسلمان پچھے ہزار برسوں سے ابھی تک انہی باتوں‌میں‌کیوں‌الجھے ہوئے ہیں
    ہماری آج تک آپس کی لڑائیاں ہی ختم نہیں‌ہوتیں

    بحرحال میری پوسٹ میں ایک سوال تھا اور وہ ابھی تک موجود ہے۔
     
  17. گل
    آف لائن

    گل ممبر

    شمولیت:
    ‏9 دسمبر 2006
    پیغامات:
    74
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    جزاک اللہ
     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    جزاکم اللہ خیر نعیم بھائی ۔
    ان احادیث کی روشنی میں وہ احباب بھی اپنے احوال پر غور کریں‌ جو کسی کو بھی خوارج کا سرٹیفکیٹ دیتے وقت محض کسی شیخ السلام کے قول کو ہی سند کا درجہ دے دیتے ہیں اور ایک لمحہ کی دیر نہیں لگاتے ۔
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    السلام علیکم آصف بھائی ۔
    آپ کا تفکر بجا ہے۔ لیکن چونکہ یہ لڑی شرک کی رٹ لگانے والوں کے بارے میں احادیث نبوی :drood: کے موضوع پر ہے۔ اس لیے موضوع سے ہٹنا نہیں چاہیے۔
    البتہ خوارج کی علامات و فتنہ گری پر احادیث نبویہ :drood: کی روشنی میں ایک اور موضوع شروع کیا جاسکتا ہے۔ ولو کرہ الخوارجیون۔
     
  20. ابو عزیر
    آف لائن

    ابو عزیر محسن

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2011
    پیغامات:
    35
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    پیارے بھائی نعیم صاحب سب سے پہلے تو لیٹ رپلائی کرنے پر معذرت۔میری خواہش پر آپ نے سند بھی بیاں کر دی ۔شکریہ
    پیارے بھائی بات یہ ہے کہ کسی بھی حدیث کو بیان کرنے سے پہلے اس کی سند پر نظر ضرور ڈال لینی چاہیئے۔تاکہ ہمیں ضعیف اور صحیح حدیث کا فرق معلوم ہو سکے۔
    اب زرا آپ کے پیش کردہ دلائل پر تحقیقی نظر ڈالتے ہیں۔
    مذکورہ روایت درج ذیل دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔

    معاذبن جبل رضی اللہ عنہ۔
    حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ ۔


    معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت

    6-المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔
    8…مسند الشامیین للطبرانی،جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔

    امام أبو بكر بن أبي عاصم رحمہ اللہ(المتوفى: 287) نے کہا:
    ثنا عيسى بن يونس أبو موسى الرملي، ثنا ضمرة، عن ابن شوذب، عن مطر، عن شهر بن حوشب، عن معدي كرب، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أخوف ما أخاف عليكم ثلاث: رجل قرأ كتاب الله حتى إذا رؤيت عليه بهجته، وكان ردءا للإسلام أعاره الله إياه، اخترط سيفه فضرب به جاره ورماه بالشرك ". قلنا: يا رسول الله الرامي أحق بها، أم المرمي؟ قال: «الرامي»
    [ السنة لابن عاصم :١/ ٢٣ و الديات:ص ٢٢ ،واخرجہ ایضا الطبرانی فی المعجم الكبير: ٢٠/ ٨٨ ، و مسند الشاميين: ٢/ ٢٥٤ ، و اخرجہ ایضا قوام السنہ فی الحجة في بيان المحجة :٢/ ٤٥٤ ، واخرجہ ایضا الھروی فی ذم الكلام وأهله (١/ ١٠١) کلھم من طریق ضمرہ بہ]۔

    یہ روایت ضعیف ہے اس میں درج ذیل علتیں ہیں:

    اولا:
    معدي كرب المشرقي مجہول ہے ابن حبان کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔


    ثانیا:
    مطر بن طهمان الوراق کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہےا ۔

    امام يحيى بن سعيد رحمه الله (المتوفى 198)نے اسے سیء الحفظ کہا:
    كان يحيى بن سعيد يشبه مطر الوراق بابن أبى ليلى في سوء الحفظ[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 287 وسندہ صحیح]

    امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
    كان فيه ضعف في الحديث[الطبقات الكبرى لابن سعد : 7/ 189]۔

    امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى:234)نے کہا:
    لم يكن بِالْقَوِيّ[سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص: 48]۔

    امام احمد رحمه الله (المتوفى:241)نے کہا:
    ما أقربه من ابن ابى ليلى في عطاء خاصة[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 8/ 288 وسندہ صحیح]۔

    امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى:264)نے کہا:
    ’’صالح‘‘ قال ابن أبي حاتم: كأنه لين امره [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 287 وسندہ صحیح]۔

    امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
    مطر بن طهْمَان الْوراق لَيْسَ بِالْقَوِيّ[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 97]۔

    امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322):
    مَطَرُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو رَجَاءٍ الْخُرَاسَانِيُّ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 219]۔

    امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى:354)نے کہا:
    كان رديء الحفظ على صلاح فيه[مشاهير علماء الأمصار لابن حبان: ص: 95]۔

    امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
    هو مع ضعفه يجمع حديثه ويكتب[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 134]۔

    امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
    والصعق والمطر ليسا بالقويين[الإلزامات والتتبع للدارقطني: ص: 169]۔

    تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)نے کہا:
    ضعيف يعتبر به في المتابعات والشواهد[تحرير التقريب ،رقم 6699]۔

    جمہور کی اس تضعیف کی بناپر راوی مذکور ضعیف ہے۔

    خلاصہ یہ کہ:
    معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ روایت ضعیف ہے۔
    حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی روایت


    1-تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵،امجد اکیڈمی لاہور۔
    2-تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵ دارالفکر، بیروت
    علاوہ ازیں یہ مضمون درج ذیل مقامات پر بھی موجود ہے:
    3…مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵)
    4-الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔
    5…صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔
    7…شرح مشکل الآثار للطحاوی،جلد۲صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔
    9…کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔
    10…جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔
    11…جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔
    12…کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔
    13…ناصر الدین البانی (غیر مقلدسلفی) نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔
    امام بزار رحمہ اللہ ( المتوفى : 292)نے کہا:
    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي كُبَيْشَةَ ، قَالا : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الصَّلْتُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا جُنْدُبٌ ، فِي هَذَا الْمَسْجِدِ يَعْنِي مَسْجِدَ الْبَصْرَةِ ، أَنَّ حُذَيْفَةَ حَدَّثَهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : إِنَّمَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْكُمْ رَجُلا قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّى إِذَا رُئِيَ عَلَيْهِ بَهْجَتُهُ ، وَكَانَ رِدْءًا لِلإِسْلامِ اعْتَزَلَ إِلَى مَا شَاءَ اللَّهُ ، وَخَرَجَ عَلَى جَارِهِ بِسَيْفِهِ ، وَرَمَاهُ بِالشِّرْكِ.
    [مسند البزار :/ 427 واخرجہ ایضا ابویعلی کمافی إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة (6/ 339) ومن طریقہ الھروی فی ذم الكلام وأهله (1/ 103) و اخرجہ ایضا ابن حبان فی صحیحہ (1/ 282)من طریق محمدبن بکر بہ ، واخرجہ ایضا ابوبکر الانباری کما فی المنتقی (ص: 34) و قوام السنہ فی الحجة (2/ 452) والبخاری فی التاریخ: 4/301 کلھم من طریق علی ابن المدینی عن البرسانی بہ]۔

    یہ روایت بھی ضعیف ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
    روایت مذکورہ میں ’’صلت ‘‘ نامی راوی کون ہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے ۔

    ابن حبان رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ یہ صلب بن بھرام ہیں ، موصوف فرماتے ہیں:
    الصلت بن بهرام كوفى عزيز الحديث يروى عن جماعة من التابعين روى عنه أهل الكوفة وهو الذي يروى عن الحسن روى عنه محمد بن بكر المقرىء الكوفى ليس بالبرساني ومن قال إنه الصلت بن مهران فقد وهم إنما هو الصلت بن بهرام [الثقات لابن حبان: 6/ 471]۔

    لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت مذکورہ میں صلت کی تعیین صلت بن مھران سے کی ہے، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    2907- صَلت بْن مِهران.قَالَ لَنَا عليٌ: حدَّثنا مُحَمد بن بَكر، حدَّثنا الصَّلت، حدَّثنا الْحَسَنُ، حدَّثني جُندُب، أَنَّ حُذَيفة حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبيَّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم قَالَ: أَخوَفُ مَا أَتَخَوَّفُ رَجُلٌ قَرَأَ القُرآنَ، خَرَجَ عَلى جارِهِ بِالسَّيفِ، ورَماهُ بِالشِّركِ.[التاريخ الكبير للبخاري: 4/ 301]۔

    امام بخاری رحمہ اللہ کی اس صراحت سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اتفاق کیا ہےبلکہ اس کی بنیاد پر حافظ ابن حجر نے ابن حبان پر رد کیا ہے اورکہا:
    قلت هذا الذي رده جزم به البخاري عن شيخه علي بن المديني وهو أخبر بشيخه وقال البخاري في التاريخ قال لي علي ثنا محمد بن بكر البرساني عن الصلت بن مهران حدثني الحسن البصري فذكر حديثا[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 433]۔

    علامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ مذکورہ روایت میں صلت یہ صلت ابن مھران ہی ہیں ، بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری کی تصریح کے ساتھ ساتھ ابوحاتم کے حوالے سے بھی اپنے موقف کو مدلل کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں:'
    إذا كان الأمر كذلك؛ فمن يكون الصلت هذا؟ أما البخاري فصنيعه المتقدم صريح بأنه ابن مهران؛ لأنه ساق الحديث في ترجمته، ونحوه قول ابن أبي حاتم فيه (٤/٤٣٩/٩٢٧ ١) : "روى عن الحسن وشهر بن حوشب، وعنه محمد بن بكر البرساني وسهل ابن حماد". وعليه " فالصلت هنا اثنان: ابن بهرام، وقد وثقه جماعة كما تقدم، وابن مهران، وهو غير مشهور؛ لأنه لم يرو عنه غير البرساني وشهر، ولذلك قال الذهبي في " الميزان ": "مستور، قال ابن القطان: مجهول الحال ".[سلسلة الأحاديث الصحيحة: 7/ 607]۔


    اس تفصیل سے معلوم ہواکہ مذکورہ روایت میں صلت بن بھرام راوی ہے اور یہ مجہول ہے اس کے بارے میں کسی کی توثیق نہیں ملتی لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے ۔
    ابھی تحقیق جاری ہے۔
     
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شرک کے فتوے لگانے والا خود کافر ہے۔ (فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم )

    السلام علیکم۔ محترم ابوعزیر صاحب۔
    آپ نے بہت تحقیق فرما کر جواب ارسال فرمایا۔ لیکن میں نے حدیث پاک کا صرف حوالہ ہی نہیں دیا تھا
    بلکہ حافظ ابنِ کثیر اور مولانا ناصرالدین البانی جنہیں عالم عرب میں سلفی و اہلحدیث مکتبہ فکر میں بہت مانا جاتا ہے انہوں نے بھی اسکی اسناد کو جید و صحیح کہا ہے۔
    اور یہ اصول تو یقینا آپ کے بھی علم میں ہوگا کہ حدیث میں ضعف کبھی متن پر وارد نہیں ہوتا بلکہ اسناد و روات میں ہوسکتا ہے۔ ضعیف حدیث بھی اپنے متن کے اعتبار سے فضائل کے باب میں قابلِ قبول تصور ہوتی ہے اور مردود نہیں ہوتی۔
    اور پھر اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ نے میرے پیغام کا بغور مطالعہ فرمایا ہو تو میں نے اسی مضمون کی تائید میں دیگر کئی احادیث بھی پیش کی تھیں جو کہ متفق علیہ ہیں۔ جو کہ یہاں پھر اقتباس کررہا ہوں۔ سو نفسِ مضمون کے اعتبار سے یہ حکمِ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماننا ہی پڑے گا۔


    والسلام علیکم۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں