1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

'اسلامی ویڈیوز' میں موضوعات آغاز کردہ از محمداکرم, ‏10 جنوری 2012۔

  1. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    پیارے دوستو
    آج میں آپکی خدمت میں لایا ہوں ایک تحفہ خاص اور وہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کی زیارت ۔ ۔ ۔ جی ہاں ، ہم اپنے نصیب پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے کہ اس پوسٹ کے آخر میں یہ سعادت ہمارے حصے میں آنے والی ہے ۔ مگر ٹھہرئیے ، اس لمحے کے آنے سے پہلے ہم اپنے قلوب و اذہان کو مہکا لیں ، تاکہ ادب میں کوئی کمی نہ رہ جائے ۔
    [​IMG]
    اللھم صل و سلم وبارک علیٰ سیدنا و مولیٰنا و حبیبنا وشفیعنا محمد و علی آلہ و عترتہ بعدد کل معلوم لک ، استغفر اللہ العظیم الذی لا الہ الا ہو الحی القیوم واتوب الیہ

    پیارے دوستو، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارے ایمان کا جزو لا ینفک ہے ۔ اس محبت میں فنا ہوجانے سے ہی ایمان کی تکمیل ہوسکتی ہے ۔ قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ:

    النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ
    ترجمہ: یہ نبیِ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے بھی زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔
    ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں ارشاد فرمایا:

    1. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِه وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.
    مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

    1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب حبّ الرسول صلی الله عليه وآله وسلم من الإيمان، 1 / 14، الرقم : 15، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب وجوب محبّة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اکثر من الاهل والولد والوالد والناس أجمعين، 1 / 67، الرقم : 44.

    ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

    یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ، ہم آپ سے محبت کیوں نہ کریں کہ آپ ہی تو رب کریم کی تمام نعمتوں کے تقسیم فرمانے والے ہیں [انما انا قاسم واللہ یعطی]، آپ ہی کے ذریعے ہمیں ایمان ملا ، اسلام ملا ، ہدایت ملی ، علم ملا ، عرفان ملا ، سب نعمتیں ملیں ، حتیٰ کہ خود رب بھی ہمیں آپ کے ذریعے ملا۔ پیارے آقا ، آپ پر ، آپکی آل پر ، آپکے صحابہ پر اور آپکے تمام غلاموں پر بے شمار صلا ۃ و سلام ہو ۔

    پیارے دوستو،
    خوش نصیب تھے وہ لوگ جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک زمانہ پایا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے اور پوری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کردی ۔ مگر قربان جائیں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کہ انکو بعد میں آنے والے ہم جیسے کمتر امتیوں کا بھی کسقدر خیال تھا کہ اپنے صحابہ کرام کی مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے ایمان لانے اور بن دیکھے محبت کرنے کے بارے انتہائی پیار بھرے الفاظ میں ذکر فرمایا ، ملاحظہ فرمائیے :

    1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا، نَاسٌ يَکُوْنُوْنَ بَعْدِي، يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي، بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ.

    رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.

    أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب : فيمن يود رؤية النبي صلي الله عليه وآله وسلم بأهله وماله، 4 / 2178، الرقم : 2832، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 417، الرقم : 9388، وابن حبان في الصحيح، 16 / 214، الرقم : 7231.

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے میرے ساتھ شدید محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کی تمنا یہ ہوگی کہ کاش وہ اپنے سب اہل و عیال اور مال و اسباب کے بدلے میں مجھے (ایک مرتبہ) دیکھ لیں۔ ‘‘

    2. عَنْ عَمَرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جدِّهِ رضي الله عنهم قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَيُّ الْخَلْقِ أَعْجَبُ إِلَيْکُمْ إِيْمَانًا؟ قَالُوْا : الْمَلَائِکَةُ. قَالَ : وَمَا لَهُمْ لاَ يُؤْمِنُوْنَ وَهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ؟ قَالُوْا : فَالنَّبِيُّوْنَ. قَالَ : وَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ وَالْوَحْيُ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ؟ قَالُوْا : فَنَحْنُ. قَالَ : وَمَا لَکُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِکُمْ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَعْجَبَ الْخَلْقِ إِلَيَّ إِيْمَانًا لَقَوْمٌ يَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِي يَجِدُوْنَ صُحُفًا فِيْهَا کِتَابٌ يُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِيْهَا.

    رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْيَعْلَي وَالْحَاکِمُ.

    وَقَالً الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيحُ الإِْسْنَادِ.

    أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 87، الرقم : 12560، وأبو يعلي عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه في المسند، 1 / 147، الرقم : 160، و الحاکم في المستدرک، 4 / 96، الرقم : 6993، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 3 / 403، الرقم : 6288، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 130، الرقم : 346، والهيثمي عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه في مجمع الزوائد، 8 / 330، 6 / 65، وقال : رواه البزار وأحمد .

    ’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے والد، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا : کون سی مخلوق تمہارے نزدیک ایمان کے لحاظ سے سب سے عجیب تر ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : فرشتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فرشتے کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ وہ ہر وقت اپنے رب کی حضوری میں رہتے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا : پھر انبیاء کرام علیہم السلام۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور انبیاء کرام علیہم السلام کیوں ایمان نہ لائیں جبکہ ان پر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ انہوں نے عرض کیا : تو پھر ہم (ہی ہوں گے)۔ فرمایا : تم ایمان کیوں نہیں لاؤ گے جبکہ بنفس نفیس میں خود تم میں جلوہ افروز ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مخلوق میں میرے نزدیک پسندیدہ اور عجیب تر ایمان ان لوگوں کا ہے جو میرے بعد پیدا ہوں گے۔ کئی کتابوں کو پائیں گے مگر (صرف میری) کتاب میں جو کچھ لکھا ہو گا (بن دیکھے) اس پر ایمان لائیں گے۔ ‘‘

    3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَدِدْتُ أَنِّي لَقِيْتُ إِخْوَانِي، قَالَ : فَقَالَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَوَ لَيْسَ نَحْنُ إِخْوَانَکَ؟ قَالَ : أَنْتُمْ أَصْحَابِي، وَلَکِنْ إِخْوَانِي الَّذِيْنَ آمَنُوْا بِي وَلَمْ يَرَوْنِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

    أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 155، الرقم : 12601، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 212، الرقم : 576، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 67، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 32، الرقم : 60 : 2 / 94، الرقم : 1161.

    ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے یہ خواہش کی کہ میں اپنے بھائیوں سے ملوں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میرے صحابہ ہو لیکن میرے بھائی وہ ہوں گے جو مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا۔ ‘‘

    4. عَنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمْرَةَ الْأَنْصَارِيِّ رضي الله عنه عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (يَارَسُوْلَ اﷲ) أَ رَأَيْتَ مَنْ آمَنَ بِکَ وَلَمْ يَرَکَ وَصَدَّقَکَ وَلَمْ يَرَکَ؟ قَالَ : طُوْبَي لَهُمْ طُوْبَي لَهُمْ أُوْلئِکَ مِنَّا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

    أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 276، الرقم : 8624.

    ’’حضرت عبدالرحمن بن ابی عمرہ انصاری رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرنے ہیں کہ انہوں نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) آپ ان لوگوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو آپ پر ایمان لائے حالانکہ انہوں نے آپ کو دیکھا تک نہیں، آپ کی تصدیق کی حالانکہ آپ کو دیکھا تک نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کے لئے خوشخبری ہے ان کے لئے خوشخبری ہے وہ ہم میں سے ہی ہیں۔ ‘‘

    5. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : طُوْبَي لِمَنْ رَآنِي وَآمَنَ بِي وَطُوْبَي سَبْعَ مَرَّاتٍ لِمَنْ لَمْ يَرَنِي وَآمَنَ بِي.

    رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

    أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 257، الرقم : 22268، 22192، 22331، وابن حبان في الصحيح، 16 / 216، الرقم : 7233، والحاکم عن عبداﷲ بن بُسر رضي الله عنه، في المستدرک، 4 / 96، الرقم : 6994، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 259، الرقم : 8009، وفي المعجم الصغير، 2 / 104، الرقم : 858، وأبويعلي عن أنس بن مالک رضي الله عنه في المسند، 6 / 119، الرقم : 3391، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 99، الرقم : 87، والروياني في المسند، 2 / 311، الرقم : 1266.

    ’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات بار خوشخبری اور مبارک باد ہو اس کے لئے جس نے مجھے دیکھا بھی نہیں اور مجھ پر ایمان لایا۔ ‘‘

    6. عَنْ أَبِي جُمْعَةَ رضي الله عنه قَالَ : تَغَدَّيْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ مَعَنَا أَبُوْ عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، قَالَ : قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! هَلْ أَحْدٌ خَيْرٌ مِنَّا؟ أَسْلَمْنَا مَعَکَ، وَجَاهَدْنَا مَعَکَ، قَالَ : نَعَمْ، قَوْمٌ يَکُوْنُوْنَ مِنْ بَعْدِکُمْ يُؤْمِنُوْنَ بِي وَلَمْ يَرَوْنِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

    وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

    أخرجه الدارمي في السنن، 2 / 398، الرقم : 2844، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 106، الرقم : 17017، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 22، الرقم : 3537، وأبويعلي في المسند، 3 / 128، الرقم : 1559، وابن منده في الإيمان، 1 / 372، الرقم : 210، والهيثي في ممجع الزوائد، 10 / 66.

    ’’حضرت ابوجمعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دن کا کھانا کھایا ہمارے ساتھ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم سے بھی کوئی بہتر ہو گا؟ ہم آپ کی معیت میں ایمان لائے، اور آپ کی ہی معیت میں ہم نے جہاد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں وہ لوگ جو تمہارے بعد آئیں گے وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا (وہ اس جہت سے تم سے بھی بہتر ہوں گے)۔ ‘‘

    سبحان اللہ ، کریم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقتوں اور مہربانیوں کا کیا ہی خوبصورت انداز ہے۔

    پیارے دوستو،
    رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے تقاضوں میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے محبت رکھنا شامل ہے ، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک سے قلبی تعلق پیدا کرنا بھی اشد ضروری ہے ۔ انہی تقاضاہائے محبت میں سے یہ بھی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوڑے ہوئے تبرکات سے بھی محبت کی جائے ۔ کیوں نہ ہو کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب چیزیں بڑی با برکت اور فیض رساں ہوتی ہیں ۔
    آئیے دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے ہمیں اس بارے میں کیا سبق ملتا ہے :
    کتبِ احادیث و سیر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کروانے کے علاوہ اور بھی بہت سی صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برکت حاصل کرتے تھے، مثلاً وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک کا اپنے اوپر مسح کرواتے خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر کو تبرکا ً مس کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے تبرک حاصل کرتے جس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دست اقدس دھوتے اس دھوون سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچے ہوئے کھانے سے تبرک حاصل کرتے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک اور لعابِ دہن مبارک سے تبرک حاصل کرتے، وہ موئے مبارک جو حجامت کے وقت اترتے، نیچے نہ گرنے دیتے تھے، مزید برآں ناخن مبارک سے، لباس مبارکِ سے، عصاء مبارک سے، انگوٹھی مبارک سے، بستر مبارک سے، چارپائی مبارک سے، چٹائی مبارک سے، الغرض ہر اس چیز سے تبرک حاصل کرتے جس کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس سے کچھ نہ کچھ نسبت ہوتی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور تابعین عظام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر مبارک سے بھی تبرک حاصل کیا بلکہ جن مکانوں اور رہائش گاہوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکونت اختیار فرمائی، جن جگہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں ادا فرمائیں اور جن راستوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے ان کی گرد و غبار تک کو انہوں نے موجبِ برکت جانا۔ یہاں تک کہ صحابہ و تابعین کے ادوار کے بعد نسلاً بعد نسلاً ہر زمانے میں اکابر ائمہ و مشائخ اور علماء و محدثین کے علاوہ خلفاء و سلاطین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو بڑے ادب و احترام سے محفوظ رکھتے چلے آئے ہیں اور خاص مواقع پر بڑے اہتمام کے ساتھ مسلمانوں کو ان تبرکات کی زیارت کروائی جاتی رہی ہے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں آج بھی کرائی جاتی ہے ۔

    یہاں ہم موضوع کی مناسبت سے باقی تبرکات سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف موئے مبارک کا تذکرہ کریں گے۔

    1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو :

    ناول الحالق شِقَّه الأيمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصاري فأعطاه إياه، ثم ناوله الشِّقَّ الأيسر، فقال : احلق. فحلقه، فأعطاه أبا طلحة، فقال : اقسمه بين الناس.

    مسلم، الصحيح، 2 : 948، کتاب الحج، رقم : 1305
    ابن حبان، الصحيح، 9 : 191، رقم : 3879
    حاکم، المستدرک، 1 : 647، رقم : 1743
    ترمذي، الجامع الصحيح، 3 : 255، ابواب الحج، رقم : 912
    نسائي، السنن الکبری، 2 : 449، رقم : 4116
    ابوداؤد، السنن، 2 : 203، کتاب المناسک، رقم : 1981
    احمد بن حنبل، المسند، 3 : 111، 214
    حميدي، المسند، 2 : 512، رقم : 1220
    بيهقي، السنن الکبري، 5 : 134، رقم : 9363
    ابن خزيمه، الصحيح، 4 : 299، رقم : 2928
    بغوي، شرح السنة، 7 : 206، رقم : 1962

    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈ دیئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ بال عطا کئے، اِس کے بعد حجام کے سامنے بائیں جانب کی اور فرمایا : مونڈ دو، اس نے ادھر کے بال بھی مونڈ دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا کئے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔‘‘

    ساتھیو ، اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم مبارک سے آپکے موئے مبارک صحابہ کرام میں بطور تبرک تقسیم کیے جاتے تھے ۔

    2۔ ابن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :

    أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم لما حلق رأسه، کان أبو طلحة أولَ من أخذَ من شعره.

    بخاري، الصحيح، 1 : 75، کتاب الوضوء، رقم : 169

    ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ہی پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک لیے۔‘‘

    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا و مافیہا سے عزیز جانتے

    3۔ ابن سیرین رحمۃ اﷲ علیہ بیان کرتے ہیں :

    قلت لعبيدة : عندنا من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، أصبناه من قِبَل أنس، أو من قِبَل أهل أنس، فقال : لان تکون عندي شعرة منه أحب إليّ من الدنيا وما فيها.

    بخاري، الصحيح، 1 : 75، کتاب الوضوء، رقم : 168
    بيهقي، السنن الکبری، 7 : 67، رقم : 13188
    بيهقي، شعب الايمان، 2 : 201

    ’’میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جن کو ہم نے انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ عبیدہ نے کہا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان بالوں میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘

    حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک سے برکت حاصل کرنا ثابت ہے۔‘‘

    عسقلانی، فتح الباری، 1 : 274

    ایک اور روایت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

    لأن يکون عندي منه شعرة أحب إلي من کل صفراء و بيضاء اصبحت علي وجه الأرض.

    احمد بن حنبل، المسند، 3 : 256، رقم : 13710
    بيهقي، السنن الکبري، 2 : 427، رقم : 4032
    ذهبي، سير أعلام النبلاء، 4 : 42
    ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 506
    ابن سعد، الطبقات الکبري، 6 : 95

    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بالوں میں سے ایک بال کا میرے پاس ہونا مجھے روئے زمین کے تمام سونے اور چاندی کے حصول سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘

    موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے بیمار شفایاب ہوئے

    5۔ حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

    أرسلَنی أهلی إلی أم سلمة بقدح من ماء، و قبض إسرائيل ثلاث أصابع من فضة فيه شعر من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، و کان إذا أصاب الإنسانَ عين أو شئ بعث إليها مِخْضَبَة. فاطلعت في الجُلْجُل فرأيتُ شعراتٍ حمرًا.

    بخاري، الصحيح، 5 : 2210، کتاب اللباس، رقم : 5557
    ابن راهويه، المسند، 1 : 173، رقم : 145
    ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 21
    شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 69
    مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 5 : 510

    ’’مجھے میرے گھر والوں نے حضرت ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس پانی کا (ایک چاندی کا) پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کچھ ہو جاتا تو وہ حضرت ام سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔‘‘

    6۔ علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :

    ’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے برکت حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے۔ اگر کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہوجاتا تو وہ اپنی بیوی کو حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس برتن دیکر بھیجتے جس میں پانی ہوتا اور وہ اس پانی میں سے بال مبارک گزار دیتیں اور بیمار وہ پانی پی کر شفایاب ہوجاتا اور اس کے بعد موئے مبارک اس برتن میں رکھ دیا جاتا۔

    عينی، عمدةالقاری، 22 : 49

    7۔ حضرت یحییٰ بن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :

    کان لنا جلجل من ذهب فکان الناس يغسلونه، و فيه شعر رسول اﷲ، قال : فتخرج منه شعرات قد غيرت بالحناء والکتم.

    ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 437

    ’’ہمارا ایک سونے کا برتن (جلجل) تھا جس کو لوگ دھوتے تھے، اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال تھے۔ چند بال نکالے جاتے تھے جن کا رنگ حنا اور نیل سے بدل دیا گیا تھا۔‘‘

    8۔ حضرت عکرمہ بن خالد رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے فرمایا :

    عندی من شعر رسول اﷲ مخضوب مصبوغ فی سکة.

    ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 437

    ’’ہمارے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال ہیں جو رنگین اور خوشبودار ہیں۔‘‘

    موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پروانہ وار بڑھتے

    9۔ اسی طرح ایک اور روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں :

    لقد رأيت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، والحَلّاق يَحلِقه وأطاف به أصحابه، فما يريدون أن تقع شعرة إلا في يد رجل.

    مسلم، الصحيح، 4 : 1812، کتاب الفضائل، رقم : 2325
    احمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12386 - 12423
    ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 430
    ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 181
    بيهقي، السنن الکبریٰ، 7 : 68، رقم : 13189
    ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 189
    عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1273
    ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 188

    ’’میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے اور چاہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘

    صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پسِ مرگ بھی موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حصولِ برکت کے خواہاں ہوتے۔

    10۔ ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

    هذه شعرة من شعر رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فضعها تحت لساني. قال : فوضعتها تحت لسانه، فدفن و هي تحت لسانه.

    عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 1 : 127

    ’’یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔‘‘

    موئے مبارک کی برکت سے شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کی صحت یابی

    موئے مبارک کے کرامات و برکات کے حوالے سے ائمہ و صالحین کے بعض ذاتی مشاہدات کا ذکر بھی کتب سیر و تواریخ میںملتا ہے۔ ائمہ متاخرین میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ جیسی عظیم علمی و فکری شخصیت سے کون متعارف نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ اور ’’انفاس العارفین‘‘ میں اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی قدس سرہ العزیز کی بیماری کا واقعہ ان کی زبانی خود بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ اتنا سخت بخار ہوا کہ زندہ بچنے کی امید نہ رہی۔ اسی دوران مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی، اندریں حال میں نے حضرت شیخ عبدالعزیز کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیٹے عبدالرحیم (مبارک ہو)! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری عیادت کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور سمت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرف تمہاری پائنتی ہے اس طرف سے آپ تشریف لائیں گے۔ سو تمہارے پاؤں اس رخ پر نہیں ہونے چاہئیں۔ مجھے غنودگی کے عالم سے کچھ افاقہ ہوا مگر بولنے کی طاقت نہ تھی چنانچہ حاضرین کو اشارے سے سمجھایا کہ میری چار پائی کا رخ تبدیل کردیں بس اسی لمحے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    ’’کيف حالک يا بنی؟

    بیٹے عبدالرحیم! تمہارا کیا حال ہے؟‘‘

    بس پھر کیا تھا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شیریں گفتار اور رس بھرے بول نے میری دنیا ہی بدل دی جس سے مجھ پہ وجد و بکاء اور اضطراب کی عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے۔ فرطِ جذبات سے مجھ پر گریہ و زاری کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قمیص مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس رقت و گداز سے مجھے قرار و سکون نصیب ہوا۔ اچانک میرے دل میں خیال گزرا کہ میں تو مدت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا آرزو مند ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا بڑا کرم ہوگا اگر اس وقت میری یہ آرزو پوری فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خیال سے آگاہ ہوئے اور اپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں تھما دیئے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو شاید خواب دیکھ رہا ہوں جب بیدار ہوں گا تو خدا جانے یہ بال محفوظ رہیں یا نہ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خیال کو بھی جان گئے اور فرمایا کہ یہ عالم بیداری میں بھی تیرے پاس محفوظ رہیں گے۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صحتِ کلی اور درازئ عمر کی بشارت عطا فرمائی۔ مجھے اسی لمحے افاقہ ہوا اور میں نے چراغ منگوا کر دیکھا تو وہ موئے مبارک میرے ہاتھ سے غائب تھے، اس پر مجھے سخت اندیشہ اور پریشانی لاحق ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آگاہ فرمایا کہ بیٹے میں نے دونوں بالوں کو تیرے تکیہ کے نیچے رکھا ہے یہ وہاں سے تجھے ملیں گے۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو میں اٹھا اور انہیں اسی جگہ پایا۔ میں نے تعظیم و اکرام کے ساتھ انہیں ایک جگہ محفوظ کر لیا۔ اس کے بعد بخار ختم ہوا، تمام کمزوری دور ہو گئی اور مجھے صحتِ کلی نصیب ہوئی۔

    ان موئے مبارک کے خواص میں سے تین کا ذکر کیا جاتاہے۔

    1۔ یہ آپس میں جڑے ہوئے رہتے تھے جوں ہی درود شریف پڑھا جاتا یہ دونوں الگ الگ سیدھے کھڑے ہوجاتے تھے اور درود شریف ختم ہوتے ہی پھر اصلی حالت اختیار کرلیتے تھے۔

    2۔ ایک مرتبہ تین منکرین نے امتحان لینا چاہا اور ان موئے مبارک کو دھوپ میں لے گئے۔ غیب سے فوراً بادل کا ایک ٹکڑا ظاہر ہوا جس نے ان موئے مبارک پر سایہ کرلیا حالانکہ اس وقت چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی۔ ان میں سے ایک تائب ہوگیا۔ جب دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو باقی دونوں بھی تائب ہوگئے۔

    3۔ ایک مرتبہ کئی لوگ موئے مبارک کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے۔ شاہ صاحب نے ہرچند کوشش کی مگر تالا نہ کھلا۔ اس پر شاہ صاحب نے مراقبہ کیا تو پتہ چلا کہ ان میں ایک شخص جنبی ہے۔ شاہ صاحب نے پردہ پوشی کرتے ہوئے سب کو تجدید طہارت کا حکم دیا، جنبی کے دل میں چور تھا، جوں ہی وہ مجمع میں سے نکلا فوراً قفل کھل گیا اور سب نے موئے مبارک کی زیارت کرلی۔

    پھر والد بزرگوار نے عمر کے آخری حصے میں ان کو بانٹ دیا جن میں ایک مجھے بھی مرحمت فرمایا جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔

    شاه ولی الله، انفاس العارفين : 40، 41

    جنگ میں فتح کے لئے موئے مبارک کا توسل

    حضرت صفیہ بنت نجدہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک تھے۔ ایک دفعہ وہ ٹوپی کسی جہاد میں گرپڑی تواس کے لینے کیلئے تیزی سے دوڑے جبکہ اس معرکے میں بکثرت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہید ہوئے، اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

    لم أفعلْها بسبب القَلَنْسُوة، بل لما تضَمَّنَتْه من شَعرِه صلی الله عليه وآله وسلم لئلا أسْلَب برکتها وتقع فی أيدی المشرکين.

    قاضی عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 619

    ’’میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کہ اس ٹوپی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک تھے مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس کی برکت سے محروم نہ ہو جاؤں اور دوسرا یہ کہ یہ کفار و مشرکین کے ہاتھ نہ لگ جائے۔‘‘

    موئے مبارک کی برکت سے جنگ یرموک میں مسلمانوں کی فتح

    تاریخ واقدی اور دیگر کتب سیر میں مروی ہے کہ جب شام میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جبلہ بن ایہم کی قوم کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے ایک روز مسلمانوں کے قلیل لشکر کا دُشمن سے آمنا سامنا ہوا تو اُنہوں نے رومیوں کے بڑے افسر کو مار دیا، اس وقت جبلہ نے تمام رومی اور عرب فوج کو یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنھم کی حالت نہایت نازک تھی اور رافع ابن عمر طائی نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا ’’آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی۔‘‘ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : سچ کہتے ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وہ ٹوپی بھول آیا ہوں جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہیں۔ ادھر یہ حالت تھی اور ادھر رات ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو جو فوج کے سپہ سالار تھے خواب میں زجر وتوبیخ فرمائی کہ تم اس وقت خواب غفلت میں پڑے ہو اٹھو اور فوراً خالد بن ولید کی مدد کو پہنچو کہ کفارنے ان کو گھیر لیا ہے۔ اگر تم اس وقت جاؤ گے تو وقت پر پہنچ جاؤ گے۔ ابو عبیدہ نے اسی وقت لشکر کو حکم دیا کہ جلد تیار ہو جائے چنانچہ وہاں سے وہ مع فوج یلغار کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ فوج کے آگے آگے نہایت سرعت سے ایک سوار گھوڑا دوڑاتے ہوئے چلا جا رہا ہے اس طرح کہ کوئی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے خیال کیا کہ شایدکوئی فرشتہ ہے جو مدد کے لئے جا رہا ہے مگر احتیاطاً چند تیز رفتار سواروں کو حکم کیا کہ اس سوار کا حال دریافت کریں، جب قریب پہنچے تو پکار کر اس جوان کو توقف کرنے کے لئے کہا یہ سنتے ہی وہ جسے ہم جوان سمجھ رہے تھے رکا تو ہم نے دیکھا کہ وہ تو خالد بن ولید کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ ان سے حال دریافت کیا گیا تو وہ گویا ہوئیں : کہ اے امیر! جب رات کے وقت میں نے سنا کہ آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں سے فرمایا کہ خالد بن ولید کو دشمن نے گھیر لیا تو میں نے خیال کیا کہ وہ ناکام کبھی نہ ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ہیں، مگر اتفاقاً ان کی ٹوپی پر نظر پڑی جو وہ گھر بھول آئے تھے اور جس میں موئے مبارک تھے۔ بعجلتِ تمام میں نے ٹوپی لی اور اب چاہتی ہوں کہ کسی طرح اس کوان تک پہنچا دوں۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جلدی سے جاؤ خدا تمہیں برکت دے۔ چنانچہ وہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھ گئیں۔ حضرت رافع بن عمر جو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ حالت تھی کہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے یکبار گی تہلیل و تکبیر کی آوازیں بلند ہوئیں، حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو تجسس ہوا کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کہ اچانک ان کی رومی سواروں پر نظر پڑی جو بدحواس ہو کر بھاگے چلے آ رہے تھے اور ایک سوار ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ گھوڑا دوڑا کر اس سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا کہ اے جوانمرد تو کون ہے؟ آواز آئی کہ میں تمہاری اہلیہ ام تمیم ہوں اور تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں جس کی برکت سے تم دشمن پر فتح پایا کرتے تھے۔

    راوئ حدیث قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب خالد رضی اللہ عنہ نے ٹوپی پہن کر کفار پر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پاؤں اکھڑ گئے اور لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔

    محمد انوار اﷲ فاروقی، مقاصد الاسلام، 9 : 273 - 275

    صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو موئے مبارک میں جو برکت دکھائی دیتی تھی وہ اہل عقول کی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ وہ کیا چیز ہے حسی یا معنوی جو بالوں کے اندر رہتی ہے یا سطح بالائی پر وہ چاہے کتنی ہی موشگافیاں کریں ان کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہے۔ اس روایت سے سب مشکلات حل ہوگئیں اور معلوم ہوگیا کہ مشکل سے مشکل کاموں میں آسانی اور امداد غیبی کا مل جانا اس برکت کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے فتح موئے مبارک کی برکت سے حاصل ہوتی تھی۔

    عبدالحمید بن جعفر سے روایت ہے کہ یرموک کی لڑائی میں یہ ٹوپی سر سے غائب تھی جب تک وہ نہیں ملی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نہایت الجھن میں رہے اور ملنے کے بعد اطمینان ہوا۔اس وقت آپ نے یہ ماجرا بیان فرمایا کہ :

    فما وجهت فی وجه الا فتح لی.

    ابو يعلی، المسند، 13 : 138، رقم : 7183
    عسقلانی، الا صابه فی تمییز الصحابه، 1 : 414
    واقدی، المغازی، 2 : 884

    ’’میں نے جدھر بھی رخ کیا اس موئے مبارک کی برکت سے فتح حاصل کی۔‘‘

    اسی طرح تاریخ واقدی میں یہ واقعہ درج ہے کہ جنگ یرموک کے ایک معرکے میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ایک نسطور نامی پہلوان سے ہوا۔ یہ مقابلہ دیر تک رہا، اچانک حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرا اور آپ کی ٹوپی زمین پر گرگئی۔ آپ ٹوپی اٹھانے میں لگ گئے اور اتنے میں وہ پہلوان آپ کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔ آپ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اللہ تم پر رحم کرے۔ میری ٹوپی مجھے واپس دلادو۔ ٹوپی آپ کو دی گئی جسے پہن کر آپ رضی اللہ عنہ نسطور پر غالب آگئے اور اس کا کام تمام کر دیا۔ بعد میں لوگوں نے کہا آپ نے یہ کیا حرکت کی اور ایک ٹوپی کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال لیا۔ آپ نے بتایا کہ وہ ٹوپی معمولی ٹوپی نہ تھی کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک سلے ہوئے تھے۔

    زیارتِ موئے مبارک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    [​IMG]
    پیارے دوستو ، اب دلوں کو تھام لیجئے کہ سعادت کا وہ لمحہ آپہنچا جس کا وعدہ آپ سے کیا گیا تھا ۔ اپنی زبانوں پر صلاۃ و سلام کے ترانے سجا لیجیئے اور چشمِ تصور میں آقا کے زمانہ مبارک میں پہنچ جائیے ، کس طرح ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم حجام سے سر منڈوا رہے ہوں گے اور کسطرح صحابہ کرام وارفتگی کے عالم میں پروانوں کی طرح اپنے محبوب آقا کے ایک بال کے حصول کیلئے کوشش کرتے ہوں گے ۔ سبحان اللہ، کیا سہانا منظر ہوگا ۔ زیارتِ موئے مبارک کی اس ویڈیو کو دیکھ کر بار بار ہچکیاں بندھ جاتی ہیں اور آنسووں کا سیلاب آنکھوں سے خود بخود ہی جاری ہونے لگتا ہے ۔ بس اتنی گزارش ہے کہ صلے میں اور کچھ نہیں مانگتا ، بس جس لمحے آپ بھی اس کیفیت سے گزریں تو اس عاجز کی مغفرت کیلئے دعا کردیجئے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے حال پر اپنا خاص لطف و کرم فرمائے اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی چنگاری ہمارے من میں بھی روشن ہوجائے ۔ آمین !

    زیارت موئے مبارک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے یہاں کلک کریں
    [​IMG]
     
  2. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ

    دوستوں سے گزارش ہے کہ اس بارے میں اگر اور ویڈیوز یا تصاویر مل سکیں تو یہاں شیئر کرکے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فروغ کیلئے اپنا اپنا حصہ ڈالیں ۔ شکریہ۔

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ

    جزاک اللہ محمد اکرم جی!
    بہت پیارا تحفہ دیا آپ نے۔ اللہ کریم آپ کو دنیا و آخرت کی خوشیاں عطا فرمائے۔ اور ہم سب کے قلوب کو عشقِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منور و معطر فرمائے
    آمین یا رب العالمین
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ

    اکرم جی، جزاک اللٌہ، خوش رھیں،!!!!

    اور الله تعالیٰ ھمیں سچی محبت کے ساتھ ساتھ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر صدق دل سے عمل کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے، آمین ثمہ آمین ،!!!!!.....
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ

    جزاک اللہ العظیم
     
  6. سانا
    آف لائن

    سانا ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    49,685
    موصول پسندیدگیاں:
    317
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ

    [​IMG]
    شکریہ ۔
     
  7. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ

    جی ، بالکل ، لیکن سچی محبت میں یہ سب شامل ہے ، نہ جانے اس اضافے کی ضرورت کیوں محسوس کی آپ نے۔
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ

    معذرت چاہتا ہوں، اللٌہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، آمین،!!! میں نے اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس کا اضافہ کردیا،!!!

    بہت شکریہ اکرم جی، میری اس غلطی کی طرف توجہ دلانے کے لئے،،!!!!

    خوش رہیں،!!!!
     
  9. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیارے دوستوں کیلئے تحفہ خاص - زیارتِ موئے مبارک ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ

    پیارے ہم نام آپ کے تحفے کی مثال نہیں بُہت شُکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں