1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔
  1. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    739ء

    دمشق کے باہررصافہ کے مقام پر اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کا دربار لگا ہوا ہے۔خلیفہ کی سلطنت فرانس کی سرحدیں سے لے کر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی ہیں، جس کا اظہار دربار کے شان و شکوہ اور وقار سے ہو رہا ہے۔ سنگِ مرمر کے عالی شان ستونوں پر نازک حریری پردے لہرا رہے ہیں جن پر سونے کے تاروں سے کڑھائی کی گئی ہے۔ تخت نشین خلیفہ کے پیچھے مسلح خواجہ سرا ہاتھ باندھے مستعد کھڑے ہیں۔ ایک طرف تمام اعلیٰ عمال اور سردارحسبِ مراتب ایستادہ ہیں جب کہ خلیفہ کے دائیں ہاتھ پر اموی خاندان کے سرکردہ عمائد اور شہزادے موجود ہیں۔ انھی میں ولی عہد ولید بن یزید ثانی بھی ہے۔ قطار کے آخر میں ایک سرخ بالوں والا لڑکا مودب اور باملاحظہ کھڑا ہے۔ یہ خلیفہ کے دوسرے بیٹے عبدالملک کا چشم و چراغ ہے۔

    حاجب اعلان کرتا ہے:

    ’ہسپانوی شہزادی سارہ قُوطیہ باریابی کی طلب گار ہیں۔‘

    خلیفہ کے سر کا خفیف سا اشارہ پا کر حاجب الٹے قدموں باہر چلا جاتا ہے اور کچھ دیر کے بعد شہزادی اور اس کے بھائیوں کو لے کر خدمتِ عالیہ میں پیش کرتا ہے۔ ہسپانوی شہزادی کی عمر بہ مشکل پندرہ برس ہے، لیکن اس کی آنکھوں میں اعتماد کی چمک ہے۔ یہ شہزادی ہزاروں میل کا سفر انتہائی پرخطر اور دشوار گزار سفر طے کر کے امیر المومنین کی خدمت میں فریادی بن کر حاضر ہوئی ہے۔ ایسا جوکھم کا سفر جس کا تصور کر کے ہی بڑے بڑوں پر لرزہ طاری ہو جائے۔

    اس نے اس طویل سفر کا آغاز ہسپانوی شہر اشبیلیہ سے کیا تھا۔ اپنے دو کم سن بھائیوں کو لے کر وہ کشتی کے ذریعے دریائے کبیرکے راستے بحیرہٴاقیانوس کے دہانے تک پہنچی، جہاں سے اس نے نسبتاً بڑی کشتی میں بیٹھ کر بحیرہٴ روم کا سفر اختیار کیا اور آبنائے جبرالٹر سے ہوتی ہوئی قدیم فلسطینی بندرگاہ عسقلان تک پہنچ گئی۔ وہاں سے دارالخلافہ دمشق تک پونے دو سو میل کی بقیہ مسافت خشکی کے راستے طے ہوئی۔

    اس سفر کے دوران کتنی بار بحری قزاقوں کا خطرہ لاحق ہوا، کتنی بار کشتی طوفانی موجوں میں گھر گئی، ارضِ فلسطین سے گزرتے ہوئے کتنی ایسی خستہ حال سراؤں میں قیام کرنا پڑا جہاں شہزادی کی دمکتی رنگت، بھورے بال اور نامانوس لباس اور نشت برخاست دیکھ کر دوسرے مسافر شک میں مبتلا ہو ئے۔ وہ تو بھلا ہو شہزادی کے دو وفادار عرب ملازموں کا، جو ایسے ہر موقعے پر سینہ سپر ہو گئے ورنہ اس زمانے میں کسی عورت کے لیے اتنا لمبا سفر کرنا ناممکن تھا۔

    امیر المومنین نے ہاتھ اٹھا کر شہزادی کا خیر مقدم کیا اوراجازت دی کہ وہ اپنی درخواست پیش کرے۔ سائلہ مترجم کے ذریعے معروض گذار ہوئی کہ وہ سلطنتِ ہسپانیہ کے آخری وزی گاتھک بادشاہ وتیزا کی پوتی ہے۔ طارق بن زیاد کے جبل الطارق پر اترنے سے ایک برس قبل بادشاہ کا جلاوطن بھتیجا راڈرک اٹلی سے لشکر لے کر حملہ آور ہوا اور وتیزا کو اس کی راج دھانی طلیطلہ سے معزول کر کے اندھا کر دیا اور قرطبہ کے زندان میں ڈال دیا۔

    اگرچہ اگلے ہی برس طارق بن زیاد نے راڈرک کی افواج کو شکستِ فاش دے کر تمام ہسپانیہ پر اموی پرچم لہرا دیا، لیکن اکثر علاقوں میں اس نے اور بعد میں ہسپانیہ میں اترنے والے شمالی افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر نے اکثر علاقوں میں ہسپانوی سرداروں ہی کو برقرار رکھا۔سارہ کے والد اشبیلیہ کے امیر تھے، لیکن ان کے انتقال کے بعد سارہ کے چچا ارطوباس نے اپنے بھائی کی تمام جائیداد پر قبضہ کر کے سارہ کو بے دخل کر دیا۔ اگرچہ اموی عمال نے حکم جاری کیا تھا کہ اسلامی قانون کے تحت بیٹی کو باپ کی جائیداد وراثت میں مل سکتی ہے، لیکن اس دوران اسلامی سلطنت کا دُور افتادہ ہسپانوی صوبہ اس قدر بد نظمی کا شکار تھا کہ ہر مہینے کہیں نہ کہیں بغاوت سر اٹھا لیتی تھی۔ ادھر خود خلافتِ بنو امیہ عباسیوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار، خارجیوں کے فتنے اور بربروں کی شورش جیسے دوسرے کئی مسائل میں الجھی رہی کہ اس حکم پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔

    اب سارہ ، جس نے رضا و رغبت سے مذہبِ اسلام قبول کر لیا ہے، خود اپنی عرضی لے کر خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہے اور چاہتی ہے کہ اسلامی قانون کی تحت بیٹی کو اس کے باپ کی جائیداد میں حصہ دیا جائے۔

    خلیفہ المومنین ہشام بن عبدالملک سارہ کی جرات اور حوصلہ مندی سے بے حدمتاثر ہوا۔ اس نے فوراً شمالی افریقہ کے امیر حنطلہ ابن صفوان قلبی کے نام فرمان بھیجا کہ سارہ کی تمام جائیداد فی الفور اس کے حوالے کی جائے اوراس سلسلے میں اس کی ہر ممکن مدد کی جائے۔

    خلیفہ نے مزید عنایت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارہ کی شادی اپنے درباری عیسیٰ ابنِ مزاحم سے بھی کروا دی۔ یہ جوڑا اکٹھے اشبیلیہ پہنچا، جہاں شاہی فرمان کے مطابق اندلس کے امیر ابو خطاب قلبی نے تمام ضروری کارروائی پہلے ہی مکمل کر دی تھی۔

    سارہ اور عیسیٰ کے دو بیٹے ہوئے، ابراہیم اور اسحٰق۔ سارہ کی کہانی ہم تک ابراہیم کے پوتے ابو بکر ابن قُوطیہ کے ذریعے پہنچی ہے، جو فخر سے اپنے نام کے ساتھ ابنِ قوطیہ لکھتا تھا، جس کا مطلب ہے ’گاتھک عورت کا بیٹا۔‘

    755ءمیں عیسیٰ کا انتقال ہو گیا اور سارہ ایک بار پھر بے یار و مدد گار رہ گئی۔ لیکن اسی دوران ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے الاندلس کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ سارہ نے سنا کہ قرطبہ میں ایک نوجوان اموی شہزادے نے آ کر امارت کا دعویٰ کر دیا ہے۔ سارہ نے سولہ برس قبل دمشق کے دربار میں کئی اموی شہزادوں کو دیکھا تھا، اس لیے وہ دوبارہ وہی عرضی لے قرطبہ پہنچ گئی۔ وہاں جا کر اس نے دیکھا کہ ہشام بن عبدالملک کے دربار میں اس نے جس سرخ بالوں والے دبلے پتلے آٹھ سالہ بچے کو خلیفہ کے دائیں جانب قطار کے آخر میں ہاتھ باندھے اور نظریں جھکائے کھڑا دیکھا تھا، اس کا نام عبدالرحمٰن تھا اور وہ خلیفہ کے بیٹے معاویہ کا فرزندِ ارجمند تھا۔ اب وہی عبدالرحمٰن تاریخ کے عجیب و غریب پھیر کے تحت قرطبہ پہنچ کر وہاں کا امیر بن گیا تھا۔ عبدالرحمٰن کی داستان رونگٹے کھڑے کر دینے والی سنسنی خیزی اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی ڈرامائی صورتِ حال کی وجہ سے کسی جاسوسی ناول سے کم نہیں ہے۔
    ماخوز۔۔۔۔۔۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داستان قرطبہ

    بہت بہت شکریہ
     
  3. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: داستان قرطبہ

    شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں