1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امت مسلمہ اور خطرہء شرک

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏23 نومبر 2007۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ، قال: صلى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم على قتلى احد بعد ثماني سنين كالمودع للاحياء والاموات، ثم طلع المنبر، فقال: اني بين ايديكم فرط، وانا عليكم شہيد، وان موعدكم الحوض، واني لانظر اليہ من مقامي ھذا، واني لست اخشى عليكم ان تشركوا، ولكني اخشى عليكم الدنيا ان تنافسوھا۔ قال: فكانت آخر نظرۃ نظرتھا الى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم۔

    حوالہ جات:
    1۔ صحيح البخاري، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، جلد 4، صفحہ نمبر 1486، رقم الحدیث: 3816۔
    2۔ صحيح مسلم، کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبینا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصفاتہ، جلد 4، صفحہ نمبر 1796، رقم الحدیث: 2296۔
    3۔ سنن ابی داود، کتاب الجنائز، باب المیت یصلی علی قبرہ بعد حین، جلد 3، صفحہ نمبر 216، رقم الحدیث: 3224۔
    4۔ مسند احمد بن حنبل، جلد 4، صفحہ نمبر 154۔
    اسکے علاوہ المعجم الکبیر للطبرانی، السنن الکبری للبیہقی اور الآحاد والمثانی للشیبانی میں بھی یہ حدیث درج ہے۔

    ترجمہ:

    "حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے شہداء اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مردوں کو الوداع کہ رہے ہوں۔ پھر خورشیدِ رسالت صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے منبر پر طلوع فرمایا اور ارشاد فرمایا: میں تمہارا پیش رَو ہوں، اور میں تم سب پر گواہ ہوں۔ ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیا داری کی محبت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میرا یہ حضور نبی اکرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا۔"

    فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم و تربیت جس انداز میں کر دی تھی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ پوری اُمت یا اس کا اکثر حصہ (صوادِ اعظم) شرک میں مبتلا ہو جائے گا، البتہ بعض بدبخت لوگوں کا مرتد ہوکر کوئی اور مذہب اختیار کرلینا یا ملحد و بے دین ہوجانا اِس حدیث مبارکہ میں کی گئی پیش گوئی کے خلاف نہیں۔

    البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشہ تھا کہ یہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوکر دین سے انحراف کر کے ، اور دنیا کو دین پر ترجیح دینے کے فتنے میں مبتلا ہو کر تباہ و بربادی کی راہ پر چل نکلے گی۔

    آج ہمیں بطور مسلمان اپنے گردو پیش پر بغور نظر ڈال کر جائزہ لینا ہوگا کہ عقائد میں شرک شرک کے فتوے دینے والے حضرات اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کہاں تک پیروی کررہے ہیں جنہوں نے مدحتِ رسول صلی اللہ علیھم وسلم، شانِ اہلبیت و صحابہ کرام، تعظیمِ اولیاء کرام جیسی ایمان پرور تعلیمات پر بھی شرک و بدعت کے فتوے بازی کا ٹھیکہ لیا ہوا کہ ۔ انکے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ بانیء اسلام ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جن کی زبان اقدس سے کلام الہی صادر ہوتا ہے (وما ینطق عن الھویٰ ۔ ان ھو الا وحی یوحیٰ )، وہ تو اپنی تعلیم و تربیت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ فرما رہے ہیں کہ مجھے اپنی امت سے یہ خدشہ نہیں رہا کہ تم پہلی امتوں کی طرح خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا کر شرک کے مرتکب ہو جاؤ گے۔ بلکہ خدشہ صرف یہ تھا کہ ہم (یعنی امت) دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر اپنی دنیا و آخرت خراب کر بیٹھیں گے۔

    ایک تشکیک کا ازالہ :

    اس حدیث کو پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ شاید اس وقت مخاطب تو صرف صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) تھے۔ تو شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان کے لیے فرمایا ہو گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم شرک میں مبتلا نہ ہوں‌گے۔

    وضاحت کے لیے عرض کر دوں کہ پوری حدیث پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فرمان پوری امت کے لیے تھا۔ کیونکہ
    1- حوض کوثر پر صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہی نہیں بلکہ بعد کے ہزاروں لاکھوں (یا شاید کروڑوں ، اربوں) امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں گے۔
    2۔ اگر مخاطب صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم ہوں تو معاذ اللہ استغفراللہ دنیا پرستی میں مبتلا ہونے کا الزام بھی صحابہ کرام کو ہی دینا پڑتا ہے جو کہ قرینِ قیاس بھی نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ ایسا مان لینے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان میں بےشمار ارشادات کی نفی ہوتی ہے۔ جو کہ فنِ حدیث کی رو سے بھی غلط ہے اور عام مسلمان کا ایمان بھی اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

    سو ماننا پڑتا ہے کہ یہ حدیث پاک اور اسکے مخاطب پوری امت مسلمہ ہیں۔ اور ہمیں اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیئے کہ اس نے ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ایسا پختہ ایمان نصیب ہو گیا کہ ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس امت سے مجموعی طور پر شرک کا خطرہ نہ تھا۔

    دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دنیا پرستی اور اسکے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین
     
  2. محمدعبیداللہ
    آف لائن

    محمدعبیداللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 فروری 2007
    پیغامات:
    1,054
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ،
    برادر
    پہلے مولانا حنیف قریشی صاحب کے اک خطاب میں یہ مبارک حدیث سنی تھی اور آپ نے اب حوالہ بھی دے دیا جو کہ نیٹ پر ضروری ہوتا
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ۔ برادر بھائی ۔
    اتنی مفید حدیث پاک اور اس پر تفصیلی تشریح پر بہت شکریہ ۔
     
  4. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ثم آمین۔
    برادر بھائی ۔ میں بیان نہیں کرسکتی کہ یہ حدیث پاک بمعہ حوالہ جات مجھے کتنے عرصے سے مطلوب تھی ۔ آپ نے میرا بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا۔ یہاں میری چند کولیگز ہمیشہ مسلمانوں پر شرک شرک کے فتوے لگاتی رہتی ہیں۔
     
  5. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ماشاءاللہ برادر بھائی بہت خوبصورت طریقہ سے آپ نے بات کی! جزاک اللہ خیر!
    حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی احادیث میں موجود پیغام کو سمجھنے کے لیئے علم اور عقل دونوں کا ہونا ضروری ہے۔
     
  6. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    برادر فرماتے ہیں
    اس حدیث کو پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ شاید اس وقت مخاطب تو صرف صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) تھے۔ تو شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان کے لیے فرمایا ہو گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم شرک میں مبتلا نہ ہوں‌گے۔

    فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی تعلیم و تربیت جس انداز میں کر دی تھی ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ پوری اُمت یا اس کا اکثر حصہ (صوادِ اعظم) شرک میں مبتلا ہو جائے گا، البتہ بعض بدبخت لوگوں کا مرتد ہوکر کوئی اور مذہب اختیار کرلینا یا ملحد و بے دین ہوجانا اِس حدیث مبارکہ میں کی گئی پیش گوئی کے خلاف نہیں۔

    البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خدشہ تھا کہ یہ امت دنیا پرستی میں مبتلا ہوکر دین سے انحراف کر کے ، اور دنیا کو دین پر ترجیح دینے کے فتنے میں مبتلا ہو کر تباہ و بربادی کی راہ پر چل نکلے گی۔

    آج ہمیں بطور مسلمان اپنے گردو پیش پر بغور نظر ڈال کر جائزہ لینا ہوگا کہ عقائد میں شرک شرک کے فتوے دینے والے حضرات اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کہاں تک پیروی کررہے ہیں جنہوں نے مدحتِ رسول صلی اللہ علیھم وسلم، شانِ اہلبیت و صحابہ کرام، تعظیمِ اولیاء کرام جیسی ایمان پرور تعلیمات پر بھی شرک و بدعت کے فتوے بازی کا ٹھیکہ لیا ہوا کہ ۔ انکے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ بانیء اسلام ، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جن کی زبان اقدس سے کلام الہی صادر ہوتا ہے (وما ینطق عن الھویٰ ۔ ان ھو الا وحی یوحیٰ )، وہ تو اپنی تعلیم و تربیت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ فرما رہے ہیں کہ مجھے اپنی امت سے یہ خدشہ نہیں رہا کہ تم پہلی امتوں کی طرح خدا کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا کر شرک کے مرتکب ہو جاؤ گے۔ بلکہ خدشہ صرف یہ تھا کہ ہم (یعنی امت) دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر اپنی دنیا و آخرت خراب کر بیٹھیں گے۔


    آپ کے خیالات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امت مسلمہ شرک کے گناہ میں ملوث ہونے سے مبرا ہے۔ اگر آپ واقعی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو پھر آج کل ہر کوئی شرک کے فتوے کیوں دیتا پھر رہا ہے؟ پھر یہ بھی ہے کہ شرک کے بارے میں کئی اظہر من الشمس نوعیت کی احادیث موجود ہیں جن کی روشنی میں شرک کی تعریف آسانی سے متعین کی جا سکتی ہے اور اس تعریف پر پورا اترنے والے بھی کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں تو کیا آپ کے نزدیک وہ لوگ امت محمدیہ :saw: میں شامل نہیں ہیں؟ اپنی پوسٹس کی تعداد بڑھانے کے لیے واہ واہ کے نعرے لگانے والے مجھ جیسے لوگ آپ کو بہت ملیں گے لیکن اگر آپ شرک کے بارے میں حضور اکرم :saw: کے ارشادات مبارک بھی تحریر فرما دیں تو سب کا بھلا ہو گا۔
     
  7. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    سیف بھائی آپ کسی بھی فرقہ کو دیکھ لیں۔ چاہے وہ سنی ہو بریلوی ہو یا شیعہ یا جو بھی ہو ان میں سے کوئی بھی خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں ٹھرائے گا۔ صحیح؟
    آجکل زیادہ تر لوگ صرف واہ واہ کے لیئے دینی خدمات سر انجام نہیں دے رہے بلکہ انہوں نے دین کو دولت کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ آپ پیروں کے پاس جا کے دیکھ لیں انہوں نے تصوف کا نام بدنام کیا ہوا ہے۔ یہ لوگ پیری فقیری (جو کہ اسلام کا ہی ایک صحیح پہلو ہے ) کو روپے پیسے کی سیڑھی بنا کر کمزور اعتقاد والوں سے روپے پیسے اینٹھتے ہیں لیکن نام تو اللہ کا ہی لیتے ہیں۔ سجدہ صرف اسی کو کرتے ہیں۔سو ایسے لوگ دنیا حاصل کرنے کے لیئے ایک انتہائی غلط کام کر رہے ہیں

    برادر بھائی کے پیغام کے آخری حصہ پہ کھلے دل دماغ سے غور فرمایئے۔ پہلی امتوں نے اللہ کو بھول کر دوسری دنیاوی چیزوں کو خدا مان لیا تھا۔ مسلمان یہ نہیں کریں گے بلکہ دنیا کی چیزوں میں دل لگا کر اپنی دنیا و آخرت خراب کر بیٹھیں گے۔ مسلمانوں کے جتنے بھی فرقے ہیں سب ایک اللہ کی ہی عبادت کرتے ہیں۔ اور دلوں کا حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اچھا سوال ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہر کوئی شرک کے فتوے نہیں دے رہا، بلکہ امت کے اندر ایک خاص طبقہ پچھلی ڈیڑھ دو صدیوں سے نکلا ہے۔ جس نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ اب رہ گیا سوال کہ یہ طبقہ کیوں شرک کے فتوے دیتا ہے۔ اس “کیوں“ کا جواب عرض کرتا ہوں۔

    برادر بھائی کی مندرجہ بالا بیان کی گئی حدیث صحیح جس کو جھٹلانا کسی بھی اہل علم کے بس کا روگ نہیں۔ اور پھر اسکی تائید میں بخاری شریف سمیت دیگر کتب صحیحیہ کی مندرجہ ذیل حدیث پاک بھی ملاحظہ فرما لی جائے۔

    عَنْ حُذَيْفَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم : اِنَّ مَا اَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَۃَ الْقُرْآنَ حَتَّی اِذَا رُئِيَتْ بَھْجَتُہُ عَلَيْہِ وَ کَانَ رِدْئًا لِلْاِسْلَامِ غَيْرَہُ اِلَی مَاشَاءَ اﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْہُ وَ نَبَذَہُ وَرَاءَ ظُھْرِہِ وَ سَعَی عَلَی جَارِہِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاہُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ اﷲِ، اَيُھُمَا اَوْلَی بِالشِّرْکِ الْمَرْمِيُّ اَمِ الرَّامِي قَالَ : بَلِ الرَّامِي.

    رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِيْخِ، ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ واِسْنَادُہُ حَسَنٌ.
    (والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 301، الرقم : 2907، ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220، الرقم : 2793، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 88، الرقم : 169، و في مسند الشاميين، 2 / 254، الرقم : 1291، والہيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 188، و قال : اسنادہ حسن، و ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 266.

    ’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا۔‘‘

    اب پہلی بات تو یہ یاد رکھ لیں کہ اس ایک شخص سے مراد ضروری نہیں کہ ایک ہی شخص ہو۔ بلکہ اس سے مراد ان خصائل کا حامل ہر “ایک شخص“ ہوگا۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بے شمار ایسے مقامات ہیں جن میں کسی پوری قوم ، کسی پورے طبقے یا گروہ کو بھی اکائی کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے۔

    ہمیں اپنے ارد گرد ایک نظر عمیق دوڑانے سے بخوبی پتہ چل جائے گا کہ وہ کونسا طبقہ ہے، کہاں‌ سے نکلا ہےاور تاریخ اسلام کے کس دور میں وارد ہوا ہے کہ جو صدیوں سے امت کے متفقہ عقیدے پر پچھلی ڈیڑھ دو صدیوں سے اٹھ کر اچانک “شرک، بدعت، گمراہی“ کے فتوے دینا شروع ہو گیا ہے۔

    اگر ہم خود برصغیر پاک و ہند کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہی 40 یا 50سال پیچھے چلے جائیں تو یہ بات اظہرمن الشمس ہوتی ہے کہ پہلے برصغیر اور پھر پاکستان کے اندر مختلف طبقاتِ فکر کے ہاں اختلاف رائے ضرور تھا۔ اس پر مناظرے ، مباحثے بھی ہوتے تھے۔ لیکن کسی کی مسجد، کسی کی عبادت گاہ یا کسی امام بارگاہ کے اندر بم دھماکے، کلاشنکوف کے فائر اور قتل عام نہیں ہوتا تھا۔ ایک مخصوص طبقہ ایک سعودی حکومت اور امریکہ کے منظور نظر ایک خاص ڈکٹیٹر کے دور میں میں پروان چڑھا ، مختلف طبقہ ہائے فکر میں نفرتوں کی آگ بھڑکائی ۔ کفر کفر، شرک شرک کے فتوے دیے، اور ایک خاص طبقے کے لوگوں کو کافر قرار دے کر انہیں مارنا جنت کی ضمانت قرار دے دیا۔ نتیجتاً جواباً اس طبقے کی پشت پناہی کرنے والے ایک ہمسائے ملک نے اپنے ہم خیال طبقے کو بھی سپورٹ کی اور یوں فرقہ پرستی اور نفرت کا ایسا الاؤ بھڑکا کہ جس میں ہماری قوم کا سارا جسم جل اٹھا۔

    لیکن الحمد للہ۔ سوادِ اعظم جو دنیائے اسلام میں اور پاکستان میں مجموعی طور پر ہمیشہ کثرت میں رہے ہیں۔ انہوں نے اعتدال ، امن و آشتی اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ اور وہ آج بھی دین اسلام کی پوری دنیا میں دینِ امن و سلامتی کے طور پر متعارف کروانے کی عظیم دینی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔
     
  9. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    نعیم بھائی ۔ آپ کی پیش کردہ حدیث پاک سے بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ حضور نبی پاک :saw: کے فرمان کا یہ حصہ جس میں‌اس شخص (یا طبقے) کے قرآن پسِ پشت پھینکنے کا بیان ہے۔ تو دیگر توجیحات و مطالب کے علاوہ یہ بات بھی بخوبی واضح ہے کہ قرآن حکیم کو کتاب اللہ سمجھ کر تکریم کرنے کی بجائے اسے ایک عام کتاب کی طرح استعمال کرتے ہوئے اسکی بے ادبی کا مرتکب ہونے والا طبقہ بھی یہی ہے۔ باالخصوص سعودی میڈ اسلام کے پیروکار تو قرآن حکیم کو سرہانے کے طور پر بھی استعمال فرما لیتے ہیں۔ گھٹنے یا قدموں کے برابر بلکہ فرش پر رکھنا بھی عام معمول ہے۔

    اور اس پاک کتاب کو تعظیم و تکریم اور کلام الہی سمجھ کر محبت سے چومنے پر شرک و بدعت کے فتووں کی بارش بھی شروع کر دیتے ہیں۔

    اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
     
  10. حسن نظامی
    آف لائن

    حسن نظامی ممبر

    شمولیت:
    ‏16 جون 2007
    پیغامات:
    40
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    یہ حدیث کتب ستہ میں اس کثرت سے موجود ہے کہ اس کی حجیت سے انکار کرنا بالکل بھی درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا ــ

    صرف بخاری نے اسے 5 مرتبہ ذکر کیا ہے ــ اور بنیادی طور پر شرک کی بھی اقسام ہیں ــ شرک فی الذات کا تصور اوائل اسلام سے لے کر اب تک کہیں بھی مسلمانوں میں موجود نہیں رہا ــ اگر ہے تو کہاں؟ یہ سوال میں سیف سے کرنا چاہوں گا ــ جو اتنی شد و مد سے کہہ رہے ہیں کہ امت شرک سے مبرا نہیں ـــ
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    بہن بھائیوں سے درخواست ہے کہ نیچے دیئے گئے لنک پہ کلک کر کے مولانا کی تقریر کو غور سے سنیں۔ ماشاءاللہ مولانا کی تقریر سے مجھے اس حدیث کی بہتر انداز میں سمجھ آئی جس میں حضور :saw: نے فرمایا کہ تمھارا دین اس وقت تک مکمل نہیں ہو جاتا جب تک میں تمھیں دنیا کی ہر چیز سے پیارا نہ ہو جاؤں۔ اگر کسی کو حدیث مبارکہ کے exact الفاظ یاد ہیں تو براہِ مہربانی ادھر ارسال کر دیں۔ آپ خود دیکھیئے کہ شیعہ سنی میں جو اختلاف ہے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی وجہ سے ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو کافر اور مشرک صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت میں آ کر کہتے ہیں اور جیسا کہ مولانا نے بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اسی سے پھر یہود و نصاریٰ کو اپنا کام کر دکھانے کا موقعہ ملتا ہے۔ اللہ سےد عا ہے کہ وہ آپ کو کھلے دل کے ساتھ اس تقریر کو سننے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین!
     
  12. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
  13. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    سید حسن نظامی صاحب میں نے صرف برادر کے خیالات کو دھرایا ہے۔ احادیث نبوی میں شرک کی کئی اقسام بیان کی گئی ہیں کیا اب ہم میں سے اکثریت ان میں مبتلا نہیں ہے؟ زیر بحث حدیث سے جو نتائج اخذ کئے جا رہے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں؟ برادر نے لکھا ہے “مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیا داری کی محبت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔“ حدیث کے الفاظ میں دونوں جگہ “اخشى “ استعمال ہوا ہے جبکہ ایک جگہ اس کا ترجمہ “اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے“ کیا گیا ہے اور دوسری جگہ “اندیشہ“- اگر دونوں جگہ ترجمہ “اندیشہ“ کیا جائے تو بات قدرے مختلف ہو جاتی ہے- اگر یہ سمجھا جائے کہ امت شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتی تو کیا ایسا سمجھنا درست ہو گا- میرا خیال ہے کہ نہیں- آپ کو یقینا“ علم ہو گا کہ کفار مکہ بھی اللہ کو خالق اور رب مانتے تھے جبکہ دیوی دیوتا ان کے نزدیک اللہ کے ہاں سفارشی اور مدد گار کی حیثیت رکھتے تھے۔ شرک فی الذات تو وہاں بھی نہیں تھا۔ سید صاحب حدیث مبارکہ سے انکار کس کافر نے کیا ہے؟ میں تو اس مفہوم پر معترض ہوں جو اس سے اخذ کیا جا رہا ہے-
     
  14. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے

    مسز مرزا آپ کو دیا ہوا لنک دیکھا اور خوشگوار حیرانگی ہوئی کہ پاکستان میں ڈاکٹر طاہر القادری کے علاوہ بھی ایسے علماء موجود ہیں جو اتحادِ امت کے لیے کام کر رہے ہیں

    اللہ کرے ہمارے علماء لوگوں کو آپس میں لڑانے کی بجائے اتحاد کی تبلیغ کریں ۔۔۔

    جس موضوع پر اس لڑی میں بحث چل رہی ہے اس بارے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تصانیف کا مطالعہ کرنے کے لیے اس ربط کو چیک کریں

    http://www.minhajbooks.com/books/index. ... &mod=btext

    خوش رہیں
     
  15. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    محترم نوید بھائی
    وعلیکم السلام
    جو لنک میں نے بھیجا ہے وہ میرے عزیز بھائی محترم پیا صاحب “اسلام اور عصر حاضر“
    کی ایک لڑی میں پہلے ہی بھیج چکے ہیں۔ میں نے یہاں اس خیال کے پیش نظر دوبارہ ارسال (کاپی ) کر دیا کہ شائد کچھ بہن بھائیوں کی نظر سے نہ گزرا ہو۔

    http://www.oururdu.com/forum/viewtopic. ... 5&start=30
     
  16. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    محترم سیف صا حب اگر آپ کو مزکورہ بالا حدیث سے جو مفھوم اخذ کیا جارہا ہے؟ اس سے اختلاف ہے تو پھر آپ وہ مفھوم بتا دیں جو آپ کے نزدیک معتبر ہے۔ باقی باتیں آپ سے بعد میں ہونگی ان شاء اللہ
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. پوش خان
    آف لائن

    پوش خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2007
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    محترم سیف صا حب اگر آپ کو مزکورہ بالا حدیث سے جو مفھوم اخذ کیا جارہا ہے؟ اس سے اختلاف ہے تو پھر آپ وہ مفھوم بتا دیں جو آپ کے نزدیک معتبر ہے۔ باقی باتیں آپ سے بعد میں ہونگی ان شاء اللہ[/quote:1wu4f9rw]

    آبی ٹوکول بھائی آپ کو سیف بھائی نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ ان کومفہوم سے کہاں اختلاف ہے لیکن میں ایک دفعہ پھر یہاں اس کو واضح کر دیتا ہوں۔

    عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ، قال: صلى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم على قتلى احد بعد ثماني سنين كالمودع للاحياء والاموات، ثم طلع المنبر، فقال: اني بين ايديكم فرط، وانا عليكم شہيد، وان موعدكم الحوض، واني لانظر اليہ من مقامي ھذا، واني لست اخشى عليكم ان تشركوا، ولكني اخشى عليكم الدنيا ان تنافسوھا۔ قال: فكانت آخر نظرۃ نظرتھا الى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم۔

    "حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے شہداء اُحد پر (دوبارہ) آٹھ سال بعد اس طرح نماز پڑھی گویا زندوں اور مردوں کو الوداع کہ رہے ہوں۔ پھر خورشیدِ رسالت صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے منبر پر طلوع فرمایا اور ارشاد فرمایا: میں تمہارا پیش رَو ہوں، اور میں تم سب پر گواہ ہوں۔ ہماری ملاقات کی جگہ حوضِ کوثر ہے اور میں اس جگہ سے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ اور مجھے تمہارے متعلق اس بات کا تو ڈر ہی نہیں ہے کہ تم شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے بلکہ تمہارے متعلق مجھے دنیا داری کی محبت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میرا یہ حضور نبی اکرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم کا آخری دیدار تھا۔"

    مذکورہ بالا حدیث میں دونوں جگہ “اخشى“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جسکا مطلب ہے “اندیشہ“ اور انگلش میں "afraid"

    “واني لست اخشى“ کا اردو میں سیدھا مطلب ہے “مجھے اندیشہ نہیں ہے“ اور “ولكني اخشى“ کا سیدھا اردو مطلب ہے “ لیکن مجھے اندیشہ ہے“ لیکن برادر بھائی کے اردو ترجمہ میں ایک جگہ اندیشہ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دوسری جگہ “ڈر ہی“ کا۔

    دوسری بہت ہی اہم اور خطرناک بات کہ اردو ترجمہ میں ڈر ہی کالفظ استعمال ہوا ہے جسکا مطلب ہے ڈر پر زور دیا گیا ہے لیکن یہ “ہی“ والا لفظ عربی مفہوم میں کہیں دور دور بھی نظر نہیں آرہا ایسا کیوں ؟؟

    برادر بھائی اور میرے مسلمان بہن بھائیوں میں یہاں ایک بہت ہی خوبصورت کالم پیش کررہا ہوں جو انڈرسٹینڈنگ اسلام پر محمدبلال بھائی نے لکھا ہے۔

    آپ اسکو پڑھیے اور سوچئے اور خود ہی فیصلہ کیجئے کہ کیا ہم اپنے اختلافات پر صحیح طریقے سے بحث کررہے ہیں ؟؟

    فرقہ بندي - علمي پہلو سے

    افسوس ہے كہ ہمارے ہاں مذہبي اختلافات مخالفت بن چكے ہيں، بلكہ مخالفت كے حدود پار كر كے دشمني اور خوں ريزي تك پہنچ چكے ہيں۔ مساجد اور امام بارگاہوں ميں بم دھماكے ہوتے ہيں۔ آئے روز كسي نہ كسي فرقے كي نماياں شخصيت كو سرِ عام موت كے گھاٹ اتار ديا جاتا ہے- اگرچہ ہمارے ہاں موجود تنگ نظري، عدمِ برداشت اور غير جمہوري مزاج كو اس رويے كا سبب كہا جاتا ہے اور درست كہا جاتا ہے، ليكن ہم سمجھتے ہيں كہ اس كے ساتھ ساتھ تين نقطہ ہائے نظر كے اختيار نہ كرنے كو بھي فرقہ بندي كا باعث قرار دياجا سكتا ہے۔ بالفاظِ ديگر يہ تين بڑے حقائق ايسے ہيں جنھيں نہ ماننے كي بنا پر امتِ مسلمہ ميں بڑے بڑے اختلافات پيدا ہوئے جو تنگ نظري، عدمِ برداشت اور غير جمہوري مزاج كي وجہ سے مخالفت، دشمني اور خوں ريزي كي شكل اختيار كر گئے۔

    پہلي حقيقت يہ ہے كہ ختمِ نبوت كے بعد اس زمين كے اوپر اور اس آسمان كے نيچے ہر عقيدے اور ہر عمل كو صحيح يا غلط قرار دينے كي واحد كسوٹي صرف اور صرف قرآنِ مجيد ہے۔ عالم كے پروردگار نے اپني اس كتاب كے بارے ميں اسي پہلو سے خود فرمايا ہے:

    اللہ وہي ہے جس نے حق كے ساتھ كتاب اتاري يعني ميزان نازل كي۔ (الشوريٰ: 32:18)

    بڑي ہي بابركت ہے وہ ہستي جس نے اپنے بندے پر يہ فرقان اتارا۔ (الفرقان:25:1)

    "ميزان" يعني ميزانِ عدل، جس پر تول كر ديكھا جائے كہ كيا صحيح ہے اور كيا غلط۔ "فرقان" يعني حق و باطل ميں فرق كرنے والي، غرض يہ كہ ہر اختلاف، ہر مسئلے، ہر معاملے ميں اس كي بات، آخري بات۔ مگر ہمارے ہاں اس حقيقت كو صحيح معنوں ميں تسليم نہيں كيا جاتا۔ دوسري كتابوں اور دوسرے لوگوں كي باتوں كو قرآن پر فوقيت دے دي جاتي ہے۔ اس سے ظاہر ہے كہ ہم اپنے فكري مركز سے محروم ہو جاتے ہيں۔ پھرعجيب و غريب عقائد تخليق ہونے لگتے ہيں۔ عجيب و غريب نقطہ ہائے نظر وجود ميں آنے لگتے ہيں۔ عجيب و غريب فرقے بننے لگتے ہيں۔ اور پھر يہ فكري انتشار، قومي انتشار كي صورت اختيار كر ليتا ہے۔

    دوسري حقيقت يہ ہے كہ قرآنِ مجيد ايك كتاب ہے۔ ايك منظم اور باربط كتاب۔ يہ الگ الگ اور متفرق آيات كا مجموعہ نہيں ہے۔ يہ نہايت حكيمانہ نظم كي لڑي ميں پرويا ہوا مربوط كلام ہے۔

    امام امين احسن اصلاحي اس ضمن ميں لكھتے ہيں:

    جو شخص نظم كي رہنمائي كے بغير قرآن كو پڑھے گا، وہ زيادہ سے زيادہ جو حاصل كر سكے گا، وہ كچھ منفرد احكام اور مفرد قسم كي ہدايات ہيں۔

    اگرچہ ايك اعلي كتاب كے منفرد احكام اور اس كي مفرد ہدايات كي بھي قدر و قيمت ہے، ليكن آسمان و زمين كا فرق ہے اس بات ميں كہ آپ طب كي كسي كتاب المفردات سے چند جڑي بوٹيوں كے كچھ اثرات و خواص معلوم كر ليں اور اس بات ميں كہ ايك حاذق طبيب ان اجزا سے كوئي كيميا اثر نسخہ ترتيب دے دے۔ تاج محل كي تعمير ميں جو مسالا استعمال ہوا ہے، وہ الگ الگ دنيا كي بہت سي عمارتوں ميں استعمال ہوا ہو گا، ليكن اس كے باوجود تاج محل دنيا ميں ايك ہي ہے۔

    ( تدبرِ قرآن: ج 1 ، ص 22)

    يہي وجہ ہے كہ جب حضور صلي اللہ عليہ وسلم كي قوم نے قرآنِ مجيد كو انساني كلام قرار ديا تو اللہ تعاليٰ نے اس كے الہامي ہونے كي ايك دليل ديتے ہوئے يہ نہيں كہا كہ ايسي بات ہے تو اس كتاب كي آيتوں جيسي كوئي آيت تخليق كر كے پيش كرو، بلكہ يہ كہا كہ اس كي ايك يا ايك سے زائد سورتوں جيسي كوئي سورت بنا كر دكھاؤ۔ سورۃ بقرۃ ميں ہے:

    اور جو كچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل كيا ہے، اس كے بارے ميں اگر تمھيں كوئي شبہ ہے تو (جاؤ اور) اس كے مانند ايك سورہ ہي بنا لاؤ، اور خدا كو چھوڑ كر (اِس كے ليے) اپنے سب حمايتي بھي بلالو، اگر تم (اپنے اس گمان ميں) سچے ہو۔ (2:23)

    اسي طرح سورۃ ہود ميں ہے:

    كيا يہ كہتے ہيں كہ اس نے گھڑ ليا ہے؟ اِن سے كہو، پھر تم بھي ايسي ہي دس سورتيں گھڑي ہوئي لے اور اللہ كے سوا جن كو تم بلا سكتے ہو، انھيں بھي بلالو، اگر تم سچے ہو۔ (11:13)

    فرقہ بندي كے پہلو سے اس حقيقت كو يہاں اس ليے بيان كيا جا رہا ہے كہ اگر كوئي شخص قرآن كو ميزان تو تسليم كرے، مگر اسے ايك باربط كتاب نہ مانے تو قرآن اس كے ليے صحيح معنوں ميں ميزان بن ہي نہيں پاتا۔ اصل ميں قرآنِ مجيد كا اسلوب ادبي ہے اورادب يك سطحي نہيں ہوتا، اس كي كئي سطحيں اور كئي جہتيں ہوتي ہيں۔ يعني اس كے كئي معني ہوتے ہيں۔ ظاہر ہے كہ جب قرآني آيات كے كئي معني نكل رہے ہوں گے تو وہ اپنے ماننے والوں كو ايك نكتے پر جمع نہيں كر سكتا۔ معاذ اللہ اس طرح انتشار كا كام تو خود اسي كے باعث ہونے لگتا ہے۔ يہ نظمِ قرآن ہي ہے جو ہميں مجبور كر ديتا ہے كہ اس كے الفاظ كے وہي معني ليں جو اس كے سياق و سباق سے نكلتے ہيں۔ اور يہ حقيقت ہے كہ ہم ہر كتاب كے ساتھ ايسا ہي معاملہ كرتے ہيں۔ كسي انگريزي كي كتاب ہي كي مثال لے ليں۔ كتاب پڑھتے ہوئے كوئي مشكل لفظ سامنے آئے تو ہم لغت ديكھتے ہيں۔ لغت ميں اس لفظ كے كئي معني لكھے ہوتے ہيں، مگر ہم اسي ايك معني كو ليتے ہيں جسے اس جملے كا سياق و سباق قبول كرتا ہے ۔ مگر قرآنِ مجيد كے معاملے ميں عقلِ عام پر مبني يہ سادہ سي بات نہيں ماني جاتي۔

    امام امين احسن اصلاحي كي "تدبرِ قرآن" وہ تفسير ہے جس ميں اس حقيقت كو صحيح معنوں ميں تسليم كيا گيا ہے۔ چنانچہ ديكھيے، اصلاحي صاحب كہتے ہيں:

    ميں نے اس تفسير ميں چونكہ نظمِ كلام كو پوري اہميت دي ہے ،اس وجہ سے ہر جگہ ميں نے ايك ہي قول اختيار كيا ہے، بلكہ اگر ميں اس حقيقت كو صحيح لفظوں ميں بيان كروں تو مجھے يوں كہنا چاہيے كہ مجھے ايك ہي قول اختيار كرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے، كيونكہ نظم كي رعايت كے بعد مختلف واديوں ميں گردش كرنے كا كوئي امكان ہي باقي نہيں رہ جاتا۔ صحيح بات اس طرح منقح ہو كر سامنے آ جاتي ہے كہ آدمي اگر بالكل اندھا بہرا متعصب نہ ہو تو اپني جان تو قربان كر سكتا ہے، ليكن اس سے انحراف برداشت نہيں كر سكتا۔ (تدبرِ قرآن: ج 1 ،ص22)

    تيسري حقيقت قانون رسالت ہے۔ جب كسي علاقے ميں رسول بھيجا جاتا ہے تو وہاں دراصل قيامت كا ايك نمونہ دكھايا جاتا ہے۔ جو قوم رسول كا انكار كرتي ہے اسے سزا دي جاتي ہے ‐‐‐‐‐ يہ سزا دو صورتوں ميں ملتي ہے۔ ايك صورت ميں اگر رسول كو مناسب تعداد ميں ساتھي ميسر نہ آئيں تو قدرتي آفات كے ذريعے سے ملتي ہے۔ حضرت نوح ، حضرت لوط كي اقوام كو ايسي ہي سزا ملي ۔ دوسري صورت ميں اگر رسول كو سياسي اقتدار حاصل ہو جائے تو سركش قوم كو يہ سزا اس كے ساتھيوں كي تلواروں كے ذريعے سے ملتي ہے۔ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم كي قوم كے حوالے سے دوسري صورت كي سزا كے نفاذ كا اعلان ہوا۔ سورۃ توبہ كے آغاز ہي ميں حكم ہوا كہ ان مشركين كو جہاں كہيں پاؤ قتل كردو ‐‐‐‐ اسي طرح قوم كے وہ افراد جو رسول كي بات مانيں اور اس كا ساتھ ديں انھيں جزا دي جاتي ہے۔ انھيں اس علاقے ميں غلبہ ديا جاتا ہے۔ صحابہٴ كرام كو عرب ميں دوسري اقوام پر جو غلبہ حاصل ہوا وہ اسي قانونِ الٰہي كے تحت تھا۔

    قرآنِ مجيد ميں رسولوں كے بارے ميں يہ قانون ان الفاظ ميں بيان ہوا ہے:

    بے شك، وہ لوگ جو اللہ اور اس كے رسول كي مخالفت كر رہے ہيں، وہي ذليل ہوں گے۔ اللہ نے لكھ ركھا ہے كہ ميں غالب رہوں گا اور ميرے رسول بھي۔ بے شك، اللہ قوي ہے، بڑا زبردست ہے۔

    ( المجادلۃ: 58:20-21)

    مطلب يہ ہے كہ اللہ تعاليٰ كے كچھ احكام اور قوانين ايسے ہيں جو رسولوں اور ان كي براہِ راست مخاطب اقوام كے ساتھ خاص ہيں۔ ان احكام اور قوانين كو اب كسي شخص يا قوم پر نافذ نہيں كيا جا سكتا۔ ان احكام اور قوانين كے لحاظ سے اب كسي شخص يا قوم كے ساتھ كوئي معاملہ نہيں كيا جا سكتا۔ مگر ہمارے ہاں لوگ اس سے واقف بھي نہيں ہیں۔ ہوتا يہ ہے كہ متشدد لوگ يہ خاص احكام اور قوانين ليتے ہيں، ان كا دوسروں پر اطلاق كرتے ہيں، دوسرے فرقے اس قانون سے صحيح طور پر واقف بھي نہيں ہيں۔ وہ اسي قانون سے متعلق اۤيات الہٰي يا سيرت كے واقعات ليتے ہيں اور انھيں كي بنياد پر دوسروں كو كافر قرار ديتے ہيں اور يوں سادہ لوح مذہبي افراد كو كافر فرقے كے لوگوں كو قتل كرنے پر قائل كر ليتے ہيں۔ سادہ لوح افراد بھي ان كي بات كو حكمِ الٰہي سمجھ كر، رضاے الہٰي كے حصول كا ذريعہ سمجھ كر اور جنت ميں داخلے كا پروانہ سمجھ كر دل و جان سے قبول كرتے ہيں اور خوں ريزي كا ايك نہ ختم ہونے والا "مقدس" سلسلہ شروع كر ديتے ہيں۔

    ہمارے ہاں فرقہ بندي كي يہ جڑيں اور بنياديں ہيں۔ جب تك ملك و ملت كے خير خواہ ان كي اہميت نہيں سمجھيں گے، اس وقت تك فرقہ بندي كے خلاف سخت سے سخت بيانات داغے جاتے رہيں گے، كچھ قانوني قسم كے سخت اقدامات بھي ہوتے رہيں گے، مگر مسئلہ جوں كا توں موجود رہے گا۔
     
  18. آبی ٹوکول
    آف لائن

    آبی ٹوکول ممبر

    شمولیت:
    ‏15 دسمبر 2007
    پیغامات:
    4,163
    موصول پسندیدگیاں:
    50
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکیم جناب پوش خان صاحب ۔
    میرے بھائی حدیث میں جو لفظ اخشٰی استعمال ہوا ھے اس کا ترجمہ ہم آپ ہی کے اصول کے مطابق کر دیتے ہیں تو بتائیے کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ پہلے درج زیل ترجمہ ملاحظہ کیجیئے۔۔

    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداء اُحد کی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر آپ نے مبنر پر رونق افروز ہو کر اس طرح نصیحت فرمائی جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو نصحیت کر رہا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا اور اس حوض کا عرض اتنا ہے جتنا مقام اَیلہ سے لے کر جحفہ تک کا فاصلہ ہے، مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ تو نہیں ہے کہ تم (سب) میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے لیکن مجھے تمہارے متعلق یہ خدشہ ہے کہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے اور ایک دوسرے سے لڑ کر ہلاک ہو گے۔
    اب یہاں ہم نے دونوں جگہ اخشٰی کے لیے لفظ خدشہ کا استعمال کیا ہے آپ چاہے یہاں دونوں جگہ اندیشہ لگا لیں ؟چاہے دونوں جگہ ڈر کا لفظ لاگا لیں تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو خوشخبری دی ہے اس کے واضح مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑھتا ۔

    یاد رہے کہ لفظ اخشٰی سے کہیں آپ دھوکا نہ کھائیے گا کہ یہاں صریحا شرک کی نفی کیون نہیں کی گئی لفظ اخشیٰ کیوں استعمال ہوا ہے یاد رہے کہ یہ الفاظ کسی عام آدمی کی زبان سے نہیں نکلے بلکہ زبان نبوت سے ادا ہوئے ہیں اور زبان نبوت سے کوئی اٹکل پچو اور اندازے نہیں بیان ہوتے بلکہ جو کچھ بیان ہوتا ہے وہ برحق ہوتا ہے کیونکہ یہ ان ھو الا وحی یوحٰی کی زبان ہے اس دہن مبارک سے جو نکلتا ہے وہ امر واقعہ ہوتا ہے لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو خوشخبری دی ہے وہ برحق ہے کیونکہ اُمت مسلمہ کی اصل آزمائش مال و زر کی حرص و ہوس سے ہو گی لیکن یہ شرک میں مبتلا نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ باقی بگاڑ اور نقائص اپنی جگہ گھمبیر کیوں نہ ہوں مجموعی طور پر اُمت مسلمہ شرک سے محفوظ ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات ذہن نشین رکھنے والی ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر معروف صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی یہ حدیث دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری خطبہ کی روایت ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی خطبہ، کوئی باقاعدہ وعظ اور خطاب منبر پر نہیں فرمایا۔ اس اعتبار سے یہ روایت اور بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے اور اس میں بیان کیے گئے مضامین کی حجیت مزید مسلم ہو جاتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے شرک میں مبتلا ہونے کا خدشہ ظاہر نہیں فرمایا، اس کا معنی یہ ہر گز نہیں کہ کوئی فرد شرک نہیں کرے گا بلکہ من حیث الکل شرک جیسے ظلمِ عظیم سے امت محفوظ رہے گی۔
    اُمتِ مسلمہ کی اکثریت جو سوادِ اعظم ہے اور جس کے شرک و گمراہی سے اعتقادی طور پر محفوظ ہونے کی ضمانت خود حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی ہے۔ ستم یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں بعض گروہوں کی طرف سے امتِ مسلمہ کی اکثریتی جماعت پر شرک کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ یہی وہ بنیادی فتنہ ہے جس نے اُمت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اِس لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ توحید اور شرک کی حقیقت کو شرحِ صدر کے ساتھ سمجھ لینا ہر دوفریق کے لیئے ضروری ہوگیا ہے۔
    اور ویسے بھی اگر منطقی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو جتنے بھی انبیاء کرام آئے وہ ہمیشہ توحید ہی کی دعوت لیکر آئے اور شرک کی بیخ کنی کرتے آئے مگر کسی نبی نے اپنی امت کو یہ خوشخبری نہیں دی یہ صرف امت مسلمہ کا ہی خاصہ ہے کیوں کہ ہمارے نبی وہ نبی ہیں جن پر آکر نبوت ختم ہوگئی اس لیئے اب چاہیے تو یہ تھا کہ جو ازل سے شیطانی اور رحمانی قوتوں کے درمیان یہ قضیہ چلا آرہا تھا اس میں فتح حق ہی کی ہوتی کیونکہ آپ آخر الزمان نبی ہیں اس لیئے حق کی اس فتح یعنی امت سے بحیثیت مجموعی شرک کا خاتمہ کا سہرا یقینا آپ ہی کے سر جاتا ہے اور جانا چاہیے بھی۔۔۔۔
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔
    ماشاءاللہ آبی بھائی ۔ آپ نے بہت خوبصورتی سے عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اجاگر کرتے ہوئے نفسِ مسئلہ کی طرف توجہ دلائی اور اسے ایک نتیجہ تک پہنچایا۔
    اللہ تعالی آپ کے علم و عرفان میں برکت عطا فرمائے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں