1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معرفت مصطفی(ص) سے عذابِ قبر سے نجات

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏22 نومبر 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اللہ عنہ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِہِ، وَتَوَلَّي عَنْہُ اَصْحَابُہُ وَ اِنَّہُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فيُقْعِدَانِہِ، فَيَقُوْلاَنِ : مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم، فَاَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ : اَشْھَدُ اَنَّہُ عَبْدُ اﷲِ وَرَسُوْلُہُ. فيُقَالُ لَہُ : انْظُرْ اِلَي مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ اَبْدَلَکَ اﷲُ بِہِ مَقْعَدًا مِنَ الْجَنَّۃِ، فَيَرَاھُمَا جَمِيْعًا. قَالَ : وَاَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَہُ : مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : لَا اَدْرِي! کُنْتُ اَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَہ، فَيَصِيْحُ صَيْحَہً يَسْمَعُھَا مَنْ يَلِيْہِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْہِ وَھَذَا اللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.

    (البخاري في الصحيح، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 1 / 462، الرقم : 1308، وفي کتاب : الجنائز، باب : الميت يسمع خفق النعال، 1 / 448، الرقم : 1673، ومسلم في الصحيح، کتاب : الجنۃ وصفہ نعيمھا وأهلها، باب : التي يصرف بھا في الدنيا اھل الجنۃ واھل النار، 4 / 2200، الرقم : 2870، وابوداود في السنن، کتاب : السنۃ، باب : في المسئلۃ في القبر وعذاب القبر، 4 / 238، الرقم : 4752، والنسائي في السنن کتاب : الجنائز، باب : المسئلۃ في القبر 4 / 97، الرقم : 2051، واحمد بن حنبل في المسند، 3 / 126، الرقم : 12293.)

    ’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بندے کو (مرنے کے بعد) جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (تدفین کے بعد واپس) لوٹتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر وہ مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے (کامل) بندے اور اس کے (سچے) رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو انہیں پہچان نہ پاتا تو تیرا جو ٹھکانہ ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اس (معرفتِ مقامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) بدلہ میں جنت میں ٹھکانہ دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھے گا اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا. اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘

    -----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

    عَنْ اَبِي ھُرَيْرَۃَ رضي اللہ عنہ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم : اِذَا قُبِرَ الْمَيِتُ اَوْ قَالَ اَحَدُکُمْ، اَتَاہُ مَلَکَانِ اَسْوَدَانِ اَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِاحَدِھِمَا : الْمُنْکَرُ، وَالآخَرُ : النَّکِيْرُ، فَيَقُوْلَانِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي ھَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : مَاکَانَ يَقُوْلُ : ھُوَ عَبْدُ اﷲِ وَرَسُوْلُہُ، اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ھَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَہُ فِي قَبْرِہِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِيْنَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَہُ فِيْہِ، ثُمَّ يُقَالُ لَہُ : نَمْ، فَيَقُوْلُ : اَرْجِعُ اِلَي اَھْلِي فَاُخْبِرُھُمْ؟ فَيَقُوْلَانِ : نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا يُوْقِظُہُ اِلَّا اَحَبُّ اَھْلِہِ اِلَيْہِ، حَتَّي يَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجِعِہِ ذَلِکَ وَاِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ فَقُلْتُ مِثْلَہُ لَا اَدْرِي فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ، فَيُقَالُ لِلْاَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْہِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْہِ فَتَخْتَلِفُ فِيْھَا اَضْلَاعُہُ فَلَا يَزَالُ فِيْھَا مُعَذَّبًا حَتَّي يَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِہِ ذَلِکَ. رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَۃُ وَابْنُ حِبَّانَ.

    (الترمذي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 3 / 383، الرقم : 1071، وابن حبان في الصحيح، 7 / 386، الرقم : 3117 )

    ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو (مرنے کے بعد) قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں تو اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں (دنیا میں) کیا کہتا تھا؟ وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور (سچے) رسول ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے : (سکون و اطمینان سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جا کر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں (نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جاؤ۔ جسے گھر والوں میں سے جو اسے محبوب ترین ہوتا ہے وہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے (اسی حال میں) اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (ان سوالات کے جواب میں) کہے گا : میں نے ایسا ہی کہا جیسا میں لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط)۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر مِل جا بس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی (یعنی اسے دبائے گی) یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اسی حالتِ (عذاب) میں اس جگہ سے اٹھائے گا۔‘‘
     
  2. محمدعبیداللہ
    آف لائن

    محمدعبیداللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 فروری 2007
    پیغامات:
    1,054
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ، جزاک اللہ
     
  3. کاشفی
    آف لائن

    کاشفی شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏5 جون 2007
    پیغامات:
    4,774
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    جزاک اللہ الخیر۔۔۔

    اللہ رب العزت ہم سب کو قبر کی سختیوں‌ سے بچائے۔۔۔آمین ثم آمین۔۔۔

    جزاک اللہ الخیر۔۔۔
     
  4. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    سبحان اللہ۔ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان تو قبر سے ہی نظر آنا شروع ہوجائے گی جب آپ (ص) کی پہچان پر قبر کے عذاب سے چھٹکارا نصیب ہوگا۔
    سبحان اللہ۔ سبحان اللہ۔ سبحان اللہ
     
  5. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    سبحان اللہ۔

    یہاں کسی لڑی میں اس مسئلہ پر بھی بحث ہو رہی تھی کہ عذاب قبر کے بارے میں کوئی حدیث دی جائے۔ میرا خیال ہے ان صاحب کا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا ہوگا۔

    اللہ تعالی ہمیں عذابِ قبر اور عذابِ آخرت سے نجات عطا فرما کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا سایہ عطا فرمائے۔ آمین
     
  6. محمدعبیداللہ
    آف لائن

    محمدعبیداللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 فروری 2007
    پیغامات:
    1,054
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    ثم آمین
     
  7. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ماشاءاللہ۔ آپ سب لوگ بہت زبردست علمی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔

    اللہ تعالی آپ کو جزا عطا فرمائے۔ آمین
     
  8. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    برادران محترم

    چند سوالات عرض ہیں۔آپ س درخواست کروں گا کہ میری رہنائی کے لیئے ان کے جوابات عطا فرمائیں تاکہ میں اپنی اصلاح کر سکوں-
    1) کیا قبر سے مراد یہی قبر ہے جو زمین کھود کر بنائی جاتی ہے اور اس میں مردہ دفن کرتے ہیں۔اگر نہیں تو پھر اسے قبر کا عذاب کیوں کہا جا رہا ہے اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو پھر مزید سوالات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    2) جو لوگ گناہ گار ہیں اور ان کو قبر نصیب نہیں ہوتی، جل جاتے ہیں یا ان کی لاش قیمہ بن جاتی ہے یا جانورکھا جاتے ہیں یا کوئی بھی وجہ ہوتی ہے ان کو قبر کا عذاب کیسے ہو گا جبکھ وہ قبر میں ڈالے ہی نہیں گئے۔
    3) ایک گناہ گار کو فرض کریں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں قبر میں ڈالا گیا اور اتنے ہی گناہ گار بندے کو دفنانے کے بعد اگلے دن قیامت آ گئی۔ یہ بتایئے کہ اللہ تعالی کا نظام انصاف کیا ایسا ہی ہے کہ ایک بندہ ہزاروں سال تک عذاب میں مبتلا رھے اوردوسرا اتنا ہی گناہ گار صرف ایک دن۔
    4) قرآن پاک میں ہے کہ اللہ کے ہاں حساب کتاب قیامت کے دن ہو گا جن لوگوں کو دائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیئے جائیں گے وھ جنتی ہوں گے اور جن لوگوں کو بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیئے جائیں گے وھ جھنمی ھوں گے- تو حساب کتاب سے پھلے عذاب یا جزا دینے کا فیصلہ کون کرے گا۔
     
  9. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    سیف بھیا آپ کے سوال نمبر 1
    کی سمجھ نہیں آئی۔
    اپ کے سوال نمبر 2
    کی سمجھ بھی نہیں آئی
    اسی طرح آپ کے سوال نمبر 3 اور 4
    کی بھی نہیں۔ آپ پوچھنا کیا چاہ رہے ہیں۔ مجھے تو ہر سوال سے یہ اندازہ ہوا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں دریافت کرنا چاہ رہے ہیں کہ اس کو ہر چیز پہ کتنی قدرت حاصل ہے۔
     
  10. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    آنٹی مسزمرزا ۔ آپ نے کسی جگہ پر لکھا تھا کہ لوگوں کیوں بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ امید ہے اب آپ کو بھی سمجھ آ گئی ہو گی۔ کہ اچھے بھلے چلنے والے موضوع پر بلکہ شاید پوری امت مسلمہ کے متفقہ عقیدے پر چند لوگ اٹھ کر کیسے الٹے سیدھے سوالات کر کے پوری امت کے عقائد میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
     
  11. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    مسز مرزا بہن
    قبر کے عذاب کی بات ہو رہی ہے اسی پس منظر میں میرے سوالات کو دیکھیں۔ اگر احادیث میں بیان کردہ قبر کے عذاب سے مراد اسی قبر میں عذاب کا واقع ہونا ہے تو یہ سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں۔ اگر ذکر کردہ عذاب کا وقوع عالم برزخ میں ہوتا ہے تو پھر اسے عذاب قبر کہنا کہاں تک درست ہے۔

    یہ آپ نے خوب فرمایا کہ میں اللہ کی قدرت کے بارے میں مشکوک ہوں یعنی آپ نے تو مجھے دائرہ ایمان سے بھی خارج کر دیا۔

    نور العین بہن اللہ آپ کی آنکھوں کے نور میں اور اضافہ فرمائے اور آپ کی فہم میں اور برکت ڈالے۔ اگر آپ کے نزدیک کسی بات کی وضاحت طلب کرنا یا ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب مانگنا، بحث مباحثہ ہے تو آپ ہی فرمائیں کہ میں اپنی اصلاح کے لئے اور کون سا طریقہ استعمال کروں۔ باقی رہی پوری امت مسلمہ کے متفقہ عقیدے کی تو پھر کیا امت کے ہر فرد پر ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کے عقائد کو بطور متفقہ عقیدے کے مان لینا لازمی ہے؟ یا پھر جاہلانہ خیالات کو عقاید کے طور پر اپنا رکھنے والے تمام افراد کی اندھی تقلید بھی فرض ہے؟

    آپ کے نزدیک جو سوالات الٹے سیدھے ہیں ان ہی کا جواب تو میرا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے اور میں اس بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا ہوں لیکن آپ جیسے لوگوں نے میری مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں تو صاف اقرار کیوں نہیں کرتے اور اگر جواب ہیں تو یہاں پر افادہ عام کے لیے پوسٹ کیوں نہیں کرتے۔

    ویسے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان سوالات کا جواب پوری امت کے عقائد میں انتشار پیدا نہیں کرے گا بلکہ ممکن ہے کہ مجھ جیسوں کی اصلاح کا باعث بنے۔
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سیف لکھتے ہیں
    سیف بھائی ۔ آپ کی بات میرے لیے اچنبھے کا باعث ہے۔

    آپ کے مطابق کیا عذابِ قبر امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ نہیں‌ہے ؟

    اگر واقعی ایسا ہے تو پلیز کچھ آئمہ و علماء کے مستند حوالہ جات یہاں تحریر فرمائیے جس سے معلوم ہو سکے کہ امت مسلمہ کے اندر کوئی ایسا طبقہ کثیر تعداد میں موجود ہے جو کہ عذاب قبر پر یقین نہیں‌رکھتا۔ ہر بات پر اپنی عقل شریفہ دوڑا کر بات کو الجھانے کی بجائے دلائل و حوالہ جات پیش کر کے ہمارے علم میں بھی اضافہ فرمائیں نا۔

    شکریہ ۔
     
  13. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ
    میری منتظمین سے گذارش ہے کہ مجھے یا تو سیف بھائی کو عبد الرحیم صاحب کا جواب ای میل کرنے دیا جائے جو کہ انگلش میں ہے یا مجھے اجازت دی جائے کہ وہ پیغام میں ادھر ہی پوسٹ کر دوں۔
    اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دین کو سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائے اور علم کے راستے ہم پہ مزید کھول دے آمین ثم آمین!!!
     
  14. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    مسلمان اور عیسائی اپنے مردوں کو زمین میں دفن کرتے ہیں۔ ہندو اپنے مردے جلا دیتے ہیں۔ کچھ قومیں اپنے مردے کسی ویران علاقے میں ایک مخصوص جگہ پر رکھ دیتی ہیں جہاں انہیں جنگلی جانور کھا جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی موت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے جسم باقی نہیں رہتے۔
    اگر عذاب قبر زمین میں کھودی ہوئی قبر میں ہوتا ہے تو پھر ان لوگوں کو عذاب کیسے دیا جاتا ہے جو قبر میں جاتے ہی نہیں۔ اگر عذاب قبر سے مراد عالم برزخ میں موجود ارواح کو ہونے والا عذاب ہے تو پھر اسے عذاب قبر کیوں کہا جاتا ہے؟ مہربانی فرما کر اس کی وضاحت پر کچھ ارشاد فرمائیں۔

    نعیم بھائی میں اتنا قابل نہیں ہوں کہ اپنی عقل شریفہ دوڑا کر بات کو الجھانے کی بجائے دلائل و حوالہ جات پیش کر کے آپ جیسے اھل علم کے علم اضافہ فرما سکوں۔ میں جس طرح سوچتا ہوں اسی طرح لکھ دیتا ہوں۔ مجھے آپ جیسے معززین کی طنزیہ باتوں سے کوئی رھنمائی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر میری سوچ غلط ہے تو میری اصلاح کریں۔
     
  15. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    قرآن مجید کی دوسری سورت البقرۃ کے شروع میں ایمان والوں کی تعریف “الذین یومنون بالغیب“ کہہ کر کی گئی ہے۔ اور اللہ تعالی کو ہر شئے پر قادر مان لینا ہی ایمان ہے۔ جو خالق آپ کو اور مجھ کو ایک نجس قطرے سے اچھے بھلے انسان کو روپ دے سکتا ہے۔ کیا وہ خالق و مالک مرنے کے بعد چاہے آپ راکھ ہو جائیں یا پانی میں‌گل سڑ جائیں یا صحرا میں بکھر کر ہواؤں میں ذرات کی طرح اڑ جائیں۔ اگر اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ہرجان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اس چکھنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے، قبر میں رب تعالی کی پہچان، دین اسلام کی پہچان اور آقائے دوجہاں سرکارِمدینہ :saw: کی بابت زندگی میں کہے گئے اقوال و افعال کا جواب دینا ہے ۔ تو میرے بھائی تقاضائے ایمان یہی ہے کہ وہ ربِ‌قادرِ مطلق آپ کو کہیں سے بھی اکٹھا کر کے آپ کے جسم کو پھر سے روح لوٹا کو آپ سے یہ سوال نکیرین کے ذریعے کروائے گا اور ان سوالات کے درست جوابات دینے کی صورت میں آپ کی قبر یا جہاں آپ موجود ہیں اسے جنت کی کیاری بنا دے گا اور اگر خدانخواستہ آپ جوابات درست نہ دے سکے تو احادیث نبوی :saw: کے مطابق آپ کی گرفت فرمائی جا سکتی ہے۔
    بطور مسلمان سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالی اور اسکے رسول :saw: کی بارگاہ میں سرتسلیمِ خم کرنا ہوگا۔ جو اللہ تعالی اور اسکے پیارے نبی اکرم :saw: نے فرما دیا چاہے ہماری عقل سمیت دنیا بھر کے دانشور و سائنسدان اسے تسلیم نہ کریں، بطور مسلمان ہمیں اسے سچ تسلیم کرنا ہوگا۔ یہی مسلمانی ہے اور یہی ایمان ہے۔
     
  16. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت مفید احادیث شئر کی گئی ہیں ، جزاک اللہ۔
    مگر یہ بات تو کسی نے نہیں بتائی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی "معرفت" کیسے حاصل ہوگی ؟
    کیا زبانی کلامی محبتِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) جتلانے یا نعرہ لگانے سے ؟؟
    یا
    رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت شدہ تمام سنتوں پر عمل کرنے سے ؟؟
     
  17. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم۔
    اچھا نکتہ ہے۔
    میرا خیال ہے محبت دل کی ایک باطنی کیفیت ہے اور عمل انسان کا ظاہر ہے۔ اور اسلام دونوں کو جمع کرنے کا نام ہے۔
    دل میں نبی اکرم :saw: کی محبت اور ادب و تکریم ہو اور انسان آپ :saw: کو اللہ تعالی کے بعد تمام کائنات میں اعلی و ارفع جانے اور مانے۔ آپ کی نسبت سے آپ کی اہلبیت اطہار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بھی محبت و ادب کا تعلق رکھے۔
    اور آپ :saw: کی ہر ہر سنت پر عمل اپنی زندگی کا شعار بنا لے۔
    جب ظاہر و باطن میں محبت، اتباع اور پیروی کا رنگ آجائے گا تو معرفت نصیب ہوجائے گی ۔ انشاءاللہ
     
  18. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آپ نے بہت اچھی وضاحت کی ہے ، جزاک اللہ خیر۔
    جیسا کہ آپ نے لکھا :
    محبت دل کی ایک باطنی کیفیت ہے
    تو انہی باطنی کیفیات کے متعلق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کچھ لوگوں کا مواخذہ وحی کے ذریعے ہو جاتا تھا ، لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے ( اور باطن کے احوال پر مواخذہ ممکن نہیں رہا ) اس لیے اب ہم تمہارا مواخذہ صرف تمہارے ان عملوں پر کریں گے جو ہمارے سامنے آئیں گے ۔
    پس جو ہمارے لیے بھلائی ظاہر کرے گا ، ہم اس کو امن دیں گے ( یا اس پر اعتبار و اعتماد کریں گے ) اور اس کو اپنے قریب کریں گے اور ہمیں اس کے اندرونی حالات سے کوئی سروکار نہیں ۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ ہی ان سے کرے گا ۔
    اور جو ہمارے لیے برائی ظاہر کرے گا ، ہم نہ اسے امن دیں گے ( نہ اس پر اعتبار کریں گے ) اور نہ اس کی تصدیق کریں گے ، اگرچہ وہ یہ کہے کہ اس کا اندرونی معاملہ (ارادہ) اچھا تھا ۔
    صحيح بخاري ، كتاب الشهادات ، باب : الشهداء العدول وقول الله تعالى ‏{‏واشهدوا ذوى عدل منكم‏}‏ و‏{‏ممن ترضون من الشهداء‏} ، حدیث : 2680

    ویسے بھی دل یعنی باطن کا معاملہ بندہ خود جانتا ہے یا پھر اللہ تعالیٰ۔ کوئی فرد کسی دوسرے کے دل کا حال نہیں جان سکتا۔ لہذا جو محبت دل میں ہے ، اس کے متعلق بحث بیکار ہے۔
    ہاں جو محبت ، اعمال سے ظاہر ہوگی ، ہمیں اسی سے سروکار ہونا چاہئے۔
    اور جن اعمال کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے نہیں ملتی ، ایسے عمل کرنے والے ہمارے نزدیک نامعتبر ہی ٹھہریں گے (بقول فاروق اعظم) چاہے وہ کتنا ہی شور نہ مچا لیں کہ وہ اپنے اپنے دلوں میں حبِّ رسول اور حبِّ اہل بیت کا بہت ہی عظیم جذبہ رکھتے ہیں۔
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔
    کیا بات ہے باذوق صاحب۔ ماشاءاللہ
    کیا تاویلات اخذ کرتے ہیں آپ۔ فنِ مباحثہ پر کیا کمال ملکہ حاصل ہے۔
    کہاں کی بات کہاں ملا لیتے ہیں۔
    یعنی سیدنا فاروق اعظم :rda: کے فرمان کو کہاں سے اٹھایا اور اسکی روشنی میں حبِّ رسول :saw: اور حبِّ اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم کے جذبات رکھنے والوں “کے شور“ پر فٹ کر دیا۔
    واہ واہ واہ۔ بہت خوب :87:
     
  20. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    وعلیکم السلام
    جی نہیں ، یہ تاویل میری ذاتی تاویل نہیں ہے۔
    “ریاض الصالحین“ کے ایک باب میں اس حدیث کی یہ تاویل امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت کی ہے :
    “لوگوں پر ان کے ظاہری اعمال کی بنا پر فیصلہ کیا جائے گا“
     
  21. مینار پاکستان
    آف لائن

    مینار پاکستان ممبر

    شمولیت:
    ‏4 جون 2006
    پیغامات:
    62
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اس لڑی کا عنوان معرفتِ مصطفی (ص) سے عذابِ قبر سے نجات ہے۔

    میری ناقص معلومات کے مطابق باذوق کی پیش کردہ حدیث مبارکہ کے حوالے سے امام نووی نے کہیں بھی نہیں فرمایا کہ عذابِ قبر سے نجات کا فیصلہ لوگوں کے ظاہری اعمال کی بناء پر کیا جائے گا۔ بلکہ امام نووی کی پیش کردہ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم تو یہ ہے کہ اسلامک لاء کے مطابق عدالت کا فتوی ظاہر پر ہوتا ہے۔ اور اس کا مقصد بھی صاف ظاہر ہے کہ عدالت کو کسی کے دل کا حال جاننے کا پابند بنانا ممکن نہیں۔ اور یہی حال باذوق کی طرف سے پیش کردہ اکثر احادیث کا بھی ہے۔

    بار بار غیرمتعلقہ احادیث مبارکہ کو پیش کر کے سادہ لوح لوگوں کو کون سا درس دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

    کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آپ نے اس کا یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ قبر میں اور حشر میں بھی فقط ظاہری اعمال ہی تولے جائیں گے اور خدا لوگوں سے ان کی نیتوں کا حساب نہیں لے گا؟

    حالانکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے

    انما الاعمال بالنیات۔
    اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔

    اوپر پیش کردہ ایک تحریر میں معرفتِ مصطفی (ص) کے حصول کے لئے محبت اور عمل میں توازن کی بات کی گئی تھی، جو حقیقت میں اعتدال کی راہ ہے۔ ایک بار پھر پڑھ لیں۔
     
  22. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ خیریت سے ہونگے سب ساتھی

    مینارِ پاکستان جی، خوش آمدید



    خوش رہیں
     
  23. پوش خان
    آف لائن

    پوش خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2007
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بیشک نیّتوں کا حساب لیا جائے گا منافقوں سے۔
     
  24. پوش خان
    آف لائن

    پوش خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2007
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میں آپ سے 100 فیصد متفق ہوں بازوق صاحب۔
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اس لڑی کا عنوان معرفتِ مصطفی (ص) سے عذابِ قبر سے نجات ہے۔

    میری ناقص معلومات کے مطابق باذوق کی پیش کردہ حدیث مبارکہ کے حوالے سے امام نووی نے کہیں بھی نہیں فرمایا کہ عذابِ قبر سے نجات کا فیصلہ لوگوں کے ظاہری اعمال کی بناء پر کیا جائے گا۔ بلکہ امام نووی کی پیش کردہ اس حدیث مبارکہ کا مفہوم تو یہ ہے کہ اسلامک لاء کے مطابق عدالت کا فتوی ظاہر پر ہوتا ہے۔ اور اس کا مقصد بھی صاف ظاہر ہے کہ عدالت کو کسی کے دل کا حال جاننے کا پابند بنانا ممکن نہیں۔ اور یہی حال باذوق کی طرف سے پیش کردہ اکثر احادیث کا بھی ہے۔

    بار بار غیرمتعلقہ احادیث مبارکہ کو پیش کر کے سادہ لوح لوگوں کو کون سا درس دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

    کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آپ نے اس کا یہ نتیجہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ قبر میں اور حشر میں بھی فقط ظاہری اعمال ہی تولے جائیں گے اور خدا لوگوں سے ان کی نیتوں کا حساب نہیں لے گا؟

    حالانکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے

    انما الاعمال بالنیات۔
    اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔

    اوپر پیش کردہ ایک تحریر میں معرفتِ مصطفی (ص) کے حصول کے لئے محبت اور عمل میں توازن کی بات کی گئی تھی، جو حقیقت میں اعتدال کی راہ ہے۔ ایک بار پھر پڑھ لیں۔
    [/quote:3s84gtg9]

    السلام علیکم مینارِ پاکستان بھائی ۔

    میرا خیال ہے آپ کو ابھی تک محترم باذوق کی نیچر یا یوں کہہ لیں کہ نفسیات سمجھنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ بہت عظیم فنکار شخصیت ہیں اور اسی فن کی وجہ سے انٹرنیٹ کی دنیا میں نجدیت و وھابیت کے عظیم سپاھی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ البتہ (دیانتداری کا عظیم مظاہرہ فرماتے ہوئے یا بزدلی کی وجہ سے) کبھی خود کو اپنے نجدی اساتذہ و اکابر سے منسوب نہیں فرماتے۔ اور اسی “سپاھیانہ “ رویے کی وجہ سے ہماری اردو پیاری اردو ، اردو پیجز سمیت کئی معتدل مزاج اور اتحاد و اخوت کی سوچ رکھنے والے اردو فورمز پر انہیں “پابندی“ کا سامنا بھی ہو چکا ہے۔

    اردو مجلس اور ہماری اردو میں بھی پرزور استفسار کے بعد بتانے پر مجبور ہوئے کہ طاہرالقادری کے خلاف علمِ حدیث پر جتنا بھی اختلافی مواد انہوں نے انٹرنیٹ پر دیا ہے وہ دراصل کسی “الشیخ گوندلوی“ کی تحریر سے نقل کیا ہے۔

    اب جس شخص کا کام ہی بغض و عناد اور تعصب پر مبنی اختلافات کرکے دلائل کے انبار لگانا ہو تاکہ عامۃ الناس انکی اس “قرآنی و منطقی“ دلیلوں کے نتیجے میں ایمانی انتشار کا شکار ہوسکیں تو ایسی شخصیات ظاہر ہے اپنے ایسے ہی فن کا مظاہرہ کریں گی جیسا یہاں کیا گیا ہے۔ کہ بات عذابِ قبر اور معرفتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے چلی ۔ اسے اٹھا کر ساتھ میں انتہائی بےموقع حوالہ جات نتھی کرکے امت مسلمہ کے سوادِ اعظم کے عقیدے یعنی محبتِ رسول :saw: ، حبِ اہلبیت اور تعظیمِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر تھوپ کر درپردہ ایک عام مسلمان کو حُبِّ رسول :saw: اور حُبِ اہلبیت وصحابہ کرام کی قلبی و باطنی جذباتی کیفیت سے ہی دور کردیا۔ حالانکہ سیدنا فاروق اعظم :rda: کا مشہور عام فرمان اگر پیش نظر رہے جو انہوں نے حجرِاسود کو چومتے وقت فرمایا تھا۔ جسکا مفہوم یوں ہے کہ:

    “مجھے معلوم ہے کہ تو پتھر ہے، نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ لیکن پھر بھی تمھیں اس لیے چوم رہا ہوں کیونکہ میرے آقا رسول اللہ :saw: نے تجھے چوماتھا“

    محبتِ رسول :saw: اور اتباعِ رسول :saw: کا اس سے عظیم مظاہرہ اور کہاں ملے گا؟ سیدنا فاروق اعظم :rda: نے حجرِ اسود کو نہ جنتی پتھر ہونے کی وجہ سے چوما، نہ کسی اور فضیلت کی وجہ سے۔ بلکہ محض اپنے آقا رسول کریم :saw: کے مبارک لبوں کی یاد میں اسے چوما۔ یہ محبت کا عظیم مظاہرہ نہیں تو اور کیا ہے ؟

    سیدنا عمرفاروق :rda: کے عمل سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ ظاہری عمل کرو لیکن دل میں حبِ رسول :saw: کے جذبات موجزن ہوں۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اعمال تب قبول ہوتے ہیں جب انسان مومن ہوگا۔ اور متفق علیہ حدیث پاک کے مطابق بندہ مومن تب بنتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی خود اپنے آپ سے، اپنے والدین اور سارے انسانوں سے بڑھ کر محبوب ہوجائے۔

    محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دل سے نکال کر جب بندہ مومن ہی نہ رہا، تو اسکے کونسے اعمال اور کیسا اجر ؟ اگر کہیں لکھا ہے کہ کسی غیر مومن کے اعمال بھی آخرت میں فائدہ دیں گے تو یہاں بیان فرما کر میرے علم میں اضافہ فرمادیں۔ لیکن اپنی تک بازی نہیں ہونی چاہیئے۔ قرآن وحدیث سے کوئی فرمان ہوتو بتلائیے گا۔

    اور محبت واتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مجتمع کرنے کے اسی مفہوم کو محترمہ نورالعین صاحبہ نے بہت ہی مختصرالفاظ اور معتدل انداز میں بیان کیا تھا ۔ لیکن باذوق صاحب نے اپنے مخصوص “فن“ کی بدولت بات کو گھما کر محبت و عمل میں دراڑ ڈال کر صرف “ظاہری اعمال“ والے نکتہ نظر کو اجاگر کرکے شعوری یا لاشعوری طور پر خوارج کے اس عقیدہ کو اہمیت دینے کی کوشش کی کہ جو لوگ گستاخانِ رسول :saw: تھے۔ رسول اللہ :saw: کی ذات کی محبت و تعظیم کو پسِ پشت رکھ کر صرف اور صرف قرآن ، قرآن اور ظاہری اعمال پر زور دے کر سمجھتے تھے کہ یہی ایمان ہے۔ حتی کہ حضور نبی اکرم :saw: نے انہیں قتل کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
     
  26. پوش خان
    آف لائن

    پوش خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2007
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم بھائی خداکیلیئے قوت برداشت پیدا کیجیئے آج امت مسلمہ کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

    بازوق بھائی نے جو اختلاف اٹھایا ہے اس کا تعمل اور رواداری سے جواب دیں ، بازوق کیسا شخص ہے اور اس کے خیالات کیسے اوراس کے پسپردہ عزائم کیاہیں یہ باذوق بھائی کا ذاتی معاملہ ہے۔

    میرے خیال میں اگر کوئی آپکے ایمان کو ڈگمگانے والا سوال کرے تو اس کا شکریہ ادا کرنا چائیے کیونکہ اسکے سوال نے آپ کے ایمان کی آزمائش لی ۔

    لیکن اگر آپ کو اپنے ایمان کی پختگی پر بھروسہ نہیں ہے اور آپ اپنے ایمان کو کمزور سمجھتے ہیں تو پھر آپ کو دینی بحث و مباثہ میں حصّہ نہیں لینا چاہیئے اور اپنے آپ کو اور اپنے ذہن کومرغیوں کے ڈربے میں ہمیشہ کیلیئے بند کردیں کیونکہ بند ذہن والے وہیں پر محفوظ ہوں گیں۔
     
  27. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کم از کم میرے دوستوں میں تو کوئی بھی ایسا فرد نہیں ہے جس کو اس طرح دن دھاڑے جھوٹ بولتے ہوئے ذرہ برابر بھی شرم نہ آئے !

    جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ شائد ذاتی دشمنی میں لوگ اسی طرح اپنی بصارت کے ساتھ بصیرت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔

    ذرا ہمت کر کے وہ لنک دے دیں جہاں کسی نے باذوق سے ایسا "پرزور استفسار" کیا ہو ۔۔۔
    ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ درج ذیل بلاگ ماہ جون 2007ء میں شروع کیا گیا :
    پروفیسر طاہر القادری کا علمی محاکمہ

    اور اس کے صفحۂ اول پر ہی درج ہے کہ :
    اور اسی بلاگ سے کسی نے اردو مجلس پر کاپی کیا تھا۔
     
  28. محمدعبیداللہ
    آف لائن

    محمدعبیداللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 فروری 2007
    پیغامات:
    1,054
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    باذوق صاحب لگتا ہے کہ آپ فارغ ہو چکے ہیں اور جناب کب سے ہم تو آپ کی فرصت کے انتظارمیں تھے آپ سے کچھ پو چھا گیا تھا اس کا جواب نہیں ملا۔ ذرا مہربانی کرکے " اس لنک " پر شاکر القادری صاحب کی بات کا خود جواب دیں۔
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میرے محترم بھائی ۔ میں باذوق صاحب کے “ فن“ کا مداح ہوں۔ اور محبتِ و عظمتِ رسالت :saw: ، حب و تعظیمِ اہلبیت اطہار وصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور پھر “طاہرالقادری“ مخالفت میں انکے بات بے بات شروع کی گئی بحث مباحثہ کے فن پر میں انکی علمی تحقیق کا بہت قائل ہوں۔ بلکہ میں نے انہیں پوچھا بھی تھا کہ کسی سعودی یونیورسٹی نے ابھی تک انکی خدمات پر انہیں کوئی اعزازی ڈگری کیوں نہیں دی ؟
    کسی کے اساتذہ ، مکتبہء فکر، نکتہء نظر اور ذہنی پسِ منظر کے بارے میں جاننا کیوں ضروری ہے۔ اسکے لیے پہلے سیدنا عمرفاروق :rda: کا عمل دیکھ لیں

    ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی قرآن مجید کی آیت (وَالزَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا) کا معنی پوچھنے آیا۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اسے کوڑے مارے اور فرمایا اگر تیرے سر پر “ٹنڈ“ ہوتی یعنی بال نہ ہوتے تو میں تمھاری گردن اڑا دیتا۔

    (بحوالہ :اللالکائي في اعتقاد اھل السنہ، 4 / 634، الرقم : 1136، والشوکاني في نيل الاوطار، 1 / 155، والعظيم آبادي في عون المعبود، 11 / 166، وابن قدامہ في المغني، 1 / 65، 9 / 8.)


    اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ پوچھنے وہ قرآنی آیت کا معنی آیا تھا۔ اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی نے اسے کوڑے مارے اور جان سے مارنے تک کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ حالانکہ وہ تو معصوم اور بھولا بھالا بن کر اپنے علم میں اضافے کے نام پر آیت کا معنی پوچھنے آیا تھا۔

    اب بتائیے کیا قرآن کی بات کرنے والے کی شخصیت کے بارے میں جاننا یا دریافت کرنا گناہ ہے ؟ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ تعالی تو ایک ایسے شخص سے جو اپنے جانور کو اپنی خالی جھولی میں چارے کا دھوکہ دے رہا ہو۔ اس سے حدیث بھی نہ لیں۔ وہ وقت بھی خیرالقرون کا تھا۔ اور ہم آج کے گئے گذرے فتنہ پروری کے اس دور میں آنکھیں بند کر کے ہر قرآن و حدیث کی بات کرنے والے کے پسِ منظر اور اکابرین کے بارے میں دریافت بھی نہ کریں ؟

    کسی دوست مینار پاکستان نے “اسلام اور عصرِ حاضر“ والے چوپال میں آئمہ حدیث کی ایک بہت خوبصورت بات لکھی ہے۔ گفتگو کی مناسبت سے یہاں بھی نقل کردیتا ہوں تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

    قرآن و سنت کی "اصل" تعلیمات یا لوگوں کی ذاتی سوچ؟

    لوگوں‌ کی ذاتی سوچ سے واقفیت کی دین میں اہمیت کا یہ عالم ہے کہ اسلاف نے لوگوں کی ذاتی سوچ سے واقفیت کے لئے علم الرجال کے نام سے ایک ایسا علم متعارف کروایا جس کے تحت کم و بیش پانچ لاکھ صحابہ کرام، تابعین عظام، تبع تابعین اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کی سوچ، کردار اور ان کے حالات زندگی کو مدون کیا گیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ شیطانی سوچ کے حامل خارجی لوگ قرآن و سنت کی "اصل" تعلیمات کے نام پر سادہ لوح لوگوں کو اپنی ذاتی خواہشات کا درس نہ دے پائیں۔

    اگر سلف صالحین اس دور میں اسماء الرجال کو مدون نہ کرتے تو خارجیوں کی اس کوشش کو روکنا ناممکن ہو جاتا، جو وہ موضوع احادیث گھڑتے گھڑتے دین اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے کر رہے تھے۔ (نعوذ باللہ)

    چنانچہ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن و سنت کی "اصل" تعلیمات پیش کرنے والے اور حدیث مبارکہ کی شرح بیان کرنے والے کا علم و عمل اور ورع و تقوی میں کیا درجہ ہے؟

    ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آج کتب حدیث کی لمبی چوڑی شروحات لکھنے والے ایسے خارجیوں کی کمی نہیں، جو صحیح اور حسن احادیث کو مسلسل ضعیف قرار دے دے کر لوگوں کا اعتماد ذخیرہ حدیث سے ختم کر رہے ہیں۔

    اس دور کے خوارج موضوع احادیث کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں صحیح احادیث میں شامل کرنے کی کوشش کرتے تھے تو آج کے دور کے خوارج مقبول احادیث کو ضعیف قرار دے دے کر لوگوں کو حجیتِ حدیث سے انکار پر مجبور کر رہے ہیں۔

    ایسے من گھڑت شارحین درحقیقت نہایت سفلی سوچ کے حامل ہیں اور ان کی سوچ کو قطعا سلف صالحین کی تائید حاصل نہیں۔ ایسے شارحینِ حدیث قرآن و حدیث کی "اصل" تعلیمات کے روپ میں محض شیطانی تعبیرات بیچتے ہیں۔


    http://www.oururdu.com/forum/viewtopic.php?t=2742

    جہاں تک بات “صرف قرآن وحدیث“ کی ہے تو میرے بھائی آپ کسی قادیانی، مرزائی سے بھی بات کرکے دیکھ لیں یا انکے فورمز پر چلے جائیں۔ وہ بھی قرآن وحدیث کے حوالوں کے انبار لگاتے نظر آئیں گے۔ انٹرنیٹ پر یہودیوں نے قرآن کی تحریف کرکے نیا قرآن متعارف کروانے کی جسارت کی ہے۔ اس میں بھی بات قرآن ہی کی ہے۔
    حیرت ہے کہ ہمارے اہل علم دوست باذوق صاحب ایسی ویب سائٹس پر جاکر دین کا دفاع نہیں کرتے ہر اردو فورم میں عقیدہء محبتِ رسول و اہلبیتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اور نجدیت و وھابیت کی تعلیمات کے فروغ کے لیے اپنے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں طاہرالقادری کی ہر بات پر اسے قرآن وحدیث سے بےبہرہ قرار دینا بھی انکے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ urduvb.com پر باذوق صاحب، کارتوس خان صاحب کی علمی و تحقیقی موشگافیوں کا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

    میرے جیسا ایک کم علم مسلمان اس بارے میں بھی تو سوچتا ہے نا۔ کہ آخر وہ کونسے محرکات ہیں جو انہیں صرف دفاعِ یزید اور تعصبِ عقیدہء حبِ رسول :saw: اور مخالفتِ حب وتعظیمِ اہلبیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین کے لیے ہی تحقیق و تفکر پر مجبور کرتے ہیں ؟
     
  30. باذوق
    آف لائن

    باذوق مشتاق

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2006
    پیغامات:
    77
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نعیم صاحب ! سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس واقعے کی یہاں پیش کشی کا مقصد کچھ واضح نہیں ہے۔
    کیا آپ وضاحت کرنا گوارہ کریں گے ؟
    عام آدمی تو اس قسم کے واقعے سے دو نتائج اخذ کرتا ہے۔
    • عام مسلمانوں کو اجازت نہیں تھی کہ وہ خلیفۂ راشد سے دینی سوالات دریافت کریں۔ یعنی : اسی طرح آج کے دور میں بھی عام مسلمانوں کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی عالمِ دین سے سوالات پوچھیں۔
      خلیفۂ راشد عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) ، قرآن کی آیات کے معنی پوچھنے والے کو کوڑے مارا کرتے تھے اور گردن اڑا دینے کی دھمکی دیتے تھے۔

    کیا اس غیر عقلی یا ادھورے واقعے سے اخذ کیے جانے والے مندرجہ بالا دو نتائج ہم قبول کر سکتے ہیں؟
    میرا خیال ہے کہ کوئی بھی غیرت مند مسلمان ، جس کو تھوڑا سا بھی دین کا علم ہو وہ ایسے نتائج قبول نہیں کر سکتا !
    پہلا نتیجہ اس لیے قبول نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے مقابلے میں قرآن کی آیت کہتی ہے :
    فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (16:43)
    (اردو ترجمہ : طاہر القادری): تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو
    اور پوچھنے کے لیے یہ قاعدہ قرآن کی کسی آیت میں بھی بیان نہیں ہوا ہے کہ پوچھنے والے میں لیاقت یا علمی صلاحیتیں ہونی چاہئے۔

    دوسرا نتیجہ اس لیے قبول نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے خلیفۂ راشد کے کردار کی ایک غلط تصویر سامنے آتی ہے۔ جبکہ ہر عام مسلمان جانتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدایت یافتہ خلیفہ تھے جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
    اعتقاد اھل السنہ، نيل الاوطار، عون المعبود اور المغني کے حوالے سے جو ادھورا واقعہ (دانستہ ؟؟) پیش کیا گیا ہے ، اس کی پوری تفصیل تفسیر ابن کثیر میں مل سکتی ہے۔
    تفسیر ابن کثیر (اردو) کا 26واں پارہ یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں۔ فائل سائز 5MB ہے۔
    پی۔ڈی۔ایف فائل کا صفحہ نمبر 106 کھولیں۔

    سوال پوچھنے والے شخص کا نام "صبیغ تمیمی بن عسل" تھا۔ مسند البزار میں امام ابوبکر بزار نے یہ واقعہ بیان کیا ہے جس کو ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا۔
    امام ابوبکر بزار یہ بھی لکھتے ہیں کہ اس واقعے کی سند کے دو راویوں میں کلام ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
    اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ : ٹھیک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ حدیث بھی موقوف ہے یعنی حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا اپنا فرمان ہے ، مرفوع حدیث نہیں ہے۔
    پھر ابن کثیر اس واقعے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
    امیر المومنین (رضی اللہ عنہ) نے اس شخص کو جو پٹوایا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی بدعقیدگی آپ پر ظاہر ہو چکی تھی۔ اور اس کے یہ سوالات ازروئے انکار اور مخالفت کے تھے ، واللہ اعلم۔

    نعیم صاحب نے یہی واقعہ ، اسی فورم کی اپنی اِس پوسٹ میں بھی درج فرمایا ہے۔
    اور اسی واقعے پر آپ نے تبصرہ بھی یوں درج فرمایا ہے :
    اب غور فرمائیے کہ : وہ خدا داد بصیرت کے حامل خلیفہ تھے جنہیں اس شخص کی خراب نیت کا پتا چل گیا۔
    لیکن کیا ہم میں سے کوئی حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) والی بصیرت کی ہمسری کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ پھر ہم کس بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ : فریقِ مخالف فتنہ و انتشار کا ماحول گرم کرنا چاہتا ہے؟
    اگر بالفرض آپ کو کسی کی نیت معلوم کرنے کی کھوج و کرید ہے تو اس کی جستجو بھی آپ ہی کیجئے۔ دوسروں کو اس "کارِ خیر" میں گھسیٹنے کا ظلم کیوں؟
    اس کی مثال یوں سمجھئے کہ : اگر میں کہوں کہ مولانا مودودی نے دجال کے متعلق یوں یوں تفصیل بیان کی ہے۔ اور آپ کو اس سے اختلاف ہو تو آپ کا یہ کہنا کس قدر حق بجانب ہے کہ : میں پہلے مولانا مودودی کی شخصیت یا ان کی علمی بصیرت کی تعریف پیش فرماؤں؟؟
    بھائی ! اگر آپ کو مولانا کی تفصیل سے اختلاف ہے تو آپ ضرور اپنے اختلاف کو برقرار رکھئے۔ کوئی آپ پر زبردستی نہیں کر رہا کہ آپ بہرصورت مولانا کی تفصیل کو قبول فرمائیں۔ اور اگر آپ کو مولانا کی "علمی بصیرت" میں شک و شبہ ہے تو یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ وہ حقائق سامنے لائیں جن سے مولانا کی "علمی شخصیت" کا پول کھلتا ہو۔

    محض سامنے والے کو زچ کرنے کی نیت مقصود ہو تو ہزاروں اسلامی روایات کو اپنی بات کی تائید میں توڑ موڑ کر پیش کیا جا سکتا ہے !!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں