1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ظالمانہ نظام؛عیاشی ہی عیاشی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏3 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    کتابوں میں لکھا ہے کہ کسی حکومت کی کارکردگی جانچنا ہوتو دیکھو اس ملک کے شہریوں کی جان،مال اورآبروکتنی محفوظ ہے۔

    نواب شاہ کی غریب لڑکی سکینہ پر ایک وڈیرے کا بیٹا رات کو گھر میں گھس کر تیزاب ڈال جاتا ہے اور اسے یقین ہے کہ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔

    ایک فوجی ایتھلیٹ فیصل آباد سے ایک ایتھلیٹ لڑکی کو ملازمت دلانے کے بہانے لاہور بلاتا ہے اور اگلی صبح ہوٹل سے اس کی لاش ملتی ہے۔ اس کے بعد اس کا ذکر اخبارت سے غائب ہوجاتا ہے۔

    اجتماعی آبروریزی کی کوئی بہت ہی لرزہ خیز واردات ہو اور سیا سی مصلحت آڑے نہ آرہی ہو تو وزیر اعلٰی جاکر ہمدردی کے دو بول بولتے ہیں اور ایک دو لاکھ روپوں سے زخموں پر نمک چھڑک آتے ہیں۔ یقیناً اخبارات میں سینکڑوں میں سے چند ہی واقعات آپاتے ہیں۔


    مال کی حفاظت کا یہ عالم ہے کہ کراچی جیسے شہر میں گاڑیاں اور موبائل چھیننے کے واقعات سینکڑوں ہوتے ہیں(گذشتہ برس موبائل چوری میں مزاحمت پر40 شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے) اور مجرم آٹھ دس بھی نہیں پکڑے جاتے۔

    گھروں میں ڈاکو دستک دے کر آتے ہیں اور گھروں کا صفایا کرجاتے ہیں۔ صاحب خانہ مزید لٹنے کے لیے تیار نہیں، اس لیے پولیس میں رپورٹ درج نہیں کراتے۔

    بنکوں سے رقم لے کر نکلنے اور جمع کرانے آنےوالوں کا لٹنا معمول کی بات ہے۔

    بسوں اور ریل گاڑیوں میں سوار ہوکر اور ناکے لگا کر باوردی ڈاکو کئی کئی گھنٹے کاروائی کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے نہیں آتا۔کئی موقعوں پر تو وردی جعلی نہیں، اصلی پائی گئی۔

    اگر معاشرے میں جان کی حفاظت کا علم دیکھنا ہوتو اخبارت میں قتل کی وارداتوں کی کثرت پر نظر ڈالیں۔ کوئی تحقیق کار ملک بھر کے اخبارات سے صرف ایک دن کا چارٹ بنالے تو تعداد تین ہندسوں تک پہنچ جائے گی۔


    اس مہذب اور ترقی یافتہ دور میں قانون کی حکمرانی ، یعنیRule of Law کابڑا ذکر ہے۔ عدالتوں کا پورا نظام، پولیس کا ہمہ دم مزید سہولتیں پانے والا محکمہ اسی لیے ہے لیکن قانون کی حکمرانی کا عالم دیکھنا ہوتو یہ دیکھیے کہ اس ملک کا بزعم خود صدر جلسہ عام میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلا کر دن دہاڑے دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیرتا ہے،اور ڈنکے کی چوٹ بکھیرتا ہے لیکن کسی الیکشن کمیشن کے کان پر جوں نہیں رینگتی اور نہ کسی عدالت کو سوموٹو کا خیال آتا ہے اور نہ کوئی شہری فریاد لے کر جاتا ہے، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ ایسی فریاد کی شنوائی نہ ہونے کی روایت محکم ہے اور فریاد کرنے والے کا حشر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ایسے قانون توڑنے والے صدر کو10بار بلکہ 100 بار باوردی منتخب کرنے کا ، چہرے پر کسی شرم کا تاثر لائے بغیر،اعلان کرنے والے بھی موجود ہیں۔


    جان ، مال اور آبرو کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی سےغافل بلکہ اس کی دشمن حکومت کی کارگزاری پر نظر ڈالی جائے تو صحافی اغوا ہورہے ہیں،قتل ہورہے ہیں،لاپتا افراد کے ورثا احتجاج کرتے کرتے تھک گئے ہیں، عدالت عظمیٰ بھی بے بس ہے۔ اتنی پولیس اور فوج دھماکے روکنے میں ناکام ہے لیکن میڈیا سے راگ الاپے جا رہے ہیں کہ سب چین ہے اور پورے ملک میں زبردست معاشی ترقی ہورہی ہے، دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں(خودکشی اور بچے فروخت کرنے کی خبروں کو ایک طرف رکھیں) ۔ معاشی ترقی ضرور ہولیکن ایسا بھی کیا کہ اس کا خبط ہوجائے اور ترقی بھی بس یہ کہ ہم کسی طرح امریکا و برطانیہ کی طرح ہوجائیں۔اس کے علاوہ اور کوئی سوچ نہیں، کوئی نصب العین نہیں۔ آزادی کے 60 سال بعد بھی غلام کے غلام۔اِناللہ واِنا الیہ راجعون


    بات صرف معاشی ترقی کی نہیں۔دوسرا خبط اپنی دینی اور معاشرتی اقدار و روایات کو ترک کرکے ہر طرح سے مغرب کے سانچے میں ڈھل جانے کا ہے۔اس کا اظہار صرف میراتھن ریس سے نہیں بلکہ ہر سرگرمی سے ہوتا ہے(بسنت،سیاحت کا سال،ہروقت ناچ گانے۔۔۔)حال ہی میں ریڈیو پاکستان جیسے قومی ادارے کی تقسیم ایوارڈ کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں شوکت عزیز،محمد علی درانی اور اشرف قاضی جیسی ہستیوں کی مسکراہٹوں کی جلو میں گلوکارائیں حاضرین کو اٹھنے اور ناچنے کی اور بیٹھے بیٹھے بھنگڑا ڈالنے پر ہر طرح کے انداز و ادا سے ابھارتی رہیں۔


    کیا ہم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں واقعی اس حالت کو پہنچ چکے ہیں کہ ہمارے بدترین لوگ ہم پر مسلط کردیے گئے ہیں! وہ حکومت جس کے لیے دستور پاکستان میں یہ ہدایت مرقوم ہے کہ اپنے شہریوں کی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنے میں تعاون کرے گی، اس کی ساری پالیسیاں اس کے خلاف ہیں اور کسی شرمندگی کے ساتھ نہیں بلکہ ببانگ دہل خلاف ہیں۔ اس کے لیے سارے قومی وسائل بے دردی سے خرچ کیے جا رہےہیں۔


    ایک محدود اقلیت طاقت واختیار کے سرچشموں پر قبضہ کر کے اور عالمی سازشوں میں حصہ دار بن کر ملک کی اکثریت کا قبلہ و کعبہ بدلنے کے درپے ہے۔ کیا اسے ایسا کرنے دیا جائے؟اس اقلیت کے سرخیل اپنے اوپر اعتدال پسندی، کا جھوٹا لیبل لگا کر پروپیگنڈے کے بل پر حقیقی اکثریت کو اقلیت ہونے کا یقین دلا رہے ہیں۔


    ایسا کیوں ہورہا ہے؟اقلیت کے لیے، حکومت و اختیار کے باوجود بھی یہ ممکن کیوں ہے؟اس کا سبب یہ ہے کہ معاشرے میں جو مجموعی خیر ہے، وہ منظم نہیں، اس لیے مقابلے پر نہیں آتا اور برائی کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ اس اقلیت کی طاقت کاراز اکثریت کی نیکی کا غیر منظم ہونا ہے۔ جو آدمی خود کو نیک سمجھتا ہے، وہ اس سے آنکھیں بند کرلیتا ہے کہ معاشرے کا شر اس کے ماحول کواور آس پاس افراد بلکہ اس کی آل اولاد تک کو گھیرے میں لے رہا ہے۔وہ یہ نہیں سمجھتا کہ جب تک یہ حکمران تبدیل نہیں ہوں گے، معاشرہ صرف دعاؤں سے نہیں بدلے گا۔ خیر کی بہت ساری کوششیں علیحدہ علیحدہ منظم ہیں لیکن مجموعی طور پر منتشر ہیں، اس لیے بے اثر ہیں،دراصل حکمران طاقت کو تبدیل ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ خیر کی طاقتیں مجتمع ہوں،ورنہ منظم برائی کے آگے غیر منظم نیکی شکست کھاجائے گی اور مغلوب ہوجائے گی۔اس وقت تو چیلنج بھی دیا جا رہا ہے کہ مقابلے کا سال ہے ،ان نیکوکاروں کو فنا کردو۔ اس کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پورے ملک کے ہر قریہ و شہر کی ہر چھوٹی بڑی مسجد کے سب نمازی ہر روز مغرب کے بعد باہر آئیں اور بازار میں کھڑے ہو کر مرگ بر امریکا کی طرز کا نعرہ لگا کر منتشر ہوجائیں۔ یہ لے بڑھتی جائے اور یہ نعرے ملک کے طول و عرض میں35،30 منٹ گونجیں توبدی کے علم برداروں کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ایسا وقت آگیا ہے کہ نیک لوگوں کو ، سب نیک لوگوں، مردوں،عورتوں اور بچوں کو اٹھ کھڑے ہونا چاہیے تاکہ بدی اور فساد کے علم بردار شکست کھا کر اپنے بلوں یں واپس جائیں۔ہماری خون پسینے کی کمائی، ہمارے فراہم کردہ وسائل ہماری دنیا اور آخرت خراب کونے کے لیے استعمال نہ کریں۔


    قرآن صرف اس لیے نازل نہیں ہوا کہ لوگ نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں اور رسول اللہ بھی صرف نماز روزوں کے لیے نہیں آئے تھے۔ نماز، روزہ ضروری ہیں لیکن ان کی بنا پر وہ قوت پیدا ہونا چاہیے جو بدی کو برداشت نہ کرے اور نیکی کو نافذ کرنے کے لیے ہر طرح کی تدابیر کرے اور کامیابی حاصل کرنے تک چین سے نہ بیٹھے۔

    آج ہمارا المیہ یہ ہےکہ ہم نیکی کےمحدود تصور پر قانع ہیں اور قرآن کے پیغام اور اسوہ رسول سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ اس کے باوجود بھی معاشرے میں اتنا خیر ہے کہ بدی کی طاقتیں حکومتی وسائل، فوج ، پولیس، اقتدار، عالمی سرپرستی وغیرہ سے محروم ہوں اور ملک کے سیکولر عناصر کا دین اسلام کے غلبے کے خواہاں لوگوں سے منصفانہ مقابلہ ہوتو بڑے بڑے طرح خاں دم دبا کر بھاگتے نظر آئیں گے۔وہ اپنے عوام کی عظیم مسلمان اکثریت پر چڑھ دوڑنے کے لیے وردی اور اسلحے کے محتاج ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں، اسی لیے شفاف انتخابات کی ہرتجویز کورد کرتے ہیں اور اپنے مذموم عزائم کے سرپرست بیرونی ماہرین سے انتخابات منصفانہ ہونے کا سرٹیفیکٹ لیتے ہیں۔


    تبدیلی آئے، معاشرے کا خیر حکومت کے ایوانوں تک پہنچے حکومت دستور اور قرارداد مقاصد کے تقاضوں کو اخلاص اور جذبے سے پورا کرے، تب ہی اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی اور شہریوں کی جان، مال اور عزت وآبرو محفوظ ہوگی۔ پولیس فرض شناس ہوگی۔ عدلیہ کو معلوم ہوگا کہ اگر وہ ممانعت کردے گی تو کوئی آرڈیننس بسنت منانے کی اجازت نہیں دے گا، کوئی آبروریزی کی جرات کرے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ اسی شام یا اسی ہفتے اسے تختہ دار پر لٹکنا ہوگا۔ ایسا ہوجائے تو پھر یہ ملک ہمارے لیے اور ہماری آئندہ نسلوں کے لیے رہنے کی جگہ ہوگی اور ہم یہاں پر سکون زندگی گزار کر آخرت میں بھی سرخرو ہوسکیں گے۔ ان شاء اللہ
     
  2. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    اتنا لمبا مضمون ؟‌

    چلیں پڑھ کر تبصرہ لازمی کروں‌گا
     
  3. حماد
    آف لائن

    حماد منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    402
    موصول پسندیدگیاں:
    95
    ملک کا جھنڈا:
    مضمون طویل ہونے کے باوجود انتہائی جاذب توجہ ہے اور یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہم ایک نہایت گھٹیا قوم بن چکے ہیں اور خود سے کسی تبدیلی کی کوشش کو ناممکن سمجھتے ہوئے کسی آسمانی مسیحا کے منتظر ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خود خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مجیب منصور بھائی ۔ آپ کا مضمون بہت ہی اچھا ہے۔ آپ نے بہت ہی اچھے انداز میں برائیوں کی نشاندھی فرمائی ہے۔

    لیکن خیر کو منظم اور جمع کرنے کا کوئی فارمولا ؟ کوئی منصوبہ؟ کوئی طریقہ ؟ آپ کے ذہن میں‌ہے تو پلیز یہاں بیان کریں۔

    براہ کرم جواب ضرور لکھیے گا۔۔۔ کیونکہ آپ کی بہت ساری لڑیوں کے پیغامات سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ پیغام تو جیسے تیسے لکھ دیتے ہیں لیکن مڑ کے اسکی خبر نہیں لیتے۔ جو کہ اچھی بات نہیں۔ اگر ہم لوگ یہاں صرف برائیوں‌کا تذکرہ اور ماتم کرنے ہی بیٹھ جائیں۔۔۔ تو اس سے کچھ “چسکا“ تو مل جائے گا لیکن انفرادی یا اجتماعی سطح پر بہتری کی کوئی صورت نہیں‌نکلے گی۔

    اس لیے ضروری ہے کہ ایسے موضوعات پر قلم اٹھا کر ہم اس پر تبادلہء خیالات بھی کریں۔ دوسروں کی رائے سنیں اور اپنی رائے دیں۔ تاکہ کم از کم ہماری اردو کے صارفین یا موضوع سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ہی کسی نتیجے پر پہنچ کر بہتری کی طرف قدم اٹھانے پر راضی ہو جائیں۔
     
  5. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    میرا خیال ہے ۔ نعیم بھائی کا خیال درست ہے۔ مجیب منصور صاحب موضوعات کو چھیڑ کر اس پر مزید گفتگو کرنے میں دلچسپی کم لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انکے بہت سے اعلی معیار کے مضامین بھی بھرپور توجہ حاصل نہیں کرپاتے۔
     
  6. بجو
    آف لائن

    بجو ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2007
    پیغامات:
    1,480
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    :baby:
    مجھے ایک بار پھر پڑھنا پڑے گا۔ نیند آ گئی تھی پڑھتے پڑھتے :takar:
     
  7. پوش خان
    آف لائن

    پوش خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2007
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مجیب منصور صاحب اسلام علیکم۔

    یہ پورے پاکستانی سماج کیلئے جس میں میں اور آپ بھی شامل ہیں لمحہ فکریہ ہے اور بیشک قانون کی کمزوری ہے جسکا ہر ہر پاکستانی زمہ دار ہے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے بھی اسی سماج سے پیدا ہوئےہیں۔

    خدا کیلیئے بے بنیاد الزامات لگانا بند کیجیئے۔ کیا ثبوت ہے آپکے پاس کہ اس فوجی ایتھلیٹ نے ہی یہ جرم کیا ہے؟؟

    یہ بھی سماج کیلیئے شرمناک واقع ہے ۔


    ایسے جرائم ہر معاشرے میں ہوتے ہیں، میں آپکو ہانگ کانگ کی مثال دوں گا جو چھیاسٹھ لاکھ آبادی کا شہر ہے (یہنی نصف کراچی) اور یہاں جنوری سے لے کر اکتوبر تک تیس ہزار سے زیادہ چوری کی واردعاتیں ہو چکی ہیں یہنی ہر ماہ تین ہزار واردعاتیں۔

    یہ بھی سماجی مسلہ ہے ناکہ سیاسی۔

    یہ سب معاشرتی اور سماجی مسائل ہیں جن کا پوری دنیا کو سامنا ہے، یہاں میں ایک بار پھر ہانگ کانگ کی مثال دوں گا، جنوری سے اکتوبر تک مجموعی طور پر چھیاسٹھ ہزار سے زیادہ جرائم ہوئے یہنی مجموعی طور پر ہانگ کانگ میں 6600 جرائم ہر ماہ ہوتے ہیں۔

    واضع ہو کہ باوجود اس کے کہ ہانگ کانگ کی پولیس ایشیا کی بہترین اور ایماندار پولیس فورسس میں سے ایک ہے پھر بھی سماجی اور معاشرتی جرائم کا مکمل خاتمہ کرنے میں ناکام ہے۔

    مجیب صاحب پاکستان کا ہر مسلہ سماجی اور معاشرتی ہے، ایسا کیوں ہے اس کی صرف ایک وجہ ہے تعلیم کی کمی ۔ تعلیم کی کمی اور غربت کی وجہ سے ہم پاکستانی خود غرض ہوگئے ہیں جسکی وجہ سے ہماری سوچ یہ ہوگئی کہ ہم ہمیشہ مجموعی قومی فائدے کے بجائے انفرادی فائدے کا سوچتے ہیں اور یہی تمام مسائل کی جڑ ہے۔

    میرے خیال میں ہمیں مذہب کو سیاست سے الگ رکھنا چاہیئے، شوکت عزیز،محمد علی درانی وغیرہ اپنے اعمال کے خود ذمہ دار اور جوابدہ ہیں اور پھر بسنت اور سیاحت وغیرہ کوئی بری چیز نہیں ہے۔

    کون سی عالمی سازشیں؟ ذرہ روشنی ڈالیں گیں؟

    مجیب صاحب آپکی تحریر پڑنے کے بعدمیرا خیال ہے آپ سمجھتے ہیں پاکستان کے تمام مسائل کا حل اسلامی حکومت میں ہے لیکن میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ مجھ سے زیادہ آپکو معلوم ہوگا کہ یہ اب ناممکن ہے ۔
     
  8. محمود رضا
    آف لائن

    محمود رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏20 اگست 2007
    پیغامات:
    89
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مایوسی عظیم گناہ ہے۔
    ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا جب اس ملک میں اسلامی حکومت آئی گی۔
    ہمیں بس اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔
     
  9. پوش خان
    آف لائن

    پوش خان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 فروری 2007
    پیغامات:
    19
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    میں مایوس نہیں ہوں بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلامی آئین پاکستان میں نافذ کرنااب ناممکن ہے۔
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میں مایوس نہیں ہوں بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلامی آئین پاکستان میں نافذ کرنا اب ناممکن ہے۔[/quote:20tjjiwf]

    پوش بھائی ۔ اب کی جگہ “فی الوقت“ یا “فی الحال“ لگا لیں تو میں بھی آپ سے اتفاق کرلوں گا
     
  11. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    میں مایوس نہیں ہوں بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسلامی آئین پاکستان میں نافذ کرنا اب ناممکن ہے۔[/quote:20befn37]

    پوش بھائی ۔ اب کی جگہ “فی الوقت“ یا “فی الحال“ لگا لیں تو میں بھی آپ سے اتفاق کرلوں گا[/quote:20befn37]
    مین نعیم بھائی کی بات ے متفق ہوں ہر رات کے بعد ایک روشن دن ضرور ہوتا ہے ۔
     
  12. طاہرا مسعود
    آف لائن

    طاہرا مسعود ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2007
    پیغامات:
    89
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بے شک ہر رات کے بعد دن ہو تا ہے مگر جب رات مظالم سے بھری ہو تو لمبی لگنے ہی لگتی ہے

    اور انسان کا پریشان ہونا بھی عین فطری ہے

    مجھے نہیں لگتا کہ حکومت بدلنے سے حالات بدلیں گ

    چہرے نہیں زھنیت اور نظام بدلنے کی ضرورت ہے
    ورنہ بہتری کے خواب دیکھنا عبث ہے
    جس ملک میں ہمیں بھی ‌کھلا ؤ ( بمعنی کھا نا پینا ابھی لیا جا سکتا ہے) ورنہ کھیل خراب کراؤ جیسے طریق اور عزائم ہو ں وہاں امن ہو نا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے
    اللہ تعالیٰ اپکستان کو اپنی پناہ مین رکھے۔آمین
     
  13. ایک شخص
    آف لائن

    ایک شخص ممبر

    شمولیت:
    ‏18 دسمبر 2007
    پیغامات:
    27
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    زندگی بدلنے کا عمل، نظریات بدلنے کا عمل حکومت سے شروع نہیں ہوتا بلکہ گھر سے شروع ہوتا ہے۔ بالکل ویسے جیسے اللہ کے نبی :saw: نے مکہ میں شروع کیا تھا اور ہمارا معاشرہ (جس میں آج ہم زندہ ہیں) اُس دور کے مکی معاشرے سے زیادہ زبوں حال نہیں ہے۔
    نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کِشتِ ویراں سے
    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن اب خاتم النبین سیدنا محمد مصطفیٰ :saw: کے بعد دوسرے نبی بھی تو نہیں آئے گا جو انسانیت کو اسکی معراج پر پہنچا دے۔

    البتہ اگر ہم اللہ تعالی سے مددونصرت کے طالب بن کر، اپنے نبی مکرم :saw: کے نقشِ قدم سے ہدایت کی خیرات لے کر اگر اپنی اصلاح اور اور پھر اپنے گردوپیش کی اصلاح کے لیے عزمِ مصمم اور جدوجہد شروع کردیں تو پھر عظمت و وقار کی منزل کچھ بعید بھی نہیں۔
     
  15. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    اصلاح

    نعیم نے لکھا ہے
    کیونکہ آپ کی بہت ساری لڑیوں کے پیغامات سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ پیغام تو جیسے تیسے لکھ دیتے ہیں لیکن مڑ کے اسکی خبر نہیں لیتے۔ جو کہ اچھی بات نہیں۔ اگر ہم لوگ یہاں صرف برائیوں‌کا تذکرہ اور ماتم کرنے ہی بیٹھ جائیں۔۔۔ تو اس سے کچھ “چسکا“ تو مل جائے گا لیکن انفرادی یا اجتماعی سطح پر بہتری کی کوئی صورت نہیں‌نکلے گی۔
    اس لیے ضروری ہے کہ ایسے موضوعات پر قلم اٹھا کر ہم اس پر تبادلہء خیالات بھی کریں۔ دوسروں کی رائے سنیں اور اپنی رائے دیں۔ تاکہ کم از کم ہماری اردو کے صارفین یا موضوع سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ہی کسی نتیجے پر پہنچ کر بہتری کی طرف قدم اٹھانے پر راضی ہو جائیں۔



    بھائی نعیم صاحب میں کوئی بھی مضمون بقول آپ کے جیسے تیسے نہیں لکھتا ،اور نہ ہی تنقیدی تبصرے کرنا میرا مزاج یے بلکہ میری ہرتحریر با معنی ومقصد اور پر مغز ہوتی ہے میں تو اس نیت سے لکھتا ہوں تاکہ قارئین کا فائدہ ہو اور خود میرا بھی فائدہ۔
    خواہ مخواہ تنقیدی مضمون ، کسی پر طنزو مزاح ،یا مناظرہ کرنا میری کسی تحریر میں بھی آپکو نہیں ملیگا ٰ
    اور یاد رکھیں کہ جوتبادلہ خیال نزاع کا باعث بنے وہ مجھے پسند نھیں
    اللہ تعالیٰ ھم سب کو صحیح سمجہ عطا فرمائے۔،،آمین،،
     
  16. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    پوش خان لکھتے ہیں۔،۔۔۔،۔،۔،۔،۔،
    خدا کیلیئے بے بنیاد الزامات لگانا بند کیجیئے۔ کیا ثبوت ہے آپکے پاس کہ اس فوجی ایتھلیٹ نے ہی یہ جرم کیا ہے؟؟

    پوش صاحب آپ کا بھت بھت شکریہ۔،۔،۔، یقیناً آپ نے تما م پھلؤوں پر بھتر انداز میں تبصرہ فرمایا
    رھا مسئلہ فوجی ایتھلیٹ کا تو وہ بے بنیاد الزام نھیں بلکہ میں نے ایک اخبار کے آرٹیکل میں پڑھاتھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں