1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از فرح ناز, ‏20 نومبر 2011۔

  1. فرح ناز
    آف لائن

    فرح ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2010
    پیغامات:
    236
    موصول پسندیدگیاں:
    2
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلام علیکم۔
    ڈاکٹر طاہر القادری نے اللہ تعالی کی عطا کردہ دانش و بصیرت سے بہت پہلے 90کی دہائی میں وطن عزیز کے سیاسی و سماجی حوالوں سے کئی پیشین گوئیاں‌کی تھیں جو آج حرف بحرف درست ثابت ہورہی ہیں۔
    میرا خیال ہے سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف بغاوت کا اعلان بھی ڈاکٹر صاحب نے اپنے 15-16سالہ سیاسی تجربےکے بعد کیا ہے اور اگر ہم لوگ تعصب کی پٹیاں قلب و ذہن سے اتار کر دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کی بات حق لگتی ہے کہ موجودہ انتخابی نظام ہی دراصل ملک کا سب سے بڑا "شیطان" یا "دشمن" ہے جو نئی، اہل، صالح، باکردار اور محب وطن قیادت (ممبر اسمبلی ) کو سامنے لانے میں سب سےبڑی رکاوٹ ہے۔
    اور ایک بات ذہن نشین چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب قوانینِ عالم کے پروفیسر رہ چکے ہیں۔ انکی پی ایچ ڈی بھی اسی ٹاپک پر ہے۔ اور موجودہ عدالتوں میں سینکڑوں جج اور ہزاروں وکیل ڈاکٹر صاحب کے شاگرد ہیں۔ ا س حقیقت کو پیش نظار رکھتے ہوئے نظام انتخاب میں تبدیلی میں سپریم کورٹ کا جو کردار ڈاکٹر صاحب نے مطالبہ کیا ہے وہ یقینا آئین و قانون کے دائرے میں ممکن ہوگا۔
    لیکن جیسا کہ ابدی حقیقت ہے کہ دانشور کسی قوم کو صرف راستہ دکھا سکتا ہے لیکن اس راستے پر عمل کرکے اس کو اپنانے کا فیصلہ قوم کو کرنا ہوتا ہے۔ اگر قوم کے اندر اصحابِ محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ایمان بیدار ہوجائے اور وہ اس راہ عزم مصمم سے چل پڑیں تو قیصری وکسری بھی ایسی قوم کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں۔
    لیکن اگر لوگ امتِ موسوی (بنی اسرائیل) جیسی بےوفائی جاری رکھیں تو پھر ذلت و رسوائی ہی مقدر بنتی ہے۔
    اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ جو نظام گذشتہ 63سال سے سوائے غربت، افلاس، قتل و غارت، دہشت گردی، کرپشن، ذلت و رسوائی کے ہمیں کچھ نہیں دے پایا۔۔۔ وہی نظام آگے کیا دے گا؟؟؟؟؟
    ڈاکٹرطاہر القادری صاحب کو مبارک ہو ۔۔۔۔ وہ بارش کا پہلا قطرہ بن گئے ہیں۔

    والسلام
     
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    ڈاکٹر صاحب کی یہ بات یقینا غور ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بات ڈاکٹر صاحب جو کہ قوانین عالم کے پروفیسر بھی رہ چکے ہیں کو اب معلوم ہوئی ہے ؟ جبکہ اسی نظام کے تحت وہ انتخابات میں حصہ بھی لے چکے ہیں ۔
     
  4. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    امید ہے کہ سب خیریت سے ہونگے

    یہ خبر شئیر کرنے کا شکریہ، تحریک منہاج القرآن کی طلباء تنظیم مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ‌کے زیر اہتمام پاکستان کا سب سے بڑا طلباء اجتماع بہت ہی کامیاب رہا ہے۔

    خوش رہیں‌:nn_highfive:
     
  5. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    آصف بھٹی بھائی، ڈاکٹر صاحب نے جب سے اسمبلی سے استعفی دیا ہے وہ تب سے اس نظام میں‌تبدیلی کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں‌ لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ ان کو یہ بات اب معلوم ہوئی ہے یہ غلط ہے۔


    خوش رہیں‌
     
  6. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلامُ علیکم۔ آصف بھائی ، انتخابات میں عملی طور پر شرکت کرکے ہی تو ڈاکٹر صاحب نے اس نظام کا قریب سے تحقیقی جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچے۔ جو لیڈر قوم سے مخلص ہوتا ہے وہ قوم کو اندھیرے میں رکھ کر محض وقت گزاری نہیں کرتا بلکہ حالات کا دیانتدارانہ تجزیہ پیش کرتا ہے اور اسکی روشنی میں درست سمت کی طرف قوم کی راہنمائی کرتا ہے۔ اگر اس نظام کاقریب سے مشاہدہ کئے بغیر اس نظام کا بائیکاٹ کرنے کی بات کی جاتی تو قوم بجا طور پر سوال کرتی کہ جس نظام کو آپ نے ٹیسٹ ہی نہیں کیا ، اس پر رائے دینا کس طرح سے درست ہوسکتا ہے؟
    ویسے آپکا کیا خیال ہے کہ موجودہ کرپٹ انتخابی نظام سے کسی مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ذرا سنیں تو سہی کہ ڈاکٹر صاحب کہتے کیا ہیں - - - -
    پرنٹ میڈیا کوریج:
    http://www.minhaj.org/english/cid/4714/Print-Media-Coverage-of-Minhaj-ul-Quran-on-20-11-2011.html

    ٹی وی کوریج:
     
  7. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    مکمل خطاب:
     
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلام علیکم
    میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ موجودہ نظام درست ہے ، بلکہ پاکستان تحریک انصاف موجودہ نظام کے خلاف سالوں‌ سے جدو جہد کر رہی ہے ، یہ پاکستان تحریک انصاف ہی تھی کہ جس کی کوششوں‌ سے کم و بیش چار کروڑ کے قریب جعلی ووٹ ختم کئے گئے ، اور اب پاکستان تحریک انصاف ہی ہے جو ووٹر لسٹوں میں گڑ بڑ کرنے کے خلاف اور شناختی کارڈ پر ووٹ کے حق کے لیے عدالتوں‌ میں جانے کا اعلان کر چکے ہیں‌ ۔
    کسی بھی خرابی کو دور کرنے کا طریقہ ہوتا ہے ، اور اس کے لیے پہلے خرابی کی صحیح تشخیص کی جاتی ہے ، اگر بازو میں درد ہو تو پورا بازو ہی کاٹ دینے کے بجائے درد کی اصل وجہ معلوم کی جاتی ہے اور پھر اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
    موجودہ نظام کو بھی یکسر جڑ سے نہیں اکھاڑ پھینکا جا سکتا ، اس کے ہر ہر حصے پر کام کیا جا سکتا ہے اور جو جو برائیاں‌ نظر آئیں‌ وہ سب ختم کی جا سکتی ہیں ۔
    کوئی بھی غلط شخص جو موجودہ نظام کے تحت الیکشن میں جیت کر آتا ہے تو اس کی جیت کے پیچھے نظام کے وہ تمام عناصر کہ جو اس کی برائیوں کے باوجود اسے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہیں کے ساتھ ساتھ اسے ووٹ دینے والے ، اس کے لیے جعلی ووٹ کاسٹ کرنے والے اور اس کی اہلیت پر علم ہونے کے باوجود سوال نہ اُٹھانے والا معاشرہ بھی اتنا ہی حصہ دار ہے ، پہلے تو یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم لوگ غلط آدمی کا انتخاب ہی نہ کریں‌ ، اور اگر کوئی غلط آدمی کاغذات نامزدگی جمع کرواتا ہے تو اس کے خلاف آواز اُٹھائیں‌ اور عدالتوں‌ میں جائیں ۔ اس کے لیے شعور کی بیداری ضروری ہے ۔
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    کیا آپ ووٹ دے کر:
    ۱- نام نہاد عوام دشمن سیاستدانوں کو پھر سےظلم کرنے کا پرمٹ دینا چاہتے ہیں؟
    ۲- انہی کرپٹ سیاستدانوں کو مہنگائی کو فزوں تر کرنے کا اجا زت نامہ دینا چاہتے ہیں؟
    ۳- ووٹ دے کررفتہ رفتہ ملک فروشی کے گناہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟
    ۴- نظریہ پاکستان سے بغاوت اور جیے سندھ و جناح پور کے منصوبہ جات کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟
    ۵- ملک میں قتل و غارت و دہشت گردی کو عام کرنے کے جرم میں ان کے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں؟


    اگر ہاں ۔۔۔ تو جائیے اسی نظام کے تحت رسہ گیروں، بدمعاشوں، بدقماشوں، سمگلروں، قاتلوں، مفروروں، اشتہاریوں، سرمایہ داروں اور جرائم پیشہ و کرپٹ عناصر کو ووٹ دے کر اپنا مستقبل تاریک کرنے کے جرم میں‌شرکت کریں۔

    اگر نہیں ۔۔۔ تو پھر اس نام نہاد الیکشن سسٹم کو مسترد کریں جو ان ظالموں کو جمہوریت کے نام پر ظلم کرنے کا پرمٹ دیتا ہے۔ اور غریب کے نمائندوں کو اسمبلی تک پہنچنے کا حق نہیں دیتا۔

    آئیں اس ملک کو بچانے کے لیے اس نام نہاد سسٹم کے خلاف علم بغاوت بلند کریں۔

    اميد کيا ہے سياست کے پيشواؤں سے ۔۔۔۔۔ يہ خاک باز ہيں ، رکھتے ہيں خاک سے پيوند
    ہميشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کي ۔۔۔۔۔ جہاں ميں صفت عنکبوت ان کي کمند
    خوشا وہ قافلہ ، جس کے امير کي ہے متاع ۔۔۔۔۔ تخيل ملکوتي و جذبہ ہائے بلند

    حضرت علامہ اقبال​
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    ایک نظرتاریخ کے انقلابوں (تبدیلی) پر:

    ۱- کیا پاکستان انتخاب کے نتیجہ میں جیتا گیا؟ نہیں
    ۲- کیا چین میں انقلاب انتخاب سے آیا؟ نہیں
    ۳- کیا ایرانی انقلاب انتخاب سے آیا؟ نہیں
    ۴- کیا تیونس میں انقلاب انتخاب سے آیا؟ نہیں
    ۵- کیا مصر میں انقلاب انتخاب سے آیا؟ نہیں


    پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام کے حامیوں سے سوال :

    ۶- کیا انقلاب ظالم کو اپنی پارٹی سے الیکشن لڑوا کر وزیر بنانے کا نام ہے؟ نہیں
    ۷- کیا ظالم سے مل کر حکومت بنانے کا نام انقلاب ہے؟ نہیں
    ۸- کیا بات مظلوم کی کرنے اور ووٹ کرپٹ کو دلوانے کا نام انقلاب ہے؟ نہیں


    تو پھر انقلاب کیا ہے؟

    1- ظالم کو تحفظ دینے والے نظام کو سمندر بوس کر دینا؟ جی ہاں
    2- مظلوم کو ظالم کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اپنے حقوق واپس لینا سکھانا؟ جی ہاں
    3۔ظلم کے نظام کو مسترد کردینا ۔؟ جی ہاں


    مفکرین و فلسفہ دانوں کو حضرت اقبال کی دعوتِ فکر

    اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو ۔۔۔۔۔ کارخ و امراء کے در و دیوار ہلا دو
    گرماءو غلاموں کا لہو سوز جگر سے ۔۔۔۔۔ کنجکش فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
    جس کھیت سے دہکاں کو میسر نہ ہو کھیتی ۔۔۔۔۔ اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
    علامہ اقبال بال جبریل​

    آئیےاس وطن کو اقبال کے افکار کی تکمیل بنا دیں
     
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    جب آپ ووٹ دینے جائیں تو دیکھ لیں کہ !

    1- آپ اپنا ووٹ کسی عوام دشمن سیاست دان کو تو نہیں دے رہے ؟
    2- آپ مہنگائی کا سبب بننے والے عناصر کے دوبارہ اقتدار کا راستہ تو ہموار نہیں کر رہے ؟
    3- آپ ملک فروشوں کے ہاتھ مزید تو مضبوط نہیں کر رہے ؟
    4- آپ تشخص اسلامی پر سمجھوتہ کر لینے والوں کو ہی اپنی قیادت تو نہیں سونپ رہے ؟
    5 - مسلمانان پاکستان کے لہو سے ہاتھ رنگنے والوں کا ساتھ تو نہیں دے رہے ۔

    اگر نہیں ، تو یقینا کیجئے ایک بہتر انسان کو ووٹ دیکر آپ نے ملک و قوم کی بڑی خدمت کی ہے ۔

    کوئی بھی عمرانی نظام کسی کو ظلم کرنے کی اجازت نہیں‌ دیتا ، ہم اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور اپنی بزدلی و کم ہمتی کے سبب نظام میں خرابی کا سبب بنتے ہیں ، ہم خود ہی ظالم اور برے لوگوں کو منتخب کر کے خود پر ظلم کرتے ہیں ۔

    آئیں اس ملک کو بچانے کے لیے اس اس نظام میں رہتے ہوئے درست طریقے سے اسے تبدیل کریں۔
     
  12. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلام علیکم۔ :dilphool:
    موجودہ نظامِ انتخاب کن کن خرابیوں کا مجموعہ ہے، پہلے اسکی درست تشخیص ضروری ہے۔ اس بارے میں پہلے ہی ایک لڑی میں تفصیلی بحث ہوچکی ہے ۔ لنک یہ ہے:
    http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?t=10561
    اسمیں سے چیدہ چیدہ نکات کو یہاں پیش کیا جاتا ہے:
    موجودہ نظام انتخابات کی خامیاں

    پاکستان میں رائج موجودہ نظام انتخابات جسے سادہ اکثریتی نظام کہا جاتا ہے کسی بھی لحاظ سے اسلام کے دیئے ہوئے تصورِ انتخابات و حکمرانی کے مطابق نہیں اور نہ ہی یہ عوام کی حقیقی نمائندگی کا عکاس ہے۔ ہم ذیل میں مختلف زاویہ نگاہ سے پاکستان کے موجودہ نظام انتخابات کی خامیوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    1۔ یہ نظام اسلامی تصورِ نمائندگی کے سراسر خلاف ہے

    اسلام میں خلافت و نیابت کے سنہری اصول اور شوریٰ اور اولی الامر کی اہلیت کا معیار دیا گیا ہے۔ اکثریت کی نمائندہ حکومت کے قیام کے واضح اصول بھی موجود ہیں جبکہ اس نظام کے تحت اکثریت کی ناپسندیدہ حکومت تشکیل پاتی ہے۔ اسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ اس لئے ایسی شوریٰ اسلامی شوریٰ نہیں کہلا سکتی اور نہ ہی ایسے نمائندوں کو اقتدار سونپا جا سکتا ہے جو اپنی جیت کے لئے اپنی انتخابی مہم کو میلے یا سرکس کے انداز میں چلاتے ہیں اور اپنے آپ کو منتخب کروانے کے لئے ہر جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرتے ہیں اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے یہ ذاتی مفادات کی جنگ ہے اس میں عوام کی خیر خواہی اور خدمت کا کوئی جذبہ کارفرما نہیں ہوتا۔

    پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ میں 1988ء کے انتخابات کے بعد بہت سی درخواستیں موجودہ نظام انتخابات اور انتخابی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر کی گئیں اور ان درخواستوں کے دلائل کی بنیاد پر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی موجودہ نظام انتخاب کو قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سب سے بڑی دلیل یہی پیش کی گئی تھی کہ موجودہ نظام انتخاب میں انتخابی مہم ایک میلے یا سرکس کے انداز میں چلائی جاتی ہے۔ ہر امیدوار کی اولین ترجیح اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور اپنے حریف امیدوار کی کردار کشی ہوتی ہے۔ امیدوار منافقت اور فریب کا لبادہ اوڑھے ہوئے لالچ، دہونس، دھمکی اور جھوٹے وعدوں کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ووٹوں کے حصول کی خاطر ایک ایک دروازے پر پہنچ کر ووٹروں کا تعاقب کرتا ہے وہ تنخواہ یافتہ کارکنوں کی فوج حتی کہ بعض اوقات انتخابی مہم کے حربوں میں خصوصی طور پر تربیت یافتہ بیرونی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرتا ہے۔ امیدوار کی بینروں، پوسٹروں اور پلے کارڈوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جھوٹی تشہیر کی جاتی ہے۔ مہنگی گاڑیوں اور ٹرکوں پر سوار کرائے کے رضاکاروں کے جلوس سڑکوں پر محلے محلے اور گاؤں گاؤں نعرے لگاتے ہوئے گشت کرتے اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ امیدوار کی اپنی خواہش اور اس کے بھاری خرچ پر ہوتا ہے۔ حمایت حاصل کرنے کے لئے علاقائی، فرقہ وارانہ، قبائلی اور اس طرح کے دوسرے تعصبات کو استعمال کیا جاتا ہے، بوگس اور جعلی ووٹ بھگتانا معمول کی بات ہے۔ بالآخر جو سب سے اونچے داؤ لگا کر یہ کھیل کھیلتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔

    2۔ عوامی اکثریت کی نمائندہ حکومت تشکیل نہیں پاتی

    موجودہ نظام انتخاب کے تحت جو بھی حکومت بنتی ہے صحیح معنوں میں اقلیتی حکومت ہوتی ہے۔ چونکہ اس نظام کے تحت ایک امیدوار کل رجسٹرڈ ووٹوں کا بہت تھوڑا حصہ لے کر بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ اپنے حریف امیدواروں سے محض ایک ووٹ کی سبقت ہی کامیابی کے لئے کافی ہے اس کی نمائندگی کی حقیقت اس تجزیے سے سامنے آتی ہے:

    فرض کیجئے ایک حلقہ انتخاب میں ایک لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں ان میں سے 50,000 افراد نے اپنا حق رائے دہی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں استعمال کیا۔ کل 5 امیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا ایک امیدوار نے 12,000 ووٹ حاصل کئے، دوسرے نے 11,500 ووٹ حاصل کئے، تیسرے نے 11,000، چوتھے نے 9,500 اور پانچویں نے 8,000 ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح موجودہ نظام کے تحت 12,000 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار اس حلقے کا نمائندہ قرار دے دیا جائے گا حالانکہ 38,000 افراد اسے نمائندہ نہیں بنانا چاہتے اور 50,000 افراد نے بوجوہ اپنا رائے حق دہی استعمال ہی نہیں کیا مگر وہ صرف اس لئے کامیاب قرار دیا گیا کہ اس نے اپنے حریف امیدوار کے مقابلے میں 500 ووٹ زیادہ لئے ہیں اور اب وہ ایک لاکھ افراد کے حلقہ انتخاب کا نمائندہ تصور کیا جائے گا۔

    موجودہ نظام میں نمائندگی کا تناسب

    مندرجہ بالا تجزیے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں 1970ء، 1977ء، 1985ء، 1988ء، 1990ء، 1997ء اور 2002ء کے انتخابات کا جائزہ لیں تو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جہاں امیدوار محض چند ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے اور پورے حلقہ انتخاب کے نمائندے قرار دیے گئے اور مجموعی طور پر برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی بہت کم ووٹ حاصل کئے۔ مثلاً 1970ء کے انتخاب میں برسر اقتدار جماعت کو صرف 38.9 فیصد ووٹروں کی تائید حاصل تھی۔ 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے 37.63 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 45 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے 29.56 فیصد ووٹ حاصل کئے اور 28 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت پیپلز پارٹی نے ووٹوں کے تناسب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور اسلامی جمہوری اتحاد نے تناسب سے کم نشستیں حاصل کیں۔

    1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو 37.37 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 106 ملیں یعنی 52.8 فیصد جبکہ پی ڈی اے کو 36.65 فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 44 یعنی 22.7 فیصد۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت ووٹوں میں صرف ایک فیصد کے فرق سے 62 نشستوں کا فرق پڑ گیا۔ اس کے بعد نصف سے بھی کم نشستیں حاصل کرنے والی جماعت نے حکومت سازی کے مرحلہ پر درپردہ دھاندلی اور اراکینِ اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کے عمل سے خرید کر حکومت بنا لی اور وہ حکومت ملک بھر کے عوام کی نمائندہ حکومت کہلائی۔

    اِس طرح مجموعی ٹرن آؤٹ کے اعتبار سے ان انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو 1977ء کے عام اِنتخابات میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی شرح کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 63 فیصد تھا، جو کہ بعد ازاں آنے والے اِنتخابات میں بتدریج کم ہوتا رہا۔ 1988ء کے عام اِنتخابات میں ٹرن آؤٹ 43.07 فیصد ہوا، 1990ء کے عام اِنتخابات میں 45.46 فیصد تک پہنچ گیا، 1993ء کے عام اِنتخابات میں 40.28 فیصد پر آگیا، 1997ء کے عام اِنتخابات میں 35.42 فیصد کی نچلی سطح پر آگیا جوکہ 2002ء کے عام اِنتخابات میں 41.26 فیصد کی سطح پر پہنچایا گیا۔ بعد ازاں 2005ء میں ہونے والے بلدیاتی اِنتخابات میں ووٹوں کا ٹرن آؤٹ 30 فیصد کی اِنتہائی نچلی سطح تک گر گیا حالانکہ یہ الیکشن لوکل سطح پر منعقد ہوئے اوران میں لوگوں نے زیادہ بڑھ چڑ کر مقامی نمائندوں کو ووٹ دیے۔ اِس تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام موجودہ مہنگے اور بدعنوان انتخابی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں اور اُنہیں موجودہ نظام انتخابات کے ذریعے ملک میں کوئی مثبت تبدیلی آنے کا کوئی اِمکان دکھائی نہیں دیتا۔

    اسی طرح اگر ہم انفرادی امیدواروں کی جیت کا تناسب دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی توازن نہیں اور کوئی بھی امیدوار اپنے مدمقابل امیدواروں سے محض ایک ووٹ کی برتری لے کر کامیاب ہو سکتا ہے چائے اسے رائے دہندگان کی اکثریتی تعداد ناپسند کرتی ہو مثلاً الیکشن 90ء میں حلقہ این اے 9 کوہاٹ سے سید افتخار گیلانی صرف 8.73 فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار دیئے گئے اور حلقہ این اے 17 کوہستان سے مولوی محمد امین محض 5.29 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ صوبہ سرحد میں کامیاب ہونے والے قومی اسمبلی کے امیدواروں میں سے سب سے زیادہ ووٹوں کا تناسب 30 فیصد تھا اور قومی اسمبلی کے 26 اراکین میں سے صرف 5 امیدواروں نے 20 اور 30 فیصد کے درمیان ووٹ حاصل کئے۔

    موجودہ نظام انتخابات کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات اور ان سے بننے والی حکومتوں کو حاصل کردہ ووٹوں اور نشستوں کے تناسب کے جائزے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نظام انتخابات کے تحت نہ تو کوئی رکن پارلیمنٹ عوام کی اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان نمائندوں کے ذریعے بننے والی حکومت عوام کی اکثریت کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے جبکہ ایک جمہوری نظام کی لازمی شرط یہ ہے کہ جمہور (عوام کی اکثریت) کو منتخب اداروں میں واضح نمائندگی ملے جو کہ موجودہ نظام میں کسی شکل میں بھی پوری نہیں ہوتی۔

    3۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ

    موجودہ نظام انتخابات صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اس نظام کے تحت صرف سرمایہ دار اور جاگیردار ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ عوام کی پسند کو محدود کر دیا جاتا ہے اور جب اقتدار ان طبقات کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ صرف ایسے قوانین وضع کرتے ہیں اور دستور اور قانون میں ایسی ترامیم کرتے ہیں جن سے صرف ان کے اعلیٰ سطحی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک غریب عوام کی بہتری کے لئے ان بالادست طبقات کے ہاتھوں کوئی اصلاحات نافذ نہیں ہو سکیں اور نہ ہی اسلامی قوانین اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفاذ ہو سکا ہے۔ چونکہ شریعت کا نفاذ ان بالادست طبقات کے مفاد میں نہیں اس لئے ان طبقات کے ہوتے ہوئے عوامی حقوق کا تحفظ ہوسکتا ہے اور نہ شریعت کا نفاذ ممکن ہے۔ اس کی عملی مثال مشرف دور کی 342 ارکان پر مشتمل اسمبلی ہے جس نے ان پانچ سالوں میں کوئی ایک بل بھی عوام کے مسائل سے متعلق پیش نہیں کیا، البتہ اپنی مراعات اور تنخواہوں کے بارے میں تین بار اضافوں کے بل پورے اتفاق سے پاس ہوتے رہے۔

    4۔ دھن، دھونس اور دھاندلی کا آزادانہ استعمال

    اس نظام میں امیدوار چونکہ محض ایک ووٹ کی برتری سے بھی کامیاب ہو سکتا ہے اس لئے ناجائز ذرائع اور سرکاری پشت پناہی کے حامل امیدوار اپنے مدمقابل کو شکست دینے اور خوفزدہ کرنے کے لئے دھن، دھونس اور دھاندلی کے تمام ممکنہ طریقوں کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر انتخاب میں برسر اقتدار حکومتوں اور بالادست طبقات نے دھن، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن جیتے اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنے مدمقابل کو ذلیل و رسوا کرنے اور اس سے ہر ممکن انتقام لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسے انتہائی بیہمانہ اور غیرشریفانہ طریقوں سے نقصان پہنچاتے رہے۔ ان بالادست طبقات کو ہمیشہ یہ اطمینان رہتا ہے کہ ہمارے حلقے محفوظ ہیں اور ہمارے سوا کوئی دوسرا شخص ہمارے حلقے سے منتخب نہیں ہو سکتا اس لئے وہ اس نظام انتخابات کے تحت اپنے استحصالی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ مفادات کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے اور ان کی اجارہ داریاں ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ ان اجارہ داریوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کے موجودہ سماجی و سیاسی حالات میں تبدیلی کی توقع قطعاً نہیں کی جا سکتی۔

    5۔ نااہل اور مفاد پرست افراد کا چناؤ

    موجودہ نظام انتخابات نے ہمیشہ اسمبلیوں میں بیشتر نااہل اور مفاد پرست افراد کو بھجوایا ہے جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا۔ ہارس ٹریڈنگ، رشوت، غبن، لوٹ مار، خیانت اور ناجائز طریقوں پر کروڑوں اربوں روپے کے قرضے لینا اور دھوکہ دھی سے ان قرضوں کو معاف کروانا ان اراکین کا معمول رہا ہے۔ حالیہ پارلیمنٹ ممبران میں سے اکثریت نادہندہ تھی اور انہوں نے اپنے عزیزوں کے نام پر اربوں روپے معاف کرواتے۔ یہی قرض پاکستانی عوام پر مہنگائی اور بدحالی کی صورت میں اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن ہمارے غریب عوام اس حقیقت سے واقف نہیں اور ہر بار اپنے پیٹ کاٹ کاٹ کر انہی لٹیروں کو دیتے ہیں۔

    اسی طرح عوام کی خدمت اور علاقہ کی بہتری کے نام پر کروڑوں روپے کے منصوبے منظور کروائے مگر انہیں اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے جتنی بھی مراعات ملیں سب اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیں۔ کارخانوں کے لائسنس اور پرمٹ، پلاٹوں اور جاگیروں کا حصول ان اراکین کا شیوہ رہا۔ یہ نااہل اور مفاد پرست افراد ایک بالا دست طبقے کی حیثیت سے عوام کا استحصال کرتے رہے اور کر رہے ہیں یہ لوگ ہمیشہ انتخابات کے مواقع پر عوام کے خادم اور غریبوں کے ہمدرد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ انتخابات جیتنے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے داؤ پر لگاتے ہیں اور پھر اسمبلی میں بیٹھتے ہی پہلے چند روز میں وہ سارا خرچہ (اصلِ زر) وصول کر لیتے ہیں اور بقیہ سال سارے منافع کے ہوتے ہیں۔

    6۔ علاقائی اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ کا باعث

    پاکستان کے چاروں صوبوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور مختلف مسالک کے لوگ آباد ہیں مگر بدقسمتی سے اس نظام انتخابات کے تحت ہمیشہ علاقائی، گروہی، لسانی اور فرقہ وارانہ مسائل کو انتخابی نعروں کے طور پر استعمال کیا گیا اور انتخابات میں نشستوں کے حصول کے لئے مختلف سیاستدانوں نے رائے دہندگان کے جذبات کو مشتعل کر کے اپنے لئے تائید حاصل کی۔ سندھ ایک عرصہ سے لسانی کشیدگی اور فسادات میں جل رہا ہے۔ ہزاروں گھرانے برباد ہو چکے ہیں اور ہزاروں لوگ اس آگ میں جل چکے ہیں۔ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان میں ایک عرصہ سے مذہبی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور کئی لوگ اس کشیدگی کے باعث قتل ہو چکے ہیں اور سینکڑوں بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان سب فسادات کے پیچھے نام نہاد لیڈروں کے سیاسی مفادات کارفرما ہیں اور یہ مفادات محض اس نظام انتخابات کی وجہ سے ہیں جن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

    7۔ کمزور حکومتوں کی تشکیل اور سیاسی نظام میں عدم استحکام

    اس نظام انتخابات کے ذریعے جتنی بھی حکومتیں بنیں کمزور ثابت ہوئیں اور حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج اور بیوروکریسی کو اپنا پیشہ وارانہ کردار چھوڑ کر سیاسی کردار ادا کرنا پڑا نتیجتاً سیاسی نظام میں عدم استحکام رہا۔ حکومتیں اپنی کمزوری کے باعث جلد ٹوٹتی رہیں اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ ملک سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی انحطاط کا شکار ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں کو اب اس نظام میں نہ تو کسی ٹھوس پروگرام کے پیش کرنے کی ضرورت رہی ہے اور نہ کسی دستور و منشور کی۔ انہیں نہ کوئی جانتا ہے اور نہ پڑھتا۔ ہر جماعت کو جیتنے والے امیدواروں (Winning Horses) کی ضرورت ہوتی ہے اور انہی کے ذریعے انتخاب جیتا جاتا ہے اس میں عوام کا کردار محض نمائشی اور رسمی رہ گیا ہے اس نظام میں یہی پہلو حکومتوں کو کمزور اور سیاسی نظام کو غیر مستحکم رکھتا ہے۔ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر فوجی آمریت بار بار جمہوری بساط لپیٹتی ہے اور پھر ملک اندھیروں کی نظر ہوجاتا ہے۔

    8۔ اس نظام میں نمائندوں کا احتساب ممکن نہیں

    موجودہ نظام انتخاب کے تحت نمائندے منتخب ہونے کے بعد بالعموم ہر قسم کے احتساب سے بالاتر رہتے ہیں۔ رائے دہندگان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے نمائندوں کا احتساب کر سکیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے نمائندوں کی گرفت کر سکیں۔ اس طرح یہ نمائندے نہ صرف اپنی پارٹی کے منشور اور پروگرام سے انحراف کرتے ہیں بلکہ رائے دہندگان سے کئے گئے وعدوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور اگلے انتخابات پر دھن، دھونس اور دھاندلی کی بدولت دوبارہ منتخب ہو جاتے ہیں اور مسلسل اپنے ہی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اب تو بدنامِ زمانہ ’’قومی مفاہمتی آرڈیننس‘‘ کے ذریعے سیاست دانوں کو مقدس گائے قرار دے کر انہیں ہر طرح کے احتساب سے بالا تر قرار دے دیا گیا ہے۔

    9۔ عوام اور رائے دہندگان کی عدم دلچسپی

    پاکستان میں اس نظام کے تحت جتنے بھی انتخابات منعقد ہوئے ان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زیادہ سے زیادہ 45 فیصد افراد نے رائے دہی میں حصہ لیا، دو تہائی رائے دہندگان نے انتخابات سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔

    رائے دہندگان نے ہمیشہ ان انتخابات سے بیزاری کا اظہار کیا اور عدم دلچسپی کی وجہ نظام انتخابات سے اعتبار اٹھ جانے کو بتایا۔
    اس نظام انتخابات میں جس طرح کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقہ اسے کما حقہ اہل نہیں سمجھتا ان کی مجبوری ہے کہ جو افراد کھڑے ہیں انہی میں سے کسی ایک کے حق میں ووٹ ڈالیں۔
    اس نظام انتخابات کے تحت امیدواروں کی مہم کے دوران جو ماحول بنتا ہے اور اس مہم کے نتیجہ میں پولنگ کے بعد آنے والے نتائج عوام کی توقعات کے برعکس ہوتے ہیں اور رائے دہندگان کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ اس کا ووٹ ملک کی تقدیر کے فیصلے پر واضح اختیار نہیں رکھتا کیونکہ تقدیر کا فیصلہ اور قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا اس کا ووٹ دینا نہ دینا برابر ہے۔
    پولنگ کے دن سیاسی دھڑے بندیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ پرچی بنوانا، پولنگ سٹیشن تک جانا اور مختلف کیمپوں میں بیٹھنا، بعض شرفاء اس کشمکش میں اپنے آپ کو فریق نہیں بنانا چاہتے چنانچہ وہ رائے دہی کے لئے اپنا حق استعمال ہی نہیں کرتے۔
    10۔ قومی مسائل حل کرنے میں ناکام نظام

    اس نظام انتخابات کے تحت جتنی بھی حکومتیں بنیں ان کی اولین ترجیح اپنے اقتدار کو دوام دینا، اپنے مفادات کا تحفظ کرنا، حزب اختلاف کو ملک دشمن عناصر قرار دے کر انتقامی کارروائیاں کرنا اور اگلے انتخابات کے لئے ملکی حالات کو اپنے لئے سازگار بنانے پر مرتکز رہی ہے۔ اس طرح ان حکومتوں کو کبھی بھی قومی مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی چنانچہ قیام پاکستان کے 60 سال بعد بھی قومی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ بلکہ ہر اسمبلی پہلے سے موجود مسائل کے انبار میں اضافہ کرکے رخصت ہوتی ہے۔

    11۔ یہ نظام انتخابات سراسر ظلم اور اندھیر نگری ہے

    اس ملک میں ایک چپڑاسی کی تقرری کے لئے بھی میرٹ شرط ہے اور ایک کلرک کی تقرری کے لئے بھی تعلیمی قابلیت مقرر ہے اس کے لئے بھی تحریری امتحان اور انٹرویو لازمی ہے ایک ڈرائیور کی تقرری کے لئے بھی ٹیسٹ اور انٹرویو ضروری ہے الغرض کسی چھوٹی تقرری سے لے کر بڑی تقرری تک سکول، کالج، یونیورسٹی کے اساتذہ، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، سیکریٹری وغیرہ کی سطح تک بغیر مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے کسی شخص کی تقرری عمل میں نہیں آتی۔

    موجودہ نظام انتخابات کے تحت صرف پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں ایسے ادارے ہیں جہاں ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے لئے کسی قسم کی قابلیت، تجربہ، مہارت، کردار اور ذہانت جیسی خصوصیات کی ضرورت نہیں رہی۔ بمشکل 2002ء کے انتخابات میں ارکان کی اہلیت کے لیے بی۔ اے کی شرط رکھی گئی تھی، لیکن اِس بار اسے بھی ختم کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں1۔ یہاں صرف درج ذیل چیزوں کی ضرورت ہے:

    سرمایہ و دولت
    غنڈوں اور رسہ گیروں کی فوج
    ناجائز اور غیر قانونی اسلحہ
    حکومتی پارٹی کا ٹکٹ
    ان شرائط کو پورا کرنے والا شخص جیسا بھی ہو قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہو سکتا ہے۔

    1اب بی اے کی شرط ختم ہوچکی ہے
    خرابی کا درست حل کیا ہے؟ --- ہمارا نقطہ نظر

    پاکستان عوامی تحریک کی تشکیل ایک بامقصد اور تعمیری سیاست کے لئے ہوئی ہے اور پاکستان عوامی تحریک نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے اصولوں کو قربان نہیں کیا۔ 25 مئی 1989ء کو موچی دروازہ کے جلسہ عام میں اعلان لاہور کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے اس نظام کے تحت انتخابات میں ایک یا دو بار حصہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ چنانچہ دوسری مرتبہ 2002ء میں بھرپور محنت کے ساتھ حصہ لیا۔ پاکستان عوامی تحریک نے 1990ء اور 2002ء کے انتخابات میں حصہ لے کر عملی تجربہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس نظامِ انتخابات کے تحت اہل اور باصلاحیت قیادت کا انتخاب ہرگز نہیں ہو سکتا۔

    ہم ملک و قوم کو تباہی کے گڑھے تک پہنچانے کی سازشوں کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے۔ اس لئے موجودہ نظام انتخابات اور اس سے وجود میں آنے والی استحصالی نظام کو بدلنا ناگزیر ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام کے مشاورتی اور جمہوری ضابطوں کے تحت متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے اور اس نظام انتخاب کے تحت بننے والی اسلامی حکومت ہی عوام کی حقیقی نمائندہ اور صحیح جمہوری حکومت کہلا سکتی ہے۔ لہٰذا پاکستان عوامی تحریک ملک و قوم کے بہترین مفاد میں یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ نظام انتخابات کو ختم کر کے ’’پارلیمانی متناسب نمائندگی کا انتخابی نظام‘‘ نافذ کیا جائے اور اس نظام کے تحت انتخابات کرائے جائیں تاکہ صحیح معنوں میں اسلامی، انقلابی، جمہوری اور فلاحی حکومت تشکیل پائے۔

    متناسب نمائندگی کے پارلیمانی نظام کا عمومی خاکہ

    متناسب نمائندگی کا نظام اس وقت دنیا کے تقریباً 50 ممالک میں مختلف شکلوں میں رائج ہے مثلاً آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی، سری لنکا اور اس طرح کئی دیگر ممالک میں اس نظام کے تحت انتخابات ہو چکے ہیں، مختلف ممالک نے اپنے مخصوص حالات کے تناظر میں اس تصور میں جسب ضرورت تبدیلیاں کر کے اس نظام کو اپنے ہاں رائج کیا ہوا ہے اس لئے متناسب نمائندگی کے نظام کی مختلف شکلیں مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد اسلام ہے۔ قرارداد مقاصد نے آئین پاکستان میں اس کی نظریاتی اساس کا تعین کر دیا ہے، قرارداد مقاصد جمہوری اور قرآن و سنت میں وضع کئے گئے اصولوں کے عین مطابق ہے۔

    متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں حلقہ وار امیدواروں کے درمیان انتخابی عمل کی بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی عمل ہوتا ہے اور ہر سیاسی جماعت کو مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹس کے تناسب سے اسمبلی میں نشستیں ملتی ہیں۔ متناسب نمائندگی کے نظامِ انتخاب میں ووٹرز براہِ راست سیاسی پارٹی کی قیادت اور منشور کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے سیاسی جماعتوں کو بالترتیب ملک و صوبہ بھر سے ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں ملتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد کے مطابق میرٹ کی بنیاد پر اپنے باصلاحیت امیدواروں کے ناموں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو پیشگی مہیا کرتی ہیں جو کہ آئین کے مطابق طے کردہ اہلیت کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں۔ متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں اگر سیاسی جماعت کو مجموعی طور پر 30 فیصد ووٹ ملتے ہیں تو انہیں اسمبلی میں حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے 30 فیصد نشستیں مل جاتی ہیں۔ اسی طرح جن جماعتوں کو اس سے زیادہ یا کم ووٹ ملتے ہیں اسی مناسبت سے پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی ملتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارا ملک اپنے مخصوص حالات کے تناظر میں اس نظام انتخاب میں حسب ضرورت تبدیلیاں کر کے اس نظام کو رائج کرسکتا ہے۔

    موجودہ کرپٹ اور مہنگا نظام انتخاب جملہ مسائل کی جڑ

    مندرجہ بالا تجزیے سے ثابت ہوا کہ ملک کے تمام سنگین مسائل کی جڑ کرپٹ نظام انتخاب ہے۔ اس کرپٹ نظام انتخاب نے قوم کو اس کی حقیقی نمائندگی سے محروم کردیا ہے۔ عوام کے 98 فیصد غریب و متوسط طبقات سے کسی امیدوار کا منتخب ہونا عملًا ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ موجودہ نظام انتخاب کی خامیوں کی وجہ سے انتخابی حلقہ جات پر کرپٹ، سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیروں، مافیا، بااثر اور حکومتی امیدواروں کا کنٹرول ہوچکا ہے۔ حتی کہ کسی حلقہ میں کوئی بڑی پارٹی اپنے انتہائی دیرینہ نظریاتی ورکر کومحض اس لئے ٹکٹ نہیں دیتی کہ وہ کروڑوں روپے خرچ نہیں کرسکتا۔
    لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ:

    نظام انتخاب شفاف اور سستا ہو۔
    نظام انتخاب حکومتی، بااثر طبقات، سرمایہ داروں اور الیکشن کمیشن کے ناجائز اثرو رسوخ سے آزاد ہو۔
    نظامِ انتخاب جعلی شناختی کارڈ سازی اور جعلی ووٹس، جانبدارانہ حلقہ بندیوں و پولنگ سکیم، الیکشن عملہ کی ملی بھگت اور پولیس انتظامیہ و غنڈہ عناصرکی ناجائز مداخلت سے پاک ہو
    تشہیر، جلسوں، ٹرانسپورٹ، الیکشن کیمپوں کے اخراجات اور سرمایہ کے ذریعے ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہونے جیسی انتخابی دھاندلیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔
    نظام انتخاب عبوری حکومتوں، لوکل باڈیز اداروں اور الیکشن کمیشن کے ناجائز اثرو رسوخ سے آزاد ہو تاکہ سیاسی جماعتیں تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہوکر غریب و متوسط باصلاحیت کارکنان کو میرٹ پر اسمبلیوں میں نمائندگی کے لئے نامزد کرسکیں۔
    تاکہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے حصول کے لئے کوئی ڈیل نہ کرنا پڑے اورنہ ہی انہیں اسکے لئے غیر فطری اتحاد بنانا پڑیں بلکہ سیاسی جماعتیں عوامی ایشوز پر اپنا حقیقی کردار ادا کرسکیں۔
    موجودہ کرپٹ اور مہنگے اِنتخابی نظام کی وجہ سے تقریباً 70 فیصد قوم انتخابات سے کلیتاً لاتعلق ہوگئی ہے اور قوم اپنے بنیادی آئینی و انسانی حقوق سے محروم ہوگئی ہے۔ لہٰذا یہ ملک و قوم کے ریاستی و مقتدر اداروں بشمول عدلیہ، قانون ساز اداروں، سیاسی پارٹیز و اراکین پارلیمنٹ، میڈیا، سیاسی جماعتوں، دانشور و وکلاء طبقات کی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس انتہائی اہم قومی حساس مسئلہ کے حل پر توجہ دیں اور ملک وقوم کو موجودہ کرپٹ انتخابی نظام سے چھٹکارا دلاکر شفاف نظام انتخاب مہیا کریں۔

    پاکستان عوامی تحریک جمہوری اور اِنتخابی عمل پر یقین رکھتی ہے

    پاکستان عوامی تحریک اِنتخابات کے خلاف نہیں بلکہ موجودہ بدعنوان اور مہنگے اِنتخابی نظام کے خلاف ہے۔ پاکستان عوامی تحریک جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور جمہوری نظام کے خلاف نہیں۔ پاکستان عوامی تحریک یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ نظام انتخاب ملک و قوم کو حقیقی جمہوریت کی طرف نہیں بلکہ تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔

    مجوزہ اقدامات

    1۔ ملک و قوم کی نجات اسی میں ہے کہ شفاف نظام انتخاب اپنایا جائے۔ آج ملک میں سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین و اقلیتوں کی نشستوں کی حد تک جزوی طور پر متناسب نمائندگی کا بالواسطہ نظام نافذ ہے لیکن ملک و قوم کو شفاف نظام انتخاب عطا کرنے کے لئے پورے ملک میں مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام انتخاب نافذ کیا جانا ضروری ہے۔ لہذا پاکستان عوامی تحریک یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ملک میں رائج کرپٹ اور مہنگے نظام انتخاب کو تبدیل کرکے مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی انتخابی نظام نافذ کیا جائے۔

    2۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ متناسب نمائندگی کے پارلیمانی انتخابی نظام کے بآسانی نفاذ کے لئے آئین کے آرٹیکل (a) (4) 51 میں ترمیم درکار ہے جبکہ انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے ووٹروں کی شرائط، شناختی نظام، ووٹرز لسٹیوں، پولنگ سکیموں، بیلٹ پیپروں اور پولنگ ایجنڈوں کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔ البتہ عوام کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے قانوناً پابند کیا جانا ہوگا اور میڈیا، NGOs اور سیاسی جماعتیں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے ترغیب کی تحریک بپا کریں گی تاکہ لوگ ووٹ کاسٹ کرنے کے عمل کو اپنا قومی وملی فریضہ سمجھیں اور اس کے لئے گھروں سے اس طرح نکلیں جیسے کہ کسی بڑے زلزلہ یا طوفان سے بچنے کے لئے نکلتے ہیں کیونکہ انتخابات میں ووٹ کاسٹ نہ کرنے یا ووٹ غلط کاسٹ کرنیکے نقصانات کسی زلزلے یا طوفان سے کم نہیں ہوتے۔

    3۔ اس مجوزہ الیکشن مہم کے لئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ریڈیو اورسرکاری و نجی ٹی وی چینلز کے ذریعے اپنے اپنے منشور، پالیسی اور نامزد امیدواروں کی تشہیر کے لئے انٹرویوز نشر کروائے جائیں۔ اس دوران ملک کے دانشور، صحافی، سامعین و ناظرین ان سے براہ راست سوالات کرسکیں گے۔

    4۔ شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے عدلیہ کی زیرنگرانی غیرجانبدار عبوری قومی حکومت کا قیام انتہائی لازمی ہوگا۔ چیف الیکشن کمیشن کو بہر صورت با اختیار اور غیرجانبدار ہونا چاہیے، جس کے لئے ضروری ہے چیف الیکشن کمیشنر سپریم کورٹ کا کوئی نیک نام جج ہو۔

    5۔ انتظامیہ، لوکل گورنمنٹ اور الیکشن کمیشن کو عدلیہ کی مکمل نگرانی میں دینا ہوگا۔ حکومت اور لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی فنڈز کے استعمال پروقتی طور پر پابندی لگانا ہوگی، سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد کے مطابق میرٹ کی بنیاد پر اپنے باصلاحیت امیدواروں کی ناموں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو پیشگی طور پر فراہم کریں گی جوکہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں گے جبکہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت سینٹ، خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے بالواسطہ طریقے سے متناسب انتخاب کا موجودہ نظام برقرار رہے گا جس میں حلقہ وار امیدواروں کے انتخاب کے بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی عمل کی یہ شق شامل کرنا ہوگی کہ ’’ قومی وصوبائی اسمبلی کے لئے سیاسی جماعتوں کو صوبہ بھر سے ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں ملیں گی جو کہ کسی سیاسی جماعت کی پیشگی فراہم کردہ فہرست سے کامیابی کے تناسب سے لئے جائیں گے۔‘‘

    6۔ متناسب نمائندگی کے پالیمانی نظام کے تحت موجودہ نشستوں کی تعداد اور ان کی صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر تقسیم کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔

    PAT کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تجاویز

    یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ پاکستان عوامی تحریک درج بالا حقائق کی روشنی میں اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ موجودہ نظام انتخابات ملک و قوم کے خلاف ایک گھناؤنی سازش ہے لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے عام انتخابات 2008ء کے ضابطہ اخلاق کی تشکیل پر ان کی طرف سے موصولہ خط کے جواب میں اپنی تحریری تجاویز مورخہ 2 نومبر 2007ء کو ارسال کیں، جن کو اپنانے سے اس نظام کی بہت سی خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ ان تجاویز کا مکمل متن حسبِ ذیل ہے:

    ’’پاکستان عوامی تحریک کے نقطہ نظر کے مطابق موجودہ انتخابی نظام انتہائی مہنگا اور اتنا کرپٹ ہوچکا ہے کہ عوام کے 98 فیصد غریب و متوسط طبقات سے کسی امیدوار کا منتخب ہونا ناممکن ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کی خرابیوں کی وجہ انتخابی حلقہ جات پر کثرت سے کرپٹ، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، مافیا، بااثر اور حکومتی امیدواروں کا کنٹرول ہے لہٰذا اس صورتحال میں متناسب نمائندگی پر مبنی انتخابی پارلیمانی نظام ہی بہتر نظام انتخاب ہے جو کہ نسبتاً شفاف اور سستا ہے لیکن چونکہ آمدہ عام انتخابات 2008ء میں فوری طور پر نظام انتخاب کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ لہذا موجودہ نظام انتخاب میں رہتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک ممکنہ حد تک انتخابات کو شفاف، منصافانہ اور سستا بنانے کے لئے مجوزہ ضابطہ اخلاق میں درج ذیل مثبت تجاویز پیش کر رہی ہے:

    ضابطہ اخلاق کے موثر نفاذ کے لئے جنرل الیکشن 2008ء کے انعقاد کے لئے غیر جانبدار عبوری قومی حکومت قائم کی جائے جوکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ماتحت ہو۔ امیدوار کے انتخابی اخراجات کی حد میں کمی کی جائے اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کو سنگین جرم قرار دیا جائے۔
    الیکشن کمیشن آف پاکستان حسب ضابطہ ہر ووٹر کے لازمی ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے قانون سازی کروائے مزید برآں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے ووٹرز میں لازمی ووٹ کاسٹ کرنے کی ترغیب و شعور بیدار کرے۔
    الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومتی الیکٹرانک پرنٹ میڈیا، TV اور ریڈیو کے ذریعے ہر سیاسی پارٹی کو اپنا منشور پیش کرنے کا مساویانہ اور بلامعاوضہ موقع فراہم کرے۔
    سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کی انتخابی تشہیری مہم پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور صرف منشور پر مبنی ہینڈ بل کے ذریعے تشہیر کی اجازت ہو۔
    سیاسی پار ٹینراورانکے امیدواران کا اپنی انتخابی تشہیری مہم کے لئے بینرز، پوسٹرز، ہورڈنگز، وال چاکنگ، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے اشتہارات کے استعمال اور جلسے جلوس پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
    پارٹی اخراجات کی حد بھی مقرر کی جائے تاکہ دولت کے بے بہا استعمال کو روکا جا سکے۔
    پارٹی و امیدوار کے سپورٹرز کے انتخابی تشہیری اخراجات کو بھی پارٹی و امیدوار کے اخراجات شمار کئے جائیں۔
    پارٹی و امیدوار کے اخراجات کی مقرر شدہ حد کی خلاف ورزی کو الیکشن جرم قرار دیا جائے۔ ضلعی الیکشن کمیشن میں خصوصی شکایات سیل قائم کیا جائے جو کہ انتخابات سے قبل ہی فیصلہ کرکے خلاف ورزی ثابت ہونے پر امیدوار کو نااہل قرار دے سکے یا پھر اس کے لئے ریٹرننگ آفیسرز کو خصوصی عدالتی اختیارات دیئے جائیں۔
    تمام ووٹرز کے لازمی ووٹ کاسٹ کرنے کے عمل کو ممکن بنانے کے لئے پولنگ اسٹیشنز کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کیا جائے اور ہر جگہ ووٹرز کے قریب ترین پولنگ سٹیشن قائم کئے جائیں تاکہ کوئی امیدوار ٹرانسپورٹ پر اضافی اخراجات کرکے ووٹرز کی رائے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔
    (10) الیکشن کمیشن ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر امیدواران کے پولنگ کیمپس کے لئے مساویانہ جگہ پر خود کیمپس لگوائے تاکہ کوئی امیدوار اضافی اخراجات کرکے بڑے بڑے نمائشی پولنگ کیمپس کے ذریعے ووٹرز کی رائے پر اثر انداز نہ ہوسکے۔
    پاکستان عوامی تحریک نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں انتخابی نظام کو شفاف اور سستا بنانے کے لئے ضابطہ اخلاق کے حوالے سے مثبت تجاویز پیش کردی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے مجوزہ ضابطہ اخلاق میں ضروری ترامیم کرکے ان اصلاحات کو ضابطہ اخلاق کا حصہ بنائے اور اسکی خلاف ورزی کو الیکشن جرم قرار دیا جائے۔‘‘

    یہ اَمر قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنرل الیکشن 2008ء کا حتمی ضابطہ اخلاق جاری کرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کی اس انتہائی حقیقت پسندانہ اور مؤثر تجاویز کو یکسر نظر انداز کر دیا۔

    موجودہ نظام کا متوقع انجام

    ہم نے پوری دیانتداری خلوص اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی تجاویز، آراء اور متبادل نظام کا خاکہ پیش کر رہے ہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں جاری نظام انتخاب پر مطلوبہ تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو سال 2008ء میں ہونے والے عام انتخابات اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی مرکزی اور صوبائی حکومتیں نہایت کمزور اور غیر مؤثر ہوں گی۔

    غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا اور معاشی بدحالی مزید بھیانک صورت اختیار کرلے گی۔
    مذہبی منافرت، سیاسی انتشار، صوبائی عصبیت اور طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوگا۔
    انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا جن، جو بوتل سے پہلے ہی نکل چکا ہے، مزید تباہی پھیلائے گا۔
    اسلامی شعائر جو معاشرے سے پہلے ہی مٹ رہے ہیں مزید ناپید ہوجائیں گے۔ نتیجتاً بے حیائی، عریانی، فحاشی اور اخلاقی بے راہ روی عام ہوجائے گی۔
    ریاستی ادارے مزید کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔ حکومت اور طاقت کے مرکز و محور ’’خفیہ‘‘ اور سازشی عناصر رہیں گے۔
    پاکستان نہ صرف عالم اسلام کی توقعات پر پورا اترنے سے قاصر ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک ناکام ریاست کے طور پر جانا جائے گا۔
    یہ سارے حالات ملک و قوم کو ایک بھیانک انجام کی طرف دھکیل دیں گے۔ لہٰذا پاکستان عوامی تحریک ایسے عمل میں کیسے شریک ہوسکتی ہے جس کے نتائج کا تصور کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔

    پاکستان عوامی تحریک کا آئندہ لائحہ عمل

    ملک و قوم کی نجات اسی میں ہے کہ سستا اور شفاف نظام انتخاب اپنایا جائے۔ آج ملک میں سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین و اقلیتوں کی نشستوں کی حد تک جزوی طور پر اگرچہ متناسب نمائندگی کا بالواسطہ نظام بھی نافذ ہے لیکن بڑے پیمانے پر تبدیلی کے لئے اور ملک و قوم کو شفاف نظام انتخاب عطا کرنے کے لئے ملک میں مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام انتخاب نافذ کیا جانا ضروری ہے۔ لہٰذا پاکستان عوامی تحریک یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ملک میں رائج کرپٹ اور مہنگے نظام انتخاب کو تبدیل کرکے مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی انتخابی نظام نافذ کیا جائے۔

    لہٰذا اِس بدعنوان اور مہنگے نظامِ اِنتخاب کی وجہ سے پاکستان عوامی تحریک نے حقیقت پسندانہ اور جرات مندانہ اقدام اٹھایا ہے کہ پارٹی کی جنرل کونسل کے فیصلہ کے مطابق پاکستان عوامی تحریک عام انتخابات 2008ء سے لاتعلقی اور علیحدگی کا اِعلان کرتی ہے یعنی پاکستان عوامی تحریک بحیثیت جماعت جنرل الیکشن 2008ء میں اپنے امیدوار نامزد نہیں کرے گی۔ پاکستان عوامی تحریک کسی اِنتخابی اِتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، اسی لئے اُس کی تنظیمات اور جملہ کارکنان کسی اُمیدوار یا پارٹی کی حمایت کے لئے اجتماعی طور پر الیکشن عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔

    پاکستان عوامی تحریک ملک کے تمام ریاستی و مقتدر اداروں بشمول عدلیہ، پارلیمانی پارٹیز، اراکین پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن اور نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو سے مطالبہ کرتی ہے کہ ملک کے موجودہ کرپٹ اور مہنگے نظام انتخاب کو تبدیل کرکے مکمل طور پر متناسب نمائندگی کا پارلیمانی نظام نافذ کیا جائے۔

    پاکستان عوامی تحریک تمام سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، میڈیا کے نمائندگان، دانشوروں اور وکلاء، طلباء، اساتذہ، انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی کارکنان اور جملہ عوام الناس سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ملک و قوم کو مسائل کی دلدل میں دھنسانے والے موجودہ نظام انتخاب سے چھٹکارا دلوانے اور متناسب نمائندگی کے سستے و شفاف پارلیمانی نظام انتخاب کے مکمل نفاذ کے لئے جدوجہد کریں۔ مزیر برآں چہرے بدلنے پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے نظام کی تبدیلی کے لئے پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ دیں۔ پاکستان عوامی تحریک نظام کی تبدیلی کے لیے جمہوری اور پرامن انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔

    اس پر میں عرض کروں گا کہ معمولی بیماری میں تو ایسے ہی کرنا چاہیئے، مگر کینسرزدہ عضو کو تو کاٹ دینا ہی عقلمندی کا تقاضا ہوتا ہے۔ جب ایک عمارت جگہ جگہ سے توڑ پھوڑ کا شکار اور بدنما غلاظتوں کا ڈھیر بن چکی ہو تو پھر ناقابلِ مرمت ہوجاتی ہے، تب اس پوری عمارت کو گرا کر نئے سرے سے ایسی عمارت تعمیر کی جاتی ہے ، جو ہماری تمام ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرسکے۔ آصف بھائی ! ہمارا انتخابی نظام اس حد تک کرپٹ ہوچکا ہے کہ اب اسکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ باقی نہیں بچا ، اور اسکے لئے پوری قوم کے محبِ وطن لوگوں کو میدانِ عمل میں نکلنا ہوگا۔

    دوستو، پاکستان ہم سب کا گھر ہے، جسے پھر سے نئی تعمیر کی ضرورت ہے۔ آئیے، اس تعمیرِنو میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے پوری قوم کا شعور بیدار کرنے پر محنت کریں اور اس نعرے کو قوم کی آواز بنا دیں کہ:
    کرپٹ نظامِ انتخاب --- نامنظور ، نامنظور
    آزادی ، آزادی --- جعلی جمہوریت سے آزادی
    قومی مسائل کا حل نظام --- متناسب نمائیندگی کا شورائی نظام


    اللہ حافظ۔ والسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔
     
  13. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    ۔
    السلام علیکم
    اس پر تو میں پہلے سے متفق ہوں کہ موجودہ نظام انتخاب درست نہیں ، میرا اختلاف اس بات پر ہے کے جس طرح اس نظام کو یکسر مسترد کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ درست نہیں ، پاکستان مسلم اکثریت والا ملک ضرور ہے مگر پاکستان میں اسلامی شریعیت نافذ نہیں ہے ، اسلام میں نطام حکومت کا جو تصور موجود ہے ، وہ تب ہی ممکن ہے کہ جب معاشرہ مکمل اسلامی قالب میں ڈھل جائے ، یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ہم لوگ اسلام کے ایک حصے کو تو رکھ لیں اور باقی کو چھوڑ دیں ، اسلامی خلافت اور نیابت کی جو بات کی جا رہی ہے تو عرض ہے کہ خلیفہ اول جناب حضرت ابو بکر صدیق کو تو خلافت کے لیے سیدنا عمر فاروق رجی اللہ تعالی نے نامزد کیا تھا اور پھر عوام نے ان کے ہاتھ پر بیت کر لی تھی ، اور پھر ہر خلیفہ اپنے نائب خود مقرر کرتا رہا ہے یا پھر ایک مجلس شوری تشکیل دے کر یہ ذمہ داری اس کے حوالے کر دی جاتی رہی ہے ، پورے خلافت راشدہ کا دور اس کا ثبوت ہے ،
    مگر آج کے زمانے میں‌ کون آج کے خلیفہ کو نامزد کرے گا ؟
    یا کون ایسی مجلس شوری تشکیل دے گا جو یہ کام کرے گی ؟

    اسلامی نظام حکومت یقینا سب سے بہترین نظام حکومت ہے ، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دور میں اسے نافذ کون کرے گا ؟
    آج ساری دنیا میں انتخابات کے زریعے ہی حکومتیں بنتی ہیں ، یہ نظام حکومت یقینا اتنا درست نہیں مگر اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے ۔
    غلطی نظام میں نہیں ہمارے رویوں میں ہے ۔
    انتخابات کے دن ہم لوگوں کی اکثریت اپنے گھروں میں بیٹھ کر چھٹی انجوائے کرتی ہے اور پورا دن ٹی وی پر رنگ برنگے اور مصالے دار پروگرام دیکھنے میں گزار دیتی ہے ۔ حالانکہ نظام تو ہر بالغ شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے اپنا نمائندہ منتخب کرے ۔
    جو لوگ پولنگ اسٹیشن تک جاتے بھی ہیں تو وہ اس شخص کو ہی ووٹ کاسٹ کرتے ہیں جو سب سے بڑا چور ہو ، جس نے سب سے زیادہ اپنی پبلسٹی کی ہو ، جس نے سب سے زیادہ جھوٹ بولا ہو ، اور جو تھانے کچہری میں ہماری مدد کر سکے ۔ حالانکہ دستور میں عوامی نمائندگی کے لیے امیدوار کا عاقل ، بالغ اور باکردار لازمی شرط ہے ، مگر ہم لوگ بدکردار لوگوں کے کاغذات نامزدگی کے خلاف کسی بھی عدالت میں نہیں جاتے ۔

     
  14. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    لگتا ہے کہ آپ نے اوپر کی پوسٹ نہیں پڑھی، شاید ٹائمنگ کے فرق کی وجہ سے ایسا ہوا ہے، ورنہ آپ اس طرح نہ لکھتے۔ واضح ہونا چاہئے کہ:

    1- کرپٹ نظامِ انتخاب کو جڑ سے اکھاڑ کر کسی شخصی آمریت کا نفاذ ہمارا ہرگز مطالبہ نہیں، بلکہ "متناسب نمائیندگی کا شورائی نظامِ انتخاب" ہمارے مسائل کا حل ہے، جوکہ اسلامی تصورات کے مطابق اور موجودہ دور میں بالکل قابلِ عمل ہے۔

    2۔ عوامی جدوجہد سے مراد پرامن جدوجہد ہے، کسی بھی قسم کی تخریبی یا دہشت گردانہ جدوجہد ہرگز نہیں۔

    3- جب آپ خود بھی تسلیم کرتے ہیں، کہ اس نظامِ انتخاب میں خرابیاں ہی خرابیاں ہیں تو پھر انکو درست کئے بغیر آپ اس کرپٹ نظام سے کس طرح خیر کی توقع کرتے ہیں؟ اس طرح تو آپ خود بھی اسی کرپشن کا حصہ بن کر رہ جائیں گے۔ جب کروڑوں روپے خرچ کئے بغیر اس نظام میں کامیابی کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں، تو آج کتنے لوگ اس طرح کے محب وطن ہیں جو صرف قوم کی خاطر اور واپسی کی امید کے بغیر ، اپنی جیب سے کروڑوں روپے خرچ کرسکیں؟ اگر صرف اس ایک سوال پر ہی آپ دیانتداری سے غور کریں، تو اسکا جواب یقیناً نفی میں ملے گا۔ لہذا ثابت ہوا کہ موجودہ نظام کی بنیاد ہی کرپشن پر ہے اس لئے نظام کو بدلے بغیر اگر کوئی محب وطن سیاسی جماعت اس لیکشن میں حصہ لے گی ، تو وہ اپنے نمائیندوں کی کرپشن کے سامنے بے بس ہوجائے گی، اور اس طرح مثبت تبدیلی لانے کی امید راستے ہی میں دم توڑدے گی۔


    اسلام ایک آفاقی دین ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، جو زندگی کے ہر ہر معاملے میں ہماری درست رہنمائی کرتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ ہردور کی ضروریات کو مکمل طور سے accomodate کرتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک اسلامی ریاست کا سیاسی ڈھانچہ کیسا ہونا چاہئے، اس بارے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب The Islamic State کا مطالعہ بہت مفید ہوگا، جسمیں انہوں نے دورجدید کی اسلامی ریاست کے سیاسی نظام کا قابل عمل نقشہ پیش کیا ہے۔ پوری دنیا میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، اس ماڈل سے رہنمائی لے سکتے ہیں، اور پاکستان تو پھر ہمارا اپنا پیارا گھر ہے، اسکو سنوارنے کیلئے تو ہمیں ترجیحاً جدوجہد کرنی ہوگی۔امید ہے کہ اسکے مطالعہ سے آپکے بہت سے سوالات کا جواب مل جائے گا۔
    لنک یہ ہے:
    http://www.scribd.com/doc/29543647/The-Islamic-State-English

    آخری اہم بات:
    ۶۳ سال پاکستانی قوم نے سوچتے ہوئے گنوا دئے ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ قوم اس ظالمانہ نظام کے خاتمے کیلئے اُٹھ کھڑی ہو؟ یاد رکھو ، ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے، اتنی ہی زیادہ قربانی دینا پڑے گی۔
    اسکے بعد بھی اگر کچھ سوالات باقی رہ جائیں، تو مزید ڈسکشن ہوسکتی ہے
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلام علیکم۔ محمد اکرم بھائی
    کرپٹ انتخابی ڈھکوسلہ کی جزئیاتی تفصیلات تک اسکی خرابیوں سے آگہی دینے پر شکریہ ۔

    اسلام کے سیاسی نظام کو فقط "خلافت" میں کہیں مقید نہیں‌کیا جاسکتا۔۔ بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا نظام ۔۔ مشاورت و جمہوریت ۔۔ پر مبنی ہےاب اس مشاورت و جمہوریت سے جس کو بھی اپنا اولی الامر منتخب کریں گےاس کو چاہے۔ صدارتی نظام میں صدر کہہ لیں۔۔ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم کہہ لیں ۔۔ یا خلافت کے نظام میں خلیفہ کہہ لیں۔
     
  16. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی




    اکرام بھائی ! میں نے آپ کا پیغام پڑھا ہے اور اس کے بعد ہی اپنا جواب لکھا ہے ، لیکن شاید میں آپ کو اپنی بات سمجھا نہیں پایا ۔

    اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ اسلامی نظام حکومت سے بہتر کوئی نظام حکومت نہیں ، شورائی نظام حکومت جس کی طرف آپ نے اور نعیم بھائی نے اشارہ کیا ہے ، کہ وہ چاہے کسی بھی طرز حکومت میں ہوں‌ ، میں بھی یہ بات تسلیم کرتا ہوں ، مگر میرا سوال ہے کہ یہ شورائی نظام لانے کا طریقہ کار کیا ہو گا ؟
    اور کون لوگ ہونگے جو اس شوری کی تشکیل دینے کے اہل ہونگے ؟
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    شورائی نظام لانے کا طریقہ سے متعلق اسی دھاگہ کی پوسٹ نمبر 12 میں محمد اکرم بھائی نے جواب دیا ہے۔ گوکہ یہ بات چند برس پرانی ہے لیکن یقینا ڈاکٹر طاہر القادری اور انکی جماعت کا یہی موقف ہوگا کہ وہ متناسب نمائندگی کا نظام رائج کروانا چاہتے ہیں۔ میں محمد اکرم بھائی کی پوسٹ نمبر 12 سے کچھ اقتباسات عرض کیے دیتے ہوں۔

    متناسب نمائندگی کا نظام اس وقت دنیا کے تقریباً 50 ممالک میں مختلف شکلوں میں رائج ہے مثلاً آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی، سری لنکا اور اس طرح کئی دیگر ممالک میں اس نظام کے تحت انتخابات ہو چکے ہیں، مختلف ممالک نے اپنے مخصوص حالات کے تناظر میں اس تصور میں جسب ضرورت تبدیلیاں کر کے اس نظام کو اپنے ہاں رائج کیا ہوا ہے اس لئے متناسب نمائندگی کے نظام کی مختلف شکلیں مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد اسلام ہے۔ قرارداد مقاصد نے آئین پاکستان میں اس کی نظریاتی اساس کا تعین کر دیا ہے، قرارداد مقاصد جمہوری اور قرآن و سنت میں وضع کئے گئے اصولوں کے عین مطابق ہے۔

    متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں حلقہ وار امیدواروں کے درمیان انتخابی عمل کی بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی عمل ہوتا ہے اور ہر سیاسی جماعت کو مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹس کے تناسب سے اسمبلی میں نشستیں ملتی ہیں۔ متناسب نمائندگی کے نظامِ انتخاب میں ووٹرز براہِ راست سیاسی پارٹی کی قیادت اور منشور کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے سیاسی جماعتوں کو بالترتیب ملک و صوبہ بھر سے ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں ملتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد کے مطابق میرٹ کی بنیاد پر اپنے باصلاحیت امیدواروں کے ناموں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو پیشگی مہیا کرتی ہیں جو کہ آئین کے مطابق طے کردہ اہلیت کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں۔ متناسب نمائندگی کے انتخابی نظام میں اگر سیاسی جماعت کو مجموعی طور پر 30 فیصد ووٹ ملتے ہیں تو انہیں اسمبلی میں حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے 30 فیصد نشستیں مل جاتی ہیں۔ اسی طرح جن جماعتوں کو اس سے زیادہ یا کم ووٹ ملتے ہیں اسی مناسبت سے پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی ملتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارا ملک اپنے مخصوص حالات کے تناظر میں اس نظام انتخاب میں حسب ضرورت تبدیلیاں کر کے اس نظام کو رائج کرسکتا ہے۔


    اور یہ سوال کہ یہ نظام نافذ کون کرے گا۔ اسکا جواب بھی پوسٹ نمبر 12 میں واضح ہے کہ یہ کام عدلیہ سرانجام دے۔ اس کام کے لیے وہ بےداغ ماضی ، محب وطن و باکردار قانون دان، پروفیسرز ، دانشور وغیرہ پر مشتمل عبوری حکومت بھی تشکیل دے سکتی ہے۔

    شفاف انتخابات کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے عدلیہ کی زیرنگرانی غیرجانبدار عبوری قومی حکومت کا قیام انتہائی لازمی ہوگا۔ چیف الیکشن کمیشن کو بہر صورت با اختیار اور غیرجانبدار ہونا چاہیے، جس کے لئے ضروری ہے چیف الیکشن کمیشنر سپریم کورٹ کا کوئی نیک نام جج ہو۔

    انتظامیہ، لوکل گورنمنٹ اور الیکشن کمیشن کو عدلیہ کی مکمل نگرانی میں دینا ہوگا۔ حکومت اور لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی فنڈز کے استعمال پروقتی طور پر پابندی لگانا ہوگی، سیاسی جماعتیں اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد کے مطابق میرٹ کی بنیاد پر اپنے باصلاحیت امیدواروں کی ناموں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو پیشگی طور پر فراہم کریں گی جوکہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے معیار پر بھی پورا اترتے ہوں گے جبکہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت سینٹ، خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے بالواسطہ طریقے سے متناسب انتخاب کا موجودہ نظام برقرار رہے گا جس میں حلقہ وار امیدواروں کے انتخاب کے بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان انتخابی عمل کی یہ شق شامل کرنا ہوگی کہ ’’ قومی وصوبائی اسمبلی کے لئے سیاسی جماعتوں کو صوبہ بھر سے ملنے والے ووٹوں کے تناسب سے نشستیں ملیں گی جو کہ کسی سیاسی جماعت کی پیشگی فراہم کردہ فہرست سے کامیابی کے تناسب سے لئے جائیں گے۔‘‘

    تاہم ایک بات طے ہے کہ عدلیہ یہ اقدامات اس وقت تک نہیں کرے گی جب تک قوم یک آواز ہوکر اس اقدام کا مطالبہ نہ کرے۔ اور غالبا اسی شعوری بیداری کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب آواز بلند کررہے ہیں۔ جس پر کان دھرنا یا نہ دھرنا پاکستانی عوام کا کام ہے۔

    والسلام علیکم
     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی


    نعیم بھائی !
    متناسب نمائندگی کے جس نظام کا آپ اور اکرم بھائی ذکر کر رہے ہیں وہ یقینا ایک بہترین نظام ہے ، اور میں اس کی حمایت کرتا ہوں‌ ، مگر آپ دونوں‌ بھائیوں‌ کی تحریریں‌ پڑھ کر اور سمجھ کر میرے ذہن میں‌ کچھ سوال پیدا ہو رہے ہیں ، جو میں یہاں‌ تحریر کر رہا ہوں‌ ۔


    1 - اگر اپنے نمائندوں کو عوام نے ہی منتخب کرنا ہے تو پھر موجودہ نظام میں کیا برائی ہے ، اور اگر ہے تو کیا سے درست نہیں کیا جاسکتا ، جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ متناسب نمائندگی کے نظام کو اپنے حالات کے مطابق تھوری بہت تبدیلی کر کے پاکستان میں نافذ کیا جائے ، اگر متناسب نمائندگی کے نظام میں بھی اپنے حالات کے مطابق تبدیلی کرنی ہے تو کیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ ہم لوگ اپنے موجودہ نظام میں ہی ضروری تبدیلیاں‌ کر لیں ؟

    2 - اگر سیاسی جماعتوں‌ کے درمیان ہی انتخابات کروانے ہیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ موجودہ کرپٹ سیاسی جماعتیں پھر بھی کرپٹ لوگوں کو ہی انتخابات میں ٹکٹ نہیں دینگی ؟ اور اگر ایسا ہی ہوتا ہے اور یقینا ایسا ہی ہوگا کیونکہ ہم لوگ محض انتخابی نظام تبدیل کرینگے ، معاشرتی نظام ہمارا جو کا تو ہی رہے گا ۔

    3 - اگر سمبلیوں میں موجود لوگ ہی ایک نئے نظام کے تحت پھر اسمبلیوں میں آ جائینگے تو پھر اس نظام کی تبدیلی کا کیا فائدہ ؟ کرپٹ سیاست دان حلقہ وار انتخابات کے موجودہ نظام کے تحت اسمبلیوں میں آئیں یا پھر متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت اسمبلیوں میں تو وہ پھر بھی پہنچ ہی جائینگے نا ؟

    4 - اگر عدلیہ قوانین بنانے اور انہیں نافذ کرنے لگی تو پھر پارلیمنٹ کا کیا کام ہے ؟ اور کیا اس سے عدلیہ سیاست زدہ نہیں ہو جائے گی ؟ اور جو عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی اس کے لیے با کردار محبت وطن قانون دان پروفیسرز ، دانشور کہاں سے میسر آئینگے اور انہیں محب الوطنی کا سرٹیفیکٹ کون دے گا ( یاد رہے جناب پروفیسر طاہر القادری صاحب پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون ، مسلم لیگ قاف ، اور ایم کیو ایم کو بھی محب الوطی کا سرٹیفکٹ دے چکے ہیں اس لیے اگر محب الوطنی کا یہی معیار ہے تو پھر عبوی حکومت کا سربراہ بھی زرد آری ہی ہوگا )

    کچھ اور سوالات بھی ہیں مگر پھر بات بحث برائے بحث بن جائے گی ، میں آپ کے اس بات سے مکمل متفق ہوں‌ کہ موجودہ نظام درست نہیں اور اس کے مقابلے میں متناسب نمائندگی کے نظام بہرحال بہتر ہے مگر اس نظام کے نفاذ کا طریقہ کار جو آپ لوگ تجویز کر رہے ہیں میں اس سے متفق نہیں ہوں ، تبدیلی یہ نہیں کہ ہم لوگ نظام انتخاب تبدیل کر دیں ، تبدیلی یہ ہے کہ ہم اپنے بہترین لوگوں کو ایوان ہائے بالا میں بھیجیں ، تبدیلی یہ ہے کہ ہم شعوری طور پر اس بات کا احساس کر لیں کہ ہمارے ووٹ کا استعمال اور پھر درست استعمال ہمارے اج اور ہمارے کل پر اثر انداز ہو گا ، تبدیلی یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم لوگ کسی دوسرے ( عدلیہ ) پر انحصار کریں اور اس کے زریعے تبدیلی کی خواہش کریں بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ ایک بار موجودہ نظام کے زریعے اور عوامی شعور بیدار کر کے ایوان ہائے بالا میں بہتر لوگوں کو بھیجیں اور پھر ان کے زریعے دستوری اور آئینی طریقے سے پر امن تبدیلی لائیں ، قرار داد مقاصد آئین میں موجود ہے ، اس پر عمل کریں اور کروائیں ، نمائندگان کی اہلیت کا قانون موجود ہے ، اس پر عمل کروائیں ، عوامی کوشش سے الیکشن کمیشن کا بااختیار بنوائیں ، اس امر کے لیے ہمیں خود عدالت عالیہ کے پاس جانا چاہیے نا کہ ہم ان کے از خود نوٹس کا انتظار کریں ، بلدیاتی ادارے مظبوط کریں اور تمام ترقیاتی کام ان کے زریعے ہوں‌ ناکہ ممبران پارلیمان کو اپنے اپنے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز جاری کیے جائے ، ممبران پارلیمان صرف قوانین کی تشکیل اور انہیں نافذ کرنے کا کام کریں ۔ انتظامیہ میں مناسب تبدیلیاں کی جائیں انہیں عدلیہ کے ماتحت ہی کیا جائے ۔
    یہ ہیں وہ مناسب تبدیلیاں جو اس نظام میں بھی کر دی جائیں تو یہ نظام بھی بہتر ہو جائے گا ۔ ورنہ حال مصر جیسا ہی ہو گا ۔ تو کیا یہ زیادہ مناسب نہیں کہ ہم لوگ اپنے ووٹ کا بہتر استعمال کرتے ہوئے پر امن طریقے سے تبدیلی لائیں ؟
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    آصف بھائی ۔ آپ پہلے موجودہ نظام کی ہزاروں برائیاں بھی تسلیم کرچکے ہیں۔
    پھرموجودہ نظام سے کبھی بھی صحیح معنوں میں‌ عوام کی منتخب حکومت وجود میں نہیں آسکتی بھی تسلیم کرچکے ہین۔
    متناسب نمائندگی کو بہترین نظام بھی تسلیم کرچکے ہیں۔


    اب اسکے بعد بھی آپ خود کو پٹھان ثابت کرنے پر تلے رہیں تو پھر میری طرف سے معذرت۔۔ کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ جناب علمی و اصولی بات کم اور محض شخصی پسند و ناپسند کی بنیاد پر محض بحث مباحثہ کو طول دینا چاہتے ہیں۔ جس کا کم از کم میں‌متحمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اتنا فضول وقت ہے میرے پاس۔

    والسلام
     
  20. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    نعیم بھائی ! شخصی پسند و نا پسند کی تو بات ہوئی ہی نہیں ، آپ کی جن باتوں سے مجھے اتفاق تھا وہ میں نے کھلے دل و دماغ سے تسلیم کر لی اور جن سے اختلاف تھا وہ واضح کر دیں ، اور فضول وقت تو یقینا میرے پاس بھی نہیں ہے ۔
     
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    میں نے موجودی نظام میں موجود برائیوں کو تسلیم کیا مگر میں نے ہر بار یہی کہا ہے کہ انہیں درست کیا جاسکتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ میں نے متناسب نمائندگی کے نظام کو موجودہ نظام سے بہتر تسلیم کرتے ہوئے متناسب نمائندگی کے نظام میں موجود نقائص بھی سامنے رکھے ہیں ۔

    میں نے کبھی بھی یہ نہیں کہ کہ اس نظام سے صحیح معنوں میں‌ عوام کی منتخب حکومت وجود میں نہیں آسکتی ، مین نے ہر بار یہی کہا ہے کہ عوامی شعور سے ہم لوگ بہترین قیادت منتخب کر سکتے ہیں ۔

    لفظ پٹھان کو بطور گالی استعمال کرنے والوں ‌سے عرض ہے کہ پٹھانوں کے پاس بہت سے دوسرے زعم میں مبتلا لوگوں سے زیادہ عقل و فہم ہوتی ہے (اور علم و اصول کسی کی میراث نہیں ہوتے )
    علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاعری کے ایک بڑے حصے میں افغانوں کا ذکر کیا ہے ، کبھی غور کیجئے گا ۔
     
  22. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست گروپوں، برادریوں، خاندانوں، جاگیرداروں، کرپٹ لوگوں پر محیط ہے اور پارلیمانی نظام انہی‌لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہے۔
    ایران نے اپنا پارلیمانی نظام صرف اس لئے ختم کیا تھا کہ اس سے چند خاندانوں کا تحفظ ہوتا تھا جیسے ہی ایران کا پارلیمانی نظام ختم کر صدارتی نظام میں تبدیل ہوا تو تہران کے ایک ناظم نے الیکشن لڑا اور آج وہ ایران کا صدر ہے۔

    پاکستان کا سیاسی نظام صرف دو ہی صورتوں میں تبدیل ہوسکتا ہے کہ
    1۔ فوجی حکومت آئے اور طاقت سے سیاسی نظام تبدیل کریں لیکن کسی جرنیل کا تعلق جاگیردار کے خاندان سے ہے، کسی کا تعلق سیاسی خاندان سے ہے اور کسی کا خاندان صنعت کار ہے۔
    2۔ مصر، تیونس کی طرح کوئی تبدیلی آئے اور جس طرح تیونس میں ایک اسلامی جماعت اقتدار میں‌آئی اسی طرح کوئی جماعت آجائے۔لیکن ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں کوئی فہم وفراست نہیں۔ کیا جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث، مولانا فضل الرحمان، سنی تحریک، جعفریہ تحریکیں کوئی تبدیلی لائیں گی یہ لوگ مذہبی منافرت ہی پھیلائیں گے، آئین سازی کے دوران ہر فرقہ اپنے مسلک کے مطابق قانون سازی کی کوشش کرے گا۔

    ان جماعتوں کے علاوہ اگر کسی واقعے کے نتیجے میں کوئی تحریک چلتی ہے تو وہ ہائی جیک ہوجائے گی ماضی میں بھی ایوب خان کے خلاف تحریک بھٹو نے ہائی جیک کی اور نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں نکلا۔ 1977 میں تحریک چلی تو نتیجہ ضیاء الحق کی صورت میں نکلا۔

    اور قوم کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے کہ قائداعظم ثانی میاں محمد نواز شریف، خادم اعلٰی شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف، داماد کیپٹن صفدر، کیپٹن صفدر کے بھائی ملک طاہر، رشتہ داروں بلال یاسین، عابدشیر علی، عمر سہیل ضیاء بٹ، محسن لطیف کے بعد قائداعظم ثانی کا بیٹا حسن نواز، بیٹی مریم نواز، بھتیجا سلمان شہباز بھی سیاست میں تشریف لاچکے ہیں۔ قائداعظم ثانی کی زوجہ محترمہ بھی خواتین ونگز سے خطاب کررہی ہیں۔
     
  23. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلام علیکم۔ نعیم بھائی ، پٹھان کا لفظ بولنا مناسب نہیں لگتا، شاید آصف بھائی ناراض ہوگئے۔ آپ نے آصف بھائی کے سوالات کا اچھا جواب دیا مگر ایک بھائی کو اس طرح ناراض کردینا درست نہیں۔
    آصف بھائی پلیز آپ بھی انہیں معاف کردیں۔ جزاک اللہ خیراً۔
     
  24. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    السلام علیکم۔ آصف بھائی مسئلہ زیر بحث کو سمیٹتے ہیں:
    اب تک کی گفتگو میں جو متفقہ امور سامنے آئے :
    1۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ موجودہ نظامِ انتخاب میں بہت سی خرابیاں ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔
    2۔ متناسب نمائیندگی کا نظام موجودہ نظام سے بہت بہتر ہے اور آپ اسکی حمایت کرتے ہیں۔

    اب آتے ہیں آپکے بقیہ سوالات کی طرف - - - -
    1۔ آپکے خیال میں اگر عوامی شعور بیدار ہوجائے تو موجودہ نظام میں رہتے ہوئے بھی ، نیک سیرت باکردار اور باصلاحیت لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجنا ممکن ہے، جبکہ فی الواقع ایسا ممکن نہیں ہے۔ تجربے کی روشنی میں اس بات پر بہت سے دلائل ہیں ، مگر صرف ایک قوی ترین دلیل ، جو کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اس سے آپ کو بھی انکار نہیں ہے ، دہراتا ہوں تاکہ اچھی طرح سے ذہن نشین ہوجائے۔ میں نے اپنی پوسٹ نمبر 14 میں نمبر 3 پرلکھا تھا کہ:
    اس بات کے سچ ہونے سے کوئی بھی ذی شعور آدمی انکار نہیں کرسکتا، لہذا ثابت ہواکہ حقیقی تبدیلی کیلئے موجودہ نظام کو یکسر تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔ اب اسے تبدیل کرکے نافذ کونسا نظام کیا جائے، اس پر کوئی دوسری رائے نہیں کہ "متناسب نمائیندگی" کا نظامِ انتخاب ہی بہترین حل ہے۔
    اب رہی یہ بات کہ اسکا تفصیلی ڈھانچہ کون بنائے گا، تو اس پر ملک کے باصلاحیت قانون دانوں کے درمیان بھرپور بحث کرائی جائے ، جو میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے بھی لائیو نشر کی جائے، تاکہ قوم بھی اس پر مطمئن ہوسکے۔
    2۔ اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ موجودہ حکمرانوں کو اس تبدیلی پر مجبور کس طرح سے کیا جائے؟ اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ اگر تنہا فوج کو یہ کام سونپ دیا جائے، تو فوجی آمر محض اپنے شخصی اقتدار کو طول دینے میں لگ جاتے ہیں، پھر وہی کرپٹ سیاستدان جمہوریت کی بحالی کے نام پر "وردی اتارنے" کے مطالبے کے ذریعے قوم کو ہائی جیک کرلیتے ہیں، اور قوم بھی اپنی سادہ لوحی میں یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ بس وردی اترنے کی دیر ہے، پھر سارے مسائل حل ہوجائیں گے، مگر جب وردی اتر چکتی ہے تو پھر اسی سوراخ سے ڈسی جانے لگتی ہے۔ لہذا فوج کو صرف دفاعِ وطن تک ہی محدود رکھنا ہوگا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ کام کیسے ہو؟ تو اسکا سیدھا جواب یہ ہے کہ آزاد عدلیہ ہی اس کام میں عوام کی مدد کرسکتی ہے ۔۔۔
    --- جاری ہے ---
     
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی


    اکرم بھائی !

    جانے یہ میری کم علمی ہے یا کچھ اور کہ میں آپ لوگوں‌ کو اپنا اصل نکتہ نظر سمجھا ہی نہیں پا رہا ، میرے بھائی آپ نے حوالہ دیا کہ جب کروڑوں روپے خرچ کئے بغیر اس نظام میں کامیابی کے بارے میں سوچنا بھی ممکن نہیں، تو آج کتنے لوگ اس طرح کے محب وطن ہیں جو صرف قوم کی خاطر اور واپسی کی امید کے بغیر ، اپنی جیب سے کروڑوں روپے خرچ کرسکیں ؟

    میرا سوال بھی یہی ہے کہ جب آپ متناسب نمائندگی کے نظام کی بات کرتے ہیں اور پھر اس میں بھی انتخابات کی بات ہوتی ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ان انتخابات میں بھی امیدوار کروڑوں‌ روپے نہیں خرچ کرینگے ؟
    جب نمئندگان کو عوام نے ہی منتخب کرنا ہے تو پھر کیوں نہ ہم عوام کو یہ شعور دلانے کی کوشش کریں کہ وہ کرپٹ لوگوں‌ کو ووٹ نہ دیں اور صرف ان ہی لوگوں‌ کو ووٹ دیں‌ جو کرپٹ نہ ہوں یہ بلکل سیدھی سی اور سامنے کی بات ہے ، آپ نے فرمایا کہ اب رہی یہ بات کہ اسکا تفصیلی ڈھانچہ کون بنائے گا، تو اس پر ملک کے باصلاحیت قانون دانوں کے درمیان بھرپور بحث کرائی جائے ، جو میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے بھی لائیو نشر کی جائے، تاکہ قوم بھی اس پر مطمئن ہوسکے ۔
    اس پر یہی عرض ہے کہ ان باصلاحیت قانون دانوں کو کون منتخب کرے گا کہ جو یہ ڈھانچہ تشکیل دینگے ، یہاں تو ہر قانون دان خود کو دوسرے سے زیادہ باصلاحیت ثابت کرتا نظر آتا ہے اور صرف قانون دان ہی کیوں معاشرے کا ہر شخص اسی زعم میں مبتلا ہے ، ایسی صورت میں‌ سوائے چوچو کے مربے کے آپ کیا حاصل کر پائینگے ؟ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کی ہی مثال لے لیں اس کے قائدین جو اس وقت ایک ساتھ کھڑے تھے آج کہاں ہیں ، اعتزاز احسن کہاں ہے ؟ علی احمد کرد کہاں‌ ہیں ؟ جسٹس ریٹائیرڈ طارق محمود کہاں‌ ہیں ؟ اس لیے بجائے اس کے کہ ہم لوگ ایک نئے نظام کی تشکیل کے لیے ٹی وی چینلز پر مناظرے کروائیں ، پھر اگر ایک متفقہ نظام کا ڈھانچہ تیار ہو جاتا ہے تو پھر عدلیہ کے پاس جائیں‌ اور اسے اس عمل کا حصہ بنائیں‌ ، اور بل آخر اگر ہم لوگ ایک نیا نظام وضع کر بھی لیں تو عوام تو پھر بھی وہی رہینگے نا ، جن پر اصل کام کرنا ہے وہ نظر انداز کر دئیے گئے ، عوام تو پھر بھی نئے نظام کے تحت بھی ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دینگے جو انہیں اس کے بدلے میں مراعات دیں ، یا جو ان کی برادری سے ہو یا جس کی ان کی برادری کے کسی بڑے نے حمایت کی ہو گی ، یا جو مشکل وقت میں ان کے ساتھ تھانے کچہری تک جا سکے ۔
    میرے بھائی اصل کام کرنے کی جگہ یہ ہے ، یہ عوام ، جن کے شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ، جنہیں یہ احساس دلانا ہو گا کہ نوٹ کے بدلے ووٹ دینا ان کے اور انکے بچوں‌ کے مستقبل کے لیے کتنا خطر ناک ہے ، برادری ازم کی بنیاد پر کسی غلط آدمی کو اسمبلیوں میں بھیج دینا ، غنڈے اور بدمعاشوں‌ کو اپنا رہنما بنا لینا ان کے ہاتھ مزید مضبوط کرنے جیسا ہے ، یہ ہے وہ میدان جس پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے ، جہان ہمیں اپنی توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہے ، اور اگر ہم لوگ یہ سب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور معاشرے کا بہترین طبقہ پارلیمان میں پہنچ جاتا ہے تو پھر نظام کو محض ایک قرار داد کے زریعے بھی تو تبدیل کیا جاسکتا ہے ، وہ بحث جو ہم ٹی وی چینلز کی لائیو نشریات میں غیر منتخب باصلاحیت قانون دانوں کے درمیان کروانا چاہتے ہیں اور ساری قوم کو سب کچھ چھوڑ کر ٹی وی پر یہ مناظرے دیکھنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں ، اگر یہی بحث ہمارے منتخب نمائندے پارلیمان میں کریں تو کیا مناسب نہ ہو گا ؟ عدلیہ کو اس کا کام کرنے دیں اور آزاد عدلیہ کے زریعے جو کام کروانا زیادہ بہتر ہے وہ آزاد الیکشن کمیشن کا قیام ہے ، باقی سب کچھ عوامی شعور کے زریعے کیا جائے ۔
    ایک بات آپ نے کہی اور درست کہی کہ ہمارے ہاں ہر تحریک ہائی جیک کر لی جاتی ہے ، اس کی ایک وجہ ہماری بے صبری ہے ، ہم لوگ ہر کام فورا کر لینا چاہتے ہیں ، اور دوسری وجہ ہم میں سے ہر شخص خود کو عقل کل یا اس سے کچھ ہی کم سمجھتا ہے ، یاد رہے ہر تحریک کی طرح متناسب نمائندگی کے نظام کی تحریک بھی ( اگر اس پر عمل ہو تا ہے تو ) ہائی جیک ہو سکتی ہے ، اس لیے عوامی شعور کی بیداری اور مسلسل بیداری ہی ایک آخری حل رہ گیا ہے ۔
     
  26. فرح ناز
    آف لائن

    فرح ناز ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2010
    پیغامات:
    236
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: تبدیلی نظام کے خلاف بغاوت کرنے سے آئے گی

    [​IMG]
    ایکسپریس
     

اس صفحے کو مشتہر کریں