1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مرمیڈ, ‏22 اکتوبر 2011۔

  1. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔

    جوگن کا بنا کر بھيس پھرے
    برہن ہے کوئي چوديس پھرے

    سينے ميں ليے سينے کي دکھن آئي ہے پون جاتي ہے پون
    پھولوں نے کانٹوں نے کہا
    کچھ دير ٹہر دامن نہ چھڑا
    پر اس کا چلن وحسي کا چلن آتي ہے پون جاتي ہے پون

    اس کو تو کہيں مکسن نہ مکاں
    آوارہ بہ دل آوارہ بجاں
    لوگوں کے ہيں گھر لوگوں کے وطن آتي ہے پون جاتي ہے پون

    يہاں کون پون کي نگاہ ميں ہے
    وہ جو راہ ميں ہے بس راہ ميں ہے
    پربت کہ نگر، صحرا کہ چمن آتي ہے، پون جاتي ہے پون

    رکنے کي نہيں جو اٹھ بھي چکو
    انشا جي چلو ہاں تم بھي چلو
    اور ساتھ چلے دکھتا ہوا من آتي ہے پون جاتي ہے پون
     
  2. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔

    دل درد کي شدت سے خون گشتہ وہ ہي پارہ
    اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشي و آوارہ
    شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگي ہے کہ بنجارہ
    دروازہ کھلا رکھنا
    سينے سے گھٹا اٹھے، آنکھوں سے جھڑي بر سے
    پھاگن کا نہيں ہے بادل جو چار گھڑي بر سے
    دروازہ کھلا رکھنا

    ہاں تھام محبت کي گر تھام سکے ڈوري
    ساجن ہے ترا ساجن، اب تجھ سےتو کيا چوري
    جس کي منادي ہے بستي ميں تري گوري
    دروازہ کھلا رکھنا
     
  3. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔

    ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
    زندگی سے اسے نسبت کیا ہے
    آندھی اٹھے تو اڑا لے جائے
    موج بِپھرے تو بہا لے جائے
    ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
    ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے
    سامنے ہو، پہ کنارا نہ ملے
    ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
    کُند تلوار قلم کر ڈالے
    سرد شعلہ ہی بھسَم کر ڈالے
    اندگی سے اسے نسبت کیا ہے
    ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

    شکیب جلالی
     
  4. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    پتھر کی لڑکی

    اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
    تو اپنے پیکر کی سبز رت پر
    بہت سی کائی اگایا کرتی
    بہت سے تاریک خواب بنتی
    تو میں اذیت کی ملگجی
    ان گنت اداسی کے رنگ چنتی

    اگر میں پتھر کی لڑکی ہوتی
    میں اپنے پلو میں سوگ باندھے
    کسی کو ان کا پتہ نہ دیتی
    اجالے کو ٹھوکروں میں رکھتی
    خموشیوں کے ببول چنتی
    سماعتوں کے تمام افسون
    پاش کرتی۔ ۔ ۔

    میں کچھ نہ سنتی
    دہکتی کرنوں کا جھرنا ہوتی
    سفر کے ہر ایک مرحلے پر
    میں رہزنوں کی طرح مکرتی
    وہم اگاتی،گمان رکھتی
    تمہاری ساری وجاہتوں کو
    میں سو طرح پارہ پارہ کرتی
    نہ تم کو یوں آئینہ بناتی


    اگر ۔ ۔ ۔ میں پتھر کی لڑکی ہوتی۔۔۔!!!
     
  5. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    دريچہ ہے دھنک کا اوراک بادل کي چلمن ہے
    اور اس چملن کے پيچھے چھپ کے بيٹھے
    کچھ ستارے ہيں ستاروں کي
    نگاہوں ميں عجيب سي ايک الجھن ہے
    وہ ہم کو ديکھتے ہيں اور پھر آپس ميں کہتے ہيں
    يہ منظر آسماں کا تھا يہاں پر کس طرح پہنچا
    زميں ذادوں کي قسمت ميں يہ جنت کس طرح آئي؟

    ستاروں کي يہ حيراني سمجھ ميں آنے والي ہے
    کہ ايسا دلنشيں منظر کسي نے کم ہي ديکھا ہے
    ہمارے درمياں اس وقت جو چاہت کا موسم ہے
    اسے لفظوں ميں لکھيں تو کتابيں جگمگااٹھيں
    جو سوچيں اس کے بارے ميں توروہيں گنگنا اٹھيں
    يہ تم ہو ميرے پہلو ميں
    کہ خواب زندگي تعبير کي صورت ميں آيا ہے؟
    يہ کھلتے پھول سا چہرہ
    جو اپني مسکراہٹ سے جہاں ميں روشني کردے
    لہو ميں تازگي بھردے
    بدن اک ڈھير ريشم کا
    جو ہاتھوں ميں نہيں رکتا
    انوکھي سي کوئي خوشبو کہ آنکھيں بند ہو جائيں
    سخن کي جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائيں
    چھپا کاجل بھري آنکھوں ميںکوئي راز گہرا ہے
    بہت نزديک سے ديکھيں تو چيزيں پھيل جاتي ہيں
    سو ميرے چار سو دو جھيل سي آنکھوںکا پہرا ہے
    تمہيں ميں کس طرح ديکھوں ?
     
  6. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔



    کوئی وعدہ نہیں ہم میں نہ آپس میں بہت باتیں
    نہ ملنے میں بہت شوخی کہ آخر شب مناجاتیں
    مگر اک ان کہی سی ہے جو ہم دونوں سمجھتے ہیں
    یہ سارے دلربا منظر طلسمی چاندنی راتیں
    سنہری دھوپ کے موسم یا ہلکے سکھ کی برساتیں
    سب ہی اک ضد میں رہتے ہیں مجھے پیہم یہ کہتے ہیں
    محبت یوں نہیں اچھی ، محبت یوں نہیں اچھی
    Reply With Quote
     
  7. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔

    کچی قبریں

    ان قبروں پر اب تک جانے
    کتنی قبریں اور بنی ہیں
    بہرِ دعا بھی ہم کو آئے
    مدّت گزری
    کہیں کہیں سنگِ تُربت پر
    روشن ہیں کچھ تحریریں سی بُجھتے دیوں کی
    جو کہتی ہیں
    اب بھی کوئی دیا جلا کر رکھ جاتا ہے
    جانے کس کا وارث کس کی یاد کو روشن کر جاتا ہے
     
  8. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    سُنا ھے اس جہاں میں
    زندگی کی قحط سالی ھے
    یہاں دو چار دن جینے کا
    اکثر زکر ھوتا ھے
    یہاں ہر چیز فانی ھے
    سبھی کو موت آنی ھے
    یہاں اظہار کیا کرنا ؟
    یہاں پر پیار کیا کرنا ؟
    مگر کچھ یوں بھی سنتا ھوں
    کہ ایسا اک جہاں ھو گا
    کہ جس میں موت آنے کا
    کوئی دھڑکا نہیں ھو گا
    حیات جاویداں کے سب
    وہاں اسباب رکھے ھیں
    یہ میرا تم سے وعدہ ھے
    اگر دونوں وہاں ملے
    وہیں اقرار کر لینگے
    وہیں اظہار کر لینگے
    وہیں پھر پیار کر لینگے
     
  9. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    اسے میں نے ہی لکھا تھا
    کہ لہجے برف ہوجاٰئیں
    تو پھر پگھلا نہیں کرتے
    پرندے ڈر کر اڑ جائیں
    تو پھر لوٹا نہیں کرتے
    یقیں اک بار اٹھ جائے
    کبھی واپس نہیں آتا
    ہواؤں کا کوئی طوفاں
    بارش نہیں لاتا
    اسے میں نے ہی لکھا تھا
    جو شیشہ ٹوٹ جائے تو
    کبھی پھر جڑ نہیں پاتا
    جو راستے سے بھٹک جائیں
    وہ واپس مڑ نہیں پاتا
    اسے کہنا وہ بے معنی ادھورے خط
    اسے میں نے ہی لکھا تھا
    اسے کہنا کے دیوانے مکمل خط نہیں لکھتے
     
  10. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    اداسی کے افق پر
    جب تمھاری یاد کے جگنو چمکتے ہیں
    تو میری روح پر رکھا ہوا یہ ہجر کا پتھر
    چمکتی برف کی صورت پگھلتا ہے
    اگرچہ یوں پگھلنے سے یہ پتھر، سنگریزہ تو نہیں بنتا
    مگر اک حوصلہ سا دل کو ہوتا ہے
    کہ جیسے سرسبز تاریک شب میں بھی
    اگر اک زرد رو، سہما ہوا تارا نکل آئے
    تو قاتل رات کا بے اسم جادو ٹوٹ جاتا ہے
    مسافر کے سفر کا راستہ تو کم نہیں ہوتا
    مگر تارے کی چِلمن سے
    کوئی بُھولا ہوا منظر اچانک جگمگاتا ہے
    سُلگتے پاؤں میں اک آبلہ سا پُھوٹ جاتا ہے
     
  11. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔



    محبت کرنے والے دل
    بس ان کا ایک ہی محور
    بس ان کا ایک ہی مرکز
    بس ان کی ایک ہی منزل
    بس ان کی جستجو کا اور تڑپ کا
    ایک ہی حاصل
    انہیں بس ایک ہی دُھن ہے
    خدا محبوب کو ان کے
    ہمیشہ شادماں رکھے
    نہ اس کا دل کبھی ٹوٹے
    نہ کوئی سانحہ گزرے
    کوئی غم چُھو نہیں پائے
    اُداسی پاس نہ آئے
    محبت کرنے والے دل
    بہت حسّاس ہوتے ہیں
    محبت کرنے والے دل
    کبھی سودا نہیں کرتے
    نہ کوئی شرط رکھتے ہیں
    نہ ان کے معاوضے کی حرص ہوتی ہے
    کسی ردّعمل سے یا بدلے سے
    ان کو کیا مطلب
    انا سے ان کا کیا رشتہ
    جفا سے کیا علاقہ
    انہیں تو ایک ہی دھن ہے
    خدا محبوب کو ان کے
    ہمیشہ شادماں رکھے
     
  12. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    اور کچھ نہیں بدلا

    آج بعد مدت کے

    میں نے اُس کو دیکھا ہے

    وہ ذرا نہیں بدلی!

    اب بھی اپنی آنکھوں میں

    سو سوال رکھتی ہے

    چھوٹی چھوٹی باتوں پہ

    اب بھی کھل کے ہنستی ہے

    اب بھی اُس کے لہجے میں

    وہ ہی کھنکھناہٹ ہے

    وہ ذرا نہیں بدلی!!

    اب بھی اُس کی پلکوں کے

    سائے گیلے رہتے ہیں

    اب بھی اُس کی سوچوں میں

    میرا نام رہتا ہے

    اب بھی میری خاطر وہ

    اُس طرح ہی پاگل ہے

    وہ ذرا نہیں بدلی!

    آج بعد مدت کے

    میں نے اُس کو دیکھا ہے

    تو مجھے بھی لگتا ہے

    میں بھی اُس کی چاہت میں

    اُس طرح ہی پاگل ہوں

    بعد اتنی مدت کے

    اور کچھ نہیں بدلا!

    جُز ہمارے رستوں کے

    اور کچھ نہیں بدلا
     
  13. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔



    اِک عُمر کے بعد اس کو دیکھا
    آنکھوں میں سوال تھے ہزاروں
    ہونٹوں پہ مگر وہی تبّسم
    چہرے پہ لِکھی ہوئی اُداسی
    لہجے میں مگر بلا کا ٹھہراؤ
    آواز میں گونجتی جُدائی
    بانہیں تھیں مگر وصال ساماں
    سمٹی ہوئی اس کے بازوؤں میں
    تا دیر میں سوچتی رہی تھی
    کس ابرِ گریز پا کی خاطر
    میں کیسے شجر سے کٹ گئی تھی
    کس چھاؤں کو ترک کر دیا تھا
    میں اُس کے گلے لگی ہوئی تھی
    وہ پُونچھ رہا تھا میرے آنسو
    لیکن بڑی دیر ہو چکی تھی
     
  14. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    جاناں میری بات سُنو

    کچھ لمحے
    ان درد میں ڈُوبی پلکوں کے سنّاٹے میں
    کچھ خواب بُنو
    کچھ لمحے
    تم تِتلی بن کر تنہائی کے غاروں
    میں بے باک اُڑو
    کچھ لمحے
    تم اُنگلی پکڑ کر خاموشی کی
    پگڈنڈی پر ساتھ چلو
    کچھ لمحے
    اُس نیلی بارش کے منظر میں رنگ بھرو
    دل چاہتا ہے
    تم آج ہمارے ساتھ رہو
    جاناں میری بات سُنو
     
  15. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    محبت اس طرح جیسے گلابی تِتلیوں کے پر
    محبت زندگی کی جبینِ ناز کا جُھومر
    محبت آرزو کی سیپ کا انمول سا گوہر
    محبت آس کی دھوپ میں امید کی چادر
    تیرے گیسُو
    تیری پلکیں
    تیری آنکھیں
    محبت ہے تیری باتیں
    محبت ہے تمھارے ہجر کی اور وصل کی راتیں
    محبت ہے تیری دھڑکن
    محبت ہے میری سانسیں
    محبت میری خاموشی
    تمھاری بات جیسی ہے
    محبت کو اگر سمجھو تو
    اپنی ذات جیسی ہے
    Reply With Quote
     
  16. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    سب ہجرکے مارے لوگوں کو
    اِک آس ملن کی ہوتی ہے
    اِس آس سہارے جیون بھر
    وہ خود کو سہارا دیتے ہیں
    اور وصل کی خواہش دل میں لئے
    دن رات گزارا کرتے ہیں
    اِن اُمید کی راہوں میں
    چاہت کو پکارا کرتے ہیں
    پر ہجر کی دُنیا کے باسی
    قسمت سے کہاں لڑ پاتے ہیں
    ملنے کی تمنا جی میں لئے
    بے آس ہمیشہ رہتے
     
  17. مرمیڈ
    آف لائن

    مرمیڈ ممبر

    شمولیت:
    ‏30 ستمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔


    اب کے ساون کیسا ربّا؟
    دل دریا اور آنکھ سمندر
    ہونٹ لرزتے سُوکھے پتے
    آنکھ کے جگنو بے رونق سے
    بوجھل، بے کل، شِکستہ چہرے
    کیسے بے دم رُوکھے لہجے
    میرے مولا!
    سُکھ کی بارش اب برسا دے
    خوشیوں کی نئی جوت جگا دے
     
  18. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔

    بہار آئی تو جیسے اِک بار
    لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
    وہ خواب سارے، شباب سارے
    جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
    جو مٹ کہ ہر بار پھر جئے تھے
    نکھر گئے ہیں گلاب سارے
    جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں
    جو تیرے عشاق کا لہو ہیں

    اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
    ملالِ احوالِ دوستاں بھی
    خمارِ آغوشِ مہوشاں بھی
    غبارِ خاطر کے باب سارے
    تیرے ہمارے
    سوال سارے، جواب سارے
    بہار آئی تو کُھل گئے ہیں
    نئے سرے سے حساب سارے۔

    فیض احمد فیض۔
     
  19. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آزاد نظیں یہاں شئیر کریں۔۔

    میں نہ کل نہ آج

    سمے کی شہ رگ میں اِک ازلی
    تڑپتا کھرج کھماج
    میں نہ کل نہ آج

    تیرے دار کی مُنہ دکھلائی
    سر دیوے حلاج
    میں نہ کل نہ آج

    ظاہر باطن شرع شریعت
    تیرے رسم رواج
    میں نہ کل نہ آج

    ہم سادہ بندے رب سائیں
    لُچا دھرم سماج
    میں نہ کل نہ آج

    تیری شاہی میں دے خلقت
    خوں کا باج خراج
    میں نہ کل نہ آج

    بیچ کھیت کے کھڑی بجوکا
    چاروں اُور اناج
    میں نہ کل نہ آج

    میں سندھو دریا کی باندی
    روھی میرا داج
    میں نہ کل نہ آج

    اُن آنکھوں میں پگھلے دیکھوں
    نیلم اور پکھراج
    میں نہ کل نہ آج

    سرمد یار سخن کی رمزیں
    بجلی رم جھم گاج
    میں نہ کل نہ آج



    سرمد صہبائی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں