1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آخر کب تک

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از اداس ساحل, ‏7 ستمبر 2011۔

  1. اداس ساحل
    آف لائن

    اداس ساحل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2010
    پیغامات:
    90
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    آخر کب تک

    آخر کب تک اور کس حد تک ، لوگ دہشت گردی، دھماکوں اور بم بلاسٹوں، خودکش حملوں اور شدت پسندوں کے سائے میں سسک سسک کر رہیں گے۔ زمانہ جاہلیت میں تو شرک اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تھے، لیکن یہ دور تو ایک ترقیاتی دور ہے۔ اس دور میں ایسے بادلوں سے نمٹنا کس کا کام ہے۔ جہاد کی آڑ میں لوگوں کو مارنا کس جہالت کی انتہاء ہے۔ طالبان اور ٹی ٹی پی نے حال ہی بچوں کو اغواء کر لیا ہے۔ یقین کیجیے کہ دل اسقدر پریشان ہے کہ کہیں اگلی باری کس کی ہے۔ اللہ سے تو مدد کے ہم سب ہی طلبگار ہیں لیکن کیا اب ہر عام عوام کا یہ فرض نہیں کہ وہ ان تمام ذرا‏‏‏ئعوں کا احتساب کریں جو ان منفی قوتوں کا سبب بنتی ہیں؟
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آخر کب تک

    ساحل جی آپ کے جذبات قابل قدر ہیں۔
    اللہ کریم ملک پاکستان کی خیر فرمائے۔
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آخر کب تک

    آمین ثم آمین
     
  4. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آخر کب تک

    ساحل بھائی ترقی اور جاہلیت دو مختلف چیزیں ہیں۔مگر ایک کا ہونا دوسری کو ختم کردے یہ ضروری نہیں ہے۔ترقی، سہولیات، دولت، سمجھ بوجھ اور دنیاوی علم کی تو ابوجہل کے پاس بھی کوئی کمی نہ تھی پھر بھی ابو جہل یعنی جاہلیت کے باپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس لیے آج کے ترقی یافتہ دور میں جاہلیت کا دور دورہ ہونا کچھ عجب نہیں۔
    اس تمہید کے بعد ہم اس فرض کی بات کرتے ہیں جوکہ ایک فرد کا ہے۔آپ کا ہے اور میرا ہے اور ہم سب کا ہے اس جاہلیت کو ختم کرنے میں ہمارا کیا فرض ہے۔ ہرفرد کا ایک حلقہ اثر اور حلقہ ذمہ داری ہوتا ہے۔ہماری ذات، ہمارا گھر، بیوی بچے ہماری حلقہ ذمہ داری اور دوست احباب حلقہ اثر ہیں۔اس سے باہر لوگ ہماری دسترس سے باہر ہیں۔
    ہر شخص حالات کا رونا تو روتا ہے اور اس کا ذمہ دار کبھی حکومت، کبھی طالبان اور کبھی بیرونی طاقتوں کو ٹھہراتا ہے مگر اپنے فرض کو نہیں سمجھتا۔ یہ حالات ظاہری طور پرجس کے بھی پیدا کردہ ہیں دراصل ہمارے اعمال کی مکافات ہیں۔
    وہ کیا عوامل ہیں جن کی یہ مکافات ہیں؟
    1۔ دین سے دوری
    2۔ ذاتی مفادات کو ترجیع دینا
    3۔ کرپشن
    4۔ رشوت، بیجا سفارش اور اقرباء پروری
    5۔ جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی

    اس لسٹ کو بہت طول دیا جا سکتا ہے مگر فی الوقت ہم انہی پانچ کا جائزہ لیتے ہیں۔
    دین سے دوری
    بنیاد سے شروع کرتے ہیں۔تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری حاصل کرے۔ جی ہاں اچھی نوکری حاصل کرے نہ کہ ایک اچھا انسان بنے۔ اس کے لیے اپنی بساط کے مطابق اچھے سے اچھے سکول میں داخل کرواتے ہیں۔ٹیوشن لگواتے ہیں اور خود بیٹھ کر ان کو پڑھاتے ہیں۔ ان کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو جہاں سے بھی ممکن ہو مدد لے کر حل کرتے ہیں۔ جب امتحان کا نتیجہ نکلتا ہے تو فخر سے ہر محفل میں بتاتے ہیں‌کہ میرے بچے نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی ہے میرے بچے نے بورڈ میں پوزیشن حاصل کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور دینی تعلیم؟ اس کے لیے دادا یا دادی سے قران پڑھ لیا یا بہت تیر مارا تو محلے کی مسجد یا مدرسہ میں قران کی تلاوت سیکھنے بھیج دیا۔
    یہ تو تھے سیکھنے والے۔ اب بات کرتے ہیں سکھانے والوں کی۔اچھے، محنتی اور قابل بچے ڈاکٹر یا انجینیر بنے ہیں یا کسی اور اسکوپ والے شعبے میں جاتے ہیں۔اس سے کم اہلیت والے سرکاری ملازمت اور فوج کا حصہ بنتے ہیں۔اس کے بعد کاروبار کا شعبہ ہے اور پھر سکول ٹیچر اور جو کہیں اور نہ چل سکے وہ کسی مسجد میں امام ہو جائے گا۔معاشرے کی تعمیر کرنے والے دینی اور دنیاوی علوم کے معلم وہی ہیں جن کو کسی اور شعبے میں جانے کا موقع نہیں ملا کیونکہ ان میں اہلیت کی کمی تھی۔
    تیسرا رخ ہماری دین کی طرف توجہ۔ اگر ہم کسی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو ڈاکٹر کے پاس جانے کے علاوہ بےشمار کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور انٹرنیٹ چھانتے ہیں کہ اس بیماری کی کیا وجوہات ہیں اور اس کے کیا کیا طریقہ علاج موجود ہیں۔ مگر جب کوئی دینی مسئلہ ہو تو ایک مولوی کے فتوے پر اکتفا کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔خود اس پر تحقیق کرنا ہمارا وطیرہ ہی نہیں ہے۔

    ذاتی مفادات کو ترجیع دینا
    ہر معاملے میں ہمارے عمل کا محور ہماری ذات ہے۔اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ہم ملک اور دوسرے افراد کے بڑے نقصان کی بھی پروا نہیں کرتے۔گلی میں لگا سرکاری بلب میں اس لیے اتار لیتا ہوں کہ میرے گھر کا بلب فیوز ہو گیا ہے۔سارا دن دفتر میں سرکاری کام کے بجائے میں اپنے ذاتی کام نپٹاتا ہوں۔کمپنی کے ٹیلیفون سے میں اپنے بیرون ملک دوستوں رشتہ داروں کو لمبی لمبی کالیں کرتا ہوں۔اور یہ سب کام میں اپنا حق سمجھ کر کرتا ہوں اور ایک لمحے کو بھی میرے دل میں یہ بات نہیں آتی کہ میں کوئی غلط کام کر رہا ہوں۔

    کرپشن
    سارا دن ہم حکومت، حکمرانوں اور دوسروں کی کرپشن کی بات کرتے ہیں مگر اپنے گریبان میں نہیں دیکھتے۔دراصل جس کی جہاں تک پہنچ ہے وہ اس حد تک کرپشن کرتا ہے اور دلیل کے طور پر اپنے سے اوپر والے کی کرپشن پیش کرتا ہے۔بطور ایک سرکاری افسر میرے پاس ایک گاڑی ہے جو مجھے سرکاری کاموں کے لیے دی گئی ہے۔ میری کرپشن کی حد یہ ہے کہ وہ گاڑی سارا دن میرے گھر کے ذاتی کام کرتی ہے۔ میرے گھر کا سودا سلف، بلوں کی ادائیگی، میری بیوی کی شاپنگ سب اسی گاڑی پر ہوتی ہے۔ مگر جب میں دوستوں میں‌بیٹھتا ہوں نے فکریہ انداز میں کہتا ہوں کہ زرادری بہت بڑا کرپٹ ہے۔ مجھے یہ کہنے کا کیا حق ہے۔میں اپنے کاروبار میں جھوٹی دستاویز بنا کر لاکھوں روپے کا ٹیکس چوری کرتا ہوں اور بورڈ میٹنگ میں میں دلی افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ انکم ٹیکس آفیسر بہت کرپٹ ہے ہم سے رشوت طلب کرتا ہے۔ میں‌ٹیکسی ڈرائیور ہوں اور ایک انجان مسافر سے دوگنا کرایہ وصول کرتا ہوں اور وزیر اعظم کی کرپشن کا رونا روتا ہوں۔میں ایک دوکاندار ہوں اور اپنے ترازو کے پلڑے میں 100 گرام کا وزن چھپا کر لگاتا ہوں اور اجناس کے مہنگا ہونے کا رونا روتا ہوں۔

    رشوت، بیجا سفارش اور اقرباء پروری
    میں ایک نااہل اور بدمعاش آدمی کو ووٹ صرف اس لیے دے دیتا ہوں کہ وہ میرے خاندان سے تعلق رکھتا ہے یا اگر میں نے اسے ووٹ نہ دیا تو وہ مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرا بھائی اکاونٹگ کی الف بے بھی نہیں جانتا مگر میں اپنے افسر سے اس کی نوکری کی سفارش کرتا ہوں۔مجھے معلوم ہے کہ قاعدے کے مطابق ایک ہفتے میں میرے گھر گیس کا کنکشن لگ جائے گا مگر میں دو دن میں لگوانے کے لیے بابو کو رشوت دیتا ہوں۔اور پھر ہر جگہ بغیر رشوت کے کام نہ ہونے کا واویلا کرتا ہوں۔ میرے افسر نے اپنے رشتہ دار کو اکاونٹنٹ کی نوکری دے دی تو بھی میرا ضمیر جاگ جاتا ہے اور میں اسے اقرباء پروری خیال کرتا ہوں۔ اسمبلی میں‌آنے والے ممبران پر بھی مجھے اعتراض ہوتا ہے یہ کرپٹ اور بدمعاش افراد کا ٹولہ ہے۔

    جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی
    جھوٹ تو میں اس دیدہ دلیری سے بولتا ہوں کہ خود مجھے بھی اس پر سچ کا گمان ہوتا ہے۔ فریب میرے نذدیک صرف وہ ہے جو میرے ساتھ ہوا ہو۔ جو میں نے کیا وہ تو میری حکمت عملی ہے۔اگر میں بغیر کسی سرکاری کام سے گئے ta/da وصول کرتا ہوں اور اس کے لیے جعلی کاغذات پیش کرتا ہوں تو یہ میرا حق ہے دھوکہ دہی نہیں ہے۔اور جب میڈیا پر حکومت کے ممبران کا بجٹ سامنے آتا ہے تو خون کے آنسو روتا ہوں‌کہ یہ لوگ پاکستان کو کھا گئے ہیں۔

    حاصل کلام
    حاصل کلام یہ ہے کہ معاشرہ تب ہی سدھرے گا جب فرد سدھرے گا۔ دوسروں پر تنقید سے پہلے اپنے گریبان میں دیکھیں۔ اپنے حلقہ ذمہ داری اور حلقہ اثر کو باتوں سے نہیں عمل سے متاثر کریں اور پھر دیکھیں کہ حالات کیسے ٹھیک ہوتے ہیں۔
     
  5. مونا
    آف لائن

    مونا ممبر

    شمولیت:
    ‏4 جولائی 2010
    پیغامات:
    115
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: آخر کب تک

    بہت اچھا لکھا ہے
     
  6. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    جواب: آخر کب تک

    واصف بھائی بالکل درست فرمایا۔
    دنیامیں قومیں اخلاقیات اور اصولوں کی بنیاد پر بنتی ہیں۔
    ایمانداری اخلاقیات کا بنیادی اصول ہے
    اگر قوم ایماندار ہو تو اپنا لیڈر ان کو چنتی ہے جو ایماندار اور سچا ہو۔ اگر قوم بے ایمان ہو تو اپنا لیڈر بے ایمان، جھوٹے، بدکردار کو چنتی ہے۔ کیا پاکستانی قوم نے حالیہ الیکشن میں کسی ایماندار شخص کو چنا ہے؟

    ایسا بہت کم ہوا ہے کہ بے ایمان قوم پر ایماندار حکمران آجائے۔ اگر آتا بھی ہے تو بے ایمان قومیں اسں کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہیں اور انہیں اقتدار سے نکال کر کسی بے ایمان کو اپنے اوپر مسلط کردیتی ہیں۔ ایسا ہماری تاریخ میں بھی ہوا ہے کہ قیام پاکستان کے کچھ سالوں کے بعد پاکستان میں آٹا کا بحران آیا تو ان کے خلاف یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ ساری گندم تو اس وقت کا وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کھاگیا ہے۔ قوم اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اسے وزارت اعظمی کے عہدے سے نکال پرے کیا۔ یاد رہے کہ خواجہ ناظم الدین ایک خوش خوراک شخص کے طور پر مشہور تھے۔ بعد ازاں اقتدار میں غلام محمد، سکندمرزا، ایوب خان اور یحیٰی خان جیسے لوگ قوم پر مسلط ہوئے۔ پھر انہی حکمرانوں کی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان ٹوٹا تو ذوالفقار علی بھٹو آگئے جو اپنی تمام تر خامیوں‌کے باوجود ایک ایماندار شخص تھے جب ضیاء الحق جیسے آمر نے پھانسی پرچڑھایا تو کوئی شخص ان کے حق میں باہر نہیں نکلا۔ ضیاء الحق کے بعد ہم پر کرپٹ، نااہل، بدکردار حکمران حکمرانی کرتے رہےجو آج تک جاری ہے۔
     
  7. اداس ساحل
    آف لائن

    اداس ساحل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 اگست 2010
    پیغامات:
    90
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: آخر کب تک

    واصف صاحب

    ہمیشہ کی طرح آپ کے کمنٹس کا بہت شکریہ اور واقعی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن ایک تھوڑی سی گستاخی کروں گا وہ یہ کہ آپ کی تحریر پڑھ کر یہ لگتا ہے کہ آپ "اندھوں کے شہر میں آئینہ بیچ رہے ہیں"۔ آپ نے لکھا، سب نے پڑھا، آپ کی تحریر کو بہت پسند کیا اور کل دوسرا دن۔ احتساب اپنے آپ سے ، اپنے گھر سے، اپنے محلے سے، اور اپنے شہر اور ملک سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں پر تو ہر کوئی انگلیاں اٹھانے میں کسر نہیں چھوڑتا، اور کیوں نہ اٹھائے، آخر وقت بیتانا ہے۔ ہاتھ میں ہاتھ دھرے منتظر فردا ہر شخص ہے۔ مجھے ہر شخص کو نہیں کہنا چاہیے ، بلکہ اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ ان سب سے اوپر مزہبی پیشوا جن کا کام دین کی سمجھ بوجھ دینا اور لینا ہے، لیکن چونکہ کثرت وقت کی وجہ سے سیاست پر مکالمے کسنے سے وقت کا احساس نہیں ہوتا ہے اس لیے ہر کوئی اپنی اپنی رائے میں ہی "سر براہ " ہے۔

    ان سب سے اوپر گروپ بندی ہے، جماعتیں ہیں اور برینڈڈ جماعتیں جیسے طالبان، القاعدہ جن کی بات مزہب سے شروع ہوتی ہے اور سیاست پر ختم ہوتی ہے۔ ان کو بھی حکومت چاہیے، چاہے اس کے حصول کے لیے جتنے مرضی جہادی فتوی جھاڑ دیں۔ اور پھر وہ ہی وقت کی تو کثرت قوم کے پاس ہے، وہاں معاش کی قلت بھی ہے تو "ٹو ان ون" ڈیل کے تحت وقت کا پاس اور معاش کا حصول نام نہاد جہاد کے نام پر ہوتا ہے۔ خودکش حملہ کو کون سمجھائے کہ بھائی پہلے تم اپنے آپ کو دیکھ لو، لیکن اس کو صرف دو چیزیں آتی ہیں، وہ ہے مرنا اور مارنا اور نعرہ "تکبیر" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    تو واصف صاحب ایسے خودکش حملے شاید زندگی کے دوسرے طبقات پر بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، جیسا کہ آپ نے چھ بنیادی اشیاء پر روشنی ڈالی ، تو اس میں اگر غورکیا جائے تو انفرادی طور پر خود ہی اس کی کشی کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    آپ کا بہت شکریہ اور آپ کے علم کی میں بہت عزت کرتا ہوں
     
  8. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: آخر کب تک

    ساحل بھائی مجھ جیسے کم علم کی اس قدر تعریف کرنے کا شکریہ۔

    سب سے پہلے تو اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ یہ تو مایوس ہو جانے والی بات ہے۔میں تو صرف نظر کی عینک بیچ رہا ہوں کہ جو کم نظری کا شکار ہیں اور دنیا انہیں اندھا تصور کر رہی ہے کچھ دیکھنے کے قابل ہو سکیں۔کسی زمانے میں ایک انگریزی زبان میں ایک قول پڑھا تھا کہ
    God, grant me the serenity to accept the things I cannot change,
    Courage to change the things I can,
    And wisdom to know the difference.
    (Reinhold Niebuhr)

    اے خدا میں جن چیزوں کو تبدیل نہیں سکتا ان پر مجھے برداشت دے
    جن کو میں تبدیل کر سکتا ہو ان کو تبدیل کرنے کی ہمت دے
    اور دونوں میں فرق کرنے کی سمجھ دے

    ہم ان چیزوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے بس میں نہیں ہیں اور جو ہمارے بس میں ہیں وہ ہمیں بے وقعت دکھائی دیتی ہیں اور ہمیں ان دونوں میں امتیاز کا ادراک بھی نہیں ہے۔ ہم تبدیلی کو الٹے رخ سے لانا چاہتے ہیں کہ پہلے اوپر والے ٹھیک ہوں اور پھر وہ لٹھ پکڑ کر ہر ایک کو سیدھا کریں جبکہ تبدیلی نیچے سے اوپر کو جاتی ہے۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہمیں سیرت رسول:drood: سے ملتی ہے۔جب آپ نے تبلیغ اسلام شروع کی تو افراد سے شروع کی۔ اگر دیرپا تبدیلی اوپر سے ممکن ہوتی تو بااثر اور صاحب اقتدار افراد کے ذریعے سب کو لاٹھی سے زور پر ایمان قبول کروانے کی کوشش کی جاتی نہ کہ عام لوگوں کے دلوں میں اسلام بسایا جاتا۔بالکل اسی طرح آج بھی تبدیلی عام آدمی سے شروع ہو گی۔
    رہی بات ہوس جاہ و اقتدارکی تو یہ ہر زمانے میں‌موجود رہی ہے اور اس کے لیے گروہ بندی اور مسلح جماعتیں ہمشہ سے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ان کا اثر کس حد تک ہے اس کا انحصار بھی افراد پر ہے۔ وہ اس طرح کہ میں فخریہ طور پر کہتا ہوں کہ میں سنی ہوں اور علم اتنا بھی نہیں رکھتا ہوں کہ ترجمہ کے ساتھ قران پڑھا ہو یا حدیث کی کتب کبھی میری نظر سے گزری ہوں۔ اپنے کٹر مولوی کے کہنے پر میں شیعہ، وہابی، بریلوی اور نہ جانے کون کون سے فرقے کے لیے دل میں نفرت لیے پھر رہا ہوں۔اور اگر آج میں خود کو تبدیل کروں کہ خود کو تبدیل کرنا میرے اختیار میں ہے تو ایک خاندان اس نفرت سے آزاد ہو جائے گا اور یہ وہ خاندان ہے جو ابھی اس دنیا میں موجود ہی نہیں۔
    لوگوں نے پڑھا، تعریف کی اور کل دوسرا دن۔۔۔۔ درست کہا۔ لیکن اگر 1 فیصد پڑھنے والے اس بات کو اگر 10% بھی قبول کر لیں تو ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔اسی لیے مایوس ہو کر کوشش ترک کرنے سے بدجہا بہتر ہے کہ اپنی بساط کے مطابق کوشش جاری رکھی جائے۔
    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

    خودکش حملہ آور کے متعلق میں نے کچھ کمنٹ لکھے تھے جو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
    http://www.oururdu.com/forums/showpost.php?p=426911&postcount=4
     

اس صفحے کو مشتہر کریں