1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پاکستان کے وزیر اعظم

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از سقراط, ‏23 مئی 2011۔

  1. سقراط
    آف لائن

    سقراط ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2011
    پیغامات:
    109
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    ملک کا جھنڈا:
    لیاقت علی خان​


    [​IMG]

    لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے۔ آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور 1922 میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی۔ 1923 میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936 میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔

    ابتدائی زندگی

    نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ 2 اکتوبر، 1896ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر آپ کے لئے قرآن اور احادیث کی تعلیم کی انتظام کروایا۔ 1918 میں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918 میں ہی آپ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد آپ برطانیہ چلے گئے جہاں سے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
    سیاسی زندگی
    [​IMG]
    لیاقت علی خان اپنے خاندان کے ساتھ

    1923 میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے کے لئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1924 میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ اس اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔

    1926 میں آپ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940 میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔

    1932 میں آپ نے دوسری شادی کی۔ آپ کی دوسری بیگم رعنا لیاقت علی خان ایک ماہر تعلیم اور معیشت دان تھیں۔ آپ لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں۔

    قاتلانہ حملے
    16 اکتوبر 1951ء کی اس شام کمپنی باغ راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں لیاقت علی خاں کے قتل کو ایک انفرادی جرم قرار دینا مشکل ہے ۔ وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کے فوراً بعد کمپنی باغ میں ہونے والے واقعات پر ان گنت سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔

    وزیر اعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس تو موجود تھے مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ، آئی جی پولیس قربان علی خاں اور ڈی آئی جی، سی آئی ڈی انور علی غائب تھے۔ درحقیقت جلسہ گاہ میں فرائضِ منصبی پر مامور پولیس کا اعلی ترین عہدیدار راولپنڈی کا ایس پی نجف خاں تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل یوسف خٹک پنڈی میں تھے مگر جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے۔

    گولی کی آواز سنتے ہی نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، ’اسے مارو‘۔ نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا پولیس کا ضلعی سربراہ اضطراری حالت میں یاد رکھ سکتا ہے کہ اس کے درجنوں ماتحت تھانیدار کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے؟

    جب انسپکٹر شاہ محمد نے سید اکبر پر ایک دو نہیں، پانچ گولیاں چلائیں، اس وقت سفید پوش انسپکٹر ابرار احمد نے حاضرینِ جلسہ سے مل کر قاتل سے پستول چھین لیا تھا اور اسے قابو کر رکھا تھا ۔ کیا انسپکٹر شاہ محمد قاتل پر قابو پانے کی بجائے اسے ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے؟

    لیاقت علی کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کا کہنا ہے کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنایا گیا، اصل قاتل کوئی اور تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیاقت علی خاں کو گولی سامنے سے نہیں، عقب سے ماری گئی تھی۔ جلسہ گاہ میں موجود مسلم لیگ گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے۔ اس کے جسم پر بھالوں کے درجنوں زخم تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس بہت سے مسلح افراد موجود تھے جس سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشاندہی ہوتی ہے۔

    نجف خاں کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی جس سے جلسہ گاہ میں افراتفری پھیل گئی اور زخمی وزیراعظم کو طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ہوائی فائرنگ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔

    ایس پی نجف خاں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ماتحتوں کو ہوائی فائرنگ کا حکم نہیں دیا بلکہ ایس پی نے اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کر لی۔ انکوائری کمیشن کے سامنے اس ضمن میں پیش کیا جانے والا حکم 29 اکتوبر کا تھا۔ تاہم عدالت نے رائے دی کہ ریکارڈ میں تحریف کی گئی تھی۔ اصل تاریخ 20 نومبر کو بدل کر 29 اکتوبر بنایا گیا مگر اس کے نیچے اصل تاریخ 20 نومبر صاف دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نجف خاں نے فائرنگ کا حکم دینے کے الزام کی تردید کا فیصلہ 20 نومبر کو کیا۔ سرکاری کاغذات میں ردوبدل ایس پی نجف خاں کے سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ وارانہ بددیانتی کا پختہ ثبوت تھا۔

    انکوائری کمیشن کے مطابق نجف خاں نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوئی لیکن انہیں باعزت بحال کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی صورت حال کے لیے طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں تھا حتٰی کہ کسی زخمی کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولنس تک موجود نہیں تھی۔

    چاروں طرف اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں اور چند افراد اس بھگڈر میں سید اکبر کو ختم کرنے میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ ایک وزنی آرائشی گملا اٹھا لائے اور اسے سید اکبر پر دے مارا جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری میں سید اکبر پر حملہ کرنے والوں کا اطمینان حیران کن تھا۔

    سید اکبر نے زرد رنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی نہیں تھی۔ واردات کے فوراً بعد یہ افواہ کیسے پھیلی کہ قاتل خاکسار تھا بلکہ صوبہ بھر میں خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئیں۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی؟

    خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غلام محمد پنڈی ہی میں تھے۔ دونوں نے جلسے میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم کے قتل کی خبر پاتے ہی یہ اصحاب صلاح مشورے کے لیے جمع ہو گئے۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اس وقت پہنچی جب نیم مردہ وزیراعظم کو جلسہ گاہ سے باہر لایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی صاحب ان کے جسد خاکی کو ہسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے روز کراچی میں تدفین تک منظرِ عام پر نہیں آئے۔

    اس سازش کے ڈانڈوں پر غور و فکر کرنے والوں نے تین اہم کرداروں کی راولپنڈی سے بیک وقت دُوری کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن کے ہسپتال میں تھے اور سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے اگلے احکامات کے منتظر تھے۔

    قتل کی تفتیش

    غلام نبی پٹھان (تب جوائنٹ سیکرٹری مسلم لیگ) کے مطابق لیاقت علی کے قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی، چالان پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چلایا گیا۔

    جسٹس منیر اور اختر حسین پر مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد لیاقت علی خان کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا۔ بیگم لیاقت علی کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اور سرحد کے پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہوگئے۔

    انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت مبہم اور بڑی حد تک بے معنی تھے۔ مثال کے طور پر :

    الف) ہم بیان کردہ واقعات کی بنا پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ معاملہ زیرِ تفتیش ہے۔ تحقیقات کرنے والے افسر کئی نظریات پر غور و فکر کر رہے ہیں۔

    ب) اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ ملا ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان خط و کتابت ہو رہی ہے ۔ ہم نے ان سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ان کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں ہے۔

    ج) سید اکبر کا کسی سازش سے تعلق معلوم نہیں ہو سکا، بہرحال ایک قابل پولیس افسر مصروفِ تفتیش ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایک یا دو سازشوں سے سید اکبر کے تعلق کا پتہ مل جائے گا۔

    د) اگر سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم ایسے بھیانک جرم کے سازشیوں کا اتا پتا معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔

    سید اکبر کی موت کے متعلق پولیس رپورٹ میں سب انسپکٹر محمد شاہ کی فائرنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس چشم پوشی کا مقصد پولیس کی غفلت یا ملی بھگت پر پردہ ڈالنا تھا۔




    ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭​


    وزیراعظم پاکستان
    In office
    14 اگست 1947 – 16 اکتوبر 1951
    بادشاہ ٭ ٭ ٭ جارج ششم
    گورنر جنرل ٭ ٭ ٭ محمد علی جناح
    پیشرو ٭ ٭ ٭ عہدہ قائم ہوا
    جانشین ٭ ٭ ٭ خواجہ ناظم الدین
    پیدائش 1 اکتوبر 1896کرنال, برطانوی راج (اب بھارت)
    وفات ٭ ٭ ٭ 16 اکتوبر 1951 (عمر 55 سال)راولپنڈی, پاکستان
    سیاسی جماعت ٭ ٭ ٭ مسلم لیگ
    مادر علمی٭ ٭ ٭ جامعہ علی گڑھ
    Exeter College, Oxford
    Inner Temple
    مذہب ٭ ٭ ٭اسلام
     
  2. سقراط
    آف لائن

    سقراط ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2011
    پیغامات:
    109
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    خواجہ ناظم الدین​


    [​IMG]

    خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل تھے۔ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد آپ نے پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔

    آپ ڈھاکہ، بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) میں نواب آف ڈھاکہ کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم برطانیہ سے حاصل کی۔ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل بھی ہیں۔ آپ نے بنگال کی سیاست میں حصہ لیا۔ آپ بنگال میں وزیر تعلیم اور پھر وزیر اعلی بھی رہے
    ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ​


    وزیراعظم پاکستان
    In office
    17 اکتوبر 1951 – 17 اپریل 1953
    بادشاہ٭ ٭ ٭جارج ششم الزبتھ دوئم
    گورنر جنرل٭ ٭ ٭ملک غلام محمد
    پیشرو٭ ٭ ٭لیاقت علی خان
    جانشین٭ ٭ ٭محمد علی بوگرہ

    ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
    گورنر جنرل پاکستان
    In office
    14 ستمبر 1948 – 17 اکتوبر 1951
    11 نومبر 1948 تک عبوری
    بادشاہ٭ ٭ ٭ جارج ششم
    وزیرِ اعظم٭ ٭ ٭لیاقت علی خان
    پیشرو٭ ٭ ٭محمد علی جناح
    جانشین٭ ٭ ٭ملک غلام محمد
    پیدائش٭ ٭ ٭19 جولائی 1894 ڈھاکہ ، برطانوی راج (اب بنگلہ دیش)
    وفات ٭ ٭ ٭22 اکتوبر 1964 (عمر 70 سال) ڈھاکہ ، پاکستان (اب بنگلہ دیش)
    سیاسی جماعت٭ ٭ ٭مسلم لیگ
    مادر علمی٭ ٭ ٭جامعہ علی گڑھ
    Trinity Hall, Cambridge
    مذہب٭ ٭ ٭اسلام​
     
  3. سقراط
    آف لائن

    سقراط ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2011
    پیغامات:
    109
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    محمد علی بوگرہ​


    [​IMG]

    محمد علی بو گرہ (1909-1963) پاکستان کے تیسرے وزیراعظم تھے۔ آپ نے 1953 سے 1955 تک وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا۔ آپ نے یونیورسٹی آف کلکتہ سے تعلیم حاصل کی۔ 1937 میں آپ بنگال کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور خواجہ ناظم الدین کی وزارت میں وزیر صحت کی حثیت سے خدمات سر انجام دیں۔

    پاکستان بننے کے بعد آپ فارن سروس میں چلے گئے اور برما، کینیڈا اور امریکہ میں سفیر مقرر ہوئے۔ 1953 میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے آپ کو پاکستان کا وزیر اعظم مقرر کیا۔ وزیر اعظم کے طور پر آپ نے پاکستان کا آئین بنانا شروع کیا۔
    ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ​


    وزیراعظم پاکستان
    In office
    17 اپریل 1953 – 12 اگست 1955
    بادشاہ٭ ٭ ٭الزبتھ دوئم
    گورنر جنرل٭ ٭ ٭ملک غلام محمد
    پیشرو٭ ٭ ٭خواجہ ناظم الدین
    جانشین٭ ٭ ٭چوہدری محمد علی
    پیدائش٭ ٭ ٭19 اکتوبر 1909بوگرہ ، برطانوی ہند (اب بنگلہ دیش)
    وفات٭ ٭ ٭23 جنوری 1963 (عمر 53 سال) ڈھاکہ ، پاکستان (اب بنگلہ دیش)
    سیاسی جماعت٭ ٭ ٭آل انڈیا مسلم لیگ
    مادر علمی٭ ٭ ٭جامعہ کلکتہ
    مذہب٭ ٭ ٭شیعہ اسلام​
     
  4. سقراط
    آف لائن

    سقراط ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2011
    پیغامات:
    109
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    چوہدری محمد علی​


    [​IMG]

    چوہدری محمد علی پاکستانی سیاست دان تھے جو 1955 سے 1956 تک پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم رہے۔ آپ جلندھر میں پیدا ہوےءاور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ برطانوی حکومت کے دوران آپ کا شمار اعلی مسلمان سول سرونٹ میں ہوتا تھا۔ پاکستان کے قیام کے بعد آپ کو نیی مملکت کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا اور بعد میں وزیر خزانہ۔ 1955 میں اس وقت کے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے آپ کو محمد علی بوگرہ کو پاکستان کا وزیراعظم نامزد کیا ۔ آپ کی سب سے بڑی کامیابی پاکستان کے لیے پہلا آیین بنانا تھے جو کہ 1956 میں نافذ ہوا۔

    ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    بہت خوب معلوماتی سلسلہ ہے۔ جاری رکھیں۔
     
  6. نورمحمد
    آف لائن

    نورمحمد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 مارچ 2011
    پیغامات:
    423
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    بہت خوب۔۔۔بہت خوب
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    سقراط جی بہت زبردست شیئرنگ اور بہت بہت دلچسپ
    سچ میں بہت مزا ایا پڑھنے کا سب جاننے کا
    ویری نائس
    :222::n_TYTYTY::a165:

    :n_thanks:
     
  8. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    بہت اچہا ہے
     
  9. ش م ارشد
    آف لائن

    ش م ارشد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جون 2011
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    بہت خوب ! محترم سقراط صاحب سلسلہ اگلے وزراء عواظم تک بھی بڑھائیے
    ۔
     
  10. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پاکستان کے وزیر اعظم

    بہت زبردست جی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں