1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مرزا اسد اللہ خان غالب

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از كاشان عدنان, ‏27 جولائی 2011۔

  1. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ردیف ( ر )


    بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در و دیوار

    نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

    یعنی گو در و دیوار نظر کے لئے مانع ہیں لیکن اُن کے حاجب و حائل ہونے سے شوق اور تیز ہوتا ہے ، گویا پرواز نگاہ شوق کے لئے بال و پر بن گئے ہیں ۔

    وفورِ اشک نے کاشانہ کا کیا یہ رنگ

    کہ ہو گئے مرے دیوار و در ، در و دیوار

    یعنی دیوار گرکر در ہو گئی اور در پھٹ کر دیوار بن گیا ۔

    نہیں ہے سایہ کہ سن کر نوید مقدم یار

    گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

    سایہ سے در و دیوار کا سایہ مراد ہے جو مہمان کے استقبال کے لئے در سے چند قدم آگے دوڑ گیا ہے ۔

    ہوئی کس قدر ارزانیِ مئے جلوہ

    کہ مست ہے ترے کوچہ میں ہر در و دیوار

    طعن سے شاعر کہتا ہے کہ تو نے اب اپنی شراب دیدار کو ہرکس و ناکس کے لئے ارزاں کر دیا ہے ۔

    جو ہے تجھے سر سودائے انتظار تو آ

    کہ ہیں دوکانِ متاعِ نظر در و دیوار

    یعنی میری نظر در و دیوار پر عالم انتظار میں اس طرح پڑرہی ہے گویا وہ دوکان متاع نظر بن گئی ہیں ، اگر تجھے اس متاع کی خریداری و قدردانی منظور ہے تو آ ۔

    وہ آرہا ہے مرے ہمسائے میں تو سایہ سے

    ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار

    یعنی میرے در و دیوار کا سایہ اُس کے در و دیوار کی بلائیں لے آیا ۔

    نظر میں کھٹکے ہے بن تیرے گھر کی آبادی

    ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار

    جب آنکھ میں کوئی چیز کھٹکتی ہے تو آنسو جاری ہوتے ہیں ، یہ وجہ رونے کی ہے ۔

    ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے

    کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار

    استفہام انکاری کے مقام پر کہتے ہیں کہ وہ بات کب کی کہ یہ بات نہیں ہوئی ، یعنی جب میں نے سامان گریہ کیا در و دیوار پاؤں پر گرپڑے ۔

    نہ پوچھ بے خودیٔ عیش مقدم سیلاب

    کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار

    یعنی خانہ ویرانی سے مجھے ایسی لذت حاصل ہوتی ہے کہ سیلاب سے جو دیواریں گرنے لگتی ہیں ، اُسے رقص سمجھ کر بے خود ہو جاتا ہوں ۔

    نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ نہیں زمانہ میں

    حریف رازِ محبت مگر در و دیوار

    یعنی رازِ محبت کسی اور سے نہ کہہ کہ اس راز کا محل اعتماد در و دیوار کے سوا اور کوئی زمانہ میں نہیں اور در و دیوار سے باتیں کرنا فعل عبث ہے ، حاصل یہ ہوا کہ رازِ محبت کبھی منہ سے نکالنا نہ چاہئے ۔

    _______

    گھر جب بنالیا ترے در پر کہے بغیر

    جائے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر

    دوسرے مصرع میں استفہام انکاری ہے ۔

    کہنے کی جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن

    جانوں کسی کے دل کی میں کیوں کر کہے بغیر

    شعر کا مطلب ظاہر ہے لیکن یہ نکتہ اس شعر سے خوب سمجھ میں آتا ہے کہ شاعر اکثر زبانِ حال سے گفتگو کیا کرتے ہیں ، کبھی اپنے تئیں حیوان بے زبان بلبل و قمری سمجھ کر صیاد و گلچیں کی شکایت کرتے ہیں ، کبھی نباتات بے حس فرض کرکے اپنے تئیں شاخ بریدہ یا نہال خزاں رسیدہ کہتے ہیں ، کبھی اپنے نفس کو جمادات بے نفس کی طرح فرض کرکے غبار رہ گذار یا موجِ نسیم بہار کی زبانی گفتگو کرتے ہیں ، کبھی مردہ بے جان یا کشتہ حرمان بن کر اپنے خون کا دعویٰ کرتے ہیں ، غرض کہ یہ میدان بہت وسیع ہے ۔ اس شعر میں شاعر خود ہی کہتا ہے کہ مجھ میں بات کرنے کی طاقت نہیں رہی پھر شکایت بھی کرتا ہے کہ جب میں دل کا حال بیان کرنے سے مایوس ہو گیا اور طاقت گویائی نے جواب دے دیا تو تم یہ کہتے ہو کہ کہے بغیر مجھے حال کیا معلوم تو یہ شکایت زبان حال سے ہے ۔

    کام اُس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہان میں

    لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

    دلی کی زبان میں کہوے اور رہوے بہت ہے یہ بقاعدۂ صرف بھی غلط ہے اور متروک بھی ہے لیکن لیوے اور دیوے اور ہووے بھی گو قیاساً صحیح ہے مگر متروک ہوتا جاتا ہے ۔

    جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگر نہ ہم

    سر جائے یار ہے نہ رہیں پر کہے بغیر

    اس شعر میں ایک مضمون اخلاقی ہے کہتے ہیں میرا دل سب سے صاف ہے ، اگر کسی کی برائی دل میں ہوتی تو ظاہر کر دیتا اور اُس کے اظہار میں جو کچھ ہو جاتا سب مجھے گوارا تھا مگر شیوۂ نفاق کہ ظاہر کچھ ہو اور باطن کچھ ہو مجھے گوارا نہیں ۔

    چھوڑوں گا میں نہ اُس بتِ کافر کا پوجنا

    چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

    چھوڑنے کا لفظ دونوں مصرعوں میں قابل توجہ ہے کہ اس لفظ کی تکرار نے حسن کلام کو بڑھادیا ، یہ بھی ایک صنعت ہے صنائع لفظیہ میں سے گو اہل فن نے اس کا ذکر نہیں کیا ۔

    مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام

    چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر

    دشنہ و خنجر سے ناز و غمزہ کی تشبیہ محسوس سے معقول کی تشبیہ ہے اور معقول کا فہم ہر ایک کو نہیں ہوتا ، اس لئے اسے محسوس فرض کرکے کام نکالتے ہیں یعنی اُن کی تاثیر کو سمجھا دیتے ہیں ۔

    ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

    بنتی نہیں ہے بادۂ و ساغر کہے بغیر

    اس شعر کا مطلب بھی مثل شعر سابق کے ہے اور بنتی نہیں ہے یعنی گفتگو بن نہیں پڑتی ۔

    بہرا ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات

    سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر

    جیسے معشوق نے کسی بات پر کہا ہے کہ کیا تو بہرا ہو گیا اور آپ ہی بہرا بنایا اور آپ ہی خفا بھی ہو گیا ہے ، اس مقام پر کہتے ہیں کہ بہرا ہوں میں الخ ۔

    غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض

    ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر

    اس شعر میں یہ صفت ہے کہ اس طرح اظہارِ خیال کیا ہے کہ گویا کچھ نہیں کہا اور اسے صنائع معنویہ میں شمار کرنا چاہئے ۔

    _______

    کیوں جل گیا نہ تابِ رُخِ یار دیکھ کر

    جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

    جس طرح بخل کا انتہائے مرتبہ مشہور ہے کہ بخیل خود بھی لذتِ نعمت سے محروم رہتا ہے اپنا تمتع آپ ہی نہیں دیکھ سکتا ، اسی طرح انتہائے غیرت کا مرتبہ مصنف نے بیان کیا ہے کہ اپنی طاقتِ دیدار سے میں خود جلتا ہوں ، اسی مطلب کو آگے ایک شعر میں بہت صاف ادا کیا ہے :

    دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے

    میں اُسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

    آتش پرست کہتے ہیں اہل جہاں مجھے

    سرگرم نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر

    اپنے ذوق نالہ کشی کو ارادت آتش پرست سے تشبیہ دی ہے یعنی جس ارادت سے وہ آگ کی پرستش میں مشغول ہوتا ہے ، اُسی ذوق و شوق سے میں نالہ آتشیں کرنے میں سرگرم رہتا ہوں ۔

    کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا

    رُکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

    بے سبب آزار ترکیب فارسی ہے حکیم مومن خان صاحب نے اس قسم کی ترکیبیں بنانے میں بہت افراط کی ہے ایک جگہ فرماتے ہیں ’ رحمے بحال بندہ خدایا نگاہ تھا ‘ ۔ البتہ تازگی لفظ اور ترکیب کلام میں بڑا حسن پیدا کرتی ہے لیکن یہ یہاں سمجھنا چاہئے کہ دوسری زبان پر جب تک اچھی طرح قدرت نہ حاصل ہو ، اُس میں تصرف و ارتجال کا ہر ایک کو حق نہیں ہے ۔ یہاں جفا کے عام ہونے سے یہ مراد ہے کہ رقیب جس میں سبب جفا یعنی عشق نہیں پایا جاتا ، اُس پر بھی تم جفائے معشوقانہ میری طرح کرتے ہو ۔

    آتا ہے میرے قتل کو پرجوش رشک سے

    مرتا ہوں اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

    دوسرا مصرع اس مضمون کو مانگتا ہے کہ وہ اس ادا سے میرے قتل کو آتا ہے کہ میں مرتا ہوں الخ ۔ مصنف مرحوم نے معنی رشک کے اتنے پہلو نکالے ہیں کہ اُن کی تعریف حدِ امکان سے باہر ہے لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی مطلب کو بار بار کہو تو اس میں افراط و تفریط ہو جاتی ہے ، اس غزل کے دو شعر اس سبب سے سست رہے ایک تو یہ شعر کے معشوق کے ہاتھ میں تلوار کو دیکھ کر تلوار پر رشک آنا ، دوسرے عاشق کے طوطی پالنے سے معشوق کو طوطی پر رشک آنا ، دونوں امر غیرعادی ہیں اور بے لطف ہیں اور اسی سبب سے یہاں مصرع نے ربط نہیں کھایا ، اس بات کو بوجہ بصیرت سمجھنے کے لئے یہ سن لینا چاہئے کہ شعر اُلٹا کہا جاتا ہے یعنی پہلے شاعر کا یہ کام ہوتا ہے کہ قافیہ تجویز کرے جو کہ آخر شعر میں ہوتا ہے ، دوسری فکر یہ ہوتی ہے کہ جس قافیہ پر تجویز کیا ہے اُسے دیکھے کہ یہ کسی صفت کے ساتھ یا کسی مضاف کے ساتھ یا کسی اور قید کے ساتھ یا کسی اور محاورہ کے ساتھ یا اپنے کسی عامل کے ساتھ یا معمول کے ساتھ مل کر ایک مصرع ہوتا ہے یا نہیں ، اگر نہ ہوا تو کوئی لفظ گھٹا بڑھاکر یا مقدم مؤخر کرکے اُسے پورا کرے ، یہ دوسرا مصرع ہوا مثلاً اسی زمین میں جب مصنف نے دیدار دیکھ کر ، آزار دیکھ کر نظم کر لیا تو پہلے یہ تجویز کیا کہ تلوار دیکھ کر کہنا چاہئے ، دوسری فکر میں تلوار کے ساتھ یہ قید لگائی کہ اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر اور مصرع کے پورا کرنے کے لئے ۔ مرتا ہوں بڑھایا تو پہلے یہ دوسرا مصرع موزوں ہوا ’ مرتا ہوں اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر ‘ دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد تیسری فکر میں اس بات کے وجوہ سوچے کہ اُس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر کیوں مرتا ہوں یہاں مصنف نے اس توجیہ کو اختیار کیا کہ جوش رشک سے مرتا ہوں اور پہلے مصرع میں ’جوش رشک سے ‘ ایسا لفظ ہے کہ اگر آخر مصرع میں نہ ہوتا تو کسی طرح یہ لفظ اپنے فعل سے مرتبط نہ ہوتا ، اس سے ظاہر ہے کہ پہلے مصرع کا یہ آخری ٹکڑا پہلے معین کرکے صدر مصرع اُس پر بڑھایا اور شعر کو تمام کیا ہے اور جو شعر کی ابتداء ہے وہی فکر کا منتہی ہے اور حرکات فکر کے منازل میں سے بڑی منزل یہی ہے کہ دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد اُس پر مصرع ایسا لگائے کہ وہ مرتبط ہو جائے اور دست و گریبان کا حکم پیدا کرے اور یہ ظاہر ہے کہ معشوق کے ہاتھ میں کوئی چیز دیکھ کر اُس چیز پر رشک کرنا عادت کے خلاف ہے محض تصنع ہے اور نامربوط ہے ۔ اتنا لکھنا اور یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمین میں دوسرے مصرع کا نظم کر لینا آسان ہے مثلاً اسی زمین میں ’ تلوار دیکھ کر ‘ تقریباً آدھے مصرع کے برابر ہے جو صاحبِ طبع موزوں ہے وہ کچھ الفاظ بڑھاکر اُسے پورا کرسکتا ہے اور جو الفاظ کے بڑھائے جائیں گے وہ بھی گویا کہ معین ہیں یعنی اکثر وہی پہلو شعراء اختیار کرتے ہیں اور جو اوپر بیان ہوئے ۔ قافیہ کی صفت ، اضافت ، قید ، عامل یا معمول ، فعل وغیرہ مثلاً کھنچی ہوئی تلوار دیکھ کر یا اوپی ہوئی تلوار دیکھ کر ، یا ہلال سی تلوار دیکھ کر ، یا حلق پر تلوار دیکھ کر یا ترک کی تلوار دیکھ کر یا اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر یا دانت سے تلوار دیکھ کر ۔ غرض کہ دوسرا مصرع کہنے میں شاعر مجبور ہے کہ قافیہ و ردیف کے متعلقات کو پورا کرے اور اس مصرع کے کہنے میں بس یہی خوبی ہے کہ ایسے پہلو تلاش کرے کہ توارد نہ ہونے پائے اور مصرع لڑ نہ جائے ، ہاں دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد اُس پر مصرع لگانا بڑے وسیع میدان کا طے کرنا ہے جس میں صدہا راہیں ہیں اور مصرع لگانے کی مشق کا بہت مفید و آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی شاعر خوش گوار کا دیوان کھولے تو داہنے ہاتھ کی طرف سب اوپر کے مصرع ہوں گے اور بائیں طرف سب نیچے کے مصرع ہوں گے ، اوپر کے مصرعوں کو کسی کاغذ سے چھپادینا چاہئے اور نیچے کے مصرع پر یہ فکر کرے کہ اس کے ساتھ کون سا مضمون ربط کھاتا ہے ، جب مضمون ذہن میں آجائے تو کاغذ سر کاکر دیکھے کہ شاعر نے کیا کہا ہے ۔ غرض کہ شعر کا سحر ہو جانا اور شاعر کا ماہر ثابت ہونا اکثر مصرع لگانے پر موقوف اور منحصر ہے ۔ میر تقی میرؔ ، مصحفیؔ کو کہا کرتے تھے کہ یہ صحاف ہیں یعنی لگاکر مصرع کو چپکادیا کرتے ہیں یعنی مصرعہ اچھا لگانا نہیں جانتے ۔

    ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خون خلق

    لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر

    نشہ میں تیری رفتار مستانہ دیکھ کر موج مے اس اندیشہ میں کانپ رہی ہے کہ اس رفتار سے عالم کا خون ہو جائے گا ۔ اس بات سے ہم کو یہ پتہ لگ گیا کہ خون خلق کا باعث یہی شیشہ شراب ہے کہ نہ تو شراب پیتا نہ یہ رفتار مستانہ عالم کا خون کرتی ۔

    واحسر تاکہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

    ہم کو حریص لذتِ آزار دیکھ کر

    آزار و ستم و حسرت و الم و بیداد و جفا و مرگ و بلا و یاس و حرمان و آہ سوزاں و دیدۂ تر و زخم جگر و خانۂ ویرانی و بے سر و سامانی و دشت پیمائی و ہرزہ درائی و داغ جنوں و بخت و اژوں وغیرہ کو مانوس و معشوق بنانا اور اُس کی خواہش و آرزو و حسرت کرنا اور اُس کے حصول پر ناز و افتخار و مسرت کرنا ایسا مضمون ہے کہ اس میں شک نہیں اکثر مؤثر واقع فی القلب ہوا کرتا ہے ۔



    بک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کے ساتھ

    لیکن عیارِ طبع خریدار دیکھ کر

    پہلے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ میرے کلام کا جو خریدار ہوتا ہے اُس کے ہاتھ خود بک جاتا ہوں اور دوسرے مصرع میں یہ اشارہ ہے کہ میرے کلام کا مذاق صحیح ہونا دلیل ہے اُس شخص کے اہل کمال ہونے کی اور یہ باعث ہے میرے خود اُس کے ہاتھ بک جانے کا ۔

    زنار باندھ سبحۂ صددا نہ توڑ ڈال

    رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

    رشتۂ تسبیح و زنار دونوں راہیں ہیں مگر فرق یہی ہے کہ زنار ہموار ہے اور تسبیح وہ راہ ہے جس میں سو ٹھوکروں کا سامنا ہے ۔ شعراء بت خانہ و برہمن و زنار کو خانقاہ و واعظ و شیخ و مصلیٰ و تسبیح پر ہمیشہ ترجیح دیا کرتے ہیں اور غرض اس سے طعن ہے یعنی عارف کو تسبیح و مصلیٰ سے کیا کام ہے ۔

    اِ ن آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

    جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

    یعنی اس شعر میں مصنف نے آبلوں کی طرف اشارہ کرکے مخاطب کو زیادہ متوجہ کر لیا ، اگر ’ان ‘ کی جگہ پر ’ کیا ‘ہوتا تو یہ لطف نہ حاصل ہوتا ، اشارہ نے جس شعر میں زیادہ تر لطف دیا ہے ، وہ یہ شعر ہے :

    صحبت وعظ تو تادیر رہے گی واعظ

    یہ ہے میخانہ ابھی پی کہ چلے آتے ہیں

    کیا بدگماں ہے مجھ سے کہ آئینے میں مرے

    طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

    یعنی اسے گمان ہوتا ہے کہ اسے طوطی کا بھی شوق ہے ، آگے کہتے ہیں :

    بدگماں ہوتا ہے وہ کافر نہ ہوتا کاش کے

    اس قدر ذوق نوائے مرغ بستانی مجھے

    لیکن یہ بدگمانی تصنع سے خالی نہیں ۔

    گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلی نہ طور پر

    دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

    بڑے پلے کا مصرع لگایا ہے اور تجلی کو شراب سے اور طور کو مے خوار تنگ ظرف سے تشبیہ دی ہے اور تنگ ظرف ہونا اس سے ظاہر ہے کہ وہ تجلی کا متحمل نہ ہوسکا ۔

    سر پھوڑنا وہ غالبؔ شوریدہ حال کا

    یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر

    نیچے کا مصرع فقط مفعول بہ کو مانگ رہا ہے اور مفعول بہ عاشق کا سر پھوڑنا ہے ، مصنف نے عاشق کی جگہ غالبؔ کہا اور نکرہ کے بدلے معرفہ کو اختیار کیا اور اُس سبب سے شعر زیادہ مانوس ہو گیا اور دوسرا لطف یہ ہے کہ مصرع پورا کرنے کے لئے جو الفاظ بڑھائے ہیں وہ بہت ہی پرمعنی ہیں ، ایک تو غالبؔ کی صفت شوریدہ حال بڑھادی ، جس سے سر پھوڑنے کا سبب ظاہر ہو گیا ، دوسری لفظ ’ وہ ‘ بڑھادی اور اُس نے کثیرالمعنی ہونے کے سبب سے شعر کا حسن ایک سے ہزار کر دیا ۔

    _______

    لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہر درخشاں پر

    میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر

    یعنی زبان تشنہ خار مجھے خود جذب کر لے گی آفتاب کو میرے خشک کرنے میں زحمت کرنا کیا ضروری ہے ۔ اس شعر میں دل کے لرزنے سے آفتاب شبنم کے چمکنے کو تشبیہ دی ہے اور وجہ شبہ حرکت ہے

    نہ چھوڑی حضرتِ یوسف ؑنے یاں بھی خانہ آرائی

    سفیدی دیدۂ یعقوب ؑکی پھرتی ہے زنداں پر

    یعنی ان کی مفارقت میں اُن کی آنکھیں سفید ہوتی جاتی ہیں کہ گویا ان کا زندان میں آنا اس کا باعث ہوا کہ ان کی آنکھیں ان کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے زندان میں پہنچیں اور آنکھوں کی سفیدی دیوار زنداں پر پھر رہی ہے اور زنداں پر سفیدی پھرنا اور آنکھوں کا سفید ہو جانا دونوں میں حرکت نے الکیف ہے اور یہاں بھی وجہ شبہ یہی حرکت ہے ۔

    فنا تعلیم درس بے خودی ہوں اُس زمانے سے

    کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر

    فنا اور تعلیم دونوں لغت تازی ہیں اور ترکیب دونوں لفظوں میں فارسی ہے یعنی فنا تعلیم اسم صفت بن گیا ہے جس کو فنا کی تعلیم ہوئی ہو وہ مراد ہے اور یہ درس جس نے دیا ہے وہ بے خودی ہے اور مصنف نے ’ الف بے ‘ کو چھوڑکر لام الف اس سبب سے کہا کہ دونوں حرف مل کر ’ لا ‘ ہو جاتے ہیں اور ’ لا ‘ نیستی و فنا کے مناسب ہے ۔

    فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے

    بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر

    یعنی پارہائے دل کو نمک چھڑکنے سے وہ لذت حاصل ہوتی ہے کہ باہم نزاع کرتے ہیں اس سبب سے میں چاہتا ہوں کہ بلا سے میں مرہم لگا لوں اور ان سب کو اس لذت سے محروم کر دوں ، دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر پارہائے دل نمک چھڑکنے کی ایذا پر راضی رہتے تو اس ایذا اُٹھالینے کو تشویش مرہم کرنے سے میں بہتر سمجھتا ۔

    نہیں اقلیم اُلفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا

    کہ پشتِ چشم سے جس کے نہ ہو وے مہر عنواں پر

    ناز و ادا کو طومار کہنا تو ایک وجہ رکھتا ہے لیکن اُلفت جو ایک ادنیٰ مرتبہ عشق کاہے اُسے اقلیم و قلمرو سے تعبیر کرنا بلاوجہ ہے ، اس لئے کہ مشبہ و مشبہ بہ میں اضافت کرنے میں وجہ شبہ ظاہر ہونا شرط ہے ، نہیں تو وہ اضافت ایسی ہی ہو گی جیسے کہیں کہ آسمان رُخ کا ستارہ خال ہے یا دریائے دہن کے موتی دندان ہیں اور ان اضافتوں کا غلط ہونا اہل ادب کے مذاق میں ظاہر ہے ۔

    دوسرے مصرع کی بندش میں گنجلک بہت ہو گئی ہے ، مطلب مصنف کا یہ ہے کہ دیوان حسن میں کوئی طومار ناز ایسا نہیں جس کے عنوان پر پشت چشم شوق کی مہر نہ ہوئی ہو اور پشت چشم سے مہر ہونا معشوق کی آنکھ چرانے اور آنکھ پھیرلینے اور کنکھیوں دیکھنے سے اشارہ ہے اور مہر اور آنکھ میں وجہ شبہ سیاہی ہے ۔ حاصل یہ کہ جس طرح ہر طومار کے لئے عنوان پر مہر ہونا ضرور ہے ، اسی طرح ناز و ادا کے لئے آنکھ چرانا اور ترچھی نظر رکھنا ضرور ہے ، اس شعر میں محض طومار اور مہر کے ذکر سے مصنف نے اُلفت کو اقلیم فرض کیا ہے اور اس اعتبار سے بھی اگر دیکھئے تو طومار و مہر کو بہ نسبت اقلیم کے لفظ دیوان کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے ، مگر مصنف نے اس اضافت کو اور بندش کی اس گنجلک کو جس خوبی شعر کے لئے گوارا کیا ہے البتہ اُس خوبی کے مقابلہ میں بندش کا عیب کچھ بھی نہیں وہ یہ ہے کہ عنوان پر نقش بٹھاکر فوراً مہر کا پشت پھیرلینا اور عاشق سے آنکھ ملاکر فوراً معشوق کا آنکھ پھیرلینا تشبیہ بدیع ہے اور وجہ شبہ حرکت ہے اور حرکت بھی وہ حرکت جو نہایت محبوب ہے ۔

    مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا

    کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر

    ’ اب ‘ کا لفظ اس شعر میں کثیرالمعنی ہے ، یعنی یہ کہنا کہ اب یاد آیا اس سے بالتزام یہ نکلتا ہے کہ پہلے بھولا ہوا تھا اور صدمہ مفارقت کے اس طرح بھول جانے سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ معشوق کو دیکھ کر انتہا کی محویت و مسرت غالب ہو گئی ہے اور یہ معنی نکلتے ہیں کہ جیسے شکوۂ ہجر کچھ بیان کیا تھا اور کچھ باتیں اب یاد آتی جاتی ہیں ، غرض کہ ایک لفظ میں اتنی معنی انتہائے بلاغت ہے اور پھر شفق کی ابر آتش بار سے تشبیہ نہایت بدیع ہے ۔

    بجز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہو گا

    قیامت اک ہوائے تند ہے خاکِ شہیداں پر

    یعنی شہیدانِ حسرت دیدار میں اب کیا باقی رہا ہے جو قیامت انھیں اُٹھائے گی ہاں جلوہ سراپا ناز کے شوق میں اُن کی خاک اُڑ رہی ہے تو اس کے لئے شور قیامت ایک ہوائے تند ہے یعنی اُس کے پرواز میں کچھ یہ بھی معین ہو جائے گی اور اس کا عکس تو یہ معنی ہیں کہ جب ہوائے تند چلی اس نے قیامت کا کام کیا یعنی خاک اُن کی شوق دیدار میں اُڑنے لگی ۔

    نہ لڑ ، ناصح سے غالبؔ کیا ہو اگر اُس نے شدت کی

    ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

    کیا گریبان پھاڑنے سے بھی تسکین نہ ہو گی ، کیا خوب شعر کہا ہے ۔

    _______

    ہے بسکہ ہر اک اُن کے اشارہ میں نشاں اور

    کرتے ہیں محبت تو گذرتا ہے گماں اور

    یعنی وہ محبت بھی کرتے ہیں تو میں جانتا ہوں کوئی فریب ہے ۔

    یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات

    دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

    یعنی سوال وصل میں کھل کے نہیں کہہ سکتا اور وہ سادہ دلی سے بے صاف صاف کہے ہوئے مطلب سمجھ نہیں سکتے ۔

    ابرو سے ہے کیا اُس نگہ ناز کو پیوند

    ہے تیر مقرر مگر اُس کی ہے کماں اور

    ابرو کو کمان اور نگہ کو تیر کہنا پرانی تشبیہ ہے ، مصنف نے فی الجملہ اسے تازہ کرکے کہا ہے یعنی نگہ کا تیر ابرو کی کمان میں اُسے نہیں آتا ہے دلفریبی حسن اسی پر تاب کرتی ہے ۔

    تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم جب اُٹھیں گے

    لے آئیں گے بازار سے جاکر دل و جاں اور

    یعنی تمہاری بدولت ہر شخص کو دل و جان دوبھر ہے سستا بیچ ڈالے گا ۔

    ہر چند سبک دست ہوئے بت شکنی میں

    ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگِ گراں اور

    یعنی بت شکنی میں مشاق ہوئے تو کیا یہ ماو من بھی تو سنگِ گراں کی طرح منزل عرفان تک پہنچنے میں مانع ہے ، ہمارا یہ سمجھنا کہ ہم ہیں یہی سنگِ راہ ہے ۔

    ہے خون جگر جوش میں دل کھول کے روتا

    ہوتے جو کئی دیدۂ خوننابہ فشاں اور

    ’ ہے خون جگر جوش میں ‘ جملہ خبریہ ہے اور اُس کے بعد آخر شعر تک تمنا ہے اور یہ تمنا مبنی ہے خبر سابق پر کہ تمنا کرنے کی وجہ جوش خون ہے ، اسی سبب سے مصنف نے یہاں انشا کے ساتھ خبر کو جمع کیا اور شعر میں بہ نسبت خبر کے انشا زیادہ لطف دیتی ہے ۔

    مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اُڑ جائے

    جلاد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور

    اُس کا یہ کہنا کہ ہاں اور تلوار لگا مجھے اس قدر پسندِ ہے کہ اپنی جان جانے کی کچھ پرواہ نہیں ۔

    لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا

    ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور

    میں اپنے اک داغِ نہاں کو ہر روز ظاہر کرتا ہوں ، جسے لوگ دھوکے سے طلوعِ خورشید سمجھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہی ایک آفتاب ہے جو روز روز نکلا کرتا ہے ۔

    لیتا نہ اگر دل تمہیں دیتا کوئی دم چین

    کرتا جو نہ مرتا کوئی دن آہ و فغاں اور

    دونوں مصرعوں میں شرط جزا کے درمیان میں واقع ہوئی ہے اور دونوں مصرعوں کی ترکیب میں مشابہت اور معادلت ہے اور حسن بندش ہے ، مطلب یہ ہے کہ اگر دل تمہیں نہ دے دیا ہوتا تو کوئی دم چین لیتا ، اگر نہ مرجاتا تو کچھ دنوں آہ و فغاں کرتا ، نحو کے اعتبار سے پہلے مصرع میں ’ لیتا ‘ کا محل آخر مصرع ہے اور دوسرے مصرع میں بھی ’کرتا ‘ آخر میں ہونا چاہئے تھا لیکن معنی کے اعتبار سے یہاں ترکیب نحوی کی مخالفت ہی چاہئے اور ’ لیتا ‘ اور ’ کرتا ‘ کا مقدم کر دینا ہی ضروری ہے کہ ان دونوں فعلوں کے مقدم کر دینے سے معنی میں کثرت پیدا ہو گئی ، یعنی اب ترتیب الفاظ ان معنی پر دلالت کرتی ہے جیسے معشوق نے اس سے کہا ہے کہ تو کوئی دم چین نہیں لیتا اور اب تو آہ و فغاں کرنا بھی تو نے کم کر دیا ہے ، اس کے جواب میں یہ شعر ہے کہ :

    ہاں لیتا میں چین اگر دل تجھے نہ دیا ہوتا

    نہ کرتا کچھ دنوں اور آہ و فغاں مر نہ گیا ہوتا

    اور اس میں شک نہیں کہ کثرت معنی سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے اور حسن ایجاز کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سوال کو مقدر کرکے فقط جواب ایسے الفاظ میں ادا کرے کہ اس سے ساری عبارت سوال کی مخاطب کی سمجھ میں آجائے اور اصطلاح میں اُسے دفع دخل مقدر کہتے ہیں اور یہ طریقہ ایسا شائع ہے بلکہ ایک امر فطری کہ جو روزمرہ کی بول چال میں پایا جاتا ہے ۔ مثلاً جس شخص سے خلف وعدہ یا خدمت میں تخلف ہوا وہ کہتا ہے میں کل نہ آسکا مجھے ایک کام ہو گیا اور چھوٹتے ہی یہ بات کہہ اُٹھنا ان معنی پر دلالت کرتا ہے مخاطب نے اس سے کہا ہے کہ تم نے وعدہ خلافی کی یا تساہل کیا یعنی اعتراض مقدر کا جواب دیتا ہے ۔

    پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

    رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

    یعنی رُکنے کے بعد جو طبیعت رواں ہوتی ہے تو زیادہ تر رواں ہوتی ہے ، جس طرح چڑھے ہوئے نالے کو جب رستہ مل جاتا ہے تو بہت ہی زور سے بہتا ہے اور معنی تفصیل کے لئے ہے ، یعنی پہلے کے بہ نسبت زیادہ تر روانی ہوتی ہے ۔

    ہیں اور بھی دُنیا میں سخنور بہت اچھے

    کہتے ہیں کہ غالبؔ کاہے اندازِ بیاں اور

    ’ کہتے ہیں ‘ کا فاعل حذف کرنے سے یہ معنی پیدا ہوئے کہ یہ بات عام ہے اور مشہور ہے ۔

    _______

    صفائے حیرتِ آئینہ ہے سامان زنگ آخر

    تغیر آب برجا ماندہ کا پاتا ہے رنگ آخر

    یعنی آبِ راکد کا رنگ تغیر پاکر کائی جم جاتی ہے تو حیرت کا حد سے بڑھ جانا بھی اچھا نہیں ، اس شعر میں آئینہ پر زنگ آنا اور پانی پر کائی کا جمنا وہ تشبیہ ہے جس میں وجہ شبہ حرکت نے الکیف ہے

    نہ کی سامانِ عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی

    ہوا جام زمرد بھی مجھے داغِ پلنگ آخر

    یعنی جام زمردیں پر مجھے داغ پشت پلنگ کا شبہ ہوتا ہے اور وحشت اور بڑھتی ہے مضمون شعر کا مبتذل ہے لیکن تشبیہ نے جان ڈال دی ۔

    جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی

    گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

    اے گریباں اُس چاک کا میری گردن پر حق ہو گیا ہے کہ اُس نے مجھے عریاں کیا نہیں تو جنوں کی دستگیری مجھ سے نہیں ہوسکتی ، یہاں عریاں نہ ہوتا تو پھر جنوں کیسا ۔

    برنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بے تابی

    ہزار آئینۂ دل باندھے ہے بال یک تپیدن پر

    پہلے مصرع میں سے ’ ہے ‘ محذوف ہے ، کہتے ہیں نیرنگ بے تابی مثل کاغذِ آتش زدہ ہے کہ دل نے ایک بال تپیدن پر ہزار ہزار آئینہ باندھے ہیں ، اس شعر میں آئینہ متحرک کی تڑپ کو اُس شعلہ سے تشبیہ دی ہے جو کاغذ آتش زدہ سے بلند ہو ۔

    فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضہ ہے

    متاعِ بردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر

    حاصل یہ کہ انقلابِ آسمانی سے جو زمانہ عیش کا جاتا ہے پھر اُسکے واپس آنے کی اُمید فضول ہے

    ہم اور وہ بے سبب رنج آزما دُشمن کہ رکھتا ہے

    شعاعِ مہر سے تہمت نگہ کی چشم رَوزن پر

    یعنی روزن سے جو شعاع آتی ہے اُسے دیکھ کر وہ مجھ سے آزردہ ہوتا ہے کہ تیری نگاہ تھی تو نے جھانکا ہو گا ایسے بدگمان سے مجھ کو سابقہ پڑا ہے ۔

    فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا

    فروغ طالع خاشاک ہے موقوف گلخن پر

    یعنی فنا فی اللہ ہوکر فروغ معرفت حاصل کر اس شعر میں لفظ حقیقت میں دو عالموں کا تنازع ہے ، ایک فعل دوسری اضافت یعنی لفظ ’ سونپ ‘ یہ چاہتا ہے کہ حقیقت مفعول ہو اور علامت مفعول یعنی ’کو ‘ اس میں ہونا چاہئے اور لفظ مشتاق جو حقیقت کی طرف مضاف ہے وہ چاہتا ہے کہ ’ کا ‘ علامت مضاف الیہ اس میں ہو اور نحو اُردو یہ ہے کہ عامل ثانی کو عمل دینا چاہئے جیسا کہ اس شعر میں ہے ۔

    اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے

    کہ مشقِ ناز کر خونِ دوعالم میری گردن پر

    مطلب صاف ہے اور کس یہاں استفہام کے لئے نہیں ہے استعجاب کے لئے ہے ، اس شعر کی تعریف حد امکاں سے باہر ہے ۔

    _______

    ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق میں

    تکلف برطرف ، مل جائے گا تجھ سا رقیب آخر

    یعنی جو حسین تجھ پر عاشق ہیں اُن میں سے کوئی نہ کوئی میرے ہاتھ لگ جائے گا اس مصلحت سے میں تیری ناز برداری کئے جاتا ہوں کہ تو نہیں ملتا تو تجھ سا حسین کوئی رقیب تو مجھے مل جائے گا ۔

    _______

    لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اور

    تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

    اس شعر میں مصنف نے عارف سے خطاب کیا ہے کہ ہمارے ساتھ تمہیں مرنا تھا تم نے جلدی کی تو اب تنہا رہو ۔ اس غزل کے سب شعر عارف کے مرثیہ میں ہیں ۔ عارف صاحب مرزا صاحب کی بی بی کے بھائی تھے زین العابدین خاں نام تھا خوش فکر تھے جواں مرگ ہوئے ۔

    مٹ جائے گا سر گر ترا پتھر نہ گھسے گا

    ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

    یعنی میری ناصیہ سائی جو تیرے در پر ہے یہ بھی ہمیشہ کے لئے نہیں ہے چند دن میں یا تو پتھر ہی گھس جائے گا یا سر ہی باقی نہ رہے گا اور در سے اشارہ ہے قبر عارف کی طرف اور پتھر سے سنگ لوح مزار مراد ہے اور ناصیہ فرسائی سے سر ٹکرانا مقصود ہے ۔

    آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ جاؤں

    مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

    کثرت غم میں یہ تصور بند گیا جیسے عارف ابھی زندہ ہے اور وداع ہوا چاہتا ہے ۔

    جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت میں ملیں گے

    کیا خوب قیامت کاہے گویا کوئی دن اور

    یعنی ہم جانتے ہیں کہ آج ہی قیامت کا دن ہے ۔

    ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف

    کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

    اس شعر میں ’ ہاں ‘ اپنے محل پر نہیں ہے ’ کیوں ‘ کا مقام ہے ۔

    تم ماہ شب چار دہم تھے مرے گھر کے

    پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشہ کوئی دن اور

    یعنی شب چار دہم کے بعد تو کچھ دنوں تک چاند رہتا ہے پھر کیوں تم یکایک چھپ گئے ۔

    تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے

    کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور

    مجھ سے تمہیں نفرت سہی نیر سے لڑائی

    بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

    گذری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش

    کرنا تھا جواں مرگ گذارا کوئی دن اور

    ’ نہ ‘ استفہام انکاری کے لئے ہے اور جوان مرگ منادی ہے ، میر مصنف کے شاگرد رشید ہیں ، اس شعر سے ظاہر ہے کہ مصنف کے ساتھ اُن کی خصوصیت عارف کو ناگوار تھی ۔

    ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالب ؔ

    قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

    تم لوگ تعجب کرتے ہو کہ جواں مرگی عارف کا داغ اُٹھاکر غالبؔ جیتے ہیں بڑے نادان ہو ، ابھی کچھ دنوں اور موت کی تمنا میں رہنا میری قسمت میں لکھا ہوا ہے پھر مروں تو کیوں کر مروں ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں