1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مرزا اسد اللہ خان غالب

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از كاشان عدنان, ‏27 جولائی 2011۔

  1. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    غالب غالباً اردو کے سب سے پہلے بڑے شاعر ہیں۔ میر جیسے عظیم فن کار سے لے کر غالب کے دور تک جتنے شعراءبھی گزرے ہیں۔ ان کی مہارت اور استادی کسی ایک فن کی مرہونِ منت ہے۔ میر غزلوں کے خدائے سخن ہیں۔ سودا قصائد اور ہجونگاری کے مردِ میدان ہیں۔ میر حسن مثنوی میں امتیازی حیثیت کے مالک ہےں لیکن غالب کا فن حدو د و رسوم سے بلند اور شاعری کے اعلی ترین معیار کا ترجمان ہے۔ وہ ایک ایسی شاعری کے نمائندے ہےں جہاں سے پیغمبری کی حدیں شروع ہوجاتی ہیں۔
    بقول شیخ محمد اکرام:

    تاج محل سنگِ مرمر کی تراش خراش کا بہترین امتزاج ہے اسکی نقش نگاری کو ہیرے جواہرات کی جڑاﺅ کاری نے بہترین مرقع بنادیاہے۔ اسی طرح غالب کی شاعری اور ان کا کلام ہے۔ جسطرح مغلوں کا نام روشن رکھنے کے لئے ایک تاج محل کا نام کافی ہے اس طرح اردو غزل گوئی کو حیاتِ جاوداں بخسنے کے لئے غالب کا دیوان کافی ہے۔

    خود غالب کا یہ دعوی ہے

    ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
    کہتے ہیں غالب کا ہے اندازِ بیان اور

    غالب کا یہ دعوی صرف دعوی ہی نہیں حقیقت ہے۔ جسے ہر دور کے دانشوروں نے تسلیم کیا ہے ۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی فرماتے ہیں:

    عہدِ مغلیہ نے ہندوستان کو تین چیزیں عطا کیں تاج محل‘ اردو زبان اور مرزا اسدا للہ خان غالب۔
     
  2. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    غالب کے محاسنِ کلام



    غالب کے محاسنِ کلام ذیل مین درج میں درج ہیں۔

    (۱) فلسفیانہ لہجہ

    غالب فلسفی شاعر تھے۔ تخیل پروازی اور فلسفیانہ انداذِ بیان انکے کلام پر حاوی ہے اور اس میں ان کا کوئی معاصر انکے مدِ مقابل نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر

    ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
    نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا

    نقشِ فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

    (۲) تصوف کا رنگ

    غالب کی غزل میں ہمیں تصوف کے حقائق بھی جابجا ملتے ہیں۔ جب وہ اس کائنات کو صوفی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو معرفت کے نہایت پاکیزہ اور باریک نکتے بیان کرتے ہیں۔ بقول آل احمد سرور:

    ان کا سارا فلسفہ اور تصوف انکے فکرِ روشن کی کرشمہ سازی کا نام ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

    عکسِ کلام درج ذیل ہے

    یہ مسائلِ تصوف یہ تیرا بیان غالب
    تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

    محرم نہیں ہے تو ہی نوہائے راز کا
    ہاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

    (۳) عاشقانہ رنگ

    غالب کی رائے میں جذبہ عشق ہی ہنگامہ عالم کی بنیاد ہے۔ زندگی کی تمام رونقیں اور لذتیں جذبہ عشق کی بدولت قائم و دائم ہیں۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام ذیل میں درج ہے

    عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
    درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا

    ان کے دیکھے سو چہرے پہ آجاتی ہے رونق
    وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

    (۴) رشک و حسد

    رشک غالب کا محبوب مضمون ہے۔ وہ رقیب کے علاوہ اپنی ذات سے بھی رشک کرتے ہیں۔ بلکہ بعض انہیں خدا سے بھی رشک ہوجاتا ہے۔ مثلاً

    ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
    مرتے ہیں کہ ان کی تمنا نہیں کرتے

    چھوڑا نہ رشک نے کہ تیرے گھر کا نام لوں
    ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاﺅں کدھر کو میں

    (۵) غم پسندی

    غالب کے نظریہ زندگی کہ مطابق زندگی کے ہنگاموں میں احساسِ غم کا بہت بڑا حصہ ہے۔ زندگی کی یہ گہماگہمی نغمہِ الم اور غم کی وجہ سے قائم ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے

    قیدِ حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
    موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

    غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگِ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
    بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

    (۶) حقیقت پسندی

    غالب کی نظر انسانی فطرت کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے۔ انہیں انسانی نفسیات کا گہرا شعور حاصل ہے اور انہیں نے اپنے اس شعور سے نہایت مفید نتائج اخذ کےے ہیں۔ مثلاً

    ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام
    اک مرگ ناگہانی اور ہے

    رنج سی خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
    مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں

    موت کا ایک دن معین ہے
    نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

    (۷) ایجاز واختصار

    طویل مضامین کو مختصر الفاظ میں بیان کرنے کا جو سلیقہ غالب کے حصے میں آیا وہ بہت ہی کم شاعروں کو نصیب ہوا یعنی دریا کو کوزے میں بند کرنا۔ کلام کی اسی خصوصیت کو بلاغت کا جاتا ہے۔ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی پنہاں کرنا ان کی شاعری کا کمال ہے۔ مثلاً

    کیا کیا خضر نے سکندر سے
    اب کسے رہنما کرے کوئی

    ملنا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
    دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

    (۸) روز مرہ زبان اور محاورات کا استعمال

    غالب نے اپنے شاعر ی میں روزمرہ زبان اور محاورات کا بھی استعمال کیا ہے جس سے ان کے اشعار میں نکھار آگیا ہے۔ مثال کے طور پر نمونہ کلام درج ذیل ہے

    ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرگے لیکن
    خاک ہوجائیں گے ہم‘ تم کو خبر ہونے تک

    آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

    (۹) عظمتِ انسانی

    غالب جب اپنے ماحول میں انسان کوذلت کی بستیوں میں گراہوا دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے۔مثلاً

    ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
    گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

    بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
    آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا

    (۰۱) رندی

    ہمیں غالب کی غزل میں رندانہ مضامین کی چاشنی بھی ملتی ہے

    کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی

    پلادے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے
    پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے

    (۱۱) سہلِ ممتنع

    غالب کا کلام سہلِ ممتنع کی ایک بلند و بالا خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اس قدر آسان انداز اور پیرائے میں بیان کیا جائے کہ سننے والا یہ سمجھے کہ وہ بھی اس طرح بات کرسکتا ہے۔ مگر جب کرنے بیٹھے تو عاجز ہوجائے۔ ان کے کلام میں سادگی اور پرکاری کی کیفیت انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ بقول غالب

    کوئی امید بر نہیں آتی
    کوئی صورت نظر نہیں آتی

    دلِ نادان تجھے ہوا کیا ہے
    آخر اس درد کی دوا کیا ہے

    (۲۱) شوخی و ظرافت

    غالب شعر میں اظہار غم کے موقع پر جب شوخی یا طنز سے کام لیتے ہیں تو غم میں بھی شگفتگی اور زندہ دلی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔نمونہ کلام ذیل میں درج ہے

    ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
    دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

    کیا فرض ہے سب کو ملے ایک سا جواب
    آﺅ نہ ہم سیر کریں کوہِ طور کی

    حرفِ آخر

    حقیقت یہ ہے کہ غالب کی شاعری بڑی پہلو دار شاعری ہے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر مختصر سے وقت میں تبصرہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس لئے صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ غالب ہر دور میں غالب رہے گا۔غالب کی کلام کی مندرجہ بالا خصوصیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا کلام ایک وسیع دنیا ہے۔ اہلِ دانش نے سچ کہا ہے کہ غالب اردو کی آبرو اور عروسِ غزل کا سہاگ ہیں۔
    پروفیسر عزیز احمد کے یہ الفاظ غالب کی عظمت کو بیان کرنے کیلئے حروفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں:

    وہ ایک طرح کے شاعرِ آخرالزماں ہیں جن پر ہزار ہا سال کی اردو اور فارسی شاعری کا خاتمہ ہوا۔
     
  3. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ”خطوط ِ غالب“



    مرزا اسد اللہ خان غالب کی شخصیت کو کون نہیں جانتا ۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیت شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان ذد خلائق ہیں۔ اور بحیثیت نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی ، انشاءپردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین ۔ یہی نمونہ نثر آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اپنے خطوط کے ذریعہ سے اردو نثر میں ایک نئے موڑ کا اضافہ کیا۔ اور آنے والے مصنفین کو طرز تحریر میں سلاست روانی اور برجستگی سکھائی ۔ البتہ مرزا غالب کے مخصوص اسلوب کو آج تک ان کی طرح کوئی نہ نبھا سکا۔ غالب کے خطوط آج بھی ندرت کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔

    غالب نے فرسودہ روایات کو ٹھوکر مار کر وہ جدتیں پیدا کیں جنہوں نے اردو خطو ط نویسی کو فرسودہ راستے سے ہٹا کر فنی معراج پر پہنچا دیا۔ غالب کے خطوط میں تین بڑی خصوصیات پائی جاتی ہیں اول یہ کہ انہوں پرتکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط نویسی شروع کی۔ دوسری یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی میں اسٹائل اور طریق اظہار کے مختلف راستے پیدا کئے ۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے خطو ط نویسی کو ادب بنا دیا۔ اُن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ”محمد شاہی روشوں “ کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا اور القاب و آداب و تکلفا ت کے تمام لوازمات کو ختم کر ڈالا۔
     
  4. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    [جدید نثر کی ابتدا:۔

    /COLOR]


    شبلی نے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ،

    ” اردو انشاءپردازی کا آج جو انداز ہے اور جس کے مجدد اور امام سرسید مرحوم تھے اس کا سنگ بنیاد دراصل مرزا غالب نے رکھاتھا۔“

    غالب کی شخصیت ایک شدید انفرادیت کی مالک تھی۔ وہ گھسے پٹے راستے پر چلنے والا مسافر نہیں تھا ۔ وہ اپنی طبیعت کے اعتبار سے راہرو بھی تھا اور رہبر بھی غالب کی فطرت میں اختراع و ایجاد کی رگ بڑی قوی تھی۔ غالب نے جس جدید نثر کی بنیاد رکھی اسی پر سرسید اور اُن کے رفقاءنے ایک جدید اور قابل دید عمارت کھڑی کردی۔ سادگی ، سلاست ،بے تکلفی و بے ساختگی ، گنجلک اورمغلق انداز بیان کی بجائے سادا مدعا نگاری یہ تمام محاسن جو جدید نثر کا طرہ امتیاز ہیں مکاتیب غالب میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب جدید اردو نثر کے رہنما ہیں ۔ آج نثر کی کوئی ایسی صنف موجود نہیں جس کے لئے مکاتیب غالب میں طرز ادا کی رہنمائی نہ ملتی ہو۔ بقول اکرم شیخ،

    ” غالب نے دہلی کی زبان کو تحریر ی جامہ پہنایا اور اس میں اپنی ظرافت اور موثر بیان سے وہ گلکاریاں کیں کہ اردو معلی خا ص و عام کو پسند آئی اور اردو نثر کے لئے ایک طرز تحریر قائم ہوگیا۔ جس کی پیروی دوسروں کے لئے لازم تھی۔
     
  5. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    خطوط او ر غالب کی شخصیت:۔


    اردو میں غالب پہلے شخص ہیں جو اپنے خطوظ میں اپنی شخصیت کو بے نقاب کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر غالب کی شاعری سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حالی نے انہیں حیوان ظریف کیوں کہا ہے۔ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی طبیعت میں ظرافت تھی۔ غالب کے کلام سے غالب کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ اس غالب کی ہے جو خیال کی دنیا میں رہتا ہے۔ لیکن خطوط میں وہ غالب ہمیں ملتا ہے جس کے قدم زمین پر جمے ہیں ۔جس میں زندگی بسر کرنے کا ولولہ ملتا ہے۔ جو اپنے نام سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر اپنے آپ کو ذلیل نہیں کرتا ۔ غالب کی زندگی سراپا حرکت و عمل ہے۔ اس کی شخصیت میں ایک بے تکلفی ،بے ساختگی اور حقیقت پسندی کی موجودگی اس کے خطوط سے چھلکی پڑتی ہے۔ اخفائے ذات اور پاس حجاب کا وہ کم از کم خطوط میں قائل نظر نہیں آتا۔

    غالب نے اپنے مکاتیب میں اپنے بارے میں اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز میں لکھا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہوجاتی ہے۔ اس آب بیتی میں جیتا جاگتا غالب اپنے غموں اور خوشیوں ، اپنی آرزوں اور خواہشوں ، اپنی محرومیوں اور شکستوں اپنی احتیاجوں اور ضرورتوں ، اپنی شوخیوں ، اپنی بذلہ سنجیوں کے ساتھ زندگی سے ہر صورت نباہ کرتا ہوا ملے گا۔

    غرض ان کی شخصیت کی کامل تصویر اپنی تمام تر جزئیات و تفصیلات کے ساتھ ان کے خطوط ہی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
     
  6. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    بے تکلفی اور سادگی:۔



    غالب کے انداز نگارش کی ممتاز ترین خصوصیت یہ ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں بے تکلف لکھتے تھے۔ ان کے خطوط کا مطالعہ کرتے وقت شائد ہی کہیں یہ احساس ہو کہ الفاظ کے انتخاب یا مطالب کی تلاش و جستجو میں انہیں کاوش کرنی پڑی ۔ عام ادبی بول چال کا سہارا لے کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کی تحریر ”آورد نہیں”آمد“ہے۔

    مولانا حالی کے الفاظ میں ،

    ” مرزا سے پہلے کسی نے خط و کتابت کا یہ انداز اختیار کیا اور نہ ان کے بعد کسی سے اس کی پوری پوری تقلید ہو سکی۔“

    انھوں نے القابات کے فرسودہ نظام کو ختم کردیا۔ وہ خط کو میاں، کبھی برخودار، کبھی مہاراج ، کبھی بھائی صاحب، کبھی کسی اور مناسب لفظ سےشروع کرتے ہیں۔ اس بے تکلفی اور سادگی نے ان کے ہر خط میں ڈرامائی کیفیت پیدا کردی ہے۔ مثلا یوسف مرزا کو اس طرح خط شروع کرتے ہیں۔

    ” کوئی ہے، ذرا یوسف مرزا کو بلائیو، لو صاحب وہ آئے۔“
     
  7. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    جدت طرازی

    غالب کی تحریر کی جان جد ت طرازی ہی ہے۔ وہ بنے بنائے راستوں پر چلنے کے بجائے خود اپنا راستہ بناتے ہیں۔ عام اور فرسودہ انداز میں بات کرنا اُن کا شیوہ نہیں۔ انہوں نے خطوط نویسی کو اپچ اور ایجاد کا طریقہ نو بخشا، جو ادبی اجتہاد سے کم نہیں، میرمہد ی کا ایک خط یوں شروع ہوتا ہے۔ ”مار ڈالا یا ر تیری جواب طلبی نے“

    ایک اور خط کی ابتداءیوں کرتے ہیں۔

    آہا ہاہا۔ میراپیارا مہدی آیا۔ آئو بھائی، مزاج تو اچھا ہے۔ بیٹھو۔“

    غالب کی اس جدت پسندی نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ۔ اپنی اس جدت پسندی پر خود اظہار خیال کرتے ہیں کہ،

    ” میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے بہ زبان قلم باتیں کرو ، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔“
     
  8. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    شوخی تحریر

    مولانا حالی لکھتے ہیں کہ جس چیز نے ان کے مکاتیب کو ناول اور ڈراما سے زیادہ دلچسپ بنا دیا ہے وہ شوخیتحریر ہے جو اکتساب ، مشق و مہارت یا پیروی و تقلید سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے خط و کتابت میں مرزا کی روش پر چلنے کا ارادہ کیا اور اپنے مکاتبات کی بنیاد بذلہ سنجی و ظرافت پر رکھنی چاہی ہے۔ مگر ان کی اور مرزا کی تحریر میں وہی فرق پایا جاتا ہے جو اصل اور نقل یا روپ بہروپ میں پایا ہوتا ہے۔مرزا کی طبیعت میں شوخی ایسی بھری ہوئی تھی جیسے ستار میں سر بھرے ہوئے ہیں ۔ اور بقول حالی مرزا کو بجائے ”حیوان ناطق“ ”حیوان ظریف “ کہنا بجا ہے۔ غالب نے اپنی طبیعت کی شوخی اور ظرافت سے کام لے کر اپنے خطوں میں بھی بذلہ سنجی اور شگفتگی کے گلزار کھلا ئے ہیں۔ ماہ رمضان میں لکھا گیا ایک خط

    ” پانی ، حقے اور روٹی کے ٹکڑے سے روزے کو بہلاتا ہوں۔“

    ”میاں تمہارے دادا امین الدین خان بہادر ہےں میں تو تمہارا دلدادہ ہوں۔
     
  9. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    جزئیات نگاری

    غالب جزئیات نگاری کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ مفصل بیانات عموماً بے لطف ہو جاتے ہیں۔ لیکن مرزا جزئیات کو اس ڈھنگ سے پیش کرتے ہیں کہ تحریر بے مزہ ہونے کے بجائے پر لطف ہو جاتی ہے۔ اپنے ذود و بیاں سے مرزا کو حالات و واقعات کی لفظی تصویریں کھینچنے پر وہ قدرت حاصل ہے کہ رنگ و روغن کی تصویروں میں شائد ہی وہ دلکشی و تاثیر ہو۔ جو ان کے لفظی پیکروں میں موجود ہوتی ہے۔ ایک خط میں تحریر کرتے ہیں،

    ” آج شنبہ ۲۱ جنوری یہاں مقام ہے۔ نو بج گئے ہیں۔ بےٹھا حقہ پی رہا ہوں ، اور خط لکھ رہا ہوں۔“

    تفتہ کے نام ایک خط میں غد ر کے بعد کے حالات کی ایک تصویر اس طرح کھینچی ہے،

    ” تم پر اس کی مثال اس وقت کھلتی اگر تم یہاں ہوتے۔ اور بیگمات قلعہ کو پھرتے چلتے دیکھتے ۔ صورت ماہ دو ہفتہ کی سی اور کپڑے میلے، پائینچے لیر لیر، جوتی ٹوٹی ہوئی۔“
     
  10. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    [/ذا ت اور ماحولCOLOR]

    پورے مکاتیب غالب کو سامنے رکھ کر حیات غالب کا مکمل نقشہ تیار کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ غالب نے اپنے اردگرد کے ماحول اور حالت زندگی کی مکمل ترجمانی اپنے خطوط میں کی ہے۔ مثلاً پیدائش، خاندان، وسائل معاش ، رہائش ، دوست احباب ، خوردونوش ، شب وروز کی مشغولیات، سفر و حضر وغیرہ ۔ حیات غالب کے متعلق تمام معلومات مکاتیب میں موجود ہیں۔ ایک خط میں اپنے ماحول کے متعلق یوں رقمطراز ہیں،

    ” میں جس شہر میں ہوں ، اس کا نا م دلّی اور اس محلے کا نام بلی ماروں کا محلہ ہے۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں میں نہیں پایا جاتا ۔ واللہ ڈھونڈنے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا ۔ کیا امیر ، کیا غریب ، کیا اہل حرفہ ۔ اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہنود البتہ کچھ کچھ آباد ہوگئے ہیں۔“

    ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ غالب کئی جدید اصناف کے موجد بھی قرار پائے جن مختصرذکر ذیل میں دیا جا رہا ہے
     
  11. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    [مکالمہ نگاری و انشائیہ/COLOR]


    غالب نے نامہ نگاری کو مکالمہ بنا دیا ہے جس میں مکالمے بھی ہیں اور بات چیت کی مجلسی کیفیت بھی۔

    ”بھائی تم میں مجھ میں نامہ نگاری کاہے کو ہے ۔مکالمہ ہے۔“

    باتیں کرنے کا یہ انداز نثر میں زندگی کی غمازی کرتا ہے۔ اور اسلوب کا یہ انداز ہے جو انشائیہ نگاری کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اردو میں انشائیہ کی صنف غالب کے بعد سرسید کے زمانے میں ظہور میں آئی۔ لیکن اس صنف ادب کے لئے غالب کے اسلوب گفتگو نے زمین پہلے سے ہموار کردی تھی۔ سرسید اور اُن کے رفقاءنے جب انشائیے لکھنے شروع کئے تو مکاتیب غالب کا سادہ ، صاف اور نکھرا ہوا اسلوب ان کے کام آیا۔
     
  12. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    [color="red"ڈراما][/color]

    غالب نے اپنے خطوط میں مکالمہ نگاری کا جو اسلوب اپنایا ہے اس میں ڈرامائیت کی وہ اد ا نظر آتی ہے جو آگے چل کر ڈرامہ نگاری کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ اردو کے افسانوی ادب میں ناول اور ڈرامے کی اصناف بھی غالب کے بعد ظہور میں آئیں۔ لیکن خطوط غالب کے یہ پیرایہ ہائے بیان ان اصناف ادب کے لئے اظہار و بیان کی راہیں تیار کر گئے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ لکھتے ہیں۔

    غالب:۔ بھئی محمد علی بیگ، لوہاروں کی سواریاں روانہ ہو گئیں؟

    محمد علی:۔ حضرت ابھی نہیں!

    غالب:۔ کیا آج جائیں گی؟

    محمد علی:۔ آج ضرو ر جائیں گے! تیاری ہو رہی ہے!“
     
  13. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    مکالموں اور باتوں کے ساتھ ساتھ مجلسی زندگی کا ایک اہم پہلو خبریں سنانے کا ہے۔ خبریں اور خبروں پر تبصرے معاشرتی جبلت ہے۔ جن کی تکمیل احباب کی شبانہ روز مجلسوں میں ہوتی ہے۔ غالب نے بھی اس کے ذریعے مجلسی فضا پیدا کرکے اپنی اور احباب کی تسکین دل کا سامان کیا ہے۔

    ” آج شہر کے اخبار لکھتا ہوں۔ سوانح لیل و نہار لکھتا ہوں۔“

    ”ہم تمہارے اخبار نویس ہیں اور تم کو خبر دیتے ہیں کہ۔۔۔۔۔“

    اس طرح غالب صرف واقعات و حالات ہی بیان نہیں کرتے بلکہ ردعمل اور تاثرات بھی قلم بند کر جاتے ہیں۔ اس طرح غالب کے خطوط کا یہ سرمایہ رپورتاژ کی ذیل میں آجاتا ہے۔ جسے ادب میں ایک الگ صنف کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔
     
  14. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    [font="arial black"آپ بیتی][/font]

    غالب آپ بیتی یا سر گزشت نہیں لکھ رہے تھے ۔ صرف احباب کے نام خط لکھ رہے تھے لیکن ان خطوط میں انہوں نے اپنی زندگی کے متعلق اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز سے لکھ دیا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہو جاتی ہے۔ اردو ادب میں آپ بیتی کو بعد میں اپنایا گیا لیکن مکاتیب ِ غالب میں ان کی خود نوشت سوانح نے اردو میں آپ بیتی کے لئے زمین ہموار کر دی تھی۔
     
  15. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    مختصر کہانی:۔

    دراصل خطوط غالب انسانی زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں اور مختصر کہانی کا موضوع ہی انسانی زندگی کا کوئی پہلو ہوتا ہے۔ غالب نے شخصی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو بیان کرنے میں جس رواں اور شگفتہ انداز بیاں کو اختیار کیا ہے اس نے مختصر کہانی کے لئے راہیں ہموار کیں۔

    اس طرح غالب کے خطوط بیشتر اصناف ادب کے لئے پیشرو اور رہنما ثابت ہوئے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر غالب نے اپنے خطوط میں یہ راہیں نہ دکھائی ہوتیں تو اردو کے نثری اوصناف ادب کو اپنے نشونما و ارتقاءمیں شائد اتنی سہولتیں نہ ملتیں۔
     
  16. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    مجموعی جائزہ:۔

    غالب کے خطوط اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اردو ادب کے عظیم نثر پاروں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ یہ خطو ط فطری اور بامعنی ہیں۔ انہوں نے القاب و آداب غائب کر دیے ہیں۔ اور ان میں ڈرامائی عنصر شامل کر دیا ہے۔ اُ ن کا اسلوب خود ساختہ ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بیان کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں ۔ مشاہدہ بہت تیز ہے ۔ منظر نگاری خاکہ نگاری میں بھی ملکہ حاصل ہے اُن کے خطوط کی سب سے بڑی خصوصیت لہجہ کی شیرینی اور مزاح کی خوش بینی ، ظرافت اور مزاح ہے۔ جس میں ہلکی ہلکی لہریں طنز کی بھی رواں ہیں۔ جبکہ یہی خطوط ہیں جو اردو ادب کے کئی اصناف کی ابتداءکا موجب بنے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب کو اگر شاعری میں ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے تو نثر میں بھی وہ ایک الگ اور منفرد نام رکھتے ہیں۔ بقول غلام رسول مہر

    ” غالب نے اپنی سرسری تحریرات میں ذات اور ماحول کے متعلق معلومات کا جو گراں قدر ذخیرہ و ارادہ فراہم کردیا ہے ۔ اس کا عشرِ عشیر بھی کسی دوسرے مجموعے میں نظر نہ آئے گا۔
     
  17. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    مرزاغالب کو دنیا سے رخصت ہوئے آج 142 برس ہوگئے
     
  18. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    اردو اور فارسی کے
    عظیم کلاسک شاعر مرزا اسد اللہ غالب کو دنیا سے کوچ کیے آج 142 برس ہوگئے. دسمبر
    1797ء کو آگرہ میں پیدا ہونے والے مرزا غالب کا اصل نام اسد اللہ ...
     
  19. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    شرح دیوانِ غالب

    نظم طبابائی

     
  20. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    فہرست
    نظمؔ طباطبائی ۔ایک تعارف... 3

    ردیف ۔(ا ). 7

    ردیف ( ب ). 50

    ردیف ( ت ). 54

    ردیف ( ج ). 57

    ردیف (چ) جیم فارسی.. 58

    ردیف ( د ). 60

    ردیف ( ر ). 62

    ردیف ( ز ). 74

    ردیف ( س ). 81

    ردیف ( ش ). 83

    ردیف ( ع ). 84

    ردیف ( ف ). 86

    ردیف ( ک ). 87

    ردیف ( گ ). 90

    ردیف ( ل ). 91

    ردیف ( م ). 93

    ردیف ( ن ). 95

    ردیف ( و ). 134

    ردیف ( ہ ). 146

    ردیف ( ی ). 147










    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    نظمؔ طباطبائی ۔ایک تعارف


    سید محمد حسین محسن حیدرآبادی


    جناب نظمؔ طباطبائی کی عظیم المرتبت اور بھاری بھر کم شخصیت دنیائے ادب اور خاص کر اہل حیدرآباد کیلئے محتاج تعارف نہیں ہے ۔ یہ وہ صاحب قلم ہیں جنہوں نے اردو کو نہایت متین اور عالمانہ گفتگو سے نہ صرف روشناس کرایا بلکہ ایسے اصول و ضوابط و ضع کئے کہ ہر قسم کے دقیق اور جدید سائنسی مضامین ادب کی چاشنی کے ساتھ با آسانی تحریر کئے جاسکتے ہیں ۔نظمؔ طباطبائی حیدرآباد کے دارالترجمہ اور مجلس وضع اصطلاحات کے قیام کے روز اول سے تاحیات وابستہ رہے اور دارالترجمہ کے ناظر ادبی کی حیثیت سے دیکھئے تو کوئی کتاب ایسی نہ تھی جس کے ترجمہ ہونے کے بعد اس کے ہر ہر لفظ کو اور جملوں کی ساخت کو انہوں نے دیکھا اور پرکھا نہ ہو ۔ یوں سمجھئے کہ جامعہ عثمانیہ کے اردو میں تمام تدریسی مواد کی صحتِ زبان پر نظمؔ طباطبائی کی مہر تصدیق ثبت تھی ۔ ان کی اسکریننگ کے بعد ہی کوئی ترجمہ لائق طباعت و اشاعت سمجھا جاتا تھا ۔نقد و نظر ‘ شاعری ‘ نثر نگاری ‘ ترجمہ ‘ قواعد ‘ عروض ‘ ضائع بدائع یا اور کوئی شعبہ زبان ایسا نہ تھا جس میں نظم ؔ صاحب کا اجتہاد داخل نہ ہو ۔ ان کے زبان سے متعلق کسی بھی فیصلے کو ادبیات کی دنیا میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ اس کی تردید کرتا یا اس کے بر خلاف رائے دیتا ۔ ہماری زبان میں جناب نظمؔ طباطبائی ایک طرح سے مجتہد جامع الشرائظ تھے ۔ جناب نظمؔ طباطبائی کا سلسلہ نسب حسنی سادات سے ملتا ہے ۔ امام حسن ؑ کے پوتے جناب اسمعٰیل تھے جن کا لقب ’’طبا طبا‘‘ تھا اس لئے یہ سلسلہ طباطبائی کے نام سے موسوم ہے ۔ ان کے اجداد ایران سے ہندوستان آئے اور لکھنؤ میں آکر آباد ہوئے ۔ ان کی والدہ نواب معتمد الدولہ سید محمد خان عرف آغا میر کے خاندان کی تھیں اور ان کے والد سید مصطفےٰ حسین دربار اودھ سے وابستہ تھے ۔ 18نومبر 1853ء کو محلہ حیدرگنج قدیم میں بروز جمعہ نظمؔ طباطبائی پیدا ہوئے ۔ سید علی حیدر نام تھا۔ کبھی نظمؔ اور کبھی حیدرؔ تخلص کرتے تھے ۔ علم و فضل میں یہ خاندان لکھنؤ میں مشہور تھا ۔ نظمؔ صاحب کی تعلیم ایک مکتب میں ہوئی جہاں ملاباقر جیسے عالم ان کو پڑھاتے تھے عربی ادب اور فقہ میں استعداد علمی کا آغاز انہیں بزرگ اساتذہ کی بدولت ہوا ۔ فارسی اور علم عروض کی تعلیم انہوں نے میندولال رازؔ سے حاصل کی ۔ 1868ء میں پندرہ برس کی عمر میں یہ اپنی والدہ کے ساتھ مٹیا برج (کلکتہ ) چلے آئے جہاں واجد علی شاہ کی بدولت ایک چھوٹا لکھنؤ آباد ہوگیا تھا ۔ یہاں مولانا محمد علی مجتہد العصر سے درسِ نظامی منطق اور فلسفہ پڑھا اور اس طرح اپنی تعلیم مکمل کی ۔ پھر وہ مٹیا برج میں ہی واقع شہزادگانِ اودھ کے لئے قائم کردہ مدرسہ میں ملازم ہوگئے ۔ مدرسہ کے انگریزی کے استاذ محمد عسکری سے انہوں نے انگریزی زبان سیکھی اور اسکے بدلے عسکری صاحب کو عربی پڑھائی ۔واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد مدرسہ ٹوٹ گیا تو ان کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا ۔ پھر مولوی سید افضل حسین لکھنؤی ‘ چیف جسٹس حیدرآباد کی دعوت پر 1887ء میں نظمؔ صاحب حیدرآباد آگئے ۔ افضل حسین صاحب سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ اس سے قبل تفریحاً حیدرآباد آئے تھے ۔ کسی مستقل معاشی وسیلہ کے فراہم ہونے تک افضل حسین صاحب نے اپنے فرزند آغا سید حسین کی اتالیقی ان کے سپرد کی ۔ 1889ء میں نواب عمادالملک سید حسین بلگرامی نے جو ناظم تعلیمات تھے نظمؔ صاحب کو مدرسہ اعزہ میں عربی کا استاد مقرر کردیا ۔ 1890ء میں کتب خانہ آصفیہ کے پہلے مہتمم بنائے گئے ۔ اس کی تنظیم اور توسیع میں نظمؔ صاحب نے بڑی دلچسپی لی ۔ اس وقت یہ کتب خانہ اس جگہ تھا جہاں پر اب صدرٹپہ خانہ عابد روڈ سرکل پر ہے ۔ اسکے بعد مدرسہ عالیہ میں عربی فارسی کے استاد کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا ۔پھر ان کا تبادلہ نظام کالج کردیا گیا جہاں پہلے عربی اور فارسی پڑھاتے رہے پھر اردو کے پروفیسر بنادئے گئے ۔ 1912ء میں ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ تک شہزادگان آصفیہ کے اتالیق رہے پھر نظام سابع کے حکم سے 1918ء نظمؔ صاحب کو صرفِ خاص مبارک سے جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ منتقل کردیا ۔ یہاں پر ان کی تدریسی مشغولیات ختم ہوئیں اور علمی اور ادبی تحقیقات کی زندگی کا آغاز ہوا ۔ 1921ء میں وظیفہ پر علحدہ ہونے کے بعد ان کو دوبارہ ملازمت پر بلالیا گیا کیونکہ ان کے بغیر بہت سے کام رک گئے تھے۔ ملازمت کا یہ سلسلہ ان کے انتقال 1933ء تک جاری رہا ۔ سرکاری وظیفہ کے علاوہ ان کو دارالترجمہ کی خدمت اور تاریخ طبری کے اردو ترجمے پر انعام واکرام سے نوازا گیا تھا ۔ 1927ء کو انہیں سرکار نظام کی طرف سے حیدریارجنگ کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔ شاعری میں انکے شاگردوں میں سلطنت اودھ اور سلطنت آصفیہ کے شہزادگان کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دنیائے ادب میں نامور ہوئے ۔ مرزا آسمان جاہ انجم ‘ پرنس جہاں قدرنیر (داماد واجد علی شاہ )‘ عبدالحلیم شرر ‘ پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ‘ منشی فیاض الدین فیاض ؔ ‘ سید غلام مصطفےٰ ذہین ‘ سید ناظر حسین ہوش بلگرامی ‘ مہاراجہ کرشن پرشاد، نواب تراب یارجنگ سعید، حکیم محمد عابد غیور ؔ ، شہید یارجنگ شہید، اصغر یارجنگ اصغر ؔ اور میرے والد سید علی محمد اجلال ۔ یہ نسبت دیگر ماہرین زبان کے نظمؔصاحب کی شہرت یوں عام نہیں ہے ان کے رشحاتِ قلم اتنے بلند ہیں کہ ان کو پڑھنے والا اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے گھبراتا ہے اور اس لئے صرف نظر کرلیتا ہے ۔ جب نظمؔ صاحب نے دیوان غالبؔ کی شرح اعلیٰ جماعتوں میں پڑھنے والے اور ریسرچ کے طالب علموں کی مدد کے لئے لکھی تو عام ادیبوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ شرح ایسی ہے جس کیلئے ایک اور شرح کی ضرورت ہے ۔ یہ بالواسطہ اعتراف کم علمی تھا ۔ یہ نظم ؔ طباطبائی کی ہی جلالتِ علمی تھی کہ انہوں نے غالب کے ہر شعر پرنگاہ ڈالی اور اسکے محاسن اور معائب پر بے لاگ تبصرہ کیا اور جو فیصلہ انہوں نے سنادیا وہ آج تک حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ شرح عوام کے لئے نہیں لکھی گئی تھی ۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو غالب کا کلام باوجود شہرت کے جس قدر عام آدمی کے لئے ہے وہ صرف چند ہی اشعار پر مشتمل ہے ۔ غالب کے کلام کے دیگر شارحین نے نظمؔ صاحب کی شرح کو ہی پیش نظر رکھا ہے یا ان ہی کے اشارات کو تفصیل یا اجمال یا تکرار سے بیان کیا ہے ۔ اور اختلاف وہاں کیا ہے جہاں انہوں نے غالب ؔ کے خلاف لکھا ہے ۔ غالب ؔ کے بعد شاعری میں جو تجربے کئے گئے وہ موضوع کے اعتبار سے تھے جس میں ردیف ‘ قافیہ ‘ اور بحر کی ساری رائج الوقت پابندیاں سامنے رکھی گئی تھیں لیکن نظم ؔ صاحب نے یہ اجتہاد کیا کہ نظمؔ اور شعر کی ’’ہئیت ‘‘ میں نئے نئے تجربات کئے ۔ غزل ‘ مثنوی ‘ رباعی وغیرہ کی عام ہئیت سے ہٹ کر انہوں نے اردو میں اسٹینز (stanza) کو رائج کیا اور انگریزی ساخت کی نظمیں لکھیں جو ایک بالکل نئی چیز تھی ۔ انہوں نے انگریزی منظومات کے اردو منظومات میں انگریزی نہج پر ترجمے کئے اور ایک نئی بات یہ کی کہ ردیف اور قافیہ انگریزی اصولوں کی بناء پر متعین کئے ۔ نظمؔ صاحب کے بعد ہی اردو میں اسٹینزا نویسی کا آغاز ہوا ۔ نظمؔ طباطبائی کے انگریزی منظومات سے کئے گئے یوں تو بہت سے ترجمے اردو میں موجود ہیں لیکن جو مرتبہ انگلستان کے نامی شاعر طامس گرے کی ایلیجی Elegyکے ترجمہ ’’گورغریباں ‘‘ کو حاصل ہے اس درجہ کو آج تک کوئی نہ پہنچ سکا ۔ ’’گورغیرباں ‘‘ کی کامیابی کا رازیہ ہے کہ نظمؔ صاحب نے مفہوم کا ترجمہ کیا ہے اور اردو زبان کے اسلوب اور مقامی اسلوب اور مقامی ماحول کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے ۔ یہ لفظی ترجمہ نہ ہونے کے باوجود ایلیجی کی تمام خوبیاں موجود ہیں ۔ اگر اس کے لئے لفظ ترجمہ استعمال نہ کیا جائے تو یہ کلاسکی ادب اردو کی بلند پایہ منظومات میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ بقول پروفیسر سروری کے یہ ان چند ترجموں میں سے ایک ہے جو اصل سے بڑھ گئے ہیں ۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے ہیں ۔ اس ساری نظم میں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے کہ عروسِ شاعری کا حسن دمک اٹھا ہے ۔ یہ نظمؔ اس طرح شروع ہوتی ہے ۔!

    وداع روز روشن ہے گجر شام غریباں کا

    چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے

    قدم کس شوق سے گھر کی طرف اٹھتا ہے دہقاں کا

    یہ ویرانہ ہے میں ہوں اور طائر آشیانوں کے

    چونکہ یہ ایک مرثیہ کا ابتدائی بند ہے اسلئے اگر آپ اسکی لفظیات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ الفاظ وداع ،شامِ غریباں ، بے زبانی ، ویرانہ وغیرہ ایسے ہیں جو نوحہ گری کا ماحول پیدا کررہے ہیں اس کے علاوہ بحر میں بھی ایک دھیمے قسم کا سوز پایا جاتا ہے ۔ یہی تاثرات کم و بیش آخر تک موجود ہیں ۔ اس مختصر مضمون میں تحسین کی زیادہ گنجائش نہیں ہے صرف ایک بند کی طرف توجہ دلانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا بے نام،غریب اور معصوم زندگی جی کر گاؤں کے قبرستان میں دفن ہوجانے والوں کے لئے کتنی خوبصورت تشبیہیں استعمال کی گئی ہیں ۔

    بہت سے گوہر شہوار باقی رہ گئے ہونگے

    کہ جن کی خوبیاں سب مٹ گئیں تہہ میں سمندر کی

    ہزاروں پھول دشت و در میں ایسے بھی کھلے ہونگے

    کہ جن کے مسکرانے میں ہے، خوشبو مشک اذفر کی

    (ازفر۔ تیز خوشبو )

    طباطبائی کی شعری تخلیقات صرف دو ۔ دو ادین کی صورت میں ہیں ۔ ایک دیوان قصائد اور منظومات کا ہے جو ’’ نظمؔ طباطبائی ‘‘ کے نام سے موسوم ہے اور دوسرا دیوان ’’صوتِ تغزل‘‘ ہے ۔ غزلیں ساری فرمائشی ہیں یا کسی مصرعہ طرح پر ہیں ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ارادے سے کبھی کوئی غزل نہیں کہی ۔ ان کے کچھ اشعاریہ ہیں ۔

    عبث ہے آپ کی تغیر حال کا رونا

    جناب نظمؔ رہی ایک سدا کس کی

    اے صبا ! تذکرہ وطن کا نہ کر

    رہنے والے ہیں دشتِ غربت کے

    آدمی آدمی کے کام آئے

    یہی معنی ہے آدمیت کے

    تقدیر کے لکھے کو نہ ہرگز برا سمجھ

    لغزش محال ہے قلم کارساز میں

    نظمؔ صاحب دراز قد ‘ کسی قدر مٹانے کی طرف مائل جسم ‘کتابی چہرہ ‘ بھرے بھرے گال ‘ گھنی داڑھی اونچی ناک ‘ غلافی آنکھیں (مطالعہ کی کثرت کی وجہ سے آنکھوں کے پپوٹے ڈھلک گئے تھے ) اور سرخ و سفید رنگ کے مالک تھے ۔ شیر وانی زیب تن کرتے تھے ۔ کبھی ایرانی کبھی ترکی ٹوپی پہنتے تھے ۔ آصف جاہی دربار میں ان پر درباری لباس کی پابندی نہیں تھی ۔1928ء میں رفیقہ حیات کے انتقال کے بعد ان کی عام تندرستی بہت خراب ہوگئی مگر ان کی مصروفیات میں کوئی خلل نہیں آسکا چنانچہ انتقال سے دودن قبل تک وضع اصطلاحات کی مجلس میں شریک رہے ۔ 23مئی 1933ء بروز سہ شنبہ داعی اجل کو لبیک کہا ۔ باغ مرلی دھر کے عقب میں تکیہ موسیٰ شاہ قادری میں مدفون ہوئے ۔ ان کے مدفن پر جوکتبہ لگا ہے اس پر ان کا یہ شعر کندہ ہے ۔

    مل گئی قبر کی جگہ اے نظمؔ

    ہوگئی ختم عمر بھر کی تلاش

    اور اسی لوح کی دوسری طرف ’’گور غریباں ‘‘ کے آخری بنددرج ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ طامس گرے کے مزار پر بھی یہی اشعار انگریزی میں تحریر ہیں ۔ سچ ہے کہ غم ہستی کے افسانے میں ساری انسانیت شریک ہے ۔
     
  21. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ا)


    نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    مصنف مرحوم ایک خط میں خود اس مطلع کے معنی بیان کرتے ہیں کہتے ہیں ، ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا ، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے ، اُس کا پیرہن کاغذی ہے ، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے ، غرض مصنف کی یہ ہے کہ ہستی میں مبداء حقیقی سے جدائی و غیریت ہو جاتی ہے اور اس معشوق کی مفارقت ایسی شاق ہے کہ نقش تصویر تک اُس کا فریادی ہے اور پھر تصویر کی ہستی کوئی ہستی نہیں ، مگر فنا فی اللہ ہونے کی اُسے بھی آرزو ہے کہ اپنی ہستی سے نالاں ہے ، کاغذی پیرہن فریادی سے کنایہ فارسی میں بھی ہے اور اُردو میں ، میر ممنونؔ کے کلام میں اور مومنؔ خاں کے کلام میں بھی میں نے دیکھا ہے ، مگر مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے ، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا ، اس شعر میں جب تک کوئی ایسا لفظ نہ ہو جس سے فنا فی اللہ ہونے کا شوق اور ہستی اعتباری سے نفرت ظاہر ہو اس وقت تک اسے بامعنی نہیں کہہ سکتے ، کوئی جان بوجھ کر تو بے معنی کہتا نہیں یہی ہوتا ہے کہ وزن و قافیہ کی تنگی سے بعض بعض ضروری لفظوں کی گنجائش نہ ہوئی اور شاعر سمجھا کہ مطلب ادا ہو گیا تو جتنے معنی کہ شاعر کے ذہن میں رہ گئے ، اسی کو المعنی فی بطن الشاعر کہنا چاہئے ، اس شعر میں مصنف کی غرض یہ تھی کہ نقش تصویر فریادی ہے ، ہستی بے اعتبار و بے توقیر کا اور یہی سبب ہے کاغذی پیرہن ہونے کا ہستی بے اعتبار کی گنجائش نہ ہوسکی اس سبب سے کہ قافیہ مزاحم تھا اور مقصود تھا مطلع کہنا ہستی کے بدلے شوخی تحریر کہہ دیا اور اس سے کوئی قرینہ ہستی کے حذف پر نہیں پیدا ہوا آخر خود ان کے منہ پر لوگوں نے کہہ دیا کہ شعر بے معنی ہے ۔

    کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ

    صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

    کاوِ کاوِ کھودنا اور کریدنا مطلب یہ ہے کہ تنہائی و فراق میں سخت جانی کے چلتے اور دم نہ نکلنے کے ہاتھوں جیسی جیسی کاوشیں اور کاہشیں مجھ پر گذر جاتی ہیں اُسے کچھ نہ پوچھ رات کا کاٹنا اور صبح کرنا جوئے شیر کے لانے سے کم نہیں یعنی جس طرح جوئے شیر لانا فرہاد کے لئے دُشوار کام تھا

    اسی طرح صبح کرنا مجھے بہت ہی دُشوار ہے ۔ اس شعر میں شاعر نے اپنے تئیں کوہکن اور اپنی سخت جانی شب ہجر کو کوہ اور سپیدۂ صبح کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے ۔

    جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہئے

    سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

    دم کے معنی سانس اور باڑھ اور یہاں دونوں معنی تعلق و مناسبت رکھتے ہیں کہ سینۂ شمشیر کہا ہے ، مطلب یہ ہے کہ میرے اشتیاق قتل میں ایسا جذب و کشش ہے کہ تلوار کے سینہ سے اس کا دم باہر کھینچ آیا ۔

    آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے

    مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

    یعنی میری تقریر کو جس قدر جی چاہے سنو ، اُس کے مطلب کو پہنچنا محال ہے ، اگر شوق آگہی نے صیاد بن کر شنیدن کا جال بچھایا بھی تو کیا ، میری تقریر کا مطلب طائر عنقا ہے جو کبھی اسیر دام نہیں ہونے کا غرض یہ ہے کہ میرے اشعار سراسر اسرار ہیں ۔

    بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیرپا

    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    مضطرب اور بے تاب کو آتش زیرپا کہتے ہیں اور آتش جب دیرپا ہوئی تو زنجیرپا گویا موئے آتش دیدہ ہے اور یہ معلوم ہے کہ بال آگ کو دیکھ کر پیچ دار ہو جاتا ہے اور حلقۂ زنجیر کی سی ہیئت پیدا کرتا ہے ۔

    _______

    جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغِ جگر ہدیہ

    مبارکباد اسدؔ غم خوارِ جانِ دردمند آیا

    مشہور ہے کہ الماس کے کھالینے سے دل و جگر زخمی ہو جاتے ہیں تو جو شخص کہ زخم دل و جگر کا شائق ہے ، الماس اُس کے لئے ارمغاں ہے ، یہ سارا شعر مبارکبادی کا مضمون ہے ، کہتا ہے کہ ایسی ایسی نعمتیں اور ہدیے حسن و عشق نے مجھے دئیے ، وہ میرا غم خوار ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ غم خوار سے ناصح مراد ہے اور مبارکباد تشنیع کی راہ سے ہے ۔

    جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

    صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا

    یعنی ایک قیس کا نام تو صحرا نوردی میں ہو گیا ، اس کے سوا کسی اور کی بہتری صحرائے حاسدِ چشم سے نہ دیکھی گئی ، گویا کہ صحرا باوجود وسعتِ چشم حاسد کی سی تنگی رکھتا ہے ، مگر یہاں شاید کے معنی رکھتا ہے ۔

    آشفتگی نے نقش سویدا کیا دُرست

    ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

    داغ سویدائے دل سے ہمیشہ دود آہ اُٹھ اُٹھ کر پھیلا کرتا ہے ، اس سے ظاہر ہوا کہ سویدائے دل کی حلقت آشفتگی سے ہے ، معنوی تعقید اس شعر میں یہ ہو گئی ہے کہ پریشانی کی جگہ آشفتگی کہہ گئے ہیں ، غرض یہ تھی کہ سویدائے دل سے دود پریشان اُٹھا کرتا ہے اور اس کا سرمایہ و حاصل جو کچھ ہے یہی دود آہ ہے جو ایک پریشان چیز ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ نقش سویدا خدا نے محض پریشانی ہی سے بنایا ہے اور یہ داغ دود آہ سے پیدا ہوا ہے ، جبھی تو اس سے ہمیشہ دُھواں اُٹھا کرتا ہے ۔

    تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

    جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

    یعنی زمانہ عیش اس طرح گذر گیا جیسے خواب دیکھا تھا ، نہ اب لطفِ وصل ہے ، نہ صدمۂ ہجر کا مزہ ہے ، یوں سمجھو کہ مصنف نے گویا اس شعر کو یوں کہا ہے : ’’ زمانہ عیش نہ تھا بلکہ تھا خواب میں خیال کو الخ ‘‘ ۔

    پڑھتا ہوں مکتبِ غم دل میں سبق ہنوز

    لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

    غم وہ کیفیتِ نفسانی ہے جو مطلوب کے فوت ہو جانے سے پیدا ہو ، مطلب یہ ہے کہ مکتبِ غم میں میرا سبق یہ ہے کہ رفت گیا اور بود تھا ، یعنی زمانہ عیش کبھی تھا اور اب جاتا رہا ۔

    ڈھانپا کفن نے داغِ عیوب برہنگی

    میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

    یعنی مرجانے ہی سے عیبِ برہنگی مٹا نہیں تو ہر لباس میں میں ننگِ ہستی و وجود تھا ، ننگِ وجود ہونے کو برہنگی سے تعبیر کیا ہے ، فقط لفظ کا متشابہ مصنف کے ذہن کو اُدھر لے گیا۔

    تیشہ بغیر مر نہ سکا کوہ کن اسدؔ

    سرگشتۂ خمار رسوم و قیود تھا

    کوہ کن پر طعن ہے کہ رسم و راہ کی پابندی جو دیوانگی و آزادی کے خلاف ہے ، اس قدر اس کو تھی کہ جب تیشہ سے سر پھوڑا تو کہیں مرا ، اگر نشہ عشق کامل ہوتا تو بغیر سر پھوڑے مرگیا ہوتا ، خمارِ نشہ اُترنے سے جو بے کیفیتی اور بے مزگی ہوتی ہے ، اُسے کہتے ہیں رسوم و قیود کو بے مزہ و بے لطف ظاہر کرنے کے لئے اُسے خمار سے تشبیہ دی ہے ۔

    _______

    کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا

    دل کہاں کہ گم کیجئے ہم نے مدعا پایا

    یعنی تمہاری چتون یہ کہہ رہی ہے کہ تیرا دل کہیں پڑا پائیں گے تو پھر ہم نہ دیں گے ، یہاں دل ہی نہیں ہے جسے ہم کھوئیں اور تمہیں پڑا ہوا مل جائے ، مگر اس لگاوٹ سے ہم سمجھ گئے دل تمہارے ہی پاس ہے ۔

    عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا

    درد کی دوا پائی درد بے دوا پایا

    یعنی زیست میرے لئے ایک درد تھی کہ عشق اُس کی دوا ہو گیا اور خود وہ درد بے دوا ہے ۔

    دوست دارِ دُشمن ہے اعتماد دل معلوم

    آہ بے اثر دیکھی نالہ نارسا پایا

    یعنی آہ میں اثر نہیں ، نالہ میں رسائی نہیں ، دل پر بھروسہ نہیں کہ وہ دُشمن کا دوست ہے ۔

    سادگی و پرکاری بے خودی و ہوشیاری

    حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

    یعنی حسینوں کا تغافل کرنا اور عشاق کے حال سے بے خبر بننا یہ فقط عشاق کا دل دیکھنے کے لئے اور جرأت آزمانے کے واسطے ہے ، اصل میں پرکاری و ہوشیاری ہے اور ظاہر میں سادگی و بے خبری ہے ۔

    غنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنا دل

    خوں کیا ہوا دیکھا گم کیا ہوا پایا

    ایک عاشق بے دل غنچہ پر یہ گمان کرتا ہے کہ یہی میرا دل ہے جو مدت سے کھویا ہوا تھا ۔

    حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی

    ہم نے بارہا ڈھونڈا تم نے بارہا پایا

    ڈھونڈا اور پایا کا مفعول بہ دل ہے ۔

    شورپند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

    آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

    ’ آپ ‘ کا اشارہ ناصح کی طرف ہے اور اس میں تعظیم نکلتی ہے اور مقصود تشنیع ہے اور مزہ اور شور نمک کے مناسبات میں سے ہیں ، مصنف نے ’ مزہ ‘ کو قافیہ کیا اور ہائے مختفی کو الف سے بدلا ، اُردو کہنے والے اس طرح کے قافیہ کو جائز سمجھتے ہیں ، وجہ یہ ہے کہ قافیہ میں حروفِ ملفوظہ کا اعتبار ہے ، جب یہ ’ہ ‘ ملفوظہ نہیں بلکہ ’ ز ‘ کے اشباع سے الف پیدا ہوتا ہے تو پھر کون مانع ہے اُسے حرف روی قرار دینے سے ، اسی طرح سے فوراً اور دُشمن قافیہ ہو جاتا ہے ، گو رسم خط اس کے خلاف ہے ، لیکن فارسی والے مزہ اور دوا کا قافیہ نہیں کرتے اور وجہ اُس کی یہ ہے کہ وہ ہائے مختفی کو کبھی حرف روی ہونے کے قابل نہیں جانتے ۔

    _______

    دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا

    آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا

    یعنی چپکے چپکے کس طرح جلا کیا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی ، ’ گویا ‘ کا لفظ خاموش کی مناسبت سے ہے ، ’ مانند ‘ کا لفظ بول چال میں نہیں ہے ، مگر شعراء نظم کیا کرتے ہیں ۔

    دل میں ذوقِ وصل و یاد یار تک باقی نہیں

    آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

    یعنی رشک کی آگ ایسی تھی کہ معشوق کو دل سے بھلادیا اور اس کا غیر سے ملنا دیکھ کر ذوقِ وصل جاتا رہا ۔ گھر سے دل مراد ہے اور آگ سے رشکِ رقیب ۔

    میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا

    میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

    مصنف کی غرض یہ ہے کہ میری نیستی و فنا یہاں تک پہنچی کہ اب میں عدم میں بھی نہیں ہوں اور اس سے آگے نکل گیا ہوں ، ورنہ جب تک میں عدم میں تھا ، جب تک میری آہ سے عنقا کا شہپر اکثر جل گیا ہے ، عنقا ایک طائر معدوم کو کہتے ہیں اور جب وہ معدوم ہوا تو وہ بھی عدم میں ہوا اور ایک ہی میدان میں آہِ آتشیں و بالِ عنقا کا اجتماع ہوا ، اسی سبب سے آہ سے شہپر عنقا جل گیا ، لیکن مصنف کا یہ کہنا کہ میں عدم سے بھی باہر ہوں ، اس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ میں نہ موجود ہوں ، نہ معدوم ہوں اور نقیضین مجھ سے مرتفع ہیں ، شاید ایسے ہی اشعار پر دلی میں لوگ کہا کرتے تھے کہ غالب شعر بے معنی کہا کرتے ہیں اور اُس کے جواب میں مصنف نے یہ شعر کہا ؂

    نہ ستائش کی تمنا نہ صلہ کی پرواہ

    گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

    پرے کا لفظ اب متروک ہے ، لکھنؤ میں ناسخؔ کے زمانہ سے روزمرہ میں عوام الناس کے بھی نہیں ہے ، لیکن دلی میں ابھی تک بولا جاتا ہے اور نظم میں بھی لاتے ہیں ، میں نے اس امر میں نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے تحقیق چاہی تھی ، اُنھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ لوگوں کی خاطر سے ( یعنی لکھنؤ والوں کی خاطر سے ) اس لفظ کو چھوڑ دیا ، مگر یہ کہا کہ مومنؔ خاں صاحب کے اس شعر میں ؂

    چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منھ

    اے شبِ ہجر تیرا کالا منھ

    اگر پرے کی جگہ اُدھر کہیں تو برا معلوم ہوتا ہے ، میں نے کہا کہ ’ پرے ہٹ ‘ بندھا ہوا محاورہ ہے ، اس میں ’ پرے ‘ کی جگہ ‘ اُدھر ‘ کہنا محاورہ میں تصرف کرنا ہے ، اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ پہلے جس محل پر ’ چل پرے ہٹ ‘ بولتے تھے اب اُسی محل پر دور بھی محاورہ ہو گیا ہے ، اس توجیہ کو پسند کیا اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کی نشست کو غور سے دیکھا : ’ دور بھی ہو مجھے نہ دکھلا منھ ‘ اور تحسین کی ۔

    عرض کیجئے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں

    کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

    یعنی یہ کہاں ممکن ہے کہ اپنی طبیعت کی گرمی ظاہر کرسکوں فقط دشت نوردی کا ذرا خیال کیا کہ صحرا میں آگ لگ اُٹھی اور یہ مبالغہ غیر علوی ہے کہ طبیعت میں ایسی گرمی ہو کہ جس چیز کا خیال آئے وہ چیز جل جائے عرض کو لوگ جوہر کے ضلع کا لفظ سمجھتے ہیں حالاں کہ جوہر کے مناسبات میں سے عرض بہ تحریک ہے نہ بہ سکون ۔

    دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار

    اس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا

    دل کو کارفرما بنایا ہے اور داغوں کو چراغاں لفظ چراغاں کو چراغ کی جمع نہ سمجھنا چاہئے ۔

    میں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب ؔکہ دل

    دیکھ کر طرزِ تپاک اہل دُنیا جل گیا

    طرزِ تپاک سے تپاک ظاہری و نفاق باطنی مراد ہے اور افسردگی اور جلنا اس کے مناسبات سے ہیں ۔

    شوق ، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا

    قیس تصویر کے پردہ میں بھی عریاں نکلا

    یعنی مجنوں کی تصویر بھی کھنچتی ہے تو ننگی ہی کھنچتی ہے ، اس حال میں بھی عشق دُشمن سر و سامان ہے ، شوق سے مراد عشق ہے ، ہر رنگ کے معنی ہر حال میں اور ہر طرح سے اگر یوں کہتے کہ شوق ہر طرح رقیب سر و ساماں نکلا جب بھی مصرع موزوں تھا ، لیکن تصویر کے مناسبات میں سے رنگ کو سمجھ کر ہر رنگ کہا اور ہر طرح و بے طرح کو ترک کیا ، مناسبات کے لئے محاورہ کا لفظ چھوڑ دینا اچھا نہیں اور رقیب کے معنی دُشمن کے لئے ہیں ۔

    زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی یارب

    تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا

    یعنی زخم دل نے بھی کچھ تنگی دل کی تدبیر نہ کی اور زخم سے بھی دلِ تنگی کی شکایت دفع نہ ہوئی کہ وہی تیر جس سے زخم لگا وہ میری تنگیٔدل سے ایسا سراسیمہ ہوا کہ پھڑکتا ہوا نکلا تیر کے پر ہوتے ہیں اور اُڑتا ہے ، اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِ مرغ ہے ، تیر کے لئے بہت مناسب ہے ، مصنف مرحوم لکھتے ہیں یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے ، جیسا کہ اس شعر میں ؂

    نہیں ذریعۂ راحت جراحت پیکاں

    وہ زخم تیغ ہے جس کو دل کشا کہئے

    یعنی زخم تیر کی توہین بسبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بسبب ایک طاق سا کھل جانے کے ۔

    بوئے گل نالۂ دل دودِ چراغِ محفل

    جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

    یعنی تیری بزم سے نکلنا پریشانی کا باعث ہے ، پہلے مصرع میں سے فعل اور حرفِ تردید محذوف ہے ، یعنی پھولوں کی مہک ہو یا شمعوں کا دُھواں ہو یا عشاق کی فغاں ہو ۔

    دل حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد

    کام یاروں کا بقدرِ لب و دنداں نکلا

    یعنی جس میں جتنی قابلیت تھی اُس نے اُسی قدر مجھ سے لذتِ درد کو حاصل کیا ، ورنہ یہاں کچھ کمی نہ تھی ، کام کا لفظ لب و دنداں کے ضلع کاہے ۔

    تھی نو آموز فنا ہمت دُشوار پسند

    سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

    اے ہمت تو باوجود یہ کہ ابھی نو آموز فنا ہے ، کس آسانی سے مرحلۂ فنا کو طے کرگئی ، ہمت کو دُشوار پسند کہہ کر یہ مطلب ظاہر کرنا منظور ہے کہ میری ہمت خوف و خطر میں مبتلا ہونے کو لذت سمجھتی ہے یہ کام اشارہ ہے فنا کی طرف یعنی ہم جانتے تھے کہ جان دینا بہت مشکل کام ہے مگر افسوس ہے کہ وہ بھی آساں نکلا ۔

    دل میں پھر گریہ نے اک شور اُٹھایا غالبؔ

    آہ ! جو قطرہ نہ نکلا ، تھا سو طوفاں نکلا

    یعنی جس گریہ پر میرا ضبط ایسا غالب تھا کہ میں اُسے قطرہ سے کم سمجھتا تھا ، اب وہ طوفان بن کر مجھ پر غالب ہو گیا ۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ آنسو کا جو قطرہ کہ آنکھ سے نکلا نہ تھا وہ اب طوفان ہو گیا ۔

    _______

    دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا

    عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا

    باب نبرد یعنی لائق نبرد مطلب یہ ہے کہ جو شخص مرد میدانِ عشق نہ تھا وہ اس کی دھمکی ہی میں مرگیا ، میر ممنون ؔ کے کلام میں باب ان معنی پر بہت جگہ آیا ہے ۔

    تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا

    اُڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا

    یعنی رنگ میرا جب نہیں اُڑا تھا جب بھی زرد تھا ، ورنہ مرنے کے وقت تو سبھی کا رنگ اُڑکر زرد ہو جاتا ہے اور مردنی چہرہ پر پھر جاتی ہے ، یعنی اُڑنے سے مرنے کے وقت اُڑنا رنگ کا مقصود ہے

    تالیف نسخہائے وفا کررہا تھا میں

    مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

    یعنی فن عشق میں مجھے اور بھی مرتبۂ تصنیف حاصل ہوچکا تھا ، میرے عقل و ہوش کا مجموعہ تک فرد فرد غیر مرتب ہورہا تھا یعنی ناتجربہ کاری کا زمانہ تھا ۔

    دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے آب

    اس رہ گذر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا

    یعنی میرے دل سے لے کر جگر تک اب تو ایک دریائے خون ہے آگے اسی رہ گذر میں وہ بہاریں تھیں کہ جلوۂ گل جس کے آگے گرد ہوا جاتا تھا ، یعنی کسی زمانہ میں ہم بھی دلِ شگفتہ و رنگین رکھتے تھے اور اب خاطر افسردہ و غمگین رکھتے ہیں ۔

    جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی

    دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا

    یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی طرح اندوہِ عشق کم ہو جائے ، دل بھی جاتا رہا ، جب بھی اسی طرح دردِ دل باقی رہا ، وہی کے معنی ، اسی طرح دوسرا پہلو یہ ہے کہ دل کا جانا خود ہی دردِ دل ہے ۔

    احباب چارہ سازی وحشت نہ کرسکے

    زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا

    یعنی میں زنداں میں بند تھا ، مگر میرا خیال بیاباں میں تھا ، کچھ قید سے چارہ سازی ، وحشت نہ ہوئی ۔

    یہ لاش بے کفن اسد ؔ خستہ جاں کی ہے

    حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

    یعنی عجب آزاد تھا کہ لاش بے کفن ہے ۔

    _______

    شمار سبحہ مرغوب بتِ مشکل پسند آیا

    تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا

    مرغوب آیا ، یعنی مرغوب ہوا ، مشکل پسند بت کی صفت ہے محض قافیہ کے لئے حاصل اس شعر کا یہ ہے کہ اُسے ایک ہتھے میں سو سو دل عاشقوں کے لے لینا پسند ہے ، پھر اس سو دل کی ایک تسبیح بھی مصنف نے بنائی ہے اور کہتے ہیں کہ گویا اُسے تسبیح کا شمار بہت مرغوب ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ مصنف نے بیک کف بردن صد دل میں حساب عقد انامل کی طرف اشارہ کیا ہے اور عقدِ صد کی یہ شکل ہے کہ چھنگلیا کی سر کو انگوٹھے کی جڑ میں لگاکر انگوٹھا سارا اُس کی پشت پر جمادیتے ہیں ، عرب میں اس حساب کا رواج تھا ، رسولِ خدا انے جس حدیث میں فتنۂ چنگیز و ہلاکو و تیمور وغیرہ کی زینب بنت جحش ؓسے پیشین گوئی کی ہے ، اس میں ذکر ہے : حضرت ایک دن ڈرے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا : ’’ لا الہ الا اﷲ ویل للعرب من شرقد اقترب فتح الیوم من روم ، یاجوج وماجوج مثل ہذہ ‘‘ یہ کہہ کر آپ نے کلمہ کی اُنگلی کو انگوٹھے سے ملاکر حلقہ بنایا ذہیب اور سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو روایت کرکے عقدِ تسعین کی شکل دونوں اُنگلیوں سے بنائی ، یعنی کلمہ کی اُنگلی کا سر انگوٹھے کی جڑ میں سے لگاکر انگوٹھے کو اس کی پشت پر جمادیا ، فتنۂ تاتار سے کئی سو برس پیشتر کی کتابوں میں بخاری وغیرہ کی یہ حدیث موجود ہے ، خوارزم شاہ نے جب دیوارِ ترکستان کو کھدوا ڈالا جب ہی سے چنگیز و ہلاکو و تیمور کو ملی اور سلطنت عرب کو تباہ کرڈالا ، اُس زمانہ میں شاہ خوارزم قطب الدین سلجوقی تھے ۔

    بفیض بے دلی نومیدی جاوید آساں ہے

    کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا

    یعنی دُنیا کی طرف سے جو بے دلی و بے دماغی ہم کو ہے اس کی بدولت صدمہ نومیدی و یاس کا اُٹھا لینا ہم کو سہل ہے ، ہمیں دُنیا پر خود رغبت نہیں ہے ، کشود کار کی اُمید ہو تو کیا اور نا اُمیدی ہو جائے تو کیا ۔ یہ پہلے مصرع کے معنی ہوئے اور دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا عقدۂ مشکل کشائش کو پسند آگیا ، یعنی اب کبھی اس کی کشائش نہ ہو گی ، اس سبب سے کہ کشائش کو اس کا عقدہ ہی رہنا پسند ہے اور پسند اس سبب سے ہے کہ ہمیں پرواہ نہیں ، پھر ایسی بے نیازی کشائش کو کیوں نہ پسند آئے ۔

    ہوائے سیر گل آئینۂ بے مہری قاتل

    کہ اندازِ بخوں غلطیدن بسمل پسند آیا

    یعنی اسے تماشائے گل کی خواہش ہونا اُس کی بے مہری کا آئینہ ہے اور اس کی جفاجوئی کی دلیل ہے ، اس وجہ سے کہ گل میں بسمل بخوں غلطیدہ کا انداز ہے ، پہلے مصرع میں سے فعل محذوف ہے ۔

    _______

    دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا

    ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

    یعنی لوگ جو دُنیا میں وفا کرتے ہیں ، اس کے معنی یہی ہیں کہ تسلی چاہتے ہیں ، جب وفا کرکے تسلی نہ ہوئی تو فقط وفا بے معنی و مہمل رہ گیا ، حاصل یہ کہ وفاداریٔ عشاق بے معنی بات ہے ۔

    سبزۂ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا

    یہ زمرد بھی حریفِ دم افعی نہ ہوا

    مشہور ہے کہ زمرد کے سامنے سانپ اندھا ہو جاتا ہے ، مگر تیرا سبزۂ خط کیا زمرد ہے کہ افعی زلف پر اس کا اثر نہ ہوا ، یعنی خط نکل آنے کے بعد بھی زلف کی دل فریبی میں فرق نہیں آیا ۔

    میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں

    وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

    یعنی مر کے غم سے پیچھا چھڑانا چاہا تو اس نے رسوائی و بدنامی کے اندیشہ سے اسے بھی گوارا نہ کیا ، معنوی خوبیاں اس شعر میں بہت سی ہیں ، کثرتِ اندوہ علاج میں درماندگی اس پر بھی دل آزاری و جفاکاریٔ معشوق ، پھر اس حالت میں بھی اسی کی مرضی پر رہنا ۔

    دل گذرگاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی

    گر نفس جادۂ سرمنزل تقوی نہ ہوا

    تار اور رشتہ اور خط اور جادۂ نفس کے تشبیہات میں سے ہیں ، غرض شاعر کی یہ ہے کہ اگر تقویٰ نہ حاصل ہوا تو رندی ہی سہی ، قافیہ تقویٰ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمہ میں ہی دیکھتے ہیں اُس کو کبھی ’ الف ‘ اور کبھی ’ ی ‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں ۔ ’’ تمنی و تمنا ، تجلی و تجلیٰ وتسلی و تسلیٰ و ہیولی و ہیولیٰ و دینی و دُنیا ‘‘ بکثرت اُن کے کلام میں موجود ہے ۔

    _______

    ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں بھی راضی کہ کبھی

    گوش منت کش گل بانگ تسلی نہ ہوا

    یعنی اگر تو وعدۂ وصل کرتا تو جب بھی میں خوش تھا ، اس وجہ سے کہ وہ عین مقصود ہے اور تو نے وعدہ نہیں کیا تو اس پر بھی میں خوش ہوں کہ احسان سے بچا اور اُس احسان سے جو کبھی نہیں اُٹھایا تھا ۔

    کس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجئے

    ہم نے چاہا تھا کہ مرجائیں سو وہ بھی نہ ہوا

    یعنی آخری خواہش میں نے یہ کی تھی کہ موت ہی آجائے اُس سے بھی محروم رہا ۔

    مرگیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالبؔ

    ناتوانی سے حریف دمِ عیسیٰ نہ ہوا

    اس شعر میں معنی کی نزاکت یہ ہے کہ شاعر حرکتِ لبِ عیسیٰ کو صدائے عیسیٰ کی حرکت سے مقدم سمجھتا ہے ، کہتا ہے کہ میں پہلے حرکتِ لب ہی کے اوجھڑ سے مرگیا اور حریفِ دمِ عیسیٰ نہ ہوا ، یعنی دمِ عیسیٰ سے معاملہ نہ پڑا اور ناتوانی کے سبب سے صدائے عیسیٰ کے سننے کی نوبت ہی نہ آنے پائی ۔

    _______

    ستائش گر ہے زائد اس قدر جس باغ رضواں کا

    وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

    کسی شئے کو طاق پر رکھنا یا بالائے طاق رکھ دینا محاورہ ہے اس کا خیال ترک کر دینے کے معنی پر اور طاق نسیاں پر رکھنا اور بھی زیادہ مبالغہ ہے اور یہاں گلدستہ کی لفظ نے یہ حسن پیدا کیا ہے کہ گلدستہ کو زینت کے لئے طاق پر رکھا کرتے ہیں ، دوسرے یہ کہ باغ کو مقام تحقیر گلدستہ سے تعبیر کیا ہے ، یہ بھی حسن سے خالی نہیں لیکن یہ حسن بیان و بدیع سے تعلق رکھتا ہے ، معنوی خوبی نہیں ہے ۔

    بیاں کیا کیجئے بیداد کاوشہائے مژگاں کا

    کہ ہر اک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

    یعنی سوزن مژگاں نے ایسی کاوشیں کیں کہ میرے جسم میں ہر ایک قطرۂ خوں تسبیح مرجان کا دانہ بن گیا ہے یعنی ہر قطرۂ خون سوراخ پڑگیا ۔

    نہ آئی سطوت قاتل بھی مانع میرے نالوں کو

    لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا

    دستور ہے کہ کسی کے رعب و سطوت کے اظہار کرنے کے لئے جو مرعوب ہو جاتا ہے وہ اپنے دانتوں میں گھانس پھونس اُٹھاکر دبالیتا ہے تاکہ وہ شخص اسے اپنا مطیع و مغلوب سمجھے اور قصدِ قتل سے باز آئے ، شاعر کہتا ہے کہ قاتل کے رعب و سطوت سے بھی میری نالہ کشی نہ موقوف ہوئی میں نے جو تنکا اظہارِ رعب کے لئے دانتوں میں دبایا وہ ریشہ نیستاں ہو گیا اور یہ ظاہر ہے کہ نیستاں میں نے پیدا ہوتی ہے اور نے صاحبِ نالہ ہے غرض کہ وہ تنکا نالہ کشی کی جڑ ہو گیا ۔

    دکھاؤں گا تماشا ، دی اگر فرصت زمانے نے

    مرا ہر داغِ دل ایک تخم ہے سروِ چراغاں کا

    یعنی ایک ایک داغ سے نالۂ پرشرر نکلے گا جو سرو چراغاں سے مشابہ ہو گا تو گویا داغ دل وہ بیج ہے جس سے سروِ چراغاں اُگے گا ۔

    کیا آئینہ خانہ کا وہ نقشہ تیرے جلوہ نے

    کرے جو پرتوِ خورشید عالم شبنم ستاں کا

    یعنی جس طرح آفتاب کے سامنے شبنم نہیں ٹھہرسکتی اُسی طرح تیرے مقابلہ کی تاب آئینہ نہیں لاسکتا آئینہ خانہ کی تشبیہ شبنم ستاں سے تشبیہ مرکب ہے ۔

    مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

    ہیولیٰ برق خرمن کاہے خون گرم دہقاں کا

    یعنی میں وہ دہقان ہوں جس کی سرگرمی خود اُسی کے خرمن کے لئے برق کا کام کرتی ہے یعنی خرمن کو جلا ڈالتی ہے ۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حرارت غریزی جو کہ باعثِ حیات ہے خود وہی ہر وقت تحلیل و فنا بھی کررہی ہے ۔ ہیولیٰ بمعنی مادہ اور مصنف نے صورت کی لفظ ہیولیٰ مناسبت سے استعمال کی ہے اور تعمیر سے تعمیر جسم خاکی مقصود ہے خون گرم بھنی ہوئی سرگرمی ۔ اس شعر میں جو مسئلہ طب مصنف نے نظم کیا ہے اُسے آگے بھی کئی جگہ باندھا ہے ۔

    اُگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ ویرانی تماشا کر

    مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا

    سبزہ سے مراد سبزۂ بیگانہ ہے اس سبب سے کہ جو سبزہ بے موقع اُگتا ہے اُسے سبزۂ بیگانہ کہتے ہیں اور گھر میں سبزہ کا اُگنا بے موقع ہے تو مراد مصنف کی یہ ہے کہ ویرانی کی نوبت یہ پہنچی ہے کہ سبزۂ بیگانہ میرے گھر میں اُگا ہے اور دربان کا کام ہے کہ بیگانہ کو گھر کے اندر سے نکال دے ، تماشا کر یعنی یہ سیر دیکھ ۔

    خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں

    چراغِ مردہ ہوں میں بے زباں گورِ غریباں کا

    خاموش آدمی کو بے زبان کہتے ہیں اور چراغ کی لو کو زبان سے تشبیہ دیتے ہیں تو بجھے ہوئے چراغ کو بے زبان آدمی کے ساتھ مشابہت ہے اور اسی طرح سے خوں گشتہ آرزوؤں کو گورِ غریباں سے مشابہت ہے ۔

    ہنوز اک پرتوِ نقشِ خیالِ یار باقی ہے

    دل افسردہ گویا حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

    ہنوز کی لفظ سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ خیال بھلانے پر بھی کچھ پرتو اس کا باقی رہ گیا ہے اور اس پرتو میں بھی یہ نور ہے کہ دل پر حجرۂ زندان یوسف کا عالم ہے اور اس شعر میں لفظ افسردہ سے دل کا حجرہ ہونا ظاہر ہوا اور خیال یار کے بھلانے کا سبب بھی اسی لفظ سے پیدا ہے یعنی جب دل افسردہ ہوا تو پھر خیالِ یار کیسا اور افسردگی کو تنگی لازم ہے ، اس سبب سے حجرہ اُسے کہا کہ تنگ کوٹھری کا نام حجرہ ہے ۔

    بغل میں غیر کے آج آپ سوتے ہیں کہیں ورنہ

    سبب کیا خواب میں آ کر تبسم ہائے پنہاں کا

    مصنف کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ رقیب کی بغل میں جو چپکے چپکے تو ہنس رہا ہے مجھے وہ ہنسی خواب میں دکھائی دے رہی ہے اور اُسی ہنسی کا اندازہ دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس انداز کی ہنسی وصل ہی کے وقت ہوتی ہے ورنہ تو میرے خواب میں آ کر میرے ساتھ تبسم پنہاں کرے میرے ایسے نصیب کہاں ۔

    نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا

    قیامت ہے سر شک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

    لہو پانی ایک ہونا رونے کے معنی پر ہے یعنی تیری آنکھ میں آنسو دیکھنے کی تاب کس کو ہے اور اشارہ اس بات کی طرف بھی کیا ہے کہ مژگانِ معشوق جو ہمیشہ دل و جگر عشاق میں کھٹکا کرتی ہے اُس کا آنسو وہی آنسو ہیں جو عشاق کے دل میں پیدا ہوکر آنکھوں کی طرف جایا چاہتے تھے یعنی تیری پلکوں پر جو آنسو ہیں وہ تیرے دل سے نکلے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ آنسو وہی ہیں جو عشاق کے دل و جگر میں پیدا ہوئے تھے اور تیری مژہ پر آنسو ہونا اس کی علامت ہے کہ عشاق کا لہو پانی ایک ہو گیا ۔

    نظر میں ہے ہماری جادۂ راہ فنا غالبؔ

    کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

    یعنی جس رشتۂ فنا میں تمام اوراقِ عالم سئے ہوئے ہیں اُن سے بھولا ہوا نہیں ہوں یعنی فنا ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے ہے ۔

    _______

    نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

    حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

    ذوق سے صحرا نوردی مراد ہے اور رفتار کو موج اور نقش قدم کو حباب کے ساتھ تشبیہ دینے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح موج کا ذوق روانی کبھی کم نہیں ہوتا اسی طرح میرا بھی ذوق کم نہیں ہو گا ، ایک بیابانِ ماندگی خواہ صد بیابانِ ماندگی کہو مراد ایک ہی ہے یعنی ماندگی مصرع ایک بیابان کہہ کر ماندگی کی مقدار بیان کی ہے گویا بیابان کو پیمانہ اُس کا فرض کیا ہے ۔

    محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

    کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

    بوئے گل دم کھنچنے کے ساتھ ناک میں آتی ہے تو یہ کہنا کہ بوئے گل سے ناک میں دم آتا ہے بیجا نہیں اور ناک میں دم آنا بیزار ہونے کے معنی پر ہے ، یہاں دوسرے معنی مقصود ہیں اور پہلے معنی کی طرف ابہام کیا ہے ۔

    _______

    سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی

    عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کیا

    اس شعر میں عشق کو برق اور ہستی و خرمن سے تشبیہ دی ہے کہتے ہیں رہن عشق بھی ہوں اور جان بھی عزیز ہے میری دہائی ہے جیسے کوئی آتش پرست برق کی پرستش بھی کرے اور خرمن کے جل جانے کا افسوس بھی کرے ، پہلے مصرع میں فعل ’ ہوں ‘ محذوف ہے حاصل کے معنی خرمن ۔ ناگزیر اُلفتِ ہستی ہوں یعنی جان کو عزیز رکھنے پر مجبور ہوں جس طرح یہ کہتے ہیں کہ فلاں امر ناگزیر ہے یعنی ضرور ہے اسی طرح فارسی میں یوں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص ارفلانِ ناگزیر است ۔

    بقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھی

    جو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا

    ساحل کی تشنگی مشہور ہے اور اس کا کج دوا کج ہونا خمیازہ کی صورت پیدا کرتا ہے اور خمیازہ خمار کی علامت ہے مطلب یہ ہے کہ شراب پلانے میں جس قدر تیرا حوصلہ بڑھا ہوا ہے پینے میں اُسی قدر میرا ظرف بڑھا ہوا ہے ۔

    _______

    محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا

    یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا

    یعنی جس چیز کو تو عالم حقیقت کا حجاب سمجھتا ہے وہ رباب کا ایک پردہ ہے جس سے نغمہ ہائے رازِ حقیقت بلند ہیں مگر اس کے تال سر سے تو خود ہی واقف نہیں لطف نہیں اُٹھاسکتا ۔

    رنگ شکستہ صبح بہارِ نظارہ ہے

    یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا

    یعنی نظارہ اُس کا موسم بہار ہے اور نظارہ سے اُس کے میرا رنگ اُڑ جانا طلوع صبح بہار ہے اور طلوع صبح بہار پھولوں کے کھلنے کا وقت ہوتا ہے غرض یہ ہے کہ بروقت نظارہ میرے منہ پر ہوائیاں اُڑتے ہوئے اور مہتاب چھٹتے ہوئے دیکھ کر وہ سرگرم ناز ہو گا یعنی میرا رنگ اُڑ جانا وہ صبح ہے جس میں گل ہائے ناز شگفتہ ہوں گے ۔

    تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز

    میں اور دُکھ ترے مژہ ہائے دراز کا

    اس شعر میں ’ ہائے ‘ یا تو علامت جمع و اضافت ہے یا کلمۂ تاسف ہے ، دونوں صورتیں صحیح ہیں ۔

    صرفہ ہے ضبط آہ میں میرا وگرنہ میں

    طعمہ ہوں ایک ہی نفس جاں گداز کا

    اس شعر میں اپنی ناتوانی و نقاہت اور اپنی آہ کی شدت و حدت کا بیان مقصود ہے یعنی اگر ضبط کروں تو ایک ہی آہ میں تحلیل ہوکر فنا ہو جاؤں ۔

    ہیں بسکہ جوش بادہ سے شیشے اُچھل رہے

    ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا

    شیشہ باز مرد شعبدہ باز کو کہتے ہیں جو کہ شعبدہ دکھاتے وقت ہاتھوں کو اور سر کو ہلاتا ہے اور بساط سے وہ فرش مراد ہے جس کے گوشوں پر شراب کے شیشے چنے ہوئے ہیں ۔

    کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز

    ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا

    یعنی دل میرا جو کہ تنگی و گرفتگی سے گرہ ہو کے رہ گیا ناخن غم سے کاوش کا تقاضا کرتا ہے جیسے کوئی اپنا قرض مانگتا ہے اور نیم باز کے لفظ سے یہ ظاہر ہے کہ کاوش غم پہلے بھی ہوئی مگر ناتمام ہوئی ۔

    تاراج کاوشِ غم ہجراں ہوا اسدؔ

    سینہ کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا

    یعنی اے اسدؔ افسوس دفینہ راز کو غم نے کھودکر نکالا اور تاراج کیا ، حاصل یہ کہ غم نے رُسوا کیا ۔

    _______

    بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا

    رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا

    اس شعر میں یہ اشارہ ہے کہ بزم شاہی میں جو گنجینۂ گوہر ہے تو فقط اسی سبب سے ہے کہ میرے اشعار کا دفتر وہاں کھلا ہے اور یہ دُعا ہے کہ الٰہی در کو کھلا رکھ ، اس کے معنی یہ ہیں کہ آباد رکھ اور اس کا فیض جاری رکھ ۔

    شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا

    اس تکلف سے کہ گویا بت کدئے کا در کھلا

    فقط تاروں کے کھلنے کا سماں دکھایا ہے یہ شعر غزل کا نہیں بلکہ قصیدہ کی تشبیب کاہے غالباً اور شعر اس کے ساتھ ہوں گے جو انتخاب کے وقت نکال ڈالے گئے ۔

    گرچہ ہوں دیوانہ پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب

    آستیں میں دشنہ پنہاں ہاتھ میں نشتر کھلا

    یعنی دُنیا کی دوستی ایسی ہے کہ ظاہر و باطن یکساں نہیں ہاتھ میں نشتر کھلا ہوا ہونا اظہارِ غم خواری کے لئے ہے یعنی فصد و علاج کا قصد ظاہر کرتا ہے اور آستین میں دشنہ چھپائے ہوئے ہیں یعنی چھریاں مارنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

    گو نہ سمجھوں اُس کی باتیں گو نہ پاؤں اُس کا بھید

    پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

    اس شعر میں ’ کھلنا ‘ بے تکلف ہوکر باتیں کرنے کے معنی پر ہے ۔

    ہے خیال حسن میں حسن عمل کا سا خیال

    خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

    ’ خیالِ حسن ‘ یعنی تصور چہرۂ معشوق سے قبر میں باغ بہشت دکھائی دے رہا ہے اس لئے کہ اُس کے چہرہ میں باغ کی سی رنگینی ہے تو گویا کہ تصور حسن اور حسن اعمال کا ایک ہی ثمرہ ہے ۔

    منہ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں

    زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منہ پر کھلا

    اس شعر میں ’ کھلنا ‘ زیب دینے کے معنی پر ہے دیکھو معنی ردیف میں جدت کرنے سے شعر میں کیا حسن ہو جاتا ہے ۔

    درپہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

    جتنے عرصہ میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

    فقط معشوق کی ایک شوقی کا بیان منظور ہے اور یہ بہترین مضامین غزل ہوا کرتا ہے ۔

    کیوں اندھیری ہے شبِ غم ہے ؟بلاؤں کا نزول

    آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا

    پہلے مصرع میں سوال و جواب ہے یعنی تاریکی شبِ غم کا سبب یہ ہے کہ بلندی عرش پر سے بلائیں اُتر رہی ہیں اور تاروں نے اُن کے اُترنے کا تماشہ دیکھنے کے لئے اس طرف سے اُس طرف آنکھیں پھیرلی ہیں یعنی اس کثرت سے اُتر رہی ہیں جیسے میلہ قابل تماشا ہوتا ہے ۔

    کیا رہوں غربت میں خوش جب ہو حوادث کا یہ حال

    نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

    دستور ہے کہ خبر مرگ جس خط میں لکھتے ہیں اُسے کھلا ہی روانہ کرتے ہیں اور غربت کے معنی مسافرت ۔

    اُس کی اُمت میں ہوں میں میرے رہیں کیوں کام بند

    واسطے جس شے کے غالبؔ گنبدِ بے در کھلا

    یعنی معراج کی شب میں ۔

    _______

    شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا

    شعلۂ جوالہ ہر یک حلقۂ گرداب تھا

    یعنی ابر کا زہرہ آب تھا اور جو گرداب اس میں پڑتا تھا وہ شعلہ جوالہ تھا ، یہ فقط میرے سوزِ دل کی تاثیر تھی ۔



    واں کرم کو عذر بارش تھا عناں گیر خرام

    گریہ سے یاں پنیۂ بالش کفِ سیلاب تھا

    یعنی انھیں تو کرم کرنے میں بارش مانع تھی اور میرا روتے روتے یہ حال ہوا تھا کہ پان بجائے پنیۂ بالش کفِ سیلاب تھا ۔

    واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال

    یاں ہجوم اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

    یعنی تار نگہ میں اس کثرت سے آنسو پروئے ہوئے تھے کہ وہ خود پوشیدہ و مفقود ہو گیا تھا جس طرح دھاگے کو موتی چھپالیتے ہیں دیکھو پوری تشبیہ پائی جاتی ہے مگر تازگی اس بات کی ہے کہ تشبیہ دینا مقصود نہیں ہے شاعر دو متشابہ چیزیں ذکر کررہا ہے اور پھر تشبیہ نہیں دیتا ہے ۔

    جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو

    یاں رواں مژگان چشم تر سے خون ناب تھا

    یعنی وہاں اس کثرت سے اور اتنی دُور تک تختۂ گل تھا کہ اس کے عکس سے معلوم ہوتا تھا کہ چراغاں نہر میں ہورہا ہے اور یہاں دُور تک خون کے آنسو بہہ نکلے تھے اور آب جو کے مقابلے میں چشم تر تھی اور شاخ ہائے گل کے جواب میں پلکوں پر لہو کی بوندیں ۔ آب جو کے بعد ’ کو ‘ کا لفظ حذف کر دینا کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا ۔

    یاں سر پر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو

    واں وہ فرق ناز محو بالش کمخواب تھا

    یعنی نیند نہ آنے کے سبب سے میرا سر دیوار کو ڈھونڈ رہا تھا اور میں سر ٹکرانا چاہتا تھا ۔

    یاں نفس کرتا تھا روشن شمع بزم بے خودی

    جلوۂ گل واں بساط صحبتِ احباب تھا

    یعنی ہماری محفل میں شمع آہ روشن تھی اور وہاں کی صحبت میں پھولوں کا فرش تھا ، احباب سے معشوق کے احباب مراد ہیں ۔



    فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

    یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

    یعنی وہاں رنگ و عیش کی رنگ رلیاں ہورہی تھیں اور ہم یہاں جل رہے تھے سوختن کے باب سے ماضی و حال و مستقبل کی تصریف مراد ہے نزاکت یہ ہے کہ اس امتداد زمانے کو جو تصریف میں سوختن کے ہے مصنف نے امتداد مکانی پر منطبق کیا ہے دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ یہاں کا زمین و آسمان آگ لگادینے کے قابل ہے ۔

    ناگہاں اس رنگ سے خون نابہ ٹپکانے لگا

    دل کہ ذوقِ کاوش ناخن سے لذت یاب تھا

    یعنی اس رنگ سے جو آگے کی غزل میں آتا ہے اور کاوش ناخن استعارہ ہے کاوش غم سے ۔

    نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا

    تھا سپند بزم وصل غیر گو بیتاب تھا

    یعنی اگرچہ دل بیتاب بنا مگر اُس کی بیتابی برخلاف مدعا تھی گویا دل بیتاب سپند بزم وصل غیر تھا ۔

    مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے

    خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا

    یعنی سیلاب کے آنے سے خانۂ عاشق صدائے آب کا ارغنوں بن گیا جس کو سن کر دل کو سرور و نشاط ہے ۔ آہنگ کا لفظ مناسب ساز ہے غرض یہ ہے کہ عشاق کو اپنی خانہ خرابی سے لذت حاصل ہوتی ہے ۔

    نازش ایام خاکستر نشینی کیا کہوں

    پہلوئے اندیشہ وقفِ بستر سنجاب تھا

    یعنی اگرچہ میں خاک نشیں تھا لیکن میرا دل قناعت کے فخر و ناز کے سبب سے فرش سنجاب پر لوٹ رہا تھا ۔

    کچھ نہ کی اپنے جنونِ نارسا نے ورنہ یاں

    ذرّہ ذرّہ روکش خورشید عالم تاب تھا

    جنونِ نارسا نے کچھ نہ کی یعنی اکتسابِ فیض سے اور اتحادِ معشوق سے محروم رکھا ، ورنہ ایک ایک ذرّہ نے ایسا اکتسابِ نور کیا تھا کہ رشک دہ آفتاب تھا ۔

    آج کیوں پرواہ نہیں اپنے اسیروں کی تجھے

    کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

    یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا

    انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا

    یہ قطعہ ہے اور حلقۂ دام کو دیدۂ بے خواب سے تشبیہ دی ہے وجہ شبیہ یہ ہے کہ دیدۂ بے خواب کی طرح حلقۂ دام کھلا رہتا ہے ۔

    میں نے روکا رات غالبؔ کو وگرنہ دیکھتے

    اُس کے سیل گریہ میں گردوں کفِ سیلاب تھا

    یعنی سیلاب گریہ آسمان تک بلند ہو جاتا ۔

    _______

    ایک ایک قطرئے کا مجھے دینا پڑا حساب

    خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا

    حساب دینا پڑا یعنی آنکھوں سے خون بہانا پڑا گویا خونِ جگر اُس کی امانت تھا ۔

    اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو

    توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا

    قاعدہ ہے کہ آئینہ میں ایک ہی عکس دکھائی دیتا ہے لیکن جب اُسے توڑ ڈالو تو ہر ہر ٹکڑے میں وہی پورا عکس معلوم ہونے لگتا ہے اور یہاں ہر ہر عکس کو دیکھ کر ایک ایک آرزو کا خون ہوتا ہے ۔ غرض کہ جس آئینہ میں معشوق کے عکس و تمثال کا جلوہ تھا اُس کے ٹوٹنے سے ایک شہر آرزو کا خون ہو گیا یہ کہا ہوا مضمون ہے :

    نظر آتے کبھی کاہے کو اک جا خودنما اتنے

    یہ حسن اتفاق آئینہ اُس کے روبرو ٹوٹا

    ایک شہر آرزو میں ویسی ہی ترکیب ہے جیسی ایک بیاباں ماندگی و یک قدم وحشت میں ہے ۔

    گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں

    جاں دادۂ ہوائے سر رہ گذار تھا

    ہوا کے معنی آرزو اور رہ گذار سے معشوق مراد ہے ۔

    موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال

    ہر ذرّہ مثل جوہر تیغ آبدار تھا

    یعنی جس طرح تلوار میں جوہر آبدار ہوتے ہیں اسی طرح موج سراب کے ذرّہ تھے حاصل یہ کہ سرزمین عشق پر تلوار برستی ہے ۔

    کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب

    دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا

    یعنی کم ہوئے پر بھی بہت زیادہ نکلا ۔

    _______

    بسکہ دُشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

    آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

    یعنی کمالِ انسانیت کے مرتبہ پر پہنچنا سہل نہیں ہے ۔

    گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانہ کی

    در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

    ٹپک رہا ہے یعنی ظاہر ہورہا ہے اور ٹپکنے کی لفظ گہر کے لئے اور گریہ کے ساتھ بھی بہت ہی مناسبت رکھتی ہے :

    لفظ یہ کہ تازہ است بمضموں برابر است

    وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو

    آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا

    ہر دم یعنی ہر مرتبہ سانس لینے میں اُس مبدأ حیات و وجود کی طرف دوڑتا ہوں اور اپنی نارسائی سے حیران ہوکر رہ جاتا ہوں ۔

    جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے

    جوہر آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

    یعنی اُس کا جلوۂ حسن یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے دیکھو تو آئینہ چاہتا ہے کہ آنکھ بن جائے اور جوہر یہ چاہتا ہے کہ پلکیں بن جائیں اور آئینہ سے آنکھ کی تشبیہ مضمون مشہور ہے اور یہاں آئینہ سے آئینہ فولادی مراد ہے کہ جوہر اسی میں ہوتے ہیں ۔

    عشرتِ قتل گہ اہل تمنا مت پوچھ

    عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

    یعنی قتل گاہ میں عشاق کو ایسی مسرت حاصل ہے کہ شمشیر کو عریاں دیکھ کر وہ جانتے ہیں کہ ہلال عید کا نظارہ دکھائی دیا لفظ ہلال تنگی وزن سے نہ آسکا اور شعر کا مطلب ناتمام رہ گیا ۔

    لے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے نشاط

    تو ہو اور آپ بصد رنگ گلستاں ہونا

    یعنی ہم داغ لیکے چلے اب تجھے باغ باغ ہونا مبارک ہو اور یہی محاورہ ہے باغ باغ ہونے کی جگہ پر گلستاں ہونا خالص مصنف کا تصرف ہے ۔

    عشرتِ پارۂ دل زخم تمنا کھانا

    لذتِ ریش جگر عرق نمکداں ہونا

    دونوں مصرعوں میں فعل ’ ہے ‘ محذوف ہے ۔

    کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ

    ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

    یعنی لہو دیکھتے ہی رحم آگیا کہ یہ میں نے کیا کیا ، نہ غصہ آتے دیر لگی نہ پشیمان ہوتے دیر لگی اور ممکن ہے کہ زود پشیماں طعن و طنز سے کہا ہو یعنی جب کام اختیار سے باہر ہوچکا جب رحم آیا کیا جلد پشیمان ہوا ۔



    حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالبؔ

    جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

    یعنی اگر ہجر ہے تو وہ آپ چاک کرے گا اور اگر وصل ہے تو شوخی معشوق کے ہاتھوں پر پرزے اُڑجائیں گے ۔

    _______

    شب خمارِ شوق ساقی رست خیز انداز تھا

    تامحیط بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا

    یعنی رات کو میرے شوق نے قیامت برپا کر رکھی تھی اور شوق میں بے لطفی و بے مزگی جو تھی اس وجہ سے اُسے خمار سے تشبیہ دی اور کہتا ہے کہ یہاں سے لے کر دریائے بادہ تک میرے خمیازہ کا صورت خانہ بنا ہوا تھا یعنی میں نے خمار میں ایسی لمبی لمبی انگڑائیاں لیں جن کی درازی محیط بادہ تک پہنچی ، غرض مصنف کی یہ ہے کہ انگڑائیاں لینے میں جو ہاتھ پاؤں پھیلتے تھے وہ گویا شراب کو ڈھونڈتے تھے ۔

    یک قدم وحشت سے درس دفتر امکاں کھلا

    جادہ اجزائے دوعالم دشت کا شیرازہ تھا

    یک قدم وحشت سے وحشت کا مرتبہ ادنیٰ مقصود ہے اور اجزائے دو عالم دشت بمنزلہ اجزائے عالم ، عالم دشت یا اجزائے دو صد دشت ہے جس سے مراد کثرت ویرانی ہے یعنی ممکنات نے اپنے مبدأ سے ایک ذراسی وحشت و مغائرت جو کی تو عالم امکان موجود ہو گیا اور اُس وحشت کا ایک قدم جس جادہ پر پڑا گویا وہ اوراق دو صد دشت کا شیرازہ تھا اس سبب سے کہ وحشت میں جب قدم اُٹھے گا دشت ہی کی طرف اُٹھے گا اور عارف کی نظر میں تمام عالم امکان ویران ہے ۔ دو عالم دشت کی ترکیب میں مصنف نے دشت کی مقدار کا پیمانہ عالم کو بتایا ہے جس طرح ماندگی کی مقدار کا پیمانہ بیابان کو اور تامل کی مقدار کا پیمانہ زانو کو اور آرزو کا پیمانہ شہر کو قرار دیا ہے ۔
     
  22. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    مانع وحشت خرامی ہائے لیلیٰ کون ہے

    خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

    مصنف نے صحرا گرد مجنوں کی صفت ڈال کر اُس کے گھر کا پتہ دیا یعنی مجنوں کا گھر تو صحرا ہے اور صحرا وہ گھر ہے جس میں دروازہ نہیں پھر لیلیٰ کیوں وحشی ہوکر اُس کے پاس نہیں چلی آتی کون اُسے مانع ہے ۔

    پوچھ مت رُسوائی انداز استغنائے حسن

    دست مرہون حنا رخسار رہن غازہ تھا

    یعنی حسن کو باوجود استغنا ایسی احتیاج ہے کہ ہاتھ حنا کی طرف اور منہ غازہ کی طرف پھیلائے ہوئے ہے ۔

    نالۂ دل نے دیے اوراق لخت دل بباد

    یادگار نالا اک دیوان بے شیرازہ تھا

    بباد دیے یعنی برباد کئے اس میں پارۂ دل کو اوراق سے تشبیہ دی پھر اوراق کو دیوان بے شیرازہ سے تشبیہ دی اور نالہ کو شاعر فرض کیا ہے جس نے اپنی یادگار کو آپ برباد کیا ۔ بباد و ادن فارسی کا محاورہ ہے اُردو میں برباد کرنا کہتے ہیں ۔

    _______

    دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

    زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

    پہلے مصرع میں ’ کیا ‘ تحقیر کے لئے ہے اور دوسرے مصرع میں استفہام انکاری کے لئے ، یعنی میرے ناخن کاٹنے سے کیا فائدہ ، کیا پھر بڑھ نہ آئیں گے ۔

    بے نیازی حد سے گذری بندہ پرور کب تلک

    ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرمائیں گے کیا ؟

    کہتے ہیں تمہاری بے توجہی حد سے گذرگئی کہ میرا حال متوجہ ہوکر نہیں سنتے اور ہر بار تجاہل سے کہتے ہو کہ ’ کیا کہا ‘ اس شعر میں کیا ، محل حکایت میں ہے جس طرح آگے مصنف نے کہا ہے :

    تجاہل پیشگی سے مدعا کیا

    کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا

    حضرتِ ناصح گر آویں ، دیدہ و دل فرشِ راہ

    کوئی مجھ کو یہ تو سمجھادو کہ سمجھائیں گے کیا

    صاف شعر کا کیا کہنا گو دوسرے مصرع میں سے ’ مگر ‘ محذوف ہے مگر خوبی یہ ہے کہ اس طرح سے اور کیا ہے کہ دیوانگی کی تصویر کھنچ گئی ۔

    آج وہاں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں

    عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا ؟

    یعنی اگر اس کے پاس تلوار نہ ہو گی تو میں دے دوں گا ۔

    گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہی

    یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا ؟

    ’ کیا ‘ استفہام انکاری کے لئے ہے اور قید ہونا اور چھٹ جانا دونوں کا اجتماع لطف سے خالی نہیں ۔

    خانہ زادِ زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوں

    ہیں گرفتارِ وفا زنداں سے گھبرائیں گے کیا

    فاعل یعنی لفظ ’ ہم ‘ محذوف ہے ۔

    ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسدؔ

    ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا

    ہمیں تو غم کھانے کا مزہ پڑا ہوا ہے اور وہی یہاں نہیں یعنی اس شہر میں ایسے معشوق نہیں جن سے محبت کیجئے ۔

    _______

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    یعنی مرجانا ہی بہتر ہوا ۔

    ترے وعدہ پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

    کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

    یعنی ہم نے جو یہ کہا کہ فقط وعدہ وصل سن کے ہم مرنے سے بچ گئے تو ہم نے جھوٹ جانا دوسرا احتمال یہ ہے کہ تیرا وعدہ سن کر جو ہم جیے تو اس کا یہ سبب تھا کہ ہم نے اُسے جھوٹا وعدہ خیال کیا اور جان منادی ہے ۔

    تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

    کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

    ’ جانا ‘ کا فاعل ’ ہم نے ‘ محذوف ہے اور نازکی بمعنی نزاکت ۔

    کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

    یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

    ’ جو ‘ کا واؤ وزن سے ساقط ہو گیا اور یہ درست ہے بلکہ فصیح ہے لیکن اُس کے ساقط ہو جانے سے دو جس میں پیدا ہو گئیں اور عیب تنافر پیدا ہو گیا لیکن خوبی مضمون کہ ایسی باتوں کا کوئی خیال نہیں کرتا ۔ تیر نیم کش وہ جسے چھوڑتے وقت کمان دار نے کمان کو پورا نہ کھینچا ہو اور اسی سبب سے وہ پار نہ ہوسکا ۔

    یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

    کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

    دوستوں کی شکایت ہے کہ اُنھوں نے نصیحت پر کیوں کمر باندھی ہے ۔

    رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

    جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

    یعنی جس طرح دل میں غم چھپا ہوا ہے اگر اسی طرح شرار بن کر پتھر میں یہ پوشیدہ ہوتا تو اُس میں سے بھی لہو ٹپکتا ، حاصل یہ کہ غم کا اثر یہ ہے کہ دل و جگر لہو کر دیتا ہے ، پتھر کا جگر بھی ہو تو وہ بھی لہو ہو جائے ۔

    غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

    غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

    ’ پہ ‘ بمعنی مگر اور ان معنی میں ’ پر ‘ فصیح ہے اور آخر مصرعہ میں ’ ہے ‘ تامہ ہے اور پہلا ’ ہے ‘ ناقصہ ہے ۔

    کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے

    مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

    ’ کیا ہے ‘ میں ضمیر مستقر ہے مرجع اس کا شبِ غم ہے جو دوسرے جملہ میں ہے کہ اگر اس شعر میں اضمار قبل الذکر اور ضمیر کو ستتر نہ لیں بلکہ ’ ہے ‘ کا فاعل شبِ غم کو کہیں تو لطف سجع جاتا ہے تاہم خوبی اس شعر کی حدِ تحسین سے باہر ہے ۔

    ہوئے مرکے ہم جو رُسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا

    نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

    یعنی جنازہ اُٹھنے اور مزار بننے نے رُسوا کیا ڈوب مرتے تو اچھے رہتے ۔

    اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

    جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں وہ چار ہوتا

    دو چار ہونے سے دکھائی دینا مراد ہے ۔

    یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ

    تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

    اس مقطع کی شرح لکھنا ضرور نہیں بہت صاف ہے لیکن یہاں یہ نکتہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ خبر سے انشاء میں زیادہ مزہ ہوتا ہے پہلا مصرع اگر اس طرح ہوتا کہ غالب تیری زبان سے اسرارِ تصوف نکلتے ہیں الخ تو یہ شعر جملہ خبریہ ہوتا ، مصنف کی شوقی طبع نے خبر کے پہلو کو چھوڑکر اسی مضمون کو تعجب کے پیرائے میں ادا کیا اور اب یہ شعر سارا جملہ انشائیہ ہے ۔

    _______

    ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

    نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا

    یعنی رقیب بوالہوس کی ہوس کو نشاط کا رو لطف وصل نگار حاصل ہے اب ہمارے جینے کا مزہ کیا رہا ، مصنف کی اصطلاح میں ہوس محبت رقیب کا نام ہے ، اسی غزل میں آگے کہتے ہیں :

    ہوس کو پاس ناموس وفا کیا

    دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ دُنیا میں انسان کو ہوا و ہوس سے رہائی نہیں ، اگر مرنا نہ ہوتا تو اس طرح کے جینے میں کچھ مزا نہ تھا یعنی حاصل زندگانی مرنا تھا ۔

    تجاہل پیشگی سے مدعا کیا

    کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا

    یعنی میرا حال سن کر تم کب تک ’ کیا کیا ‘ کہہ کر ٹالوگے ، اس تجاہل شعاری سے آخر تمہارا کیا مطلب ہے ۔

    نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں

    شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

    نوازش بے جا وہ جو رقیب پر ہو اور جب رقیب پر تم التفات کرو تو میری شکایت سے کیوں برا مانو اور اُس کا گلہ کیوں کرو ۔

    نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں

    تغافل ہائے تمکیں آزما کیا

    بے تکلف و بے حجاب ہوکر مجھ سے آنکھ چار کرو اور یہ تغافل صبر آزما کیسا یعنی میرا دل دیکھنے کے لئے اور میرے ضبط آزمانے کے لئے یہ چشم پوشی کیسی ۔

    فروغِ شعلۂ خس اک نفس ہے

    ہوس کو پاس ناموس وفا کیا

    اس شعر میں رقیب پر طعن ہے کہ اُسے عشق نہیں ہے ہوس ہے اس کی محبت شعلہ خس کی طرح بے ثبات ہے اُسے ناموس وفا کا پاس بھلا کہاں ، اُس کا فروغ عشق چار دن کی چاندنی ہے ۔

    نفس موج محیطِ بے خودی ہے

    تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا

    یعنی یہاں بے شراب پئے بے خودی ہے پھر بے التفاتی ساقی کا گلہ کرنا کیا ضرور ہے جسے اُس کی صورت دیکھ کر بے خودی ہو جائے اُسے وہ شراب نہ دے تو کیا شکایت ۔



    دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے

    غم آوارگی ہائے صبا کیا

    صبا سے بوئے گل مراد ہے اس سبب سے کہ صبا ہی کے چلنے سے پھول کھلتے ہیں تو اُس میں بوئے گل ملی ہوئی ہوتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگر صبا آوارہ و پریشان نہ ہوتی تو سب پھولوں کی خوشبو ایک ہی جگہ جمع ہو جاتی لیکن شاعر کہتا ہے کہ مجھے پیراہن کے بسانے ہی کا دماغ نہیں ہے آوارہ مزاجی صبا کی کیا پروا ہے ہوس دُنیا نہ ہو اُسے بے وفائی دُنیا کا کیا غم ہے ۔

    دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر

    ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

    یعنی ہر قطرہ کو دریا کے ساتھ اتحاد کا دعویٰ ہے اسی طرح ہم کو بھی اپنے مبدأ کے ساتھ عینیت کا دعویٰ ہے وہ دریا ہے اور ہم اسی دریا کے قطرہ ہیں اور قطرہ دریا میں مل کر دریا ہو جاتا ہے ۔

    محابا کیا ہے میں ضامن ادھر دیکھ

    شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا ؟

    ’ ادھر دیکھ ‘ دو معنی رکھتا ہے ایک تو مقام تنبیہ میں یہ کلمہ کہتے ہیں دوسرے یہ کہ تو میری طرف دیکھ تو سہی اگر میں شہید نگاہ ہو جاؤں تو ذمہ کرتا ہوں کہ تجھے خون بہا نہ دینا پڑے گا ۔

    سن اے غارت گر جنس وفا سن

    شکست قیمت دل کی صدا کیا

    یعنی تو جو یہ کہتا ہے کہ ہمیں شکست دل کی خبر نہیں تو کہیں شکست دل میں آواز ہوتی ہے جو تجھے سنائی دیتی مصنف نے شکست دل کو شکست قیمت دل سے تعبیر کیا ہے اور اسی لئے جنس و غارت اُس کے مناسبات ذکر کئے ہیں دوسرا پہلو اس بندش میں یہ نکلتا ہے کہ شکستِ دل کی صدا تجھے اچھی معلوم ہوتی ہے تو دل شکنی تو کئے جا اور سنے بھلا دل کی اور صدائے شکستِ دل کی کیا حقیقت ہے جو تو تامل کرے ۔

    کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ

    شکیب خاطر عاشق بھلا کیا

    یعنی مجھے ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ بے تمہارے مجھے چین نہ آئے گا ۔

    یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں

    یہ کافر فتنۂ طاقت رہا کیا

    اسی وعدۂ صبر آزما کو دوسرے مصرع میں فتنۂ طاقت ریا سے تعبیر کیا ہے اس شعر میں جس طرز کی بندش ہے مصنف کا خاص رنگ ہے اور اس میں منفرد ہیں ۔

    بلائے جاں ہے غالبؔ اُس کی ہر بات

    عبارت کیا اشارت کیا ادا کیا

    ’ کیا ‘ اس شعر میں حرفِ عطف ہے جسے معطوف و معطوف علیہ میں بیان مساوات کے لئے لاتے ہیں ۔

    _______

    در خور قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا

    پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہو

    یعنی پھر ہمارا کہناکیا غلط ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا اور ہمسا کوئی آفت زدہ نہ ہوا ۔

    بندگی میں بھی وہ آزاد و خودبیں ہیں کہ ہم

    اُلٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

    یعنی پھر کسی اور کی ہم کیوں اُٹھانے لگے ۔

    سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا

    روبرو کوئی بت آئینہ سیما نہ ہوا

    یعنی کسی نے مقابلہ نہ کیا ۔

    کم نہیں نازش ہم نامی چشم خوباں

    تیرا بیمار برا کیا ہے گر اچھا نہ ہوا

    یعنی اگر میں بیمار رہا تو چشم معشوق بھی تو بیمار ہے یہ ہم نامی کا فخر کیا کم ہے ۔



    سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا

    خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

    یعنی جس طرح کہ قطرہ خاک میں جذب ہوکر ایک داغ خاک پر پیدا کرتا ہے اُسی طرح نالہ ضبط کرنے سے سینہ میں داغ پڑجاتا ہے ۔

    نام کا میرے ہی جو دُکھ کہ کسی کو نہ ملا

    کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا

    صاف ہے ۔

    ہر بن مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خوناب

    حمزہ کا قصہ ہوا عشق کا چرچا نہ ہوا

    یعنی یہ نہیں ممکن کہ خوناب نہ ٹپکے ، اس شعر میں استفہام انکاری ہے کہ بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ خوناب نہ ٹپکے ۔

    قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے جزو کل میں

    کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا

    یعنی عارف کی نظر کھیل تھوڑی ہے ؟ اس شعر کو بھی استفہام انکاری کے طرز سے پڑھنا چاہئے ۔

    تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

    دیکھنے ہم بھی گئے تھے یہ تماشا نہ ہوا

    اپنی رُسوائی اور موردِ تعذیر ہونے کا اظہار ہے کہ لوگ اُسے تماشا سمجھے ہوئے ہیں ۔

    _______
     
  23. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں

    کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشتِ خار اپنا

    اسدؔ اور آہو کا تقابل تو ظاہر ہے ، جنون جولان ہونے سے یہ اشارہ کیا ہے کہ آہو بھی میرے پیچھے رہ جاتا ہے اور پشتِ خار سے پیچھے ہی کھجاتے ہیں ۔ گدا کی لفظ پشتِ خار کی مناسبت کے لئے ہے ، بے سر و پا کہنے سے یہ مقصود ہے کہ پشتِ خار تک میرے پاس نہیں ہے ، اگر ہے تو مژگانِ آہو ہے پنجہ میں اور مژگان میں اور پشتِ خار میں ، وجہ شبہ جو ہے وہ ظاہر ہے یعنی شکل تینوں کی ایک ہی سی ہے ، مژگان کو پہلے پنجہ سے تشبیہ دی ، پھر پنجہ کو پشتِ خار سے تشبیہ دی ۔

    _______

    پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا

    بخوں غلطیدۂ صد رنگ دعوے پارسائی کا

    یعنی کریم کو نذر دینے کے لئے میری شرم و ندامت اُس دعویٰ پرہیزگاری کا تحفہ لے کے چلی ہے جس کا سو گناہوں کے ہاتھ سے خون ہوچکاہے ’ شرم نارسائی کا تحفہ ‘ اسم ہے ’ہے ‘ کا اور دوسرا مصرع سارا خبر ہے ’ پئے نذر کرم ‘ تحفہ دینے کا سبب و غایت ہے ، درگاہ کریم سے تقرب نہ ہونا اور دُور رہنا نارسائی کے معنی ہیں ۔

    نہ ہو حسن تماشا دوست رسوا بے وفائی کا

    بمہر صدِ نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا

    شاعر معشوق آوارہ مزاج پر طعن کرتا ہے کہ بھلا تمہیں کون بے وفا کہہ سکتا ہے ؟ اگر سو آدمیوں کی آنکھ تم پر پڑی تو گویا سو مہریں ہو گئیں کہ تم پارسا ہو اور اس طعن کا مفہوم مخالف ہے کہ تماشا دوست ہوکر اور اغیار سے جھانک تاک کرکے پارسائی کجا اور خیانت و بے وفائی کی رُسوائی سے کہاں بچ سکتے ہو ۔

    زکاتِ حسن دے اے جلوۂ بینش کے مہر آسا

    چراغ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا

    کاسۂ گدائی دن سے استعارہ ہے کہتے ہیں : اے جلوہ گاہ بینش میرے کشکول دل کو زکات عرفان دے کر روشن کر دے کہ اس فقیر کے لئے وہ چراغ ہو جائے اور آفتاب کی طرح شبِ تار جہالت کو دن کر دے ۔

    نہ مارا جان کر بے جرم غافل تیری گردن پر

    رہا مانند خون بے گنہ حق آشنائی کا

    ملامت کرتا ہے کہ آشنائی کا حق یہ تھا کہ مجھے قتل کیا ہوتا ، تو نے بے گناہ سمجھ کر میرے قتل سے کنارہ تو کیا ، مگر یہ خبر نہیں کہ حق آشنائی اسی طرح تیری گردن پر ہے جس طرح خونِ بے گناہ ہوتا ۔

    تمنائے زباں محو سپاس بے زبانی ہے

    مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

    شاعر اپنے دل کی دو باتیں بیان کرتا ہے : ایک تو زبان آوری کی تمنا ، دوسرے بے دست و پائی کا شکوہ ، شکوہ کا تقاضا یہ تھا کہ مجھے بیان کر لیکن بے زبانی کے سبب سے وہ تقاضا اُس کا مٹ گیا تو گویا بے زبانی کا یہ احسان ہوا ۔ اسی احسان کی شکرگذاری میں زبان آوری کی تمنا محو ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ میرا مرتبۂ صبر ایسا بڑھا ہوا ہے کہ اپنی بے دست و پائی کا شکوہ نہیں کرتا اور بے زبانی میں یہ فائدہ دیکھ کر زبان آوری کی تمنا بھی میرے دل سے مٹ گئی ۔

    وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہتِ گل ہے

    چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا

    جلوۂ چمن سے فصل بہار و جوش گل مراد ہے ، یعنی یہی ایک چیز نکہتِ گل کا بھی سبب ہے اور یہی جوش بہار میرے ترانۂ سرشار کا بھی باعث ہے ۔ حاصل یہ کہ میرا نفس نکہتِ گل سے کم نہیں کہ علت دونوں کی ایک ہی ہے ۔

    دہانِ ہر بت پیغارہ جو زنجیر رُسوائی

    عدم تک بے وفا چرچاہے تیری بے وفائی کا

    پیغارہ کے معنی طعن و تشنیع کہا ہے کہ جو حسین کہ طعن و طنز ڈھونڈھا کرتے ہیں اُن سب کے دہن تیرے لئے زنجیر رُسوائی ہے ، یعنی ہر ایک دہن طنز گفتار ایک ایک حلقہ ہے ، زنجیر رُسوائی کا پہلے مصرع میں سے ’ ہے ‘ محذوف ہے اور حسینوں کے دہن کو عدم کہتے ہیں تو جب اُن کے دہن میں تیری بے وفائی کا ذکر ہے تو گویا عدم تک پہنچ گیا اور تیری نیک نامی کے پاؤں میں زنجیر رُسوائی پڑگئی ۔

    نہ دے نامہ کو اتنا طول غالبؔ مختصر لکھ دے

    کہ حسرت سنج ہوں عرض ستمہائے جدائی کا

    سنجیدن فارسی میں وزن کرنے اور موزوں کرنے کے معنی پر ہے ۔ ’ نواسنج و نغمہ سنج و زمزمہ سنج و ترانہ سنج و نکتہ سنج ‘ سب مانوس ترکیبیں ہیں اور فصحا کی زبان پر ہیں ، لیکن متاخرین اہل زبان اور اُن کے متبعین ’ آرزو سنج و حسرتِ سنج و شکوہ سنج ‘ بھی مثل بے دل وغیرہ کے بہ تکلف نظم کرنے لگے ہیں اور تصنع سے خالی نہیں ہے ۔

    _______

    گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا

    بے تکلف داغ مہ مہر دہاں ہو جائے گا

    یعنی شبِ فراق کا اندوہ اگر میں بیان نہ کرسکوں تو یہ سمجھنا چاہئے کہ چاند کا داغ نہ تھا ، بلکہ میرے ہونٹوں پر مہر تھی ۔

    زہرہ گر ایسا ہی شام ہجر میں ہوتا ہے آب

    پر تو مہتاب سیل خانماں ہو جائے گا

    یعنی شام ہجر کی ہیبت ہر ایک کا زہرہ آب کرتی ہے تو کیا عجب ہے کہ چاندنی کا زہرہ بھی آب ہو جائے اور وہ میرے گھر کے لئے سیلاب ہو جائے ۔

    لے تو لوں سوتے میں اُس کے پاؤں کا بوسہ مگر

    ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا

    یعنی میری محبت کو پاک محبت پھر نہ سمجھے گا ۔

    دل کو ہم صرف وفا سمجھے تھے کیا معلوم تھا

    یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا

    نذرِ امتحاں یعنی اُس کے امتحان لینے ہی میں اُس کا کام تمام ہو جائے گا یہ نہ خبر تھی ۔

    سب کے دل میں ہے جگہ تیری جو تو راضی ہوا

    مجھ پہ گویا اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا

    تو سب کے دل میں ہے تو مجھ سے راضی ہو گا تو سب کے دل مجھ سے راضی ہو جائیں گے ’ ہوا ‘ ماضی کا صیغہ ہے ، حرفِ شرط کے تحت میں اُس کے معنی مستقبل کے ہو جاتے ہیں ۔

    گر نگاہ گرم فرماتی رہے تعلیم ضبط

    شعلہ خس میں جیسے خوں رگ میں نہاں ہو جائے گا

    یعنی نظر عتاب جو ضبطِ نالہ و آہ کا اشارہ کرتی ہے اُس کے ڈر سے عجب نہیں کہ شعلہ خس میں اس طرح چھپ رہے جیسے رگ میں خون ۔

    باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

    ہر گل تر ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گا

    یعنی میرا حال ایسا ہے کہ جو دیکھتا ہے اُسے رونا آتا ہے ۔

    وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو

    اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا

    صاف شعر ہے ۔

    فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ

    دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا

    نادان کی دوستی جی کا زیان مثل ہے ۔

    _______

    درد منت کش دوا نہ ہوا

    میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

    تکلیف یہ ہے کہ نہ اچھا ہوا نہ برا ہوا ، حسبِ لفظ دونوں باتوں کا نہ ہونا محال معلوم ہوتا ہے لیکن معنی کی راہ سے یہاں ’ اچھا ‘ وہ ’ اچھا ‘ نہیں ہے جو برے کے مقابل میں ہے بلکہ اچھا ہونا مرض کے معنی پر ہے ۔

    جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو

    اک تماشا ہوا گلا نہ ہوا

    دستور ہے کہ چار آدمیوں کو ملتفت کرکے کسی کی شکایت کرتے ہیں تاکہ وہ انصاف کریں ۔ مگر انھیں رشک کے مارے گوارا نہیں ہے کہ رقیب ہماری شکایت اُس کے منہ سے سنیں اور ہاں میں ہاں ملائیں ۔

    ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں

    تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

    جب تو ہی نے قتل نہ کیا تو پھر یہ آرزو کس سے پوری ہو گی ۔

    کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

    گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

    لبِ معشوق کی شیرینی پر دلیل یہ ہے کہ حرفِ تلخ اُس کے منہ سے سن کر رقیبِ بوالہوس بھی جو کہ لذتِ عشق سے محروم ہے بے مزہ نہ ہوا ۔

    ہے خبر گرم اُن کے آنے کی

    آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

    اس شعر سے اہتمام مدارت و بے سامانی کا اظہار مقصود ہے اور مضمون کی سستی ظاہر ہے ۔

    کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

    بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

    ’ وہ ‘ اشارہ ہے غرورِ حسن کی طرف ۔

    جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی

    حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

    پہلے حق کے معنی سچ اور دوسرے حق کے معنی ذمہ ۔

    زخم گر دب گیا لہو نہ تھما

    کام گر رُک گیا روا نہ ہوا

    کام تو رُک جانے سے روا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ زخم کے دبنے سے بھی لہو رواں نہ ہو ، لیکن میرے حق میں اُس کے برخلاف ہے ’ تھما ‘ کی جگہ پر ’ تھنبا ‘ اب متروک ہے ۔

    رہزنی ہے کہ دلستانی ہے

    لے کے دل دلستاں روا نہ ہوا

    ’ روا نہ ‘ میں ’ روا ‘ قافیہ ہے اور ’ نہ ‘ جزوِ ردیف تھا جو یہاں لفظِ روا نہ کا جزر واقع ہوا ہے اصطلاح میں ایسے قافیہ کو قافیہ معمولہ کہتے ہیں ، قواعدِ قافیہ میں اسے عیب لکھتے ہیں لیکن اب تمام شعراء اسے صنائع لفظیہ میں جانتے ہیں اور بے تکلف استعمال کرتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ قافیہ معمولہ سے شعر سست ہو جاتا ہے ۔

    کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں

    آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

    ساری غزل پڑھنے کے بعد پھر یہ کہنا کہ ’ کچھ تو پڑھئے ‘ یہ مطلب رکھتا ہے شاید کہ طرح میں کچھ پڑھئے ۔

    _______

    گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیٔجا کا

    گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

    یعنی شوق دل میں سماکر تنگیٔجا کے سبب سے جوش و خروش نہیں دکھا سکتا ، گویا دریا گہر میں سما گیا ، کہ اب تلاطم نہیں باقی رہا ۔

    یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مکتوب

    مگر ستم زدہ ہوں ذوق خامہ فرسا کا

    ’ تو اور پاسخ مکتوب ‘ یعنی تو اور جواب لکھے ممکن نہیں تقدیر اُس کی یہ ہے ’ کہاں تو اور کہاں پاسخ مکتوب ‘ ’ کہاں ‘ کی لفظ محذوف ہے اور لفظِ پاسخ سے نوشتن پاسخ یا فرستادن و دادن پاسخ مراد ہے اور قاعدہ یہ ہے کبھی فعل و فاعل میں اظہارِ استبعاد کے لئے حرفِ عطف کو فاصل کیا کرتے ہیں ، مثلاً آگ اور نہ جلائے یعنی یہ بات مستبعد ہے اور کبھی مبالغہ کے لئے عطف کرتے ہیں ، جیسے آگ اور دہکتی ہوئی ، اسی طرح اور متعلقاتِ فعل میں بھی فصل کر دیتے ہیں ۔

    حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی

    دوام کلفت خاطر ہے عیش دُنیا کا

    یعنی بہار ہے بھی تو کیا ہے مہندی کی لالی ہے ، چار دن میں جاتی رہے گی پھر خزاں ہی خزاں کا قدم درمیان میں ہے ۔

    غم فراق میں تکلیف سیر باغ نہ دو

    مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا

    یعنی خندۂ گل مجھ سے نہ دیکھا جائے گا ۔

    ہنوز محرمی حسن کو ترستا ہوں

    کرئے ہے ہربن مو کام چشم بینا کا

    یعنی باوجود یہ کہ اپنے ہر بن مو سے دیکھ رہا ہوں ، اس پر بھی محرمی حسن نہیں حاصل ہے یعنی کہنہ ذات تک رسائی نہیں اور ہر بن مو کو چشم بینا کہنے کی وجہ یہ ہے جب کہ ہر شئے آئینہ ظہورِ صنعت و قدرت ہے ، تو اس میں بن مو بھی داخل ہے یعنی ہر بن اس طرح حکمت و صنعت کو دکھارہی ہے جس طرح کوئی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے ۔

    دل اس کو پہلے ہی ناز و ادا سے دے بیٹھے

    ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

    یعنی ناز و ادا دل مانگنے کا تقاضا ہے ، ہم نے تقاضے کی نوبت ہی نہ آنے دی ۔

    نہ کہہ کہ گریہ بمقدارِ حسرتِ دل ہے

    مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا

    یعنی اس بات کو میں ہی خوب جانتا ہوں کہ اس دریا کا منبع و مجمع یعنی حسرتِ دل کس قدر ہے اور اُس کا خرچ یعنی آنسو کس قدر ہیں غرض یہ کہ حسرت بڑھی ہوئی ہے گریہ سے ، اُس کا اندازہ نہیں ہوسکتا ۔

    فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ

    جفا میں اُس کی ہے انداز کارفرما کا

    یعنی چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں

    کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

    _______

    قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا

    خطِ جام مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا

    ’ گرفتگی و بستگی و تنگی و ضبطِ نفس ‘ حیرت کے لوازم میں ہیں اور جب ہر قطرۂ مے میں حیرت کے سبب سے یہ صفات پیدا ہوئے تو وہ موتی بن گیا اور پیالہ میں جو لکیر تھی وہ عقدۂ مروارید ہو گئی ، اس بیان سے فقط حیرت کی شگرف کاری کا اظہار مقصود ہے لیکن یہ حیرت حسن ساقی کو دیکھ کر پیدا ہوئی ہے ، یہ مضمون مصنف کے ذہن میں رہ گیا ۔

    اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا

    غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا

    یعنی میرے عشق کا جو اُسے اعتبار ہو گیا ہے تو وہی میری خانہ خرابی کا باعث ہے ، اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی ۔

    _______

    جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا

    تپش شوق نے ہر ذرّہ پہ اک دل باندھا

    ذرّوں کی جھلملاہٹ اور تپش دل میں وجہ شبہ ظاہر ہے جو حرکت و سکون سے مرکب ہے ۔

    اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیٔناز

    جوہر آئینہ کو طوطی بسمل باندھا

    ’ سبزۂ باغ و سبزہ خط و سبزۂ زنگار و سبزۂ جوہر ‘ کو طوطی سے تشبیہ دیتے ہیں اور آئینہ فولاد کے جوہروں کی سبزی ہر ایک رُخ سے قائم نہیں ہوتی ، اس سبب سے اُسے طوطی بسمل سے تشبیہ دی کہ اس میں حرکت معلوم ہوتی ہے اور متحرک کی متحرک سے تشبیہ جس میں وجہ شبہ بھی حرکت ہو نہایت لطیف و بدیع ہوتی ہے ، غرض یہ ہے کہ اُس کے آئینہ فولاد میں جوہروں کی سبزی جو بعض رُخ سے دکھائی دے جاتی ہے یہ طوطی بسمل ہے جسے شوخیٔناز سے بسمل کر دیا ہے ، اسی طرح کی تشبیہ بے تابی ذرّہ و بے قراریٔ دل سے پہلے شعر میں بھی ہے اور غنیمت کا مصرع چمن بے تاب ، چوں طاؤس ، بسمل آسی قسم کی تشبیہ رکھتا ہے ۔

    یاس و اُمید نے یک عربدۂ میداں مانگا

    عجز ہمت نے طلسم دلِ سائل باندھا

    یعنی عجز ہمت نے ایک طلسم بنایا ہے ، جس میں یاس اور اُمید میں عربدۂ بازی کا میدان گرم ہورہا ہے ، یاس چاہتی ہے میں غالب ہو جاؤں ، اُمید چاہتی ہے میں بازی لے جاؤں ۔ عربدۂ میدان سے میدان عربدہ مراد ہے اور طلسم باندھنا طلسم بنانے کے معنی پر ہے ، اُس کے مقابل طلسم کھولنا یعنی طلسم بگاڑنا اور توڑنا کہیں گے ، حاصل یہ ہوا کہ ہمت جو نہیں رکھتا وہ اُمید و بیم میں مبتلا رہتا ہے ۔

    نہ بندھے تشنگی ذوق کے مضموں غالبؔ

    گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

    ساحل کی تشنگی مشہور ہے ، اس میں اگر اتنا مبالغہ کیا کہ سارا دریا اُس نے پی لیا اور دریا بھی ساحل بن کر خشک رہ گیا ، جب بھی تشنگیٔذوق کا مضمون نہ ادا ہوا اور دل کھول کے کوئی کام کرنا اُس کام میں مبالغہ کرنے کو کہتے ہیں ۔

    _______

    میں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤں

    گر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا

    یعنی تعجب کا مقام ہے کہ مجھے اور شراب نہ ملی ، میں نے خود نہیں مانگی تھی تو خود ساقی نے پلادی ہوتی

    ہے ایک تیر جس میں دونوں چھدے پڑے ہیں

    وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا

    یعنی وہ دن گئے کہ دل اپنی جگہ پر تھا اور جگر اپنی جگہ پر تھا ۔

    درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں

    جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا

    مشکل کو گرہ سے استعارہ کیا ہے اور تدبیر کو ناخن سے ۔

    _______
     
  24. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا

    بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

    یعنی گھر رونے کے سبب سے دریا ہورہا ہے نہ روتے تو صحرا ہوتا ۔

    تنگیٔدل کا گلہ کیا کہ وہ کافر دل ہے

    کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

    یعنی واشد خاطر اس قدر بڑھ جاتی کہ پریشانی کی حد تک پہنچتی ۔

    بعد یک عمرو رع بار تو دیتا بارے

    کاش رضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا

    یعنی رضواں میں اتنی بات تو ہے کہ عمر بھر عبادت کرنے کے بعد وہ بہشت میں جانے دیتا ہے ۔

    _______

    نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

    ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

    فلسفہ میں اُصولِ مسلمہ سے یہ ہے لا شئے سے شئے نہیں بن سکتی اور عالم شئے موجود ہے تو ضرور ہے کہ کسی شئے سے یہ شئے حاصل ہوئی ہو اور جس شئے سے یہ حاصل ہوئی اُسے ظبیعین یعنی قائلین نیچر ہیولیٰ و صورت کہتے ہیں اور صوفیہ عین ذات سمجھتے ہیں اور متکلمین کا مذاق کہتا ہے یہ اصل لا شئے سے شئے نہیں ہوسکتی ، اس قدر ظاہر نہیں ہے جس قدر تصرف و تدبیر و حکمت کے آثار ظاہر و محسوس و آشکار ہیں اور اسی وجہ سے فاعل و منفعل و مؤثر و متاثر میں ہم فرق کرتے ہیں ۔ مصنف نے یہ شعر صوفیہ کے مذاق میں کہا ہے ، یعنی میں جب کچھ نہ تھا تو خدا تھا اور کچھ ہوکر اپنی مبدأ سے مغائر ہو گیا اور اُس مبدأ فیض سے علاحدہ ہو جانا میرے حق میں برا ہوا ۔

    ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا

    نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

    غم میں سر کا زانو پر دھرنا امر مشہور ہے اور معنی ظاہر ہیں کہ سر کٹنے کے بعد کا یہ کلام ہے ۔



    ہوئی مدت کہ غالبؔ مرگیا پر یاد آتا ہے

    وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

    ’ کیا ‘ تحقیر کے لئے ہے ، یعنی ہر امر کی خواہ وہ باعثِ عیش و راحت ہو یا سببِ رنج و آفت ہو ، وہ تحقیر کیا کرتا تھا اور ہیچ سمجھتا تھا ۔

    _______

    یک ذرّۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا

    یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا

    داغ سے زخم اگر مراد لیں تو فتیلہ وہ بتی ہے جو زخم میں رکھتے ہیں اور اگر داغ سے چراغ مراد لیں تو فتیلہ اُس کے لئے بھی باعثِ فروغ ہوتا ہے ، پہلی صورت میں کثرتِ نشوونما کا اظہار ہے کہ جادہ ایسا باریک بڑھ گیا جیسی رگِ لالہ ہوتی ہے اور داغِ لالہ کی تخصیص اس لئے ہے کہ زیادتی و کثرت گلہائے رنگیں پر اور شدتِ خضرۂ سبزہ زار پر دلالت کرے اور دوسری صورت میں یہ معنی ہیں کہ جادہ کو لالہ کے ساتھ وہ مناسبت ہے جو فتیلہ و شعلہ میں پیدا ہے ۔

    بے مے کسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی

    کھینچاہے عجز حوصلہ نے خط ایاغ کا

    یعنی آشوب ہوشیاری کے برداشت کرنے سے حوصلہ کو عجز ہے ، اُس عجز نے ہوشیاری و آگہی پر خطِ ایاغ کھینچ دیا ہے ، یعنی صفحۂ خاطر پر سے اُسے کاٹ دیا ہے ، حاصل یہ کہ ایاغِ پیکر ہوشیاری کو محو کر دیتا ہے ، جام جمشید میں خطوط تھے اس سبب سے شعر آج تک ہر جام شراب میں خط ہونا لازم سمجھتے ہیں اور خطِ جام کے تشبیہات اور مضامین بہت کثرت سے کہے ہیں ۔

    بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

    کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

    یعنی بلبل کو خلل دماغ سمجھ کر گل اُس پر ہنستے ہیں ، کاروبار سے مراد اُس کے حرکات ہیں مصنف نے لفظ ’ حالِ زار ‘ کو چھوڑکر ’ کاروبار ‘ اس وجہ سے کہا کہ کار بمعنی زراعت و بار بمعنی ثمر بھی ہے اور یہ گل کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں ۔

    تازہ نہیں ہے نشۂ فکر سخن مجھے

    تر یا کئی قدیم ہوں دودِ چراغ کا

    دود بمعنی فکر اور چراغ استعارہ ہے کلامِ روشن سے ۔

    سو بار بند عشق سے آزاد ہم ہوئے

    پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

    یعنی جب ہم آزاد ہوتے ہیں دل پھر گرفتار کروادیتا ہے ۔

    بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار

    یہ میکدہ خراب ہے مے کے سراغ کا

    چشم میکدہ اور مے خونِ دل ہے اور چشم میں خونِ دل نہ ہونے سے موج نگاہِ غبار بن گئی ہے ، گویا کہ میکدہ مے کی جستجو میں خراب و غبار آلودہ ہورہا ہے ۔

    باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل

    ابرِ بہارِ خم کدہ کس کے دماغ کا

    پہلے مصرع میں سے ’ ہے ‘ محذوف ہے ، مطلب یہ ہے کہ جب شگفتگی باغ سے تجھے نشاط پیدا ہوتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ ابرِ بہار جس نے ساغر کو شراب رنگ و بو سے لبریز کر دیا ہے کس کے دماغ کا خم کدہ ہوا ۔ دوسرے مصرع میں سے جو ’ ہوا ‘ محذوف یعنی ابرِ بہار بھی تیرے ہی دماغ میں نشہ پیدا کرنے کے لئے ایک خم کدہ ہے یہ تجنیس بساط و نشاط صنائع خطیہ میں سے ہے ۔

    _______

    وہ میری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا

    راز مکتوب بہ بے ربطی عنواں سمجھا

    ’ یہ ‘ بیان سبب کے لئے اور عنوان مکتوب سے پیشانی اور راز مکتوب نے غم نہانی کو تشبیہ دی ہے ۔

    یک الف بیش نہیں صیقل آئینہ ہنوز

    چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

    یعنی جب سے میں گریبان کو گریبان سمجھا ، جب سے اُسے چاک کیا کرتا ہوں ، حاصل یہ ہے کہ جب سے مجھے اتنا شعور ہوا کہ تعلقات دُنیا مانع صفائے نفس ہیں جب ہی سے میں نے ترکِ دُنیا کیا ، لیکن اس پر بھی آئینۂ دل صاف نہیں ہوا ، بس ظاہر میں جو آزادوں کی سینہ پر ایک الف کھینچا ہوا ہوتا ہے وہ تو ہے صفائے باطن کچھ نہیں حاصل ہوئی اور گو بیانِ تعلقات دُنیا سے استعارہ ہے ، اس وجہ سے کہ یہ دونوں انسان کے گلوگیر ہیں ۔ سینہ پر الف کھینچنا آزادوں کا طریقہ ہے اور یہ مضمون فارسی والے کہا کرتے ہیں اور ’ بیش نہیں ‘ بیان حصر کے لئے ہے ، مگر اُردو کی نحو اس کی متحمل نہیں ، یہ فارسی کا ترجمہ ہے ۔

    شرح اسبابِ گرفتاری خاطر مت پوچھ

    اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا

    شرح کے لغوی معنی کھولنے کے ہیں ، لفظ تنگ کی مناسبت سے مصنف نے یہ لفظ باندھا ہے اور تنگیٔخاطر و انشراحِ خاطر میں بھی تقابل ہے اور گرفتگیٔخاطر کے مقام پر گرفتاریٔ خاطر لفظ زنداں کی رعایت سے اختیار کی ہے ۔

    بدگمانی نے نہ چاہا اُسے سرگرم خرام

    رُخ پہ ہر قطرۂ عرق دیدۂ حیراں سمجھا

    یعنی میری بدگمانی نے اُس کا سرگرم خرام ہونا نہ گوارا کیا ، اس لئے کہ خرام میں جو پسینہ اُسے آیا تو میں ہر قطرہ کو یہ سمجھا کہ رقیب کی چشم حیراں اُس کے رُخ پر پڑی ہے ، یہاں قطرۂ عرق میں مصنف نے فک اضافہ کیا ہے ۔

    عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بدخو ہو گا

    نبض خس سے تپش شعلہ سوزاں سمجھا

    عجز کو خس اور تند خوئی کو شعلہ سے تعبیر کیا ہے اور خس کو رگِ نبض سے تشبیہ دی اور تپش سے تپِ مقصود ہے ، اس شعر کو طعن و تشنیع کے لہجہ میں پڑھنا چاہئے ، شاعر اپنے اوپر آپ ملامت کرتا ہے کہ میں نے اپنی عجز و ناقابلیت سے یہ سمجھ لیا کہ وہ بدمزاج و تندخو ہو گا ، اُس سے احتراز کرنا چاہئے ، گویا نبض خس سے تپِ شعلہ کا حال معلوم کر لیا ، یہ بھی محال ہے اور وہ بھی غلط خیال ۔



    سفر عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی

    ہر قدم سایہ کو میں اپنے شبستاں سمجھا

    جہاں رات گذرے وہ شبستاں ہے یعنی ہر قدم پر اپنے سایہ کو دیکھ کر میں یہی سمجھا کہ رات ہو گئی اور مقام آگیا ۔

    تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دم مرگ

    دفع پیکانِ قضا اس قدر آساں سمجھا

    تادمِ مرگ کی لفظ سے یہ ظاہر کرنا منظور ہے کہ آخر نہ بچ سکا اور پیکانِ قضا سے مژہ کا استعارہ کیا ہے ۔

    دل دیا جان کے کیوں اُس کو وفادار اسدؔ

    غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا

    بے وفا کو وفادار جان کر دل دیا یعنی غلطی سے کافر کو مسلمان سمجھا ، دل و جان کا ضلع بھی اس میں بول گئے ہیں ۔

    _______

    پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

    دل جگر تشنۂ فریاد آیا

    دوسرے مصرع میں ’ آیا ‘ ’ ہوا ‘ کے معنی پر ہے ، فارسی کا محاورہ ہے ، اُردو میں اس طرح محاورہ نہیں بولتے ، حاصل یہ ہے کہ دل جگر تشنۂ فریاد ہوا تو مجھے دیدۂ تر یاد آیا کہ یہ پیاس اُسی سے بجھے گی یعنی رونا بھی فریاد کرنا ہے ، رونے سے دل و جگر کی خواہش فریاد پوری ہو جائیں گی یا دل تشنہ جگر کی پیاس اشکِ فریاد سے بجھے گی ۔

    دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

    پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا

    دم لینا یعنی ٹھہرنا اور سکون ہونا اور قیامت بے تابی و اضطراب سے استعارہ ہے ، یعنی اضطراب میں سکون ہونے نہ پایا تھا کہ پھر تیرا وداع ہونا اور سفر کرنا یاد آگیا ۔

    سادگی ہائے تمنا یعنی

    پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا

    پہلے مصرع میں سے ’ دیکھو ‘ محذوف ہے ، کہتے ہیں میری سادگی تمنا کو تو دیکھو یعنی جو بات کے محال ہے اور ہونے والی نہیں اُس کی خواہش و آرزو مجھے سادگی و نادانی سے پیدا ہوئی ہے ، یعنی پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا ’ وہ ‘ اشارہ ہے اس سامانِ عیش و عشرت کی طرف جسے آنکھیں دیکھ چکی ہیں اور جسے مصنف نے یہاں نیرنگ نظر سے تعبیر کیا ہے اور لفظ سادگی سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اُس عیش کے دیکھنے کی اب اُمید بھی نہیں ہے ۔

    عذر و اماندگی اے حسرتِ دل

    نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا

    حاصل یہ ہے کہ اے حسرتِ دل میرے عذر و اماندگی کو قبول کر ، میں چاہتا تھا کہ نالہ کروں مگر جگر کا خیال آگیا کہ شق نہ ہو جائے ، اس سبب سے نالہ نہ کیا ’ قبول کر ‘ پہلے مصرع میں محذوف ہے اور اس قسم کے محذوفات فارسی میں ہوتے ہیں ، اُردو کی زبان اس کی مساعد نہیں ، حذف سے شعر میں حسن پیدا ہو جاتا ہے مگر اُسی جگہ جہاں محاورہ میں حذف ہے ۔

    زندگی یوں بھی گذر ہی جاتی

    کیوں ترا راہ گذر یاد آیا

    کہتے ہیں کہ تیرا راہ گذر یاد آنے سے میری زندگی گذر گئی اور یہ بات اچھی ہوئی کہ میں زندگی سے بیزار تھا ، لیکن اُس کے یاد آنے سے ایسا اندوہ و قلق ہوا کہ کاش کہ نہ یاد آیا ہوتا ، زندگی تو کسی نہ کسی طرح کٹ ہی جاتی ۔

    کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی

    گھر ترا خلد میں گر یاد آیا

    یعنی وہ خلد کو ترجیح دے گا اور میں گھر کو تیرے یا میں خلد سے نکلنا چاہوں گا اور وہ مجھے روکے گا ۔

    آہ وہ جرأت فریاد کہاں

    دل سے تنگ آکے جگر یاد آیا

    یعنی وہ جگر جو مدت ہوئی کہ خون ہو گیا دل کی بے طاقتی اور کم جرأتی دیکھ کر یاد آگیا کہ اُس مرنے والے میں جیسی جرأتِ فریاد تھی وہ اس میں نہیں ہے ۔

    پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال

    دلِ گم گشتہ مگر یاد آیا

    یعنی تیرے کوچہ ہی میں دل کے گم ہو جانے کا احتمال ہے کہ خیال اسی طرف ڈھونڈھنے چلا ہے

    کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

    دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

    یہاں دشت کی ویرانی میں مبالغہ اس لئے کیا کہ گھر کی ویرانی میں زیادتی لازم آئی ، یعنی دشت میں ایسی ویرانی جیسے بعینہٖ میرے گھر میں تھی ، تشبیہ معکوس ہے ، مولوی الطاف حسین صاحب حالیؔ شاگردِ مصنف نے یہاں تشبیہ سے اعتراض کیا ہے ، انھوں نے یہ مطلب لیا ہے کہ دشت کو دیکھ کے ڈر لگا تو گھر یاد آیا کہ یہاں سے بھاگو یہ مطلب بھی محاورہ سے علاحدہ نہیں ہے ۔

    میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ

    سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

    یعنی پھر اپنے ہی سر میں مار لیا ۔

    _______

    ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

    آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

    یعنی رقیب روکے ہوئے تھا ۔

    تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ

    اُس میں کچھ شائبۂ خوبی تقدیر بھی تھا

    تقدیر کی برائی کو تشنیع کی راہ سے خوبی تقدیر کہا ہے ۔

    تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلادوں

    کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

    وہ میں ہی ہوں ۔

    قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد

    ہاں کچھ اک رنج گرانباری زنجیر بھی تھا

    یادِ زلف کے مقابلے میں قیدِ زنجیر کو بہت ہی سبک کرکے بیان کیا تاکہ یادِ زلف کی گراں باری بالتزام ظاہر ہو ۔

    بجلی اک کوند گئی آنکھ کے آگے تو کیا

    بات کرتے کہ میں لبِ تشنۂ تقریر بھی تھا

    یعنی ایک جھلک دکھاکر ہٹ گئے تو کیا بات کی ہوتی کہ مجھے اُس کی بھی تمنا ہے ’ کرتے ‘ مرتے وغیرہ تمنا کے لئے ہوا کرتا ہے ۔

    یوسف اُس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی

    گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا

    یعنی اس بات پر وہ اگر بگڑے کہ تم نے مجھے غلام بنایا تو جا سے ہے ۔

    دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجہ ٹھنڈا

    نالہ کرتا تھا ولے طالبِ تاثیر بھی تھا

    مطلب یہ کہ غیر کو برے حالوں دیکھ کر آلخ اور دوسرے مصرع میں فاعل یعنی ’ میں ‘ محذوف ہے اور ’ ولے ‘ فارسی کا محاورہ ہے ، اب اُردو میں متروک ہے ۔

    پیشے میں عیب نہیں رکھئے نہ فرہاد کو نام

    ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا

    ہم ہی اور تم ہی اور اُس ہی اور انھیں کی جگہ پر ہمیں اور تمہیں اور اُسے اور اُنھیں اب محاورہ میں ہے اور یہ کلمات اپنی اصل سے تجاوز کرگئے ہیں ۔

    ہم تھے مرنے کو کھڑے یار نہ آیا نہ سہی

    آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا

    یعنی پاس نہ آیا تھا تو دُور سے کوئی تیر ہی مار دیا ہوتا ۔

    پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

    آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا ؟

    ’ ہمارا ‘ کے بعد ’ بھی ‘ کے لانے کا محل تھا ، مگر ضرورت شعر سے اُسے آخر میں کر دیا ہے ، اس شعر میں محض ظرافت و لطیفہ گوئی کا قصد کیا ہے کہ کچھ انبساطِ نفس اس سے بھی حاصل ہوتا ہے ۔

    ریختی کے تمہیں اُستاد نہیں ہو غالبؔ

    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    معنی ظاہر ہیں ۔

    _______

    لب خشک در تشنگی مردگاں کا

    زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا

    پہلے مصرع میں سے بھی ’ ہوں ‘ محذوف ہے اور تشنگی استعارہ ہے ، شدت آرزو و شوق سے ۔

    ہمہ نا اُمیدی ہمہ بدگمانی

    میں دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا

    پہلا مصرع بالکل فارسی ہے ، اس سبب سے کہ ہمہ ایسے مقام پر اُردو میں نہیں بولتے ۔

    _______

    تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا

    اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

    ستمگر منادی ہے ۔

    چھوڑا مہ نخشب کی طرح دستِ قضا نے

    خورشید ہنوز اُس کے برابر نہ ہوا تھا

    یعنی خورشید ناقص ہی رہ گیا ، جس طرح مشہور ہے کہ ماہ نخشب ابن مقنع سے ناقص رہ گیا ۔

    توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے

    آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا

    یعنی اگر قطرۂ اشک بھی گوہر ہو گیا ہوتا تو یہ عزت کہاں حاصل ہوئی کہ آنکھوں میں اُس کی جگہ ہے ، قطرۂ گوہر کی ہمت قطرۂ اشک سے کم نہ تھی ، اس وجہ سے وہ کانوں ہی تک پہنچتا ہے ، آنکھوں میں جگہ نہیں پاسکتا ۔

    جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم

    میں معتقد فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

    قیامت کو قیامت سے تشبیہ دی ہے کہتے ہیں کہ قدِ یار کو دیکھ کر وجود فتنۂ محشر کا مجھے یقین آیا ۔

    میں سادہ دل آزردگی یار سے خوش ہوں

    یعنی سبق شوق مکرر نہ ہوا تھا

    ہر اُس کی آزردگی سے جو تجدید شوق ہوئی ، اُسے تکرارِ سبق سے تعبیر کیا ہے ۔

    دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک

    میرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

    محاورہ میں گناہ گار کو تر دامن کہتے ہیں ، مطلب یہ ہے میرے دامن نے سارا دریائے معاصی جذب کر لیا کہ وہ خشک رہ گیا اور پھر بھی گوشۂ دامن تک اچھی طرح تر نہ ہوا یعنی جتنے معاصی تھے سب میں نے کئے اُس پر بھی میرا جی نہیں بھرا ۔

    جاری تھی اسدؔ داغ جگر سے مرے تحصیل

    آتش کدہ جاگیر سمندر نہ ہوا تھا

    اس شعر میں اپنا مقابلہ سمندر سے اور داغ کا آتش کدہ سے کیا ہے اور داغ کو ترجیح دی ہے کہ اُس سے تحصیل جاری ہے یعنی اُس کے سبب سے جو آہ و نالہ پیہم نکلتا ہے وہی تحصیل ہے تو گویا داغ دل میری جاگیر ہے سمندر کو آتش کدہ سے یہ فائدہ نہیں حاصل ۔

    _______

    شب کو وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا

    شرشتۂ ہر شمع خار کسوتِ فانوس تھا

    ناموس عصمت دراز اور لباس میں خار کا رہ جانا باعثِ بے چین ہونے کاہے ، عرض یہ کہ اُس کے سامنے شمع بے چین ہوئی جارہی تھی گویا اُس کے لباس میں خار تھا ۔

    مشہد عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا

    کس قدر یارب ہلاکِ حسرتِ پا بوس تھا

    یعنی اس کی خاک سے مہندی اُگتی ہے کہ اس طرح معشوق کے قدم تک پہنچ جائے ۔

    حاصل اُلفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو

    دل بدل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھا

    ایک دل عاشق کا اور ایک معشوق کا دونوں مل کر لبِ افسوس بن جاتے ہیں ۔

    کیا کہوں بیماری غم کی فراغت کا بیاں

    جو کہ کھایا خونِ دل بے منت کیموس تھا

    ’ کیا کہوں ‘ یعنی کیا کروں ’ جو کہ ‘ یعنی جو کچھ اور کیموس اصطلاح طب میں ہضم جگری کو کہتے ہیں ، جس سے غذا مستحیل ہوکر خون بن جاتی ہے کہتے ہیں میں نے جو کچھ کھایا بے کیموس ہوئے وہ خون جگر ہو گیا یعنی بیماری غم میں میں نے خون جگر ہی کھایا اور خون جگر کھانا غم و غصہ کھانے کے مقام پر کہتے ہیں ۔

    _______

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے

    صاحب کو دل نہ دینے پہ اتنا غرور تھا

    یعنی کچھ غرور نہ چلا اپنے اُوپر فریفتہ ہو گئے ۔

    قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے

    اُس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا

    یعنی انتہائے رشک یہ ہے کہ وہ کسی کو قتل بھی کرے تو نہیں دیکھا جاتا اور یہ آرزو ہوتی ہے کہ ہمیں قتل کرے ’ اپنے ہاتھ ‘ کی لفظ سے مصنف نے رشک کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

    _______



    عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا

    جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

    یعنی بے وفائی و بے اعتنائی کے صدمے اُٹھاتے اُٹھاتے اب وہ دل ہی نہیں رہا کہ عشق سے نیازمندی کا دعویٰ کریں ۔

    جاتا ہوں داغِ حسرت ہستی لئے ہوئے

    ہوں شمع کشتہ درخور محفل نہیں رہا

    محفل استعارہ ہے ہستی سے ۔

    مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں

    شایان دست و بازوئے قاتل نہیں رہا

    ناقص و کامل دونوں کے سامنے شش جہت موجود ہے اور دونوں سرخلقت کے سمجھنے میں حیران ہیں اور اس آئینہ میں دونوں دیکھ رہے ہیں ، دونوں کی ایک صورت ہے ، ناقص و کامل میں یہاں کچھ فرق نہیں ، دوسرا احتمال یہ ہے کہ روئے شش جہت کہا ہو مصنف نے اور معنی یہ ہیں کہ جس طرح آئینہ قبول عکس میں کچھ امتیاز نہیں کرتا یہی حال ہے بہ تمثیل عارف کے دل روشن کا ۔

    وا کر دیے ہیں شوق نے بند نقابِ حسن

    غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

    یعنی ناظر اور مرئی کا امتیاز جو باقی ہے یہی بس حائل ہے ، اس سبب سے کہ آنکھ اُس کو نہیں دیکھ سکتی اور اُس کے علاوہ جو حجاب تھے وہ کثرتِ شوق نے اُٹھادئیے ۔

    گو میں رہا رہین ستمہائے روزگار

    لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

    یعنی کسی حال میں میں تجھے نہیں بھولا ۔

    دل سے ہو ائے کشت وفا مٹ گئی کہ واں

    حاصل سو ائے حسرت حاصل نہیں رہا

    یعنی وفا کا حوصلہ اب نہیں رہا کہ وفا کرکے حسرت کے سوا کچھ نہ پایا ۔

    بیداد عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ

    جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

    یعنی جب دل نہیں رہا تو بیداد کون اُٹھائے گا ۔

    _______

    رشک کہتا ہے کہ اُس کا غیر سے اخلاص حیف

    عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

    یعنی عقل معشوق کی برائی مجھے سمجھاتی ہے تاکہ رشک کا قلق کم ہو جائے یہ سمجھ کر کہ جس طرح اُس نے ہمارے ساتھ بے وفائی کی غیر سے بھی یوں نہیں پیش آئے گا ۔

    ذرّہ ذرّہ ساغر میخانۂ نیرنگ ہے

    گردش مجنوں بچشم کہائے لیلیٰ آشنا

    یعنی عالم کا ہر ذرّہ جو گردش و انقلاب میں مبتلا ہے ، یہ نیرنگ فلک کے اشارہ سے ہے ، یہاں لفظ ساغر سے معنی گردش نے تراوش کی اور اسی رعایت سے نیرنگ کو میخانہ سے تعبیر کیا ہے ، اس کے بعد برسبیل تمثیل کہتے ہیں کہ مجنوں کی گردش لیلیٰ ہی کے اشارہ سے ہے ۔

    شوق ہے سامان طرز نازش ارباب عجز

    ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا

    عاجزوں کا سرمایہ ناز شوق ہے ، جس کے سبب سے ذرّہ انا البر اور قطرہ انا البحر کہنے لگتا ہے ۔

    میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہے

    عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

    ’ ہوں ‘ محذوف ہے یعنی میں ہوں اور وہ دل جو دشمن عافیت ہے ، ظاہر ہے کہ آفت کوئی ایسی شئے نہیں ہے جس کا ٹکڑا بھی ہو ، مگر محاورہ میں قیاس کو دخل ہی نہیں ، اسی طرح پری کا ٹکڑا ، حور کا ٹکڑا بھی محاورہ ہے ، چاند کا ٹکڑا لبتہ معنی رکھتا ہے اور پہلے بھی محاورہ تھا ، اُس کے بعد پری کا ٹکڑا اور حور کا ٹکڑا اور آفت کا ٹکڑا اسی قیاس پر کہنے لگے اور اب سب صحیح ہیں ۔



    شکوہ سنج رشک ہمدیگر نہ رہنا چاہئے

    میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا

    یعنی تم آئینہ میں ہر وقت مشغول رہو تو میں شکایت نہیں کرتا اور میں ہمیشہ سر بزانو رہوں تو تم برا نہ مانو ، شعرا زانو کو آئینہ سے تشبیہ دیا کرتے ہیں ۔



    کوہکن نقاش یک تمثال شیریں تھا اسدؔ

    سنگ سے سر مارکر ہووئے نہ پیدا آشنا

    یعنی فقط نقاش تھا عاشق صادق نہ تھا نہیں تو تعجب ہے کہ سنگ سے سر مارے اور اُس میں سے معشوق نکل نہ آئے ۔

    _______
     
  25. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا

    بن گیا رقیب آخر جو تھا رازداں اپنا

    یعنی وہ بھی عاشق ہو گیا اس سبب سے ایک تو ذکر ہی دلفریب ، دوسرے اُس شخص کی زبان سے جو فریفتہ ہورہا ہے اور پھر سحر بیان بھی ہے ۔

    مے وہ کیوں بہت پیتے بزم غیر میں یارب

    آج ہی ہوا منظور ان کو امتحاں اپنا

    یعنی مے کشی میں اُن کو اپنا امتحان منظور تھا تو کاش کہ میرے ساتھ شراب پی کر بے ہوش ہوئے تھے ، شکایت خدا سے یہ ہے کہ آج ہی اُس کے دل میں یہ بات آنا تھی ، یہاں پی گئے کے مقام پر پیتے مصنف مرحوم نے باندھا ہے جس سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ بھلا بزم غیر میں وہ کیوں بہت سی شراب پیتے ، یہ میری بدقسمتی ہے کہ آج میرے گھر میں آئے تو بہت سی شراب پی گئے ۔

    منظر اک بلندی پر اور ہم بناسکتے

    عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا

    یعنی کاش کہ ہمارا مکاں عرش سے اس طرف ہوتا کہ ہم عرش پر منظر بناکر اپنے مقام کو دیکھ سکتے ، لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے مکان سے بلند کوئی جگہ ہی نہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ ہم اپنی حقیقت و ماہیت سے بے خبر ہیں ۔

    دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے

    بارے آشنا نکلا اُن کا پاسباں اپنا

    یعنی اُن کا پاسباں بارے اپنا آشنا نکلا ۔

    درد دل لکھوں کب تک جاؤں اُن کو دکھلادوں

    اُنگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا

    خامہ کا خونچکاں ہونا ایک تو مضمون خونچکاں کے سبب سے ہے ، دوسرے اُنگلیوں کے فگار ہونے کے سبب سے ہے ۔

    گھستے گھستے مٹ جاتا ہے آپ نے عبث بدلا

    ننگِ سجدہ سے میرے سنگ آستاں اپنا

    یعنی میں اتنے سجدے کرتا کہ پتھر گھس جاتا ۔

    تاکرے نہ غمازی کر لیا ہے دُشمن کو

    دوست کی شکایت میں ہم نے ہم زباں اپنا

    یعنی تاکہ معشوق سے جاکر یہ ذکر نہ کرے کہ میں شکایت کیا کرتا ہوں ۔

    ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے

    بے سبب ہوا غالبؔ دُشمن آسماں اپنا

    غرض یہ ہے کہ عقیل و ہنر دُشمنی فلک کا باعث ہوا کرتا ہے ۔

    _______

    سرمۂ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے

    کہ رہے چشم خریدار پہ احساں اپنا

    یعنی میرے کلام کا فیض عام ہے اور اس سے انتفاع مفت ہے جیسے آنکھیں سینک لینا مفت میں ہر شخص کو حاصل ہے ، لذتِ نظر کو سرمۂ مفت سے تشبیہ دی ہے اور سرمۂ صفت کی اضافتِ نظر کی طرف تشبیہی ہے ۔

    رخصت نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم

    تیرے چہرہ سے ہو ظاہر غم پنہاں اپنا

    یعنی نالہ نہ کرنے سے دل ہی پر غم نہانی کا اثر پڑے گا اور میرے دل سے تیرے دل کو بھی راہ ہے

    _______

    غافل بہ و ہم ناز خود آرا ہے ورنہ یاں

    بے شانۂ صبا نہیں طرہ گیاہ کا

    یعنی لوگ سر حقیقت سے غافل ہیں ، اُن کی طبیعت میں جو ایک مادہ فخر و ناز ہے اُس نے یہ وہم پیدا کر دیا ہے کہ ہم نے یہ کیا اور ہماری تدبیر سے یہ بن پڑا ، حالاں کہ جو کچھ ہے سب اُسی طرف سے ہے ، اس شعر میں لطفِ الٰہی کو بادِ صبا سے تشبیہ دی ہے ۔

    بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ

    صید زدام جستہ ہے اس دام گاہ کا

    بزم قدح یعنی بزمِ شراب ۔ رنگ یعنی عیش ۔ دام گاہ دُنیا سے استعارہ ہے ۔ عیش تمنا نہ رکھ ترجمہ فارسی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ عیش کی تمنا نہ رکھ ۔

    رحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہے

    شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا

    ’ شرمندگی سے ‘ مفعول لہ ہے عذر نہ کرنے کا اور ’ عذر نہ کرنا ‘ مفعول یہ ہے قبول کرنے کا ’کیا بعید ہے ‘ جو اب شرط ۔

    مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے

    پر گل خیال زخم سے دامن نگاہ کا

    یعنی ظاہر میں گل سے زخم کو تشبیہ دی ہے ۔

    جاں در ہوائے ایک نگہ گرم ہے اسدؔ

    پروانہ ہے وکیل تیرے داد خواہ کا

    معشوق سے خطاب ہے کہ تیر داد خواہ یعنی اسدؔ جاں درہو ایک نگہ گرم ہے اور اسدؔ جان در ہوا ہے ، یہ ویسی ہی ترکیب ہے جیسے کہیں فلاں سر بکف ہے یا پادر رکاب ہے ، پھر جان کو درہوائے نگہ گرم میں ہونے کی وجہ سے پروانہ سے تشبیہ دی ہے ۔ حاصل یہ کہ اسدؔ کی جان ایک نگاہ گرم کی آرزو میں ہے گویا تیرے داد خواہ کا وکیل پروانہ کا سا حوصلہ رکھتا ہے کہ جل جانے کی خواہش کرتا ہے ۔

    _______

    جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

    کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

    یعنی اب شرمندگی سے منہ نہیں دکھلاتے یہ بھی میرے لئے ستم ہے ۔

    رات دن گردش میں ہیں سات آسماں

    ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

    توکل کی طرف ترغیب ہے ۔

    لاگ ہو تو اُس کو ہم سمجھیں لگاؤ

    جب نہ ہو کچھ ہی تو دھوکا کھائیں کیا

    یعنی وہ عداوت بھی کرتا تو ہم لگاوٹ سمجھتے ۔

    ہو لئے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ

    یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

    یارب اس شعر میں ندا کے لئے نہیں ہے بلکہ اظہارِ استعجاب کے لئے ہے ۔

    موج خوں سر سے گذر ہی کیوں نہ جائے

    آستانِ یار سے اُٹھ جائیں کیا

    ’ کیا ‘ دوسرے مصرعہ میں تحقیر کے لئے ہے ۔

    عمر بھر دیکھا کئے مرنے کی راہ

    مرگئے پر دیکھئے دکھلائیں کیا

    یعنی زندگی بھر تو اُنھوں نے مرنے کی راہ دکھلائی مرگئے پر جانے کیا دکھلائیں ۔

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

    کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

    ’ ہم بتلائیں کیا ‘ ایسے مقام پر محاورہ میں ہے ، جہاں پوچھنے والا جان بوجھ کر جاہل بنتا ہے یعنی تعجب ہے کہ وہ غالبؔ کو ایسا بھول گئے جیسے کبھی کی شناسائی نہ تھی ۔

    _______

    لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی

    چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا

    یعنی جب آئینہ صبا میں زنگ لگا تو سبزہ زار پیدا ہوا ، یہ تمثیل ہے اس بات پر کہ بے تعلق مادہ جلوہ مجردات نہیں ہوسکتا ۔

    حریف جو شش دریا نہیں خودداری ساحل

    جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا

    ساقی کو دریائے پر جوش سے تشبیہ دی ہے اور ساحل کو اپنے آغوش سے مطلب یہ ہے کہ تجھے آغوش میں لے کر اور تیرے ہاتھ سے شراب پی کر ہوش کہاں ساحل کی خودداری و پاداری دریائے پرجوش کے آگے کہیں چل سکتی ہے ۔

    _______

    عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

    درد کا حد سے گذرنا ہے دوا ہو جانا

    درد کا حد سے گذرنا یعنی فنا کر دینا اور فنا ہونا عین مقصود ہے ۔

    تجھ سے قسمت میں مری صورت قفل ابجد

    تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

    ’ تجھ سے جدا ہو جانے ‘ سے متعلق ہے اور ’ قسمت میں ‘ متعلق ہے ’ تھا لکھا ‘ سے اور جدا ہو جانے سے قفل کا کھلنا مراد ہے کہ جب حروف مرتب ہوکر وہ کلمہ بنتا ہے جو واضع نے معین کر دیا ہو تو قفل ابجد کھل جاتا ہے اور بات کا بننا تدبیر کے بن پڑنے کو کہتے ہیں ۔

    دل ہوا کشمکش چارۂ زحمت میں تمام

    مٹ گیا گھسنے میں اس عقدہ کا وا ہو جانا

    زحمت دل کے رفع کرنے کی تدبیروں سے وہ کشمکش ہوئی کہ دل ہی تمام ہو گیا ، گویا ایک گرہ تھی گھس گئی ۔

    اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ

    اس قدر دشمن اربابِ وفا ہو جانا

    مطلب ظاہر ہے اور تعریف اس کی امکان سے باہر ہے ، معشوق کی خفگی کی تصویر ہے اور خفگی بھی خاص طرح کی اور یہ مضمون بھی خاص مصنف ہی کاہے ۔

    ضعف سے گریہ مبدل بہ دم سرد ہوا

    باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

    یعنی مسئلہ استحالہ عناصر پہلے ہماری سمجھ میں نہ آیا تھا ، اب امتحان ہو گیا تو باور ہو گیا ۔

    دل سے مٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال

    ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا

    کہتے ہیں کہ گوشت سے بھی کہیں ناخن جدا ہوا ہے ، یعنی ان دونوں میں مفارقت نہیں ہوسکتی ، دل سے خیال دست حنائی نہیں نکل سکتا ۔

    ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھلنا

    روتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جانا

    یعنی روتے روتے مرجانا میرے لئے باعثِ مسرت ہے ، میں اُسے یہ جانتا ہوں کہ جیسے ابر برس کر کھل گیا اور باعثِ نشاط ہوا ، خوبی اس میں تازگی تشبیہ کی ہے ۔

    گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچہ کی ہوس

    کیوں ہے گردِ رِ ہ جولانِ صبا ہو جانا

    یعنی پھر فعل اُس کا کیوں ہے کہ صبا گرد راہ بن جاتی ہے ، یعنی صبا کے ساتھ تیرے کوچے میں آنے کی ہوس رکھتی ہے ، ردیف محاورہ سے گری ہوئی ہے ۔

    تاکہ تجھ پر کھلے اعجاز ہوائے صیقل

    دیکھ برسات میں سبز آئینے کا ہو جانا

    برسات میں آئینۂ فولاد پر زنگ پڑجاتا ہے ، وہ گویا سبزہ ہے جسے ہوائے صیقل نے پیدا کیا ہے ، ہوا بمعنی خواہش و شوق ہے ، حاصل یہ ہے کہ شوق وہ چیز ہے کہ فولاد پر بھی اثر کرتا ہے ۔

    بخشے ہے جلوۂ گل ذوقِ تماشا غالبؔ

    چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا

    یعنی باغ میں رنگ رنگ کے پھول کھلے ہوئے دیکھ کر یہ ذوق پیدا ہوتا ہے کہ اسی طرح ہر رنگ میں آنکھ کو وا کرنا چاہئے اور ہر طرح کی سیر کرنا چاہئے ۔ بخشے کا فاعل جلوۂ گل ہے اور مفعول بہ ذوق تماشا ہے اور دوسرا مصرع ذوقِ تماشا کی تفسیر ہے ۔
     
  26. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ردیف ( ب )


    پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موجِ شراب

    دے بط مے کو دل دوست شنا موجِ شراب

    شراب کا شہپر موج سے پرواز کرنا استعارہ ہے جوشِ شراب سے اور وقت سے فصل بہار مراد ہے ، جس کی حرارت سے غلیان و جوش شراب میں پیدا ہوتا ہے اور ربط سے دل دست شنا دینے سے یہ مراد ہے کہ خود شراب پر جوش اُس کا دل ہو گی اور دست ساقی اس کے لئے دست شنا ہو گا ، یعنی اُس کے ہاتھ سے حلقہ زنداں میں وہ شنا کرے گی ، خود شیشے کو بھی دل سے تشبیہ دیتے ہیں ۔

    پوچھ مت وجہ سیہ مستیٔ اربابِ چمن

    سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہوا موجِ شراب

    یعنی سایۂ تاک میں ہوا ایسی طرب انگیز ہے گویا موجِ شراب بن گئی ہے ، سیہ مستی کا لطف سایہ سے بہت مناسبت رکھتا ہے ۔

    جو ہوا غرقہ مے بخت رسا رکھتا ہے

    سر سے گذرے پہ بھی ہے بال ہما موجِ شراب

    یہ بات مشہور ہے کہ ہما کا سایہ جس کے سر پر پڑجائے وہ اقبال مند و صاحب بخت بلند ہوتا ہے اور موجِ شراب کا سر سے گذر جانا ، اُس کے نشہ کا دماغ میں چڑھ جانا مراد ہے اور غرق مے ہونے سے نشہ میں ڈوب جانا مقصود ہے ، دوسرا پہلو یہ نکلتا ہے کہ ہم سر سے گذر بھی جائیں یعنی میکشی کے پیچھے تباہ ہو جائیں تب بھی موج مے بال ہما سے کم نہیں ہے ۔

    ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر

    موجِ ہستی کو کرے فیض ہوا موجِ شراب

    ہوائے بہار سے جو ایسے ایسے انقلاب ہوتے ہیں کہ جہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چٹیل میدان تھے وہ سبزہ زار بن جاتے ہیں ، جن مقاموں میں جھاڑ جھنکاڑ اور خارزار تھا وہاں جوش لالہ و گل دکھائی دیتا ہے تو اس انقلاب و کون و فساد و جوش و نشوونما کے بیان میں شعراء ہمیشہ صنعت اغراق کو استعمال کرتے ہیں جیسے عرفی نے کہا ہے اخگر از فیض ہوا سبز شود درمنقل یعنی انگیٹھی میں دانہ اخگر سے اکھوے پھوٹتے ہیں یا سوداؔ جیسے اسی زمین میں کہتے ہیں شاخ سے گاؤز میں کے نکل آئی کوپل وجہ اس کی یہ ہے کہ شعر میں معنی صیر ورت یعنی کسی شئے کا کچھ سے کچھ ہو جانا بڑا لطف دیتا ہے ۔ دوسرا سبب اس مضمون پر شعراء کے توجہ کرنے کا یہ ہے کہ جب تشبیہ میں حرکت وجہ شبہ ہو تو وہ تشبیہ ہی بہت بدیع ہوتی ہے اور یہاں چنگاری میں سے اکھوے پھوٹنا یا شاخ گاؤ میں سے کوپل نکلنا حرکت سے خالی نہیں ، غرض کہ مصنف نے بھی فیض ہوا کہ بیان میں یہاں اغراق کیا ہے کہ ہستی گذران کو موسمی تشبیہ دی اور اس موج کو فیض ہوا سے موجِ شراب بنادیا نشاط آور ہونے کی مناسبت سے ۔

    چار موج اُٹھتی ہیں طوفانِ طرب سے ہر سو

    موجِ گل موجِ شفق موجِ صبا موجِ شراب

    جوش طرب کو دریائے طوفاں خیز سے تشبیہ دی ہے ، جس کی موجیں دوسرے مصرع میں بیان کی ہیں اور اس تشبیہ میں بھی وجہ شبہ حرکت ہے ۔

    جس قدر روح بناتی ہے جگر تشنۂ ناز

    دے ہے تسکین بہ دم آبِ بقا موجِ شراب

    روح ثباتی سے فوت تامیہ مراد ہے کہ جو انسان میں بھی ہے مطلب یہ ہے کہ ہم میں شراب سے جو اُمنگ اور جوش پیدا ہوتا ہے وہ قوتِ تامیہ کی حرکت ہے ، یعنی شراب قوتِ تامیہ کے حق میں وہ کام کرتی ہے جو کام کہ بارش نباتات کے حق میں کرتی ہے اور ناز سے یہاں اینڈنا اور مٹنا مقصود ہے جو کہ لوازم فخر و ناز سے ہے اور نشوونما کے خواص سے ہے ۔

    بسکہ دوڑے ہے رگ تاک میں خون ہو ہوکر

    شہپر رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب

    یعنی جس طرح خون رگوں میں دوڑتا ہے ، اسی طرح بیلوں میں مادۂ شراب دوڑ رہا ہے اور اُس کے سبب سے بیلیں سر سبز و شاداب ہیں تو اُس کا دوڑنا پرواز ہے اور یہ سر سبزی اور رنگینی شہپر پرواز ہے لفظ خون میں نون کا اعلان فصیح سمجھتے ہیں اور بعض بعض شعراء بغیر اعلان اس لفظ کو استعمال بھی نہیں کرتے ۔

    موجۂ گل سے چراغاں ہے گذرگاہ خیال

    ہے تصور میں زبس جلوہ نما موجِ شراب

    اس شعر میں موجِ شراب کو پہلے موجِ گل سے تشبیہ دی ہے ، پھر چراغاں سے تشبیہ دی اور چراغاں کی مناسبت سے خیال کو گذرگاہ سے تعبیر کیا ہے ۔ یعنی خیال موجِ شراب کیا ہے موجِ گل ہے ، موجِ گل کیا ہے گذرگاہ تصور میں چراغاں ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ موجِ شراب کو چراغاں سے اگر تشبیہ دیں تو کوئی وجہ شبہ نہیں ہے ، ہاں موجِ شراب کو موجِ گل سے تشبیہ دیں تو وجہ شبہ رنگ دونوں میں موجود ہے اور موجِ گل کو چراغاں سے تشبیہ تام ہے ، یعنی ہر ہر گل کی افروختگی شعلہ چراغ سے مشابہ ہے ۔ حاصل یہ کہ موجِ گل کو چراغاں سے مشابہت ہے اور موجِ شراب کو موجِ گل سے مشابہت ہے ۔ تو تصورموجِ شراب سے گذرگاہ خیال میں چراغاں ہورہا ہے ، اس سبب سے کہ مشابہ کا مشابہ بھی مشابہ ہوتا ہے لیکن ایک مشبہ بہ سے دوسرے مشبہ بہ پر تجاوز کرنے میں وجہ شبہ کا اتحاد شرط ہے ، وہ یہاں نہیں پایا جاتا یعنی موجِ شراب و موجِ گل میں وجہ شبہ مفرد ہے اور موجِ گل و چراغاں میں وجہ شبہ مرکب ہے ۔



    نشے کے پردہ میں ہے محو تماشائے دماغ

    بسکہ رکھتی ہے سر نشوونما موجِ شراب

    یعنی شراب کو نشوونما کا جو خیال تھا تو نشہ بن کر دماغ میں چڑھ گئی اور خیال و دماغ و سر باہم الفاظ مناسب ہیں ۔

    ایک عالم پہ ہیں طوفانی کیفیت فصل

    موجۂ سبزۂ نوخیز سے تاموج شراب

    یعنی موجِ شراب و موج سبزہ نے کیفیت فصل بہار یعنی نشاط و طرب کا طوفان ایک عالم کے لئے اُٹھا رکھا ہے ۔

    شرح ہنگامۂ ہستی ہے زہے موسمِ گل

    رہبر قطرہ بہ دریا ہے خوشا موج شراب

    یعنی نشوونمائے گل دریا حین یہ کہہ رہی ہے کہ دیکھ اس طرح ہنگام ہستی گرم ہوا ہے اور یوں ہی بدو آفرینش میں موجودات کا ظہور ہوا ہے اور موجِ شراب عالم ہستی سے بے صبر و سرشار کرکے قطرہ کو دریا تک پہنچاتی ہے اور روح کو اُس کے مرجع سے ملحق کر دیتی ہے ۔

    ہوش اُڑتے ہیں مرے جلوۂ گل دیکھ اسدؔ

    پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشاموجِ شراب

    اُڑنے کا لفظ بال کی مناسبت سے لائے ہیں دیکھ اس شعر میں دیکھ کرکے مقام پر ہے اور ممکن ہے کہ امر کا صیغہ ہو ۔
     
  27. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ردیف ( ت )


    افسوس کہ دید ان کا کیا رزق فلک نے

    جن لوگوں کی تھی درخورِ عقد گہر انگشت

    دودہ کیڑے کو کہتے ہیں ، اس کی جمع ہے دودا اور دیدان جمع الجمع ہے یعنی جو اُنگلیاں سلک گہر کے قابل تھیں انھیں کیڑے لپٹے ہوئے کھارہے ہیں سلک گہر کیڑوں سے مشابہت ہے ۔



    کافی ہے نشانی تری چھلے کا نہ دینا

    خالی مجھے دکھلا کے بوقتِ سفر انگشت

    نشانی اسی واسطے ہوتی ہے کہ نشانی دینے والے کو ہر وقت یاد دلوایا کرے ، تیرے اس التفات کو کہ چلتے چلتے نشانی نہ دینے کے عذر میں چھنگلیا مجھے دکھادی دیکھ لو خالی ہے ، میں کبھی نہ بھولوں گا بس تیرے یاد رکھنے کو یہی کافی ہے یا یوں سمجھو کہ شوخی سے اُس نے چھلا چھپاکر اُنگوٹھا دکھا دیا ۔

    لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخن گرم

    تارکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت

    گرمی سخن خوبی سخن کے معنی پر ہے اور انگشت رکھنا عیب نکالنے کے معنی پر ہے ۔

    _______

    رہا گر کوئی تاقیامت سلامت

    پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت

    ’ ہے ‘ اس شعر میں اور ہی معنی رکھتا ہے ، یہ معنی فرض و وجوب پر دلالت کرتا ہے لیکن مصدر کے ساتھ ان معنی پر زیادہ آتا ہے کہتے ہیں مجھے ایک خط لکھنا ہے اور کئی خط لکھنے ہیں اور کتاب لکھنی ہے اور کتابیں لکھنی ہیں اور لکھنؤ کے بعض شعراء جو دعویٰ تحقیق رکھتے ہیں مصدر کو قابل تعریف نہیں سمجھتے اور اُس کے افراد اور جمع و تذکیر و تانیث کو غلط سمجھتے ہیں وہ یوں کہتے ہیں مجھے ایک خط لکھنا ہے اور کئی خط لکھنا ہیں اور کتاب لکھنا ہے اور کتابیں لکھنا ہیں ، لیکن یہ محاورے میں قیاس ہے جو قابل قبول نہیں ہے یہ کہ وہ بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح دونوں طرح بولتے ہیں ۔

    جگر کو مرے عشق خون نابہ مشرب

    لکھے ہے خداوند نعمت سلامت

    یعنی عشق نے میرا خونِ جگر پی کر پرورش پائی ہے جبھی تو اس القاب سے لکھتا ہے ۔

    علی الرغم دُشمن شہید وفا ہوں

    مبارک مبارک سلامت سلامت

    مبارک اس سبب سے کہ رقیب کے خلاف مراد ہے اور سلامت اس لئے کہ شہید وفا ہوا اور شہادت زندگانی جاوید ہے ۔

    نہیں گر سرو برگِ ادراکِ معنی

    تماشائے نیرنگ صورت سلامت

    عالم معنی تک رسائی نہیں تو نہ سہی عالم صورت کا نیرنگ و انقلاب سلامت رہے کہ یہ آئینہ شاہد معنی ہے ، یعنی عالم اجسام کے انفعالات و آثار وجود فاعل و مؤثر پر دلیل تام ہیں ، مشاہدہ نہیں ہوا نہ سہی ادراک کند نہ ہوا نہ ہو ، اذعان تو ان سے بھی حاصل ہے ۔

    مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ

    یار لائے مری بالیں پہ اُسے کس وقت

    آنکھ بند ہو جانا موت سے کنایہ ہے اور اس زمین میں یہی ایک شعر ہے اس کو بھی نکال ڈالنا چاہئے تھا ۔ آگے اسی مضمون کا ایک شعر موجود ہے :

    مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہے ہے

    خوب وقت آئے تم اس عاشق بیمار کے پاس

    _______

    آمد خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست

    دودِ شمع کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

    یعنی خط کے آنے سے خریدار کم ہو گئے اور بازار عشق سرد ہو گیا تو گویا خط بجھی ہوئی شمع کا دھواں ہے کہ اُس دھوئیں کا اُٹھنا اور گرمی بازار و فروغ حسن کا زوال شمع سے ساتھ ہی ہو جاتا ہے ۔

    اے دل ناعاقبت اندیش ضبطِ شوق کر

    کون لاسکتا ہے تاب جلوۂ دیدار دوست

    ناعاقبت اندیش کے لفظ سے واقعہ طور کی طرف اشارہ کیا ہے ۔

    خانہ ویراں سازیِ حیرت تماشا کیجئے

    صورت نقش قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست

    نقش قدم کے صفات میں سے حیرت شعراء میں مشہور ہے کہتے ہیں کہ جس طرح نقش قدم جس کی رفتار کو دیکھ کر چشم حیرت بن گیا ہے ، اسی طرح میں بھی وارفتہ خرام ہوں اور یہ خانہ ویرانی حیرت نے کی ہے کہ سر راہ نقش پا بن کر رہ گیا ہوں ۔

    عشق میں بیداد رشک غیر نے مارا مجھے

    کشتۂ دُشمن ہوں آخر گرچہ تھا بیمار دوست

    بیمار دوست ہونے کی وجہ عشق ہے اور کشتۂدُشمن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ رشکِ دُشمن نے ہلاک کیا ہے ۔

    چشم ما روشن کہ اُس بیدرد کا دل شاد ہے

    دیدۂ پرخوں ہمارا ساغر سرشار دوست

    دوسرے مصرع میں سے ’ ہے ‘ محذوف ہے اور چشم ما روشن گوکہ فارسی ہے لیکن اس قدر مشہور ہے کہ اسے دو زبانوں کا غلط نہ رکھنا چاہئے اور اس طرح بھی کہتے ہیں کہ چشم ماروشن دل ناشاد اسی سبب سے مصنف نے کہا ہے ’ اُس بیدرد کا دل شاد ہے ‘ اور یہ بھی صنائع معنویہ میں سے ایک صنعت ہے گو اہل فن نے اس صنعت کا ذکر ترک کیا ہے ۔ یادش بخیر میر باقر حسن صاحب ضیاؔ کہتے ہیں :

    سفر میں جو حالات شملہ کے ہیں

    بمقدار علم اُن کو لکھتا ہوں میں

    یعنی شملہ بمقدارِ علم ۔

    غیریوں کرتا ہے میری پرسش اُس کے ہجر میں

    بے تکلف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست

    تاکہ میں جانوں کہ ہو اُس کی رہائی واں تلک

    مجھ کو دیتا ہے پیام وعدہ دیدارِ دوست

    جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ

    سر کرے ہے وہ حدیث زلفِ عنبر بارِ دوست

    چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر

    ہنس کے کرتا ہے بیان شوخیٔ گفتارِ دوست

    مہربانی ہائے دُشمن کی شکایت کیجئے

    یا بیاں کیجئے سپاسِ لذتِ آزارِ دوست

    یعنی دُشمن دوست بن کر مہربانی کے پیرایہ میں میرے جی کو جلاتا ہے اور آتش رشک کو بھڑکاتا ہے ، سارے قطعہ میں اسی جمال کی تفصیل ہے ۔ سر کرنا شروع کرنے کے معنی پر فارسی کا ترجمہ ہے ۔

    یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ

    ہے ردیف شعر میں غالبؔ زبس تکرارِ دوست

    جو لفظ کہ آخر میں قافیہ کے بعد مکرر آئے اُسے ردیف کہتے ہیں ، قافیوں میں باہم دگر تشابہ ہوتا ہے اور ردیف تکرار ہوتی ہے اور قافیہ رُکن شعر ہے اور ردیف مستحسنات میں ہے ، عرب و فارس و ہند میں شعراء تعریف شعر میں کلام موزوں مقفیٰ کہتے ہیں اور اہل منطق کلام مخیل کو شعر کہتے ہیں خواہ وزن و قافیہ نہ ہو ، شعراء کی اصطلاح میں ہر کلام موزوں باقافیہ شعر ہے خواہ تخیل نہ ہو ، وجہ اختلاف کی یہ ہے کہ منطق یونانی سے ترجمہ ہوئی ہے اور یونانیوں میں شعر کے لئے قافیہ ضرور نہ تھا اور اگر تخیل میں وزن ہے تو اُسے شعر سمجھے اور جو وزن نہ ہو تو قضیۂ شعریہ کہتے تھے ، ہند و ایران کے شعراء وزن بے قافیہ کو نثر مرجز کہتے ہیں ۔
     
  28. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ردیف ( ج )


    گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج

    قمری کا طوق حلقہ بیرون در ہے آج

    جسے محفل میں بار نہ ہو اور باہر ہی روک دیا گیا ہو ، اُسے مجالاً حلقہ بیرون برد ر کہتے ہیں ، مطلب فقط یہ ہے کہ باغ میں آج ایسی بندا بندی ہے کہ قمری تک کا گذر نہیں اور یہ مضمون یعنی باغ میں آنے جانے کی روک ٹوک اور اس کی شکایت شعراء اکثر کیا کرتے ہیں ۔

    آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ

    تارِ نفس کمند شکار اثر ہے آج

    یعنی نفس سرد نے کمند کی طرح اثر کو شکار کر لیا ہے جبھی تو ہر آہ میں ایک پارۂ دل نکل آتا ہے یعنی آہ کے اثر سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا ہے اور آہ کے ساتھ کھنچا آتا ہے ۔

    اے عافیت کنارہ کر اے انتظام چل

    سیلاب گریہ درپئے دیوار و در ہے آج

    عافیت گویا کوئی عورت ہے اور انتظام کوئی مرد ہے ، ان دونوں سے شاعر کہتا ہے کہ بچ کر نکل جاؤ نہیں دب جانے کا تمہارے اندیشہ ہے ۔

    لو ہم مریض عشق کے بیماردار ہیں

    اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج

    محاورہ میں کہتے ہیں اگر یہ بات نہ ہوئی تو تمہارا کیا علاج ، یعنی پھر تم سے کیوں کر پیش آنا چاہئے اور تمہیں کیا سزا دینا چاہئے اور اس شعر میں یہ محاورہ بہت ہی مناسب مقام پر صرف کیا ہے ۔ یہ شعر کثیرالمعنی ہے یعنی ان معانی پر بھی دلالت کرتا ہے کہ تم لوگ جو یہ کہتے ہو کہ بیمارِ عشق کا کیا استعلاج مسیحا سے کرنا چاہئے تو لو ہم ایسا کرتے ہیں ۔
     
  29. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ردیف (چ) (جیم فارسی )


    نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ

    اگر شراب نہیں انتظار ساغر کھینچ

    یعنی آرزو کا دم بھرے جا ، اُس سے علاحدہ نہ ہو اگر شراب کھینچنے کو نہیں ملتی تو اُس کا انتظار ہی کھینچ ’ کھینچ ‘ کی لفظ شراب اور انتظار دونوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن انتظار کھینچنا تو اُردو کا بھی محاورہ ہے ، شراب کھینچنا فارسی کا محض ترجمہ ہے کہ مے کشیدن وہ لوگ شراب پینے کے معنی میں بولتے ہیں ، اسی طرح دو شعروں کے بعد مصنف نے کہا ہے بکوریٔ دل و چشم رقیب ساغر کھینچ اور یہ بھی محاورہ اُردو کے خلاف ساغر کشیدن کا ترجمہ ہے اور ساغر کا پینا مراد لیا ہے ۔

    کمالِ گرمیٔسعی تلاش دید نہ پوچھ

    برنگ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ

    حسرت دیدار ایک آئینہ ہے جس میں جوہروں کے بدلے کانٹے ہیں اور یہ کانٹے تگاپود جستجوئے دیدار میں گڑے ہیں ، اس شعر کے پہلے مصرع میں چار معنویہ اضافتیں ہیں اور تین اضافتوں سے زیادہ ہونا عیب کلام ہے ، اس میں شک نہیں کہ اضافت ایک سے زیادہ ہوئی اور بندش میں سستی پیدا ہو گئی نہ کہ چار اضافتیں ہوں اور وہ بھی معنویہ ۔

    تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل

    کیا ہے کس نے اشارہ کہ ناز بستر کھینچ

    یعنی بستر پر پڑے پڑے انتظار کھینچنا اور بستر کے ناز اُٹھانا راحت طلبی ہے ، ایسا نہ چاہئے اس کے مفہوم مخالف کئی ایک ہیں یعنی بادیہ گردی صحرا نوردی چاہئے یا جستجوئے معشوق کرنا چاہئے یا اس انتظار کی ایذا اُٹھانے سے مرجانا بہتر ہے ۔

    تری طرف ہے بہ حسرت نظارۂ نرگس

    بہ کوری دل و چشم رقیب ساغر کھینچ

    یعنی نرگس جو بہ حسرت تجھے دیکھ رہی ہے اُس کا مطلب یہ ہے کہ تو کیوں نہیں شراب پیتا کاہے کو رقیب کور دل و کور چشم سے ڈرتا ہے ، یہ دونوں باتیں نرگس کی دو صفتوں سے پیدا ہوئیں ایک یہ کہ اس کی آنکھ بے نور ہے ، دوسرے یہ کہ اُس ساغر سے مشابہت ہے ۔

    بہ نیم غمزہ اداکر حق ودیعت ناز

    نیام پردۂ زخم جگر سے خنجر کھینچ

    نیام میں سے خنجر یعنی الف کے نکال ڈالنے سے نیم تو بنا مگر اس خنجر سے معنی کا بھی خون ہو گیا تاویل کا بھی ، میدان بہت وسیع ہے اگر معنی بنائیے تو یہ ہوتے ہیں کہ ناز و ادا تجھ میں خدا کی ودیعت ہے ، اُس کا حق ادا کرنے کے لئے اداکر اور اس طرح خنجر ادا کو کھینچ کہ معلوم ہو پردہ جگر عاشق سے کھینچ کر آیا ہے یعنی ادا تیغ بے نیام ہے اگر اُس کے لئے کوئی نیام ہے تو زخم جگر عاشق ہے ۔

    مرے قدح میں ہے صہبائے آتش پنہاں

    بروئے سفرہ کباب دل سمندر کھینچ

    یعنی جب شراب آگ کی ہے تو کباب بھی سمندرکے دل کا چاہئے کہ دل بھی باطنی شئے ہے کباب نے یہاں کچھ مزہ نہ دیا ، کھینچ ترجمہ ہے ۔ دسترخوان پر چن دے یا لگادے محاورۂ اُردو ہے ۔
     
  30. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مرزا اسد اللہ خان غالب

    ردیف ( د )


    حسن غمزہ کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد

    بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد

    چھٹنا اور چھوٹنا ایک ہی معنی پر ہے الف تعدیہ بڑھانے کے بعد ’ ٹ ‘ کا ’ ڑ ‘ کر دینا فصیح ہے یعنی چھڑانا فصیح ہے اور چھٹانا غیرفصیح اور چھوڑا اور چھڑانا دونوں متعدی ہیں ، چھوٹنا سے چھوڑنا متعدی بیک مفعول ہے جیسے پھوٹنا سے پھوڑنا اور ٹوٹنا سے توڑنا اور چھڑانا متعدی بد و مفعول ہے ، بعض متبعین زبان دہلی کے کلام میں چھٹوانا دیکھنے میں آیا ہے ، اہل لکھنؤ اس طرح نہیں کرتے ۔

    منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا

    ہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد

    ’ کے ‘ اس شعر میں اضافت کے لئے نہیں ہے ورنہ ’ کا ‘ ہوتا جیسے کہتے ہیں کوئی اس منصب کا مستحق نہ رہا بلکہ یہ ’ کے ‘ ویسا ہے جیسے میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع میں ہے ’ سرمہ دیا آنکھوں میں کبھی نور نظر کے ‘ اس مصرع پر لوگوں کو شبہ ہوا تھا کہ میر صاحب نے غلطی کی یعنی ’ کی ‘ کہنا چاہئے تھا ۔ اسی طرح کہتے ہیں اُن کے مہندی لگادی جو لوگ نحوی مذاق رکھتے ہیں وہ اس بات کو سمجھیں گے کہ ایسے مقام پر ’ کے ‘ حرف تعدیہ ہے اور اسی بناء پر میں برقؔ کے اس مصرعہ کو غلط نہیں سمجھتا جو مرثیہ میں اُنھوں نے کہا تھا اور اعتراض ہوا تھا ’ ڈاڑھی میں لال بال تھے اُس بدنہاد کے ‘ اور اسی دلیل سے انیسؔ کا مصرع بھی صحیح ہے اور میرؔ کا یہ مصرع بھی ’ آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے ‘ غلط نہیں ہے اور آتش کا یہ شعر بھی صحیح ہے :

    معرفت میں اُس خدائے پاک کے

    اُڑتے ہیں ہوش و حواس ادراکے



    شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دُھواں اُٹھتا ہے

    شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

    یعنی دُھواں نہیں ہے بلکہ شمع کشتہ کے سوگ میں شعلہ سیاہ پوش ہوا ہے ، اسی طرح میرے غم میں شعلہ عشق سیاہ پوش ہوا ہے یعنی میں شعلۂ عشق سے مثل شمع کے سوز و گداز میں تھا ۔

    خون ہے دل خاک میں احوال بتاں پر یعنی

    اُن کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد

    یعنی میرے سوگ میں مہندی ملنا چھوڑدی خاک سے خاک قبر مراد ہے ۔

    درخورِ عرض نہیں جوہر بیداد کو جا

    نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد

    جوہر بیداد یعنی سرمہ کے اس کی آنکھوں میں جگہ نہیں ہے ۔ ’ درخور عرض ‘ یعنی بیان کے قابل ۔ عرض کا لفظ فقط جوہر کی مناسبت سے لائے ہیں ۔

    ہے جنوں اہل جنوں کے لئے آغوش وداع

    چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

    گریباں اہل جنوں سے چاک رخصت ہوتا ہے گویا چاک آغوش وداع ہے کہ میرے بعد اہل جنوں سے رخصت ہوتا ہے ’ ہے ‘ کا محل وداع کے بعد تھا ، لیکن ضرورت شعر کے سبب سے مقدم کر دیا ورنہ نحو اُردو میں فعل کو تمام متعلقات کے بعد ذکر کرتے ہیں ۔ البتہ مقام استفہام میں کہتے ہیں ، ہے کوئی ایسا جو میری اعانت کرے ۔

    کون ہوتا ہے حریفِ مےِ مرد افگن عشق

    ہے مکرر لبِ ساقی میں صلا میرے بعد

    لب ساقی جو صلا کرتا ہے اُس کا بیان پہلے مصرع میں ہے ، یعنی ہے کوئی ایسا کہ شرابِ عشق کا جام پئے ’ میں ‘ کاتب کی غلطی معلوم ہوتی ہے ، یہاں ’ کی ‘ یاد یہ چاہئے اس شعر کی معنی میں لوگوں نے زیادہ تدقیق کی ہے مگر جادۂ مستقیم سے خارج ہے ۔



    غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دُنیا میں کوئی

    کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد

    یعنی اس غم سے مرتا ہوں کہ کوئی میرے بعد مہر و وفا کو میرا پرسہ بھی دینے والا نہیں ہے ۔ یعنی مرنے سے پہلے یہ غم مجھے مارے ڈالتا ہے ۔

    آئے ہے بے کسیٔ عشق پہ رونا غالبؔ

    کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

    عشق ہی کو دوسرے مصرع میں سیلابِ بلا سے تعبیر کیا ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں