1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ھماری زمین

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از کنورخالد, ‏20 فروری 2011۔

  1. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    چرنوبل کے پرندوں کے چھوٹے دماغ
    مارش واربلرز

    مارش واربلرز بھی ان پرندوں میں سے ایک ہے جو متاثر ہوئے ہیں

    ایک سائنسی جریدے میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق چرنوبل کے جوہری حادثے کی جگہ کے قریب پائے جانے والے پرندوں کے دماغ دوسرے پرندوں سے پانچ فیصد چھوٹے ہیں۔

    یہ نتائج چرنوبل کے علاقے میں رہنے والے48 اقسام کے 550 پرندوں پر تحقیق کے بعد سامنے آئے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق دماغ کے حجم کا تعلق کم ذہنی عمل سے ہے۔

    یہ تحقیق ناروے، فرانس اور امریکہ کے سائنسدانوں کی ٹیم نے کی ہے جس کی قیادت امریکہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا کے ٹموتھی موسییو اور فرانس کی یونیورسٹی آف پیرس۔سڈ کے ڈاکٹر اینڈرز مولر کر رہے تھے۔

    سنہ 1986 میں چرنوبل کے جوہری پلانٹ کا ری ایکٹر نمبر چار پھٹ گیا تھا جس کے بعد شمالی نصف کرہ کے تقریباً سبھی ممالک میں تابکاری مواد کے شواہد پائے گئے ہیں۔

    گزشتہ سال چرنوبل کے علاقے میں جنگلی حیات کا سب سے بڑا شمار کیا گیا تھا، جس سے پتہ چلا تھا کہ جوہری توانائی کے پلانٹ میں دھماکے کے بیس سال گزرنے کے بعد بھی تابکاری کے اخراج سے علاقے میں کیڑے مکوڑے اور مکڑیوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جوہری پلانٹ کے گرد و نواح میں میملز یا دودھ پلانے والے جانوروں میں کمی ہو رہی ہے۔

    جوہری پلانٹ چرنوبل کے متاثرہ علاقے میں کام کرنے والے تحقیق کاروں کے مطابق جوہری آلودگی کی وجہ سے کیڑے مکوڑوں اور مکڑیوں کی تعداد میں کمی کے واضح اشارے ملے تھے۔

    پروفیسر ٹموتھی موسیو اور پروفیسر اینڈرز نے مشترکہ طور پر اس منصوبے پر کام کیا تھا۔ اس سے پہلے دونوں تحقیق کاروں نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق علاقے میں کم درجے کی تابکاری کی وجہ سے پرندوں کی افزائش نسل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    پروفیسر موسیو نے کہا تھا کہ وہ اپنے کام کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے درختوں، حشرات، ممیملز پر بھی اس کے اثرات دیکھنا چاہتے ہیں۔

    اس سلسلے میں کی جانے والی حالیہ تحقیق سے سائنسدانوں کو پتہ چلا کہ جو پرندے اس علاقے میں رہتے ہیں ان کے دماغ ان پرندوں سے پانچ فیصد چھوٹے ہیں جو تابکاری والے علاقے سے دور رہتے ہیں۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    اس بارے میں ، میں پہلے بھی سن چکا ہوں اب سید بھائی یا جمیل جی آئیں تو اس پر تبصرہ کریں
     
  3. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    ’بوڑھی چیونٹیاں ریٹائر ہو جاتی ہیں‘
    چیونٹیاں فائل فوٹو

    پتے کاٹنے والی چیونٹیوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق ایسی چیونٹیاں جن کے دانتوں کا اثر ختم ہو جاتا ہے وہ ریٹائر ہو جاتی ہیں۔

    یونیورسٹی آف ایروگن کے سائنسدانوں کے مطابق بوڑھی چیونٹیاں، جوان چیونٹیوں کے برعکس کم پتے کاٹتی ہیں۔

    تحقیق کارورں کے مطابق پتے کاٹنے والی چیونٹیوں کو کیڑے مکوڑوں کی دنیا کا کسان کہا جاتا ہے۔

    تحقیق کارورں کے مطابق پتے کاٹنے والی ہر ایک چیونٹی اپنے وزن سے پچاس فیصد زیادہ پتے کاٹ سکتی ہے۔

    یہ چیونٹیاں ایک چھوٹے سے جلوس کی شکل میں ان پتوں کو اپنے گھر لے کر جاتی ہیں جہاں اُن پتوں کو اپنی افزائش بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

    تحقیق کارورں کے مطابق بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اِن چیونٹیوں کے دانت کمزور ہو جاتے ہیں یا اُن کی تیزی کم ہو جاتی ہے اور ایسی چیونٹیاں جو زیادہ عمر رسیدہ ہو جاتی ہیں وہ یہ کام مکمل طور پر چھوڑ دیتی ہیں۔

    عمر رسیدہ چیونٹیاں پتے کاٹنے کا کام نوجوان چیونٹیوں پر چھوڑ دیتی ہیں اور وہ پتوں کو اپنے گھروں لے جانے میں اپنی مدد فراہم کرتی ہیں۔
     
  4. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    ’خلائی مخلوق‘ کی گاڑیوں کا راز
    غیر شناخت شدہ اشیاء کا تصوراتی خاکہ

    آسمان پر نظٌر آنے والی غیر شناخت شدہ اشیاء کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ فضا میں نظر آنے والی غیر شناخت شدہ اشیاء کو موسموں کی سائنس کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔

    سائنسدانوں نے آسٹریلیا کے شہر برسبین میں سن دو ہزار چھ میں آسمان پر بڑے بڑے شہاب ثاقب نظر آنے کے واقعے کا تفصیلی جائزہ لیا۔ یہ شہاب ثاقب اسی وقت نظر آئے جب قریبی پہاڑوں پر سے سبز رنگ کی ایک بڑی اور گول چیز لو لڑھکتے دیکھا گیا۔

    آسٹریلوی سائنسدان ڈاکٹر ہیوز کا کہنا ہے یہ روشنی کا گولہ دراصل گولے کی شکل میں گرنے والی بجلی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وقتی طور پر بالائی ماحول اور زمین کے درمیان برقیاتی تعلق پیدا ہونے کی وجہ سے پہاڑ پر روشنی کا گولہ دکھائی دیا تھا۔

    ڈاکٹر ہیوز کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعہ سے کچھ لوگوں کو خلائی مخلوق نظر آنے کا گمان ہو سکتا ہے۔

    ڈاکٹر ہیوز کو ایک مقامی ٹی وی چینل نے بڑی تعداد میں لوگوں کی طرف سے ایسی تصاویر بھیجے جانے کے بعد تحقیق کے لیے کہا تھا جن میں روشنی کے گولے نظر آ رہے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ آسمان پر غیر معمولی طور پر روشن شہاب ثاقب انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سولہ مئی سن دو ہزار چھ کی رات کو تین شہاب ثاقب آسمان پر نمودار ہوئے تھے۔

    ڈاکٹر ہیوز نے کہا کہ روشنی کے گولے جنہیں آسمانی بجلی سے وابستہ کیا جاتا ہے ابھی صحیح طرح سمجھے نہیں جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان گولوں کو ہر بار طوفان سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔

    انہوں نے روشنی کے گولوں کے بارے میں نئی وضاحت پیش نہیں کی بلکہ یہ بتایا ہے کہ کس طرح اتنی توانائی پیدا ہوئی کہ روشنی کا گولہ بن گیا۔
     
  5. عفت
    آف لائن

    عفت ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    1,514
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    کنور جی آپ نے UFO یعنی Unidentified Frequency Objects کے بارے میں کافی معلوماتی مضمون ارسال کیاہے۔ شکریہ۔
    مجھے ان چیزوں کے بارے میں جاننے کا بہت شوق ہے۔
     
  6. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    پسند کا شکریہ معلومات ملتی رہیں گی
     
  7. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    دوسری دنیا پر زندگی کی امید
    ایلئین (فائل فوٹو )

    دوسری دنیا کے لوگوں کو لیکر ایک عرصے سے دلچسی رہی ہے

    برطانیہ کے ایک سرکردہ ہیئت دان کے مطابق اس وقت کسی اور دنیا پر زندگی کے امکانات پہلے سے کہیں زيادہ ہیں۔

    رائل سوسائٹی اینڈ ایسٹرونومر رائل کے صدر لارڈ ریس کا کہنا ہے کہ اس قسم کی تحقیق سے انسانیت ہی تبدیل ہو سکتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’اگر ایسا ہوتا ہے تو خود اپنے بارے ميں ہماری رائے اور کائنات میں ہمارے مقام کے بارے میں ہماری سوچ میں تبدیلی آ سکتی ہے‘۔

    انہوں نے یہ بات لندن ميں سائنسدانوں کے ایک بین الاقوامی اجلاس میں کہی۔ اجلاس میں دوسری دنیا تلاش کرنے سے متعلق بحث و مباحثے ہوئے۔

    سائنسدان ایک عرصے سے دوسری دنیا کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک انہیں کامیابی حاصل نہيں ہوئی ہے۔

    لیکن اب لارڈ ریس کا کہنا ہے ’میرا خیال ہے کہ وہاں زندگی موجود ہے لیکن وہ جس شکل میں ہے اسے ہم سمجھ نہيں سکتے۔‘

    انہوں نے مزید کہا ’ٹیکنالوجی بے حد ترقی کر چکی ہے اور اب پہلی بار ہم اصل میں ایک اور کئی سیاروں کے موجود ہونے کی امید کر سکتے ہیں، یہ سیارے زمین جتنے بڑے ہو سکتے ہیں۔‘

    لارڈ ریس نے یہ بھی کہا کہ آنے والے دنوں ميں اس بات کا بھی پتہ چل سکتا ہے کہ کیا وہاں سمندر ہے یا نہیں اور ان کی فضا کیسی ہے؟

    حالیہ دنوں میں خلائی ٹیلی سکوپ کو خلاء میں بھیجے جانے کے بعد زمین کی طرح کے سیاروں کو تلاش کرنا ایک حقیقت بن سکتی ہے
     
  8. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    مریخ پر آتش گیرگیس کا معمہ

    مریخ پر آتش گیر گیس میتھین کی مقدار موسموں کے ساتھ بڑھتی اور گھٹتی ہے: فرانسیسی سائنسدان

    فرانسیسی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سرخی مائل سیارے مریخ سے ملنے والی شہادتوں کے مطابق وہاں پر آتش گیر گیس میتھین بہت جلد پیدا اور ختم ہو جاتی ہے۔

    فرانسیی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر گیس کا موجود غیر ہموار ہے اور گیس کی مقدار موسموں کے ساتھ بڑھتی اور گھٹتی ہے۔

    سائسندان ان شواہد سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا مریخ پر آتش گیر گیس میتھین کی موجودگی وہاں پر زندگی کے آثار یا آتش فشانی گولے کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

    فرانسیسی سائنسدانوں نے زمین پر میتھین گیس کی موجودگی سے متعلق معلومات کی بنیاد پر ایک کمپیوٹر نقل (سمولیشن) تیار کی ہے جو مریخ پر میتھین سے متعلق شواہد کو سمجھنےمیں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

    فرانسیسی سائنسدان ڈاکٹر لیفرر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ مریخ کا موسم ابتک ایک معمہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انہوں نے حرکیات اور طبعیات سائنس کی مدد سے ایک نمونا تیار کیا ہے جس کے نتیجے کے مطابق مریخ پر گیس کی موجودگی کے آثار سے متعلق کچھ معلومات ملی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ میتھین سے متعلق جو معلومات موجود ہیں وہ مریخ پر آتش گیر گیس کی موجودگی سے متعلق شواہد سے مماثلت نہیں رکھتیں۔ انہوں نے کہا کہ مریخ پر کچھ ایسا ہو رہا ہے جو میتھین گیس کی زندگی کو بہت مختصر بنا دیتا ہے۔

    فرانسیسی سائنسدان نے کہا کہ اگر ان کے اندازے ٹھیک ہیں تو انسان مریخ سے متعلق بہت اہم معلومات کا پتہ نہیں لگا پا رہا۔
     
  9. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    مریخ پر ’حال ہی میں‘ پانی موجود تھا
    مریخ

    مریخ پر ڈیڑھ لاکھ برس پرانی گزرگاہ کے نشانات

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی نئی تحقیقات کے مطابق سیارے مریخ کی سطح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس پرایک لاکھ سال قبل تک بہتا ہوا پانی موجود تھا۔

    امریکی خلائی اداے ناسا کی خلائی گاڑی سے بھیجی گئی تصویروں میں مریخ کی سطح پر ایسی آبی گزگاہیں نظر آتی ہیں جن میں ڈیڑ لاکھ سال قبل تک پانی بہتا تھا۔

    اس خلائی گاڑی نے، جو مریخ کے گرد گردش کر رہی ہے، چند ایسی تصاویر فراہم کی ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مریخ کی یہ آبی گزرگاہیں برف کے پگھلنے کی وجہ سے بنی ہیں۔

    یہ مطالعہ امریکی ریاست روڈ آئلینڈ میں واقع براؤن یونیورسٹی کی ٹیم نے کیا ہے ۔ اس کے مطابق یہ آبی گزرگاہیں اس بات کا تصور دیتی ہیں کہ حال ہی میں مریخ کی سطح پر بہتا ہوا پانی موجود تھا۔

    محققین کی اس ٹیم کا کہنا ہے کہ مریخ کی یہ آبی گزرگاہیں جن میں ڈیڑ لاکھ سال قبل تک بہتا پانی تھا اس بات کی علامت ہے کہ بہتا ہوا پانی اس سرخ سیارے کی سطح پر پایا جاسکتا تھا۔

    یہ تحقیق اس بات کی مزید دلیل دیتی ہے کہ مریخ حال ہی میں برفیلے دور سے گزرا تھا اور اس کے قطبین سے برف آہستہ آستہ اِس کے خط استوا کی جانب آ کر درمیانی عرض میں جمع ہو گی۔

    دور سے یہ آبی گزرگاہیں ایک سی لگتی ہیں اور کئی سو میٹر چوڑی دکھائی دیتی ہیں۔

    اس تحقیق کو لکھنے والے براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز ہڈ کا کہنا ہے : ’ہمارا خیال ہے کہ مریخ پر حال ہی میں پانی موجود تھا اور یہ تصویریں ہماری اس دلیل کو مکمل طور پر ثابت کرنے میں مدد دیں گی‘
     
  10. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    سطحِ آفتاب سے اچانک بہت زیادہ اخراجِ نور

    سنہ انیس سو بہتر میں سطحِ آفتاب سے ہونے والی ایک بڑی شعاع ریزی کے باعث امریکی ریاست ایلینوئس میں ٹیلی فون کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا

    ماہرینِ فلکیات نے بتایا ہے گزشتہ چار سال میں پہلی مرتبہ منگل کو سورج کی سطح سے زمین کی طرف بہت بڑے شعلے کا اخراج ہوا ہے جس سے زمین کی مقناطیسیت متاثر ہونے کا امکان ہے۔

    اس اخراجِ نور یا سطحِ آفتاب پر پڑے دھبوں سے پھوٹنے والے بڑا شعلے کا نام ’ایکس فلیئر‘ ہے جو زمین پر مواصلاتی نظام کو متاثر کرسکتا ہے۔

    سورج کی سطح پر دھبے جنھیں سطحِ آفتاب کے داغ بھی کہتے ہیں سورج کی فضا میں موجود مقناطیسی توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔سطحِ آفتاب پر ہونے والے دھماکوں اور دھبوں کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دھبوں میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے اور اس قسم کا ایک دور آٹھ سے گیارہ برس یا کبھی کبھی اس سے کچھ زیادہ عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔

    سورح کے دھبوں میں سرگرمی سے زمین پر جدید ٹیکنالوجی اور مواصلاتی نظام میں خلل پڑ سکتا ہے اور ان سے برقیاتی گرڈ، سیٹلائٹ اور مواصلات جن میں سیٹلائٹ نیوی گیشن شامل ہے، متاثر ہو سکتے ہیں۔

    ناسا کے ایک خلائی جہاز نے سورج کی سطح پر ایک دھبے سے بہت زیاد بالائے بنفشی شعاع ریزی یا الٹرا وائلٹ شعاعوں کا اخراج ریکارڈ کیا۔

    برٹش جیالوجیکل سروے نے اس اخراج کے بعد ارضی مقناطیسیت میں طوفان کی وارننگ جاری کی ہے۔

    توقع ہے کہ سورج سے ہونے والی یہ شدید شعاع ریزی اگلے دو روز میں زمین کی مقناطیسی سرحد تک پہنچ جائے گی جس سے زمینی مقناطیسیت کے عمل میں تیزی آئے گی۔

    آفتاب کے داغوں میں سے ایک داغ سے زمین کی طرف نکلنے والا یہ بہت بڑا شعلہ پندرہ فرروی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح ایک بج کر چھپن منٹ پر ریکارڈ کیا گیا۔

    ناسا کی خلائی ایجنسی کے مطابق اس سرگرمی کا منبع اصل میں داغِ آفتاب یا سورج کی سطح پر موجود دھبوں میں سے وہ دھبہ ہے جسے سن سپاٹ 1158 کا نام دیا گیا ہے۔ اسی دھبے سے نوری شعاع ریزی شروع ہوئی ہے۔

    سنہ انیس سو بہتر میں سطحِ آفتاب سے ہونے والی ایک بڑی شعاع ریزی کے باعث امریکی ریاست ایلینوئس میں ٹیلی فون کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔

    اسی طرح سنہ انیس سو نواسی میں ایسی ہی شعاع ریزی سے ارضی مقناطیست متاثر ہوئی تھی جس کے بعد کینیڈا کے صوبہ کیوبیک میں لاکھوں افراد تاریکی میں ڈوب گئے تھے۔
     
  11. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    فینکس مارز کا بچنا مشکل: ناسا
    فائل فوٹو[​IMG]

    فونکس مارز مئی دو ہزار آٹھ میں مریخ پر اترا تھا

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے سیارہ مریخ پراترنے والے فینکس مارز کی ریڈیو ٹرانسمیشن سننے کی کوشش کی ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ آیا فینکس مارز نے مریخ کا سرد موسم برداشت کیا ہے۔

    ایجنسی کا کہنا ہے کہ مریخ پر اترنے والی فینکس مارز کا اوڈیسی آربیٹر سے کسی قسم کا رابطہ ہونا مشکل ہے۔

    ناسا کے مطابق ان کا فینکس مارز سے آخری بار رابطہ دو نومبر سنہ دو ہزار آٹھ کو ہوا تھا۔

    ناسا کے مطابق فینکس مارز کی ہیت ایسی نہیں کہ وہ سخت موسم کا مقابلہ کر سکے۔ اوڈیسی آربیٹر، فینکس مارز کے اوپر سے تین دن کے دوران تیس بار گذرے گا تاکہ فینکس مارز کی ریڈیو ٹرانسمیشن کو سننے کی کوشش کی جا سکے۔

    مریخ کے ایکسپلوریشن پروگرام کے چیف ٹیلی کمیونیکشن انجنیئر چیڈ ایڈورڈز نے کہا ہے کہ اگر فینکس نے کوئی پیغام بھیجا تو اوڈیسی آربیٹر اسے سن لے گا۔

    ان کا کہنا تھا ’ہم فینکس سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کریں گے اور اگر اس سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مریخ پر اترنے والا فینکس مارز فعال نہیں رہا۔‘

    لندن کے امپیریل کالج سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ٹام پائیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تشویشناک بات یہ ہے کہ فینکس مارز کی بیٹریاں اس قابل نہیں کہ وہ شدید سردی میں کام کر سکیں۔‘

    ڈاکٹر ٹام پائیک کے مطابق سردیوں میں مریخ کا درجہ حرارت کم از کم منفی ایک سو بیس سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے اور فینکس مارز کی بیٹریاں ایسی نہیں کہ وہ شدید سردی میں کام کر سکیں۔ ’میرے خیال میں اب ایسا ممکن نہیں کہ فینکس مارز اس سرد موسم میں بچا ہو۔‘

    یاد رہے کہ فینکس مارز مئی دو ہزار آٹھ میں مریخ پر اترا تھا۔
     
  12. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    سیاروں کے تصادم کے نئے ثبوت
    سیاروں کا تصادم[​IMG]

    تصادم کے وقت دونوں اجسام دس کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہے تھے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی ایک دوربین نے ایک کم عمر ستارے کے گرد چکر لگانے والے دو سیاروں کے تصادم کے ثبوت تلاش کیے ہیں۔

    ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ تصادم چار ارب سال قبل مریخ کے حجم والی کسی چیز اور زمین کے تصادم جیسا ہے۔ خیال رہے کہ اسی تصادم کے نتیجے میں زمین کا چاند وجود میں آیا تھا۔

    حالیہ تصادم ممکنہ طور پرگزشتہ چند ہزار برس کے دوران پیش آیا اور اس کی تفصیل آسٹروفیزیکل جنرل میں شائع ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق اس حالیہ تصادم میں ٹکرانے والے اجسام میں سے ایک زمین کے چاند اور ایک کم از کم عطارد جتنا بڑا تھا۔ تصادم کے نتیجے میں چھوٹی جسامت والی چیز تباہ ہوگئی اور خلاء میں بڑے پیمانے پر چٹانیں اور لاوا بکھرا۔

    ناسا کی سپٹزر خلائی دوربین نے تحلیل ہو جانے والی چٹانوں اور سخت لاوے کے نشانات تلاش کیے ہیں۔

    .امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر اور اس تحقیق کے مرکزی مصنف کیری لیز کا کہنا ہے کہ ’ یہ تصادم بہت بڑا اور انتہائی تیز رفتاری سے ہوا ہوگا کہ اس نے چٹانوں کو پگھلا دیا اور تحلیل کر دیا‘۔ اندازہ ہے کہ تصادم کے وقت دونوں اجسام کم از کم دس کلومیٹر فی سیکنڈ یا بائیس ہزار چار سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہے ہوں گے۔

    کیری لیز کے مطابق ’یہ ایک نادر اور کم عرصے تک رہنے والا واقعہ ہے اور زمین جیسے سیاروں اور چاند کی تشکیل کے حوالے سے نہایت اہم بھی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اس کے ظہور پذیر ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی اس کی باقیات کا مشاہدہ کرنے کا موقع مل گیا ہے‘۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ بھی خلائی دوربین ہبل کے کیمرے نے سیارہ مشتری کی سطح پر ماحولیاتی ٹوٹ پھوٹ کا پتہ لگایا تھا اور خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ٹوٹ پھوٹ کسی شہابیہ کے سیارے کی سطح سے ٹکرانے کے نتیجے میں ہوئی ہے۔
     
  13. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    زہرہ کے دھبے سے ماہرین حیران
    سیارہ زہرہ[​IMG]

    زہرہ پر ماحول میں بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پائی جاتی ہے

    سیارہ زہرے کے بادلوں میں نظر آنے والے عجیب چمکدار دھبے نے ماہرینِ فلکیات کو چکرا دیا ہے۔

    اس دھبے کی نشاندہی انیس جولائی کو امریکہ کے ایک شوقیہ ماہرِ فلکیات نے کی تھی اور بعدازاں یورپی خلائی ادارے کے وینس ایکسپریس خلائی جہاز نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔

    وینس ایکسپریس سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ دھبہ زمین سے دیکھے جانے سے چار دن قبل ظاہر ہوا تھا۔ اس کے بعد سے یہ دھبہ حجم میں بڑا ہوتا گیا ہے اور اسے زہرہ پر چلنے والی ہوائیں پھیلا رہی ہیں۔

    سائنسدان تاحال یہ نہیں جان سکے ہیں کہ یہ دھبہ کیسے وجود میں آیا تاہم ان کے نزدیک آتش فشانی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سیارہ زہرہ کی زیادہ تر سطح آتش فشانی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے تاہم آج تک اس آتش فشانی کا کوئی ٹھوس ثبوت حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔

    .تاہم اگر یہ دھبہ کسی آتش فشانی کا نتیجہ ہے تو یہ کسی انتہائی طاقتور آتش فشانی کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے کیونکہ زہرہ کے کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بنے ماحول میں ان گھنے بادلوں تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔

    ایک خیال یہ ہے کہ دھبے کی وجہ سورج کے چارج شدہ ذرات ہیں جو زہرہ سے ٹکرا رہے ہیں یا پھر کسی ماحولیاتی تبدیلی نے اس چمکدار عنصر کو ایک جگہ پر جمع کر دیا ہے۔

    یہ پہلا موقع نہیں کہ زہرہ کی سطح پر چمکدار مقامات کی نشاندہی ہوئی ہے لیکن اس مرتبہ یہ دھبہ ایک چھوٹی جگہ پر ہونے کی وجہ سے الگ ہے۔

    خیال رہے کے ماہرینِ فلکیات آج کل مشتری کی سطح پر پڑنے والے ایک نشان کی تحقیقات کر رہے ہیں جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ کسی شہابیے کے ٹکرانے سے وجود میں آیا ہے۔
     
  14. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    [​IMG]
    پاکستان کے جنگلات



    سرسبز وشاداب اور گھنے درخت و جنگلات خوبصورتی کا ایسا روپ ہیں جس کا کوئی نیم البدل نہیں۔ سوچئے اگر دنیا بھر میں اگے درخت اور سبز ہ ختم ہوجائے تو دنیا کیسی دکھائی دے گی؟؟۔۔ یقینا ایسی ہی جیسے کسی خوب صورت شخص کے سر کے بال کاٹ دیئے جائیں اور وہ گنجا ہوکر بدنما لگنے لگے۔

    دریا، سمندر، پہاڑ، درخت، جھیلیں، ندیا ں، جنگلات اور صحرا ۔۔یہ سب کسی بھی علاقے کا قدرتی حسن ہیں اور پاکستان بھی اس حسن سے مالا مال ہے۔ یہاں کی جنگلی حیات اور حیاتیاتی تنوع کس سے کم نہیں۔ یہاں پائے جانے والے پودوں ،درختوں اور جنگلات کی بات کریں تو یہاں پودوں کی 5 ہزار 7سو اقسام پائی جاتی ہیں۔ صرف چترال ، کشمیر اور شمالی بلوچستان میں ہی 203اقسام کے پورے اور درخت پائے جاتے ہیں جو ملک بھر کے کل درختوں کا چار فیصد ہیں۔ جہاں اتنی بڑی مقدار میں سرسبز و شاداب نظاروں کی گنجائش موجود ہو بھلاوہاں حسین نظاروں کی کیا کمی ہوسکتی ہے۔

    پاکستان کے چاروں صوبوں میں درخت اور جنگلات کی کوئی کمی نہیں لیکن سب سے زیادہ شمالی علاقہ جات کے پہاڑی سلسلے اپنی دلکش کا سبب ہیں۔ یہاں ہرے بھرے درختوں کی بھرمار ہے اور یوں لگتا ہے کہ گویا الپائن، سب الپائن، صنوبر، سفیدہ اور دیودارکے اونچے اونچے درختوں میں کوئی حسن کی ملکہ رہتی ہو ۔بیشتر مقامات پر درختوں کے جھنڈ اس قدر گھنے ہیں کہ ان کے تنوں اور جڑوں تک سورج کی روشنی کا گزر ہی نہیں ہوتا۔

    نسبتاً کم بلند ہمالیائی سلسلوں میں بارش زیادہ ہوتی ہے اور اسی سبب یہاں دیودار، پائن، گل لالہ اور شاہ بلوط یا بید مجنو ں کے گھنے جنگلات کی بھرمار ہے۔ شمالی علاقہ جات کی بولا شبار وادی میں چونکہ زیادہ بارش ہوتی ہے اس لئے یہاں پاکستان کے کئی علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ درخت پائے جاتے ہیں ۔

    یہاں کے برف پوش پہاروں کی ڈھلانوں پر برف کی تہہ کے بعد مختلف قسم کے پودوں کے لئے منساسب ماحول میسر ہے۔ یہاں چیڑ، سفیدے، صنوبر، سندر اور چلغوزے کے درخت بھی پائے جاتے ہیں۔ کوہ سلیمان اور کوہ نمک کے علاقے بنجر ہیں مگر یہاں شہتوت کے درختوں کے گھنے جنگلات ہیں جنہیں مقامی زبان میں شیشم بھی کہا جاتا ہے۔

    خشک موسم میں اگنے والا سبزہ اور پودے ،صوبہ سرحد اور بلوچستان کی وادیوں کے زیور ہیں ۔ ان زیوارت میں گھاس، پستہ قدر تاڑ کے درخت اور جھاڑیاں بھی شامل ہیں۔ مغربی پہاڑیوں میں صنوبری جھاڑیوں، جھاوٴ یعنی تمرس اور پستے کے درخت زمین کا فطر ی حسن ہیں۔

    بلوچستان کے شہر زیارت میں صنوبر کے جنگلات گویا زمین کی تہوں سے نکلتا قدیم مگر انمول خزانہ ہے۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار برس قدیم ہیں ۔یہ درخت تین لاکھ ایکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ایبٹ آباد میں بھی بعض200 اور 300 سال پرانے اور نایاب درخت موجود ہیں ۔

    دریائے سندھ کے میدانی علاقوں میں خشک جھاڑیاں اور خاردار درخت بکثرت پائے جاتے ہیں جنہیں' راکھ' کہا جاتا ہے ۔ یہ درخت اس علاقے کا خاصہ ہیں اور یہ 45 درجہ سیلیس سے بھی زیادہ درجہ حرارت میں زندہ رہنے کی قدرتی صلاحیت سے مالامال ہیں۔

    آب پاشی کے ذریعے اگانے والے پودوں اوردرختوں کی بات کریں تو پنجاب اور سندھ کے کئی علاقے ان سے بھر پڑے ہیں ۔ چھانگا مانگا اور لال سوہنزا ان کی آماجگاہ ہیں۔

    دنیا کا پانچواں سب سے بڑا چمرنگ کا جنگل بھی پاکستان میں ہی ہے۔ اسے انڈس دیلٹا کہا جاتا ہے ۔ یہ بحیرہ عرب کے ساتھ پر کراچی اوربھارت سے ملنے والی پاکستان کی جنوب مغربی سرحد کے درمیان واقع ہے اور چھ لاکھ ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔

    اس کے علاوہ مینگروز کے جنگلات 1046 کلو میٹر کی ساحلی پٹی پر چار جغرافیائی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں۔ محکمہ جنگلات سندھ کے زیر انتظام 2 لاکھ 80 ہزار 470 ہیکٹرز مینگروز کی اراضی ہے جبکہ بورڈ آف ریونیو کے زیر انتظام 2 لاکھ 60 ہزار ہیکٹر، پورٹ قاسم اتھارٹی کے زیر انتظام 64 ہزار ہیکٹر اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے زیر انتظام 2 ہزار 547 ہیکٹر مینگروز کی اراضی ہے۔

    ملک کے تمام جنگلات کی مجموعی اراضی میں صوبہ سندھ کے جنگلات کی اراضی 0.678 ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے جو شرح تناسب کے لحاظ سے 16 فیصد ہے جس میں سے 35 فیصد دریائی اور 51 فیصد ساحلی جنگلات پر مشتمل ہے۔ دنیا میں فارسٹ لینڈ کی شرح 35,30,25 اور 40 فیصد تک ہے لیکن پاکستان کا صرف 5 فیصد رقبہ فارسٹ لینڈ پر مشتمل ہے جسے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔
     
  15. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    خبریں
    گرین لینڈ میں سورج قبل ازوقت طلوع ہونے کا واقعہ

    اگر کوئی یہ کہے کہ سورج اپنے مقررہ وقت سے کئی گھنٹے پہلے طلوع ہوسکتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ آپ اسے انہونی قرار دیتے ہوئے اس کی ذہنی حالت پر شک کریں۔ لیکن اس نئے سال کے آغاز پر یہ انہونی بھی ہوچکی ہے۔

    قطبی دائرے میں واقع گرین لینڈ میں اس سال سورج اپنے معمول کی تاریخ 13 جنوری سے پوری 48 گھنٹے پہلے 11 جنوری کو طلوع ہوا ، جس سے وہاں بسنے والے باشندے حیرت اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔

    قطبی دائرے کے دن اور رات طویل ہوتے ہیں۔ ہرسال وہاں کی طویل رات 13 جنوری کو ختم ہوتی ہے اور پھر مہینوں تک سورج غروب نہیں ہوتا۔تاہم وہاں زندگی کے معمولات گھڑی دیکھ کرچلتے رہتے ہیں۔

    گرین لینڈ کا بڑا حصہ منجمد سمندر اور ہزاروں سال قدیم بڑے بڑے برفانی تودوں پر مشمل ہے ۔ ان میں سے اکثر گلیشیئرز کی لمبائی اور چوڑائی میلوں میں ہے۔ وہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بہت نیچے رہتاہے۔ پینگوئن اور برفانی ریچھ وہاں کے مشہور جانور ہیں ۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی تپش میں مسلسل اضافے کی وجہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور پینگوئن اور برفانی ریچھ کی نسل کے مٹنے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔

    گرین لینڈ کی آبادی بہت کم ہے۔ وہاں کا ا تیسرا بڑا شہر الولسات(Ilulissat) ہے جس کی آبادی ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ قصبہ قطبی دائرے کے مغرب میں تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں ایک ایئرپورٹ بھی ہے جو بیرونی دنیا سے رابطے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

    گرین لینڈ کا علاقہ طویل عرصے سے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہاں کئی سائنسی ٹیمیں اور لیبارٹریاں کام کررہی ہیں۔

    الولسات کے شہری 11 جنوری کو معمول سے دو روز پہلے افق سے سورج طلوع ہوتا دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس سے پہلے انہوں نے ایسا کبھی دیکھا تھا اور نہ اپنے بزرگوں سے ایسا کوئی واقعہ سنا تھا۔

    اس غیر معمولی واقعہ کی خبریں برطانوی اور یورپی میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل چکی ہیں۔سائنس دان اس خبر کی مختلف توجیہات پیش کررہے ہیں۔ کچھ اس کا سبب گردش کرتے وقت زمین کے زاویے میں ممکنہ تبدیلی قرار دیتے ہیں۔ جب کہ ماہرین کے ایک گروپ کا کہناہے کہ حقیقتا یہ نظر کے دھوکے کاواقعہ ہے۔

    وہ کہتے ہیں کہ عالمی تپش میں اضافے کے نتیجے میں قطبی دائرے میں ہونے والی تبدیلیوں نے شفق پر بھی اثر ڈالا ہے۔ آب وہوا کی تبدیلی سورج کے طلوع اور غروب ہوتے وقت آسمان پر دکھائی دینے والے شفق کے رنگوں کو متاثر کرتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ممکنہ طورپر وہ شفق میں پیدا ہونے والی تبدیلی تھی جس کی چکا چوند پر لوگوں کو سورج طلوع ہونے کا گمان ہوا۔ مگر گرین لینڈ کے لوگ یہ توجیہہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد 23.5 ڈگری پر اپنے مدار میں گردش کرتی ہے جس سے دن اور رات اور موسم پیدا ہوتے ہیں۔ قطبی دائرہ ، شمالی قطب سے 66 ڈگری پر واقع ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ علاقہ سردیوں میں سورج سے اوجھل رہتا ہے اور وہاں دنیا کی طویل ترین رات ہوتی ہے۔

    قطبی دائرے سے آپ جیسے جیسے قطب کے قریب بڑھتے ہیں، سردیوں کی راتیں طول تر ہوتی جاتی ہیں۔ الولسات کا قصہ قطب سے صرف تین ڈگری پر واقع ہے، اس لیے وہاں دنیا کی طویل ترین رات ہوتی ہے اور وہاں کے باسی نصف سردیاں سورج کی روشنی کے بغیر گذارتے ہیں۔

    الاسکا یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر جان ویلش کہتے ہیں کہ سورج کا اپنے مقررہ وقت سے پہلے طلوع ہونا محض نظر کا دھوکہ ہے۔ کیونکہ زمین کی گردش میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

    وہ کہتے ہیں زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ سورج نہیں تھا بلکہ شفق پر ابھرنے والااس کا عکس تھا جو دو روز پہلے دکھائی دیناشروع ہوگیا تھا۔تاہم الولسات کے باسی یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہے اور وہ یہ انتظار کررہے ہیں کہ اگلے سال سورج اپنے معمول کے مطابق 13 جنوری کو طلوع ہوتا ہے یا اس سے دو روز پہلے۔
     
  16. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    [​IMG]

    چوہودیں کاچاندشاعروں اور لطیف جذبات رکھنے والوں کے لیے ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہاہے۔رات کی خاموشی اور تاریکی میں جب پورا چاند اپنی سونے جیسی زرد کرنیں بکھیرتا ہے توگویا پورے ماحول پر ایک جادو سا چھا جاتا ہے۔

    اگرچہ ہر قمری ماہ کی 14 تاریخ کو چاند اپنے پورے جوبن پر آتا ہے مگر کئی برسوں میں ایک بار 14 کا چاند ، دوسرے سارے برسوں کی چوہودیں مختلف ہوتا ہے۔یعنی معمول سے بہت بڑا اور بہت زیادہ روشن، جسے سائنس کی اصطلاح میں سپر مون کہاجاتا ہے۔ اس بار بھی چوہودیں کا چاند سپر مون تھا۔ اور اس مرتبہ سپر مون طلوع ہوا ہے پورے اٹھارہ برسوں کے بعد۔

    معمول سے بڑا پورا چاند دکھائی دینے کی وجہ اس کا وہ مدار جس پر وہ زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ یہ مدار گول ہونے کی بجائے انڈے کی شکل کاہے۔ مارچ 1993 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ چاند اپنے مدار میں گردش کرتا ہوا زمین کے بہت زیادہ قریب سے گذرا۔ ظاہر ہے کہ چاند زمین کے جتنا قریب ہوگا ، وہ اتنا ہی زیادہ بڑا بھی دکھائی دے گا۔

    زمین سے چاند کا فاصلہ اوسطاً دولاکھ 38 ہزار نو سو میل ہے، جو اپنے مدار پر گردش کے دوران گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ لیکن ایسا موقع لگ بھگ 18 /19 برس میں آتا ہے کہ وہ اپنی مخصوص گردش کی بنا پر زمین کے بہت قریب آجائے۔ اس بار چوہودیں تاریخ کو وہ زمین سے دو لاکھ 21 ہزار چھ سو میل کے فاصلے پر تھا۔

    سپر مون عموماً مارچ میں ہی نمودار ہوتا ہے۔ چونکہ اکثر علاقوں میں یہ فصلوں کی کٹائی اور بعدازاں بجائی کا موسم ہوتا ہے اس لیے قدیم امریکی قبائل سپر مون کواچھی فصل کی ایک علامت سے تعبیر کرتے تھےاور وہ ا سے ایسی چیزوں اور پرندوں سے منسوب کرتے تھے جن کاتعلق فصلوں سے ہوتا ہے۔

    زمین کے گرد چاند کی گردش سے قمری ماہ و سال بنتے ہیں۔چاند کا ایک ماہ تقریباً 29 دن اور آٹھ گھنٹوں کا ہوتاہے۔زمین کے گرد اس کے گھومنے کی رفتار 2300 میل فی گھنٹہ ہے۔ اپنے بیضوی مدار میں گردش کے دوران تقریباً 18 برس میں ایک موقع ایسا آتاہے کہ چاند زمین سے اپنے کم ترین فاصلے پر آجاتاہے۔ جس کی وجہ سے وہ معمول کے پورے چاند سےزیادہ بڑا اور زیادہ روشن دکھائی دینے لگتاہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اس بار چاند 14 فی صد بڑا اور تقریباً 30 فی صد زیادہ روشن تھا۔ شاعر وں اور لطیف جذبات و احساسات رکھنے والوں نے اس غیر معمولی طورپر بڑے چوہودیں کے چاند کے یقیناً خوبصورت نام رکھے ہوں گے ، تاہم ماہرین فلکیات اسے سپر مون کہہ کر پکارتے ہیں۔

    یہ تصور عام ہے کہ پورا چاند انسان کی نفسیاتی کیفیات پر ہی نہیں بلکہ سمندر کی لہروں کو بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے سمندر میں پیدا ہونے والے تلاطم کی وجہ چاند کی مقناطیسی کشش ہے، جو زمین پر موجود ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ زمین ٹھوس اجسام کو تو اپنی جگہ قائم رکھنے میں کامیاب رہتی ہے مگر وہ پانی پر پوری طرح قابو نہیں پاسکتی جس کا نتیجہ چاند راتوں میں سمندر میں اونچی اونچی بے تاب لہروں کی شکل میں نکلتا ہے۔

    تاہم سائنس دانوں کا کہناہے کہ حال میں جاپان میں آنے والے سونامی کا چاند سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

    چاند کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان ہمیشہ سےاس کا ایک ہی رخ دیکھتا آرہاہے ۔ وہ رخ جس میں بڑھیا چرغا کاتتی نظر آتی ہے۔مگر وہاں بڑھیا ہے نہ چرغا، جوکچھ ہمیں دکھائی دیتاہے وہ چاند کے لق ودق پہاڑوں اور کھائیوں کی پرچھائیاں ہیں۔

    کئی مطالعاتی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ چوہودیں کا چاند انسانی مزاج اور صحت پر بھی اثرڈالتا ہے۔ 2007ء میں امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک سائنسی مطالعے سے معلوم ہواتھا کہ ریاست میں قتل اور جارحیت سے منسلک زیادہ تر جرائم چاند کے جوبن کے دنوں میں ہوئے۔ لیڈز یونیورسٹی کا ایک مطالعاتی جائزہ یہ بتاتا ہے کہ بڑھتے چاند کی تاریخوں میں ڈاکٹروں کے پاس زیادہ مریض جاتے ہیں جب کہ ایک طبی مطالعے میں یہ بتایا گیا تھا کہ چاندراتوں میں دمے کے مریضوں کو زیادہ دورے پڑتے ہیں۔تاہم 2005ء میں اسی سلسلے میں ریاست منی سوٹا کے مائیو کلینک میں کی جانے والی تحقیق اس کی نفی کرتی ہے۔

    فلوریڈا میں ٹریفک حادثات سے متعلق چار سال کے اعدادوشمار سے یہ ظاہر کرتے ہیں اندھیری راتوں کی نسبت چاندراتوں میں حادثات کی شرح انتہائی کم رہی۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی وجہ چاند کی روشنی تھی یا اس کا مقناطیسی اثر۔

    ان کا یہ بھی کہناہے کہ انسان چاند کے تابع نہیں ہے کیونکہ وہ اسے اپنے قدموں تلے روند چکاہے۔

    فلکیات کے ماہرین کاکہناہے کہ جن علاقوں میں بادلوں یا کسی اوروجہ سے لوگ سپر مون کا نظارہ نہیں کر سکے، اب انہیں اس کے لیے لگ بھگ 19 سال انتظار کرنا پڑے گا۔
     
  17. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    عطارد کے مدار میں داخلے میں کامیابی
    [​IMG]
    سورج سے انتہائی قربت کی وجہ سے عطارد سائنسی تجربات کے لیے موزوں جگہ نہیں

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا ’میسنجر‘ نامی خلائی جہاز سیارہ عطارد کے گرد مدار میں کامیابی سے داخل ہوگیا ہے۔

    یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی خلائی جہاز سورج کے نزدیک ترین واقع اس سیارے کے گرد مدار میں پہنچا ہے۔

    خلائی جہاز جمعہ کی صبح عطارد کے اتنے قریب پہنچا کہ انجن بند کیے جانے پر سیارے کی کششِ ثقل نے اسے اپنے مدار میں کھینچ لیا۔

    ناسا کو امید ہے کہ یہ روبوٹک جہاز بارہ گھنٹے تک سیارے کے مدار میں رہے گا۔ ’میسنجر‘ کے چیف انجینیئر ایرک فنیگن کا کہنا ہے کہ ’ہم اس کے اتنا قریب ہیں جتنا پہنچا جا سکتا ہے۔ ابھی بہت کام باقی ہے لیکن ہم وہاں پہنچ تو گئے ہیں‘۔
    عطارد دو انتہاؤں کی دنیا ہے اور جہاں سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی سطح کا درجہ حرارت چھ سو سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے وہیں اس کے قطبین میں موجود ایسےگڑھوں میں آبی برف بھی موجود ہے جو ہمیشہ سائے میں رہتے ہیں۔

    واشنگٹن کے کارنیگی انسٹیٹیوشن سے تعلق رکھنے والے اس مہم کے مرکزی محقق شان سولومن کو امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں عطارد کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئیں گے۔

    اس وقت یہ خلائی جہاز سورج سے چھیالیس ملین اور زمین سے ایک سو پچپن ملین کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

    سورج سے انتہائی قربت کی وجہ سے عطارد سائنسی تجربات کے لیے موزوں جگہ نہیں ہے۔ اس کی سطح اتنی گرم ہے کہ وہ سیسے کو بھی پگھلا دیتی ہے۔ اس گرم ماحول میں جہاں خلائی جہاز کو سورج کی تپش سے محفوظ رکھنے کے لیے اس پر حفاظتی چادر لگائی گئی ہے وہیں اس کے آلات کو عطارد کی حرارت سے بچانے کا خصوصی انتظام بھی کیا گیا ہے۔

    عطارد کو اکثر لوگ ایک غیر دلچسپ دنیا قرار دیتے ہیں جس کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں ہے لیکن وہ خلائی سائنسدان جنہوں نے اس سیارے پر کام کیا ہے اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔

    ان کے مطابق عطارد دو انتہاؤں کی دنیا ہے اور جہاں سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی سطح کا درجہ حرارت چھ سو سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے وہیں اس کے قطبین میں موجود ایسےگڑھوں میں آبی برف بھی موجود ہے جو ہمیشہ سائے میں رہتے ہیں۔
     
  18. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    سیارے کو کھا جانے والا ستارہ دریافت
    سائنسدانوں کو خلائی دوربین ہبل سے حاصل ہونی والے تصویری شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ سورج سے مشابہہ ایک ستارہ قریبی سیارے کو نگل رہا ہے۔
    [​IMG]
    دو ہزار آٹھ میں اس سیارے کو برطانیہ کے سیاروں پر تحقیق کرنے والے ادارے وسپ نے دریافت کیا تھا

    اس سے پہلے خلا نورد جانتے تھے کہ خلا میں ایسے ستارے موجود ہیں جو سیاروں کو نگل جاتے ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی ایسے عمل کو واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔

    اگرچہ تصویر لیتے وقت یہ ستارہ ہبل دوربین سے کافی فاصلے پر تھا لیکن سائنسدانوں نے دوربین سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس عمل کا ایک تصویری خاکہ بنایا۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وسپ_بارہ بی نامی یہ سیارہ اگلے ایک کروڑ سال میں مکمل طور پر نگل لیا جائے گا۔ یہ سیارہ اپنی مدار کےگرد چکر زمین کے مدار کےمطابق ایک اعشاریہ ایک دن میں مکمل کرتا ہے۔ یہ سیارہ پندرہ سو سینٹی گریڈ تک انتہائی گرم اور اپنے ستارے سے بہت قریب تھا۔

    اتنی نزدیکی کی وجہ سے غبارے کی طرح پھولتے ہوئے سیارے کا حجم سیارہ مشتری سے تین گناہ زیادہ ہو گیا اور سیارے کا مادہ ستارے پر بہنا شروع ہوگیا۔

    سائنسدانوں کی ٹیم میں شامل برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی کی کیرول ہسویل نے اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہم نے سیارے کے ارد گرد مادے کا بڑا بادل دیکھا جو سیارے سے دور جا رہا ہے اور اسے بعد میں ستارہ نگل جائے گا۔

    تاہم سائنسدان اس بات کا نتیجہ نہیں نکال سکے کہ یہ بادل کیسے وجود میں آئے تھے۔ ڈاکٹر ہسویل کا کہنا ہے کہ ’ ہم نے اپنے نظام شمسی سے باہر پہلی بار ایسے کیمیائی عناصر دیکھے ہیں۔‘

    واسپ نامی یہ سیارہ چھ سو نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ دو ہزار آٹھ میں اس سیارے کو برطانیہ کے سیاروں پر تحقیق کرنے والے ادارے وسپ نے دریافت کیا تھا۔
     
  19. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    اڑن طشتریوں کی دستاویزات منظرِ عام پر
    [​IMG]
    نیوزی لینڈ کی فوج نے سینکڑوں ایسی دستاویزات عام کی ہیں جن میں اڑن طشتریاں دیکھنے کے دعوؤں کا ذکر ہے۔

    سنہ انیس سو چون سے سنہ دو ہزار نو تک کے درمیان کی ان دستاویزات میں اڑن طشتریوں کے خاکے اور خلائی مخلوق کی مبینہ تحریریں بھی شامل ہیں۔

    ان فائلوں میں نیوزی لینڈ میں اڑن طشتری دیکھے جانے کے اس مشہور واقعہ کا بھی ذکر ہے جب سنہ 1978 میں کیکورا نامی قصبے میں عجیب و غریب روشنیوں کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھا گیا تھا۔

    اگرچہ اس واقعہ کو بین الاقوامی شہرت ملی تھی لیکن فوجی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ روشنیاں کشتیوں پر نصب بتیوں کا بادلوں میں بننے والا عکس یا سیارہ زہرہ کا غیر معمولی منظر ہو سکتا ہے۔

    ان دستاویزات کے عام کیے جانے کے بعد نیوزی لینڈ کی فضائیہ کے ترجمان کیو تماریکی کا کہنا ہے کہ فوج کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اڑن طشتریاں دیکھنے کے واقعات کی تحقیقات کرے اور وہ ان دستاویزات کے مواد پر تبصرہ نہیں کریں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس معلومات جمع تھیں۔ ہم نہ تو اس کی تحقیق کرتے ہیں اور نہ ہی رپورٹس بناتے ہیں‘۔

    یہ دستاویزات معلومات تک رسائی کی آزادی کے قانون کے تحت سامنے لائی گئی ہیں اور ان میں سے افراد کے نام اور ایسی دیگر معلومات ہٹا دی گئی ہیں جن سے کسی کی پہچان ممکن ہو سکے۔

    دو ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات میں عوام، فوجیوں اور ہوابازوں کے ایسے بیان شامل ہیں جس میں انہوں نے زیادہ تر آسمان میں گردش کرتی روشنیاں دیکھنے کا دعوٰی کیا ہے۔

    وہ تمام اصل دستاویزات جن کی بنیاد پر یہ رپورٹس تیار کی گئی ہیں نیوزی لینڈ کے قومی آرکائیو میں سربمہر رہیں گے۔
     
  20. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    واہ جناب کنور خالد صاحب۔ کائنات کے بہت سے رازوں سے وقت کے ساتھ ساتھ پردہ اٹھ رہا ہے۔ آپ ایسی زبردست تحریریں شیئر کر کے ہماری معلومات میں بہت اضافہ فرما رہے ہیں۔ شکریہ
     
  21. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    ایک گھنٹے میں 760 بادو باراں طوفان
    بادوباراں
    [​IMG]
    بادوباراں زیادہ تر گرم علاقوں میں ہی آتے ہیں

    سائنسدانوں کی ایک نئی تحقیق کے مطابق کرہ ارض پر ہر ایک گھنٹے میں سات سو ساٹھ بادو باراں طوفان آتے ہیں۔

    یہ اعدادو شمار ویانا میں اراضی سائنس کے ایک اجلاس میں پیش کیے گئے جو گزشتہ ایک صدی سے استعمال ہونے والے اعدادو شمار سے کہیں کم ہیں۔

    اس نئی تحقیق میں عالمی سطح پر کام کرنے والے مانیٹرنگ سٹیشنوں کا استعمال کیا گیا ہے جو بادلوں میں بجلی کی گرج سے پیدا ہونے والے بادو باراں طوفان کا پتہ لگاتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ بادو باراں طوفان زیادہ ترگرم علاقوں میں ہی آتے ہیں اور کانگو اس کا ہاٹ سپاٹ ہے۔

    خیال ہے کہ بادو باراں طوفان کی تعداد کا پتہ لگانے کی کوشش پہلی مرتبہ سنہ انیس سو بیس کی دہائی میں کی گئی تھی۔

    اس نئی تحقیق میں عالمی سطح پر کام کرنے والے مانیٹرنگ سٹیشنوں کا استعمال کیا گیا ہے جو بادلوں میں بجلی کی گرج سے پیدا ہونے والے بادوباراں کا پتہ لگاتے ہیں۔

    اس وقت کے نظام کے تحت محکمئہ موسمیات کے مراکز کو اپنے ارد گرد آنے والے بادو باراں طوفان کی تعداد لکھنی ہوتی تھی۔

    ایک برطانوی ماہرِ موسمیات نے انہیں اعدادو شمار کو جمع کرنے کے بعد لکھا تھا کہ دنیا بھر میں ایک گھنٹے میں ایک ہزار آٹھ سو بادو باراں طوفان آتے ہیں۔ تاہم اس تحقیق کے اعدادو شمار نامکمل اور قیاس پر مبنی تھے۔

    سنہ انیس سو پچاس کی دہائی میں دو سائنسدانوں نے ایک ہوائی جہاز میں ایسے آلات کے ساتھ تقریباً اکیس بادو باراں طوفان کے اوپر سے گزر کر دیکھا جو ہوا میں کرنٹ اور وولٹیج کی پیمائش کر سکتے تھے۔

    اس تحقیق میں دنیا بھر میں ہر سال دو ہزار سے لیکر ساڑھے تین ہزار بادو باراں طوفان بتائے گئے۔

    حال ہی میں ہونے والی تحقیق میں بالکل مختلف تکنیک اختیار کی گئی اور دنیا بھر کے چالیس مانیٹرنگ مراکز کو اس میں شامل کیا گیا۔

    ستمبر سنہ دو ہزار دس میں تازہ اعدادو شمار کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد یہ انکشاف کیا گیا کہ ان بادو باراں طوفان کی تعداد فی گھنٹہ سات سو ساٹھ ہے۔

    مختلف مقامات پر ان کا ایک ہائی ٹائم ہوتا ہے اور زیادہ تر بادو باراں طوفان دوپہر میں آتے ہیں۔
     
  22. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    کنور خالد جی دلچسپ معلومات شیئر کرنے کے لیئے شکریہ قبول فرمائیں
     
  23. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    ویسے میرا خیال ہے آج "Earth Day" منایا جا رہا ہے۔
     
  24. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    جناب کنور خالد صاحب معلومات افزا شئیرنگ کا شکریہ
     
  25. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    واہ کنور صاحب !‌آپ کی ہر شیئرنگ بہت معلوماتی ہوتی ہے ۔
     
  26. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ھماری زمین

    سیارے نیپچون کی پہلی ’سالگرہ‘

    نیپچون پر تقریباً بارہ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلتی ہیں
    نیپچون اپنی پہلے سالگرہ منانے جا رہا ہے۔ بارہ جولائی کو یہ سیارہ اپنی دریافت کے بعد پہلی مرتبہ سورج کے گرد اپنا پہلا چکر مکمل کرے گا۔ یہ ایک نیپچونی سال 164.79 زمینی سالوں کے برابر تھا۔

    نیپچون چوبیس ستمبر اٹھارہ سو چھیالیس کو دریافت ہوا تھا۔ لیکن اب بھی ہم نظام شمسی کے اس سب سے آخری سیارے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔

    نیپچون زمین سے چار اعشاریہ چار ارب کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پہلا سیارہ تھا جس کے وجود کے بارے میں اس کی دریافت سے پہلے اندازہ ہو گیا تھا۔

    قصہ کچھ یوں ہے کہ سن سترہ سو اسی میں یورینس کی دریافت کے وقت ماہرین فلکیات اس سیارے کے غیر معمولی مدار سے پریشان ہو گئے۔ ماہرین اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ یا تو نیوٹن کے قوانین بنیادی طور پر غلط ہیں یا پھر کوئی قوت جو ایک سیارہ بھی ہو سکتا ہے یورینس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔

    اس طرح ماہرین نے آٹھویں سیارے کی تلاش شروع کر دی۔ ماہرِ فلکیات ڈاکٹر ایلن چیپمین نے کہا کہ یہ ریاضی کا اتنا زبردست استعمال تھا جس کے بعد بھوسے کے ڈھیر میں دس منٹ میں سوئی تلاش کرنا بچوں کا کھیل معلوم ہوتا ہے۔

    نیپچون کی تلاش میں ریاضی کی بنیاد پر کئی دہائیوں تک پیشینگوئیاں جاری رہیں لیکن کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب برلن میں فرانسیسی ریاضی دان اربین لے ویریر کی تھیوری کو آزمایا گیا۔

    ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد نیپچون کو پہلی بار تئیس ستمبر اٹھارہ سو چھیالیس کی رات کو دیکھا گیا۔ یہ سیارہ بالکل اسی مقام پر نظر آیا جہاں ویریر نے کہا تھا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے وقتی طور پر نیپچون کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے مشن معطل کر دیے ہیں۔ نیپچون آربٹر مشن جو سن دو ہزار سولہ میں روانہ کیا جانا تھا اب ناسا کے مستقبل کے منصوبوں کی فہرست میں شامل نہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں