1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لڑی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنورخالد, ‏30 مئی 2010۔

  1. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں سے حسن سلوک

    نرمی کے ساتھ اسلام پیش کرو
    غزئوہ خیبر میں باقی سب قلعے تو آسانی سے فتح ہو گئے تھے مگر قلعہ قمو ص جو مر حب کا پایہ تخت تھا ۔ اس کی مہم میں زیادہ دیر ہوئی ۔ پہلے اس مہم پر دیگر بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہ بھیجے گئے مگر فتح کا فخر کسی اور کی قسمت میں تھا ۔ ایک شام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کل میں اس شخص کو علم دو ں گا جس کے ہا تھ پر خدا فتح دے گا اور جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہتا ہے اور اللہ اور اللہ کا رسول بھی اسے چاہتے ہیں ۔ “ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے تمام رات بے قراری سے کا ٹی کہ دیکھئے یہ تاج فخر کس کے حصے میں آتا ہے ، صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” علی رضی اللہ عنہ کہا ں ہیں؟ “ یہ بالکل غیر متوقع آواز تھی کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں دکھتی تھیں اور سب کو معلوم تھا کہ اس حالت میں وہ جنگ سے معذور ہیں ۔ بہر حال وہ حسب طلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور نے ان کی آنکھو ں میں اپنا لعب دہن لگا یا اور دعا فرمائی ۔ جب انہیں علم عنایت ہوا تو انہوں نے عرض کیا : ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہود کو لڑ کر مسلما ن بنا لیں؟ ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نرمی کے ساتھ ان کو سلام پیش کر و۔ اگر ایک شخص بھی تمہاری ہدایت سے اسلام لا ئے تو یہ سرخ اونٹو ں سے بہتر ہے ۔ “

    دشمنوں کے ساتھ احسان
    حنین کی جنگ میں کا میا بی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے مال و اسباب کو جو اس جنگ میں مسلمانو ں کے ہاتھ آیا تھا اور ان کے قیدیو ں کو جعرانہ میں محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر دشمن کی اس فو ج سے نمٹنے کے لیے جو طائف کے قلعے میں جا کر بیٹھ گئی تھی اور ایک نئی جنگ کی تیاری کر رہی تھی۔ مسلمانو ں کے لشکر کو لے کر طائف کی طر ف روانہ ہوگئے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس روز تک قلعے کا محاصرہ کیا ۔ پھر جب یہ اطمینان ہو گیا ۔کہ اس قلعے میں گھری ہوئی فوج کی طرف سے کو ئی خطرہ نہیں ہے تو واپس جعرانہ تشریف لائے۔ ( جاری ہے )
     
  2. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    گزشتہ سے پیوستہ

    یہا ں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز انتظار کیا کہ جنگ حنین کے قیدیوں کے رشتے دار آئیں تو ان سے ان کی رہا ئی کی بات کر یں۔ لیکن جب کئی دن گزرنے کے بعد بھی کوئی نہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت اور قیدی مسلمانو ں میں تقسیم کر دیے۔ جب تقسیم ہو چکی تو قبیلہ ہوازن کا جس نے حنین میں مسلما نو ں سے جنگ کی تھی، ایک وفد حضور کے پا س آیا اور کہنے لگا : ” یارسول اللہ ! ہم لو گ شریف خاندان ہیں۔ ہم پر جو مصیبت آئی ہے، وہ آپ کو معلوم ہے، حضور ہم پر احسان فرمائیں، اللہ آپ پر احسان فرمائے گا۔ “ اس قبیلے کے ایک سردار زہیر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: ” یا رسول اللہ ! جو عورتیں یہا ں قید ہیں، ان میں آپ کی پھو پھیا ں، خالا ئیں اور وہ عورتیں ہیں جنہو ں نے آپ کی پر ورش کی ہے۔ اللہ کی قسم، اگر عرب کے با دشا ہو ں میں کسی نے ہمارے خاندان کا دودھ پیا ہو تاتو ان سے کچھ امیدیں ہوتیں لیکن آپ سے تو بہت امیدیں ہیں۔ “ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : ”اچھا، یہ بتاﺅ کہ تمہیں اپنی عورتیں اور اولاد زیادہ پیاری ہے یا مال و اسباب ؟“ انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ،جب آپ نے ہمیں ایک چیز لینے کا اختیار دیا ہے تو ہماری اولا د اورعورتیں ہمیں دے دیجیے۔ یہ ہمیں زیادہ پیا ری ہیں۔ “ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’ ’ میں نے تمہارا کئی دن انتظار کیا لیکن تم نہ آئے۔ میں نے مال غنیمت اور قیدی مسلما نو ں میں تقسیم کر دیے۔ میرے اور میرے خاندان کے حصے میں جو قیدی آئے ہیں وہ تو میں نے تمہیں دیے، باقی رہے دوسرے قیدی، تو ان کے لیے یہ تدبیر ہے کہ جب میں نما ز پڑھ چکو ں تو تم مجمع میں کھڑے ہو کر کہنا کہ ہم رسول اللہ کو شفیع ٹھہرا کر مسلمانوں سے اور مسلما نو ں کو شفیع ٹھہراکر رسول اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہماری اولا د اور ہماری عورتیں ہمیں واپس کر دی جائیں۔ اس وقت میں اپنے اور اپنے خاندان کے قیدی واپس کر دو ں گا اور باقی قیدیوں کے لیے مسلما نو ں سے کہو ں گا۔ “ چنا نچہ ہو ازن کے آدمیو ں نے ایسا ہی کیا اور نما زکے بعد اپنی درخواست پیش کر دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نے اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ تمہیں دیا“ انصار اور مہا جرین یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ رسول اللہ تو اپنے حصے کے قیدی چھوڑ دیں اور وہ ان کو اپنی قید میں رکھیں۔ انھو ں نے فوراً ایک زبان ہو کر عرض کیا : ” ہم نے بھی اپنا حصہ حضور کی نذر کیا۔“ اس طر ح حضور نے ہوا زن سے اپنا وعدہ پورا فرمایا اور ان کے چھ ہزار قیدی واپس کر دیے۔
     
  3. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    بغدادِ مُعَلٰی جِسے عُروسِ البلاد کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے اگرآپ بغداد شریف کی تاریخ کا مُطالعہ کریں تُو آپ دیکھیں گے کہ یہ وہ سرزمین ہے جو علم و دانش کا گہوارہ ہے یہی وہ مقدس سرزمین ہیکہ جہاں دُنیا بھر سے تشنگان علم اپنی پیاس بھجانے کیلئے بڑی بیقراری سے دور دراز کا سفر اختیار کیا کرتے تھے جِس کے بطن سے ایسے ایسے گوہر نایاب آسمان فلک پر چَمکے کہ دُنیا کو مُنور کرڈالا ہزاروں اولیا اللہ نے اِسے اپنا مسکن بنایا اور یہی وہ سرزمین ہے جس پر ہزاروں مہتاب ولایت اندھیروں کو اُجالوں میں بَدلتے رہے۔ یُوں تُوحضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت جُنید بغدادی رحمتہ اللہِ الہادی کے نام ہی اسکی پہچان کیلئے کافی ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ لاکھوں اولیاءَاللہ نے اِسے شرف عزت بخشا ہے اِسی سرزمین بغداد کا ایک مختصر سا واقعہ آج آپکو گوشِ گزارکرنے کی سعادت حاصل کررہا ہُوں۔

    موسمِ بہار کی ایک سُہانی شام کا ذکر ہے یُوں توپہلی بارش نے تمام شہرکی سڑکوں کو دُھو ڈالا تھا لیکن چند ایک بارشوں کی تاب نہ لاکر شہر کی چند سڑکوں پر پانی جمع ہُوچُکا تھا زمین کی مَٹی اپنی پیاس بھجانے کیلئے اُس پانی کے ساتھ اَٹھکلیاں کررہی تھی جسکی وجہ سے شفاف پانی گُدلاہُوچُکا تھا لگاتار بارشوں کی وجہ سے موسم میں خنکی پیدا ہُوچُکی تھی۔

    ایک مجذوب درویش بھی اِس بارش کے پانی میں عشق ومستی سے لبریز چلا جارہا تھا کہ اُس درویش نے ایک مٹھائی فروش کو دِیکھا جو ایک کڑھائی میں گرما گرم دودھ اُبال رہا تھا تُو موسم کی مُناسبت سے دوسری کڑھائی میں گرما گرم جلیبیاں تیار کررہا تھا مجذوب کچھ لمحوں کیلئے وہاں رُک گیا شائد بھوک کا احساس تھا یا موسم کا اثر تھا۔ مجذوب حلوائی کی بھٹی کو بڑے غور سے دیکھنے لَگا مجذوب کُچھ کھانا چاہتا تھا لیکن مجذوب کی جیب ہی نہیں تھی تو پیسے بھلا کیا ہُوتے ۔

    مَجذوب چند لمحے بھٹی سے ہاتھ سینکنے کے بعد چَلا ہی چاہتا تھا کہ نیک دِل حَلوائی سے رَہا نہ گیا اور ایک پیالہ گرما گرم دودھ اور چند جلیبیاں مَجذوب کو پیش کردِیں مَجذوب نے گرماگَرم جلیبیاں گَرما گرم دودھ کیساتھ نُوش کی اور پھر ہاتھوں کو اُوپر کی جانب اُٹھا کر حَلوائی کو دُعا دیتا ہُوا آگے چَلدِیا۔

    مَجذوب کا پیٹ بھر چُکا تھا دُنیا کے غموں سے بے پروا وہ پھر اِک نئے جُوش سے بارش کے گدلے پانی کے چھینٹے اُڑاتا چلا جارہا تھا وہ اِس بات سے بے خبر تھا کہ ایک نوجوان نو بیاہتا جُوڑا بھی بارِش کے پانی سے بَچتا بچاتا اُسکے پیچھے چَلا آرھا ہے یکبارگی اُس مَجذوب نے بارش کے گَدلے پانی میں اِس زور سے لات رَسید کی کہ پانی اُڑتا ہُوا سیدھا پیچھے آنے والی نوجوان عورت کے کَپڑوں کو بِھگو گیا اُس نازنین کا قیمتی لِباس کیچڑ سے لَت پَت ہُوگیا تھا اُسکے ساتھی نوجوان سے یہ بات برداشت نہیں ہُوئی۔

    لِہذا وہ آستین چَڑھا کر آگے بَڑھا اور اُس مَجذوب کو گریبان سے پَکڑ کر کہنے لگا کیا اندھا ہے تُجھے نظر نہیں آتا تیری حَرکت کی وجہ سے میری مِحبوبہ کے کَپڑے گیلے ہوچُکے ہیں اور کیچڑ سے بھر چُکے ہیں۔

    مَجذوب ہکا بَکا سا کھڑا تھا جبکہ اُس نوجوان کو مَجذوب کا خاموش رِہنا گِراں گُزر رہا تھا۔

    عورت نے آگے بڑھ کر نوجوان کے ہاتھوں سے مَجذوب کو چھڑوانا بھی چاہا لیکن نوجوان کی آنکھوں سےنِکلتی نفرت کی چنگاری دیکھ کر وہ بھی دوبارہ پیچھے کھسکنے پر مجبور ہُوگئی ۔

    راہ چلتے راہ گیر بھی بے حِسی سے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے لیکن نوجوان کے غُصے کو دیکھ کر کِسی میں ہِمت نہ ہُوئی کہ اُسے رُوک پاتے اور بلاآخر طاقت کے نشے سے چُور اُس نوجوان نے ایک زور دار تھپڑ مَجذوب کے چہرے پر جَڑ دِیا بوڑھا مَجزوب تھپڑ کے تاب نہ لاسکا اور لڑکھڑاتا ہُوا کیچڑ میں جا پڑا
    نوجوان نے جب مَجزوب کو نیچے گِرتا دِیکھا تُو مُسکراتے ہُوئے وہاں سے چَلدیا۔

    بوڑھے مَجذوب نے آسمان کی جانب نِگاہ اُتھائی اور اُس کے لَب سے نِکلا واہ میرے مالک کبھی گَرما گَرم دودھ جلیبیوں کیساتھ اور کبھی گَرما گَرم تھپڑ،، مگر جِس میں تُو راضی مجھے بھی وہی پسند ہے ،، یہ کہتا ہُوا مَجذوب ایکبار پھر اپنے راستے پر چَلدِیا۔

    دوسری جانب وہ نوجوان جُوڑا جوانی کی مَستی سے سرشار اپنی منزل کی طرف گامزن تھا تھوڑی ہی دور چَلنے کے بعد وہ ایک مکان کے سامنے پُہنچ کر رُک گئے وہ نوجوان اپنی جیب سے چابیاں نِکال کر اپنی محبوبہ سے ہنسی مذاق کرتے ہُوئے بالا خَانے کی سیڑھیاں طے کر رہا تھا۔

    بارش کے سبب سیڑھیوں پر پھلسن ہُوگئی تھی اچانک اُس نُوجوان کا پاؤں رَپٹ گیا اور وہ سیڑھیوں سے نیچے گِرنے لَگا۔

    عورت زور زور سے شور مچا کر لوگوں کو اپنے مِحبوب کی جانب متوجہ کرنے لگی جسکی وجہ سے کافی لوگ فوراً مدد کے واسطے نوجوان کی جانب لَپکے لیکن دیر ہُوچُکی تھی نوجوان کا سَر پھٹ چُکا تھا اور بُہت ذیادہ خُون بِہہ جانے کی وجہ سے ااُس کڑیل نوجوان کی موت واقع ہُوچُکی تھی۔

    کُچھ لوگوں نے دور سے آتے مَجذوب کو دِیکھا تُو آپس میں چہ میگویئاں ہُونے لگیں کہ ضرور اِس مجذوب نے تھپڑ کھا کر نوجوان کیلئے بَددُعا کی ہے ورنہ ایسے کڑیل نوجوان کا صرف سیڑھیوں سے گِر کر مرجانا بڑے اَچھنبے کی بات لگتی ہے۔

    چند منچلے نوجوانوں نے یہ بات سُن کر مَجذوب کو گھیر لیا ایک نوجوان کہنے لگا کہ آپ کیسے اللہ والے ہیں جو صِرف ایک تھپڑ کی وجہ سے نوجوان کیلئے بَددُعا کر بیٹھے یہ اللہ والوں کی روِش ہَر گز نہیں کہ ذرا سی تکیلف پربھی صبر نہ کرسکیں۔

    وہ مَجذوب کہنے لگا خُدا کی قسم میں نے اِس نوجوان کیلئے ہرگِز بَددُعا نہیں کی !

    تبھی مجمے میں سے کوئی پُکارا اگر آپ نے بَددُعا نہیں کی تُو ایسا کڑیل نوجوان سیڑھیوں سے گِر کر کیسے ہلاک ہوگیا؟

    تب اُس مَجذوب نے حاضرین سے ایک انوکھا سوال کیا کہ کوئی اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ موجود ہے؟

    ایک نوجوان نے آگے بَڑھ کر کہا ، ہاں میں اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ ہُوں

    مَجذوب نے اَگلا سوال کیا ،میرے قدموں سے جو کیچڑ اُچھلی تھی کیا اُس نے اِس نوجوان کے کپڑوں کو داغدار کیا تھا؟

    وہی نوجوان بُولا نہیں ،، لیکن عورت کے کَپڑے ضرور خَراب ہُوئے تھے

    مَجزوب نے نوجوان کی بانہوں کو تھامتے ہُوئے پوچھا ، پھر اِس نوجوان نے مجھے کیوں مارا؟

    نوجوان کہنے لگا،، کیوں کہ وہ نوجوان اِس عورت کا محبوب تھا اور اُس سے یہ برداشت نہیں ہُوا کہ کوئی اُسکے مِحبوب کے کپڑوں کو گَندہ کرے اسلئے اپنی معشوقہ کی جانب سے اُس نوجوان نے آپکو مارا۔

    نوجوان کی بات سُن کر مجذوب نے ایک نعرۂ مستانہ بُلند کیا اور یہ کہتا ہُوا وہاں سے رُخصت ہُوگیا پس خُدا کی قسم میں نے بَددُعا ہرگز نہیں کی تھی لیکن کوئی ہے جو مجھ سے مُحبت رکھتا ہے اور وہ اِتنا طاقتور ہے کہ دُنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُسکے جبروت سے گھبراتا ہے۔
    __________________
     
  4. عفت
    آف لائن

    عفت ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    1,514
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    کنور جی بہت اچھا مضمون ہے۔ اس کو علیحدہ سے پوسٹ کریں
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث نمبر: 6021
    کی طویل روایت کا ایک جزو ہے کہ حضور نبی اکرم :drood: نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔

    "جو شخص میرے کسی ولی (بندہ مقرب) سے عداوت رکھے تو میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ،۔۔۔۔۔ الی الخ "
     
  6. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    کراچي کے دورے میں ایک فوجی حکمران کو ايک بولنے والا چالاک طوطا تحفہ کے طور پر پيش کيا گيا۔ طوطا حکمران کے ہاتھ پر بيٹھا تھا کہ اس کو حاجت ہوئی اور اس نے حکمران کے بازو پرہي پي کر دي۔ ساتھ کھڑے چاپلوس وزير ماحوليات آگے بڑھے ، حکمران کا بازو صاف کيا اور تحفہ دينے والے سے پوچھا اس گدھے کو کس جگہ سے ٹريننگ دلوائي ہے۔ طوطا جھٹ سے بولا ” کاکول اکيڈمي سے”۔[​IMG]
     
  7. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    پی پی پی کے موجودہ mpaکے بھائیوں کا حج کے نام پر فراڈ اورمثالی انصاف فاؤنڈیشن کی کاروائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل پڑہیے گا
     
  8. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    ہمارا ایک ممبر ایک متاثرہ فرد کو دفتر میں لے آیا اس نے بتایا کہ‘ قریباً ایک سال کا عرصہ گزرا پی پی پی کے موجودہ mpaکے بھائیوں نے ایک ٹریول ایجنسی قائم
    کی اور حج کے نام پر لوگوں‌سے کڑوڑوں روپے جمع کیے لیکن کسی کو حج نہیں کروایا میں‌نے بھی 475000 روپے اپنے والد اور والدہ کے حج کے لیے جمع کروائے جو لوگ پیسوں‌کی واپسی کا تقاضہ کرتے ہیں‌یہ لوگ ان کو ڈراتے دھمکاتے ھیں‌اور جھوٹے پرچے کروادیتے ہیں‌۔میرے والد اس صدمے سے اللہ کو پیارے ہو گئے آخر کار تنگ آکر میں‌نے سیشن کورٹ سے ان کے خلاف پرچہ کے آڈر حاصل کیے لیکن پولیس پرچہ نہیں‌دیتی پھر میں‌ہائیکورٹ گیا وہاں سے ان کے خلاف پرچہ کے آڈر حاصل کیے لیکن پولیس نےپھر بھی پرچہ نہیں‌دیا اب میں‌یہ سوچ رہا ہوں‌کہ وزیراعلی ہاوس کے سامنے خودکشی کرلوں ’
    سائل کو تسلی دی گئی اور معاملے کی چھان بین کی گئی تمام معاملے کی تسلی کر لینے کے بعد پولیس کے ذمہ داران سے بات کی گئی لیکن پولیس نے حکومتی دباو کا بہانا کرنا چاہا ۔ انصاف فاوُنڈیشن نے تمام ممبران طلب کرلیااور ٹھیک آدھے گھنٹے کے بعد تمام ممبر وہاں‌ پہنچ گئے مشورہ کرنے کے بعد انتظامیہ کو وارننگ دی گئی کہ آگر ایک گھنٹے کے اندراندر پرچہ درج نہ ہوا تو لاھور روڈ پر دھرنا دیا جائے گا اور اس وقت تک وہا ں‌سے نہیں‌اٹھا جائے گا جب تک پرچہ درج نہیں‌ہو جاتا یا آپ لوگ ہمیں‌ گولیوں‌سے بھون کر ھماری لاشیں‌نہیں‌اٹھاتے۔الحمدللہ موقعہ پر پر چہ کے آڈر ہو گئے آور متعلقہ تھانہ پہنچ کر انصاف فاوُنڈیشن نے پرچہ درج کروادیا۔
    زرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ھے ساقی
     
  9. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    اللہ کریم آپ کی کاوش پر آپ کو بے بہا اجر سے نوازیں اور دعا ہے کہ یہ تبدیلی کی لہر دیگر شہروں بھی آپ کی وساطت سے پہنچے
     
  10. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    بہت خوب اور قابل تعریف
     
  11. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    ایک ٹرک ڈرائیور نے اپنی حفاظت کیلیے ایک بندر پال رکھا تھا بندر بڑا تیز طرار تھا بچے خاص طور پر اس سے ڈرتے تھے ۔ایک دن ڈاکو آے اور اس سے تمام پیسے لوٹنے کی کوشش کی ڈرائیور نے بندر کے آثرے پر مزا ہمت کا فیصلہ کیا اور مارا گیا اس دوران بندر ٹرک کی سائیڈ پر لگی ہوی سیڑھی پر مسلسل اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتا رہا ۔لوگ جمح‌ہو گئے اور بندر سے پوچھنے لگے کہ تمھارے مالک کو ڈاکو مار گئے اور تم نے کچھ نہیں‌کیا۔
    وہ کہنے لگا کہ اس بات کو چھوڑو بس میری آنیا ں جانیاں دیکھو بس یہئ ہمارے ساتھ ہو رھاھے۔
     
  12. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    چور کون
    کچھ عرصہ پہلے ھمارے ایک ممبر کے ڈیرے سے چور گائیں‌ اور بھینسیں چرا کر کے لے گئےپرچہ درج ہونے کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلا۔مثالی انصاف فاوُنڈیشن ایکشن میں‌آئی اور ڈی۔پی۔او سے ملاقات کی گئی انہوں‌نے ایک ہفتہ کا ٹائم لیا ۔دو تین روز کے پولیس ڈیرے پر ٹرک بھر کر گائیں‌ اور بھینسیں لے آئی لیکن ممبر نے کہا کے یہ میرے جانور نہیں اس لئے لینے سے انکار کر دیا پولیس نے دباو ڈالا لیکن جانور واپس کر دیے گئے۔دوبارہ ڈی۔پی۔او سے ملاقات کی گئی اور اس بات پر شدید احتجاج کیا گیا انہو‌ں نے پھر کچھ ٹائم لیا
    اور چند دن کے بعد پولیس وہی جانور واپس کرگئی۔
     
  13. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    ویسے کوشش کریں کہ زیادتی اگر غیر ممبر کے ساتھ بھی تو ان کا بھی ساتھ دیں ۔۔۔۔ یہ نہیں‌کہ اگر کوئی ممبر ہے تو پھر سب کچھ اور اگر نہیں‌ہے تو چلو جی سانوں کی۔۔۔۔۔مجھے امید ہے کہ سب کی مدد کرتے ہونگے۔۔۔۔۔بس ایک خدشہ ذہن میں آیاسو بیان کردیا ۔۔۔۔ امید ہے کہ مثبت جواب سے سرفراز کرتے ہوئے تسلی کروائیں گے۔
     
  14. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    محبوب خان بھائی ایسے ہی ھے جو کا م آجائے اگر میرٹ پر ہو تو پوری کوشش
    کی جاتی ہے لیکن ممبر ز کے تو تمام ممبرز حلفً پابند ہوتے ہیں پھر ہمارا عزم پوری قوم کے مسائل حل کرنا ھے ۔ اگر آپ بھیجے گئے مراسلوں‌پر توجہ دیں تو زیادہ تر کام غیر ممبرز کے ہوے ہیں‌۔ھم چونکے عملاً فیلڈ میں‌موجود ھیں‌۔اس لیے معاملات اتنے سادہ نہیں‌ھوتے جتنے نظر آتے ہیں ۔بعض دفعہ سارا سارا دن کا دھرنا ہوتا ھے تب جا کر مسلہ حل ھوتا ھے ۔زیادہ تر لوگ جاب پیشہ اور متوسط کاروباری ھیں‌ اسلیے ھر ایک کا مسلہ یقیناً حل ھو گا جب سب اس پلیٹ فارم پر جمع ھو جائیں‌گے اور یہ دن زیادہ دور نہیں‌ انشاءاللہ
     
  15. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    بہت ہی قابل تعریف بلکہ قابل تقلید کام ہے۔۔۔جزاک اللہ
     
  16. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    میں ایک عام آدمی ہوں۔ پرانے شہر کی ایک تنگ گلی کے ایک تاریک مکان میں رہنے والا ایک عام آدمی۔ میری زندگی کا تجربہ ہے کہ بڑے سے بڑا آدمی آپ کو چھوٹے سے چھوٹا فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور چھوٹے سے چھوٹا آدمی بڑے سے بڑا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ میری زندگی ایک گورکھ دھندھے میں پھنسی ہوئی ہے اور اس گورکھ دھندھے نے مجھے کسی بھی قابل نہیں چھوڑا ہے۔ آج مجھے 500 روپے چاہئیں، صبح سے لے کر شام تک کاوشوں کے بعد نقد ادھار کر کے 500 روپے حاصل کیے۔ پورا دن اس سوچ فکر میں برباد کیا۔ رات ہوتے 500 روپے کا انتظام ہوا۔ اب دوسرے دن پھر 300 روپے کی ضرورت ہے۔ دوسرا دن ان 300 روپے کے انتظام میں گزرا۔ کوئی اور سوچ فکر نہیں بس ان 300 روپے حاصل کرنے کی دھن۔ شام تک 300 روپے کا انتظام ہوا، پھر اگلے دن 450 روپے چاہئیں، غرضیکہ پوری زندگی ان چند کوڑیوں کو حاصل کرنے میں گزر رہی ہے۔ کوئی بڑی سوچ و فکر ہو ہی نہیں سکتی، کیوں کہ ان دو چار سو روپے کی ضرورت اتنی شدت سے ہوتی ہے کہ سوچ اس دائرے سے باہر نکل ہی نہیں پاتی۔ کبھی دودھ، آٹا، گھی، مصالحے کبھی بچے کے اسکول کے خرچے، کبھی بچے کی اسکول کی فیس جو اگر داخل نہیں کی تو بچے کا نام کٹ جائے گا۔ کبھی بجلی کا بل غرضیکہ یہ دوچار سو روپے زندگی کا محور ہو کر رہ گئے ہیں۔ بیوی کے پاس زیور تھے ہی کتنے، لیکن جو بھی تھوڑے بہت تھے سب فروخت ہوچکے ہیں، اب کوئی ایسی چیز گھر میں نہیں ہے۔
    یہ سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی کتنا مشکل ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سفید پوشی کا بھر م بھی ہم جیسے لوگوں کے دماغ کی اختراع ہے، ورنہ سماج میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم جیسے لوگ صرف اپنے ذہنی سکون کے لیے سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں۔ چند خدا ترس لوگ ہم سے ہنس کر سلام دعا کرلیتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سفید پوش ہیں اور سماج میں ہمارا مقام ہے، جب کہ سماج میں ہمارا کوئی مقام نہیں ہے۔ اس سوچ کی پستی نے ہی شاید ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہم جیسے لوگوں کو یہ بڑی فکر ہوتی ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیںگے، جب کہ لوگوں کے پاس ہمارے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ ہم جیسے عام آدمی ایک حد سے زیادہ دوسرے کے سامنے جھکتے بھی نہیں ہیں۔ امیر طبقے کے لوگ اپنا کام نکالنے کے لیے دوسرے کے پیر بھی پکڑ لیتے ہیں۔ دوسرے کے سامنے گڑا گڑا لیتے ہیں اور اپنا کام نکال لیتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیںگے۔ شاید عام آدمی اسی لیے عام آدمی ہوتا ہے، کیوں کہ وہ لوگوں کے اپنے بارے میں سوچنے کا بڑا خیال رکھتا ہے۔ شاید ہم جیسے عام آدمی صرف اپنے ہی بارے میں سوچتے ہیں اور جب ہم جیسے عام آدمی کو موقع ملتا ہے، تب بھی ہماری سوچ نہیں بدلتی اور ہم اپنے ہی بارے میں سوچتے ہیں۔ وہ شروع کی چند روپے کی دوڑ دھوپ اپنے بارے میں سوچنے کی عادت اتنی مضبوط کردیتی ہے کہ عام آدمی کتنے ہی بڑے مقام پر پہنچ جائے صرف اپنے ہی بارے میں سوچتا رہ جاتا ہے۔ قوم و ملت، ملک، رشتہ دار خاندان ، پڑوسی، مسافر وغیرہ کسی کے بارے میں کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ عام آدمی میں اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کی عادت بھی پہنچتی ہے، کیوں کہ میں ایک عام آدمی ہوں اس لیے یہ عادت مجھ میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔
    آج کے دور کی قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ نااہل آدمی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اور اہل انسان دروازے کے بارے کھڑا ہے۔ نااہل آدمی رشوت اور سفارش کے زور پر کرسی تک پہنچ جاتا ہے، کیوں کہ یہ نااہل ہوتا ہے، اسی لیے سفارش یا رشوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اہل انسان عام طور پر رشوت دینے یا سفارش لگوانے کے قابل نہیں ہوتے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیت میں کمی آتی جاتی ہے اور مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے مزاج میں شکوہ کرنے کی عادت اور تلخی آجاتی ہے۔ ہمارے سماج میں بہت ساری خرابیاں جمہوریت کی دین ہیں۔
    جمہوریت کی یہ ایک بہت بڑی خرابی ہے۔ دولت اور سیاسی طاقت کے زور پر جاہل آدمی بھی اپنی بات اتنے وثوق سے کہتا ہے گویا کہ صحیح بات کہہ رہا ہو۔ جمہوریت میں سیاسی طاقت کا منبع پیسے اور غنڈہ گردی کی طاقت ہے۔ رہی سہی کسر جمہوریت کے دوسرے ادارے پوری کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر الیکشن کمیشن نے الیکشن پر خرچ کرنے پر ایک حد قائم کردی۔ اس سے پہلے سیاسی لوگ الیکشن لڑتے تھے۔ خرچ ، پوسٹر، بینرز، اشتہار بازی، بلے، جھنڈے وغیرہ میں ہوتا تھا، اس سے لوگوں کو روزگار ملتا تھا۔ اب سیاسی لوگ ان چیزوں پر خرچ نہ کر کے ووٹ خریدنے پر خرچ کرتے ہیں اور ان سیاسی لوگوں کو ووٹ خریدنے میں آسانی بھی ہوگئی ہے، گویا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی لوگوں کا کام اور آسان بنا دیا ہے۔ اب تو جو امیدوار ووٹ کی جتنی زیادہ قیمت لگائے گا وہی جیتے گا۔ ان امیدواروں کے پیچھے مختلف قسم کے مافیا ہوتے ہیں، بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ امیدوار کا تعین کرتے ہی مافیا ہیں جب امیدوار مافیا کی مدد سے جیت کر آئے گا تو ظاہر ہے کس کا کام کرے گا؟ ان امیدواروں کا تعلق اب عوام سے نہیں ہے، بلکہ جس کی سپورٹ پر جتنا بڑا مافیا وہی الیکشن جیتے گا۔ عوام تو صرف ووٹ بیچتے ہیں۔ اس ووٹ کی خریداری میں بھی دلال ہوتے ہیں جو اپنا معقول کمیشن رکھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے الیکشن پر زیادہ خرچ کرنے پر پابندی لگا دی ہے، کوئی بھی امیدوار حد سے زیادہ خرچ کرتے ہوئے پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اب الیکشن کا خرچ پہلے سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ امیدوار جو فی ووٹ پچاس روپے کا خرچ کرتا تھا، اب پانچ سو سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور ووٹر کی حیثیت بھی اب بہت کم رہ گئی ہے، کیوں کہ امیدوار کو معلوم ہے کہ ووٹر سیاسی دلالوں کے ذریعے خریدے جاتے ہیں۔ گویا کہ الیکشن اب وہ جیتے گا جس کا تعلق اچھے اور بڑے قسم کے سیاسی دلالوں سے ہوگا اور زیادہ بڑا اور زیادہ پیسے والا مافیا جس کی سپورٹ پر ہوگا۔
    ہم نے آج تک کوئی ایسا پارلیمنٹ، اسمبلی یا کارپوریشن کا ممبر نہیں دیکھا جو اپنے کردار، اعلیٰ اخلاقی معیار یا کسی نظریے کی بنیاد پر جیت کر آیا ہو۔ سارا کھیل پیسے اور طاقت کا ہے۔ آج کی جمہوریت میں کسی کا کوئی نظریہ، نظام حکومت، عوامی فلاح یا اور کوئی تعمیری کام کی کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی لوگوں کا عوام سے کوئی تعلق ہے۔ بس خانہ پری کے لیے سیاسی لوگ عوام کے بیچ میں آتے ہیں ورنہ الیکشن کے فیصلے تو بند کمروں میں ہوتے ہیں۔
    یہ تو بات ہوئی ملک کے اندر کی۔ اب سوال یہ ہے کہ مرکز میں یا ریاست میں حکومت کون بنائے گا تو اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس کا فیصلہ ہمارے ملک کے اندر نہیں ہوتا۔ خاص طور سے مرکزی حکومت بنانے کے لیے کسی نظریاتی پارٹی کو اپنا قبلہ متعین کرنا ہوتا ہے۔ اس قبلے کا رخ امریکہ، یوروپ، اسرائیل وغیرہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس قبلے کے رخ کا تعین پاکستان کی طرح کھلے عام بھی ہوسکتا ہے اور کئی اور دیگر ممالک کی طرح چوری چھپے سے بھی ہوسکتا ہے۔ مقصد تو قبلے کے رخ کو طے کرنا ہے۔
    اب یہ جمہوریت کا کھیل بین الاقوامی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ دکھاوے کے لیے یہ قبلے کا رخ مختلف ہوسکتا ہے، لیکن دراصل یہ رخ ایک ہی ہے جو نیوورلڈ آڈر یا گلوبلائزیشن کی طرف جاتا ہے۔ نیوورلڈ آڈر کی مختلف طاقتیں ہیں، لیکن سب طاقتیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔ صہیونی طاقت کے سامنے، کیوں کہ نیو ورلڈ آڈر کے نظام کو قائم کرنے کے لیے سیکڑوں سالوں سے کوششیں جاری ہیں۔ 1776 میں آڈر آف الیومینائی بنایا گیا۔ 1897 میں پروٹوکول آف رائے نسٹ تشکیل دئے گئے اور پھر اس کے بعد امریکہ کے صدر بش سینئر نے نیوورلڈ آڈر کا اعلان کیا۔ اب دنیا ایک گلوبل گاؤں کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور صہیونی طاقتوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا جارہا ہے۔ اب طاقت کا سرچشمہ امریکہ نہیں رہے گا۔ بہت تیزی سے کام چل رہا ہے گریٹر اسرائیل بنانے کا۔ یہ کام عراق جنگ سے شروع ہو کر دریائے نیل اور دریائے فراط کے بیچ کے سارے علاقوں پر جبری قبضہ ہونے پر اختتام کو پہنچے گا اور سینٹر آف پاور تل ابیب بنایا جائے گا اور وہاں سے بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کی جائے گی۔
    امریکہ کی فارن پالیسی کے چھ آبجیکٹیو میں سب سے پہلا آبجیکٹیو ہے اسرائیل کا دفاع اور دوسرا آبجیکٹیو ہے اسلامی سیاسی نظام کا مکمل طور پر خاتمہ، کیوں کہ نیوورلڈ آڈر کو اگر خطرہ ہے تو صرف اسلام کے سیاسی نظام سے، جس کو اقبال کہتے ہیں:
    ہے اگر کوئی خطرہ تو اس امت سے ہے
    جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
    __________________
    مثالی انصاف فاؤنڈیشن
    معاشرے میں انصاف کا بول بالا چاہنے والوں کیلئے
     
  17. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    کنور خالد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت ہی خوبصورت تحریر۔۔۔۔۔۔ایک عام سے پاکستانی کے حقیقی مسائل سے شروع کرکے۔۔۔۔۔۔عالمی سیاست و سازش کو طشت ازبام کرتے ہوئے۔۔۔۔۔ملت اسلامیہ کے بارے ان کے دشمنوں کے عزائم کو ۔۔۔۔۔۔۔بہت خوب بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔بہت ہی خوبصورت تسلسل اور بہت ہی حقیقی نفس مضمون۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس شکریہ ہی ادا کرسکتے ہیں کہ ہم تک پہنچایا۔
     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    شاہ فیصل کی دو رکعتیں
    عربوں کی اسرائیل کے ساتھ 1973 میں لڑی گئی مشہورِ زمانہ جنگ یوم کپور یا جنگِ اکتوبر میں امریکہ اگر پسِ پردہ اسرئیل کی امداد نہ کرتا تو مؤرخین لکھتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ فخر کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے بھی مقدور بھر حصہ لے کر تاریخ میں پنا نام امر کیا۔
    اس جنگ کے دوران شاہ فیصل مرحوم نے ایک دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے تیل کی پیداوار کو بند کردیا تھا، ان کا یہ مشہور قول (ہمارے آباء و اجداد نے اپنی زندگیاں دودھ اور کھجور کھا کر گزار ی تھیں، آج اگر ہمیں بھی ایسا کرنا پڑ جاتا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا) اپنی ایک علیٰحدہ ہی تاریخ رکھتا ہے۔
    شاہ فیصل مرحوم کا یہ فیصلہ امریکہ کیلئے ایک کاری ضرب کی حیثیت رکھتا تھا جس کو تبدیل کرنے کی ہر امریکی تدبیر ناکام ہو رہی تھی۔
    امریکی وزیرِ خارجہ کسنجر نے شاہ فیصل مرحوم سے 1973 میں اسی سلسے میں جدہ میں ایک ملاقات کی۔ تیل کی پیداوار کو دوبارہ شروع کرنے میں قائل کرنے کی ناکامی کے بعد کسنجر نے گفتگو کو ایک جذباتی موڑ دینے کی کوشش کرتے ہوئے شاہ فیصل مرحوم سے کہا کہ اے معزز بادشاہ، میرا جہاز ایندھن نہ ہونے کے سبب آپ کے ہوائی اڈے پر ناکارہ کھڑا ہے، کیا آپ اس میں تیل بھرنے کاحکم نہیں دیں گے ؟ دیکھ لیجئےکہ میں آپ کو اسکی ہر قسم کی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار بیٹھا ہوں۔
    کسنجر خود لکھتا ہے کہ میری اس بات سے شاہ فیصل مرحوم کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی مسکراہٹ تک نہ آئی، سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنا جذبات سے عاری چہرہ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا، میں ایک عمر رسیدہ اور ضعیف آدمی ہوں، میری ایک ہی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے مسجد اقصی میں نماز کی دو رکعتیں پڑھ لوں، میری اس خواہش کو پورا کرنے میں تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو؟
     
  19. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    دل کا لہو

    --------------------------------------------------------------------------------

    آج میں‌صبح اٹھا بلکہ اٹھا کیا رات بھر سو نہ سکا۔خستہ حال کمرے میں ایک پرانا سا پنکھا لگا ھوا ھے جو کہ ظاہر ھے بجلی نہ ھونے کی وجہ سےبند ہی رہتا ھے گرمی کے باعث چارپائی آنگن میں ڈال لی رات بھر مچھروں سے کشتی ہوتی رہی تو ایسے میں‌نیند کیا خاک آنی تھی۔خیر چند لمحوں کی اونگھ کے بعد صبح‌جب آنکھ کھلی پاس لیٹی معصوم بیٹی پر نظر پڑی۔ایک لمحے میں‌جیسے تن بدن میں کرنٹ دور گیا ذھن فوراً خیال آیا کہکل سارادن چوک میں‌کھڑا رھا لیکن مزدوری نہ ملی اور گھرپہنچتے ھی سب سے پہلے گڑیا کی فرمائش کرنے والی میری بیٹی نے گڑیا کاپوچھا تو دوکان بند ہونے کا بہانا کر دیا۔آگر آج بھی ایسا ھوا تو کیا کروں‌گا۔اس لیے ناشتہ کیے بغیر ھی گھر سے نکلنے لگا تو شریکِ حیات ایک پرانی سوکھی ھوئی روٹی اور پانی کا گلاس لیے آ کھڑی ھوئی ۔لیکن میں‌ اسے دلاسہ دے کر بغیر ناشتہ کیے نکل کھڑا ھوا دل میں‌یہ ڈر تھا کے آگر دیر ھو گئی تو پھر آج خالی ہاتھ نہ آنا پڑے۔گھر کے قریب ہی ایک چوک تھا وھاں لوگ مزدوری کے لیے صبح سویرے ہی آکر کھڑے ہوجاتے تھے ۔میں‌بھی وھاں‌ کھڑا ھوگیا۔ٹائم گزرنے لگا لیکن آج بھی آثار کچھ آچھے نہ تھے۔جوں‌جوں‌وقت گزرنے لگا بیچینی بڑھنے لگی اور آخر کار آج کا دن بھی خالی گیا گھر جانے کو دل نہیں‌چاہ رہا تھا۔وہ دن یاد آنے لگے جب میں‌نے بی۔اے۔ کیا تو ابا کتنے خوش ھوے کے اب میرے کوئی اچھی ملازمت مل جائے گی لیکن ان کا خواب پورا نہ ہو سکا ۔ اور اب میری معصوم بیٹی کی معمولی سی خواہش اے خدایا میں‌کیا کروں .اسی کشمکش میں‌چلا جا رھا تھا وقت کا کوئی احساس نہ ہوا پتہ اس وقت جب موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان میرے قریب رکے اور میری تلاشی لینے میں دل میں مسکرایا کہ میرےپاس تو کچھ بھی نہیں‌ وہ دونوں جوان بھی اس بات کو جان گئے،اور مجھ پر تشدد شروع کردیا وہ کہنےلگےاتنی دیر رات کو گھر سے باہر نکلے اور جیب میں‌کچھ بھی نہیں.آغاز ھی تمھارے جیسے کنگلے سے ہوا آج ڈیہاڑی خالی نہ چلی جائے۔مار کھا کھا کر میں‌بیہوش ہو گیا ۔جب ہوش آیا تو خود کو گھر میں‌پایا میری معصوم بیٹی بری طرح رو رھی تھی اور کہ رہی تھی پاپا میں اب گڑیا نہیں مانگوں گی ۔رونا تو مجھے سمجھ آگیا لیکن دوسری بات سمجھ ناآئی ۔ میری پریشانی کوبھانپ کر میری شریک حیات نے بتایا کہ بیہوشی کے عالم میں‌آپ باربار یہ کہ رہے تھے کے مجھے معاف کر دو مجھے معاف کردو میں‌آج بھی تمھاری گڑیا نہیں‌لاسکا وہ یہ سمجھ رہی ھے کہ یہ سب شائد اس کی گڑیا کی وجہ سے ہوا ھے ۔میری آنکھوںمیں‌آنسو آگئے اور میں‌سوچنے لگا کے وہ ڈاکو تو اپنی گڑیا لینے میں‌یقیناًکامیاب ہو جائیں‌گے کیوں کہ بھری ہوی جیبوں‌والے ابھی باقی ھیں۔
    __________________

    مثالی انصاف فاؤنڈیشن
    معاشرے میں انصاف کا بول بالا چاہنے والوں کیلئے
     
  20. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    انقلاب فرانس، کیوں اور کیسے









    یہ 2جولائی 1789ء کا دن تھا اور پیرس شہر تھا۔پیرس کی مشہورزمانہ سٹرک “شانزے لیزے”کے ایک سرے پرلوگوں کا مجمع لگاتھا۔مجمعے کے اندر ایک شاہی محافظ ایک غریب اور مسکین شخص کو پیٹ رہا تھا۔ محافظ اس شخص کوٹھنڈوں ،مکوں اورڈنڈوں سے مار رہا تھا او ر درجنوں لوگ یہ من...ظر دیکھ رہے تھے جبکہ پٹنے والا دہائی دے رہا تھا منتیں کر رہا تھا اورمحافظ کے پاؤں پڑ رہا تھا ۔پٹائی کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ مجمعے کے اندر سے کسی نے محافظ کو ایک پتھر ماردیا۔محافظ تڑپ کرمجمعے کی طرف مڑا اور مجمعے کو گالی دے کرپوچھا :“یہ کون گستاخ ہے؟



    ”مجمعے میں سے کوئی شخص باہر نہ نکلا ۔محافظ بپھر گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مجمعے پرلاٹھیاں برسانا شروع کردی۔مجمعے نے “ ری ایکٹ”کیا۔ لوگوں نے محافظوں کوپکڑا اور مارنا شروع کردیا۔محافظوں کوبچانے کے لیے نئے محافظ آئے لیکن وہ بھپرے ہوئے مجمعے کا مقابلہ نہ کرسکے اور میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔اس حادثے میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور شاہی محافظوں کی یہ دونعشیں آگے چل کرانقلاب فرانس کی بنیاد بنیں ۔لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا اور طاقت کے اس اندازے سے 14جولائی 1789ءکا سورج طلوع ہوا۔ فرانس میں انقلاب آیا اور بادشاہت ختم ہوگئی۔ دنیا میں آج تک پانچ بڑے عوامی انقلاب آئے ہیں۔ان پانچوں عوامی انقلابوں میں انقلاب فرانس کو اولین حیثیت حاصل ہے۔



    اس انقلاب کی وجوہات بہت دلچسپ تھی۔ فرانس میں ان دنوں بوربون خاندان کی حکومت تھی۔بادشاہ کے پاس وسیع اختیارات تھے اور اس نے یہ اختیارات اپنے منظور نظر لوگوں میں تقسیم کررکھے تھے۔مثلا :آپ عدالتی نظام کو لیجئیے ۔فرانس میں تمام عدالتی منصب باقاعدہ فروخت کیے جاتے تھے۔دولت مند لوگ عدالتی منصب خریدتے تھے اور ان کے مرنے کے بعد یہ عہدے وراثت میں چلے جاتے تھے۔یہ لوگ یہ عہدے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں بیچ بھی سکتے تھے۔اس زمانے میں ججوں کی تنخواہیں قلیل تھیں لہذا وہ مقدمہ بازوں سے بھاری بھاری رشوتیں لیتے تھے اور ان رشوتوں کو جائز سمجھاجاتا تھا اوربادشاہ کوکسی بھی شخص کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار تھا۔ آپ پارلیمنٹ کولے لیجیئے ۔فرانس میں پارلیمنٹ آف پیرس کے علاوہ بارہ صوبائی پارلیمنٹس تھیں اور ان پارلیمنٹس کا صرف ایک ہی کام ہوتا تھا ۔یعنی بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا ۔فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے ۔



    یہ ٹیکس صرف اورصرف عوام پرلاگو تھے جبکہ امراء جاگیردار ،بیوروکریٹس ،شاہی خاندان اورپادری ٹیکسوں سے مادرا تھے ۔ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کاکام ٹھیکے داروں کے حوالوں کررکھا تھا اوریہ ٹھیکیدار ٹیکسوں کی وصولی کے لیے کسی شخص کی جان تک لے سکتے تھے۔ٹھیکداروں کے ملازمین ملک بھر میں پھیل جاتے تھے اورٹیکس جمع کرنے کے بہانے لوگوں کوخوب لوٹتے تھے۔ فرانس میں فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی بھاری ٹیکس تھا۔اس ٹیکس کو ٹیلی ٹیکس کہا جاتا تھا ۔ٹیکسوں کا یہ عالم تھا حکومت نے عوام پرنمک ٹیکس تک لگا رکھاتھا ۔فرانس میں سات سال سے زائد عمر کے ہرشخص کو نمک استعمال کرنے پرسالانہ سات پونڈ ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اس ٹیکس کی عدم ادائی پرفرانس میں ہرسال تین ہزار سے زائد افراد کو قید ،کوڑوں اور ملک بدری کی سزا دی جاتی تھی۔ آپ فرانس کے معاشرتی ڈھانچے کوبھی لے لیجئیے ۔



    فرانس کا معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار تھا ۔آبادی پادری ،امرا اورعوام میں بٹی ہوئی تھی ۔چرچ کی آمدنی پادریوں کی جیبوں میں چلی جاتی تھی ۔اسٹراس برگ کا پادری سال میں چار لاکھ لیراکمالیتا تھا جبکہ عام پادر کی آمدن بھی ایک لاکھ سے دولاکھ تھی ۔فرانس میں امر ااورجاگیر دار خاندانوں کی تعداد بیس اورتیس ہزار تھی جبکہ ملک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پادری تھے اور ان میں سے دس ہزار اعلی پادری تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعدادساٹھ ہزار تھی ۔اس وقت فرانس کی آبادی اڑھائی کروڑ تھی اور ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ مراعات یافتہ تھے ۔گویا چارلاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے ۔ان دنوں فرانس میں ایک قول بہت مشہور تھا:“امرا جنگ کرتے ہیں ۔پادری دعامانگتے ہیں جبکہ عوام ان کا مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں۔”فرانس ایک زرعی ملک تھا جس میں دوکروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی کمائی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی تھی ۔



    کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھے ۔وہ جاگیر داروں کی اجازت کےبغیر اپنی زمینوں کے گردباڑھ نہیں لگاسکتے تھے اور فصلوں کوخراب کرنے والے جنگلی جانوروں اورپرندوں کوہلاک نہیں کرسکتے تھے۔اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں تھیں اور عوام اس زبان سے واقف نہیں تھے۔ملک میں 360 اقسام کے قوانین تھے۔عوام کومعمولی جرائم پرکڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امر قانون سے بالاتر تھے ۔بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور “ورسائی” کے محلات میں رہتا تھا ۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔محل میں سولہ ہزار شاہی خادم تھے ۔صرف ملکہ کی خادماؤں کی تعداد پانچ سوتھی ۔شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا۔



    بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب فرانس چار بار دیوالیہ ہوچکا تھا ۔دولاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوچکے تھے ۔فرانس میں روٹی کی قمیت چار پاؤنڈتک پہنچ چکی تھی سالانہ خسارہ 15 کروڑ لیرا اورقرضوں کی رقم چار ارب چالیس کروڑ لیرا تھی اور 23کروڑ 60 لاکھ لیرا سالانہ بطور سود اداکیا جاتا تھا اور فرانس کی کل آمدنی کا تین چوتھائی حصہ فوجی اخراجات پرصرف ہوجات تھا ۔ملک کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے لہذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف نفر ت ابلنے لگی۔ اس نفرت کو 14جولائی 1789ءمیں میٹریل لائز ہونے کا موقع مل گیا ۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔



    اگرہم آج کے پاکستان اور 18ویں صدی کے فرانس کا تجزیہ کریں توہمیں پاکستان کے حالات ماضی کے فرانس سے ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان کے اندر بھی ایک ایسا لاوا ابل رہا ہے جو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہے
     
  21. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    بقولے شخصے بگرام ائیر پورٹ سے4چینوک کاپٹرز پاکستان کی فضائی حدود میں دندناتے ھوے داخل ہوتے ھیں ۔ان کے شور سے لوگ ہڑبڑا کر اٹھ بیھٹتے ہیں پریشان ہو کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ کہیں‌ڈرون اٹیک تو نہیں‌ہونے لگا لیکن کاپٹرز آگے بڑھ جاتے ہیں تو اس علاقے کے لوگ سکھ کا سانس لیتے ہیں اسی طرح جس جس علاقے سے وہ گزرتے ہیں پہلے لوگ پریشان ہوتے ہیں پھر ان کے ٹل جانے پر سکھ کا سانس لیتے ہیں۔مگر چوکیدار سوئے رہتے ہیں‌۔آخر کار یہ ایبٹ آباد کے اوپر پہنچ گئے ان کے شور سے سوئے ہوے لوگ جاگ اٹھے معصوم بچے ڈر کر ماوں کی آ غوش میں‌ دبک گئے ۔مگر چوکیدار سوئے رہے۔گولیوں کی دھنادھن اور کاپٹروں کا شور اتنا زیادہ تھا کہ سوئے ہوے گدھے بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے وہ ڈھینچوں ڈھینچوں کی کے بلوں میں گھسے ہوے چوھے بھی باہر نکل آئے ۔ مگر چوکیدار سوئے رہے۔بلیاں‌پہلے ہی پریشانی سے غرارہی تھی انہوں نے چوھوں کو دیکھا تو شکار کرنے کو لپکی لیکن اس بار چوھے دم دبا کر بھاگےنھیں مقابلے پر ڈٹ گئے اور آخر کار بلیو ں نے شکار کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ مگر چوکیدار سوئے رہے۔40 منٹ تک میرے شہر پر آگ اور خون کا کھیل کھیلا جاتا رھا ۔ مگر چوکیدار سوئے رہے۔زمین پر موجود ہر جاندار جاگ چکا تھا ۔ مگر چوکیدار سوئے رہے۔کوئی ہمیں بتائے کہ ھمارے چوکیدار کیا پی کے سوئے تھے۔کون دےگا اس سوال کا جواب؟
     
  22. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    سیدنا خالدبن ولید ان غیرمعمولی اسلامی غازیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے تاریخ کے رخ موڑے ہیں۔
    دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
    بحر ظلمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے
    انہوںنے وہ کارنامے انجام دئے کہ آج عقل حیران ہے یہ اتنی حیران کن بات ہے کہ عرب کے ریگزاروں سے نکلنے کے بعد تین سال میں روس اور سلطنت ایران جو دونوں اس وقت کی سوپر پاورز تھیں اسلامی سلطنت میں داخل کرلی گئیں سیدنا خالد بن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس بات کا شدید صدمہ تھا کہ انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی۔انہوںنے تقریباً300چھوٹی بڑی جنگوں میں حصہ لیا اور کسی بھی جنگ میں نہیں ہارے۔ سرورکائنات محمدصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سیف اللہ (یعنی اللہ کی تلوار) کا خطاب دیا۔ انتقال سے کچھ عرصہ پہلے سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ محترمہ نے ان سے کہا کہ آپ اس بات کا ملال نہ کریں کہ آپ شہید نہیںہوئے۔ انہوںنے کہا کہ آپ شہید نہیں ہوسکتے کیونکہ آپ تو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار ہیں توآپ کیسے کاٹے جاسکتے ہیں۔
    قدرت کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں۔ جنگ احدمیں جس وقت اسلامی لشکر تقریباً غالب آگیا تھا اس وقت سیدناخالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ مشرکین مکہ کی جانب سے لڑرہے تھے۔ جب انہوںنے دیکھا کہ ہم پست ہورہے ہیں اور احد کے درے پر جہاں سرورکائنات نے 50تیرانداز متعین کئے تھے وہ بھی اپنی جگہ پر نہیں ہیں تو انہوں نے احدکی پشت سے چکر لگا کر درے کے راستے تقریباً100گھوڑ سواروں کے رسالے کے ساتھ مسلمانوں پر تابڑتوڑ حملہ کیا اور مسلمانوں کو شکست ہوئی اور مسلمان احد کی پہاڑی پر چڑھ گئے۔ حالت یہ تھی کہ حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک سے خون بہہ رہاتھا۔ خون کے نکلنے کی وجہ سے حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہوگئی۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب ہوش آیا تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو کیونکر ہدایت دےگا جو اپنے رسولوں کے منہ کو خون سے رنگ دے۔ اس پر آیت نازل ہوئی کہ ’’اے نبی ہدایت دینا یا نہ دینا ہمارا کام ہے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بشیرونذیر ہیں۔‘‘ چنانچہ یہی ہوا۔ سیدنا خالدبن ولید ایمان لائے اور سرورکائنات نے ازخود سیدناخالدبن ولید کو سیف اللہ کا خطاب دیا۔
    سیف اللہ کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جس پر تیر تلوار یا نیزے کے نشان نہ ہوں۔ صرف سیدناخالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام سے روس اور فارسیوں پر دہشت طاری ہوجاتی تھی۔ سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ سے بڑا strategic Military Plannerآج تک انسانی تاریخ میں پیدانہیں ہوا۔ جب سیدناخالدبن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے انتقال کی خبر مدینہ پہنچتی ہے تو کہرام مچ جاتاہے۔ سیدنا عمر پہلے تو لوگوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں پھر اجازت دیدیتے ہیں کہ آج جو آنکھ رونا چاہتی ہے رولے جو کچھ کہناچاہتی ہے کہہ لے کیونکہ یہ جو کہیں گے سچ کہیں گے اور لوگوں کو باربار ابوسلیمان (جوان کی کنیت تھی) پر رونے کا موقع نہیں ملے گا۔سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ قریش کے ایک جنگجو قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا کام ہی جنگ کرناتھا ان کے والد نے ان کو تمام جنگی حکمت عملی، تیراندازی، گھوڑسوای، نیزہ بازی، تلواربازی، دشمن سےambushکرنے کے طریقےکمین کیسے لگائی جاتی ہے دشمن کا تعاقب کیسے کیا جاتاہے وغیرہ جیسے تمام معاملات کی تربیت دی۔ ان تمام معاملات کا تو عربوں میںایک عام رواج تھا۔ ہر عرب جنگجو یہ سارے ہنر سیکھتا تھا لیکن وہ کیا راز تھا کہ عرب کا ایک جنگجو اس مقام پر پہنچ گیا کہ سرورکائنات محمدﷺصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سیف اللہ کا لقب دیا اور انہوںنے تین سال کے مختصر عرصہ میں روس اورفارس سلطنت کے پرخچے اڑادئے۔ یہ سرورکائنات کی دعا تھی کہ خالد تم ہر جنگ میں فتح پائوگے یہ وہ روحانی تائید تھی جس نے سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کو سیف اللہ بنادیا۔
    سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کا پہلا تعارف جنگ احدمیں ہوا کہ جس وقت آپ مشرکین مکہ کی جانب سے لڑرہے تھے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ سرورکائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کو پسندفرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ خصوصیات جس شخص میں ہوںگی عنقریب وہ اسلام قبول کرلے گا۔
    مسلمان ہونے کے بعد شروع کے غزوات میں سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنگ موتہ میں بھی شامل تھے۔ یہ 3000کالشکر حضرت زید بن حارث کی قیادت میں رومیوں سے ٹکرانے کے لئے چلا۔ حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی حکم دیاتھا کہ اگر زید بن حارث شہید ہوجائیں تو حضرت جعفربن طیارہ اور وہ بھی شہید ہوجائیں تو پھر کوئی اور قیادت کرلے اور ہوا بھی یہی۔ جب یہ دونوں شہید ہوگئے تو کمان سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ نے سنبھالی۔ ان کی غیرمعمولی شجاعت اور دلیری کی وجہ وہ بشارت تھی جو حضورصل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دی تھی۔ فتح مکہ کے بعد حضور کے ساتھ ہر غزوہ میں خالدبن ولید شامل رہے۔جنگ حنین میں سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت بے جگری سے لڑے اور بہت زیادہ زخمی بھی ہوئے۔ جنگ تبوک میں بھی آپ سرورکائنات صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے۔سرورکائنات کے وصال کے بعد جس وقت فتنہ ارتداد کھڑا ہوا تو سیدناابوبکرؓرضی اللہ تعالٰی عنہ نے خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس فتنہ کو دبانے کے لئے منتخب کیا۔ بہت سے قبائل مرتد ہوگئے۔ بہت سے قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا ان سب کی سرکوبی کے لئے سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کا انتخاب کیاگیا۔ ان فتنوں کو خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ نے بہت خوش اسلوبی سے فروکیا۔ ان کے غیرمعمولی اعتماد کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
    سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کا جنگی نعرہ تھا کہ میں ایک غیرت مند جنگجو ہوں میں اللہ کی تلوار ہوں میں خالدبن ولید ہوں ان کا اعتماد دشمن پر دہشت طاری کردیتاتھا۔جب فتنہ ارتداد ختم ہوگیاتو سیدناابوبکرؓرضی اللہ تعالٰی عنہ کی نظر روس اور سلطنت فارسیہ پر تھی۔ مسلمانوں کو بشارت تھی کہ روس اور فارسیوں کی سلطنت اسلامی سلطنت میں شامل ہوگی۔اس پیشین گوئی کے تناظر میں سیدناابوبکرؓرضی اللہ تعالٰی عنہ کی پہلی مہم ایران کے کسریٰ کے خلاف تھی۔ سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کو جو اعتماد تھا وہ دراصل نفسیاتی اور روحانی معاملات کی وجہ سے تھا نہ کہ اپنی military strategy کی وجہ سے۔ سرورکائنات نے پہلے ہی بشارت دیدی تھی کہ ایران اور روم دونوںکو مسلمان فتح کریں گے اس کے علاوہ سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کو سیف اللہ کا خطاب بھی دےدیاگیا۔
    سیدنا خالدبن ولیدرضی اللہ تعالٰی عنہ کی جنگی strategy بہت سخت تھی۔ وہ ہلکاہاتھ رکھنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان سے جو بھی جھڑپ ہوتی تھی تو بہت خونریز ہوتی تھی۔ پہلے وہ کوشش کرتے تھے کہ معاملات negotiations سے حل ہوجائیں لیکن جب تلوار نکالنی پڑتی تھی تو پھر وہ تلوار فیصلہ کرکے ہی مید ان میں جاتی تھی۔
    روس اور ایرانیوں کی فوجیں چلنے میں بہت سست ہوتی تھیں لیکن خالد بن ولید کی فوج اتنی تیز رفتاری سے حرکت کرتی تھی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک مرتبہ ایک مسلمان کمانڈر نے قاصد کو خالدبن ولید کے پاس مدد کی درخواست لےکر بھیجا۔ سیدنا خالدبن ولید نے اس قاصد کو جوابی خط دیا کہ میں پہنچ رہاہوں وہ قاصد بجلی کی سی تیزی سے خط لےکر کمانڈر کے پاس پہنچا جب کمانڈر نے جواب پڑھ کر اپنا سراٹھایا تو افق پر سیدناخالدبن ولید کی فوج تھی۔ خالدبن ولید کے دستے میں آرام صرف گھوڑے کی پیٹھ پر ہوتاتھا۔ آپ ایک جگہ حملہ کرنے کے لیے پہنچتے جیسے ہی وہاں کی فوجیں تیار ہوکر مقابلے پر آتیں آپ رخ بدل کر دوسری خالی جگہ پرحملہ کردیتے۔ خالدبن ولید کی فوج بجلی کی سی سرعت کے ساتھ حملے کرتی تھی۔ آج کی جنگوں میں بھی فوجوں کی تیز رفتار ی فیصلہ کن قوت رکھتی ہے۔ جب خالدبن ولید کی فوج میدان جنگ میں جاتی تو کسی کو اس قابل نہیں چھوڑتی کہ بقیہ فوج کسی اور کے ساتھ مل کر دوبارہ حملہ کرسکے۔ جاسوسی کا عالم یہ تھا کہ عراق کی جنگ میں پورے عراق میں دشمن کی فوج کوئی بھی حرکت کرتی تھی تو خالدبن ولید کو فوراً اطلاع مل جاتی تھی۔ خالدبن ولید کی سپلائی لائن بھی بہت تیز رفتار تھی۔ ایرانیوں سے جنگ میں خالدبن ولید کی وہ جنگی حکمت عملی ہوتی تھی جس سے ایرانی ناواقف تھے۔ ایرانی میدان جنگ میں آمنے سامنے کی جنگ کے عادی تھے۔ جب کہ خالدبن ولیدAmbush کے ذریعے گوریلاtacties کے ذریعہ flanking attacks کے ذریعے اورdeception کے ذریعہ جنگ کرنے میں ماہر تھے۔ خالدبن ولید دشمن کو confuseکرنے کے ماہر تھے۔ یہ پہلے دشمن کی فوج کو تھکادیتے تھے پھر اس قدر تابڑتوڑ حملے کرتے کہ دشمن ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجاتا ایرانی حکمرانوں نے اپنے بہترین جنرل خالد بن ولیدکے مقابلہ پر بھیجے لیکن صرف چند ماہ میں خالدبن ولید نے تقریباً پورا عراق فتح کرلیا۔ خالدبن ولید غیرمعمولی خطرات مول لیتے تھے دشمن جس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتاتھاآپ وہ خطرات مول لیتے اور دشمن کو حیران کردیتے۔ ان کی بے خوفی مثال بن گئی تھی۔ اگر دیوانگی کی حدتک بے خوفی اور دلیری دیکھنی ہے تو سیف اللہ کے کردار میں نظرآئے گی۔
    جنگ یرموک کے موقع پر 60 ہزار عیسائیوں کا لشکرمسلمان فوجوں کو تنگ کررہاتھا۔ خالدبن ولید نے مسلمانوں کی فوجی شوریٰ میں بڑے بڑے جنرلوں کے سامنے ایک حل پیش کیا۔ انہوںنے کہا کہ اس 60ہزار کے لشکر کو شکست دینے کے لئے میں 30مجاہدوں کے ساتھ ان پر براہ راست حملہ کروںگا۔ یہ بات ایک جنون لگتی ہے کہ 60ہزار کے لشکر پر 30مجاہدوں کے ساتھ حملہ کیا جائے اور ان کو شکست دی جائے۔ یہ بات بڑے بڑے مسلمان جنرلوں اور سیدناعمرفاروق کے سامنے کہی جارہی ہے۔ فوجی شوریٰ کے ہر فرد کو خالدبن ولید کے ارادوں کی پختگی کا پورا اندازہ تھا ان لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ 60مجاہدین لے جائیں۔ اور تاریخ آج بھی حیران ہے کہ خالد59مجاہدین کے سا تھ 60ہزارکے لشکر پر ٹوٹ پڑتے ہیں اوران کو شکست دے کر واپس لوٹتے ہیں۔ جو بات دنیا کا بڑا سے بڑا ملٹری پلینر سوچ بھی نہیں سکتا خالد بن ولید اس کو کرگزرتے تھے۔ عراق کی آخری جنگ میں جس میں مسلمان اس جگہ پہنچ چکے تھے جہاں ایران اور روم کی سرحدیں مل رہی تھیں یہ دونوں طاقتیں مسلمانوں کے خلاف یکجا ہوکر جنگ کرنے لگیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ یہ دو بڑی طاقتیں آپس میں ایک دوسرے کی جانی دشمن اور مسلمانوں کے خلاف ایک ہوکر مقابلہ پر آگئیں اورسیدنا خالدبن ولید نے ان دونوں طاقتوں کے مشترکہ لشکر کا مقابلہ کرکے ان کو شکست دی۔ اس جنگ سے واپسی میں مسلمان فوجیں ہرہ کی طرف طرف واپس آرہی تھیں۔ سیدنا خالدبن ولید نے چند ساتھیوں کو لےکر حج کا پروگرام بنایا اور تیز رفتاری سے مکہ کا رخ کیا اور جب چند روز میں خالد حج کرکے واپس لشکر میں پہنچے تو لشکر کو پتہ نہیں چلا کہ خالدبن ولید چند روز کے لئے غائب تھے اس معاملے میں سیدناابوبکر کی معاملات پر پکڑکی داد دینی پڑتی ہے۔ جب خالد واپس لشکر میں پہنچے تو لشکر کو تو معلوم نہیں تھا لیکن سیدناابوبکر کا قاصد پہنچااور خلیفہ کا خط خالد کو دیا جس میں اگلی بار ایسانہ کرنے کو کہا گیاتھا۔ سیدناابوبکر خالد کی صلاحیتوں کی وجہ سے بہت سی غلطیاں نظرانداز کردیتے تھے۔ خالد سیف اللہ کی بہت سی باتیں اورلوگوں کو ناگوار گزرتیں یہ لوگ سیدناابوبکر سے شکایتیں کرتے تھے لیکن سیدناابوبکر کہتے کہ جس تلوار کو اللہ کے نام کی سربلندی کے لئے پیدا کیا گیا میں اس تلوار کو واپس نیام میں نہیں ڈال سکتا۔
     
  23. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    میرے پیارے نے کہا اب کے مجھے معاف کردو
    میں نے کہا کب تمہیں‌معاف نہیں‌کیا
    جب پاکستان ٹوٹ گیا تمہیں‌معاف کیا
    ڈھاکہ کی سڑکوں پر ناپاک بوٹ دندناتے رہے تمہیں‌معاف کیا
    90ہزار کی تعداد میں ہتھیار ڈال دیے تمہیں‌معاف کیا
    سیاچین چلاگیا تمہیں‌معاف کیا
    کارگل لٹ گیا تمہیں‌معاف کیا
    ڈرون حملوں نے میرا جسم لہولہان کر دیا تمہیں‌معاف کیا
    خودکش حملوں نے میرا جینا حرام کیا تمہیں‌معاف کیا
    ہر شکست پر ایک نیا بہانہ تمہیں‌معاف کیا
    خود بھوکے رہے تمہیں مرغ کھلائے
    کہا بہت کچھ جاسکتا ھے لیکن
    ھمیں تم سے پیار ھے
    اور پیار اندھا ھوتا ھے
    بس اتنا کہنا ھے مجھے
    اب کی دفعہ تم ھمیں معاف کردو
     
  24. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    ایک ملٹی نیشنل فارما کا سینیئر ایگزیکٹو پریشان حال انصاف فاوُنڈیشن کے دفتر آیا اور بتایا کہ ان کے علاقہ کے سابق ناظم نے زاتی رنجش کی بنیاد پر اس پر 100000 لاکھ کا ت پ 406 کا پرچہ درج کروادیا ھے یہ دفعہ ناقابل ضمانت ھے ۔ کہنے لگا کہ میں خوف کی وجہ سے تھانہ پیش نہ ھوا اور صلح کی کوشسں کرتا رھا لیکن صلح کی بجائے اس نے مجھے اشتہاری قرار دلوادیا اب میں نہ جاب پر جاسکتا ھوں اور نہ گھر۔انصاف فاوُنڈیشن میدان عمل میں ائی اور تھانے سے اس کو بیگناہ کرواکے با عزت بری کروادیا۔
     
  25. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    جزاک اللہ کنور جی
    اللہ کریم آپ کو آسانیاں عطا فرمائے۔
    اور سنائیں کہاں غائب ہیں سب خیریت ہے نا؟
     
  26. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑی

    بلال بھائی سفر میں تھا یاد رکھنے کا شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں