1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ورثہ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از احمدنور, ‏23 مئی 2011۔

  1. احمدنور
    آف لائن

    احمدنور ممبر

    شمولیت:
    ‏19 مئی 2011
    پیغامات:
    280
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    عبداللہ نے اس شخص کو حیرت سے دیکھا جس نے وہ بات اس کے گوش گزار کی تھی جس کے متعلق وہ تو ےہی سمجھ بیٹھا تھا کہ اس کا ظہور پذیر ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس کے نزدیک پہاڑ روٹی کے گالے بنکر فضا میں منتشر ہوسکتے تھے، گائے دودھ کی بجائے پانی دے سکتی تھی اور مرد کے بطن سے بچے پیداہو سکتے تھے لیکن اس بات کا معرض وجود میں آنا عین ناممکن تھا۔ ا س کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا اس لیے وہ تیسری مرتبہ پھر پوچھ بیٹھا۔
    ”کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟“
    ”کتنی مرتبہ یہ بات پوچھیں گے جناب؟“ وہ شخص بھی شاید اس کے بار بار استفسار سے تنگ آگیا تھا۔” بھلا مجھے جھوٹ کہنے کی ضرور ہی کیا ہے؟ اور اس کی مجھے جرا¿ت بھی کیسے ہوسکتی ہے؟ میں تو ان کا ایک معمولی نوکر ہوں۔ اگر میری شکایت ہوگئی تو پھر نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔“
    ”اچھا۔ ان سے کہنا کہ میں حاضر ہوجاﺅں گا۔“
    اس شخص کے جانے کے بعد عبداللہ اپنے کمرے میں آگیا۔ بڑی عجیب سچویشن پیدا ہوگئی تھی جس کے باعث اس کا ذہن بہت دیر تک غور و خوض کے ریگ زاروں میں بھٹکتا رہا۔ حیرت کے ساتھ اس کے دل میں خوشی کے شادیانے بھی بج رہے تھے۔
    اس کرہ¿ ارض پر اس کے باپ کے سوا کسی کو اس سے اس قدر نفرت نہیں تھی۔ اس کے دل میں عبداللہ کے لیے تنفر کے اس قدر سخت جذبات و احساسات موجود رہے جو نہ کبھی پگھلے تھے اور نہ گزرتا وقت انھیں کمزور کرسکا تھا۔ وہ تو وقت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی گئے تھے۔ اگر قانون اس کو معاف کرسکتا تو شاید وہ نفرت کے زیراثر عبداللہ کا گلا ہی دبا کر اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیتا۔ ویسے فطرتاً اس کا باپ بے حد رحم دل، بے حد نیک اور امرت دھارے کی طرح شرینی سے بھرپور تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت حاجت مندوں کی حاجت روا کرتے ہوئے یا یتیموں ، بیواﺅں کی مدد کرتے ہوئے گزرتا تھا۔ کبھی اس کے گھر سے کوئی فقیر خالی ہاتھ نہیں گیاتھا۔ اس کے حلقہ بگوشوں میں کوئی ایسا نہیں تھا جو اس کا احساس مند نہ رہا ہو۔ ہر ایک اس کو پارسااور فرشتہ صفت تسلیم کرتا تھا۔ لیکن اپنے بیٹے عبداللہ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا تھا۔ نتھنے کسی غصیلے بیل کی طرح پھول جاتے تھے، سانسیں تیزی سے چلنے لگتی تھیں۔ عبداللہ تو دور کی بات، اس کے پرچھائیں بھی اس کے لیے ناقابل برداشت تھی وہ نہ تو عبداللہ کی صورت دیکھنے کا روادار تھا، اور نہ ہی کسی سے اس کا ذکر سن سکتا تھا۔
    اگر کبھی اتفاق سے اس کا کوئی دوست اس کے سامنے عبداللہ کا دردناک پیرائے میں تذکرہ کرتا، اور اس کو احساس دلانے کی کوشش کرتا کہ اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے، معاشی بد حالی نے اس کی چول چول ڈھیلی کردی ہے، اس لیے باپ ہونے کے ناطے اس کو عبداللہ کی مدد کرنی چاہیے اور یہ وہ لاکھ برا سہی ، ناخلف سہی لیکن بیٹا تواسی کا ہے۔ بس پھر تو جیسے اتنا کچھ سننے کے بعدعبداللہ کا باپ بے قابو ہو کر رہ جاتا۔
    ”تم کون ہوتے ہو اس کی سفارش کرنے والے؟“ وہ انتہائی شدت سے بر س اٹھتا۔ پھر تو جیسے سمجھانے والے کی گھگھی بندھ جاتی، اور وہ بڑی مشکل سے سنبھل پاتا۔ بات بنانے کی کوشش کرتا کہ وہ عبداللہ کی سفارش نہیں کررہا ہے بلکہ اس نے جس حال میںاس کو دیکھا ہے وہ من و عن بیان کررہا ہے ، اور یہ کہ کوئی بھی شخص کسی کو زبوں حالی میں دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ عبداللہ کی اسی طرح مدد کرسکتا ہے جس طرح دوسروں کی کرتا رہا ہے، باپ ہونے کے ناطے نہ سہی انسان ہونے کے ناطے تو وہ یہ کام کرسکتا ہے!!
    ”دوسرے لوگ اس ناخلف سے زیادہ مستحق ہیں۔“ عبداللہ کے والد احسان اللہ کا تیزابی غصہ برقرار رہتا۔” اگر میں اس پر ایک کوڑی بھی خرچ کروں تو مجھے زندگی بھر افسوس ہوگا۔ اگر تمھیں اس سے اتنی ہمدردی ہے تو تم اس کی حاجت روا کرو۔ میں مدد کرنا تو در کنار اس کا ذکر بھی سننا نہیں چاہتا۔“
    احسان اللہ کی اپنے بیٹے سے نفرت ممکن ہے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہو، لیکن بلا وجہ نہیں تھی۔ جوانی میں عبداللہ کو جو صحبت ملی تھی اس نے اس کو کہیں کا نہیں رکھا تھا۔ ذہن تعلیم سے ہٹ کر دوسری فضول چیزوں کی طرف راغب ہوگیا تھا۔ ان دنوں احسان اللہ کی پانچویں انگلیاں گھی میں تھیں.... آٹے کی دو ملیں چل رہی تھیں۔ خوشی کا دور دورہ تھا۔ اپنے ارد گرد دولت کی ریل پیل دیکھ کر عبداللہ بھی جامے سے باہر ہوگیا تھا۔ اس کی غلط حرکتوں کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتاتھا کہ پچھلے تین برسوں سے وہ انتہائی ثابت قدمی سے میٹرک کے امتحان میں فیل ہوتا جارہاتھا۔ تعلیم کے میدان میں اس کی نا اہلی اور دوسرے کاموں میں کردار کی کمزوری کے حوالے سے احسان اللہ کو بہت ساری شکایتیں بھی گاہے بگاہے ملتی رہی تھیں۔ لہٰذا اس نے ےہی سمجھا کہ عبداللہ کی تعلیمی مصروفیات کو مزید جاری رکھنا سرتا بلا جواز ہے اور وقت کا ضیاع بھی .... چناں چہ حالات کے پیش نظر مناسب ےہی تھا کہ اسے ملوں کی نگرانی کا کام سونپ دیا جائے۔
    احسان اللہ نے تو ےہی سوچا تھاکہ عملی زندگی کی زندہ حقیقتوں سے آنکھیں چار کرنے کے بعد عبداللہ کے قدم از خود صراة المستقیم کی جانب گام زن ہوجائیں گے۔ لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا۔ عبداللہ نے اتنے قریب سے روپے کی جھنکاریں سنیں تو اپنے آپ سے باہ رنکل آیا۔ شراب تو اس نے منھ سے نہی ںلگائی لیکن یار دوستوں کی مہربانی سے وہ ریس، جوے اور عورت بازی جیسی چیزوں میں اپنا وقت ضِائع کرنے لگا۔ ظاہر ہے ایسے کام تاحیات تو جاری نہیں رہ سکتے۔ کچھ عرصے بعد خاندان کے خیر خواہوں نے احسان اللہ کو آنکھوں دیکھا حال بیان کردیا۔ چوں کہ بیٹا جوان تھا اس لیے احسان اللہ نے اسے سمجھایا۔ زندگی کے نشیب و فراز کی باریکیوں سے آگاہ کیا۔ لیکن اس کے باوجود عبداللہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تو اس نے اسے مل پر بیٹھنے سے روک دیا، اور جیب خرچ بھی بند کردیا۔ اب اسے یقین ہوگیا کہ عبداللہ راہ راست پر آجائے گا۔ لیکن اس کے توقعات کی بساط ہی الٹ کر رہ گئی۔ ایک دن عبداللہ سارا دن گھر سے غائب رہا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی کہ گھر والے پریشان ہوتے۔ ایسا کچھ تو اکثر ہوتا رہاتھا لہٰذا کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ لیکن دوسرے ہی دن احسان اللہ کو پتہ چلاکہ اس کا برخوردار چوری کے الزام میں تھانے کے لاک اپ میں تشریف فرماہے تو اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ محلے میں احسان اللہ کی بڑی عزت تھی۔ سب اس کو تکریم اور احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اگر ان کو اس کے سپوت کے کرتوت کی بابت علم ہوجاتا تو کیا احسان اللہ کی بنی بنائی عزت خاک میں نہ مل جاتی! احسان اللہ نے پولس حکام کی خوب خاطر تواضع کے بعدچوری کی رقم اپنی جیب سے ادا کی، اور یوں معاملہ رفع دفع ہوا۔ لیکن اس دن پہلی مرتبہ اس نے اپنے دل میں عبداللہ کے لیے نفرت کی کھٹک محسوس کی۔ وہ تو اس کی عاق کرکے گھر سے نکال رہاتھا لیکن ماں کی مامتا کے آگے اسے ہتھیار ڈال دینا پڑا۔
    اسی دوران چند مخلص دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ عبداللہ کی شادی کردے کہ شادی سو بُری عادتوں کا مجرب اور آزمودہ علاج ہے اور یہ کہ اس کے بعد عبداللہ خود بخود راہِ راست پر آجائے گا۔ ان کا خیال تھا کہ نوجوان اور نئی نویلی دلہن کی البیلی مسکراہٹ عبداللہ جیسے پراگندہ فطرت کے شوہر کے لیے تیر بہ ہدف ثابت ہوسکتی ہے۔ احسان اللہ نے سوچا ےہاں اس نے عبداللہ کو صراة المستقیم کا مسافر بنانے کے لیے کئی تجربے کےے وہاں ایک اور سہی جوں ہی عبداللہ کی شادی کا تذکرہ کرہ بیٹی والوں کے کانوں تک پہنچا، ان گنت پیغام مالِ حرام کی طرح آنا شروع ہوگئے۔ کسی نے عبداللہ پر توجہ نہیں دی۔ ان کی نظریں تو احسان اللہ کی دولت پر مرتکز تھیں جیسے ان کی بیٹی کی شادی عبداللہ سے نہیں بلکہ احسان عبداللہ کی دولت سے ہورہی ہو۔
    اور پھر عبداللہ کی شادی ہوگئی۔ کچھ دنوں تک تو وہ ٹھیک چلتا رہا لیکن ایک دن اس نے وہ گھٹیا حرکت کی کہ احسان اللہ کی اکڑی ہوئی گردن میں خم آگیا۔ احسان اللہ کے پڑوں میں ایک خوش حال خاندان رہتاتھا۔ ایک دن نہ جانے عبداللہ کو کیا ہوا کہ اس نے ان کی چھے سالہ لڑکی کے کانوں سے سو نے کی بالیاں جبراً اتار لیں۔ پڑوسی شریف تھے کچھ نہ بولے لیکن احسان اللہ کا سارہ وجود غصے اور نفرت سے آگ کی بھٹی بن گیا۔ اس نے اسی لمحے عبداللہ کو گھر خالی کرنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ عبداللہ نے ہزار مرتبہ کان پکڑ کر توبہ کی لیکن اس نے اس کی ایک نہیں سنی اور ٹیکسی منگواکر عبداللہ کا سارا سامان لدوادیا۔
    اس واقعہ کا عبداللہ کے دل پر کچھ ایسا گہرا اثر ہوا کہ اس نے اپنی تمام بری عادتوں سے دستکشی اختیار کرلی، خراب صحبت کر خیرباد کہہ دیا اور اپنے لفنگے یاروں کو آخری سلام کرکے دوسرے محلے میں ایک چھوٹی سی دوکان لگالی۔ اگرچہ گھر سے نکالے جانے کے بعد وہ معاشی بدحالی کے بندھنوں میں جکڑ گیاتھا لیکن اس کے باوجود اس نے ناجائز ذریعے سے دولت اکٹھا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ احسان اللہ کو معلوم ہوگیاتھا کہ عبداللہ بُری عادتوں سے کنارہ کشتی اختیار کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود عبداللہ کے باب میں اس کی نفرت کم نہیں ہوئی تھی۔ اس کے گھر میں عبداللہ کا داخلہ ممنوع تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کا روادار نہیں تھا اور نہ گھر والوں کو اس سے ملنے کی اجازت تھی۔ کبھی کبھی اس کی ماں چوری چھپے عبداللہ سے مل لیا کرتی تھی۔
    اب تو گھر سے نکالے جانے کے واقعہ کو بھی ایک عرصہ ہوچکا تھا۔ ا ب احسان اللہ کے دوستوں نے بھی اس کے سامنے عبداللہ کا ذکر کرنا چھوڑ دیاتھا اور پھر عبداللہ کی معاشی حالت بھی اب پہلے جیسی خراب نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے پیٹ کی آگ فرد کرنے کا انتظام کردیاتھا، اور وہ یہ بات بھول چکا تھا کہ آئندہ کبھی اپنے باپ سے مل سکے گ ا۔ لیکن آج جب احسان اللہ کے ملازم نے یہ مژدہ سنایا کہ اس کا باپ بے حد علیل ہے، زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے، اور چند گھنٹوں بعد ہسپتال میں اس کا آپریشن ہونے و الا ہے، اور وہ عبداللہ سے فوری ملنا چاہتا ہے تو عبداللہ ہکّا بکّا رہ گیا تھا۔ حیرت اور مسرت کے ملے جلے جذبات نے اس کے اندرون کے چاروں کھونٹ میں کھلبلی مچا دی تھی۔ اس کیفیت میں جب اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوئے تو وہ بری طرح چونک پڑا۔
    ”آج صبح ہی صبح کون آگیاتھا؟“ اس کا لہجہ تجسس سے بھرپور تھا۔
    ”ابا کا نوکر۔“
    کیا .... کیا....!! وفورِ حیرت سے اس کا منھ کھلاکا کھلارہ گیا۔
    ”سچ کہہ رہا ہوں۔ انھوں نے مجھے بلا یا ہے۔“
    ”کیوں مذاق کررہے ہیں آپ....“
    ”کیوں مذاق کررہے ہیں آپ....“
    ”سچ کہہ رہا ہوں۔“
    ”مجھے تو یقین نہیں آرہا ہے۔“
    ”یقین تو مجھے بھی نہیں آیاتھا۔“ اس نے پُر خیال انداز میں کہا۔”لیکن نوکر نے سچ ہی کہا ہے کہ وہ جھوٹ بولنے کی ہمت نہیںکرسکتا اور پھر اس کو اس کی ضرورت بھی کیا ہے۔“
    ”ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔“ بیوی بولی۔ ”لیکن بلا یا کس لیے ہے آپ کو؟“
    ”آج ان کا ایک میجر آپریشن ہورہا ہے“ وہ بولا ۔”ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ بچ گئے تو ایک معجزہ ہوگا۔“
    عبداللہ نے ایک گہری سانس لی اور کچھ سوچنا ہوا بولا۔ ”ممکن ہے اس آخری وقت میں انھیں اس ناخلف کی یاد آگئی ہو۔“
    ”اوہ۔ تو یہ بات ہے۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا۔” اب میں سمجھ گئی۔“
    ”وہ کیا؟“
    ”شاید وہ اپنی جائیداد اور کاروبار کا انتظام آپ کو سونپنا چاہتے ہوں۔“
    ”میں یہ بات بھی سوچ چکا ہوں۔ کاش ایسا ہی ہو۔“
    ”ظاہر ہے ایساہی ہوگا۔“ بیوی نے ہولے سے سرکو جنبش دی۔“ آپ ان کے اکلوتے بیٹے ہیں ویسے بھی قانوناً آپ ہی وارث ہیں۔“
    عبداللہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا۔
    تھوڑی دیر بعد اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا، کپڑے تبدیل کےے اور ہسپتال کی جانب چل پڑا۔ راستہ بھر اس کا ذہن خیالوں کا کارخانہ بنارہا، بے شمار خیالات جنم لے کر دم توڑ تے گئے۔ وہ محسوس کررہا تھا کہ اس کی قسمت کا ستارہ اپنی پوری آب و تاب سے دوبارہ چمکنے کے لیے بے چین ہے۔ پھر اچانک اس کے ذہن کا ہر کونا ایک خوب صورت خواب کے قمقموں سے جگمگااُٹھا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کی گمشدہ منزل خود چل کر اس کے پاس آگئی ہے۔ یہ وہی خواب تھا جو ایک عرصہ قبل اس سے ناواقف محض ہوگیاتھا لیکن اب تو جیسے اس سے آنکھ ملاتے ہوئے بار بار شوخی سے مسکرارہاتھا۔
    ہسپتال کے ایک خاص الخاص وارڈ کے قریب عمایدین شہر کی ایک بڑی تعداد ٹولیوں کی شکل میں جمع تھی۔ سب کے چہروں پر فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔ سرگوشیوں کے انداز میں گفتگو ہورہی تھی۔ یہ سب نہ صرف اس کے باپ کے قریبی دوست تھے بلکہ کاروباری برادری کے معروف اور بااثر افراد کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ اس نے اپنے چندر شتے داروں کو بھی دیکھا جن سے ملے ہوئے اسے برسوں بہت گئے تھے چوں کہ اس کے باپ نے اسے غیر اعلانیہ طور پر عاق کررکھا تھا اس لیے کسی میں اتنی جرا¿ت نہیں تھی کہ وہ اس سے ملنے کی کوشش کرتا۔ انھیں خوب علم تھا کہ اس کی خیریت معلوم کرنا سرتا سرگھاٹے کا سودا ہے۔ وارڈ کے اندر مکمل خاموشی کی حکمرانی تھی۔ درود دیوار پر ایسا سناٹا طاری تھا جیسے احسان اللہ کی قبل از وقت موت کا تصور کرکے ہر شے نے اپنے ہونٹوں کو سی لیا ہو۔
    دل کو ڈھارس دے کر وہ وارڈ کے اندر داخل ہ وگیا۔ سامنے پلنگ پر کوئی چت لیڈا ہوا تھا۔ گردن تک سارا جسم کفن کی طرح سفید چادر میں ڈھکا ہوا تھا۔ برابر ہی ایک گدے دار کرسی پر اس کی بوڑھی ماں اداسی کا مرقع بنی ہوئی خیالات کے بھنور میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اسی دوران پلنگ پر لیٹا ہوا جسم متحرک ہوا، اور کوئی کراہتا ہوا بولا۔
    ”عبداللہ ....میرے بیٹے ۔‘’
    ”ابا جان....“ وہ جھک کر اپنے باپ سے لپٹ گیا، وہ ایک طویل عرصے کے بعد اپنے باپ کو دیکھ رہاتھا ، اور وہ بھی اس وقت جب وہ موت کے عفریت سے پنجہ آزمائی میں مصروف تھا۔ کسی زمانے میں وہ انتہائی صحت مند اور قوی ہیکل ہوا کرتا تھا لیکن آج تو جیسے وہ اپنے وجود کی محض پرچھائیں ہو کر رہ گیاتھا۔ اس کے گالوں میں گڑھے تھے، آنکھیں بے نور ہورہی تھیں۔ لیکن عبداللہ نے محسوس کیا کہ باپ کو اس بُری حالت میں دیکھ کر بھی اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں اور اندرون میں جذبات نام کی ہرشے ہوچکی تھی۔ وہ چپ چاپ اپنے باپ کو اجنبی نظروں سے دیکھ رہا تھا جس کی آنکھوں سے مسلسل ساون بھادوں برس رہاتھا۔
    ”مت رویے۔ طبیعت بگڑ جائے گی۔“ اس کی ماں نے اپنے شوہر کو دلا سا دیا۔
    ”مجھے مت روکو۔ مجھے رونے دو۔“ اس کے باپ نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔” شاید میرے آنسوﺅں سے میری شرمندگی کا داغ دُھل جائے۔“
    تھوڑی دیر بعد جب رو نے سے اس کی طبیعت بحال ہوئی تو عبداللہ نے اجنبیوں کے انداز میں باپ کی بیماری کے متعلق دریافت کیا۔ اس کے انداز سے صرف ظاہر تھا کہ وہ محض رسم دنیا نباہ رہا ہے ورنہ وہ باپ کی تکلیف کے حوالے سے بالکل لا تعلق ہوچکا تھا۔ اس کا دل تو ایک ایسا پتھر ہوچکا تھا جس پر محبت کا کوئی پودا اُگ ہی نہیں سکتا تھا۔
    اسی دوران ایک عمر رسیدہ ڈاکٹر اسٹیتھسکوپ گلے میں لٹکائے دو جنیر ڈاکٹرز کی معیت میں وہاں پہنچ گیا۔ اس نے احسان اللہ کی نبض دیکھی، ٹمپریچر دیکھا اور بلڈپریشر ریکارڈ کرکے یہ پیشگی اطلاع دیتا ہوا وہاں سے چل دیا کہ احسان اللہ کو آپریشن تھیٹر لے جانے کی خاطر کسی بھی لمحے اسٹریچر آسکتا ہے۔ یہ سب کچھ سن کر عبداللہ پر تو شمہ برابر اثر نہیں ہوا لیکن اس کے باپ کی جذباتی ہراسانی بے کراں ہوکر رہ گئی۔ بظاہر وہ خود کو سنبھالنے کی بے انتہا کوشش کررہاتھا لیکن اس کا کیا علاج کہ اس کا چہرہ پریشانی کی منھ بولتی تصویر بن کر رہ گیا تھا۔ وہ بار بار یوں عبداللہ کی طرف دیکھے جارہا تھا جیسے اس سے کچھ کہنا چاہتا ہوں، لیکن اس نے باپ کی طرف متوجہ ہونے کی مطلق کوشش نہی ںکی۔ وارڈ کے اندر موجود افراد اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ اطراف میں کھڑی سناٹوں کی دیواروں پر آنے والے وقت کی داستان مرقوم ہوچکی ہے۔
    اس اثناءمیں دو وارڈ بوائے اسٹریچر کو ڈھکیلتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ ان کو دیکھ کر احسان اللہ کا چہرہ ہلدی کی طرح پیلا ہوگیا جیسے اسے مذبح لے جانے کی تیاری کی جارہی ہو۔ اس کا جسم ارتعاشات کی زد میں تھا اور ہونٹوں کے تحرک سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ عبداللہ سے کچھ کہنا چاہتا ہے ۔ اگرچہ عبداللہ خیال و خواب کی دنیا میں ڈوبا ہوا تھا لیکن اس وقت بری طرح چونکا جب اس نے کالے کوٹ پہنے ہوئے دوشائستہ قسم کے سنجیدہ افراد کو وارڈ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ دونوں کے ہاتھوں میں کچھ فائلیں تھیں۔ وہ کچھ دیر تک اس کے باپ سے سرگوشیوں کے انداز میں گفتگو کرتے رہے۔ پھر فائلیں کھول کر دوچار جگہوں سے کچھ پڑھ کر اس کے باپ کو سنایا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا باپ ان کے کہنے پر اپنے کپکپاتے ہاتھ سے ان فائلوں میں کئی جگہوں پر اپنے دستخط ثبت کرتا جارہا ہے۔ اسی دوران عبداللہ کو بھی وہیں پر بلالیا گیا۔ دونوں نے اپنا تعارف کرایا جس سے معلوم ہوا کہ وہ شہر کے معروف قانون دان ہیں۔
    ”عبداللہ صاحب“ ان میں سے ایک نے کھڑے ہوئے شائستہ لہجے میں اسے مخاطب کیا۔” آپ کے والد نے وصیت نامہ پر دستخط کردیے ہیں جس کی رو سے آپ ان کی تمام جائیداد اور کاروبار کے وارث ہوں گے۔“
    ”اب آپ بھی دستخط کردیں کہ تمام فائلوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوجائے۔“ دوسرے وکیل کا لہجہ بھی پروقار متانت سے لبریز تھا۔
    دونوں وکیل جہاں جہاں فائلوں میںا شارہ کرتے گئے، عبداللہ بلاتا خیر دستخط کرتا گیا۔ جب کاغذات دستاویزی شکل اختیار کرگئے تو پہلے نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
    ”اب آپ اپنے والد کی جائیداد اور کاروبار کے وارث ہیں۔“ اس نے ایک لہجہ توقف کیا۔ پھر گہری سانس لے کر بولا۔”اور ان پر بینکوں کے جو واجب الادا قرضے ہیں، ان کی سود کے ساتھ ادائیگی بھی قانوناً آپ کی ذمہ داری ہے۔“
    عبداللہ نے اچانک رخصت ہوتے ہوئے ہوش و حواس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ پوچھنے کچھ کہنے سے پہلے وہ دونوں وارڈ سے باہر نکل چکے تھے۔ اسی دوران دونوں وارڈ بوائے بھی احسان اللہ کو اسٹریچر پر لٹا کر آپریشن تھیٹر لے جانے کی تیاری کررہے تھے۔ اس نے دیکھا کہ اس کا باپ اسٹریچر پر لیٹا اسے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کہہ رہا ہے۔ سرپر سرجری کی تلوار لٹکنے کے باوجود اس کے چہرے پر ایک پرسکون ٹھہراﺅ کے آثار نظر آرہے تھے۔
     
  2. كاشان عدنان
    آف لائن

    كاشان عدنان ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2011
    پیغامات:
    152
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ورثہ

    تمھارا مرضی
     
  3. احمدنور
    آف لائن

    احمدنور ممبر

    شمولیت:
    ‏19 مئی 2011
    پیغامات:
    280
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ورثہ

    بھائی یہ کاپی پیسٹ آج تک میں نے خود بھی نہیں پڑھی :bigblink:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں