1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏5 اکتوبر 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم​

    السلام علیکم

    چند عظیم آئمہ کبار کے اقوال بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم کے ضمن میں درج ذیل ہیں تاکہ نفس مسئلہ مزید واضح ہوجائے کہ اسلام میں بدعت کے ضمن میں ہمیشہ دو قسم بدعات (بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ) کا عقیدہ موجود رہا ہے اور اسے آئمہ اسلاف نے کبھی کلیتاً گمراہی و ضلالت پر تعبیر نہیں کیا۔

    امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 204ھ)

    امام بیہقی (المتوفی 458 ھ) نے اپنی سند کے ساتھ ’’مناقبِ شافعی‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

    1. المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2)


    ’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور یعنی نئے کام محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے یعنی یہ ایک ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘


    1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
    2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
    3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21


    اِمام ابو عبداﷲ محمد بن احمد القرطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 380ھ)

    ’’ہر بدعت جو مخلوق سے صادر ہوتی ہے دوحالتوں سے خالی نہیں ہوتی وہ یہ کہ اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے یا نہیں اگر اس کی اصل شریعت میں ہو تو پھر وہ لازمی طور پر عموم کے تحت واقع ہوگی جس کو اﷲ تعاليٰ نے مستحب قرار دیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر برانگیختہ کیا ہو پس یہ بدعت مقامِ مدح میں ہوگی اور اگر ان کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو جیسے جود و سخاء وغیرہ کی اقسام اور معروف کام تو ایسے امور کا سر انجام دینا افعال محمودہ میں سے ہے چاہے کسی نے یہ کام پہلے نہ کئے ہوں اور یہ عمل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول، ’’ نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کو تقویت دیتا ہے جو کہ اچھے کاموں میں سے تھی اور وہ محمود کاموں میں داخل ہیں اور وہ یہ ہے کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز تراویح کو پڑھا تھا مگر آپ نے اسے (باجماعت) ترک کر دیا اور اس کی محافظت نہیں فرمائی اور نہ ہی لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا پس (بعد میں مصلحت وقت کے تحت) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس (نمازِ تراویح) کی محافظت کی اور لوگوں کو اس کے لئے جمع کیا اور انہوں نے لوگوں کو اس کی ترغیب دی تو وہ بدعت ہوئی لیکن بدعت محمودہ اور ممدوحہ ہے،،،،

    قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 2 : 87

    اِمام ابوبکر احمد بن حسین البیہقی رحمۃ اللہ علیہ (458 ھ)

    ’’محدثات میں دو قسم کے امور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے امور ہیں جو قرآن و سنت یا اثر صحابہ یا اجماع امت کے خلاف ہوں وہ بدعت ضلالہ ہے، اور دوسری قسم میں وہ نئے امور ہیں جن کو بھلائی کے لیے انجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی (امرِ شریعت) کی مخالفت نہ کرتا ہو پس یہ امور محدثہ غیر مذمومۃ ہیں۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا کہ ’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا محدثہ یعنی نیا عمل ہے جو پہلے نہ تھا اور اگر یہ پہلے ہوتا تو پھر مردود نہ ہوتا۔‘‘

    بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 206
    ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
    نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21


    اِمام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 505ھ)

    امام ابوحامد محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب’’احیاء علوم الدین‘‘ میں بدعت کے حوالے سے رقمطراز ہیں :

    ’’ہر بدعت ممنوع نہیں ہوتی بلکہ ممنوع صرف بدعت وہ ہوتی ہے جو سنتِ ثابتہ سے متضاد ہو اور اس سنت کی علت کے ہوتے ہوئے اَمرِ شریعت کو اٹھادے (مزید برآں) بعض احوال میں جب اسباب متغیر ہوجائیں تو بدعت واجب ہوجاتی ہے اور بلند دسترخوان میں یہی بات تو ہے کہ کھانے کی آسانی کے لیے کھانے کو زمین سے بلند کیا جاتا ہے اور اس قسم کے کاموں میں کراہت نہیں ہوتی۔ جن چار باتوں کو جمع کیا گیا کہ یہ بدعت ہیں تو یہ سب برابر بھی نہیں ہیں بلکہ اُشنان (ایک بوٹی جو صفائی کے کام آتی ہے) اچھی چیز ہے کیونکہ اس میں نظافت ہے کیونکہ پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے غسل مستحب ہے اور اُشنان اس نظافت کو مکمل کرتی ہے اور وہ لوگ اس لیے استعمال نہیں کرتے تھے کہ ان کی عادت نہیں تھی یا انہیں حاصل نہیں ہوتی تھی۔ یا وہ نظافت سے زیادہ اہمیت کے کاموں میں مشغول ہوتے تھے بعض اوقات وہ ہاتھ بھی نہیں دھوتے تھے اور ان کے رومال پاؤں کے تلوے ہوتے تھے (یعنی پاؤں کے تلوؤں سے ہاتھ صاف کرلیتے تھے) اور یہ عمل، دھونے کے استحباب کے خلاف نہیں، چھلنی سے مقصود کھانے کو صاف کرنا ہوتا ہے اور یہ جائز ہے جب تک حد سے متجاوز عیاشی کی طرف نہ لے جائے۔ اونچے دسترخوان سے چونکہ کھانا کھانے میں آسانی ہوتی ہے لہٰذا یہ بھی جائز ہے جب تک تکبر اور بڑائی پیدا نہ کرے شکم سیری ان چاروں میں سے زیادہ سخت ہے کیونکہ اس سے خواہشات ابھرتی ہیں اور بدن میں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں تو ان چاروں بدعات میں فرق معلوم ہونا چاہے۔‘‘

    غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 3

    امام ابو زکریا محی الدین بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 676ھ)

    امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں فرماتے ہیں :

    ’’شریعت میں بدعت سے مراد وہ امور ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، بدعت کو بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کیا گیا ہے اور شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام ’’کتاب القواعد‘‘ میں فرماتے ہیں۔ بدعت کو بدعت واجبۃ، محرمۃ، مندوبۃ، مکروھۃ اور مباحۃ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ بدعت کا قواعدِ شرعیہ سے موازنہ کیا جائے، اگر وہ بدعت قواعد ایجاب کے تحت داخل ہے تو واجب ہے اور اگر قواعدِ تحریم کے تحت داخل ہے تو حرام ہے اور اگر قواعدِ استحباب کے تحت داخل ہے تو مستحب ہے اور اگر کراھت کے قاعدہ کے تحت داخل ہے تو مکروہ اور اگر اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تومباح ہے۔ بدعات واجبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : علم نحو کا پڑھنا جس پر قرآن اور حدیث کا سمجھنا موقوف ہے، یہ اس لیے واجب ہے کہ علم شریعت کا حصول واجب ہے اور قرآن اور حدیث کے بغیر علم شریعت حاصل نہیں ہو سکتا اور جس چیز پر کوئی واجب موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے۔ دوسری مثال قرآن و حدیث کے معانی جاننے کیلئے علم لغت کا حاصل کرنا ہے، تیسری مثال دین کے قواعد اور اصول فقہ کو مرتب کرنا ہے جبکہ چوتھی مثال سندِ حدیث میں جرح اور تعدیل کا علم حاصل کرنا تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث میں امتیا زہو سکے اور قواعدِ شرعیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اپنی ضروریات سے زیادہ علم شریعت حاصل کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ علم مذکور الصدر علوم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ بدعات محرمہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : قدریہ، جبریہ، مرجیۂ اور مجسمہ کے نظریات اور ان لوگوں پر رد کرنا بدعات واجبہ کی قسم میں داخل ہے۔ بدعاتِ مستحبہ کی بعض مثالیں یہ ہیں سرائے، مدارس اور بلند عمارتیں بنانا اور ہر ایسا اصلاحی اور فلاحی کام جو عہد رسالت میں نہیں تھا (تمام رمضان میں) باجماعت تراویح، تصوف کی دقیق ابحاث، بد عقیدہ فرقوں سے مناظرہ اور اس مقصد کیلئے جلسے منعقد کرنا بشرطیکہ اس سے مقصود رضائے الٰہی ہو۔ بدعات مکروھہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : مساجد کی زیب و زینت، (متاخرین فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا) مصحف (قرآن) کو مزین کرنا (یہ بھی متاخرین کے نزدیک جائز ہے) اور قرآن کو ایسی سر سے پڑھنا کہ اس کے الفاظ عربی وضع سے پھر جائیں اور زیادہ اصح یہ ہے کہ یہ بدعت محرمہ ہے۔ بدعات مباحہ کی بعض مثالیں یہ ہیں : صبح اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا، کھانے پینے، پہننے اور رہائش کے معاملات میں وسعت اختیار کرنا، سبز چادریں اوڑھنا، کھلی آستینوں کی قمیض پہننا، ان امور میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے ان امور کو بدعاتِ مکروھۃ میں داخل کیا ہے اور بعض علماء نے ان کو عہدِ رسالت اور عہد صحابہ کی سنتوں میں داخل کیا ہے جیسے نماز میں تعوُّذ و تسمیہ جھراً پڑھنے میں سنت ہونے نہ ہونے کا اختلاف ہے۔‘‘

    1. نووي، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
    2. نووي، شرح صحيح مسلم، 1 : 286
    3. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 51
    4. صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 370


    اِمام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں بدعت کی اقسام اور "کل البدعۃ ضلالۃ" کی وضاحت اور پھر ان میں سے ہر قسم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

    ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ ’’ہر بدعت ضلالت ہے‘‘ عام مخصوص ہے عام طور پر اس سے مراد بدعتِ سيّئہ لیا جاتا ہے اہل لغت نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ بدعت ہے۔ علماء نے بدعت کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہۃ اور مباحہ بیان کی ہیں بدعت واجبہ کی مثال متکلمین کے دلائل کو ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر امور کے رد کے لئے استعمال کرنا ہے اور بدعت مستحبہ کی مثال جیسے کتب تصنیف کرنا، مدارس، سرائے اور اس جیسی دیگر چیزیں تعمیر کرنا۔ بدعت مباح کی مثال یہ ہے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس جیسی چیزوں کو اپنانا ہے جبکہ بدعت حرام اور مکروہ واضح ہیں اور اس مسئلہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ میں نے ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ میں واضح کردیا ہے۔ ۔۔۔۔۔

    نووي، شرح صحيح مسلم، 6 : 154


    علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ)

    امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔

    ’’اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔‘‘

    ابن تيميه، منهاج السنة، 4 : 224

    علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

    ’’اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

    ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16

    نوٹ : یاد رہے کہ علمائے سلف اور اہلحدیث حضرات کے ہاں‌علامہ ابن تیمیہ انتہائی عظیم مقام و مرتبہ رکھتے ہیں اور انکے مدارس میں ابن تیمیہ کی کتب بطور نصاب پڑھائی جاتی ہیں۔

    اِمام ابو الفضل احمدبن علی بن محمد ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی، 852ھ)

    علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :

    ’’بدعت سے مراد ایسے نئے امور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان امور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہوگا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ)۔‘‘

    1. عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 4 : 253
    2. شوکاني، نيل الأوطار، 3 : 63


    کل بدعۃ ضلالۃ کی شرح کرتے ہوئے مشہور محدث اِمام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی، 1014ھ) حدیث مبارکہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’یعنی ہر بری بدعت ( بدعت سئیہ) گمراہی ہے۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اس کو اس عمل کا اور اس پر عمل کرنے والے کا اجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت شیخین ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حصرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کو صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اس کی تجدید کی گئی۔‘‘

    ملا علي قاري، مرقاة، شرح مشکاة، 1 : 216

    شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1052 ھ)

    شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’بعض بدعتیں ایسی ہیں جو کہ واجب ہیں مثلاً علمِ صرف و نحو کاسیکھنا اور سکھانا کہ ان کے ذریعے آیات و احادیث کے معانی کی صحیح پہچان ہوتی ہے، اسی طرح کتاب و سنت کے غرائب اور دوسری بہت سی چیزوں کو حفظ کرنا جن پر دین و ملت کی حفاظت موقوف ہے۔ اور کچھ بدعات مستحسن اور مستحب ہیں جیسے سرائے اور دینی مدرسے تعمیر کرنا، اور بعض بدعات بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہیں جیسے مساجد اور قرآن حکیم کی آرائش و زیبائش کرنا۔ بعض بدعات مباح ہیں جیسے کھانے پینے کی لذیذ چیزوں اور لباس فاخرہ کی فراوانی کا حسب ضرورت استعمال، لیکن شرط یہ ہے کہ حلال ہو اور سرکشی، تکبر و رعونت اورفخر کا باعث نہ ہو، اور دوسری ایسی مباحات جوکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھیں جیسے کہ آٹے کو چھلنی سے چھاننا وغیرہ۔ بعض بدعات حرام ہیں ان میں اہل بدعت کے نفسانی خواہشات کی اتباع میں نئے مذاہب ہیں جو سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جماعت اور خلفائے راشدین کے طریقوں کے خلاف ہیں۔

    عبدالحق محدث دهلوي، اشعة اللمعات، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، 1 : 125

    نوٹ : شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ بھی ایسے آئمہ کرام میں ہیں جو اہلسنت و الجماعت کے ساتھ ساتھ اہلحدیث و سلفی حضرات کے ہاں بھی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 1255ھ)

    یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔‘‘

    شوکاني، نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63

    شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز (1421ھ)

    عصر قریب میں (تقریبا 8-9 برس پہلے) مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

    ’’علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔‘‘

    ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 325

    ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

    ’’بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔‘‘

    ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 329

    بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں :

    ’’ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے۔‘‘

    ابن باز، فتاويٰ اللجنة، 2 : 321

    نوٹ : قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شیخ ابن باز بھی اہلحدیث اور غیر مقلد علما میں سے ہیں اور اپنے پیروکاروں میں انتہائی اہم مقام رکھتے ہیں۔ نیز امام کعبہ کےمنصب پر بھی فائز رہے ہیں۔

    آخری گذارش :

    قارئین کرام !‌آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شریعت اسلامیہ میں بدعت کو کلیتا گمراہی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ علمائے کرام و محدثین عظام نے ہمیشہ بدعت کو دو قسم کی بدعات میں‌تقسیم کیا ہے۔ بدعت معلوم ہوجانے کے بعد اسکی تحقیق، تعبیر و تشریح کی جاتی ہے جو کہ علمائے کرام اور آئمہ و محدثین کا کام ہے۔کسی بھی نئے کام کے جائز و ناجائز، حسنہ و سئیہ، خیر و بد، مستحب و ضلالۃ ہونے کا تعین علمائے کرام بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔

    اوپر دی گئی فہرست کثیر علماء و آئمہ کرام کے ناموں میں سے چند ایک نام اور انکے اقوال دیے گئے ہیں ورنہ درجنوں اور بیسیوں عظیم علماء و محدثین ایسے ہیں جو بدعت کی تقسیم اور بدعت حسنہ و سئیہ کے قائل ہیں۔

    اللہ تعالی ہمیں دین اسلام کو ایک آسانی والا دین کے طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس پر آسانی سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین ۔

    حوالہ جات کے لیے بشکریہ : البدعۃ عندالآئمہ و المحدثین۔ از ڈاکٹر طاہر القادری ۔
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ایک تحقیقی موضوع پر عظیم آئمہ و محدثین کرام اور بالخصوص علمائے غیر مقلدین کے اقوال اور رائے نقل کرنے کےلیے شکریہ ۔
    خدا تعالی محنت قبول کرے۔ آمین
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مضمون کی پسندیدگی اور دعاؤں کے لیے بہت شکریہ نور العین بہنا جی ۔
     
  4. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    سلام مسنون نعیم بھائی ۔
    آئمہ و محدثین رحمہم اللہ کے اقوال اور عقائد ایک اہم مسئلہ پر یہاں نقل فرما کر آپ نے بہت اچھا کیا ۔ یقینا مجھ جیسوں کو حقیقت حال تک پہنچنے میں‌مدد مل سکتی ہے بشرطیکہ انسان عدل و انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر نفسِ مسئلہ سمجھنے کی کوشش کرے۔
    بدعت یعنی دین میں شروع کردہ کسی نئے عمل کو آئمہ ، علما ، فقہا اور محدثین و مفسرین کی اکثریت نے دو اقسام میں‌ تقسیم کیا ہے ۔ اگر وہ نیا عمل شریعی احکامات کے خلاف ہے یا اسکی اصل قرآن و سنت میں‌ناپید ہے تو وہ عمل بدعت سئیہ ہوگا ۔ جسے گمراہی کہا گیا ہے۔
    لیکن اگر اسکی اصل قرآن و سنت میں‌ کسی نہ کسی صورت موجود ہے اور شریعت اسلامیہ سے متحارب نہیں تو وہ بدعت حسنہ ، اچھی شروعات کہلائے گا۔

    نعیم بھائی ۔ بہت سی دعائیں آپ کے لیے ۔
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    وعلیکم السلام وسیم بھائی ۔ آپ کی بہت سی دعاؤں کا بہت سا شکریہ ۔
     
  6. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم۔ بہت علمی اور اہم تحریر ہے۔ جزاک اللہ نعیم بھائی ۔
     
  7. محمدانوش
    آف لائن

    محمدانوش ممبر

    شمولیت:
    ‏17 ستمبر 2008
    پیغامات:
    69
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب موضوع کا انتخاب کیا اوراس اہم موضوع پر علماے کرام کے اقوال ہم تک پہچانے کے لیے میں آپکا بہت ممنون ہوں۔۔ اللہ رب العزت آپکو اجر عظیم عطا فرماے آمین ثم آمین
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم برادر بھائی اور محمد آنوش بھائی
    پسندیدگی ، دعاؤں اور محبتوں کے لیے بہت شکریہ ۔ اللہ آپکو جزائے خیر دے۔ آمین
     
  9. زیغم
    آف لائن

    زیغم ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2008
    پیغامات:
    81
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت اچھا ٹاپک ارسال کیا ہے نعیم صاحب۔
    اس موضوع پر میرے حلقہء احباب میں بھی گپ شپ لگتی ہے۔

    یہاں‌صرف ایک چیز بتانا چاہوں گا۔ کہ بدعت احسن کو کبھی ایسے Promote نہیں‌کرنا چاہئیے کہ جیسے یہ دین کا حصہ ہو۔ کیونکہ یہ بہرحال دین کا حصہ نہیں ہوتی۔

    مجھے ایک حلقے میں یہ بات بھی پتا چلی کہ یہ حدیث "علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے"، جو کہ شائید ہماری کورس کی کتابوں میں بھی ہے، دراصل حدیث نہیں یا احادیث میں اسکا کوئی نشان نہیں ملتا۔ مگر اسکو بدعت احسن کے طور پر بھی لیا جاتا ہے

    ویسے اگر کوئی صاحب اس چین والی حدیث کی تحقیق بھی کر دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم زیغم صاحب۔
    دین کا حصہ سے آپ کی مراد اگر تو فرض واجب ہے تو آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ اسے دینی فرائض و واجبات نہیں سمجھنا چاہیے۔

    لیکن مستحبات، مستحسنات ، نفلی عبادات و تسبیحات و وظائف ۔۔۔ یہ امور دین میں ہمیشہ سے باعث اجر و ثواب ہوتے ہیں اور بےشمار برکات کے حامل ہوتے ہیں۔ اور بدعات حسنہ کہ جو اپنی اصل کے اعتبار سے قرآن و سنت سے ہی ماخوذ ہوتی ہیں ۔ ان پر عمل کرنا باعث اجر و ثواب ہوتا ہے۔
     
  11. شامی
    آف لائن

    شامی ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اگست 2006
    پیغامات:
    562
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم شامی بھائی ۔
    آپ کا "شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" دیکھ کر ہماری اردو کے ایک پرانے صارف "طارق راحیل" یاد آگئے۔ :a191:
     
  13. عابد ہمدرد
    آف لائن

    عابد ہمدرد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 اپریل 2011
    پیغامات:
    186
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    اسلام میں ھر نیا کام کرنا حرام ھے۔ اور بدعت کرنے والا کافر ھے۔
     
  14. محمد فاروق
    آف لائن

    محمد فاروق ممبر

    شمولیت:
    ‏9 مئی 2011
    پیغامات:
    3
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    بزرگوں پر اعتماد کرنا ہی اصل شریعت ہے
    حافظ ابوعمر ابن عبدالبر المتوفی 463 ھجری فرماتے ہیں.1
    ترجمہ:- علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ھے کہ عوام کے لئے اپنے علماء کی تقلید واجب ھے اور اللہ کے قول فاسئلو اھل الزکر ۔۔ الخ۔ سے یہی لوگ مراد ہیں۔اور سب کا اتفاق ھے کہ اندھے پر جب قبلہ مشتبہ ھوجائے تو جس شخص کی تمیز پر اسے بھروسہ ہے ،قبلہ کے سلسلہ میں اس کی بات ماننی لازم ہے اسی طرح وہ لوگ جو علم اور دینی بصیرت سے عاری ہیں ان کے لئے اپنے عالم کی تقلید لازم ہے۔
    (جامع بیان العلم و فضلہ ،ص989،،ج 2)
    شاہ ولی اللہ :
    اپنے اسلاف پر اعتماد کرنا اور ان کے ساتھ حسن ظن کا معاملہ رکھنا وہ دولت ہے جس کے صدقہ میں آج دین اپنی صحیح شکل میں ہمارے ہاتھوں میں محفوظ ہے اسی بات کو حضرت شاہ ولی اللہ دھلوی رحمۃ اللہ نے بیان فرمایا ھے۔
    "معرفت شریعت میں تمام امت نے بالاتفاق سلف گزشتہ پر اعتماد کیا ھے،چنانچہ تابعین نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا اسی طرح بعد والے علماء اپنے متقدمین پر اعتماد کرتے آئے۔ اور عقل سلیم بھی اسی کو اچھا سمجھتی ھے کیونکہ شریعت بغیر نقل اور استنباط کے معلوم نہیں ھوسکتی اور نقل اسی وقت صحیح ھوگی جب بعد والے پہلوں سے اتصال کے ساتھ لیتے چلے آئیں۔ "
    (عقیدالجید،،،ص36)

    لہذا اپنے علمائے کرام پر پورا بھروسہ رکھو اور اپنے ذھنوں کو مت بدلو ورنہ گمراہ ھو جانے کا اندیشہ ہے ۔ یہ میری گزارش ہے سب کیلیے۔ جزاک اللہ خیرا
    صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
     
  15. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    بسم اللہ الرحمن الرحیم​
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    محترم نعیم بھائی ۔۔۔۔صاحب مضمون نے ماشاء اللہ بزرگوں کے کافی حوالاجات سے "بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ " کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔ لیکن میرے بھائی یہ وضاحت ادھوری ہے ۔۔۔۔ کیوں کہ اس وضاحت میں بدعت حسنہ کا پہلو تو کافی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔۔۔ لیکن بدعت سیئہ کے حوالے سے وضاحت نہایت مختصر اور ناکافی ہے ۔۔۔۔بہر حال بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کے حوالے سے ہم آپ کے مضمون میں‌کچھ اضافت کررہے ہیں ۔۔۔امید ہے کہ آپ کو تمام قارئین کرام اس وضاحت پر بھی خصوصی غور فکر فرمائیں گے۔جزاک اللہ

    بدعت کا لغوی معنی
    مشہور امام لغت ابو الفتح ناصر بن عبد السید المطرازی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 616 ھ )لکھتے ہیں کہ :
    بدعت ابتداع کا اسم ہے جس کے معنی یہ ہے کہ کوئی نئی چیز ایجاد کی جائے ،رفعت ارتفاع کا اور خلفت اختلاف کا اسم ہے ۔لیکن پھر بدعت کا لفظ ایسی چیز پر غالب آگیا جو دین میں زیادہ یا کم کردی جائے"(مغرب ج 1 ص 30)
    علامہ راغب اصفہانی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 503 ھ) لکھتے ہیں کہ " مذہب میں بدعت کا اطلاق ایسے قول پر ہوتا ہے جس کا قائل یا فاعل صاحب شریعت کے نقش قدم پر نہ چلا ہو ۔اور شریعت کی سابق مثالوں اور اس کے محکم اصولوں پر وہ گامزن نہ ہوا ہو"(مفرادت القرآن ص 37)
    بدعت کا شرعی معنی
    حافظ بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 855 ھ) لکھتے ہیں کہ " بدعت اصل میں ایسی نو ایجاد چیز کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھی (عمدۃ القاری ج 5 ص 356)
    حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت اصل میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے ایجاد کی گئی ہو ۔اور شریعت میں بدعت کا اطلاق سنت کے مقابلہ میں ہوتا ہے لہذا مذموم ہی ہوگی "(فتح الباری ج 4 ص 219)
    حافظ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے ،اور بہرحال وہ چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دال ہے تو شرعا بدعت نہیں ہے اگر چہ لغۃ بدعت ہوگی"(جامع العلوم و الحکم ص 193)
    اور بعینہ ان الفاظ سے بدعت کی تعریف علامہ معین بن صفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 889 ھ ) نے شرح اربعین نووی میں کی ہے (الجنہ ص 159
    نیز حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "بدیع السمٰوت " کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے بغیر کسی سابق مثال اور نمونہ کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔اور لغت میں ہر نئی چیز کو بدعت کہا جاتا ہے اور بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔(اول)بدعت شرعی جس کے متعلق جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ"کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ۔۔۔(دوم)کبھی بدعت لغوی ہوئی ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے مل کت تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا "نعمت البدعۃ ھٰذا"یہ کیا ہی اچھی نو ایجاد ہے"۔۔۔۔پھر آگے لکھتے ہیں کہ اور اسی طرح ہر وہ قول جس کو پہلے کسی نے نہ کیا ہو ،اہل عرب ایسے کام کو بدعت کہتے ہیں "(تفیسر ابن کثیر ج 1 ص 161)

    اس سے قبل کے ہم بعت سیئہ اور بدعت حسنہ کی وضاحت کریں مناسب ہے کہ ایک اہم نکتہ کی وضاحت آپ حضرات کے سامنے پیش کردی جائے۔

    اہل بدعت کا یہ کہنا کہ جس چیز کی نہیں کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اس کا نکالنا اور کرنا برا نہیں ۔۔۔۔ سراسر باطل اور قطعا مردود ہے اور محدثین عظام اور فقہائے کرام کے صریح ضوابط کے خلاف ہے ۔۔علماء اسلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ جیسے عزائم سے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت و خشنودی کی جاتی ہے اسی طرح رخصتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی متعلق ہے اور جس طرح جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو کرنا سنت ہی طرح کسی کام کا چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ لہذا آپ کے ترک فعل کی اتباع بھی سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے ۔۔۔چناچہ ملاعلی قاری رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ ایک حدیث شریف یوں پیش فرماتے ہیں :
    "اللہ تعالیٰ جیسے عزائم کی ادائیگی کو پسند کرتا ہے اسی طرح وہ اس کو بھی پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصتوں پر بھی عمل کیا جائے (مرقات ج 2 ص 15)(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 128)
    نیز حضرت ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث "انما الاعمال بالنیات"کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں کہ "متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے"(مرقات ج 1 ص 41)
    اور اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " اتباع جیسے فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوگی ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا وہ بدعتی ہوگا ۔اسی طرح محدثین کرام نے فرمایا ہے "(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 20)
    شرح مسند امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ میں ہے "اتباع جیسے فعل میں ہے اسی طرح ترک میں بھی ہے سو جس نے ایسے فعل پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ مبتدع ہوگا ۔کیوں کہ اس کو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ قول شامل ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا ثبوت نہیں تو وہ مردود ہوگا"(انتہی)(مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ بحث تلفظ بالنیۃ)

    ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ باوجود محرک اور سبب کے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کو نہ کرنا ایسا ہی سنت ہے جیسا کہ آپ کو کسی کام کو کرنا شنت ہے ۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص آپ کی اس سنت پر عمل نہیں کرتا ،وہ محدثین کرام کی تصریح کے مطابق بدعتی ہوگا۔۔اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ وہ تمام کام جو اہل بدعت کرتے ہیں اس کے داعی اور محرکات آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی موجود تھے مگر آپ نے ان کو ترک فرمایا اور آپ کا ان کو ترک فرمانا سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے۔
    حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ " تمہارے (اس طرح ) ہاتھ اٹھانے بدعت ہیں کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سینہ مبارک سے اوپر ہاتھ نہیں اٹھائے "(مسند احمد ج 2 ص 61)
    حضرت عمارہ بن رویبہ نے بشر بن مروان کو منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا تو سخت لہجہ میں یوں ارشاد فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کا ناس کرے میں نے تو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کی انگلی سے زیادہ اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھا(اور یہ دونوں ہاتھ اٹھا رہے ہیں) )(مسلم ج 1 ص 287)
    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا میں سجع سے بچو کیوں کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام دعا میں سجع نہیں کیا کرتےتھے (صحیح بخاری ج 2 ص 938)
    آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمارہ رضی اللہ عنہ تینوں جلیل القدر صحابی ہیں اور وہ ایسے امور کا سختی سے رد فرمارہے ہیں جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔۔۔۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دعا میں سجع کرنے سے صرف اس لئے منع کرتے ہیں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا۔
    علامہ سدید الدین کاشغری الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "رات کے وقت آٹھ رکعت سے زیادہ اور دن کے وقت چار رکعت سے زیادہ ایک سلام کے ساتھ نفلی نماز پڑھنا آئمہ احناف کے اجماع سے مکروہ ہے"(منیۃ المصلیٰ ص 102)
    اور نہرالفائق میں اس کی تصریح موجود ہے کہ مکروہ تحریمی ہے ۔۔۔حضرات فقہائے احناف نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے "لعدم وردود الاثربہ" اس لئے مکروہ ہے کہ اس کے لئے کوئی اثر اور دلیل موجود نہیں ہے
    اور علامہ علاوالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 587ھ) بعض فقہائے کرام سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اس لئے مکروہ ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے اس سے زیادہ مروی نہیں ہے"(البدائع والصنائع ج 1 ص 295)
    ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ حضرات فقہائے کرام نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام کے عدم فعل کو ایک مستقل قاعدہ اور ضابطہ سمجھ کر متعدد مقامات میں اس سے استدلال کیا ہے
    صاحب ہدایہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ "اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے ایسا نہیں کیا پھر اس میں اختلاف ہے کہ یہ کراہت عیدہ گاہ کے ساتھ خاص ہے ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں کراہت ہوگی کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں نماز نہیں پڑھی"(ہدایہ ج 1 ص 153)
    آپ نے ملاحظ فرمایا کہ صاحب ہدایہ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عدم فعل کو حجت اور دلیل کو طور پر پیش کیا حالانکہ صراحتہ مرفوع حدیث سے نہی اس پر پیش کرنا ایک دشوار امر ہے کہ آپ نے عید گاہ میں یا عید کے دن کسی دوسری جگہ نفل پڑھنے سے علی الخصوص منع کیا ہے ۔۔۔ تو پھر اہل بدعت کے نزدیک اس فعل کو برا اور مکروہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نہی اس پر موجود نہیں ???
    علامہ ابراہیم حلبی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 956ھ) نے صلوۃ رغائب(جو رجب میں پڑھی جاتی ہے)وغیرہ کے بدعت اور مکروہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے "حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام اور بعد کے آئمہ مجتہدین سے یہ منقول نہیں ہے"(کبیری ص 433)
    اور مشہور حنفی امام احمد بن محمد رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 446ھ ) ایک مسئلہ کی تحقیق میں یوں ارقام ہیں "یہ بدعت ہے حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام سے منقول نہیں ہے"(الواقعات)
    بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔۔لغوی بدعت اور شرعی بدعت
    لغوی بدعت ہر اُس نو ایجاد کا نام ہے جو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیدا ہوئی ۔۔عام اس سے وہ عبادت ہو یا عادت ۔۔۔۔ اور اس کی پانچ قسمیں ہیں ۔واجب ،مندوب ،حرام ،مکروہ ،مباح ۔۔۔۔ اور شرعی بدعت وہ ہے جو قرون ثلاثہ کے بعد پیدا ہوئی اور اُس پر قولا” فعلا”،صراحۃ” اور اشارۃ” کسی طرح بھی شارع کی طرف سے اجازت موجود نہ ہو ۔۔یہی وہ بدعت ہے جس کو بدعت ضلالۃ اور بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور علماء نے اس کی تصریح کی ہے۔۔ملاحظہ فرمائیں:
    بدعت کی دو قسمیں ہیں ۔ایک لغوی بدعت ،اور دوسری شرعی بدعت ۔۔لغوی بدعت ہر نو ایجاد کا نام ہے جو عبادت یا عادت ،اور اسی بدعت کی پانچ قسمیں کی جاتیں ہیں ۔اور دوسری وہ بدعت ہے جو طاعت کی مد میں کسی مشروع امر پر زیادت (یا کمی) کی جائے مگر ہو قرون ثلاثہ کے ختم ہونے کے بعد اور یہ زیادتی شارع کے اذن سے نہ ہو ،اس پر شارع کا قول موجود ہو اور نہ فعل نہ صراحت اور نہ اشارہ اور بدعت ضلالہ سے یہی مراد ہے"(ترویج الجنان ۔۔والجنہ ص 161)
    حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ :
    "والتحقیق انھا ان کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرح فھی مستقبحۃ والافھی من قسم المباح وقد تنقسم الی الاحکام الخمسۃ(فتح الباری ج 4 ص 219)
    یعنی تحقیق یہ ہے کہ اگر بدعت ،شریعت کی کسی پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت حسنہ ہوگی اور اگر وہ شریعت کی کسی غیر پسندیدہ دلیل کے تحت داخل ہے تو وہ بدعت قبیحہ ہوگی ،ورنہ مباح ہوگی اور بدعت پانچ اقسام کی طرف منسقم ہے
    اس کے قریب قریب عبارت علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ کی ہے (ملاحظہ ہو عمدۃالقاری ج 5 ص 356)
    اب اس بات پر غور کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ "مستحسن فی الشرع" کیا ہے اور "مستقبح فی الشرع" کیا ہے?
    امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ )فرماتے ہیں کہ
    "بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک وہ بدعت جو کتاب سنت یا اجماع یا کسی صحابی کے اثر کے مخالف ہو ایسی بدعت گمراہی ہے اور دوسری وہ بدعت ہے جو ان میں سے کسی ایک کے مخالف نہ ہو تو ایسی بدعت کبھی اچھی ہوتی ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھی نو ایجاد اور بدعت ہے"(موافقہ صریح المعقول الصحیح المنقول لابن تیمیہ علیٰ منہاج السنۃ ج 2 ص 128)
    اس کی پوری تحقیق آپ حضرات ملاحظہ فرماچکے ہیں کہ مخالفت جیسے قول میں ہوتی ہے اسی طرح فعل میں بھی مخالفت ہوتی ہے۔۔۔جو کام آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود داعی و اسباب کے ترک کیا اور خیرالقرون نے بھی اُسے ترک کیا تو وہ یقینا بدعت اور ضلالت ہوگا۔۔۔کیوں کہ وہ کتاب و سنت اور اجماع خیر القرون اور قیاس صحیح کے مخالف ہے۔۔۔ اور جو ان میں سے کسی دلیل میں داخل ہو تو وہ کبھی اچھا ہوگا جس پر ثواب ملے گا اور کبھی مباح ہوگا جس پر نہ ثواب ہوگا یا عقاب۔
    اس بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے بدعت حسنہ اور سیئہ کی تعریف یوں ہوگی ۔۔۔بدعت حسنہ وہ دینی کام جس کا مانع آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد زائل ہوگیا ہو ۔۔۔یا اس کا داعیہ یا محرک اور سبب بعد کو پیش آیا ہو اور کتاب و سنت اور اجماع و قیاس سے اس پر روشنی پڑتی ہو اور ان میں سے کسی دلیل سے اس کا ثبوت ملتا ہو تو وہ بدعت حسنہ اور باالفاظ دیگر لغوی بدعت ہوگی جو مذموم نہیں ہے علامہ ابن رجب رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ کی عبارتیں بھی پیش کی جاچکیں ہیں جو اس پر صراحت سے دلالت کرتیں ہیں ۔۔۔۔اور جس چیز کا محرک اور داعیہ اور سبب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں موجود تھا مگر وہ دینی کام آپ نے نہیں کیا اور حضرات صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین کرام نے بھی باوجود کمال عشق و محبت اور محرکات و اسباب کے نہیں کیا تو وہ کام بدعت قبیحہ اور بدعت سیئہ اور بدعت شرعیہ کہلائے گا جو ہر حالت میں مذموم اور ضلالت و گمراہی ہوگا۔۔۔باقی غیر مجتہد کا اجتہاد خصوصا اس زمانہ میں ہرگز کسی بدعت کا حسنہ نہیں قرار دے سکتا ۔۔۔چناچہ حضرات فقہائے کرام نے اس کی تصریح کی ہے کہ "نصاب الفقہ میں ہے کہ بدعت حسنہ وہ ہے جس کو حضرات مجتہدین نے بدعت حسنہ قرار دیا ہو ۔۔۔اور اگر کوئی شخص اس زمانہ میں کسی چیز کو بدعت حسنہ قرار دے گا تو وہ حق کے خلاف ہے کیوں کہ مصفی میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں ہر بدعت گمراہی ہے"(انتہی)(فتاوی جامع الروایات)(والجنہ ص 60)

    اسی عبارت سے صراحت کے ساتھ یہ بات واضح ہوگئی کہ بدعت حسنہ صرف وہی ہوگی جس میں حضرات مجتہدین کا اجتہاد کا فرما ہوگا ،اور اجتہاد اور قیاس صرف اُن احکام و مسائل میں ہی ہوسکتا ہے جو غیر منصوص ہوں اور ان کے دواعی اور اسباب آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور خیرالقرون میں موجود نہ ہوں بلکہ بعد میں ظہور پذیر ہوئے ہوں ۔۔۔اس نئی تہذیب کے زمانے میں جو شخص بدعت کو حسنہ قرار دیتا ہے اس کا قول سراسر باطل اور مردود ہے۔
    (بحوالہ :راہ سنت)
    اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    السلام علیکم جناب محمد فاروق بھائی اور جناب ناصر نعمان بھائی ۔
    مفید مراسلات کے لیے شکریہ ۔ جزاکما اللہ خیرا
     
  17. امجد محمود
    آف لائن

    امجد محمود مہمان

    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    السلام علیکم و رحمت اللہ،
    میں آپ کا گرویدہ ہو چلا !
     
  18. امجد محمود
    آف لائن

    امجد محمود مہمان

    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    بہت بہت شکریہ
     
  19. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    جزاک اللہ خیر ۔۔۔۔نعیم بھائی ۔۔۔اتنا مفید اور معلوماتی مضمون شئیر کرنے کا شکریہ
     
  20. jaamsadams
    آف لائن

    jaamsadams مہمان

    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    سارے اپنے اپنے آئمہ کے اقوال دے چکے اب تمام علماؤں کے عالم تمام انبیاء کے خاتم کا فرمان عظمت نشان بھی سن لیں

    من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی، رواہ جامع صحیح مسلم


    جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام جاری کرے پھر اِس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے اُن کے اجر کی مثل اِس (جاری کرنے والے) کے لئے بھی لکھا جائے گا ـ اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس (جاری کرنے والے) کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا ، جبکہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔


    لھذا اچھی بدعت (بدعت سیئہ) جاری کرنا صدقہ جاریہ بھی ہے۔ لہذا اگر شیطان اچھی بدعت سے روکے تو اس کی نہ سنیں۔
     
  21. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بدعت حسنہ و بدعت سئیہ کی تقسیم پر اقوال آئمہ

    بسم اللہ الرحمن الرحیم​
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    اکثر حضرات بدعتوں کے جواز میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں‌:
    "جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اسکو خود بھی ثواب ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کا ثواب بھی اسکو ملتا رہے گا اور جس نے دین میں برا طریقہ نکالا تو اسکو نہ صرف اسکا گناہ بلکہ جو بعد میں اس (برے) عمل کو کرے گا اسکا بھی گناہ اسے ملے گا"
    (مسلم شریف ، ابن ماجہ، مشکوة شریف باب العلم ص 33)

    اس حدیث پاک سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ اچھا طریقہ ایجاد کرنے پر ثواب ہے اور یہی بدعت حسنہ ہے

    بدعتوں کے جواز میں اہل بدعت کا اس حدیث سے استدلال غلط ہے :
    اول اس لئے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیئے مشکوة جلد 1 ص 30)اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت (ملاحظہ ہو ہامش مشکوة ج 1 ص 30)اور حضرت غضیف بن الحارث رضی اللہ عنہ کی روایت (دیکھیے مشکوة ج 1 ص 31)کی روایتوں میں اس امر کی تصریح موجود ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من تمسک بسنتی“یعنی جس نے میری سنت سے تمسک کیا اور مضبوطی سے اس کو پکڑا .اور فرمایا کہ ”من فتمسک بسنتہ خیر“الخ یعنی میری سنت سے تمسک کرنا بہتر ہے .
    ان روایات سے معلوم ہوا کہ امتی کا کام سنت پر چلنا ہے اس سے تمسک کرنا ہے .سنت جاری کرنا امتی کا کام نہیں
    رہا حضرات خلفاءراشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کا معاملہ وہ اس بحث سے خارج ہیں۔
    حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
    نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میرے بعد زندہ رہا وہ بہت ہی زیادہ اختلاف دیکھے گا .سو تم پر لازم ہے کہ میری اور میرے خلفاءراشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں مضبوط پکڑو اور اپنی ڈاڑھوں اور کچلیوں سے محکم طور پر اس کو قابو میں رکھو اور تم نئی نئی چیزوں سے بچو ،کیوں کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “(ترمذی ج 2 ص 92 )(ابن ماجہ ص 5)(ابو داود ج 2 ص279) (مسند دارمی ص26)(مسند احمد ج 4 ص 27)(مستدرک ج 1 ص 95)
    ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:
    اہل سنت والجماعت یہ فرماتے ہیں کہ جو قول اور فعل جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ثابت نہ ہوں تو اس کا کرنا بدعت ہے کیوں کہ اگر وہ کام اچھا ہوتا تو ضرور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہم سے پہلے اس کام کو کرتے .اس لئے انہوں نے نیکی کے کسی پہلو اور کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہر کام میں گوئے سبقت لے گئے ہیں “
    (تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 156)
    اور خیر القرون کا تعامل بھی حجت ہے
    حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بعد تابعین کرام اور تبع تابعین کرام کی اکثریت کا کسی کام کو بلا نکیر کرنا یا چھوڑنا بھی حجت شرعی ہے اور ہمیں ان کی پیروی ضروری ہے .اس کے ثبوت میں بھی متعدد حدیثین موجود ہیں
    ہم اختصار کے ساتھ دواحادیث پیش کررہے ہیں
    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی 32 ھ)سے روایت ہے :
    حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں پھر ان کے بعد والے اور پھر ان کے بعد والے پھر ایسی قومیں آئیں گی جن کی شہادتیں قسم سے اور قسم شہادت اور گواہی سے سبقت کرے گی“
    (بخاری ج 1 ص 362) (مسلم ج 2 ص 309)
    اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :
    حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ ان کے نقش قدم پر چلنا)پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر ان کے بارے میں جو ان سے ملتے ہیں پھر جھوٹ عام ہوجائے گا کہ آدمی بلا قسم دیئے بھی قسم اٹھائیں گے اور بلا گواہی طلب کئے بھی گواہی دیں گے سو جو شخص جنت کے وسط میں داخل ہونا چاہتا ہے تو وہ اس جماعت کا ساتھ نہ چھوڑے “ (مسند ابو داود طیالسی ص 7 ) (مستدرک ج 1 ص114)قال الحاکم والذھبی علیٰ شرطھما،مثلہ فی المشکوة ج 2 ص 554 )وفی المرقات راوہ نسائی و اسناد صحیح و موارد الظمآن ص 56)

    ان صحیح روایات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون کے بعد جو لوگ پیدا ہوں گے ،ان میں دین کی وہ قدر و عظمت نہ ہوگی جو خیر القرون میں تھی .جھوٹ ان بعد میں آنے والوں میں بکثرت رائج ہوجائے گا .بات بات پر بلا طلب کئے قسم اٹھاتے پھریں گے اور بے تحاشہ گواہی دیں گے .

    اور اہل بدعت کے اس غلط استدلال کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسی روایت میں ”من سن فی الاسلام “کے بجائے یہ الفاظ بھی آئے ہیں ”ایما داع الیٰ ھدیٰ “کہ جس داعی نے ہدایت کی طرف دعوت دی“
    (مسلم ج 2 ص 341))(ابن ماجہ ص 19 )(مجمع الزوائد ج 1 ص 168)

    اسی روایت کے دوسرے طریق پر ہے :
    ”جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مردہ ہوچکی تھی“(ابن ماجہ ص 19)(ترمذی ج 2 ص 92)(مشکو? ج 1 ص 30)
    ایک روایت میں یوں آتا ہے :
    ”جس نے میری سنتوں میں سے کوئی سنت زندہ کی کہ لوگ اس پر عمل پیرا ہوئے “(ابن ماجہ ص 19)
    نیز فرمایا :
    کہ جو شخص کسی اچھے راستے پر چلا “(ابن ماجہ ص 19)
    ایک روایت میں ہے :
    ”جس نے کوئی علم سیکھایا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے گا جتنا عمل کرنے والے کو اس کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی “(ابن ماجہ ص 21)
    ان روایات سے لوگوں کی طرف سے بدعت کے جواز میں پیش کی گئی اس مجمل روایت کی تفصیل اور تشریح ہوجاتی ہے کہ سنت اور طریقہ کا جاری کرنا مراد نہیں بلکہ اس کی طرف دعوت دینا ،اس کی تعلیم دینا ،کسی سنت کو زندہ کرنا ،اور اس پر خود بھی عمل کرنا اور لوگوں کو بھی عمل کی تلقلین کرنا مراد ہے .
    اس سے یہ مطلب سمجھنا اور مراد لینا کہ از خود کوئی طریقہ جاری کرنا یقینا غلط ہے.
    آخری اور اہم بات یہ کہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ جس چیز کا شریعت میں دلالةً و اشارةً ثبوت موجودد ہو ،اس کے اجراءکرنے میں ثواب ہوگا ،اوروہ وہی فعل ہوگا جس کا داعیہ اور محرک خیر القرون میں موجود نہ ہو بلکہ بعد کو پیش آیااور ادلہ اربعہ میں سے کسی دلیل کے تحت وہ داخل ہو۔چناچہ اسی حدیث میں ”حسنتہً“ کی قید موجود ہے اور اہل سنت کے نزدیک کسی امر شرعی میں حُسن یا قبح نہیں پایا جاسکتا جب تک کہ شرعیت سے اس کا ثبوت نہ ہو ۔اور بدعات کی تو شریعت نے جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے ،اس سے بھلا ان کا حسن ہونا کہاں سے اور کیسے ثابت ہوگا ؟

    اسی طرح لوگ بدعتوں کے جواز میں ایک یہ دلیل پیش فرماتے ہیں جس کو مفتی احمد یار نعیمی صاحب نے بھی نقل کیا ہے ۔۔۔۔چناچہ وہ لکھتے ہیں :
    ”وقال علیہ السلام ماراہ المسلمون حسناً فھو عند اللہ حسن“(جاءالحق ص ۱۰۳)
    یعنی جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہے “
    اس روایت کو سامنے رکھ کو وہ جملہ بدعات کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ چونکہ مسلمان ان کو اچھا سمجھتے ہیں ،لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہی ہوں گی ،اور اچھے کا م پر نہ تو گرفت ہوتی ہے اور نہ گناہ ۔
    اس روایت کے متعلق چند ضروری ابحاث ہیں جن کو سمجھنا نہایت ہی اہم ہے ۔
    اول :
    اگر چہ بعض حضرات فقہائے کرام نے اس روایت کو مرفوع بیان کیا ہے لیکن یہ روایت مرفوع نہیں ہے بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے ۔چناچہ جمال الدین الزیلعی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ(المتوفی 167 ھ) لکھتے ہیں :
    ”میں نے اس روایت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہی پایا ہے “(نصب الرا یہ ج 4 ص133)
    اور مشہور محدث علامہ الامام صلاح الدین ابو سعیدی العلائی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 741 ھ) فرماتے ہیں
    ”مین نے اس روایت کو باوجود طویل بحث و تمحیص اور زیادہ کھوج اور سوال کے حدیث کی کسی کتاب میں کسی ضعیف سند کے ساتھ بھی مرفوع نہیں پایا ،بلکہ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو موقوف قول ہے “(بحوالہ فتح الملہم ج 2 ص 409)

    اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابی کا قول خصوصاً حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے بارگاہ نبوت میں معتمد علیہ کا ،اپنے مقام پر ایک وزنی دلیل ہے ۔مگر اصول حدیث کی رو سے مرفوع اور موقوف کا جو فرق ہے وہ بھی نظر انداز کنے کے قابل نہیں ہے ۔جو حیثیت حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کی ہے وہ یقینا کسی صحابی کے قول کی نہیں ہے ،اگر چہ وہ صحیح بھی ہو ۔حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس موقوف قول کو پیش کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :”اس کی سند صحیح ہے “
    دوم:
    اصل بحث یہ ہے کہ ”المسلمون“سے کون سے مسلمان مراد ہیں ؟
    اگر ”الف“اور ”لام“اس میں جنس کے لئے ہو تو لازم آئے گا کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے تہتر فرقے سب کے سب ناجی ہوجائیں کیوں کہ ہر ایک فرقہ ازراہ تدین اپنے معمول کو حسن ہی سمجھتا ہے اور یہ اس حدیث کے خلاف ہے ”ماانا علیہ واصحابی“
    اور اگر ”المسلمون“ میں ”الف “اور ”لام“سے استغراق مراد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جس چیز کو تمام مسلمان اچھا سمجھیں وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہی ہوگی ۔تو اس سے ”اجماع اُمت“مراد ہوگی ۔۔۔اور ”اجماع“ کے حسن ہونے میں کیا شک ہے ؟
    اور اگر ”المسلمون“ میں ”الف “ اور ”لام“ سے عہد خارجی (علماءاصول کا یہ مسلک ہے کہ اصل الف لام میں عہد خارجی ہے ۔تلویح ص 147 اور ص 160وغیرہ )مراد ہو تو اس سے مسلمانوں کا ایک مخصوص طبقہ مراد ہوگا کہ مسلمانوں کا وہ گروہ اور طبقہ جس چیز کو اچھا سمجھے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہوگی ۔۔۔اور مسلمانوں کا وہ گروہ اولین درجہ پر بفحوائے حدیث ”ماانا علیہ واصحابی“صرف حضرات صحابہ کرام رجوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا گروہ ہی ہوسکتا ہے۔۔۔ اور یہی بات صحیح ہے کہ جس چیز کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پسند کریں وہ اچھی ہوگی ۔
    اگر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت اور ان سے مروی دیگر روایات کو سرسری نظر سے دیکھ لیا جائے تو ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا گروہ ہی متعین ہوجاتا ہے ۔
    چناچہ امام ابو داود طیالسی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 204 ھ) نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے :
    ”اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دلوں پر نظر کی تو حضرت محمد صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے علم کے بموجب رسالت کے لئے چنا اور انتخاب فرمایا ۔پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو انتخاب فرمایا اور ان کو اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کا وزیر بنایا ۔سو جس چیز کو وہ مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اچھی ہوگی اور جس چیز کو وہ برا سمجھیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی بری ہوگی “(طیالسی ص 33)
    (کم و بیش یہی الفاظ مسند احمد میں بھی مروی ہیں ۔الزیلعی ج 4 ص 133 والدرایہ ص 306)
    اور امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمتہ اللہ علیہ ( المتوفی 405 ھ)صحیح سند کے ساتھ ( جس کی تصحیح پر امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ ذھبی رحمتہ اللہ علیہ دونوں متفق ہیں) اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں :
    ”جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اچھی ہی ہوگی اور جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں وہ وہ عند اللہ بھی بری ہی ہوگی اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا اور ان کی خلافت کو اچھا سمجھا ،لہٰذا ان کی خلافت عند اللہ بھی اچھی ہی ہوگی “(المستدرک حاکم ج 3 ص 78)
    ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”المسلمون“کے لفظ سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہی کی طرف اشارہ ہے ،بلکہ تصریح فرماتے ہیںکہ ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا پاک گروہ ہی مراد ہے ۔
    یہی نہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ”المسلمون“سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہی مراد لیتے ہیں بلکہ اُمت کو تاکید فرماتے ہیں کہ وہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلیں اور ان کی خلاف ورزی نہ کریں ۔کیوں کہ ان کی اتباع ہی میں فلاح ہے ۔
    حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سنت پر چلنا چاہتا ہے وہ وہ ان بزرگوں کے قدم پر چلے جو فوت ہوچکے ہیں کیوں کہ زندہ کبھی فتنہ سے مامون نہیں ہوسکتا ۔وہ لوگ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو اس اُمت کے نہایت افضل لوگ ہیں اور نہایت بھلے قلوب والے اورر نہایت گہرے علم والے اور نہایت کم تکلف اور کم بناوٹ والے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کے قائم کرنے کے لئے انتخاب کیا تھا ۔ان کی فضیلتوں کو پہچانواور ان کے نقش وقدم پر چلو اور جس قدر ہوسکے اپن کے اخلاق اور سیرت کو مشعل راہ بناﺅ کیوں کہ وہ لوگ ہدایت مستقیمہ پر تھے “(رواہ رزین مشکوة ج 1 ص32)
    اس روایت سے نہایت صراحت اور وضاحت سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ”المسلمون“کا مصداق صرف ”اولٰئک اصحٰب محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم “ہی تھے اور یہی وہ مفہوم ہے جس کو جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے” مااناعلیہ واصحابی “سے تعبیر فرمایا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک طرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی اتباع کی تاکید فرمائی اور اس کے خلاف ابتداع کی مذمت کی ہے :
    ”ہمارے نقش قدم کی پیروی کرو اور اپنی طرف سے بدعتیں مت ایجاد کرو کیوں کہ (دین مکمل ہوچکا ہے اور) تم کفایت کئے گئے ہو“(الااعتصام ج 1 ص 54)
    اور دوسری طرف حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سختی سے ان لوگوں کی تردید کی اور ان کو مسجد سے نکال دیا جنہوں نے مل کر بلند آواز سے ذکرکرنے کو پسند کیا تھا ۔
    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ اُن کا گذر مسجد میں ذاکرین کی ایک جماعت پر ہوا ،جس میں ایک شخص کہتا تھا ۔سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو تو حلقہ نشین لوگ کنکریوں پر سو مرتبہ تکبیر کہتے ۔پھر وہ کہتا سو مرتبہ ”لاالہ الااللہ“پڑھو تو وہ سو بار تہلیل پڑھتے
    ۔پھر وہ کہتا سو مرتبہ” سبحان اللہ “ کہو،تو وہ سنگریزوں پر سو دفعہ تسبیح پڑھتے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ان سنگریزوں اور کنکریوں پر کیا پڑھتے تھے؟ وہ کہنے لگے ہم تکبیر ،تہلیل و تسبیح پڑھتے رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا :
    ”فقال فعدو ا من سیئا تکم فانا ضا من ان لا یضیع من حسنا تکم شئی ویحکم یا امتہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وسلم مااسرع ھلکتم ھٰولاءصحابة بینکم متوافرون وھٰذا ثیا بہ لم تبل واٰ نیتہ لم تکسر (الیٰ ان قال) او مفتحی باب ضلالة“(مسند دارمی ص 38 قلت بسند صحیح )
    یعنی تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو ،میں اس کا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا ۔تعجب ہے تم پر اے اُمت محمدصلیٰ اللہ علیہ وسلم ،کیا ہی جلدی تم ہلاکت میں پڑ گئے ہو ۔ابھی تک حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تم میں بکثرت موجود ہیں ،اور ابھی تک جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پرانے نہیں ہوئے اور ابھی تک آپ کے برتن نہیں ٹوٹے (آگے فرمایا ) اندریں حالات تم بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھولتے ہو ۔
    غورفرمائیں کہ اُن لوگوں کا یہ فعل جو بظاہر اچھا تھا بلکہ اُن مسلمانوں کو بھی اچھا لگ رہا تھا۔۔۔لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اُن کے اس فعل کو ”ماراہ المسلمون حسناً“ کے تحت حسن اور اچھا نہ سمجھا کیوں کہ ان لوگوں کا یہ طریقہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے طریقہ کے خلاف تھا ۔

    محترم قارئین کرام
    حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی اہل بدعت کے غلط استدلال کی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے

    اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین​
    ماخوذ : راہ سنت
     
    زیغم نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں