ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے، تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ ناممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آ جا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جا سکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائے بازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسے آئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔ اشفاق احمد کی کتاب "زاویہ" سے اقتباس
جواب: دوستی السلام علیکم بہت خوبصورت اقتباس ہے ، مرحوم اشفاق احمد صاحب کی ہر ہر تحریر اپنے اندر علم کا سمندر لیے ہوتی ہے ، اور خصوصا ’’زاویہ کے سلسلے مین لکھے گئے تمام مضامین بہت عمدہ تھے ۔ ایک بار پھر بہت شکریہ ۔
جواب: دوستی شکریہ اچھی شئیرنگ ہے اشفاق صاحب کو سمجھنے کے لئے انسان کے اندر بابا ضرور ہونا چاہئے ۔ بچپن میں ان کے لکھے ڈرامے سمجھ سے باہر ہوا کرتے تھے ۔ ایک ڈرامہ میں فردوس جمال اکیلا ہی کردار نبھاتا رہا ۔ جس کے لئے اس کا کہنا تھا اشفاق احمد نے میرے اندر کا بابا پہچان کر ہی اسے یہ کردار دیا تھا ۔